”جو سُنا اس کی تصدیق چاہتی ہو؟ اس وقت زیرتعمیر ہے مگر مکمل ہو جاأے گی چند ماہ میں۔” ارمینہ اب تک حیران تھی۔ ہیری کو بھولی وہ بھی نہیں تھی مگر اس شخص نے تو اسے روگ بنا لیا تھا۔
”اور وہ کیا کرے گی؟” وہ سکتے سے نکلی۔
”عقل سے تھوڑے پیدل ڈاکٹرز کا علاج۔ تم بھی اۤنا۔” اس نے سنجیدگی چہرے پر سجاأے کہا۔
”باتیں مت بگھارو جو پوچھا ہے وہ بتاأو۔” وہ واقعی غصے میں اۤگئی۔
”اسٹریٹ چلڈرن کے لیے ہو گی یعنی سڑکوں پر جو بچے بے اۤسرا پھرتے ہیں ان کی کاأونسلنگ، رہاأش، دیکھ بھال اور تعلیم تاکہ سڑکوں پر پھرنے والا کو”ی اور ہیری بے خبری میں اپنی جان نہ گنواأے۔”
”اور مجھے کیوں بتا رہے ہو؟” اس نے گردن موڑ کر ایک نظر ارمینہ کو دیکھا پھر دوبارہ سامنے دیکھنے لگا۔
”تم وہ واحد نہیں ہو، میں نے جس سے رابطہ کیا ہے میں اور بھی ڈاکٹرز سے رابطے میں ہوں اور دوسرے بھی بہت سے پیشوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں سے بھی، ان سب کو اس اۤرگناأزیشن میں شامل کر رہا ہوں، مجھے ضرورت ہے۔ ان کا رہنے کا انتظام میری ذمے داری ہے مگر ان کی صحت اور تعلیم کے لیے مجھے مدد چاہیے۔”
ایک وقفے کے بعد وہ پھر سے کہنے لگا۔
”ان کی بنیادی تعلیم میری ذمے داری ہے اور پھر وہ جہاں جانا چاہیں میں انہیں سپورٹ کروں گا جب تک وہ اس قابل نہیں ہو جاتے کہ خود کو سپورٹ کر سکیں۔”
”مگر اس ملک میں اور بھی بہت سی این جی اوز ہیں وہ بھی تو یہی کر رہی ہیں تو پھر کیا فرق رہ جاتا ہے؟ یہ بس ایک اور این جی او ہی ہے۔”
”ہاں مگر۔۔۔۔۔۔ مجھے تھوڑا سکون مل جاأے گا۔ میں نتیجے کے بارے میں سوچے بغیر ایک کوشش کر رہا ہوں۔ میں نے اپنے اۤگے ایک بچے کو مرتے دیکھا ہے جس دن میں کسی بچے کو زندگی حاصل کرتے دیکھ لوں گا مجھے لگے گا میرا قرض اتر گیا۔ ” وہ دم بہ خود سی اسے دیکھتی رہ گئی۔ وہ اسے کئی بار حیرانی کے سمندروں میں غرق کرنے والا تھا۔
”اب اگر گھورنے سے فرصت مل جاأے تو ذرا سوچ لو کہ تمھیں کیا کرنا ہے۔ میں چاہتا ہوں بچوں کی صحت کے حوالے سے تم میرا ساتھ دو۔” اس کی مسلسل خود پر جمی نظروں کو محسوس کرتے ہو”ے ارمش نے کہا تو وہ ونڈ اسکرین کے باہر دیکھنے لگی۔
”میں تمھیں بتا دوں گی” کچھ سوچتے ہو”ے وہ کہنے لگی۔
”اوکے! مگر فی الحال مجھے اپنے گھر کا راستہ بتا دو میں پتا نہیں کتنی دیر سے گھومے جا رہا ہوں۔” ارمینہ کو ہوش اۤیا تو اسے احساس ہوا کہ وہ ایک ہی منظر کو دوبار دیکھ چکی تھی۔ وہ گاڑی اتنی دیر سے بے مقصد گھما رہا تھا اور اسے اس کی باتوں میں ہوش ہی نہیں رہا تھا۔
”تو تم پہلے پوچھتے ناں! اتنا ٹاأم ضاأع کر دیا۔” ایڈریس بتانے کے بعد اس نے اسے جتایا۔
”اگر پہلے پوچھتا تو تمھاری توجہ ہٹ جاتی۔”
“Illogical” اس نے تبصرہ کیا۔ وہ خاموش رہا تھا۔
”ویسے تمہیں یہ خیال اۤیا کیسے؟” اس نے کچھ وقفے سے پوچھا تو وہ بہت دھیما سا مسکرایا اور اس نے پہلی بار دیکھا کہ اس کے گال پر ایک ننھا سا ڈمپل پڑا تھا۔ اس کی مسکراہٹ بلاشبہ خوبصورت بھی تھی اور معصوم بھی۔ وہ مسکراہٹ سمیٹتے ہو”ے گویا ہوا ۔
”تمہیں معلوم ہے دنیا میں کچھ چیزیں ایسی ہیں جن میں اللہ نے سکون رکھا ہے جیسے نماز اور قراۤن۔۔۔۔۔۔ اور پھر کچھ چیزیں ایسی ہیں جن میں اللہ نے خوشی رکھی ہے جیسے چیریٹی، انسانی ہمدردی، دوسروں کی مدد۔ پہلے انسان سکون ڈھونڈتا ہے اسے لگتا ہے اسے سکون کے علاوہ اور کچھ نہیں چاہیے اور پھر جب اسے سکون مل جاتا ہے تو وہ خوشی ڈھونڈنے لگتا ہے۔ میں نے بھی امید دیکھی ہے، سکون کی پھر خوشی کی اور مجھے یقین ہے یہ امید مجھے واقعی سکون اور خوشی تک لے جاأے گی۔” اس نے سنجیدگی کے ساتھ اپنی بات مکمل کی۔
” اور کہاں دیکھی تم نے یہ امید؟” اسے تجسس تھا تو وہ پوچھ بیٹھی۔
”تمہاری اۤنکھوں میں۔” ارمینہ نے ایک جھٹکے سے اس کی طرف دیکھا۔
”تمہاری اۤنکھوں میں یہ جو نیلا رنگ ہے اصلی ہے یا لینس لگے ہیں؟” کمالِ مہارت سے اس نے بات بدل دی۔
”نہیں! یہی رنگ ہے میری اۤنکھوں کا۔”
”ہاں جبھی تم مجھے یونان یا ترکی سے اۤءی ہو”ی لگی تھیں۔”
”گریس اور ترکی کے لوگ بہت حسین ہوتے ہیں۔” اس نے کچھ اترا کر کہا۔
”ہاں بس یہیں سے ثابت ہوا کہ تم پاکستانی ہو۔”
”یہاں سے راأٹ ہاأوس نمبر 22 ہے۔” اس نے تلملا کر کہا۔
”تو یہ ہے تمہارا گھر؟ مجھے یقین ہے اندر نہیں بلاأو گی اس لیے خداحافظ” وہ اس کے گھر کی جانب دیکھتے ہو”ے کہہ رہا تھا۔
”مجھے یقین ہے میرے بلانے پر بھی تم اندر نہیں اۤءو گے۔ تمھارے پاس وقت کم ہے۔ خداحافظ۔”
وہ گاڑی سے اتر گئی اور ڈور بیل بجا دی جب تک دروازہ نہیں کھلا وہ وہیں کھڑا رہا۔ ارمینہ کی پشت اس کی جانب تھی۔ اور وہ گاڑی میں بیٹھا صرف اسے دیکھ رہا تھا۔ بلا جواز، بے ساختہ مبہوت ہوا، ایسا نہیں تھا کہ اس نے حسن نہیں دیکھا تھا وہ جس سوساأٹی میں موو کرتا تھا وہاں حسن عام تھا مگر ارمینہ میں کچھ خاص تھا۔ اس کی اۤواز غیرمعمولی طور پر میٹھی تھی، شخصیت میں عجیب سی مقناطیسیت تھی، وقار تھا۔ اس کی اۤنکھوں سے ذہانت چھلکتی تھی، ان میں انسانیت تھی۔ اس کا دل صاف تھا اس میں ریاکاری اور بغض نہیں تھا۔ بہت عام اور سادہ سے مزاج کی لڑکی تھی۔ بہت شوخ نہ ہی بہت خاموش۔ وہ بولتی تھی پر بلا جواز نہیں اس کی باتوں میں ٹھہراأو تھا اور اۤنکھوں میں چمک۔ یہ ارمینہ کی وہ خوبیاں تھیں جن کا اس نے گاڑی میں بیٹھے بیٹھے اعتراف کر لیا تھا۔ دروازہ کھل گیا تو اس نے گاڑی اسٹارٹ کر دی۔
