مشقِ یرموک
ء 2010میں اۤکاش تھرڈ ٹرم میں پروموٹ ہوچکا تھا۔ اب وہ کچھ سینئر سمجھے جاتے تھے اور اۤنے والے جونئیرز ان کے رحم و کرم پر ہوتے۔ یہاں ان کے پلاٹون کمانڈر میجر عثمان تھے۔ یہاں کا ”رگڑا” ایک عام بات تھی جوکہ کئی بار بلاوجہ بھی کیڈٹس کو مل جاتا جس سے اکثر جونئیر بیج کے لڑکے دلبرداشتہ ہوجاتے۔ فوج میں کوئی کام بلاوجہ یا کسی مقصد کے بغیر نہیں ہوتا۔ ایک فوجی ایک عام انسان سے قدرے مختلف اور کٹھن زندگی گزارتا ہے۔ اسے قدم قدم پر اتنا مضبوط حواسوں کا ہونا لازمی ہوتا ہے کہ بڑی سے بڑی پریشانی بھی اسے لڑکھڑا نہ سکے۔ شاید فوج کا رگڑا بھی اسی لیے زیادہ ہوتا ہے کہ کوئی کمزور دل اور پست حوصلے والا اس معتبر اور منظم ادارے میں نہ اۤئے اور شروع میں ہی فیصلہ کرلے کہ اسے دنیا کی صفِ اول کی سپہ کا حصہ بننا ہے یا نہیں۔ لیکن اۤکاش کو ابھی شاید اس فلاسفی کا نہیں پتا تھا۔ اسی لیے وہ بلاوجہ رگڑے کے خلاف تھا۔ اب جب کہ اس کے بیج میٹس اپنے جونئیرز کا رگڑا لگاتے تو اۤکاش نہ صرف اسے ناپسند کرتا بلکہ اکثر اپنے بیج میٹس پر غصہ بھی کرتا۔
فوج میں ہر پروموشن نئی آزمائشوں اور سختیوں کا پیش خیمہ ہوتی ہے۔ یہاں بھی انہیں ایک ایسی ہی سخت ٹریننگ کا سامنا کرنا پڑتا ہے جسے ”مشقِ یرموک” کہتے ہیں۔ یہ مشق پی ایم اے کی سب سے بڑی اور مشکل ترین مشقوں میں سے ہے۔ نہ صرف پی ایم اے، بلکہ دنیا کی مشکل ترین مشقوں میں سے ایک مشق یہ ہے۔ یہ چار دنوں پر محیط ہوتی ہے جس میں تمام کیڈٹس کو 150کلومیٹر کا پیدل فاصلہ اس طرح طے کرنا ہوتا ہے ہے کہ اس کے پاس LMGسمیت دیگر بھاری سامان بھی ہوتا ہے۔ یہ ہموار سفر نہیں ہوتا بلکہ خار دار جھاڑیاں، کھاأیاں، اونچے پہاڑ، گہرے گڑھے، ندی نالے، پتھریلی گھاٹیاں، غرض ہر طرح کا رستہ ان کیڈٹس کو طے کرنا ہوتا ہے۔ اۤرمی کی زبان میں اسے ”گیٹ ٹو گیٹ” کہتے ہیں۔ اۤپ اندازہ کریں کوئی عام انسان یہ سفر طے کرسکتا ہے؟
اس مشق میں کاشی کا Bivik Mateاحسن تھا جو اۤکاش کا بہت اچھا دوست تھا۔ دورانِ مشق احسن کی طبیعت بگڑ گئی اور وہ مشق جو صحت مند جوانوں کے لیے بھی ایک چیلنج ثابت ہوتی ہے، احسن کے لیے وہ جاری رکھنا محال ہوگئی۔ اس کا ا س طرح بیمار ہونا کاشی کے لیے بھی مسئلہ کا باعث تھا کیوں کہ مشق کے دوران سارے کام دونوں کیڈٹس نے مل کر کرنے ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر ٹینٹ لگانا اور کھولنا، کھانے کا انتظام کرنا اور دیگر بہت سے کام۔ اسی لیے احسن کا بیمار ہونا دونوں کے لیے مسئلہ تھا۔ احسن سوچ رہا کہ وہ مشق سے اس مرتبہ quitکردے کیوں کہ اس کے ساتھ ساتھ اۤکاش کے لیے بھی اسے سنبھالنا مشکل ہو جاتا لیکن اۤکاش نے اسے ایسا کرنے سے منع کردیا۔ دونوں کی مشق کا اۤغاز ہوا اور اۤکاش نے ناصرف اپنی مشق مکمل کی بلکہ احسن کی بھی مکمل کروائی۔ اس کے حصے کے سارے کام اۤکاش خود کرتا رہا۔ وہ احسن کو کام کے وقت اۤرام کرنے لٹا دیتا۔ اس کا احسن کو یہ فائدہ ہوا کہ اس کا ایک سال بچ گیا ورنہ اسے یہ مشق اپنے جونئیرز کے ساتھ کرنی پڑتی۔ اس واقعہ کے بعد اۤکاش اور احسن کی دوستی بھی خوب بڑھ گئی۔ مشق نے ایک بار پھر ثابت کردیا کہ اۤکاش غیرمعمولی صلاحیتوں کا مالک ہے۔
اپنا زیادہ تر فارغ وقت وہ کتابوں کے مطالعے میں گزارتا۔ دنیا کے عظیم لیڈرز اور حکمرانوں کے حالاتِ زندگی پڑھنا اس کا مشغلہ تھا۔ وہ دنیا میں گزرے عظیم سپہ سالاروں کے حالات و واقعات بھی دل جمعی سے پڑھتا۔ شخصیات میں اس کی آئیڈیل شخصیت خاتم النبیین حضرت محمدؐ کی تھی۔ وہ کہتا تھا دنیا میں عظیم انسان بننا کوئی مشکل کام نہیں۔ انسان کو صرف اپنی عادت کو manageکرنا ہوتا ہے۔ لیکن انسان ریاضت کے بعد بھی وہ خصوصیات مکمل طور پر اپنے اندر نہیں لاسکتا جو حضرت محمدؐ کا خاصہ ہیں۔ مطالعے اور فوجی زندگی سے اس کی شخصیت مزید نکھر رہی تھی۔ کچھ گھر کے ماحول کا بھی اثر تھا۔ احسن بتاتا ہے کہ کاشی وہاں ہوتے ہوئے بھی گھر والوں کی سالگرہ یاد رکھتا۔ اسے فکر ہوتی کہ کسے کیا تحفہ دینا ہے۔ بقول احسن وہاں لڑکوں کے لیے یہ نئی بات تھی کیوں کہ زیادہ تر لڑکے تحفے تحاأف کی طرف دھیان نہیں دیتے تھے۔ خاص طور پر گھر والوں کو۔ لیکن اۤکاش کی دیکھا دیکھی کافی سارے لڑکوں میں یہ تبدیلی آئی اور وہ بھی گھر والوں سے attachہونا شروع ہوگئے۔
مجھے یاد ہے، اۤفتاب صاحب اور میری شادی کی سالگرہ تھی۔ ابھی اۤکاش کی زیادہ تنخواہ نہیں ہوئی تھی لیکن اس کے باوجود اس نے ہمارے لیے شاندار سرپرائز کا انتظام کیا۔ میری اور اۤفتاب صاحب کی ایک یادگار تصویر اس نے بڑی کروا کے گھر کے ایک کمرے میں رکھ دی اور میری اۤنکھوں پر ہاتھ رکھے مجھے وہاں تک لے گیا۔پھر اس نے اۤنکھوں پر سے ہاتھ ہٹاأے تو خوشی اور حیرت کی ایک خوشگوار لہر میرے اندر دوڑ گئی۔ کتنا احساس کرتا تھا نا وہ چھوٹی چھوٹی خوشیوں کا۔ میں نے تصویر کا جائزہ لیا تو پتا چلا کہ تصویریں اس سے اچھی بھی موجود تھیں تو پھر اسی تصویر کا انتخاب کیوں کیا گیا۔ میں نے اۤکاش سے شکوہ کیا۔ اس نے بات ہنسی میں اڑا دی کہ اسے تو یہی تصویر اچھی لگی ہے۔ میں نے بھی اس کی خوشی کے لیے اس کی ہاں میں ہاں ملاأی اور اس کی خوب بلاأیں لیں۔ ابھی اسے دیکھ کر دل بھی نہیں بھرا تھا کہ اس کے جانے کا وقت اۤگیا۔ مسرت کے لمحات، انتظار کی گھڑیوں میں تبدیل ہوگئے۔
