ماں کا آکاش

داستان حیات

پیدائش
2اکتوبر 1990ء کا سورج اپنی پوری رعنائی اور خوبصورتی کے ساتھ طلوع ہوا تھا۔ سورج کی کرنیں ہلکی ہلکی ٹھنڈی ہوا کے ساتھ جسم کو تازگی بخش رہی تھیں۔ وہ معمول کی طرح ہی منگل کا ایک دن میرے لیے بہت غیرمعمولی تھا۔ کیوں کہ اس دن اۤکاش دنیا میں اۤیا تھا۔
میں ایک ماہ پہلے ہی بحرین سے واپس پاکستان آئی تھی اور اب اپنے والدین کے ساتھ گوہر اۤباد میں رہ رہی تھی۔ گوہر اۤباد ایبٹ اۤباد کے نواح میں واقع ایک چھوٹا سا علاقہ ہے۔ 1987ء میں شادی کے بعد میں بحرین منتقل ہوگئی تھی۔ میرے شوہر ڈاکٹر اۤفتاب ربانی وہاں ایک اسپتال میں ملازمت کے ساتھ ساتھ اپنی تعلیم بھی جاری رکھے ہوئے تھے۔ اپنی ملازمت اور تعلیم کے سلسلے میں انہیں کئی مرتبہ انگلینڈ بھی جانا اۤنا پڑتا لیکن ان کا دل پاکستان کے لیے ہی دھڑکتا تھا۔ اپنی تعلیم مکمل کرلینے کے بعد ان کا ارادہ پاکستان واپس اۤکر اپنے وطن کے لیے ہی اپنی خدمات وقف کرنے کا تھا۔ لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔
1990ء میں عراق کے سربراہ صدام حسین نے کویت پر حملہ کردیا اور امریکہ نے کویت کی مدد کے لیے اپنی فوج وہاں بھیج دی۔ چوں کہ کویت اور بحرین ساتھ ساتھ ہی واقع ہیں اس لیے کشیدگی کے اۤثار بحرین تک بھی پہنچ رہے تھے۔ ان دنوں میں امید سے تھی۔ میرا بڑا بیٹا دانش بھی اس وقت صرف سوا سال کا تھا۔ اس صورتحال میں اۤفتاب میرے اور بچوں کے لیے بہت فکرمند رہنے لگے اور اۤخر ایک روز انہوں نے مجھے اور دانش کو پاکستان بھیج دیا۔ وہ خود وہاں کچھ روز مزید رکے اور اپنے معاملات نمٹا کر پاکستان اۤگئے۔
کون جانتا تھا کہ جس بچے کی روح کو اللہ خلیجی ممالک کی انتہائی کشیدہ صورتحال میں وجود میں لایا، بعد میں اسی بچے نے دہشت گردی کی عفریت میں لپٹے پاکستان کو کشیدگی سے نکالنے کے لیے اہم فریضہ سرانجام دینا ہے اور اس عمر میں جب مائیں بچوں کی خواہشات پوری ہوتا دیکھنے کے ارمان دل میں سجائے بیٹھی ہوتی ہیں، وہ اپنی جان وطنِ عزیز کے لیے قربان کردے گا۔
اس تمام صورتحال کے بعد 2اکتوبر کا دن ”اۤکاش” کی صورت گویا ہمارے لیے نئی زندگی لایا تھا۔ اس کے کانوں میں اذان اس کے ماموں نے دی تھی جبکہ گھٹی خالہ نے۔ میں چوں کہ اپنے والدین کے گھر رہاأش پذیر تھی، اس لیے میرے شوہر، اۤکاش کے پیدا ہونے کی اطلاع سنتے ہی اۤکاش کی دادی کے ساتھ دوڑے چلے اۤئے اور اۤتے ہی اپنے لخت ِ جگر کو اپنے سینے سے لگا لیا۔ میں کتنی ہی دیر مسکرا کر اس لمحے کو دیکھتے رہی۔ اۤفتاب اسے گود میں لیے ہوئے تھے، کھیل رہے تھے اور منہ سے اۤواز نکال نکال کر اسے بہلا رہے تھے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے اۤکاش بہت لاغر سا تھا، لیکن اس وقت بھی اس کی اۤنکھیں پوری طرح کھلی ہوئی تھیں۔ اۤکاش کی اۤمد سے جہاں سبھی لوگ سرشار تھے، وہیں میرے بڑے بیٹے دانش کی خوشی بھی دیدنی تھی۔ دانش اس وقت محض ڈیڑھ سال کا تھا اور اۤکاش کی صورت اسے گویا کوئی کھلونا مل گیا تھا۔ وہ اپنے ننھے ننھے قدموں سے چلتا اۤکاش کے پاس اۤتا اور اۤگے سے میں اسے پکڑ لیتی جس پر وہ خوب شور مچاتا۔ میں بس مسکرا دیتی۔ مجھے پتا تھا کہ میری باتیں کہاں اس ڈیڑھ سال کے بچے کی سمجھ میں اۤنی ہیں لیکن میں پھر بھی اسے سمجھانے کی کوشش کرتی کہ بھائی ابھی بہت چھوٹا ہے۔ بڑا ہوکر تمہارے ساتھ کھیلے گا۔ جواب میں وہ ”اوں اۤں” کرتا رہتا۔ دانش کی طرح اۤکاش کا نام بھی اس کے والد نے ہی رکھا تھا۔ بعد میں وقت نے ثابت کیا کہ اۤکاش واقعی اسمِ بامسمیٰ تھا۔
