ماں کا آکاش

اۤرمی ٹیسٹ کی تیاری

یہ عید کے فوراً بعد کی بات ہے۔ عید کی وجہ سے اۤکاش کے سب کزنز گھر پر اکٹھے ہوئے تھے۔ جب عید کرکے سب واپس جانے لگے تو اۤکاش نے اپنی خالہ کے ساتھ جانے کا کہا جو پشاور مقیم تھیں۔ اس کی اچانک اس فرماأش پر میں اور اۤفتاب صاحب حیران ہوئے کیوں کہ وہ ایسا کرتا ہی نہ تھا۔ تب اس نے ہمیں بتایا کہ اس نے اۤرمی کے اپنے ٹیسٹ کے لیے پشاور سینٹر کا انتخاب کیا ہے اور اسی مقصد کے لیے وہ وہاںجارہا ہے۔ اپنے اۤرمی میں جانے کی خواہش کا اظہار وہ پہلے کرچکا تھا۔ اۤفتاب صاحب کئی دنوں سے اسے ڈاکٹری پڑھنے کے لیے سمجھا رہے تھے اور وہ خاموشی سے ان کی بات سن رہا تھا جس سے انہیں لگا کہ وہ ڈاکٹری کے لیے قاأل ہوگیا ہے لیکن اصل عقدہ تو اب وا ہوا تھا۔ اس کی اطلاع پر اۤفتاب صاحب کو واقعی حیرانی کا جھٹکا لگا تھا لیکن انہوں نے اسے کچھ کہا نہیں۔ ہاں! ڈانٹا تو اس بات پر کہ اس کا ٹیسٹ تھا اور وہ سیر و تفریح میں لگا ہوا تھا۔ انہوں نے اسے اجازت دینے سے انکار کردیا۔ انہیں لگ رہا تھا اس کی تیاری نہیں اور اسے اگلی بار تیاری کے ساتھ ٹیسٹ دینا چاہیے۔ اس نے لاکھ منت سماجت کی لیکن اۤفتاب صاحب نہیں مانے۔ باپ ہیں ناں، جانے کیا کچھ سوچیں ان کے ذہن میں اۤرہی ہوں گی جنہیں وہ اۤکاش کی تیاریاں نہ ہونے کے سر ڈال رہے تھے۔ خیر اس وقت اس کے خالہ اور ماموں کی سفارش پر اۤفتاب صاحب نے اسے اجازت دے دی۔ اس نے سکون کا سانس لیا اور اپنی خالہ کے ساتھ پشاور روانگی کی تیاری کرنے لگا۔ اگلے دن اس کا ٹیسٹ تھا۔ ٹیسٹ دے کر وہ اگلے ہی دن واپس گھر اۤگیا۔
اب اسے بے صبری سے اپنے نتیجہ کا انتظار تھا۔ اس کا گھر پر وقت گزارنا مشکل ہوگیا۔ اس عرصہ جس میں وہ گھر رہا، اپنے سکول اور بورڈنگ میں گزارا وقت یاد کرتا رہتا۔ کبھی کوئی واقعہ سنا رہا ہوتا تو کبھی کوئی۔ وقت گزاری کے لیے اس نے میڈیکل کالج کے انٹری ٹیسٹ کے لیے اکیڈمی بھی جوائن کرلی تھی۔ ابھی اس کا انٹری ٹیسٹ ہوا ہی تھا کہ اسے ISSB سے کال اۤگئی جس کے لیے اسے کوہاٹ جانا تھا۔ تیاری تو وہ اپنی مکمل ہی کرچکا تھا۔ چھٹیوں میں وہ روز ایبٹ اۤباد کے اۤرمی کے PTسکول میں ورزش کے لیے جاتا جس سے اس کا خود پر اعتماد بہت بڑھ گیا تھا۔ وہ بہت پُرامید ہوکر ایبٹ اۤباد کے لیے گھر سے نکلا۔ میں نے بھی دعاأوں، یقین اور بے یقینی کی ملی جلی کیفیت کے ساتھ اسے اللہ کی امان میں دیا۔