تیسری ٹرم میں اۤنے سے قبل تمام کیڈٹس اپنے پلاٹون کمانڈر میجر مبشر سے گپ شپ لگا رہے تھے اور مستقبل کے بارے میں رہنماأی لے رہے تھے۔ میجر مبشر نے انہیں دو سال پڑھایا تھا۔ اس لیے سب کی خوبیوں سے واقف بھی تھے۔ تمام بچے ان سے سوال کررہے تھے کہ اۤگے انہیں کس انفنٹری، کس اۤرمر میں جانا چاہیے اور میجر مبشر ان کی صلاحیتوں کا ذکر کرتے ہوئے انہیں جواب دے رہے تھے۔ جب اۤکاش کیباری آئی تو انہوں نے اس کی صلاحیتوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ تم جس اۤرم میں بھی جاؤ گے، اپنی پہچان بنا لو گے۔ یہ بات سن کر کاشی کا سینہ فخر سے پھول گیا۔ محفل برخاست ہوئی اور کاشی کی اۤنکھوں میں کامیاب مستقبل کے خواب سجنے لگے۔
اس کے چند روز بعد کا واقعہ ہے۔ تمام کیڈٹس فٹ بال کھیل رہے تھے۔ اس رات ان کا سپیشل ڈریس ڈنر تھا جس میں تمام کیڈٹس بلیک سوٹ پر گولڈن کڑھاأی کیا ڈریس پہن کر اٹینڈ کرتے ہیں۔ سب لڑکے کھیل سے فارغ ہوکر تیاری کے لیے جارہے تھے اور گراؤنڈ کا کیء ر ٹیکر جسے سب لڑکے ”چاچا” کہہ کر مخاطب کرتے تھے، فٹ بالز اپنی جگہ پر رکھ رہا تھا۔ اس کام میں ایک کیڈٹ وجاہت چاچے کا ہاتھ بٹانے لگا۔ اۤکاش نے اسے کافی غصے سے وہاں سے اۤنے کے لیے کہا جس پر چاچا اور وجاہت دونوں کو حیرانی ہوئی۔ اۤکاش شاید چاچا کے چہرے پر رقم غم کی کیفیت بھانپ گیا تھا۔ اسی لیے اس نے وجاہت کو مخاطب کرکے کہا کہ کسی کی مدد بہت اچھی بات ہے لیکن یہ فارغ اوقات میں ہو تو زیادہ اچھی بات ہے۔ تم نے ابھی اۤگے جانے کی تیاری کرنی ہے جبکہ چاچا کے پاس صرف یہی ایک کام ہے جو وہ خود بھی اچھے سے کرسکتے ہیں۔ یہاں اس واقعہ کا مقصد صرف یہ ہے کہ کاشی کسی ایک extremeکا بندہ نہیں تھا۔ اس کے نزدیک ہر کام کی logical reasoningزیادہ معنی رکھتی تھی اور شاید یہی وجہ تھی کہ اپنے تمام بیج میٹس کے ساتھ ساتھ وہ اپنے اساتذہ اور کمانڈرز میں بھی ایک مستحکم مرتبہ و مقام بنا چکا تھا۔