شروعات میں اس کے کم وزن اور لاغر صحت کی وجہ سے میں بہت پریشان رہتی۔ کئی مرتبہ ایسا بھی ہوتا کہ وہ دودھ بھی نہ پیتا اور میری جان پر بن اۤتی۔ میں ہرممکن کوشش کرجاتی کہ یہ کسی طرح دودھ پی لے۔ ساری ساری رات اسے لے کر بیٹھی رہتی۔ کبھی اس کی مالش کرتی، کبھی جھولا جھلاتی۔ کبھی وہ سکون سے سو جاتا تو میں بھی سکھ کا سانس لیتی۔
اس دوران موسم بدلنا شروع ہوگیا۔ ہمارے علاقے میں یوں بھی سردی کی شدت زیادہ ہوتی تھی۔ گیس تب تک وہاں پہنچی نہیں تھی اور بجلی کے ہیٹر سردی کا مقابلہ کرنے میں ناکام رہتے۔ ایسی صورتحال میں اسے سردی سے بچانے کے لیے میں بہت زیادہ گرم کپڑوں کا استعمال کرتی جس سے وہ موٹا تازہ لگتا اور مجھے بے اختیار اس پر پیار اۤجاتا۔ وہیں اس کا عقیقہ بھی ہوا اور صدقے کے لیے اس کے بال اتارے گئے۔ وہ بھی ایک یادگار دن تھا۔
رفتہ رفتہ اۤکاش کی صحت ٹھیک ہوتی گئی اور اس کے گال بھی بھر گئے۔ میرا دل بے اختیار اس کے گال کھینچنے کا کرتا، لیکن یہی کام جب کوئی اور کرتا تو میرا دل دھڑک اٹھتا اور میں فوراً اسے گود میں لے لیتی۔ وہ تھا ہی ایسا کہ فوراً ہی سب کی اۤنکھوں کا تارا بن جاتا۔
سردیوں کے چار مہینے گزار کر ہم اپنے ایبٹ اۤباد والے گھر میں شفٹ ہوگئے۔ اۤکاش پانچ ماہ کا ہوچکا تھا۔ ابھی ہمیں یہاں شفٹ ہوئے ایک ماہ ہی ہوا تھا کہ ایک اندوہناک واقعہ پیش اۤیا۔ اۤکاش کے نانا جو پچھلے تین چار سال سے ڈائیلسز پر تھے، ان کے گردے کام کرنا چھوڑ گئے اور وہ اس دارِفانی سے کوچ کرگئے۔ مجھ پر یہ خبر قیامت بن کر گزری اور میں اۤناً فاناً وہاں پہنچی۔ مجھے نہیں خبر اس دوران دانش اور اۤکاش کو میں نے کیسے سنبھالا۔ مشکل وقت تھا، گزر گیا۔ وہاں جس نے بھی میرے بچوں کو دیکھا، یہی تلقین کرتا رہا کہ میں اپنے بچوں کی نظر زیادہ اتارا کروں جس پر میں بس مسکرا دیتی۔ تھوڑے دن وہاں رک کر میں اپنے گھر واپس اۤگئی۔
دانش کے لیے اۤکاش کوئی کھلونا ہی تھا۔ وہ سارا سارا دن اس سے کھیلتا رہتا لیکن اس نے کبھی اسے تکلیف پہنچانے کی کوشش نہ کی بلکہ وہ چھوٹے چھوٹے ٹوٹے پھوٹے جملوں میں مجھے اۤکاش کی حرکات سے اۤگاہ رکھتا۔ چھوٹے بچے کی پیدائش کے بعد گھر کے بڑے بچوں میں جو جلن اور مقابلہ کی فضا قائم ہو جاتی ہے، خدا کا شکر دانش کے ساتھ ویسا نہیں تھا۔ وہ سارا دن اۤکاش کے اۤگے پیچھے رہتا اور جواب میں اۤکاش بھی قلقاریاں بھر کر اسے دیکھے جاتا۔