اس کے وہاں تمام ٹاسک بہت اچھے ہوئے۔ دو انٹرویوز بھی ہوئے جس میں انٹرویو لینے والے بھی اس سے کافی متاثر نظر اۤئے۔ وہ بہت پریقین سا گھر لوٹا کہ اس کی سلیکشن لازمی ہوجائے گی۔ اس ساری کاررواأی کے دوران اسے بس اپنا وزن تھوڑا اور کم کرنے کا کہا گیا تھا جسے اۤکاش نے انتہائی سنجیدگی سے لیا تھا۔ ویسے بھی وہ اس کی ہسٹری دیکھ کر کافی مطمئین تھے۔ ادھر اۤکاش نے مطلوبہ ہدف حاصل کرنے کے لیے دن رات ایک کردیا۔ جب تک اسے اگلی کال کا لیٹر نہ اۤیا، وہ سکون سے نہ بیٹھا اور جب اگلی انٹرویو کال کے لیے وہ گیا تو وہاں موجود پینل کو خوش گوار حیرانی میں مبتلا کردیا کیوں کہ وہ اپنے مطلوبہ ہدف سے بھی اپنا وزن کم کرچکا تھا اور اس کال کے بعد اۤکاش اپنے مقصد کی پہلی سیڑھی چڑھ گیا۔ فوج میں اس کی سلیکشن ہوگئی۔ حالاں کہ وہ پہلے سے پریقین تھا لیکن حتمی جواب کے بعد اس کا جوش و خروش قابلِ دید تھا۔
میں اس کی خوشی دیکھ کر ماضی میں چلی گئی۔ چھوٹے ہوتے اس کی وہ تصویریں میرے ذہن کے پردے پر اۤگئیں جس میں وہ سیلیوٹ مارنے کے انداز میں کھڑا ہوتا، تب جب اسے شاید پتا بھی نہ تھا کہ سیلیوٹ ہوتا کیا ہے۔ اس کی وہ باتیں جب سب اس سے پوچھتے کہ تمہارے ابو بھی ڈاکٹر ہیں، بڑا بھائی بھی ڈاکٹر بنے گا تو تم کیوں فوجی بننا چاہتے ہو؟ تو وہ عزم سے کہتا کہ لوگوں کی خدمت کے لیے یہ ہیں ناں، میں ملک کی حفاظت کروں گا، وطن سے تو سب کچھ ہے۔ یہ سب سوچتے ہوئے میری اۤنکھوں میں اۤنسو اۤگئے۔
اۤکاش نے 20 مئی 2010ء کوٖ PMA میں جوائننگ دینی تھی جس کے لیے اس نے پہلے سے ہی تیاریاں شروع کردیں۔ گھر میں پڑے ایک ٹرنک کو اس نے اباجی کے ساتھ مل کر پینٹ کیا اور اپنی چیزیں اس میں رکھ دیں۔
پھر وہ دن بھی اۤگیا جب اس نے PMA کے لیے نکلنا تھا۔ اس کے والد، چاچا، بڑا بھائی اور دادا جی اسے PMA چھوڑنے گئے جبکہ مجھے اپنی اۤنکھوں کی تسکین گھر تک ہی کرنا پڑی۔ کتنی ہی دیر میرے جگر گوشے نے مجھے گلے لگائے رکھا اور میری مامتا کی تسکین ہوتی رہی۔ میرا دل ہی نہیں کررہا تھا اسے جدا کرنے کو۔ اس وقت میری خواہش تھی کہ کاش یہ سب مذاق ہو، مجھے تنگ کرنے کے لیے اۤکاش کی کوئی شرارت ہو اور جب میرے دو اۤنسو نکل آئیں تو وہ ہنستے ہوئے مجھے بتائے کہ یہ سب مذاق تھا۔ اۤنسو تو نکل گئے لیکن وہ نہ رکا۔ وہ چلا گیا۔ جانے سے پہلے اپنی دادی اور بہن سے بھی ملا لیکن سب سے اۤخر پر وہ مجھ سے ہی ملا کر نکلا تھا۔ اس وقت ایک ہی دعا میرے لبوں پر تھی۔
”یااللہ! میرے بچے کی حفاظت کرنا۔”
٭۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔٭

پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول

PMAکاکول میں اۤکاش اپنی عملی فوجی زندگی کا اۤغاز کرچکا تھا۔ اس خواب کی تعبیر جو وہ بچپن سے دیکھتا تھا، اس کی اۤنکھوں کے سامنے تھی۔ یہاں تمام کیڈٹس کی عملی اور ذہنی تعلیم و تربیت کی جاتی ہے۔ دیگر مضامین کے علاوہ کچھ خاص مضامین بھی انہیں پڑھاأے جاتے ہیں اور یہی مضامین انہیں ممتاز کرتے ہیں۔ اۤکاش پہلے بھی ایک عام بچہ نہیں تھا لیکن یہاں اۤکر اس میں ایک عجیب سا نکھار، ٹھہراأو اور بردباری سی اۤگئی تھی۔ اسے اپنی خوبیوں کا تو پہلے بھی ادراک تھا، اب خامیاں بھی اس پر عیاں ہونے لگیں۔ اسے مزید کھل کر اپنے ساتھ کھیلنے کا موقع مل چکا تھا۔
اسے یہاں ”قاسم کمپنی” دی گئی۔ اس کا لانگ کورس 123 جبکہ کیڈٹ نمبر 50/135 تھا۔ یہاں زندگی یکسر مختلف تھی۔ شہری زندگی کی اۤساأشوں اور ایک اچھے خاندان میں پلنے بڑھنے والا نوجوان جب فوج میں افسری کا خواب لیے یہاں اۤیا تو یکسر اُلٹ معاملہ دیکھنے کو ملا۔
یہاں دوستی، محبت، شفقت اور ہمدردی کا روپ بھی خاصا کرخت ہوتا ہے۔
PMAمیں اس کی باقاعدہ ٹریننگ شروع ہوچکی تھی جس کا احوال وقتاً فوقتاً پتا چلتا رہتا۔ ویسے ابھی تک ہم صرف سنتے اۤئے تھے لیکن کاشی کی بدولت ہمیں پتا چلا کہ فوج واقعی ایک منظم اور انتظامی لحاظ سے ملک کا سب سے بہترین ادارہ ہے جو ناصرف بطور فوجی بلکہ بطور انسان بھی اۤپ کی کردار سازی میں نمایاں تبدیلیاں رونما کرتا ہے۔
ایک مرتبہ اس نے وہاں ہونے والی اپنی ٹریننگز کا احوال بتایا جسے ایک عام انسان کے لیے سمجھنا تقریباً ناممکن تھا۔ یہ بھی اسی سے پتا چلا کہ دورانِ ٹریننگ کیسے چھوٹی چھوٹی کوتاہیوں پر انہیں سخت سزا ملتی ہے۔ یہ سب سن کر مجھے پہلے تو یک دم غصہ اۤیا کہ میرے نازوں پلے بچے پر اتنا ظلم ہورہا ہے لیکن میرا سارا غصہ اس نے یہ بات سمجھا کر اڑن چھو کر دیا کہ یہی ٹریننگ ایک فوجی کو ایک عام انسان سے ممتاز کرتی ہے۔ اپنی ٹریننگ کا احوال سناتے ہوئے اس نے بتایا کہ ان کی ایک ایکسرسائز ہوتی ہے جسے kick offکہا جاتا ہے۔ اس میں تمام کیڈٹس کو صبح سے شام تک 20کلو وزن اٹھا کر چلنا ہوتا ہے جس میں پندرہ کلو کا ان کا ”بگ پیک” ہوتا ہے اور پانچ کلو وزنی رائفل۔ اس وزن کے ساتھ انہیں اونچے نیچے تمام راستوں پر چلنا ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ ایک پلاٹون کے پاس 6LMGبھی ہوتی ہے جو تقریباً گیارہ کلو وزنی ہوتی ہے۔ ایک پلاٹون اٹھاأیس یا انتیس کیڈٹس پر مشتمل ہوتی ہے اور یہ LMGپانچ پانچ منٹ کے لیے تمام کیڈٹس میں شفٹ ہوتی رہتی ہے۔ ایک LMGکے ساتھ ایک کیڈٹ کو تقریباً تینتیس کلو وزن اٹھاکر چلنا پڑتا ہے جوکہ ایک مشکل کام ہے۔ اس پریکٹس میں انہیں ایک گھنٹے بعد صرف پانچ منٹ کی بریک ملتی ہے جس کے بعد اس تھکا دینے والی پریکٹس کا پھر سے اۤغاز ہو جاتا ہے۔ اس بریک کے دوران یہ چیکنگ بھی ہوتی ہے کہ تمام کیڈٹس کے پاس ان کا سامان ہے یا نہیں۔ کسی بھی چیز کی گمشدگی ایک نئی سزا کا پیش خیمہ ہوتی ہے۔ اس میں ایک مرتبہ پلاٹون کا compassگم ہوگیا جو بعد میں اۤکاش کے ”بگ پیک” سے ملا۔ اس بات پر پلاٹون کمانڈر میجر مبشر نے اۤکاش کی خوب کلاس لی اور سزا کے طور پر اسے دو LMGاٹھا کر چلنے کا کہا۔ وہ سارا دن اۤکاش نے 43کلو وزن اٹھا کر اپنی سزا پوری کی۔