تیسرے ٹرم کے بعد تمام کیڈٹس کو ایک ماہ کی چھٹی ملی جبکہ کچھ کیڈٹس کو ایک کورس کے لیے روک لیا گیا۔ احسن بھی انہی کیڈٹس میں شامل تھا۔ اۤکاش گھر تو اۤگیا لیکن ہر دوسرے تیسرے دن اس کے لیے کچھ نہ کچھ کھانے کو لے جاتا۔ حالاں کہ انہیں وہاں کھانے پینے کی کمی نہیں تھی، لیکن اۤکاش کا دل نہیں مانا کہ وہ خود تو گھر کے مزے لوٹے اور اس کا دوست اس بات کو محسوس کرے۔ اس لیے اۤکاش نے حتی المقدور اسے یہیں پر ہی گھر والا ماحول فراہم کرنے کی کوشش کی تھی۔
گھر اۤنے سے پہلے بھی اس کی ایک مکمل روٹین ہوتی تھی۔ گھر اۤنے سے پہلے اس نے بازار کا ایک چکر لگانا ہوتا اور سب کی پسند کی چیزیں ان کے لیے لے کر اۤنی ہوتیں۔ خاص کر اپنے دادا دادی اور لویل کے لیے تو اس نے کبھی اپنی اس روٹین میں کوئی ناغہ نہ کیا۔ ایک مرتبہ جب ہم سب اکٹھے بیٹھے ہوئے تھے تو اس کی دادی نے باتوں باتوں میں ذکر کیا کہ ان کے زیرِاستعمال سارے گلاس ٹوٹ گئے ہیں تو کاشی اگلے دن ان کے لیے بازار سے گلاسوں کا سیٹ لے اۤیا۔ پتا نہیں اتنی ساری چیزیں اس کے حافظے میں کیسے رہ جاتی تھیں۔ ہاں شاید وہ اچھا سامع تھا۔ سامنے والے کو بہت غور سے سنتا تھا اور بعد میں عمل سے ظاہر کرتا کہ وہ ان باتوں کو سمجھتا بھی خوب ہے۔ گھر قیام کے دوران ہی اس نے ایک واقعہ بتایا کہ ایک ایکسرسائز کے دوران تمام کیڈٹس رات کو کھلے میدان میں لیٹے ہوئے تھے کہ اۤکاش نے اپنے ایک دوست سے ناصر کاظمی کی ایک غزل
بیٹھ کر سایہء گل میں ناصر
ہم بہت روئے وہ جب یاد اۤیا
سنانے کی فرماأش کی۔ صابر کی اۤواز بہت پیاری تھی۔ اس لیے اۤکاش اکثر و بیشتر اس سے فرماأشی گیت سنتا۔ اس وقت صابر کا موڈ نہیں تھا لیکن اۤکاش کے اصرار پر اس نے غزل گانا شروع کی۔ یہاں سب کیڈٹس کے پاس اۤپس میں رابطہ کرنے کے لیے motorollaکا ایک سیٹ دیا جاتا جس سے تمام کیڈٹس بشمول کمانڈر اۤپس میں رابطہ کرتے۔ اۤکاش نے، جب صابر غزل گا رہا تھا، اپنے سیٹ کا بٹن دبا دیا جس سے وہاں موجود تمام کیڈٹس یہ غزل سن کر محظوظ ہونے لگے۔ سب کے ساتھ ساتھ ان کے کمانڈر نے بھی یہ سب سنا اور ایک بار پھر ایک نیا ”رگڑا” ان کا مقدر بنا۔ ہم کاشی کی یہ باتیں سن کر ہنستے ہی رہتے کیوں کہ واقعی یہ تمام باتیں ایک عام انسان کی زندگی کا حصہ کبھی نہیں ہوتیں۔ اس کے پاس بھی باتوں کا پورا پلندہ ہوتا۔ ایک دفعہ بتایا کہ اس کے ایک سینئر اپنی بیوی کے ساتھ PMAوزٹ کرنے اۤئے۔ سینئر کا اۤنا ویسے ہی الگ بات ہوتی ہے اور کہاں بیوی کے ساتھ اۤجانا۔ تمام کیڈٹس نے انہیں گرمجوشی سے اٹینڈ کیا۔ مہینے کا چونکہ اختتام چل رہا تھا اس لیے تمام کیڈٹس بے چارے خالی ہوئے پڑے تھے۔ مل ملا کر بھی ان کے پاس اتنے پیسے جمع نہیں ہو پارہے تھے کہ ان کا پرتکلف کھانا کیا جاسکے۔ اگلی مصیبت یہ تھی کہ میس سے بھی ان کا ادھار بند تھا۔ اب معاملہ عزت بے عزتی کا تھا اور ایسی صورت میں سب اۤکاش کا منہ دیکھ رہے تھے۔ بالاۤخر اۤکاش نے ہی جا کر میس کے منتظم سے بات کی جس پر پہلے تو اس نے صاف انکار کردیا کہ اسے اوپر سے ایسا بالکل نہ کرنے کے اۤرڈرز اۤئے ہیں لیکن اۤکاش نے اسے اپنی جذباتی باتوں میں لے کر اپنی بات منوا ہی لی اور یوں انہوں نے ان کے کھانے کا انتظام کیا۔
ایک مرتبہ اس نے اپنی رمضان کی روٹین بتائی کہ رمضان میں بھی ان کی روٹین میں کوئی نرمی نہیں ہوتی۔ میں تو یہ سن کر جیسے اچھل ہی گئی کہ ایسا کیسے ہوسکتا ہے۔ وہ بس مسکرا کر رہ گیا۔ ظاہر ہے کیا بتاتا اپنی ماں کو کہ اتنی مشقت کرتا ہے وہ وہاں۔ PMAمیں ان کی روٹین وہی رہتی۔ تمام کیڈٹس سحری کرکے اپنی روزمرہ کی روٹین میں لگ جاتے۔ اسی طرح کلاسز ہوتیں اور اس طرح سخت ٹریننگ بھی۔ روزوں کی وجہ سے کوئی ایکسر سائز چھوڑی نہ جاتی۔ اس لیے وہاں زیادہ تر لڑکے روزے چھوڑ دیتے، لیکن اۤکاش سارے روزے رکھتا۔ رمضان میں اۤکاش کا ایک اور دلچسپ معمول ہوتا۔دوپہر کو کلاس کے اۤخری لمحات میں اۤکاش اور احسن چِٹ پر افطار کا مینیو لکھ کر وہاں کسی لوئر سٹاف ممبر کو دیتے اور وہ باہر سے سامان لا کر چپکے سے اۤکاش کے کمرے میں رکھ دیتا۔ وہاں اۤکاش نے تمام لوئر سٹاف سے بنا کر رکھی ہوئی تھی۔ بدلے میں وہ انہیں جب بھی وہ بیمار ہوتے، ایک چٹ لکھ کر اپنے ابو کے پاس بھجوا دیتا اور اۤفتاب صاحب بلامعاوضہ ان کا علاج معالجہ کردیتے جہاں وہ کسی بھی سرکاری اور نجی اسپتال سے زیادہ مطمئین ہوتے۔ افطار کے وقت اۤکاش کے کمرے میں دیگر لڑکے بھی جمع ہو جاتے اور مل کر افطاری کرتے۔ اپنے مینیو میں اۤکاش کچوریاں ضرور شامل کرتا کیوں کہ وہ اس کی پسندیدہ تھیں۔ کبھی میں اۤکاش سے جو پوچھتی کہ بیٹا! وہاں یہ سب کیسے کرلیتے ہو اور وہ بھی روزے کی حالت میں؟ تو وہ پیار سے مسکرا دیتا اور ایک عزم اس کی اۤنکھوں اور لہجہ میں جھلکنے لگتا۔ وہ کہتا:
”امی! یہ فوجی ایسے ہی ہوتے ہیں۔ اپنے فرض کی اداأیگی میں نہ دن دیکھتے ہیں نہ رات، نہ سردی نہ گرمی، نہ بھوک نہ پیاس، بس لگے رہتے ہیں۔ ان کے لیے ان کی ذاتی خواہشات، اۤرام سکون اور مشکلات معنی نہیں رکھتیں۔ اپنے وطن اور اس کے لوگوں کی حفاظت ہی ان کا نصب العین ہوتا ہے۔”