اس دوران اۤکاش کے تایا جان کچھ عرصہ رہنے کے لیے ہمارے گھر اۤئے۔ ان کی اۤمد سے گھر کی رونق مزید بڑھ گئی۔ ان کے بچوں کی توجہ کا مرکز بھی اۤکاش ہی ہوتا۔ ضیاأ جو اس وقت صرف تیرہ سال کا تھا، اۤکاش کا اتنا خیال رکھتا کہ سب اسے اۤکاش کی ”دوسری امی” کہنا شروع ہوگئے۔ دانش کی رسمِ ختنہ تو پہلے ہی ہفتہ کروا دی گئی تھی لیکن اۤکاش چوں کہ پیدائش کے وقت سے ہی بہت کم زور سا تھا، اس لیے اس کی مرتبہ یہ رسم کچھ دیر سے ہوئی۔ تب اۤکاش سات ماہ کا تھا۔ ساری فیملی کو بلا کر ایک تقریب منعقد کی گئی۔ اس دن اۤکاش بہت ہی پیارا لگ رہا تھا۔ تقریب سے واپسی پر جو بھی مجھے مل کر جاتا، وہ یہ مشورہ لازمی دیتا کہ میں اۤکاش کی نظر اتارتی رہا کروں۔ اس ستاأش پر میں پھولے نہ سماتی اور بے اختیار اسے چوم لیتی۔

شام کو اسے بہت زیادہ بلیڈنگ شروع ہوگئی۔ میرے تو جیسے ہاتھوں کے طوطے نہیں اڑ گئے۔ مجھے اس وقت اۤکاش کو سنبھالنا بہت مشکل ہو جاتا اگر اۤفتاب نہ ہوتے۔ انہوں نے اس کی مرہم پٹی کی جس سے اس کا خون بہنا بند ہوا۔ وہ ساری رات میں نے اس کے پاس جاگ کر گزاری تھی۔ ہفتہ بھر میں وہ بالکل ٹھیک ہوگیا۔
اب اس نے لڑکھڑا کر اور گر گر کر چلنا شروع کردیا تھا تو میں اۤکاش کے لیے ایک walker لے آئی جس میں سارا دن وہ ادھر سے ادھر گھومتا رہتا۔ اب وہ کافی صحت مند بھی ہوگیا تھا اور زیادہ پیارا بھی۔ اس لیے شاید اکثر اسے نظر لگ جاتی اور وہ چوٹ لگوا بیٹھتا۔ اکثر ایسا ہوتا کہ walker پہ لڑکھتا ہوا وہ براۤمدہ پھلانگ جاتا اور براۤمدے سے متصل سیڑھیوں سے walkerسمیت ہی نیچے جاگرتا۔ پھر رونے کا ایک نا ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو جاتا۔ کبھی کہیں چوٹ تو کبھی سر پر گومڑ، کبھی تو میں بے اختیار اس کی حرکتوں پرہنس پڑتی اور کبھی خود اس کے ساتھ رونے لگ جاتی۔
بہرحال، وقت گزرتا گیا۔ اۤکاش نے چلنا شروع کردیا اور ہماری دوڑیں لگ گئیں۔ ہم میں سے کوئی نہ کوئی اس کے پیچھے پیچھے ہوتا کہ وہ خود کو نقصان نہ پہنچا لے۔ گھر کے سارے سو”چ بورڈز کو ٹیپ لگا کر بند کردیا گیا۔ سیڑھیوں کے دروازے کو دن میں کئی مرتبہ چیک کیا جاتا کہ کہیں وہاں سے گر نہ پڑے۔ اس دوران وہ کئی مرتبہ بیمار بھی ہوا۔ کبھی موشن تو کبھی انفیکشن۔ ایک مرتبہ اس کے پیٹ میں کوئی بیکٹیریا چلا گیا اور اسے ہاسپٹل میں تین چار دن ایڈمٹ بھی رہنا پڑا۔ ڈاکٹروں کی دواأی کے ساتھ ساتھ میں اپنے دیسی ٹوٹکے بھی اس پر اۤزماتی رہتی۔
ایک مرتبہ ایک عجیب واقعہ ہوا۔ جب اۤکاش ڈیڑھ دو سال کا ہوگا۔ وہ مجھے گھر میں کہیں نظر نہ اۤیا۔ میں اسے اۤوازیں دیتی ایک سے دوسرے کمرے کا چکر کاٹنے لگی۔ وہ کہیں نہیں ملا۔ میرا دل زور زور سے دھڑکنا شروع ہوگیا۔ میں باہر براۤمدے میں آئی تو حیران رہ گئی۔ باہر بہت تیز ہوا چل رہی تھی اور درخت تیز تیز جھول رہے تھے۔ ایسے منظر میں کوئی بھی بچہ ڈر کر گھر کے اندر گھس جائے لیکن اۤکاش بڑے انہماک سے اس منظر میں کھویا ہوا تھا۔ اسے دیکھ کر لگ ہی نہیں رہا تھا کہ یہ ڈیڑھ دو سال کا کوئی بچہ ہے۔ ایسا لگتا جیسے قدرتی مناظر کا دلدادہ کوئی شخص بیٹھا اپنے جذبات کی تسکین کررہا ہے۔ وہ وہیں بیٹھ کر وہ منظر اپنی اۤنکھوں میں اتارنے لگی۔
کچھ تو تھا اس کی شخصیت میں جو وہ عام سا بچہ ہوکر بھی عام نہیں تھا!

٭۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔٭

تعلیم
ہم نے اپنے بڑے بیٹے دانی (دانش) کو ساڑھے تین سال کی عمر میں نرسری میں داخل کروایا تھا۔ اۤکاش اس وقت دو سال کا ہوچکا تھا۔ میں ابھی اسے گھر پر ہی پڑھاتی تھی۔ شروع کی ABC، 123 اور ا ب پ تو اسے دانی کو سن سن کر ہی اۤچکی تھی۔ وہ ذہین ہی ایسا تھا۔ دانی جب بھی سکول کے لیے تیار ہوتا، کاشی بھی ساتھ جانے کی ضد کرتا۔ کبھی کبھی وہ بری طرح رو بھی پڑتا۔ ایسی حالت میں مجھے اسے سنبھالنا بہت مشکل ہو جاتا۔ اسے مختلف حیلے بہانوں میں لگاتی، تب کہیں جا کر اس کا دھیان بٹتا۔ لیکن یہ صرف وقتی ہوتا۔ اسے بھی دانی کی طرح سکول جانے کا بہت شوق تھا۔ اۤخر ہم بھی اس کی ضد کے اۤگے مجبور ہوگئے۔ وہ ڈھائی سال کا تھا جب اس کا داخلہ کروانے ہم اسے سکول لے گئے۔ سکول انتظامیہ نے اتنے چھوٹے بچے کو داخل کرنے سے منع کردیا لیکن کاشی نے انہیں 123 اور ا ب پ سنا کر جیسے حیران ہی کردیا۔ بالاۤخر اسے ایڈمیشن دے دیا گیا۔ اس دن ڈھائی سال کے کاشی نے مجھے جتنا فخر محسوس کروایا، وہ ناقابلِ بیان تھا۔
اۤخر وہ دن بھی اۤگیا جب کاشی پہلی بار سکول گیا۔ تیار ہوتے وقت اس کی خوشی اۤج بھی میرے ذہن کے پردے پر پوری طرح محفوظ ہے۔ سکول یونیفارم میں وہ کسی شہزادے سے کم نہیں لگ رہا تھا۔ کہیں اسے میری ہی نظر نہ لگ جائے، اسی خیال سے میں نے کئی مرتبہ اس کی بلاأیں لیں۔
خیر سکول جانا اب اس کے لیے معمول بن گیا تھا۔ لیکن ایک بات جو میں نے نوٹ کی وہ یہ کہ کاشی روز بہ روز پڑھائی میں کمزور ہوتا جارہا ہے۔ جو چیزیں اور باتیں میں نے اسے سکول بھیجنے سے پہلے یاد کروائی تھیں، وہ بھی اس کے ذہن سے نکلنا شروع ہوگئی تھیں۔ اس وقت میری چھوٹی بیٹی لویل بھی ابھی پیدا ہوئی تھی اس لیے میرا زیادہ تر دھیان اس کی طرف ہی رہتا۔ لیکن جب ایک روز میں نے دیکھا کہ کاشی کورہ کاغذ ہوا پڑا ہے تو مجھے تشویش ہوئی اور میں نے اۤفتاب صاحب سے یہ بات کی۔ وہ بھی کچھ سنجیدہ ہوگئے۔ پھر جب ہم نے اس معاملہ کی چھان بین شروع کی تو ہمیں پتا چلا کہ کاشی کا زیادہ تر وقت تو کلاس روم سے باہر گزرتا ہے۔ کبھی ٹیچرز روم میں تو کبھی پلے گراؤنڈ میں۔ وہ اپنی باتوں سے سب کا دل لگائے رکھتا تھا اور اسی لیے جن ٹیچرز کا لیکچر فری ہوتا، وہ اسے ٹیچرز روم میں بلا کر اس کے ساتھ کھیلتی رہتیں۔ یہ سب جان کر اۤفتاب صاحب اور میرا پارہ چڑھ گیا۔ اگلے ہی روز سکول جا کر ہم پرنسپل سے ملے اور سخت برہمی کا اظہار کیا۔ انہوں نے معذرت چاہی لیکن ہم مزید وقت برباد نہیں کرسکتے تھے۔ اس لیے ہم نے کاشی کا داخلہ وہاں سے ختم کروا کے اسے اگلے سکول میں کروا دیا۔ دانی پہلے ہی کسی دوسرے سکول میں شفٹ ہوچکا تھا۔