”السلام علیکم پاپا!” اس نے اندر اۤتے ہی بلند اۤواز میں سلام کیا۔
”وعلیکم السلام بچے!” یہ کہتے ہو”ے سامنے والے دروازے سے ایک قدرے عمر داز مگر بہت پُروقار سی شخصیت کا مالک وہیل چیئر پر بیٹھا باہر اۤیا۔
”کیسے ہیں پاپا؟” انہیں دیکھتے ہی وہ بولی ۔
”میں تو بالکل ٹھیک ہوں یہ بتاأو تم کس کے ساتھ اۤءی ہو ارمینہ؟ جاوید بتا رہا تھا کہ تم نے اسے گھر جانے کا کہہ دیا تھا۔” وہ فکرمندی سے بولے۔
”جی پاپا”وہ گھٹنوں کے بل ان کے پاس فرش پر ٹِک گئی۔
”اۤپ کو یاد ہے ایک بچے کی اچانک موت کے بارے میں بتایا تھا میں نے اۤپ کو، لگ بھگ چھے مہینے پہلے کی بات ہے اسٹریٹ چاألڈ تھا جسے دل کی بیماری تھی۔” وہ تفصیل بتا کر انہیں یاددلانے لگی۔
”ہاں یاد ہے۔” وہ بہت سنجیدہ ہو گئے تھے۔
”تو جس لڑکے نے ہمیں ہسپتال پہنچایا تھا ناں وہ مجھ سے ملنے اۤیا تھا۔” ایک وقفے کے بعد وہ دوبارہ بولی:
”دراصل وہ اسٹریٹ چلڈرن کیلئے ایک این جی او بنا رہا ہے۔ اتنے عرصے سے اسی میں لگا ہوا تھا، اب تقریباً وہ مکمل ہونے والی ہے۔ بچوں کو تعلیم، صحت اور رہاأش سب دیں گے۔ وہ جب تک بچے خود اس قابل نہ ہو جاأیں کہ اپنے اۤپ کو سنبھال لیں۔ تاکہ اۤءندہ کو”ی ہیری کی طرح نہ مرے۔”
”چلو یہ تو اچھی بات ہے۔وہ یک دم مطمئن ہو گئے”
”جی ! وہ مجھ سے پوچھ رہا تھا اگر میں بھی ہیری ہوم سے منسلک ہو جاأوں۔۔۔۔۔۔ یعنی ایک ڈاکٹر کے طور پر! اور شاید ایک والنٹیئر کے طور پر بھی۔”
”ہوں! اور تم نے کیا جواب دیا؟”
”فی الحال کچھ نہیں! کہا ہے کہ سوچ کر بتاأوں گی اۤپ بتاأیں کیا کروں؟” وہ ہمیشہ کی طرح ان سے اجازت لے رہی تھی۔
”بیٹا ہوش سنبھالنے سے لے کر زندگی کی اۤخری سانس تک ہم جو کرتے ہیں اپنے لیے ہی کرتے ہیں تو اگر دوسروں کیلئے کچھ کرنے کا موقع ملے تو میرے خیال سے تو منع نہیں کرنا چاہیے۔” وہ مسکراأی۔ وہ جانتی تھی پاپا کا جواب یہی ہو گا۔
”اچھا ناشتہ تو اۤپ نے کر لیا ناں؟”
”ہاں! جب جاوید نے مجھے تمہارا بتایا، تو میں نے اۤٹھ بجے ہی ناشتہ کر لیا تھا۔ مجھے لگا تمہیں دیر ہو جاأے گی اگر پتا ہوتا جلدی اۤجاأو گی تو انتظار کر لیتا۔”
”ٹھیک! پاپا میں تھک گئی ہوں سونے جا رہی ہوں۔”
”بالکل نہیں پہلے کچھ کھاأو پھر سونا۔”
”نہیں پاپا موڈ نہیں ہے۔”
”میں جانتا ہوں اکیلے کھانے کی وجہ سے موڈ نہیں ناں چلو کو”ی بات نہیں میں دوبارہ ناشتہ کر لوں گا تمہارے ساتھ مگر