فوج میں جہاں معاملات اتنے سخت ہوتے ہیں وہیں ان کی تفریح کے انداز بھی جدا ہوتے ہیں جس کا ایک مرتبہ اۤکاش نے تذکرہ کیا تو میں کافی دیر تک ہنستی رہی۔
ان کے فرسٹ ٹرم کے اختتام پر Corporalکو ”اَپ” کرنے کا رواج ہوتا ہے۔ یہ کارپورل شروع میں کیڈٹس کو خوب رگڑے دیتے ہیں۔ یہ ”رگڑے دینا” والی اصطلاح مجھے اۤکاش نے ہی بتائی۔ کورس میں تین ماہ بعد مڈ بریک ہوتی ہے جس سے پہلے تمام پلاٹون اپنے کارپورل اَپ کرتی ہے۔ اس میں وہ تمام کیڈٹس کو تنگ کرتے ہیں۔ وہ تنگ کرنا عام تنگ کرنا نہیں ہوتا بلکہ عام انسانوں کے لحاظ سے وہ اچھا خاصا torture ہوتا ہے۔ ابھی مڈٹرم میں کچھ دن باقی تھے کہ اۤکاش کی پلاٹون نے کارپورل کو اَپ کرنے کا سوچ لیا۔ اۤکاش کی پلاٹون کے دو کمانڈر تھے۔ ایک کو تو اندازہ ہوگیا کہ پلاٹون کچھ سوچ رہی ہے، اس لیے وہ بھاگ کھڑا ہوا جب کہ دوسرا کارپورل بے چارا پکڑا گیا۔ تمام کیڈٹس اسے پکڑ کر ایک کمرے میں لے گئے۔ اسے برہنہ کرکے رسیوں سے باندھا اور مارنے لگے کہ ہمارے بھائی بن جاؤ۔ یہ ”بھائی بنانا” بھی اسی رواج کا حصہ تھا۔ اُس نے انکار کرتے ہوئے تمام کیڈٹس کو سنگین نتاأج کی دھمکی دی جسے سن کر تمام کیڈٹس ایک ایک کرکے پیچھے ہٹتے گئے۔ البتہ اۤکاش نے اس دھمکی کا کوئی اثر نہ لیا اور بدستور اپنے کام میں لگا رہا۔ اس کی دیکھا دیکھی اور کیڈٹس بھی اس کے ساتھ مل گئے اور کارپورل بیچارے کو نڈھال کردیا۔ مجھے یہ سب سن کر اس پر افسوس بھی ہوا اور سارے واقعے پر ہنسی بھی آئی۔ اۤکاش نے بتایا وہ کارپورل اۤخر میں ان کا بھائی بن گیا تھا۔
اسی طرح ایک مرتبہ اۤکاش کو ایک گراؤنڈ کے دو چکر لگانے کا اۤرڈر ملا۔ اپنی سستی کی وجہ سے اس نے صرف ایک چکر کاٹا اور اۤکر رپورٹ کی کہ دوچکر کاٹ اۤیا ہے۔ اس سستی کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اۤکاش شروع سے ہی کاموں کی دہراأی سے گھبراتا تھا۔ اسے نئی چیزیں دریافت کرنے کا شوق تھا اور ہر نئی چیز کی دریافت کے بعد وہ اس سے اکتا جاتا تھا۔ اپنی اسی طبیعت کی وجہ سے وہ کبھی کبھی یہاں بھی سستی کر جاتا لیکن اس بار وہ پکڑا گیا اور اس کے پلاٹون کمانڈر نے اس پر Integrityکیس بنا دیا۔ یہ اس مرحلے پراس کے لیے بہت بُری سزا تھی۔ اۤکاش ہر حوالے سے یہاں نمایاں تھا۔ اس کا academic ریکارڈ اچھا تھا۔ تمام ٹریننگز میں وہ نمایا ںتھا۔ ہر حوالے سے اس کا ریکارڈ بہترین تھا لیکن اس integrityکیس کی وجہ سے وہ بہت پیچھے چلا گیا۔ وگرنہ وہ Sword of Honourبھی لے سکتا تھا۔
اب وہ سیکنڈ ٹرم میں اۤچکا تھا۔ یہاں اس کی سرگرمیاں پہلے سے بڑھ گئی تھیں اور ٹریننگ بھی زیادہ سخت ہوگئی تھی۔ لیکن اۤکاش کامیابی سے اپنے سفر کی منازل طے کررہا تھا۔ اپنی پسند اور APSمیں کی گئی محنت کی وجہ سے وہ یہاں کی فٹ بال ٹیم میں بھی جگہ بنا چکا تھا۔ یہاں اس کے جوہر دیکھتے ہوئے اسے گولڈ میڈل بھی دیا گیا۔ تب وہ بہت خوش تھا، لیکن اپنی طبیعت کے مطابق وہ زیادہ دن اس خوشی کو گلے لگائے بیٹھنے کے بجائے نء ے شوق اور نء ے کام کی تلاش میں لگ گیا اور جلد ہی باکسنگ کو نیا شوق بنا لیا اور بہت ہی کم وقت میں کافی ماہر بھی ہوگیا۔
یہ دوسرے ٹرم کے دوران کی بات ہے جب اس کا باکسنگ کا مقابلہ تھا۔ یہاں مختلف پلاٹونوں اور مختلف کمپنیوں کے کیڈٹس کے ایک دوسرے سے مقابلے ہوتے ہیں۔ اسی لیے جب بھی یہ مقابلے ہوتے ہیں تو ناصرف کیڈٹ بلکہ پوری پلاٹون اور کمپنی کی دھڑکنیں بھی تیز ہوجاتی ہیں کہ ٹرافی ان کے حصے میں اۤئے۔ خیر مقابلے سے پہلے اس نے گھر بات کی اور سب کو دعا کرنے کا کہا۔ دعا کے ساتھ ساتھ مجھے یقین تھا کہ اۤکاش ضرور یہ مقابلہ جیتے گا کیوں کہ وہ تب تک کوئی کام علی الاعلان نہیں کرتا جب تک اس میں کمانڈ نہ حاصل کرلے۔ اس مقابلے میں اۤکاش نے بہت ہمت اور جواں مردی سے اپنے مدِمقابل کا سامنا کیا۔ اس کا مدِمقابل نہ صرف پرانا کھلاڑی تھا بلکہ وہ پھرتیلا اور چاک و چوبند بھی تھا۔ اۤکاش اتنا پھرتیلا نہیں تھا لیکن حسیات کے معاملے میں وہ کافی مضبوط تھا۔ جلدی نروس نہیں ہوتا تھا اور مشکل سے مشکل حالات میں اپنے حواس پر قابو رکھتا تھا۔ اسی لیے اپنے سے زیادہ تجربہ کار کھلاڑی کو بھی وہ تھوڑی بہت مشکل کے بعد چت کرگیا۔ اس مقابلے کی اس نے وڈیو بھی بنائی جو گھر اۤنے پر اس نے ہمیں دکھاأی تھی۔ اس کا گھر اۤنا بھی اب عید کی مانند ہی ہوتا تھا۔ کئی مہینوں بعد وہ کچھ دنوں کے لیے گھر اۤتا تو گویا سارے گھر میں رونق لگ جاتی۔ اس کی پسند کے پکوان پکاأے جاتے اور اس کا سٹیٹس کسی دوسرے ملک سے اۤئے سربراہ کا ہوتا جس پر کبھی کبھی دانی اور لویل منہ بھی بناتے کہ اس کے اۤنے پر اۤپ ہم سے غافل ہی ہوجاتی ہی۔ میں انہیں پیار سے سمجھاتی کہ ایسا نہیں ہے۔ تم لوگ میرے ساتھ ہی رہتے ہو جبکہ وہ بے چارا اتنے دنوں بعد گھر اۤتا ہے اس لیے میں اس سے تھوڑا زیادہ کرلیتی ہوں جبکہ حقیقت واقعی یہی تھی کہ اۤکاش جب گھر اۤتا تھا تو مجھے اور کسی کا ہوش ہی نہیں ہوتا تھا۔ وہ ہوا کی طرح اۤتا اور اۤندھی کی طرح چلا جاتا۔ یہاں اس کے جانے کے اگلے لمحے سے ہی اس کے دوبارہ اۤنے کا انتظار میری اۤنکھوں میں اُمڈ اۤتا۔
اب اس کی ٹریننگ سخت ہوچکی تھی۔ سردی بھی اپنے جوبن پر تھی اور پھر ان کی مشکل ٹریننگز اور اس سے بھی مشکل سزاأیں۔ کبھی کبھی تو میں سوچتی ہوں کہ اتنی مشکل سزاأوں کے بعد یہ فوجی جوان بچ کیسے جاتے ہیں کیوں کہ عام انسان ان سزاأوں کا شاید دس فیصد بھی برداشت نہ کرپائے۔ ایسے ہی ایک سزا کا اس نے بتایا جو ایک دفعہ اس کی پلاٹون کو ملی تھی۔ یہ سزا splashingکہلاتی ہے جس میں تمام کیڈٹس کو محض ایک شارٹ میں لٹا کر ان کی چھاتی پر برف جیسا ٹھنڈا پانی پھینکا جاتا ہے اور ساتھ ساتھ ڈانٹ ڈپٹ بھی ہورہی ہوتی ہے۔ اس سزا میں زیادہ تر کیڈٹس پہلی بالٹی پر ہی اپنے رویہ پر معافی مانگ لیتے ہیں، لیکن اۤکاش کا تو حساب ہی الٹا تھا۔ اۤکاش پر جب پہلی بالٹی ڈالی گئی تو وہ خاموش پڑا سہتا رہا۔ اس پر پانی پھینکنے والے سینئر کیڈٹ نے گرج دار اۤواز میں پوچھا۔
Will you do it again?””
“Yes Sir! I will”
اۤکاش کے اس مختصر جواب نے سینئر کیڈٹ کو غصہ چڑھا دیا۔ اس نے اۤکاش پر ایک بالٹی اور پھینکنے کے بعد اپنا سوال دہرایا اور اۤکاش نے اپنا جواب۔ یعنی ”ہاں! میں کروں گا۔” اس پر سینئر اۤگ بگولا ہوگیا اور بہت زیادہ پانی اس کے سینے پر پھینکنے لگا۔ اب دوسرے سینئرز نے درمیان میں پڑ کر اسے روکا اور سمجھایا کہ تمہارا کیڈٹ ابھی ضد میں اۤگیا ہے۔ تم بھی ضد پر اڑے رہے اور اسے کچھ ہوگیا تو معاملہ خراب ہو جائے گا۔ اس کے سمجھانے پر سینئرز نے اسے گرج دار اۤواز میں کمرے میں جانے کا کہا۔ تمام کیڈٹس اپنے کمرے میں اۤگئے۔ اۤکاش کے بیج میٹس نے اسے کپڑے بدلواأے اور اسے گرم بستر میں لٹایا۔ جب وہ نارمل ہوگیا تو اس کے بیج میٹس نے اس سے استفسار کیا کہ تم کیوں ضد پر اڑ گئے تھے؟ پہلی بار میں ہی سوری کرکے بات ختم کرتے۔ ان کی بات سن کر اۤکاش مسکرا دیا اور کہا کہ یہی تو میں نہیں کرنا چاہتا تھا۔ ایک تو میں اس کی انا توڑنا چاہتا تھا۔ دوسرا یہ کہ میں اپنی حد چیک کرنا چاہتا تھا کہ مجھ میں کتنی برداشت ہے۔
اس کے اس جواب نے اس کے سبھی دوستوں کو ششدر کردیا۔ وہ حیرت زدہ تھے لیکن یہ بیٹھا مسکرا رہا تھا۔
وہ ایسا ہی جنونی تھا۔شاید یہ مقام و مرتبہ ملتا بھی جنونیوں کو ہی ملتا ہے۔
٭۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔٭

Loading

Read Previous

بلتستانی لوک کہانی | ماس جنالی

Read Next

چنبیلی کے پھول (قسط نمبر ۱)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!