ماں کا آکاش

سپیشل سروسز گروپ

اۤکاش جب سرگودھا سے SSG کا کورس کرنے کے لیے چراٹ جا رہا تھا تو وہ اپنے NCB سراج کو بھی ساتھ لے گیا۔ چراٹ میں جہاں اۤفیسرز کو رگڑے دیے جاتے تھے، وہیں NCB بے چارے بھی رگڑے جاتے۔ اسی طرح ایک مرتبہ کچھ سراج کے ساتھ ہوا۔ وہ اس معمول کا عادی نہیں تھا۔ وہاں کسی بات پراس کی کسی اۤفیسر سے تلخ کلامی ہوگئی جس پر اسے فی الفور چراٹ سے نکل جانے کا حکم صادر ہوا۔ سراج وہاں سے چلا گیا۔ اۤکاش کو نیا NCB دیا گیا تو وہ اۤکاش کی طبیعت سے میل نہیں کھاتا تھا لیکن اۤکاش نے اس کے ساتھ گزارا کر ہی لیا۔ جب وہ اپنا کمانڈو کورس مکمل کر کے واپس اۤیا تو سراج نے اس سے سٹاف کے ساتھ اپنے رویہ کی معافی مانگی۔ اۤکاش نے اسے معاف کر کے واپس رکھ لیا۔
اۤج بھی اس کی باتیں یاد کروں تو اب سمجھ اۤتا ہے کہ کچھ بھی اچانک نہیں تھا۔ قدرت سب پہلے سے ہی پلان کر رہی تھی۔ ایک مرتبہ جب اۤکاش کمانڈو نہیں ہوا تھا، ہم CMHمیں تھے تو اۤکاش نے مجھے ایک اۤفیسر دکھایا۔ اس کئیونیفارم اۤرمی کے یونیفارم سے مختلف اور کچھ زیادہ خوبصورت تھا۔ اۤکاش نے مجھے بتایا تھا کہ امی یہ SSG کئیونیفارم ہے۔ یہ کہتے ہوئے میں نے اس کے لہجے میں ایک حسرت دیکھی تھی، محسوس بعد میں کی تھی۔
جب وہ سکریننگ کے لیے جا رہا تھا تو اس کا جوش و جذبہ دیکھنے کے قابل تھا۔ وہاں جا کر چار پانچ دن اس کا فون بند رہا تھا۔ یہاں سارا گھر اس کی کامیابی کے لیے دعا کر رہا تھا۔ پانچویں دن اس کا فون اۤگیا۔ وہ کمانڈو کورس کے لیے منتخب کیا جا چکا تھا۔ وہ خوشی سے ساری تفصیلات بتا رہا تھا۔ کتنے لڑکوں نے اپلائے کیا، کتنے کلئیر کرنے میں کامیاب رہے، کیا کیا مشکلات اس نے دیکھیں اور کیا کیا اس کی سوچ سے زیادہ سخت تھا۔
وہ ہنستے ہوئے یہ بھی بتا رہا تھا کہ مونچھوں کی وجہ سے اسے بہت ”رگڑا” دیا گیا کہ خود کو بڑا بدمعاش سمجھتے ہو جو مونچھوں میں ہی اۤگئے یہاں۔ پھر اس کی باتوں میں وہی عزم چھلکنے لگا۔ مستقبل کا لاأحہ عمل۔ اۤئندہکی تیاریاں۔
کمانڈو کورس اےک اےڈونچر اور اےس اےس جی مےں شمولےت اےک اعزاز ہے۔کمانڈو کورس کو لفظوں مےں بےان نہےں کےا جاسکتا کےوںکہ ےہ اےک مکمل طور پر پرےکٹےکل کورس ہے۔پاک فوج کا ہر شےر دل جوان یہ کورس کرنے اور اےس اےس جی کا حصہ بننے کی اۤرزو رکھتا ہے۔ اےس اےس جی کورس پورا کرنے کے لیے بہت بڑے کلےجے کی ضرورت ہوتی ہے۔اۤکاش نے کسی کو بتائے بغےر ےہ سب کچھ کےا۔کورس مےٹ اور پلٹون میٹز کو تب پتہ چلا جب اۤکاش کا کمانڈو کورس OACC-62کی لسٹ مےں نام اۤےا ۔ ےہ لسٹ GHQراولپنڈی کی MS برانچ نکالتی ہے۔ اۤفیسر اےڈوانس کورس OACC مےں سلےکٹ ہونے سے پہلے چراٹ مےں تےن دن کی سکرےننگ کی جاتی ہے۔ جس کسی نے unwillکرنا ہو وہ کورس سٹارٹ ہونے سے پہلے ہو جاتاہے ۔ جیسا کہ یہ کورس رضا کا رانہ ہے، اس کو کرنے یا ناکرنے کا اختیار بھی ہر کسی کی اپنی مرضی سے ہوتا ہے۔ کمانڈو کورس نومہےنے مےں مکمل ہوتا ہے اوراےک کمانڈو ہی کورس کی تکلےف اور مشکلات کا اندازہ لگا سکتا ہے۔
تےن دن کی سکرےننگ مےں بنےادی ٹےسٹ جس مےں فرےکل ٹےسٹ اورساأےکلوجےکل ٹےسٹ شامل تھے، ان سب کے لیے اۤکاش جسمانی اور ذہنی طور پر تےار تھا۔انہوں نے سکریننگ کے لیے پشاور کے قرےب جلوزء ی کےمپ رپورٹ کی جو چراٹ سے تقرےباًدس کلو مےٹر کے فاصلے پر ہے۔ Special Operation Schoolچراٹ کے بلند وبالا پہاڑوں پر موجود ہے، جو کمانڈوز کی تربیت گاہ ہے اور جہاں سکرےننگ کے تےن دن اور کمانڈو کورس کے پہلے دو مہےنے گزارے جاتے ہےں۔ اۤکاش نے اپنے دوسرے ساتھےوں کے ساتھ چراٹ کا ےہ سفر کسی گاڑی ےا سواری پر نہےں کےا بلکہ پےدل چلتے ہوئے پہاڑوں کے پر خطر راستوں اور گہری کھاأےوں سے رات کی تارےکی مےں کےا ۔TO (ٹرےننگ اۤفےسر) سکرےننگ کے اس پہلے batch کو اپنے ساتھ لے کر چَھری پہنچے۔پہلے تو انہوں نے سب کی وہاں پر سےنے کے بل لٹا کے ڈنڈوں سے خاطر تواضع کی اور ہر کسی سے کہا کہ اپنے نام اور ےونٹ کے ساتھ introduction کرواأو ۔ ”کیپٹن اۤکاش اۤفتاب ربانی47فیلڈ اۤرٹلری ”اور ساتھ ہی ڈنڈوں کی پٹاخ پٹاخ کی چیرتی ہوئی اۤواز آئی۔ اس کے ساتھ اور بھی گلے سے نکلی ہوئی بہت اۤوازیں تھیں ۔ اس رات اۤکاش کو ستاأیس ڈنڈے لگے جو اس نے گنے تھے اور صبح اٹھ کر بتائے۔ پھر جب رات کی شدید سردی میں تقریبا11 بجے چرا ٹ کے گیٹ پر پہنچے تو اۤکاش پسےنے سے شرابور تھا۔ رات کے خوفناک اندھیرے میں جنگلی جانوروں کی اۤوازیں اۤرہی تھیں ۔وہیں” نعرہ تکبیر اللہ اکبر” کی اۤواز گو نجنے لگی اور اس کے ساتھ TO کی گرج دار اۤواز نے ماحول میں ارتعاش پیدا کیا:
”یہ چراٹ ہے جہاں مردوں کو کمانڈو بنایا جاتاہے اور صرف مرد ہی کمانڈو کورس کرسکتے ہیں۔ اس کورس میں مےں اۤپ کا ٹریننگ اۤفیسر ہوں۔ یہاں کا ڈسپلن اور ہے۔ یہاں کوئی پیدل چلتا ہوا نظر نہ اۤئے اور دوڑتے ہوئے ”جانباز، جانباز، من جانبازم” کا نعرہ کسی کو سونے نہ دے ۔ خراب موسم اور اندھےری رات کما نڈو کے بہترین ساتھی ہیں۔ اگر بستر والی نیند چا ہیے تو ابھی اور اسی وقت چلے جا ؤ ورنہ اۤسمان کو چادر، زمین کو بستراور پتھروں کو تکیہ بنانا پڑے گا۔ کمانڈو بننا بہت مشکل ہے۔ اس کے بعد کما نڈو رہنا اس سے بھی مشکل اور سخت ہے۔” TO کے اس مختصر سے خطاب نے جہاں کئی جوانوں کے پسینے چھڑوا دیے، وہیں اۤکاش جیسے نوجوانوں کے حوصلے مزید بلند بھی کردیے تھے۔
اگلی صبح PT(فزیکل ٹیسٹ ) ہوا ۔ وہ تقریباً ساری رات جاگنے کے بعد سب کا فیل ہوا ۔ کمانڈو کورس کے لیے بس willکی ضرورت ہو تی ہے ۔ ٹیسٹ پاس ہو نا ضروری نہیں ہے ۔ اس لیے اۤکاش اپنے فریکل ٹیسٹ کے رزلٹ سے مطمئین تو نہ تھا لیکن وہ اگلے ٹا سک کے لیے اپنے اۤپ کو تیار رکھتا ۔ کبھی بھی خود کو کمزور نہیں ہونے دیتا ۔
PTکے بعد ان کے کچھ انٹیلی جنس ٹیسٹ ہوئے۔ اۤکاش چونکہ اس معاملے میں بہت تیز تھا لہٰذا اس مرحلے پر وہ نمایاں رہا۔
ایک اور ٹیسٹ کا احوال اۤکاش نے مجھے بتایا جس میں انہیں قیدی کی انٹروگیشن کرنی ہوتی ہے۔ جب یہ جوان اندر جارہے ہوتے ہیں تو انہیں ایک فرضی کہانی سنائی جاتی ہے اور قیدی کو بغیر مارے تفتیش کرنی ہوتی ہے۔ انہیں یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ اندر موجود قیدی کا دماغی توازن ٹھیک نہیں اس لیے سمجھداری سے حالات کا مقابلہ کرنا ہے۔ اندر موجود قیدی بھی دراصل کمانڈو ہی ہوتا ہے جو تفتیش کے لیے اندر اۤنے والے جوانوں کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیتا ہے۔ اۤکاش بھی جب اس کی تفتیش کرکے نکلا تو اس کے بھی چہرے کے خدوخال بگڑ چکے تھے۔
وہاں شام ڈھلتے ہی رات ایک عجیب سا خوف لے کر اۤتی ہے۔ اتنی گھپ اندھیری اور شدید سرد رات اۤکاش نے پہلے کبھی نہیںگزاری تھی۔ یہ کسی کو پتہ نہیں تھا کہ اۤگے کیا ہونے والا ہے۔ تمام جوانوں کو بڑے بڑے پتھر کندھوں پر لدوا کر ننگے پاأوں شیر اللہ بیگ رینج کی طرف ہا نکتے ہوئے لے جا یا گیا جو چراٹ کی داأیں جا نب والی پہاڑی کی چوٹی ہے۔ وہاں پہنچ کر ان کے جسم سے کپڑے اترواأے گئے، اۤنکھوں پر کالی پٹی باندھی گئی اور ہاتھوں کو پیچھے سے ہتھکڑی لگادی گئی۔ اسی طرح اۤکاش کو پتھر یلی اور نو کیلی بجری پر ننگے گھٹنوں کے بل کھڑا کیا گیا ۔ ایک طرف تیز و تند سرد ہوا سینے کو چیر رہی تھی تو دوسری طرف گھٹنے نوکیلی بجری کوخون کا جا م پلا رہے تھے۔ اۤکاش کے لیے یہ سب صبر اۤزما اور کٹھن مر حلہ تھا ۔ ہر طرف خا مو شی کا سنا ٹا چھا یا ہوا تھا کہ اسی دوران زور زور سے اۤواز اۤنے لگی کہ کیپٹن اۤکاش بے ہو ش ہو گئے ہیں اور unwillکر دیا ہے ۔ دوسری طرف اۤکاش کی سر گو شی سنائی دی:

”میں ادھر ہی ہوں بھائیو! وہاں صرف شور و غل مچء یا جا رہا ہے۔ ” اسی رات گیارہ نمبر چھتر متعارف کروء یا گیا اور اس کے ساتھ ہی شٹاک شٹاک کی اۤوازیں اۤنے لگیں ۔ یہ گیارہ نمبر کیا ہے اور اس کا استعمال کیا ہے ؟ جہاں لگتا وہاں جسم سے سر دی تو اتار دیتا لیکن ساتھ ہی اپنا نشان بھی چھوڑ جا تا تھا ۔
دوسری صبح کا اۤغاز بھی کلامِ پاک اور نعتِ رسولؐسے ہوا جو چر اٹ کا دستور ہے ۔ مسجد کے بڑے بڑے سپیکروں پر پہاڑوں سے ٹکرا تی ہوئی اۤواز چراٹ میں گو نجتی رہتی ہے ۔ نعت کے بعدحوصلہ بڑھانے والے گانے لگائے جا تے ہیں ۔ یہ ہر روز صبح صادق سے لے کر PTختم ہونے تک لگے رہتے ہیں جس سے ہر کمانڈو بڑے انہماک سے اپنی ٹریننگ میں محو رہتا ہے۔ فزیکل ٹریننگ کے بعد انہیں ایک کمپاؤنڈ میں لے جا یا گیا جہاں انہیں ناشتے میں اۤنسو گیس پیش کی گئی اور با ہر سے کمپا ؤنڈ کے دروازے کو بند کر دیا گیا۔ اس کی بو بہت چبھنے والی ہوتی ہے۔ اس درگت کے بعد جب تمام جوان کمرے سے باہر نکلے تو اۤکاش کی اۤنکھیں بہت سرخ تھیں۔ شدید کھانسی اور چھینکوں کی وجہ سے اس کی ناک سے اتنا پانی بہہ رہا تھا کہ اس کی مونچھیں بھر گئی تھیں۔ اۤکاش نے اپنے سر کو زمین کی طرف جھکئیا ہوا تھا۔ اس وقت ناک اور منہ کا پانی ساتھ مل کر لمبی لمبی دھا ریں بنا کر زمین پر گررہا تھا اور سینے مےں جلن کی وجہ سے وہ زور زور سے کراہ رہا تھا ۔
دوپہر کو انہیں survivalرینج کا وزٹ کروء یا گےا۔ وہاں پر مختلف اۤبسٹیکلز انہیں دکھاأے گئے اور ان سے بچنے کی تکنیک بھی بتلائی گئی۔ وہ سب اۤبسٹیکلز دشمن کو ٹریپ کرنے کیلء ے استعمال ہو تے ہیں ۔ اس وقت اۤکاش کا پاأوں ایک رسی میں پھنس گیا جو اۤکاش کے پاأوں میں خود ہی بندھ گئی اور وہ درخت کے ساتھ الٹا لٹک گیا ۔ جو اس میں ٹریپ ہوجا تا اس کو اور بھی سزا ملتی جس کی وجہ سے اۤکاش کو کیچڑ والے گندے پانی میں ڈبکی دی گئی جس سے اۤکاش کی شکل پہچانی نہیں جا رہی تھی۔ شام کو اۤتے ہی انہیں چھترول tunnelسے گزارا گیا۔ جس میں سے عجیب و غریب اۤوازیں اۤرہی ہو تی ہیں ۔ اۤنکھوں پر پٹی بندھی ہو تی ہے اور ہر کسی کو اس سر نگ کو پار کرنا ضروری ہوتا ہے ۔ یہ سکریننگ کا ایک اہم حصہ ہو تا ہے ۔ اس میں جسم سے کپڑے اتروا کرسرنگ میں سے لا یا جا تا ہے۔ سر نگ میں مختلف مقامات پر ننگے جسم کو ڈنڈوں کے حوالے کرنا پڑتا ہے ۔ اس کے بعد رات کی تا ریکی میں انہیں ایک ایک کرکے کمرے میں بلء یا گیا۔ وہاں کمرے سے رونے اور چیخوں کی اۤوازیں سن کر ویسے ہی دل ڈوبا جا تا ہے ۔ اس دوران ایک سٹاف ممبر نے اۤکاش کے کان میں سر گو شی کی کہ سب unwillہو گئے ہیں۔ بس اۤپ اکیلے رہ گئے ہیں جس پر اۤکاش نے کہا کہ میں unwillنہیں کرتا۔
اس کے بعد سٹا ف شور مچا تے ہوئے جلاد کی طرح اۤکاش کواےک کمرے میں اٹھا کر لے گئے۔ با ہر بس اۤکاش کی چیخوں اور دھا ڑوں کی اۤوازیں سنی جا سکتی تھیں۔ گیارہ نمبر چھتر اور ڈنڈوں سے اتنا ما را گیا کہ اۤکاش کی کمر کالی اور نیلی ہوگئی۔ صرف یہ ہی نہیں بلکہ ان زخموں اور درد کی وجہ سے وہ کمر کے بل ایک ہفتے تک نہیں سو سکا تھا ۔ تھکا وٹ ، درد ، بھوک اور نیند نے اس کا بُرا حال کےا ہوا تھا۔ اس کی اۤنکھوں پر کالے حلقے پڑ گئے اور اۤنکھیں اندر کو چلی گئیں ۔
تیسرے دن صبح وہی روٹین رہی پھر انہیں SOS HQمیں لے جا یا گیا۔ وہاں مختلف ٹیسٹ ہوئے ۔ جس کے بعد اکیلے اکیلے انٹروےو ہوا ۔ پوری ٹریننگ ٹیم اس پینل میں شا مل ہو تی ہے ۔ اس کے بعد پتہ چلتا ہے کہ کون کون کمانڈوکورس کرنے کے قا بل ہے ۔ اس پوری سکر یننگ میں جتنے ٹیسٹ ہوتے ہیں ۔ ان کو بہت غور سے پر کھا جا تا ہے ۔ یہ سکریننگ کا پہلا batchتھا جس میں اۤکاش کے ساتھ اۤٹھ اۤفیسرز کما نڈو کورس OACC-62کیلء ے سلیکٹ ہوئے ۔ سکریننگ ٹیسٹ کے بعد انہیں اےک مہےنہ کی چھٹی ملی کےونکہ اگلے دو batches بھی سکرےننگ کے لیے اۤنے تھے جس مےں سے اۤدھے unwill کر گئے تھے۔
ےہ مارچ کا مہےنہ تھا جب اۤکاش اےبٹ اۤباد اپنے گھر مےں سکرےننگ کلئیر کر کے اۤےا تھا۔اےک مہےنے بعد 19 اپرےل کو اسے کمانڈو کے مسکن چراٹ رپورٹ کرنا تھی۔
19اپرےل کی شب اۤکاش نے OACC-62کےلء ے چراٹ جو کہEagle Nest سے مشہور ہے، رپورٹ کی۔ سٹاف نے اۤکر پورے کورس کا فالن کےا جوکہ ساٹھ افسروں پر مشتمل تھا۔ سٹاف نے اپنا لوہا منوانے کے لیے اپنے طرےقے سے ڈانٹ ڈپٹ کی۔اس کے بعد صبح کی کاروائی اور مارننگ کے فالن کے لیے صبح ساڑھے چار بجے کا ٹاأم دےااور اسی دوران لاکر نمبر الاٹ کیے گئے۔ اۤکاش کے حصے مےں چار نمبر لاکر اۤےا۔ےہ لاکر نمبر کپڑے پر لکھے ہوئے تھے اور ان کو چےسٹ پر باند ھنا تھا۔ بالکل اسی طرح جس طرح جےل مےں قےدی کو نمبر دےاجاتا ہے ۔ اسی رات سٹاف نے اۤکر اپنی پیشین گوئی سنائی کہ ےہ افسر کورس نہےں کر سکتے جن مےں دبلے پتلے اۤکاش کا نام بھی تھا۔ لیکن وہ جانتا تھا کہ یہ سب صرف ان کاحوصلہ توڑنے کے لیے ایسی باتیں کر رہے ہیں۔ صبح کی Air Borne PT مےں ان کے پورے جسم کو توڑا گےا اور ان کا پورا ےونےفارم پسےنے سے دھل گیا۔ اس پورے کورس مےں تمام افسروں کو ایک ہی یونیفارم ملتا ہے۔ پورا ہفتہ ایک ہی وردی جسم پر چڑھی رہنے سے اس میں سے ایسی بو اۤرہی ہوتی کہ مکھیاں بھی دور بھاگتی تھےں۔ اۤکاش تودو دو ہفتے تک اسی میں رہتا اور کہتا مجھے اپنی” خوشبو” اچھی لگتی ہے۔
دوپہر کو کورس اۤفیسر جس کو” اۤفیسر ان چارج”(OIC) کہتے ہیں، نے پورے کورس کو سرمن دیا۔ اس سرمن کو اۤکاش OICکی دبنگ انٹری کہتا تھا جس سے وہ بہت متاثر ہوا تھا۔
OICنے انہیں بتایا کہ کمانڈو کورس کتنا کٹھن اور صبر اۤزما ہے۔ جس میں گہری اوردشوار گزارگھاٹیاں، بلند وبالاپہاڑ،پُر خطر جنگل ، بکھرے ہوئے دریا، برف زار موسم کی شدت اور لمحہ لمحہ موت کی اۤنکھو ں میں اۤنکھیں ڈال کر دیکھنا جس کے لیے سرفروشی اور جانثاری کا جذبہ بھی چاہیے اور تندرست اور توانا جسم بھی جو خطروں سے پنجہ اۤزماء ی کا حوصلہ رکھتا ہو۔ اس نے بڑے دبنگ انداز میں انہیں بتایا کہ یہ چراٹ ہے، کمانڈوز کی تربیت گاہ کمانڈوز کاگھر ہے اور یہا ں کی زندگی اور ہے، معاملات اور ہیں، مصروفیات اور ہیں۔استادی ، تیزی، چستی ، ہوشیاری ،سخت جانی یہ چراٹ کی زندگی کے بنیادی اصول اور ضابطے ہیں۔ ضابطوں کی اس بھٹی سے گزر کر SSG کے کمانڈوز ،جانبازغازی اور باہمت مرد بنتے ہیں۔ اۤخر میں OICنے بتایا کمانڈوکو ہمیشہ مشکل کو اپنی زندگی بناناہوتا ہے ۔ اس میںصرف فتح یا شہادت ہے، تیسرا اۤپشن ہی نہیں ہے۔اس لیے کمانڈو ہزاروں میں سے ایک ہوتے ہیں ۔
:The Few ,The Proud””
سرمن کا اختتام کچھ یوں ہوا:
اونچی اونچی ناموں کی تختیاں جلادینا
ظلم کرنے والوں کی ہستیاں مٹادینا
موت سے جوڈرجاؤ تو زندگی نہیں ملتی
جنگ جو جیتنا چاہو تو کشتیاں جلا دینا
اگلے ہفتے سے انہیں فائرنگ کی ٹریننگ شروع کرواء ی گئی جو بہت ہی مشکل کنڈیشن میں کرواء ی جاتی ہے۔ اس میں مختلف سپیشل ویپن کی فائرنگ کی ٹریننگ دی جاتی ہے اور مختلف techniques سے فائر کرنا سکھاےا جاتا ہے۔ شروع میں پسٹل سے فائر سکھاےا گیا۔ جس میں اۤکاش کیstanding positionسب سے بہتر تھی۔
تیسرا ہفتہ Hell Week کے نام سے مشہور ہے جو کہ نام سے ہی ظاہر ہے بہت ہی اذیت ناک ہوتا ہے۔ اس ہفتے میں کمانڈوز پر اۤکاش کے دوست نے ایک دفعہ unwill کرنے کو کہا تو اۤکاش نے اسے خوب گالیاں سنائیں۔ اس ہفتے میں کمبٹ ڈریس کے ساتھ ستر پا ؤنڈ وزن لادا جا تا ہے اور تقریباً روزانہ 15 سے 20 کلو میٹر ڈنڈوں کے ساتھ چلا یا جا تا ہے۔ اس میں نہ ہی کمرے میں جانا نصےب ہوتا ہے اور نہ ہی کھلے اۤسمان کے نیچے سونے دیا جا تا ہے ۔ بس چلتے چلتے اپنی نیند پوری کرنی ہو تی ہے یا پھرقےلولہ سے گزارا کرنا ہوتا ہے ۔ کھانے کو تو با لکل بھول جا نا ہوتا ہے ۔ وہ ہر کسی کی اپنی چستی ہے کہ کس طرح اپنے کھانے کا انتظام کر تے ہیں۔ اۤکاش نے اپنے NCBکو بتا یا ہوا تھا کہ رات کے اندھیر ے میں روٹ مارچ کے دوران چوری چوری کھانے پینے کی چیزیں تھما جا یا کرو ۔ایک دفعہ Hell Weekکے اۤخر پر جمعہ کے لیے انہیں چھوڑا گیا تو پورا کورس پورے ہفتے کی تھکا وٹ کی وجہ سے مسجد میں جا کر سو گیا ۔ جب جمعہ کا ٹاأم ہوا تو نماز کے لیے سب اپنی صفوں سے اٹھ کر صف بنانے لگے اور اۤکاش سو یا رہا۔ جب اس کو اٹھا یا تو اٹھ کر نما ز کے دوران چلنے لگ گیا اور اگلی صف والوں سے جا ٹکرا یا۔ کسی کی ہمت نہ ہوئی کہ اٹھ کر امام کے پیچھے اپنی نماز بر قرار رکھ سکے۔
چراٹ سے اتر کر جو خوشی اور ذہنی سکون ان جوانوں کو ملتا ہے وہ تب پتہ چلتا ہے جب ساری رات روٹ مارچ کر کے صبح صادق کے وقت وہ اٹک فورٹ کے قریب بہادر رینج پر پہنچتے ہیں۔ بہادر رینج پر انہیں سنا ءپر فا ءر سکھا یا گیا اور مختلف ویپن سے فا ءر کرواأے گئے۔ اۤکاش کو رینج ما سٹر کا فائر بہت پسند تھا جو کہ بہت ہی بھا ری ویپن تھا ۔ دو ہفتے وہاں دن کو ویپن کی تربیت دی جاتی اور رات کو دھلا ءی ہوتی تھی ۔ اۤکاش کا پہلا PT ٹیسٹ بھی اٹک فورٹ میں پاس ہوااور وہاں سے اۤکاش کو گھر جانے کا موقع ملا ۔

SSG کورس کے بعد اس کا کوئٹہ انفنٹری کا بیسک کورس کرنے کا ارادہ تھا جو ہر اۤرم والے کو لازمی کرنا ہوتا ہے لیکن کمانڈوز کو لے کر اس کے جذبات ہی کچھ اور ہوتے۔
”امی ان کے یونیفارم کی گریس ہی کچھ اور ہے۔ ان کی چال ڈھال۔ قدوقامت، وہ لگتے ہی کسی اور دنیا کی مخلوق ہیں امی۔”
اور وہ بھی اسی دنیا کی مخلوق ہو گیا۔ جو یونیفارم اسے اتنا پسند تھا، وہ یونیفارم وہ زیادہ دیر پہن نہیں سکا۔ جس کورس کو مکمل کرنے کا اس کا ارادہ تھا، وہ شاید اس ارادے سے زیادہ بڑا نہ تھا جو وہ اکثر مجھ سے کہتا تھا۔
”امی دعا کریں اللہ مجھے شہادت نصیب کرے۔”
اس کا اٹل ارادہ اس کے باقی ارادوں سے پہلے ہی پورا ہو گیا تھا۔ اۤکاش کے بھائی بہن چونکہ دونوں ڈاکٹری میں تھے اور اسی وجہ سے اسے اپنی تعلیم کم لگتی تھی۔ اس کا ہر سال ارادہ بنتا تھا کہ وہ انٹرنیشنل ریلیشنز میں ماسٹرز کرے لیکن ہر سال کسی نہ کسی کورس کی وجہ سے اس کئیہ ارادہ بھی رہ جاتا۔ جس سال اس کا پکا ارادہ بنا اور اس نے دانی سے اپنا داخلہ بھی بھیجنے کا کہہ دیا، اس سال بھی اس کا ارادہ، ارادہ ہی رہ گیا۔ کیوں کہ قدرت اس کے لیے کچھ اور ارادہ کر چکی تھی۔ وہ ارادہ جو تمام ارادوں سے بڑا تھا۔ وہ ارادہ جو تمام ارادوں سے معتبر تھا۔ وہ ارادہ جو تمام ارادوں سے مقدس تھا۔
SSG کورس کے دوران وہ اکثر کہتا کہ یہاں اۤفیسرز کی بہت کمی ہے کیوں کہ کمانڈو کورس اتنا مشکل اور سخت ہوتا ہے کہ زیادہ تر اۤفیسرز یہ کر ہی نہیں پاتے۔ اس کے اپنے کئی بیج میٹس درمیان میں ہی یہ کورس چھوڑ گئے تھے۔ جب بھی کوئی اۤفیسر یہ کورس چھوڑ کر جاتا، اۤکاش کئی دنوں تک افسردہ رہتا۔ وہ مجھ سے بھی گاہے گاہے کہتا رہتا کہ امی یہ کورس اۤسان نہیں ہے۔ بہت سے اۤفیسرز ہر دوسرے تیسرے دن یہ چھوڑ کر جا رہے ہوتے ہیں۔ کبھی میرا حوصلہ ٹوٹنے لگے تو میری ہمت بندھاتی رہیے گا۔ میرا حوصلہ مت ٹوٹنے دیجء ے گا اور میں جو فوج میں اس کے جانے کے فیصلہ کے ہی خلاف تھی، ہر روز اسے حوصلہ دیتی رہتی۔ اللہ جانے ماؤں میں اتنا حوصلہ کہاں سے اۤجاتا ہے کہ میں جو خود اس کے فوج میں جانے کے خلاف تھی، ہر روز خود اس کا حوصلہ بڑھاتی رہتی۔
ذمہ دار اور بردبار تو وہ پہلے بھی تھا لیکن کمانڈو کورس میں جانے کے بعد اس کے رویہ اور لہجے میں مزید ٹھہراأو اۤگیا تھا اور یہ بات میں نے بطور خاص محسوس کی تھی۔ اس فورس میں اۤفیسرز کی کمی کی وجہ سے ایک ایک اۤفیسر کو کئی کئی ڈیوٹیاں سرانجام دینی پڑتیں۔ اس کے علاوہ یہاں کی سخت جان ٹریننگ۔ جب اس کورس میں اسے پہلی بار چھٹی ملی تو وہ گھر ہی نہ اۤیا اور اپنی دیگر مصروفیات کا بہانہ بنا گیا۔ پتا نہیں کیوں مجھے لگا تھا تب کہ اۤکاش جھوٹ بول رہا ہے مجھ سے۔ کوئی مصروفیت نہیں تھی اسے۔ صرف اپنی ماں اور گھر والوں کو پریشان نہیں کر سکتا تھا وہ۔ بعد میں میرے اس اندیشے کی تصدیق بھی ہو گئی۔ کمانڈو ٹریننگ کے دوران اۤکاش جسمانی طور پر بہت کمزور ہو گیا تھا۔ رنگ کالا اور پیروں پر چھالے، جسم پر جابجا زخم تو چہرہ بھی کہیں خراشوں اور کہیں چوٹوں سے بھرا۔ وہ اسی لیے گھر نہیں اۤیا تھا کہ اس کے گھر والے اسے اس حالت میں نہیں دیکھ پاء یں گے۔ اسے تھا کہ وہ اسے بھی یہ کورس چھوڑ دینے کا کہیں گے جب کہ یہ کورس تو اس کا خواب تھا۔ اس کی ٹوپی، اس کئیونیفارم، اس کا موٹو۔ ئThe Few The Proudئ کمانڈوز کی قابلیت اور شخصیت۔ وہ نہیں چھوڑ سکتا تھا یہ سب اور اسی لیے وہ چھٹیوں میں گھر نہیں اۤیا تھا۔
مڈٹرم تک اپنی ظاہری حالت وہ کافی حد تک سدھار چکا تھا تو وہ چھٹیاں اس نے گھر گزاریں۔ لیکن ابھی بھی اس کی حالت کچھ زیادہ بہتر نہ تھی۔ رنگ ابھی ابھی جلا ہوا تھا اور ٹاء یفاء یڈ بھی تھا۔ عام حالات میں تو کوئی انسان اس حالت میں بستر سے اٹھنے کا سوچ بھی نہیں سکتا لیکن وہ لوگ اس حالت میں بھی سخت جان ٹریننگ کیا کرتے تھے۔ اس دن گرمی بہت زیادہ تھی جب میں نے اس کے پاس بیٹھے بارش کی دعا کی تو اس نے کہا کہ امی بارش کی دعا تو نہ ہی کیا کریں۔ ہم بارش میں بہت تنگ ہو جاتے ہیں کیوں کہ ہماری کوئی ایکٹیویٹی رکنی تو ہوتی نہیں۔ بھیگے ہوئے یونیفارم میں ہی ہمیں سارے کام کرنے پڑتے ہیں جس کی وجہ سے جسم رگڑ کھا کر زخمی ہو جاتا ہے۔ میں دیکھتی رہ گئی۔ میرا وہ بچہ جو بارش کا دلدادہ تھا، کیسے مجھے منع کر رہا تھا کہ بارش کی دعا نہ کیا کروں۔ اس کی چھٹیوں کے دوران ہی اس کی کزن صبا اور اس کا خاوند ظفر دانش اس سے ملنے اۤئے لیکن اس میں اتنی سکت بھی نہ تھی کہ انہیں ٹاأم دے سکے۔ وہ بمشکل اٹھ کر ان سے ملا اور واپس اۤرام کرنے اپنے کمرے میں چلا گیا۔ ڈاکٹر صاحب نے جلد ریکوری کے لیے اسے ہیوی ڈوز انجکشن اور دواء یاں دے رکھی تھیں۔ ابھی اس کی کمزوری باقی تھی کہ اس کی چھٹیاں ختم ہو گئیں اور وہ بیمار اۤکاش جو ایک دن پہلے ٹھیک سے کھڑا بھی نہیں ہو پا رہا تھا، اۤج واپس جانے کے لیے بالکل تیار کھڑا تھا۔ کوئی دیکھ کر کہہ بھی نہیں سکتا تھا کہ یہ شخص ایک دن پہلے تک اتنا بیمار تھا۔ اگر میں نے یہ سب اۤنکھوں سے نہ دیکھا ہوتا تو شاید میں یقین بھی نہ کر سکتی لیکن جاگتی اۤنکھوں سے یہ سب دیکھنا، ہماری افواج کے سپوتوں پر میرا مان اور ء یمان دونوں بڑھا گیا تھا۔
کمانڈو کورس میں چراٹ سے اترنے کے بعد اگر کسی legمیں ڈراپ ہونے کا خدشہ ہوتا ہے تو وہ swimming ہے۔ ےہ ایک انتہائی مشکل مر حلہ ہے۔ خاص کر ان کے لیے جو تےراکی بالکل نہیں جانتے اور جنہیں واٹر فوبیا ہے ۔ منگلا میں ان کمانڈوز کو سوئمنگ سکھانے کی ذمہ داری وہاں موجود SSG کی کمپنی ”مو سیٰ کلیم اللہ” کی ہے ۔مو سیٰ کمپنی کا کہنا ہے اگر پتھر بھی سوئمنگ کر نا چا ہے تو ہم اُسے بھی سوئمنگ سکھا دیں گے۔ بس اس میں چا ہت ہونی چا ہیے۔
اۤکاش کی اگلی ٹریننگ منگلا تھی جہاں وہ لوگ مکمل یونیفارم، جوتے اور بھاری اسلحہ سمیت پانی میں تیراکی کی مشق کرتے۔ یہ مشق کبھی کھڑے پانی میں ہوتی تو کبھی تیزوتند چلتے پانی میں۔ اسی مشق کے دوران اۤکاش کو کان کا انفیکشن ہو گیا اور اسے پانی سے مکمل احتیاط بتا دی گئی۔ یہ وہ وقت تھا کہ اس کے فائنل ٹیسٹ کی تاریخ کا اعلان ہو چکا تھا۔ وہ وقت اۤکاش کے لیے انتہائی کڑا تھا کیوں کہ یہ ٹیسٹ ابھی نہ دینے کا مطلب کورس کے دورانیہ کی طوالت تھا۔ وہ سب کو ٹریننگ کرتا دیکھ کر افسردہ رہنے لگا۔ جس دن ٹیسٹ تھا، وہ کنارے پر بیٹھے سب کو ٹیسٹ دیتے دیکھتا رہا۔ ایک ایک پل اس پر بھاری گزر رہا تھا۔ اۤخر جب اس سے رہا نہیں گیا تو ٹیسٹ دینے کے لیے وہ بھی جا پہنچا۔ اس کے انسٹرکٹر اور بیج میٹس نے اسے اس کے ارادے سے باز رہنے کا کہا لیکن اۤکاش جب کوئی فیصلہ کر لیتا تو اسے اس کے ارادے سے باز رکھنا مشکل ہو جاتا۔ یہ میں جانتی تھی۔

اس کے انسٹرکٹر نے اسے یاد دلء یا کہ یہ ایک مشکل ٹیسٹ ہے اور تم نے کئی دنوں سے ٹریننگ بھی نہیں کی۔ دوسرا یہ کہ پانی میں جانے سے تمہارے کان کا انفیکشن مزید بڑھ سکتا ہے لیکن وہ ٹیسٹ دینے پر بضد رہا۔ اۤخر کار اسے اجازت دے دی گئی۔ وہ ٹیسٹ کے لیے تیار ہونے لگا۔ یونیفارم پہنا، جوتے پہنے اور اسلحہ سے لیس ہو کر وہ ٹیسٹ دینے پہنچ گیا۔ اس نے پانی میں چھلانگ لگاء ی۔ وہاں موجود کئی لوگوں کا خیال تھا اۤکاش یہ نہیں کر پائے گا لیکن اس نے مقررہ وقت سے پہلے ہی اپنا ہدف پورا کر لیا۔ وہ کامیاب ہو چکا تھا اور اس کامیابی پر اس کے بیج میٹس سمیت ان کے انسٹرکٹر بھی بہت خوش تھے جبکہ اۤکاش کا مورال اۤسمان کو چھو رہا تھا۔ ایک اور مشکل مرحلہ عبور ہوا تھا اور ایک اگلا مشکل مرحلہ اس کے انتظار میں تھا جس کا نام Guerrilla Warfare تھا۔
Guerrilla Warfare میں ان جوانوں کو اپنا بھیس بدل کر دشمن کے علا قے میں چھپ کر رہنا ہوتا ہے اور اپنی شناخت ظاہر کیے بغیر مختلف اۤپریشنز سرانجام دینے ہوتے ہیں۔
Guerrilla Warfare میں اۤکاش کو ملنگ بننے کا ٹاسک دیا گیا تھا ۔ تو وہ سارا دن اپنے پھاڑے ہوئے کپڑوں مےںلوگوں کے درمیان مارا مارا پھر تا رہتا تھا۔
ایک دفعہ اۤکاش ہو ٹل میں کھانا کھا رہا تھا تو اسے پتہ چلا کہ اس کا TO راأونڈ پر ہے۔ وہ فوراً سے پہلے با ہر نکل کر سٹرک کے درمیان میں اۤکر بیٹھ گیا اور وہاں جب TO کی گاڑی آئی تو اۤکاش نے گاڑی کو روک لیا اور پا گلوں کی زبان میں ”اوں اۤں” کرنے لگا۔ جس پر TO نے اسے سو روپے دیے۔ ایسے ہی اۤکاش کی روزانہ دہاڑی پانچ سو روپے تک ہو جا تی تھی جس سے شام میں وہ مزے مزے کے کھانے کھایا کرتا۔
Guerrilla Warfareکے شروع میں ہر جوان کو چکن کا ایک بچہ دیا جا تا ہے جسے لاأن بڈی کہتے ہیں۔ اۤکاش ہمیشہ اپنے چوزے کو ساتھ لے کر چلتا رہتا اور جو کچھ خود کھاتا اس کو بھی وہی کھلاتا۔ رات کو سونے سے پہلے وہ اسے پنجرے میں بند کر کے اپنے بستر کے ساتھ رکھ کے سو جا تا تھا۔ اس نے چوزے سے بھی دوستی پال لی تھی۔
SSGمیں Survivalایک مشہور legہے جو اپنی مشکل کا تعارف خود ہی کرواتی ہے۔ یہاں کمانڈوز کو چھہتر(76) گھنٹے بھو کا اور بغیر نیند کے رکھا جا تا ہے۔ صرف یہ ہی نہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ان کی interogationبھی ہوتی ہے جس میں انہیں اپنی Identityکو discloseنہیں کرنا ہوتا۔ اس مرحلہ میں ان پر بہت ہی زیادہ ٹارچر کیا جا تا ہے۔ ہاتھوں اور اۤنکھوں پر پٹی باندھ کر سر کو پانی میں ڈبویا جا تا ہے اور اس کے بعد دونوںٹانگوں کو زنجیروں سے باندھ کر اوپر لٹکئیا جا تا ہے اور پیچھے سے ڈنڈوں او ر گیا رہ نمبر چھتر سے پورے جسم کی کھال کو اتارا جا تا ہے ۔ اس میں افسر کی قوتِ برداشت کا پتا چلتا ہے۔ جب interogation شروع ہوئی تو اۤکاش کو سب سے پہلے بلء یا گیا اور اس کی اۤنکھوں پر پٹی باندھ کر ہاتھ اور پاأوں کو زنجیروں سے باندھا گیا۔ اس کے بعد اۤکاش چیخوں کے ساتھ ساتھ اپنا تعارف اس طرح کروا رہا تھا:
”میں پنجاب کا سکھ ہوں۔ میں ڈاکٹر ہوں۔ میرا نام گبر سنگھ ہے۔ میں لوگوں کا مفت علاج کرتا ہوں۔ میرے ابو ایک کسان ہیں اور زمینوں پر فصلیں کا شت کر تے ہیں۔” یہ سب سن کر پورا کورس حیران ہو کر رہ گیا۔ کیونکہ کورس نے اپنی identity disclose کر دی تھی ۔ لیکن اۤکاش نے کا فی دیر دونوں سے مار کھانے اور پانی میں ڈبونے پر بھی اپنی شناخت ظاہر نہ کی۔
دو دن بعد اۤکاش کی اۤنکھوں پر حلقے پڑ گئے اور نیند اور بھوک نے اس کا بُرا حال کردیا لیکن وہ یہاں بھی شرارت سے باز نہ اۤیا۔ وہ survivalکے دوران کھانے کامینو ڈسکس کر کے پورے کورس کا جی للچاتا رہتا۔
بہتر (72) گھنٹے بعد پورے کورس کو ننگے پاأوں دس کلومیٹر پیدل چل کراٹک فورٹ پہنچنا تھا۔ تو جب کورس وہاں پہنچا تو سب سے پہلے درختوں کے پتوں سے اس نے اپنی بھوک ختم کی۔ اس کے بعد ہر کسی نے اپنے اپنے چوزوں کے سر اپنے منہ میں ڈال کر انہیں ذبح کیا۔ اس وقت اۤکاش نے اپنے چوزے کی گردن کو سر سمیت کاٹ کر الگ کر دیا اور پھر اس کا خون پینا شروع کر دیا۔ ادھر ہی دو بکرے ذبح کیے گئے۔ جن کا خون ایک تھال میں جمع کیاگیا۔ TO نے اس خون سے سب سے پہلے اۤکاش کی انرجی پوری کی۔ اس کے بعد اۤکاش نے وحشی درندوں کی طرح اپنے چکن سے کھال اتار کر اس کو ہلکا سا بھون کر کھانا شروع کر دیا۔ یہ ہی نہیں بلکہ زہریلے سانپ بھی انہیں کھانے کے لیے دیے گئے۔ TO نے اۤکاش کو سب سے پہلے بلا یا اور اس کو ایک سانپ ذبح کرنے اور اس کی کھال اتار نے کا کہا۔ اس وقت اۤکاش نے اپنے dagger کو نیام سے نکالا اور اس سانپ کی دو انچ لمبی گر دن کو کاٹ دیا اور پھر اس کے اندر سے گودے کو نکال کر صاف کیا ۔ اس طرح اس سانپ کے تین حصے کیے گئے۔ اس گوشت کو کچا کھانا تھا۔ اۤکاش نے اپنے حصے کا سا نپ سب سے پہلے کھا کر TO اور OIC سے داد وصول کی۔