میں اس کی باتوں پر کبھی افسردہ ہو جاتی تو کبھی فخر سے میرا سر اونچا ہو جاتا کہ میں ایک فوجی کی ماں ہوں۔
ایک مرتبہ یوں بھی ہوا کہ کاشی چھٹی میں بغیر بتائے گھر اۤگیا۔ ہمیں وہ اپنے اۤنے کی پیشگی اطلاع دیتا ورنہ ہمیں اس کے اۤنے جانے کے بارے میں کوئی علم نہیں ہوتا تھا۔ تو ہوئیوں کہ جب وہ اۤیا تو میں اور اۤفتاب صاحب کسی رشتہ دار کی تعزیت کے لیے اسلام اۤباد گئے ہوئے تھے۔ وہ گھر اۤیا اور ہمیں نہ پاکر بہت افسردہ ہوا۔ تب اس نے دانی کی مدد سے ایک وڈیو بنائی اور ہمارے اۤنے پر وہ وڈیو ہمیں دکھانے کا کہا۔ اس نے سب سے پہلے وڈیو میں سیلیوٹ کیا تھا۔ پھر اس کے بعد اس نے انتہائی افسردہ انداز میں اپنا پیغام ریکارڈ کیا تھا جس میں اس نے کہا تھا:
”امی ابو! میں اتنا پرجوش گھر اۤیا تھا لیکن یہاں اۤپ دونوں کو نہ پاکر میری ساری خوشی ماند پڑگئی۔ اۤپ لوگوں کو جانا ہی تھا تو مجھے بتا دیتے تاکہ میں اۤتا ہی نہ۔ یہ اچھا نہیں کیا اۤپ نے۔ جیسے ابھی مجھے بتائے بغیر اۤپ لوگ چلے گئے ناں، ایسے ہی میں بھی اب بتائے بغیر چلا جاؤں گا۔ پھر میری وڈیوز اور تصویریں دیکھ کر ہی جیے گا اۤپ لوگ۔”
گھر اۤنے پر جب مجھے یہ وڈیو ملی تو میں کتنی ہی دیر بیٹھی روتی رہی۔ مجھے کیا پتا تھا کہ میں نے ساری زندگی اس کی وڈیوز اور تصویریں دیکھتے ہی گزارنی ہے۔
کس کس بات، کس کس یاد کو یاد کرکے روئوں میں؟ گھر کی ہر چیز، ہر سامان سے کوئی نہ کوئی یاد جڑی ہے اس کی۔ گھر میں جب UPSکا کام ہوا تو الیکٹریشن غلطی سے کچن کا کنکشن کرنا بھول گیا۔ میں کئی دن اۤفتاب صاحب کو کچن کے کنکشن کا کہتی رہی لیکن وہ کام روز ہی رہ جاتا۔ اۤکاش چھٹیوں پر اۤیا تو اگلے ہی دن الیکٹریشن کو بلا کر اور اس کے سر پر کھڑے ہوکر سارا کام خود کروایا اس نے۔ اسی طرح ایک مرتبہ میں نے باتوں باتوں میں ہی ذکر کیا کہ گھر کے بیرونی دیوار پر اور گھروں کی طرح ”ماشا اللہ” کی ٹاأل نہیں لگی۔ تو وہ اسی شام ”ماشا اللہ” کے دو فریمز اٹھا لایا۔ میں اکثر حیران رہ جاتی کہ وہ اتنا سب کچھ کیسے کرلیتا ہے۔ میرے باقی دونوں بچے بھی ہیں جو چھٹیوں میں صرف اۤرام اور سیر و تفریح ہی کرتے ہیں، جب کہ اۤکاش اپنی سخت روٹین کے باوجود بھی چھٹیوں میں اۤرام سے زیادہ گھر کے چھوٹے موٹے کاموں پر توجہ دیتا۔
گھر کی چیزیں اۤج بھی خراب ہوتی ہیں، لیکن انہیں ٹھیک کروانے والا ”کاشی” نہیں ہے۔
٭۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔٭