ماں کا آکاش

میرا بھائی!

جب لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ میرے کتنے بہن بھائی ہیں، میرے لئے اس کا جواب دینا بہت مشکل ہوجاتا ہے اور میرے ذہن میں سب سے پہلے جس بھائی کا نام آتا ہے، وہ ہے ”آکاش!“ آکاش میرا بھائی ہی نہیں، میرا بہت عزیز دوست بھی تھا۔
وہ میرے بچپن کا رازدان، وہ واحد انسان تھا جو مجھے بہت اچھی طریقے سے سمجھتا تھا۔ ایک وہی تھا جو مجھے خوف، ڈر، دردا ور تکلیف کے موقع پر بھی ہنسانے میں کامیاب ہوجاتا تھا۔ چاہے کتنا ہی مشکل وقت کیوں نہ ہو، وہ اس وقت میں سے بھی مثبت پہلو نکال کر دکھانے کا ہنر جانتا تھا۔ اسے میرے ساتھ زندگی میں بہت زیادہ چلنا تھا لیکن تقدیر کے آگے کس کی چل سکتی ہے۔
15 جولائی 2014ء کو میں نے آکاش کو کھودیا۔ اور جیسے ہی مجھے اس کی شہادت کی خبر ملی، میرے ذہن میں اس کے الفاظ ”سٹرانگ بن! سٹرانگ!“ گونجے۔ آکاش ہمیشہ مجھے ایک مضبوط عورت کے طور پر بڑا ہوتے ہوئے دیکھنا چاہتا تھا اور اس دن مجھے علم ہوا کہ وہ ایسا کیوں چاہتا تھا۔
میں نے اس دن صرف اپنا بھائی ہی نہیں، اپنا ایک بہت قریبی دوست کھویا تھا۔ اپنا رہنماکھویا تھا۔واحد وہی تھا جو میرا ہر حال میں ساتھ دیتا تھا،چاہے میں غلط ہی کیوں نہ ہوں۔
شاید یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ میں اپنے امی ابو سے زیادہ آکاش کی لاڈلی تھی۔ اس نے اپنے پیار سے، اپنی توجہ سے مجھے بگاڑنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔شاید اس کی محبت، اُس محبت سے زیادہ تھی جو میں اُس سے کرتی تھی۔
مجھے کبھی بھی علم نہیں تھا کہ ہمارا اتنا خوب صورت تعلق اتنی جلدی اختتام پذیر ہوجائے گا۔ اور مجھے اپنی باقی کی زندگی اُس کی خوب صورت یادوں کے سہارے جینا ہوگی۔
اس نے جو کچھ بھی چاہا،و ہ پایا۔ اس نے چاہا تھا کہ وہ ہمارے لئے فخر کا باعث بنے اور وہ اس میں کامیاب بھی ہوگیا۔ اس نے شہادت کی خواہش کی تھی جو پوری ہوگئی۔
آکاش بلاشبہ شہزادہ تھا۔ جنّت کا شہزادہ! وہ اس دنیا کے لیے بنا ہی نہیں تھا۔اس لیے وہ جس دنیا کا متمنی تھا، اسی دنیا کا مکین ہوگیا۔
لیکن کاشی! تم نے جانے میں بہت جلدی کردی میرے بھائی!
لویل ربانی
بہن، کیپٹن آکاش آفتاب ربانی شہید
٭……٭……٭

آکاش: ایک قابلِ فخر آفیسر، ایک عالی وقار کمانڈر

میجر جنرل (ر) عابد رفیق سپیشل سروسز گروپ (SSG) کے کمانڈنٹ رہے ہیں۔ آپریشن ضربِ عضب میں SSGکی جو یونٹس حصہ لے رہی تھیں، ان سب کی کمانڈ آپ ہی کررہے تھے۔ اس لیے کیپٹن آکاش آفتاب ربانی شہید کے فرائض اور ان کی کامیابیوں کا آپ کو بخوبی علم ہے۔
کیپٹن آکاش آفتاب ربانی شہید کی شخصیت اور ان کی شہادت پر آپ نے ان الفاظ میں اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔


جس وقت کیپٹن آکاش ربانی نے47 فیلڈ رجمنٹ آرٹلری میں کمیشن حاصل کیا اور بعدازاں ایس ایس جی کی 4کمانڈو بٹالین میں شمولیت اختیار کی، اس وقت پاکستان آرمی اپنی سب سے بڑی (غیرروایتی) جنگ میں مصروف تھی۔ میری اس نوجوان افسر سے پہلی ملاقات اس کی یونٹ کے آپریشن ضربِ عضب میں شمولیت سے پہلے تربیت کے دوران ہوئی۔بات چیت کے دوران مجھے اس کے اعتماد اور اپنے مشن کے ساتھ کمٹمنٹ کا اندازہ ہوا اور میں نے محسوس کیا کہ یہ ایک بہت ہمت والا، نرم دل اور زندگی میں کچھ کر گزرنے کا جذبہ رکھنے والا ایک بہادر افسر ہے۔ آکاش ایک بہت شریف النفس آفیسر تھا اور میرا پہلا تاثر جو اس کے بارے میں قائم ہوا وہ یہ تھا کہ وہ ایک اچھے خاندان سے تعلق رکھتا ہے، یقینا اس کے والدین نے اس کی بہت احتیاط اور اچھے طور طریقوں پر تربیت کی تھی۔
میری بالغ نظری نے اس کو دیکھتے ہی اندازہ لگا لیا تھا کہ یہ نوجوان افسر غیرمعمولی صلاحیتوں کا مالک اور پاک آرمی کا ایک قیمتی اثاثہ ہے۔ مجھے اس پر اور اس کے خاندان پر بے حد فخر ہے کہ اس نے آپریشن ضربِ عضب کے پہلے ہی معرکے میں داستانِ شجاعت رقم کی۔ وہ ناصرف مختصر وقت میں 30سندھ رجمنٹ کے نوجوانوں کی امداد کو پہنچا بلکہ دہشت گردوں کو بھاگنے پر مجبور کردیا اور مستقبل کے آپریشنز میں کامیابیوں اور آنے والے مراحل کے تسلسل کی راہ ہموار کی۔
کیپٹن آکاش ربانی نے میران شاہ میں اپنی کمانڈو بٹالین کے ساتھ 28 مئی تا 15 جولائی 2014ء تک خدمات سرانجام دیں۔ آپریشن ضربِ عضب کے دوران آفیسر نے اپنی بے مثال بہادری، غیرمتزلزل عزم اور ثابت قدم قیادت کا مظاہرہ کیا۔ انہوں نے اپنی اعلیٰ ترین پیشہ ورانہ فہم و فراست کو بروئے کار لاتے ہوئے تمام آپریشنز میں اپنی لڑاکا ٹیم کی قابلِ فخر رہنمائی کی اور متعدد آپریشنز کے دوران اپنی قابلِ قدر قائدانہ صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ انکی غیرمعمولی صلاحیتوں نے کئی آپریشنز کی کامیابی میں اہم کردار ادا کیا۔ ہمیشہ ہر اول دستوں میں رہتے ہوئے اور شدید جنگی صورتحال میں بھی اپنے سپاہیوں کے شانہ بشانہ لڑے۔
مؤرخہ15 جولائی 2014ء کو علی خیل (نزد میران شاہ جانبِ مغرب) میں کیپٹن آکاش کو شہداء کی لاشیں بازیاب کرانے میں مدد کرنے کا آرڈر ملا۔ کیپٹن آکاش شدید فائر کے دوران اپنی لڑاکا ٹیم کو صفِ اول میں رکھتے ہوئے آگے بڑھے۔ دورانِ آپریشن اپنی ٹیم کی تعیناتی کی ترتیبِ نوکرتے ہوئے دریائے ٹوچی کے کنارے کیپٹن آکاش نے آتشیں اسلحہ کی اندھا دھند فائرنگ سے جامِ شہادت نوش کیا۔ اپنے اس جرأت مندانہ عمل اور اپنی جان قربان کرکے نہ صرف اپنے ساتھیوں کی زندگیاں بچائیں بلکہ آپریشن کو بھی کامیابی سے ہمکنار کیا۔
کیپٹن آکاش نے اعلیٰ فوجی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے بلند حوصلے، بے لوث قیادت، مستقل شجاعت اور باہمت رہنمائی کا مظاہرہ کیا جس کو کبھی بھی بھلایا نہیں جاسکتا۔ وہ ایک باوقار، شرافت کا پیکر اور ایسا کردار تھا جو قابلِ تعریف ماتحت ہونے کے ساتھ ساتھ ہر دلعزیز ساتھی اور عالی وقار کمانڈر بھی تھا۔ اللہ رب العزت اسے جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ (آمین)
آیت ربانی:-
ولا تقولوا لمن یقتل فی سبیل اللہ اموات بل احیاء و لکن لاتشعرون۔
ترجمہ: ”اور وہ جو اللہ کی راہ میں شہید ہو جائیں انہیں مردہ مت کہو، وہ زندہ ہیں مگر تمہیں اس کا شعور نہیں۔“
میجر جنرل (ر) عابد رفیق
GOC SSG
٭……٭……٭

دہشت گردی کے خلاف جنگ کا پس منظر

لیفٹیننٹ جنرل (ر) خالد ربانی ضربِ عضب اور counter terrorism کے روحِ رواں، پالیسی ساز اور سپہ سالاروں میں سے ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کامیابی میں آپ کا خاص کردار ہے۔
کیپٹن آکاش آفتاب ربانی شہید کی شہادت پر لیفٹیننٹ جنرل (ر) خالد ربانی نے اپنے خیالات کا اظہار ان الفاظ میں کیا ہے۔

پاکستان جس جغرافیائی خطے میں واقع ہے، اس میں ہمارے لیے بہت سے مواقع ہونے کے ساتھ ساتھ کئی چیلنجز بھی موجود ہیں۔ انہی چیلنجز میں آج سے دو دہائی پہلے 9/11کے واقعہ نے ایک نئی سٹرٹیجک جہت میں اضافہ کردیا اور یوں ہم ایک دفعہ پھر ایک ایسی جنگ میں شامل ہوگئے جو ہم پر ہمارے اپنے ہی لوگوں نے مسلط کی۔ یہ وہ لوگ تھے جن کا تعلق بین الاقوامی اور ہمارے ہمسایہ ممالک کی انٹیلی جنس ایجنسیز سے تھا اور یوں بدقسمتی سے پاکستان میں دہشت گردی کے ایک نئے باب کا آغاز ہوا جو تقریباً ڈیڑھ دہائی پر محیط رہا اور جسے عرفِ عام میں ”وار آن ٹیرر“ کہا جاتا ہے۔ دشمن کے خلاف یہی ہمارا اعلانِ جنگ تھا جس کا مقصد یہ تھا کہ ہم ان دہشت گردوں کو اپنی سرزمین میں رہنے اور بسنے نہیں دیں گے اور نہ ہی ان کے ناپاک عزائم کے لیے اپنی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت دیں گے۔ اسی دوران ملک میں میڈیا اور چند ناعاقبت اندیش عناصر کی جانب سے عوام میں ایک غلط فہمی کو فروغ دیا گیا اور وہ یہ کہ یہ جنگ ہماری نہیں تھی اور اس میں ہم کسی اور کے کہنے پر کود پڑے اور اپنا بھاری نقصان کروا بیٹھے۔ اگر آپ کی سرزمین کسی اور ہمسائے کے خلاف استعمال ہورہی ہو تو یہ الزام تو آپ پر ہی لگے گا کہ آپ کسی دوسرے ملک میں عدم استحکام پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ فاٹا کے علاقے میں یہی ہوا کہ جو لوگ افغانستان کی جنگ میں جہاد کے لیے شامل ہونے کے لیے آئے اور جو 9/11کے بعد یہاں آکر آباد ہوئے، اُن میں ہر رنگ اور نسل کے مسلمان شامل تھے۔ یہ لوگ ہماری سرزمین کو استعمال کرتے ہوئے افغانستان میں دراندازی کرنا چاہتے تھے۔ اس سے ہمیں کوئی غرض نہیں کہ افغانستان کی یہ جنگ جائز تھی کہ نہیں لیکن جب ہمارا علاقہ ان کی پناہ گاہ بن جائے گا تو دنیا ہم پر ہی انگلیاں اٹھائے گی۔ لہٰذا بین الاقوامی افواج جوکہ افغانستان میں لڑ رہی تھیں، نے ہم سے مطالبہ کیا کہ یا تو اپنے علاقے کو خود کنٹرول کریں اور کسی کو اجازت نہ دیں کہ وہ دوسروں کی سرزمین پر کوئی بھی ایکشن کریں۔ بصورتِ دیگر وہ یہ کام خود کریں گے۔ جب بات اس حد تک پہنچی تو حکومتِ پاکستان کے نمائندوں نے قبائلی عمائدین اور جو لوگ غیرملکی جنگجوؤں کی مدد کررہے تھے، کے ساتھ مذاکرات شروع کیے اور ان کو سمجھانے کی کوشش کی۔ یہ بات چیت بیسیوں دفعہ کی گئی جس کے نتیجے میں مختلف مواقع پر ان سے معاہدے کیے گئے۔ ان میں پرامن طور پر رہنا اور ہمارے علاقے کو ہمسایہ ملک میں مختلف سرگرمیوں کے لیے استعمال سے اجتناب کے لیے کہا گیا۔ یہ تمام معاہدے یکے بعد دیگرے ختم ہوتے رہے اور ان پر کوئی عمل درآمد نہیں ہوا۔ بالآخر وہ وقت آیا کہ بادل ناخواستہ یہ فیصلہ کرنا پڑا کہ فاٹا کے ان علاقوں میں جوکہ دہشت گردوں کی آماجگاہ بن چکے ہیں، میں آپریشن کرنا پڑے گا۔