اس سکول میں کاشی کی صلاحیتیں ٹھیک سے نکھر کر سامنے آئیں۔ وہ پہلے سے زیادہ قابل اور ہوشیار ہوگیا۔ اۤفتاب صاحب بھی روزانہ دونوں بچوں کو خود لے کر بیٹھتے اور ان کو پڑھاتے جس کا اثر نظر اۤرہا تھا۔ کاشی ہر کلاس ٹیسٹ میں نمایاں نمبرز لیتا۔ اس کے علاوہ ہم نصابی اور غیرنصابی سرگرمیوں میں بھی وہ اپنی جگہ بنا چکا تھا۔ سکول میں ایک ٹیبلو میں اس نے قائداعظم کا کردار نبھایا۔ کئی دن تک وہ قائداعظم بن کر ہی گھر میں گھومتا رہا اور ہم محظوظ ہوتے رہے۔ اس کی لکھاأی بھی اچھی ہورہی تھی اور یہ سب میرے لیے نہایت سکون کا باعث تھا۔ کبھی کبھی میرا دل بے اختیار رب کا شکر ادا کرتا کہ انہوں نے اۤفتاب صاحب کی صورت مجھے اتنا بہترین ساتھی عطا کیا جن کے ہونے سے میری زندگی اتنی خوبصورت اور مطمئین گزر رہی تھی۔
پہلا سال مکمل ہوا۔ اۤکاش نے اپنی کلاس میں دوسری پوزیشن حاصل کی تھی۔ وہ سارا دن اۤکاش سب کو اپنی کامیابی کا ہی بتاتا رہا تھا۔ اس سکول میں اۤکاش نے تیسری کلاس تک پڑھا اور نمایاں ہی رہا۔

ذہین وہ تو شروع سے تھا، اور بڑے بزرگ کہتے اۤئے ہیں کہ جو بچہ جتنا ذہین اور قابل ہوتا ہے، وہ اتنا ہی شرارتی بھی ہوتا ہے اور یہیں اس کی ذہانت نے ہمیں پریشان بھی بہت کیے رکھا۔ وہ اکثر مارکیٹس اور گلیوں محلوں میں ہاتھ چھڑا کر غائب ہو جاتا اور جب اسے ڈھونڈ ڈھونڈ کر ہمارے سانس خشک ہو جاتے، تب جاکر وہ کہیں سے نمودار ہو جاتا۔ ایک مرتبہ اۤفتاب صاحب دانی اور کاشی کو لے کر لاہور گئے تو وہاں کے مشہور پی سی ہوٹل میں انہوں نے قیام کیا۔ دونوں بچوں کے لیے یہ تجربہ نیا تھا۔ انہیں کھیلنے اور شرارتیں کرنے کے لیے ایک نئی دنیا میسر اۤگئی۔ وہ سارا وقت وہاں لفٹ میں اوپر نیچے اۤتے جاتے رہے۔ کبھی خالی لفٹس اوپر نیچے بھیجتے تو کبھی لفٹس روک کر کھڑے ہوجاتے۔ ہوٹل کا عملہ ان کی شرارتوں کے اۤگے بے بس تھا۔ اۤخرکار بڑی مشکلوں سے انہیں قابو کیا گیا۔ کچھ عرصے بعد ہمارا اسی ہوٹل میں قیام کا اتفاق ہوا۔ کافی وقت گزر جانے کے باوجود بھی وہاں عملے نے دونوں بچوں کو پہچان لیا اور وہ واقعہ یاد دلایا۔ ہم کتنے ہی دن اس واقعہ پر ہنستے رہے۔
اسی طرح جب ہم پوری فیملی حج کے لیے گئی ہوئی تھی تو اۤکاش وہاں بھی کہیں گم ہوگیا۔ انسانوں کا اتنا مجمع اور چھوٹا سا اۤکاش۔۔۔۔۔۔ اگر وہ نہ ملا تو؟ اس سے اۤگے میں سوچ ہی نہ پاتی۔ میرا رو رو کربرا حال تھا۔ ہونٹوں پر صرف ایک دعا کہ یااللہ! میرا لخت ِ جگر مل جائے۔ دعا قبول ہوئی، وہ خود کہیں سے کھیلتا کودتا میری اۤنکھوں کے سامنے اۤگیا۔
اس وقت مجھے اندازہ نہیں تھا کہ اۤکاش کو مجھ سے ایسے جدا نہیں ہونا۔ بلکہ وہ پوری شان و شوکت سے مجھ سے وداع لے گا جہاں جنت میں اس کا بھرپور استقبال کیا جائے گا۔
٭۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔٭

سعودی عرب میں قیام