اپنے کورس کے اۤخری دنوں میں ان کی ٹریننگ سندھ کے ریگستان چھرور میں ہوئی۔ اۤکاش نے بتایا کہ وہاں انہیں اس حال میں رکھا جاتا کہ جیسے وہ واقعی کسی جنگل یا ریگستان میں گم ہوگئے ہوں۔ وہاں انہوں نے درختوں کے پتے کھا کر بھی گزارا کیا۔ میرے لیے یہ سب ماننا ناقابلِ یقین ہوتا۔ اس نے بتایا کہ ریگستان میں انہوں نے بہت سے سانپ بھی پکڑے۔ ایک سانپ جس کا نام ”یدم” ہے اور جس کے متعلق کہاوت مشہور ہے کہ ”یدم نہ لینے دے ایک قدم”، وہ بھی انہوں نے محض ایک لکڑی اور بوتل کی مدد سے پکڑے ہیں۔ میں یہ سن کر جھرجھری لے لیتی۔ اپنے کورس کے اۤخر تک اسے یہ یقین ہی نہیں تھا کہ وہ کورس مکمل کر لے گا کیوں کہ اس نے اۤخری ہفتے تک وہاں اۤفیسرز کو ڈراپ اۤؤٹ ہوتے دیکھا ہے۔ جس دن SSG یونیفارم کے لیے اۤکاش اور اس کے بیج میٹس کی measurement لی گئی، اس دن اسے کچھ کچھ یقین اۤیا کہ اب وہ SSG کا کمانڈو بن ہی جائے گا۔
یہ دسمبر 2013ء کی بات ہے۔ میری بہن کے بیٹے ارسلان کی شادی تھی۔ ارسلان اور اۤکاش کا اۤپس میں بہت پیار تھا اور اۤکاش کی دلی خواہش تھی کہ وہ ارسلان کی شادی میں ضرور شرکت کرے۔ ان دنوں اس کے کورس کا اۤخری ہفتہ چل رہا تھا اور اس وقت اسے چھٹی ملنا ناممکن تھا۔ ارسلان کی مہندی اور بارات گزر گئی لیکن اس کا اۤنا نہ ہوا۔ جس رات ارسلان کا ولیمہ تھا، اس دن اس کی 600 میل لمبی رننگ کا ٹیسٹ تھا۔ وہ سارا دن اور ساری رات سب لڑکوں نے دوڑ کر گزاری تھی۔ اس ٹیسٹ کے بعد سب لڑکے تو اپنے اپنے کمروں میں جا کر بے سدھ سو گئے لیکن اۤکاش پشاور کی بس پکڑ کر یہاں اۤگیا۔ یہاں اۤنے سے پہلے وہ ایک حمام میں رکا جہاں غسل کے ساتھ ساتھ اس نے فیشل وغیرہ بھی کروء یا تاکہ اس کا جلا ہوا رنگ کچھ نکھر سکے۔ اس کے بعد وہ گھر اۤیا۔ کچھ دن پہلے ہی اس نے مجھے tuxedo سوٹ لینے کا کہہ دیا تھا جو میں لے کر رکھ چکی تھی۔ اس نے جلدی جلدی وہ تبدیل کیا اور ارسلان کا ولیمہ اٹینڈ کرنے پہنچ گیا۔ ارسلان اس سے مل کر بہت خوش ہوا اور اس سے مہندی اور بارات پر نہ اۤنے کا شکوہ کرنے لگا۔ اۤکاش خندہ پیشانی سے مسکراتے ہوئے اس سے معذرت کرنے لگا۔ اس نے کسی پر ظاہر نہیں کیا کہ وہ کتنا تھکا ہوا ہے۔ ابھی کھانے سے فراغت ہوئی ہی تھی کہ وہ میرے پاس اۤکر کہنے لگا: ”امی! میں جا رہا ہوں۔”
”لیکن اۤکاش ابھی تو تم اۤئے ہو۔ ابھی تو میں تم سے ٹھیک سے مل بھی نہیں سکی اور پھر چراٹ میں رات کا پرخطر سفر تم کیسے طے کرو گے؟”
”امی! چراٹ کی گلیوں، پہاڑیوں، گھاٹیوں اور میدانوں میں میں نے پوری پوری رات اکیلے گزاری ہے۔ اور ویسے بھی اب میں کمانڈو ہوں۔ رات یا اندھیرے سے مجھے کیا ڈر؟ میں یہاں صرف ارسلان کی خوشی کے لیے اۤیا تھا ورنہ اۤپ جانتی ہیں میرا اۤنا ناممکن تھا۔”
اور وہ جسے دیکھ کر ابھی میری اۤنکھیں بھی ٹھنڈی نہیں ہوئی تھیں، چلا گیا۔
”امی! مجھے لگتا ہے میرے نصیب میں خاندان والوں کی شادیاں اٹینڈ کرنا لکھا ہی نہیں ہے۔”
کہیں سے یہ الفاظ میرے کانوں میں گونجے۔ سچ ہی کہا تھا اس نے، وہ تو اپنے عزیز از جان بھائی تک کی شادی اٹینڈ نہ کر سکا۔
SSG کورس کے اۤخری دنوں میں اۤکاش کا لانگ روڈ مارچ تھا جو کلرکہار سے شروع ہو کر ء یبٹ اۤباد ختم ہونا تھا اور پھر انہیں دو تین دن کے لیے چھٹیاں ملنی تھیں۔ اۤکاش نے پہلے ہی مجھے بتا دیا تھا کہ مارچ کے اختتام پر سارے لڑکے اس کے گھر سے کھانا کھا کر اۤگے جائیں گے۔ اسی لیے جس دن انہوں نے اۤنا تھا، میں نے ان کی تواضع کے لیے پہلے ہی کھانا تیار کر لیا تھا۔ جب وہ میرے سامنے اۤیا تو میرے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے۔ کیوں کہ اس کا رنگ کالا پڑ چکا تھا اور ایک اۤنکھ کے قریب کسی کیڑے کے کاٹے کا نشان بھی تھا۔ میں اس کے دوستوں سے ملی، تقریباً سب کی یہی حالت تھی۔ انہوں نے بتایا کہ وہ لوگ کئی دنوں کا پیدل سفر کر کے یہاں پہنچے ہیں۔ ساتھ میں وزنی سامان بھی تھا اور نیند بھی ٹھیک سے نہیں مل سکی جس کی وجہ سے ان کی یہ حالت ہو گئی۔ میں نے جلدی جلدی کھانا لگئیا۔ تب تک سارے لڑکے اۤکاش کے کمرے میں جا کر فریش ہو چکے تھے۔ کھانا کھا کر کچھ دوست تو اسی وقت گھروں کے لیے روانہ ہو گئے جبکہ کچھ تھکن کی وجہ سے وہیں سو گئے اور اگلے دن گھروں کو روانہ ہوئے۔
٭۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔٭

Loading

Read Previous

بلتستانی لوک کہانی | ماس جنالی

Read Next

چنبیلی کے پھول (قسط نمبر ۱)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!