اس چیز کا خیال رہے کہ کسی بھی فوج کے لیے اپنے ہی علاقے میں آپریشن کرنا سخت ترین اور نہایت ہی ناپسندیدہ کام ہے۔ دنیا میں کوئی ایسی فوج نہیں اور نہ ہی ہماری اپنی فوج اس کے لیے ذہنی طور پر تیار تھی اور نہ ہی وہ یہ جنگ لڑنا چاہتی تھی۔ شروع کے چند سال بہت ضائع ہوئے اور ان میں فوج کو بہت نقصان بھی اٹھانا پڑا۔ اس کی وجہ یہی تھی کہ وہ یہ جنگ لڑنے کے لیے دل سے آمادہ نہیں تھے۔ یہاں تک کہ جب یہ احساس ہوگیا کہ اس مسئلے کا اور کوئی حل نہیں سوائے اس کے کہ دہشت گردوں (جن کا کوئی مسلک نہیں ہے) کے ساتھ جنگ کی جائے اور انہیں شکست دے کر اپنے علاقے واگزار کرائے جائیں اور حکومت کی رٹ قائم کی جائے۔ اس مقصد کے لیے آپریشن ”المیزان“ شروع کیا گیا۔ اس وقت کے آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کی قیادت میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ ایک ایک کرکے فاٹا کی مختلف ایجنسیوں کو دہشت گردوں سے پاک کرنے کا آغاز کیا جائے۔ ایک وقت میں تمام علاقوں میں آپریشن شروع نہ کرنے کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ فوج کی ایک بڑی تعداد مشرقی سرحد پر تعینات کرنی پڑتی ہے اور وہاں سے ہمیشہ یہی خطرہ رہتا ہے کہ ہمارا دشمن کسی بھی وقت کوئی بھی مصیبت کھڑی کرسکتا ہے، لہٰذا اس چیز کو مدِنظر رکھتے ہوئے جو فوج میسر تھی اس کے لیے یہ پلان بنایا گیا کہ یکے بعد دیگرے فاٹا کی مختلف ایجنسیز اور ملحقہ علاقوں میں آپریشن کرکے دہشت گردوں کا تسلط ختم کیا جائے۔ یہ آپریشن سوات سے شروع ہوتا ہے اور اسی طریقے سے اپر دیر، لوئر دیر کے علاوہ فاٹا کی مختلف ایجنسیز باجوڑ، مہمند، خیبر، اورکزئی، ساؤتھ وزیرستان اور پھر بالآخر نارتھ وزیر ستان پر منتج ہوتا ہے۔ اس جنگ میں نارتھ وزیرستان کے آپریشن کو ”ضربِ عضب“ کا نام دیا گیا۔ یہ آخر بڑی تاخیر کے بعد 2014ء؁ کے جون میں شروع کیا گیا۔ اس کی منصوبہ بندی بہت پہلے کی گئی تھی لیکن حالات سازگار نہ ہونے کی صورت یہ تاخیر کا شکار رہا۔ اس کی دو بڑی وجوہات تھیں۔ نمبر ایک یہ کہ قوم اس آپریشن کے لیے تیار نہیں تھی۔ دوسرے ایک بڑی غلط فہمی جو کہ چند سیاست دانوں اور میڈیا نے لوگوں کے دلوں میں ڈالی اور جوکہ طالبان کا مؤقف بھی تھا اور وہ یہ کہ جنگ ہم امریکہ کے کہنے پر کررہے ہیں۔ ہم یہ کبھی بھی نہیں چاہتے تھے کہ پاکستانی فوج اپنی قوم کو یہ تاثر دے کہ اس لیے اس آپریشن کو مؤخر کیا گیا۔ یہاں تک کہ قوم نے خود دیکھا کہ نارتھ وزیرستان نہ صرف قومی بلکہ بین الاقوامی دہشت گردوں کی آماجگاہ بن چکا ہے اور ہر وہ عنصر جو کسی بھی طرح دہشت گردی سے منسلک ہو وہاں پناہ لے چکا ہے۔ وہ روز بہ روز اپنی سرگرمیوں میں تیزی لا رہے تھے۔ ملک میں جو بھی دہشت گردی کے واقعات ہورہے تھے ان کا تانا بانا وہیں سے جڑتا تھا۔

Loading

Read Previous

بلتستانی لوک کہانی | ماس جنالی

Read Next

چنبیلی کے پھول (قسط نمبر ۱)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!