نومبر 1998ء کو اۤفتاب ملازمت کے سلسلے میں سعودیہ چلے گئے۔ فیملی ویزا لگنے میں چوںکہ تین چار ماہ کا عرصہ درکار تھا اس لیے ہمیں یہیں قیام کرنا پڑا۔ یہ چار ماہ کا عرصہ جو بچوں نے اۤفتاب کے بغیر گزارا، انہیں بہت یاد کیا۔ تینوں ہی بچے افسردہ ہوگئے تھے لیکن چوں کہ کاشی اپنے ابو سے زیادہ قریب تھا، تو اسے تو جیسے چپ سی لگ گئی۔ دانی اور کاشی نے اپنی اداسی کا ایک حل نکالا۔ انہوں نے اپنے ابو کو خط لکھنا شروع کردیے۔ کاشی انہیں سکول میں ہونے والے چھوٹے چھوٹے واقعے سے لے کر گھر میں ہونے والی ہر ہر روداد کا احوال لکھتا۔ جب بھی وہ انہیں خط لکھتا، میں بڑے انہماک سے اسے نوٹ کرتی۔ اس کے چہرے پر ایک ایسی چمک ہوتی جیسے خط میں وہ اپنے ابو کو دیکھ رہا ہو۔ اۤفتاب صاحب بھی اس کاوش سے بڑا خوش تھے کہ محض تیسری جماعت میں پڑھنے والا اۤکاش اتنا ذہین اور سمجھدار ہوگیا ہے۔ اسی اثناءمیں بچوں کے امتحانات شروع ہوگئے جس میں تینوں بچوں نے امتیازی نمبروں سے پوزیشنز حاصل کیں اور الگ الگ خط لکھ کر اپنے ابو کو اپنے رزلٹ کا احوال بتایا۔ دیارِ غیر بیٹھے اۤفتاب صاحب کی خوشی کا عالم مجھے یہاں تک محسوس ہوا۔
مارچ 1999ء میں ہمارا ویزا اۤگیا۔ تب تک باقی کاغذی کارروا أی اور بچوں کے سرٹیفکیٹس بھی تیار ہوچکے تھے تو ہم ویزا اۤنے کے بعد فوری طور پر جانے کی تیاریاں کرنے لگے۔ بچے پہلی مرتبہ جہاز کا سفر کررہے تھے اس لیے تینوں ہی پرجوش تھے، لیکن اۤکاش کسی اور ہی قسم کا بچہ تھا۔ وہ لطف اٹھانے کے ساتھ ساتھ اردگرد کی چیزوں کو نوٹ بھی کررہا تھا۔ جیسے پختہ عمر کا کوئی شخص کسی مشاہدہ میں مصروف ہو۔ وہ ایسا ہی تھا۔ قدرتی مناظر کا دلدادہ، چیزوں کا مشاہدہ کرنے والا، سب سے پیار کرنے والا۔
مختلف سوچوں اور بچوں کے دلچسپ سوالوں کے درمیان سفر کٹ گیا اور ہم سعودی ائیرپورٹ پر لینڈ کرگئے۔ اۤفتاب صاحب کو دیکھ کر تینوں بچے لپک کر ان پر چڑھ دوڑے۔ وہ بھی بچوں سے ایسے مل رہے تھے جیسے پہلی بار مل رہے ہوں۔ جب سب سے میل ملاپ ہوگیا تو اۤفتاب صاحب ہمیں گھر کی طرف لے کر روانہ ہوئے۔ گھر جس کالونی میں واقع تھا، وہ بہت خوبصورت تھی۔ اۤس پاس ایک ہی قسم کے گھر، وسیع جگہ، بچوں کے لیے پلے گراؤنڈ اور پلے گراؤنڈ میں لگے جھولے۔ بچوں کو وہ جگہ بہت پسند آئی۔ وہ گاڑی سے اترتے ہی اردگرد کا جائزہ لینے کے لیے بھاگ کھڑے ہوئے۔ میں بھی اۤفتاب صاحب کے ساتھ چھوٹا موٹا سامان گاڑی سے اتار کر گھر میں رکھنے لگی۔
ہماری سعودیہ اۤمد سے ایک ہفتے بعد اۤفتاب صاحب نے پوری فیملی سمیت حج کرنے کا ارادہ کیا ہوا تھا تو اس ایک ہفتے میں مقامی جگہوں اور مارکیٹوں کی سیر کے ساتھ ساتھ ہم نے ضروری سامان بھی خریدا۔ یہ ایک ہفتہ پلک جھپکتے گزر گیا اور وہ دن اۤگیا جب ہم حج کے لیے روانہ ہوئے۔
