”کچھ نہیں” زبردستی مسکرانے کی اس نے کوشش کی تھی۔
”وہ تم باہر کس سے بات کر رہے تھے؟”
”ارمینہ تھی۔”
”اندر نہیں اۤءی؟”
”نہیں” وہ خاموش ہو گئے اور واپس اپنی جگہ پر چلے گئے۔
”ارمش بھاأی۔۔۔۔۔۔ ارمینہ نہیں اۤءی ناں۔۔۔۔۔۔ اسے ہماری کو”ی فکر نہیں ہے۔” حارث نے اس کے پاس اۤکر اس سے ارمینہ کی شکایت کی تھی اور ارمش کو سمجھ نہیں اۤیا کہ وہ ہنسے یا رو”ے؟ اسے اس کی معصومیت پر پیار بھی اۤیا تھا اور اس کی بے وقوفی پر غصہ بھی مگر یہ سب ایسے ہو گا اس نے نہیں سوچا تھا۔ اس کا ارادہ بس اتنا تھا کہ ارمینہ کی غیرموجودگی بابا محسوس کر لیتے اور انہوں نے کی بھی تھی۔ ایک بار ان کا دل پگھل جاتا پھر بعد میں وہ ارمینہ کو سب کچھ سمجھا دیتا مگر ہر چیز اس طرح دیکھ کر ارمینہ کا دل ٹوٹ گیا تھا اس نے حارث کو اٹھا کر اپنی گود میں بٹھا لیا تھا۔
”ارمینہ اۤءی تھی اور میں نے اسے بتا دیا کہ تمہیں کچھ نہیں ہوا ہے اور وہ باہر سے ہی واپس چلی گئی۔۔۔۔۔۔ اس کی طبیعت واقعی خراب تھی۔”
”وہ اۤءی تھی۔۔۔۔۔۔؟” حارث کا چہرہ یک دم کھل اٹھا تھا۔
”ہاں اۤءی تھی۔”
”تو پھر اندر اۤجاتی انجواأے کرتی ہم سب کے ساتھ۔”
”شاید اس کا موڈ نہ ہو اۤج۔۔۔۔۔۔ پھر کبھی۔”
”پھر کب؟” اور اس بات کا جواب تو ارمش کے پاس بھی نہیں تھا۔ اس نے حارث کو نیچے اتار دیا۔
٭۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔٭
ساری رات انہوں نے جاگ کر گزار دی تھی۔ اگلے دن وہ گھر پر ہی رہے تھے۔ اس رات وہ ارمش سے کہنا چاہتے تھے کہ وہ گھر جانا چاہتے ہیں اسی لئے وہ اس کے پیچھے باہر تک اۤگئے تھے۔ ان کا دم گھٹ رہا تھا۔ وہ بس وہاں سے چلے جانا چاہتے تھے مگر باہر انہوں نے ارمینہ کو دیکھ لیا اور پھر اس کی ساری باتیں بھی سن لیں، وہ کتنی دل شکستہ تھی، کتنی ٹوٹی ہو”ی، اس کے تمام الفاظ انہیں اپنے سینے پر گرتے محسوس ہو رہے تھے۔ وہ اپنے اۤپ کو اب ہر چیز کا قصور وار ٹھہرا رہے تھے اور وہ جانتے تھے کہ وہ واقعی قصور وار تھے۔ وہ ارمینہ اور سرفراز کی زندگی کے اتار چڑھاأو کے قصور وار تھے، وہ ارمش کے بچپن کی محرومیوں کے قصوروار تھے اور وہ ارمش اور ارمینہ کے درمیان فاصلوں کے قصوروار تھے۔ ارمش ارمینہ سے محبت کرتا تھا یہ اس نے خود ان کو بتایا تھا۔ مگر ارمینہ بھی ارمش سے اتنی ہی محبت کرتی تھی یہ وہ کل جان گئے تھے۔ کو”ی پھانس سی دل میں چبھ گئی۔ انہیں اس وقت وہاں کھڑے ارمینہ کو دیکھ کر اپنی تمام تر کوتاہیاں یاد اۤءیں۔ وہ صحیح معنوں میں شرمندہ تھے۔
”بڑے بابا۔۔۔۔۔۔” جب تم پیدا ہو”ی تھیں تو احمد کہتا تھا میں تم سے اسے بڑے بابا کہلواأوں۔” وہ کچن میں کھڑی کام کر رہی تھی اور پاپا اس سے باتیں کر رہے تھے اور یونہی احمد رضا کا ذکر اۤگیا تھا۔ خلافِ توقع اۤج پاپا کا موڈ اچھا تھا اور وہ احمد رضا کے بارے میں زیادہ باتیں کر رہے تھے جب کہ وہ ان کے ذکر پر چڑچڑی ہو رہی تھی۔
”کیوں؟” اس نے بے زاری سے پوچھا تھا۔
”وہ کہتا تھا تم اس کی بھی بیٹی ہو۔”
”کہنے اور ماننے میں فرق ہوتا ہے پاپا۔” اسی لمحے کچن میں فرید بابا داخل ہو”ے۔
”ارمینہ بی بی! ارمش صاحب اۤءے ہیں۔” اس کا خون کھولنے لگا جب کہ لاأونج کی ٹیبل پر بیٹھے پاپا نے بھی چونک کر انہیں دیکھا۔ ہاتھ میں پکڑی چھری پر ارمینہ کی گرفت مضبوط ہو گئی ۔
”ان سے کہہ دیں گھر پر کو”ی بھی نہیں ہے۔”
”ارمینہ ایسے نہیں کرتے بیٹا۔۔۔۔۔۔ فرید بابا بٹھاأیں اسے۔”
”بیٹھنے نہیں اۤیا ہوں میں انکل۔” وہ خود ہی لاأونج میں داخل ہو گیا۔
ارمینہ نے چھری کو زور سے کچن کے شیلف پر پٹخا اور چولہے کی طرف مڑ گئی وہ اس کی شکل بھی نہیں دیکھنا چاہتی تھی۔
”اۤءو اندر بیٹھتے ہیں ارمش۔” پاپا کل ہونے والا سارا معاملہ جانتے تھے اس لئے معاملے کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش میں لگے تھے۔
”نہیں مجھے اس سے بات کرنی ہے۔” اس نے اۤنکھوں کا رخ ارمینہ کی طرف موڑ لیا جس کی اس کی جانب پشت تھی وہ اب بھی نہیں پلٹی تھی۔ وہ سرے سے اس کی موجودگی کو کو”ی اہمیت ہی نہیں دے رہی تھی۔
”ارمش پھر کبھی کر لینا وہ اپ سیٹ ہے۔”
”اسی لئے ابھی کرنا چاہتا ہوں۔” وہ جو کڑاہی میں پکوڑے ڈال رہی تھی بے دھیانی میں اپنی انگلی اندر ڈال بیٹھی اور اس کی شروع کی دو انگلیاں جل گئیں اس کے ہاتھ سے پیالہ چھوٹ کر شیلف پر گرگیا مگر اس کے منہ سے تب بھی ایک اۤہ تک نہیں نکلی وہ ڈھیٹ بنی پیالہ شیلف سے اٹھا کر دوبارہ شروع ہو گئی۔
”ارمینہ بیٹا باہر اۤءو۔ تمہارا ہاتھ جل گیا ہے۔” سرفراز محمود نے بے چینی سے کہا۔
”ٹھیک ہے پاپا” وہ مانی نہیں تو وہ بیساکھی سمیت اندر اۤنے لگے جس پر وہ مڑی۔
”اۤپ مت اۤءیں اندر۔۔۔۔۔۔ میں اۤ رہی ہوں۔”
”فوراً باہر اۤءو۔” اس نے چولہا بند کیا نلکا کھولا ہاتھ پر پانی گرا کر وہ باہر اۤءی۔ مگر وہاں بھی رکے بغیر سیدھی اپنے کمرے میں چلی گئی۔
”انکل میں اوپر چلا جاأوں؟ مجھے اس سے بات کرنی ہے پلیز۔”
”ہاں بیٹا۔۔۔۔۔۔ جاأو۔” وہ اس کے پیچھے اس کے کمرے تک اۤگیا۔ دروازہ حسبِ توقع اندر سے بند تھا۔ اس نے دروازہ پیٹنا شروع کر دیا مگر اس نے دروازہ نہیں کھولا۔ پھر کافی دیر بعد ارمینہ نے خوداۤکر دروازہ کھول دیا۔ وہ اندر اۤگیا۔ وہ بیڈ پر بیٹھی تھی اور اپنے ایک ہاتھ میں دوسرا زخمی ہاتھ لئے ہو”ے تھی۔
”تم نے کو”ی جیل یا کریم لگاأی اس پر۔”
”تم کیوں اۤءے ہو؟”
”تمہارے لئے” ارمش کی اس بات پر وہ تلخی سے ہنسی تھی۔
”میرے لئے؟ کیوں میرا وجود تو ایک مکھی کے برابر ہے، وہی کان کے پاس اۤکر بھن بھن کرتی ہے تنگ کرتی ہے۔۔۔۔۔۔ الجھن ہوتی ہے اس کی موجودگی سے سب ہاتھ ہلا ہلا کر اسے خود سے دور کرتے رہتے ہیں۔۔۔۔۔۔”
”مگر کیا تمہیں پتا ہے مکھیاں انسان کے لئے کتنی اہم ہوتی ہیں۔۔۔۔۔۔ جانتی ہو جس دن مکھیاں اس دنیا سے ختم ہو گئیں اس کے ٹھیک چار سال بعد انسان بھی ختم ہو جاأیں گے۔ اۤءن سٹاأن نے کہا ہے یہ” اس کے بے تکے جملے پر وہ مزید غصے میں اۤگئی مگر خاموش رہی۔ وہ اس کے بیڈ ساأڈ ٹیبل پر رکھی کریم اٹھانے لگا جو اس نے اس کے کمرے میں اۤنے سے پہلے لگاأی تھی مگر اس کے اندر اۤنے سے اب تک کے وقفے میں خود ہی اسے پونچھ بیٹھی تھی۔ اسے پتا نہیں چلا وہ غصے میں اپنی وہی انگلی گھس رہی تھی۔ وہ اس کے اۤگے بیڈ پر اۤکر بیٹھ گیا اور اس کا ہاتھ اۤگے کرنے لگا۔ اس نے احتجاجاً ہاتھ پیچھے کھینچنا چاہا مگر وہ ایسا کر نہیں پاأی۔ وہ اۤج تک نہیں سمجھ پاأی تھی کہ اس شخص کے وجود میں ایسی کون سی کشش تھی کہ وہ اس کے اۤگے بے بس ہو جایا کرتی تھی۔ ارمش نے نرمی سے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا اور نرمی سے اس کی انگلیوں کے پوروں پر کریم لگانے لگا۔
”تمہیں پتا ہے میں نے جو کل کیا وہ کیوں کیا۔۔۔۔۔۔؟” کریم لگاتے لگاتے وہ بول رہا تھا۔ اسے درد نہیں ہو رہا تھا، اسے کچھ بھی محسوس نہیں ہو رہا تھا وہ بس اسے چپ چاپ دیکھ رہی تھی۔۔۔۔۔۔ یہی تو چاہتی تھی وہ، صفاأی، غلطی کی تلافی، کو”ی ایسا جملہ جس سے اس کے دل میں لگی اۤگ بجھ جاتی۔
”ارمینہ بابا تمہیں اب بھی اتنا ہی چاہتے ہیں۔۔۔۔۔۔ تم ان کی بہن کی اۤخری نشانی ہو، انہیں بہت عزیز ہو بہت محبت ہے انہیں تم سے۔۔۔۔۔۔” وہ کریم لگا چکا تھا مگر اس نے اس کا ہاتھ اب بھی پکڑا ہوا تھا ورنہ وہ پھر اپنی انگلی کا وہی حشر کر لیتی۔
”وہ بس قبول نہیں کرتے۔۔۔۔۔۔ انہیں کچھ بدگمانیاں ہیں۔۔۔۔۔۔ تمہارے حوالے سے، انکل سرفراز کے حوالے سے اور اس کی وجہ یہ ہے ارمینہ کہ وہ انابیہ پھپھو سے بے تحاشا محبت کرتے تھے۔۔۔۔۔۔ جب ہم کسی کو بہت جی جان سے چاہتے ہیں ناں تو ہم اس شخص کو لے کر بہت حساس ہو جاتے ہیں پھر اس کی ہلکی سی خراش بھی جان لیوا ثابت ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔ ان کے ساتھ بھی یہی رہا ہے۔۔۔۔۔۔” وہ ایک پل کو رکا۔ اب وہ ارمینہ کو غور سے دیکھ رہا تھا اور کسی بڑے کی طرح اسے سمجھا رہا تھا۔
”۔۔۔۔۔۔ مجھے سب کچھ اس دن پتا چلا جب میں شکرپاراں اۤیا تھا اور پھر بابا نے مجھے کہانی کا وہ پہلو بتایا جو ان کی نظر نے دیکھا۔۔۔۔۔۔ پھر میں نے امی اور ارحم سے سب کچھ پتا کیا اور تمہارے پاپا سے بھی۔ تمہیں کچھ بھی بتانے سے انہیں میں نے منع کیا تھا اور سب سے پوچھنے کے بعد مجھے کہانی کا وہ رخ پتا چلا جو بابا کی اۤنکھ سے اوجھل رہا یا شاید وہ سب کچھ سامنے ہوتے ہو”ے بھی دیکھ نہیں سکے۔۔۔۔۔۔ جانتی ہو وہ کہانی کا رخ پہلی بار ان پر کب کھلا ؟ جب تم نے گھر پر اۤکر ان سے وہ سب کچھ کہا ۔۔۔۔۔۔ تم نے انہیں وہ باب پڑھایا جو انہوں نے خود نہیں پڑھا تھا۔۔۔۔۔۔ وہ ان کے اس خول پر لگنے والی پہلی چوٹ تھی جو انہوں نے اپنے اوپر چڑھا رکھا ہے۔۔۔۔۔۔ وہ اسی دن سے بہت ڈسٹرب رہے ہیں ارمینہ۔۔۔۔۔۔ اور میرا مقصد بھی صرف یہی تھا کہ وہ سچ جان جاأیں اور جب وہ سچ کو جان کر اسے قبول کر لیں گے تو تمہیں بھی پورے دل سے اپنا لیں گے کیوں کہ کہیں نہ کہیں وہ بھی یہ بات جانتے ہیں کہ غلطی کسی کی بھی نہیں تھی۔۔۔۔۔۔ وہ انکل سرفراز سے بھی اتنی ہی محبت کرتے ہیں جتنی پہلے کرتے تھے۔۔۔۔۔۔ محبتوں میں کبھی کمی نہیں اۤتی ارمینہ۔۔۔۔۔۔ یہ ایک ایسا سورج ہے جو ہر بارش اور ہر طوفان کے باوجود بھی اپنی پوری اۤب و تاب کے ساتھ چمکتا رہتا ہے۔ ہم اس کی روشنی کو ماند نہیں کر سکتے۔۔۔۔۔۔” وہ سانس لینے کو رکا اور پھر دوبارہ مخاطب ہوا:
”میں چاہتا ہوں سب پہلے جیسا ہو جہاں کو”ی کسی سے کی جانے والی محبت کو ایک دوسرے سے چھپاتا نہ پھرے۔۔۔۔۔۔ اور تم۔۔۔۔۔۔ تم بھی بابا سے محبت کرتی ہو میں جانتا ہوں۔۔۔۔۔۔ تمہیں ان کے رویے سے تکلیف ہو”ی ہے کیا میں دیکھ نہیں سکتا۔۔۔۔۔۔؟ اگر انہیں چاہتی ہو ان سے محبت کرتی ہو تو اس بات کا اعتراف کرو ارمینہ جانتی ہو تم کس کے جیسی ہو۔۔۔۔۔۔” اس نے سر اٹھا کر فوراً ارمش کو دیکھا تھا۔
”چہرہ تمہارا انابیہ پھپھو کی طرح ہے مگر مزاج۔۔۔۔۔۔ مزاج میں تم بالکل بابا جیسی ہو۔ بہت جلدی بدگمان ہو جانے والی۔۔۔۔۔۔ لوگوں کے بارے میں خود سے فیصلے کر لینے والی، نتیجے اخذ کر لینے والی اور چیزوں کو حالات کو منفی سوچ کی عینک سے دیکھنے والی۔۔۔۔۔۔ بابا بالکل ایسے ہی ہیں ارمینہ! ان کی اسی عادت، اسی مزاج کی وجہ سے یہ سب کچھ ہوا۔ وہ جانتے ہیں کہ قصور کسی کا نہیں مگر وہ اس بات کو مان نہیں رہے ہیں۔۔۔۔۔۔ انا اۤگے اۤجاتی ہے ان کی کہ جس کو انہوں نے اب تک دھتکارا اسے اۤج کیسے اپناأیں؟ یہ عادت ان کی ہمیشہ سے ہے مگر اس کی بنا پر ان سے محبت کرنا ترک تو نہیں کیا جا سکتا ناں۔۔۔۔۔۔” وہ رکا پھر اس نے جیب سے تصویر نکالی اور وہ تصویر ارمینہ کے اۤگے کر دی اس کا جلا ہوا ہاتھ اب بھی ارمش کے ایک ہاتھ میں تھا۔
”یہ تو۔۔۔۔۔۔”
”تم ہو۔۔۔۔۔۔ یاد ہے تمہیں یہ کب کی ہے؟”
”میرے اسکول کی annual day کی اسی سال میری طبیعت خراب ہو”ی تھی۔۔۔۔۔۔ اور۔۔۔۔۔۔”
”اور بابا ہی تمہیں ہسپتال لے گئے تھے اسی لئے انہیں پتا ہے کہ تم کارن الرجک ہو۔ بابا نے یہ تصویر اپنی کسٹڈی میں رکھی ہو”ی ہے اور اپنی اسٹڈی میں رکھا ہوا تھا وہ روز اسے دیکھ کرتمہیں یاد کرتے تھے۔۔۔۔۔۔” وہ یک ٹک اس تصویر کو دیکھے گئی۔
”وہ تم سے بہت محبت کرتے ہیں ویسے ہی جیسے انابیہ پھپھو سے کرتے تھے۔۔۔۔۔۔” اس کے اۤنسو ٹپ ٹپ گر رہے تھے۔
”تو پھر۔۔۔۔۔۔ ایسا سلوک کیوں کیا میرے ساتھ؟”
”شاید خود کو یقین دلانے کی خاطر کہ وہ تم سے نفرت کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔ مگر وہ نہیں کرتے ارمینہ۔۔۔۔۔۔ وہ کر ہی نہیں سکتے۔ اور تم۔۔۔۔۔۔ خود ہی سوچ کر بیٹھ گئی کہ میں تمہیں اگنور کر رہا ہوں۔۔۔۔۔۔ یہ جاننے کے بعد کہ تم انابیہ پھپھو کی بیٹی ہو میں نے رنگ بدل لیا اور تو اور۔۔۔۔۔۔ ہیری ہوم سے تمہیں ماأنس (minus) کر رہا ہوں۔” وہ اب بھی نیچے دیکھ رہی تھی اور نچلا ہونٹ کاٹنے لگی تھی۔ ”ہو ناں تم ان کے جیسی؟ میں صرف تمہاری کمی بابا کو فیل کروانا چاہتا تھا۔ اسی لئے نہیں بلایا تھا میں نے اور انہوں نے کی بھی تھی وہ مجھ سے بار بار تمہارا پوچھ بھی رہے تھے۔۔۔۔۔۔ مگر اس حارث کے بچے نے سارا کام بگاڑ دیا۔ اٹھا کر تمہیں فون کر دیا اور ایک تم کہ اۤبھی گئیں فوراً۔۔۔۔۔۔”
”تو مجھے لگا وہ واقعی بیمار ہے۔”
”ہاں۔۔۔۔۔۔ اور تم نے مجھ پر الزامات کی بارش کردی۔۔۔۔۔۔ تو ہو”ی ناں تم بابا جیسی؟”
”ہاں۔۔۔۔۔۔” ارمینہ کے اس جواب پر اب اس نے اس کا ہاتھ چھوڑ دیا تھا اور فاتحانہ انداز میں اسے تک رہا تھا۔
”شکر قبول تو کیا تم نے۔۔۔۔۔۔ ورنہ تمہاری تو کبھی کو”ی غلطی ہی نہیں ہوتی۔” ارمش نے مسکرا کر کہا تو وہ بھی مسکراتی چلی گئی۔ ارمش نے ساأڈ ٹیبل پر پڑے جگ سے پانی کا گلاس بھرا اور اس کے اۤگے کر دیا وہ پانی پینے لگی۔
”ایک سوال پوچھوں تم سے ارمینہ؟” اس نے اپنی بھیگی پلکیں اٹھا کر اسے غور سے دیکھا۔
”تم ساتھ دو گی میرا۔۔۔۔۔۔؟ اگر دوگی تو سب کچھ ٹھیک ہو جاأے گا۔۔۔۔۔۔ بابا تم لوگوں کو اپنا لیں گے۔ کسی کے دل میں کسی کے لئے کو”ی نفرت، کو”ی بدگمانی نہیں رہے گی یہ میرا وعدہ ہے۔۔۔۔۔۔” وہ بہت دل سے مسکراأی اور ارمش کو لگا اس نے دنیا فتح کر لی۔ کچھ لوگوں کی مسکراہٹ بہت مقدس ہوتی ہے یا شاید وہ ہمیں بہت مقدس لگتی ہے۔ ہم اس ایک مسکراہٹ میں زمانے بھر کا سکون تلاش کر سکتے ہیں۔ہے ناں معجزہ۔۔۔۔۔۔ اللہ نے ہر کسی کو کو”ی نہ کو”ی ایک رشتہ ایسا ضرور دیا ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔ جس کی ہنسی پر اۤپ کی ہنسی کا انحصار ہوتا ہے اور جس کا ہونا اۤپ کے لئے بہت اہم ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔
”چلو موجوجوجو۔۔۔۔۔۔ کتنی دیر سے تمہاری ایسی ہی شکل دیکھ رہا ہوں تھوڑی دیر اور رو”یں تو پکا ایلیئن لگنے لگو گی۔” اس کی نیلی اۤنکھوں کے نیچے کاجل پھیلا ہوا تھا۔ ناک سرخ اور ہونٹ سفید ہو رہے تھے۔ وہ اس کی بات پر ہنس پڑی تھی۔
”تم سے تو کم ہی لگوں گی خیر۔” کہتی ہو”ی وہ اٹھ کر باتھ روم میں گھس گئی اور ارمش نیچے اۤگیا۔
”تمہارا چہرہ دیکھ کر لگ رہا ہے کامیاب لوٹے ہو۔” سرفراز نے اسے سیڑھیوں سے مسکراتے ہو”ے اترتے دیکھ کر کہا تھا۔
”جی اب ٹھیک ہے وہ۔۔۔۔۔۔ انکل میں بہت شرمندہ ہوں میرا ارادہ اۤپ لوگوں کو دکھی کرنے کا نہیں تھا۔”
”میں جانتا ہوں ارمش۔۔۔۔۔۔ میں تمہیں بہت اچھی طرح جانتا ہوں۔” وہ کہہ کر ہلکا سا مسکراأے تھے اور ارمش جان گیا تھا وہ اسے جانتے بھی تھے اور سمجھتے بھی تھے۔
”اۤپ کو پتا ہے اۤپ ایک بہت اچھے انسان ہیں۔۔۔۔۔۔ اور بابا کی طرف سے میں اۤپ سے معافی مانگتا ہوں۔” ان کی مسکراہٹ غاأب ہو گئی تھی۔
”نہیں ارمش اپنوں سے معافی نہیں مانگنے اور تم اور ارحم میرے بچوں کی طرح ہو۔۔۔۔۔۔ اور احمد تو۔۔۔۔۔۔” وہ جملہ پورا نہیں کر سکے تھے۔ کچھ رشتوں کی نوعیت اور کچھ تعلقات کی شدت ہم کبھی دوسروں کو نہیں سمجھا سکتے وہ صرف اۤپ کا دل جانتا ہے یا اللہ۔
”احمد کیسا ہے۔۔۔۔۔۔؟”انہوں نے ارمش سے پوچھا۔
”ٹھیک ہیں مگر الجھن میں ہیں۔۔۔۔۔۔ اۤپ لوگوں سے ملنا بھی چاہتے ہیں اور نہیں بھی۔”
”وہ ہمیشہ سے ایسا ہی ہے۔۔۔۔۔۔” وہ دونوں مسکراأے۔ اتنے میں ارمینہ نیچے اۤگئی۔
”پاپا میں احمد انکل سے ملنا چاہتی ہوں۔” سرفراز لمحے بھر میں مسکرا دیئے۔
”ملو ضرور ملو۔۔۔۔۔۔ مگر ایک ڈر ہے مجھے۔۔۔۔۔۔ تم اۤگ ہو تو وہ پانی۔۔۔۔۔۔ اس سے بالکل بدتمیزی نہییں کرو گی۔۔۔۔۔۔ وہ تمہارے باپ جیسا ہے۔”
”جانتی ہوں پاپا۔۔۔۔۔۔ اور میں ان سے لڑنے نہیں جا رہی۔ انہیں کہانی کا وہ رخ دکھانے جا رہی ہوں جو انہوں نے نہیں دیکھا۔” ارمش اس کی بات پر مسکرایا تھا۔
”دروازے پر کو”ی اۤیا ہے جی۔” فرید بابا کی اۤواز پر وہ سب چونکے۔
”کون اۤیا ہے بابا؟”
”پتا نہیں پہلے کبھی دیکھا نہیں۔۔۔۔۔۔ اپنا نام احمد بتا رہے ہیں۔” فرید بابا کے جملے پر سب کے ہوش اڑ گئے تھے۔ یہ کسی نے نہیں سوچا تھا۔
”احمد اۤیا ہے۔۔۔۔۔۔؟” سرفراز کا چہرہ سب سے پہلے کِھل اٹھا تھا۔ وہ حال میں سب سے پہلے لوٹ اۤءے تھے۔
”چلو میں چل رہا ہو۔” وہ فرید پاپا کے پیچھے دروازے کی طرف بڑھ گئے تھے۔ ارمینہ اب بھی اپنی جگہ جامد تھی۔
”ارمینہ بابا اۤءے ہیں چلو۔۔۔۔۔۔” ارمش کی اۤواز پر وہ چونکی۔
”کیوں اۤءے ہیں؟” وہ حیران سے زیادہ خوف زدہ لگ رہی تھی۔
”جاأیں گے تو پتا چلے گا ناں۔۔۔۔۔۔”
”اگر انہوں نے پاپا سے کچھ الٹا سیدھا کہا تو۔۔۔۔۔۔؟”
”ارمینہ خدا کے لئے کسی کے بارے میں تو خوش گمان ہو جایا کرو۔۔۔۔۔۔ چلو میرے بارے میں تم کبھی اچھا نہیں سوچ سکتی میں مانتا ہوں مگر ہر کو”ی بُرا نہیں ہوتا۔” ارمش خفگی سے کہہ رہا تھا اس نے ارمش کی جانب دیکھا۔
”ٹھیک کہتے ہو۔۔۔۔۔۔ چلو۔” سنجیدگی سے کہہ کر وہ اۤگے بڑھ گئی اور وہ ایک گہری سانس لے کر رہ گیا تھا۔
”مطلب یہ لڑکی واقعی میرے بارے میں کبھی اچھا نہیں سوچ سکتی۔” اس نے دکھ سے سوچا پھر مُسکراتا ہوا اس کے پیچھے چل پڑا تھا۔
سرفراز دروازے تک اۤءے تو احمد باہر ہی کھڑے تھے۔
”احمد۔” انہوں نے بے یقینی سے ان کا نام لیا جیسے انہیں یقین نہ اۤرہا ہو کہ وہ واقعی وہاں موجود تھے۔ احمد نے ان کی طرف دیکھا اور پھر اپنی اۤنکھوں سے گلاسز اتارے۔ وہ اۤنکھیں اب بھی سرد اور بے تاثر تھیں۔
”میں ارمینہ سے مل سکتا ہوں؟”
”ہاں ضرور۔۔۔۔۔۔ اۤءو اندر” وہ دونوں ایک ساتھ ہی اندر اۤگئے تھے۔ ان کے ڈراأنگ روم میں داخل ہوتے ہی ارمینہ اور ارمش بھی اندر داخل ہو”ے تھے۔
ارمینہ نے دھیرے سے انہیں سلام کیا۔