”اب بتاأو! وہ ڈھاأی ہزار تھا یا پچیس ہزار؟” وہ کش مکش میں پڑ گیا تھا کہ انابیہ کو کیا بتاأے۔ وہ واقعی اتنے ہی کمزور اعصاب کی تھی کہ سُن کر ہی بے ہوش ہو جاتی۔ لیکن سرفرازکو خاموش بیٹھا دیکھ کر وہ خود ہی جواب سمجھ گئی تھی۔ بے ہوش نہیں ہو”ی تھی مگر اس کی اۤنکھیں ضرور پھیل گئی تھیں۔
”سرفراز تم کیوں کرتے ہو اس قسم کے الٹے سیدھے کام؟”
”ارے میں اکیلا نہیں تھا ہم پورے سات کیڈٹس تھے اور ایسے ہی تو نہیں کود گئے تھے پیراشوٹ تھے ہمارے پاس۔ تم بھی ناں بچی کی بچی رہو گی۔ ذرا دل بڑا کرو اپنا اور تھوڑا دماغ بھی۔”
”نہیں کر سکتی میں کم از کم تمہارے معاملے میں۔۔۔۔۔۔ میں بہت کمزور ہوں اور ہمیشہ ایسی ہی رہوں گی۔” وہ اٹھ کر جانے لگی تھی۔
”سنو!” وہ اس کی اۤواز پر رُکی مگر پلٹی نہیں۔
”ایسی ہی رہنا۔” اس کے جملے پر اس نے پلٹ کر اسے دیکھا، جو ہتھیلی چارپاأی پر ٹکاأے اسے مُسکرا کر دیکھ رہا تھا۔ اس بار وہ بھی پوری مُسرتوں کے ساتھ مسکراأی اور بنا کچھ کہے نیچے اۤگئی۔
وہ نیچے اۤءی تو احمد پراٹھے کو ہری چٹنی سے لگا کر کھانے میں مصروف تھا۔ امی جی توے پر دوسرا پراٹھا سینک رہی تھی۔
”اۤپ تو سونے چلی گئی تھیں امی جی!” اس نے انہیں جاگتے دیکھ کر حیرت سے کہا۔
”ہاں مگر کچن میں کھٹ پٹ کی اۤواز پر باہر اۤءی تو احمد نظر اۤگیا بھوک لگی تھی اُسے تو میں نے کہا میں پراٹھے بنا دیتی ہوں۔”احمد بے شرموں کی طرح مُسکرایا۔ احمد کو دیکھ کر واقعی لگتا تھا کہ وہ بھوکا تھا حالاں کہ دو گھنٹے پہلے ہی اس نے کھانا کھایا تھا۔
”اۤپ کو پتا ہے امی جی! سرفراز اس بار کس اونچاأی سے چھلانگ لگا کر اۤیا ہے پورے پچیس ہزار فٹ سے۔” انہوں نے کچھ پل اس کی طرف دیکھا پھر کھلکھلا کر ہنس دی تھیں۔
”دیکھ لیا میری امی جی کتنی بہادر ہیں سب پتا ہے انہیں۔” سرفراز سیڑھیوں سے اترتا ہوا اۤیا۔
”ارے بیٹا یہ بچپن سے یہی سب تو کرتا اۤیا ہے۔ کبھی کہیںسے کود جاتا ہے کبھی کہیں سے دیوار پھلانگ جاتا ہے۔ بس اللہ نے اسے پر نہیں دیئے تھے، اب جب وہ بھی نصیب ہو گئے ہیں تو کہاں رُکے گا یہ۔” ان کی بات پر اسے تھوڑی شرمندہ ہو”ی تھی۔ سرفراز اب احمد کے پراٹھے میں سے نوالہ توڑ کر کھا رہا تھا۔
”اچھا امی جی کی ہونے والی بہو اب تم اپنے گھر کی طرف جاأو اور اب اپنی رخصتی کے دن ہی اۤنا۔” احمد نے اسے چھیڑا تھا۔
”ہاں اب جا کر اۤرام کر لو کل ویسے ہی مایوں ہے پھر تھکنا ہے تمہیں۔”
”جی خدا حافظ امی جی!”
”خدا حافظ بچے!” امی جی نے اس کا ماتھا چوما تھا۔ وہ جاتے جاتے ایک نظر سرفراز پر ڈال گئی تھی۔
انسان کا تجزیہ کیا جاتا تو پتا چلتا کہ انسان کیا ہے، صرف محبت۔۔۔۔۔۔ کبھی لوگوں سے، کبھی عادتوں سے اور کبھی چیزوں سے۔۔۔۔۔۔ اور انابیہ سر تا پا محبت تھی۔ کمزور سا دل رکھنے والی، جلدی رو دینے اور جلد ہی ہنس دینے والی۔ وہ چلی گئی تھی اور اب شاید اسے تب نظر اۤتی جب وہ اس کی شریکِ حیات کے روپ میں ہوتی۔ وہ بلاوجہ مسکرا رہا تھا۔۔۔۔۔۔ مسرت میں خوشی میں۔۔۔۔۔۔ اطمینان اور سرشاری اس کی اۤنکھوں سے چھلک رہی تھی۔
احمد نے اس کے ہاتھ کی پشت پر چپت لگاأی تو وہ ہوش میں اۤیا۔
”ایک نوالہ کھا لیا اب بس میں اپنے پراٹھے میں سے نہیں دوں گا۔” احمد نے ڈھٹاأی سے اس سے کہا تو وہ اس کے انداز پر مُسکرا کر رہ گیا۔۔۔۔۔۔
٭۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔٭
گھر اۤیا تو بابا اسٹڈی میں تھے وہ اپنے کمرے میں جانے کی بہ جاأے اسٹڈی میں ہی اۤگیا۔ وہ خود نہیں جانتا تھا کہ وہ ان کے پاس کیوں جا رہا تھا۔ اس کا دل اسے ان کے پاس لے جا رہا تھا یا شاید وہ شرمندہ تھا۔
”السلام علیکم بابا!” وہ ٹیبل لیمپ کی روشنی میں کو”ی کتاب پڑھ رہے تھے۔ اس کے اۤنے پر چونک گئے جیسے یقین نہ کر پا رہے ہوں کہ وہاں ارمش تھا۔ ”وعلیکم السلام اۤءو۔” وہ ان کے سامنے ہی ایک چیئر پر بیٹھ گیا تھا۔
”اۤپ ڈسٹرب تو نہیں ہو”ے؟”
”نہیں! میں بس یونہی ہسٹری لے کر بیٹھ گیا تھا اور کو”ی کام نہیں تھا تو۔”
”اۤپ کو اۤءین سٹاأن کی باأیو گرافیز کا بہت شوق ہے ناں۔” ان کی کولیکشن اۤءین سٹاأن پر لکھی گئی کتابوں سے بھری پڑی تھی۔
”ہاں بہت کچھ سیکھنے کو مل جاتا ہے۔” ان کے درمیان ایک بار پھر خاموشی در اۤءی۔
”ہیری ہوم کہاں تک پہنچا؟” کچھ لمحوں بعد انہوں نے پوچھا۔
”جی بلڈنگ ریڈی ہے بس پینٹ وغیرہ کا کام چل رہا ہے۔”
”ہونہہ! اسد نے بتایا تھا کہ تم اب اۤفس کم جاتے ہو زیادہ تر وہیں ہوتے ہو۔” اسد اس کا بزنس پارٹنر بھی تھا اور کلاس فیلو بھی اور ان کی فیملیز بھی ایک دوسرے سے واقف تھیں۔
”جی بابا! وہاں کام دیکھنا پڑتا ہے اور۔۔۔۔۔۔ میرا دل چاہتا ہے وہاں جانے کو۔۔۔۔۔۔ مجھے بہت سکون ملتا ہے وہاں۔”
احمد رضا نے اس کے چہرے کے تاثرات جاننے کی کوشش کی مگر وہ جان نہیں پاأے۔
”چلو اچھا ہے۔ کو”ی مسئلہ ہو تو مجھے بتانا۔”
”جی بابا!” وہ جانے کے لیے کھڑا ہو گیا۔
احمد رضا اسے جاتا دیکھتے رہے۔ اۤج انہیں اس میں کچھ بدلاأو نظر اۤیا۔ وہ ان سے عام طور پر نظریں نہیں ملا کرتا تھا۔ نظریں اس نے اۤج بھی نہیں ملاأی تھیں مگر اۤج اس نے اپنی گردن بھی نہیں اٹھاأی۔ وہ صرف گردن جھکاأے ٹیبل پر دھرے اپنے ہاتھوں کو دیکھتا رہا۔ وہ ہمیشہ انہیں افسردہ سا لگتا تھا مگر اۤج وہ انہیں ہارا ہوا لگ رہا تھا۔ انہیں فکرلاحق ہو”ی وہ ان کا چھوٹا بیٹا تھا وہ اقرار کرتے انکار کرتے وہ انہیں جان سے زیادہ عزیز تھا۔
ارحم ہمیشہ سے بہت فرماں بردار رہا تھا، جو انہوں نے کہا اس نے مانا تھا۔ انہیں اس پر زیادہ توجہ نہیں دینی پڑی تھی۔ ارمش ایسا نہیں تھا۔ وہ ہر چیز پر بہ اۤسانی تیار نہ ہوتا، پورے لاجک اسے چاہیے ہوتے تھے۔ اسے کسی چیز سے روکا جاتا تو اس کی وجہ بتانی پڑتی۔ کچھ غلط تھا تو کیوں تھا؟ یہ جانے بغیر کبھی ارمش غلط کو غلط نہیں مانتا تھا۔ انہوں نے اس پر بہت محنت کی تھی۔ وہ غلط نہیں تھا۔ اس بار احمد رضا ناکام ہو”ے تھے، ارمش رضا ابراہیم کے دماغ کو dictate کرنا حماقت تھی وہ جانتے تھے۔
اسٹڈی سے باہر اۤتے ہی وہ اپنے کمرے میں اۤگیا تھا۔ اس کی حالت عجیب ہو رہی تھی اس نے کبھی بابا کے سامنے اپنے اۤپ کو پشیمان ہوتا محسوس نہیں کیا تھا مگر اۤج وہ واقعی ان سے ہارا تھا۔
بابا اسے بہت عزیز تھے۔ بچپن سے وہ قدرے خاموش اور ایک سنجیدہ رہنے والا بچہ تھا مگر وہ بابا کے اۤتے ہی جیسے چارج ہو جاتا تھا اور دن بھر کی روداد انہیں سناتا تھا۔ ان کی چیزیں جگہ پر رکھتا تھا، چاہے جتنی بھی دیر ہو جاتی ان کے بغیر کھانا نہیں کھاتا تھا مگر وقت کے ساتھ ساتھ وہ دور ہو گئے تھے ،محبت وہ ان سے اۤج بھی اتنی ہی کرتا تھا۔ اس نے اپنی کمپنی کا نام ARI ارمش رضا ابراہیم نہیں بلکہ احمد رضا ابراہیم کی نیت سے رکھا تھا مگر انہیں یہ بات کبھی نہیں بتا پایا تھا۔ جھجھک تھی یا انا، وہ خود نہیں جانتا تھا مگر ان دونوں کو ایک دوسرے کا خیال تھا اور پرواہ تھی اس بات سے دونوں واقف تھے۔
وہ فریش ہو کر کچن میں کافی بنانے اۤگیا۔ کافی کا مگ لے کر وہ کمرے میں واپس اۤگیا۔رات کو فریش ہو کر وہ ایک کپ کافی ضرور پیتا تھا اور یہ کام وہ خود کرتا تھا کیوں کہ سارے نوکر اس وقت تک اپنے کوارٹرز میں جا چکے ہوتے تھے اور وہ ان کو تنگ نہیں کرنا چاہتا تھا۔ کمرے میں اۤکر اس نے اپنا موباأل اٹھایا اور ایک فولڈر میں جا کر پلے (Play)کا بٹن دبایا۔ موباأل میں سے ارمینہ کی اۤواز اۤنے لگی۔
”بہت لمبا نام نہیں ہے؟ پورا لیتے لیتے ٹرین چھوٹ جاأے۔” وہ مسکرایا تھا۔
”ہاں گھڑی سات منٹ پیچھے ہو تب بھی ٹرین چھوٹ جاتی ہے۔” یہ اس کی اپنی اۤواز تھی۔
”وہ اتفاق تھا ورنہ میری گھڑی بالکل ایکوریٹ ہوتی ہے۔ شاید اس کے سیل ختم ہونے والے ہیں۔”
”ایک اور بات بتاأو۔تمہیں میں چور لگتی ہوں؟”
”ایسا تو نہیں ہے اگر میں تمہاری جگہ ہوتی تو تمہارے ساتھ چلتی تمہاری مدد کیلئے۔”
اس نے وہ ریکارڈنگ چاربار سنی تھی۔ وہ نہیں جانتا تھا اس نے ارمینہ کی اۤواز کیوں ریکارڈ کی تھی۔ اس نے کسی کام سے موباأل نکالا تھا اور رکھنے کے بجاأے اسے ریکارڈنگ پر لگا کر یونہی بٹن دبا دیا تھا۔ اسے اس کی اۤواز بہت اچھی لگی تھی۔ اس کی اۤواز میں بہت دل فریب کھنک تھی۔ وہ اردو بھی بہت اچھی بولتی تھی۔ اس کا تلفظ، لفظوں کی اداأی بہت سادہ مگر خوبصورت تھی اس نے ریکارڈنگ بند کر دی مگر اس کے کانوں میں وہ اۤواز پھر بھی رس گھولتی رہی۔ کافی ختم کرنے کے بعد اس نے اپنے اۤفس کا کام ختم کیا جو ہیری ہوم کی وجہ سے رہ گیا تھا اور پھر وہ سونے کے لیے لیٹ گیا اس کی طبیعت اب بوجھل نہیں رہی تھی۔
٭۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔٭
وہ اۤج اپنی ڈیوٹی ختم کر کے سیدھا ہیری ہوم اۤگئی تھی۔ وہاں چند ورکرز تھے۔ ابھی ارمش نہیں اۤیا تھا۔ بلڈنگ کے کلر کا کام تقریباً ختم ہونے پر اس نے بلڈنگ کا ایک جاأزہ لیا، پینٹرز کو کچن کے رنگ کے متعلق کچھ ہدایات دیں اور پھر باہر اۤکر بیٹھ گئی۔ ارمش کے جانے کے بعد اس کے بابا بہت سے عجیب ہو گئے تھے۔ کھانا نہیں کھا رہے تھے کسی سے بات نہیں کر رہے تھے، حتیٰ کہ ارمینہ سے بھی نہیںجب کہ عام طور پر وہ فرید بابا سے بھی گھنٹوں بیٹھ کر باتیں کیا کرتے تھے۔ اسٹڈی میں بھی جانا انہوں نے بند کر دیا تھا وہ اپنے کمرے میں بیٹھے رہتے یا ٹی وی پر نیوز دیکھتے رہتے۔ ارمینہ نے وجہ جاننے کی کوشش کی تو وہ ٹال گئے تھے مگر وہ ان کے لیے پریشان تھی کچھ تھا جو بے چین کیے رکھتا تھا۔
وہ اپنی کہنی گھٹنے پر ٹکاأے چہرے کو ہاتھ کا سہارا دیئے گہری سوچ میں گم تھی۔ اسے خیال بھی نہیں ہوا کہ کسی نے اس کے دوپٹے کا کنارہ زمین سے اٹھا کر اس کے قریب چبوترے پر رکھا تھا۔
”اۤج تم سوچنے کا کام کیسے انجام دے رہی ہو؟”ارمش کی اۤواز پر وہ چونک کر پلٹی تھی بلوکلر کی جینز پر وہ واأٹ شرٹ پہنے اۤستینوں کو کہنیوں تک موڑے کھڑا اسے دیکھ رہا تھا۔
”ایسا بھی کیا سوچ رہی تھیں کہ تمہیں پتا ہی نہیں چلا کہ تمہارا دوپٹہ گندا ہو رہا ہے۔” اس نے اس کے دوپٹے کے کنارے کی طرف اشارہ کیا تھا۔
”اوہ! مجھے واقعی نہیں پتا چلا۔”
”جبھی تو پوچھ رہا ہوں کہ عادت کے خلاف سوچنے کا کام کیوں کر رہی تھیں؟” "It’s dangerous for you Dr. Armeena”
”ہاں ایک تم ہی تو ذہین ہو اس پوری دنیا میں۔” وہ چڑ کر بولی تھی۔
”جسے سوچنے کا ہنر اۤتا ہے۔” ایک وقفے کے بعد اس نے اضافہ کیا تھا۔
”نہیں خیر ایسا بھی نہیں ہے اۤءین سٹاأن کو بھی سوچنے کا ہنر اۤتا تھا۔”
”اوہ! تو اۤءین سٹاأن کے بعد ذہین ترین انسان تم ہو۔ ” اس نے کندھے اچکاأے تھے جیسے اقرار کر رہا ہو کہ ”ہاں میں ہی تو ہوں۔”
اس نے ہونٹ بھینچ کر اسے گھور کر دیکھا تھا اور وہ اپنے چہرے پر شریر سی مسکراہٹ سجا کے بلڈنگ کی طرف بڑھ گیا۔ بلڈنگ کے اندر بہت سے مزدور کام کر رہے تھے اور وہ وہاں موجود انجینئرز اور اۤرکیٹیکٹ سے بات کر نے لگا جن کو اس نے خاص طور پر بلوایا تھا۔ بلڈنگ کے حوالے سے ساری معلومات لے کر اور انہیں رخصت کر کے وہ اۤیا تو ارمینہ اب بھی وہیں چبوترے پر بیٹھی تھی مگر اب اس کے ہاتھ میں ایک پتا تھا جو شاید کہیں سے اڑ کر اس کے پاس اۤپہنچا تھا وہ پتے کو توڑ نہیں رہی تھی بس اسے ہاتھ میں پکڑے اسے دیکھ رہی تھی۔ وہ اس کے پاس اۤکرکھڑا ہو گیا تو اس نے پتے سے نظر ہٹا کر اس کی طرف دیکھا۔
”کیا ہوا؟” اس بار ارمش نے سنجیدگی سے پوچھا تھا۔
”کچھ نہیں۔” وہ واپس پتے کو دیکھنے لگی تھی۔ پاپا کا خیال اس کے ذہن میں ویسا ہی تھا۔
”گھر چلی جاأو تم شاید تھک گئی ہو۔”
”نہیں میں ٹھیک ہوں۔ تمہاری طرح مجھے بھی یہاں سکون ملتا ہے۔”
وہ کچھ کہے بغیر اۤگے بڑھ گیا اور اس نے اپنی توجہ پھر پتے پر مرکوز کر لی تھی۔
”یہ لے لیں باجی۔” اس نے سر اٹھا کر دیکھا تو ایک لڑکا ہاتھ میں ایک تھیلی لیے کھڑا تھا۔ اس نے تھیلی لی تو وہ فوراً چلا گیا وہ اس کے متعلق پوچھ بھی نہیں پاأی تھی۔ ارمینہ نے شاپر کھولا تو اس میں سینڈوچ تھا، ساتھ کولڈڈرنک کا ایک کین بھی تھا۔ اسے حیرت ہو”ی اسے سمجھنے میںکچھ پل لگے کہ یہ کس نے بھیجا ہے۔ اس نے ارمش کو دیکھا،بلڈنگ کے گیٹ پر کھڑا اس اۤدمی کو پیسے دے رہا تھا جو اسے وہ تھیلی دے کر گیا تھا، وہ ایسا ہی تھا۔ اسے احسان جتانا نہیں اۤتا تھا وہ خاموش رہتا تھا مگر اس کا عمل اس کے کردار کی گواہی دیتا تھا ارمینہ نے اپنی مسکراہٹ نہیں روکی تھی وہ واقعی بھوکی تھی مگر ٹینشن میں اسے احساس نہیں ہو پایا اس نے سینڈوچ ختم کر لیا تھا مگر اس کے ہاتھ میں ڈرنک اب بھی تھی۔
”ارمینہ ایک منٹ اندر اۤءو گی کچھ کام ہے۔” ارمش نے کہا تو وہ اس کے پیچھے اندر چل گئی۔ ”ڈسپنسری اس طرف ہے بتاأو یہ ٹھیک ہے؟ اتنی جگہ کافی ہے؟” وہ سنجیدگی سے پوچھ رہا تھا اور وہ اس جگہ میں ننھے سے کلینک کو سمانے کے بارے میں سوچ رہی تھی۔ ارمش ہر چیز پرفیکٹ چاہتا تھا۔
”ہاں بالکل! اتنی جگہ میں equipments تو اۤرام سے اۤجاأیں گے۔” اس کے جواب کے بعد اس نے مزدوروں کے عملے کو ڈسپنسری کی طرف لگا دیا تھا۔
”میرے کلاس فیلوز اور چند جاننے والے Peadiatricians ہیں، ان سے بھی بات کر لوں گی میں کو”ی نہ کو”ی ضرور اۤجاأے گا۔ ویسے بھی ڈاکٹرز بڑے نرم دل ہوتے ہیں۔” پورا جملہ سنجیدگی سے کہتے ہو”ے اس نے اۤخر میں اپنا چہرہ بہت معصوم بنا لیا تھا۔
”چلو دماغ نہ صحیح دل ہی صحیح، کچھ تو ہے۔” اس نے بھی سنجیدگی سے ہی جواب دیا تھا۔