روانگی سے قبل ہم سب نے احرام باندھے۔ چھوٹے سے اۤکاش اور دانش احرام باندھے بہت ہی پیارے لگ رہے تھے لیکن اۤکاش، دانش سے زیادہ خوب صورت اور گول مٹول لگ رہا تھا، بالکل ایسے جیسے کوئی گڈا ہو۔ بچوں کے لیے بھی یہ چیز نئی تھی۔ وہ تیاری کے ساتھ ساتھ اپنے ابو سے مختلف سوالات بھی کیے جاتے جس کا وہ مسکرا کر جواب دیتے۔ سب سے دلچسپ سوالات کاشی کے ہی ہوتے۔ احرام کیوں باندھتے ہیں؟ یہ کھل گیا تو؟ اس کی ایک سائیڈ کیوں نہیں ہے؟ یہ ہمارے عام کپڑوں جیسا کیوں نہیں؟ اسی طرح کی باتیں بے اختیار مسکرا دینے پر مجبور کردیتیں۔ سفر شروع ہوچکا تھا۔ ہم براستہ سڑک مکہ مکرمہ جارہے تھے۔ وہ سفر بھی بچوں کے لیے کسی پکنک سے کم نہیں تھا۔ وہ سارے راستے کھیلتے کودتے رہے۔ اۤفتاب صاحب نے راستے کے لیے کھانے پینے کا کافی سامان خرید لیا تھا۔ بچوں کو جب بھی بھوک لگتی، وہ بیگ سے اپنی پسند کی چیزیں نکال کر کھا لیتے۔ اۤکاش بس میں موجود یگر لوگوں کو بھی چیزیں بانٹ رہا تھا۔ ایک دو بچوں کو، جو چیز لینے میں ہچکچا رہے تھے، اس نے زبردستی بھی چیزیں پکڑاأیں اور اسی طرح ہم مکہ پہنچ گئے۔

خانہ کعبہ پہ پہلی نظر پڑتے ہی ایک سرور اور سکون کی کیفیت سارے جسم میں دوڑ گئی۔ لوگ سچ ہی کہتے ہیں، خانہ کعبہ پر بندہ پہلی نظر ڈالے تو ہٹانا بھول ہی جاتا ہے۔ بچوں کو بھی اللہ کا گھر بہت پسند اۤیا۔ اۤفتاب صاحب یہاں بھی بچوں کو اللہ کے گھر کے بارے میں بتاتے رہے۔ وہ جمعہ کا دن تھا جب ہم نے حج ادا کیا۔ یعنی ہمیں حجِ اکبر کی سعادت نصیب ہوئی۔ پور پور خدا کے ذکر اور شکر میں ڈوبا ہوا تھا۔ بچے اۤفتاب صاحب نے سنبھالے ہوئے تھے۔ لویل کو انہوں نے کندھوں پر بٹھا لیاتھا جب کہ دانی اور کاشی پیدل ہی تھے۔ وہ بھاگ کے کبھی اۤگے چل پڑتے تو کبھی پیچھے رہ جاتے۔ یہیں پر کاشی کہیں غائب بھی ہوا تھا جو بعد میں خود ہی کھیلتا کودتا ہوا واپس اۤگیا۔ اۤفتاب صاحب نے اسے تھوڑی سے جھاڑ بھی پلاأی۔ وہ سارا دن کاشی خفا خفا سا رہا تھا۔
مکہ سے واپسی پر ہم مدینہ روضہء رسولؐ کی زیارت بھی کرنے گئے۔ مکہ میں ایک جاہ و جلال سا طبیعت پر غالب رہتا جب کہ مدینہ میں ٹھنڈک سی محسوس ہوتی ہے۔ شدید خواہش کے باوجود ہم مدینہ زیادہ دیر قیام نہ کرسکے کیوں کہ اۤفتاب صاحب کو اسپتال سے دس دن کی چھٹیاں ملی تھیں اور انہیں دوبارہ جوائن کرنا تھا۔
حج سے واپسی پر کچھ دن تو ہم نے تھکن اتاری۔ پھر نزدیک ہی واقع ایک انٹرنیشنل سکول میں تینوں بچوں کا داخلہ کروا دیا گیا۔ دانش کو پانچویں، اۤکاش کو چوتھی اور لویل کو پہلی کلاس میں ایڈمیشن ملا۔ جلد ہی میری بھی اسی سکول میں بطور ٹیچر جاب ہوگئی تو ہم سب ساتھ ہی اۤنے جانے لگے۔ اس سکول میں مختلف ممالک کے بچے پڑھتے تھے اور سب ذہانت میں ایک سے بڑھ کر ایک تھے لیکن کاشی ان میں کچھ مختلف تھا۔ جلد ہی اس نے یہ ثابت کردیا کہ وہ ایک ذہین اور لاأق بچہ ہے اور اس طرح وہ وہاں ٹیچرز کا منظورِ نظر بھی ہوگیا۔ نصابی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ تقاریر اور دیگر ہم نصابی سرگرمیوں میں حصہ لینے کی وجہ سے اس میں مزید نکھار پیدا ہورہا تھا۔ اۤکاش جتنا عرصہ بھی اس سکول میں پڑھا، داد و تحسین کا سلسلہ کسی نہ کسی حوالے سے چلتا رہا۔
سکول کے بعد بچوں کی وہی لگی بندھی روٹین۔۔۔۔۔۔ کچھ دیر اۤرام کیا اور پھر گھر کے سامنے ہی واقع پارک میں کھیلنے چلے گئے۔ پڑوس کے کافی بچوں سے ان کی دوستی ہوچکی تھی، اسی لیے سب مل کر کھیلتے۔ اۤکاش کے کھیل بھی اسی کی طرح نرالے ہوتے۔ وہ سب بچوں کو ملاتا اور وہ سب مختلف گھروں کی بیل بجا کر چھپ جاتے۔ اندر سے کوئی اۤتا اور یہاں وہاں دیکھ کر بڑبڑاتا ہوا واپس چلا جاتا۔ اس پر سب بچے بہت ہنستے۔ اسی طرح کے کئی دوسرے کھیل کھیلتے شام کا وقت گزر جاتا۔ کبھی کبھار ہم وہاں موجود دوسری فیملیز کے گھر بھی جاتے اور کبھی کبھار وہ بھی ہماری طرف اۤجاتیں۔ ان میں ایک پاکستانی میاں بیوی بھی تھے۔ وہ دونوں ہی ڈاکٹر تھے اور ان کی ایک بیٹی تھی ماہ نور۔ وہ جب بھی ہمارے گھر اۤتے، اۤکاش ماہ نور کے اۤگے پیچھے ہوتا۔ کبھی فریج سے اس کے لیے دودھ نکال کر لاتا تو کبھی پھل فروٹ، وہ روتی تو اسے چپ کروانے کی کوششیں بھی کرتا۔ ابھی وہ خود چوتھی کلاس میں تھا لیکن ماہ نور کا خیال وہ ایسے رکھتا جیسے وہ اس کی بیٹی ہو۔ ہم اس کی اس عادت پر خوب مسکراتے۔ میں دل ہی دل میں سوچتی کہ اۤکاش اپنے بچوں کا بھی ایسے ہی خیال رکھے گا۔ لیکن تب مجھے اندازہ ہی کہاں تھا کہ وہ وقت کبھی اۤنا ہی نہیں۔ اس وقت سے پہلے ہی اۤکاش اپنی جان اپنے وطن پہ قربان کرچکا ہوگا۔
سعودیہ میں قیام کے دوران کاشی کی ایک اور عادت اپنے ابو کے ساتھ لمبی لمبی واک کرنا تھی۔ ایسا نہیں تھا کہ دانی اور لویل کو اپنے ابو سے محبت نہیں تھی، لیکن کاشی کی دلی وابستگی کی نوعیت الگ ہی تھی۔ اسے ان کے ساتھ وقت گزارنا اچھا لگتا تھا۔ کبھی وہ ان کے ساتھ chessکھیلتا تو کبھی کچھ۔ وہ ان کے ساتھ پنجہ بھی لڑاتا جو کبھی اۤفتاب جان کر ہار جاتے تو اۤکاش بہت خوش ہوتا۔
سعودیہ میں ڈیڑھ دو سال کا یہ مختصر قیام بچوں کے مشاہدہ میں قابلِ ذکر وسعت کا باعث بنا۔ وہ مختلف ملکوں کے بچوں سے ملے، دوستی کی، ان سے سیکھا اور کچھ سکھایا بھی۔
اب واپسی کا سفر تھا۔ اگرچہ بچے واپس نہیں اۤنا چاہتے تھے، لیکن اۤنا تو تھا، ایک عظیم مقصد کی تکمیل کے لیے، مٹی کا قرض ادا کرنے کے لیے۔
٭۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔٭

Loading

Read Previous

بلتستانی لوک کہانی | ماس جنالی

Read Next

چنبیلی کے پھول (قسط نمبر ۱)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!