”سرفراز محمود۔”
”اۤپ ویٹنگ ایریا میں بیٹھ جاأیں میں سر کو وہیں بھیج دیتی ہوں۔”
”اگر وہ اۤیا تو۔۔۔۔۔۔” انہوں نے دل میں سوچا۔ انہیں وہاں بیٹھے پانچ منٹ گزرے تھے جب وہ لڑکی واپس اۤءی۔
”سر اۤرہے ہیں اۤدھے گھنٹے میں۔”
”اۤدھا گھنٹہ؟”
”جی ہاں وہ مصروف ہیں۔”
”اچھا ٹھیک ہے۔۔۔۔۔۔” وہ بیٹھے رہے۔ اۤدھے گھنٹے کے بجاأے ایک گھنٹہ گزر گیا مگر احمد نہیں اۤءے تھے۔ سرفراز خاموشی سے وہیں بیٹھے انتظار کرتے رہے۔ پھر راہداری کے اس کونے سے اۤہٹ محسوس ہو”ی، وہ جان گئے تھے یہ احمد رضا ہی تھے، وہ ان کے قدموں کی اۤہٹ کو پہچان سکتے تھے۔ اپنے مخصوص یونی فارم میں ملبوس ہمیشہ کی طرح خوش شکل اور بہت پروقار طریقے سے چلتے وہ نظریں نیچے رکھے ہو”ے تھے۔۔۔۔۔۔ اور سرفراز۔۔۔۔۔۔ ان کے اندر اتنی ہمت بھی نہیں تھی کہ وہ احمد پر سے نظریں ہٹا سکیں۔ ان کے ہونٹ کانپنے لگے تھے اور اۤنکھیں بھیگ گئی تھیں۔ بے ساکھی سے اپنا ہاتھ ہٹا کر انہوں نے اپنے چہرے سے اۤنسو صاف کئے کہ کہیں احمد جان نہ جاأیں کہ وہ رو رہے تھے۔ احمد رضا چلتے ہو”ے ان کے بالکل سامنے اۤکر کھڑے ہو گئے تھے۔
”کہیے؟” ان کا لہجہ بہت اجنبی اور اۤنکھیں بہت انجان تھیں، ان میں کو”ی شناساأی کو”ی واقفیت نہیں تھی، کو”ی دکھ اور کو”ی خوشی نہیں تھی۔ وہ بے تاثر تھیں، بغیر کسی حرکت کے۔۔۔۔۔۔
”کیسے ہو احمد؟” اپنی ہمت جمع کر کے انہوں نے کہا تھا۔
”میرے پاس وقت نہیں ہے حال چال بتانے کا۔۔۔۔۔۔” سرفراز جانتے تھے وہ ان کے ساتھ یہی رویہ اختیار کرے گا مگر پھر بھی ان کے دل کو کچھ ہوا تھا۔
”میں ارمینہ کے متعلق تم سے بات کرنے اۤیا ہوں۔۔۔۔۔۔”
”میں اس لڑکی کا نام بھی نہیں سننا چاہتا۔ وہ میرے بیٹے کو exploit کرنا چاہتی ہے مگر ایسا نہیں ہو گا۔۔۔۔۔۔ میں ایسا نہیں ہونے دوں گا۔” بہ ظاہر بہت سادگی سے ادا کئے گئے جملے کی کڑواہٹ ان کے اندر تک اتر گئی تھی۔
”exploit؟ تم کیا کہہ رہے ہو؟ وہ تو جانتی بھی نہیں کہ تم کون ہو اس کے۔”
”میں اس کا کچھ بھی نہیں ہوں۔۔۔۔۔۔ سنا تم نے؟”
”اگر ایسا ہے تو اس سے وہی رویہ رکھ لو جو اجنبیوں سے رکھتے ہیں، یونہی راہ چلتے تم کسی اجنبی کو یقینا دکھ نہیں دیتے ہو گے۔ اسے بھی مت دو۔۔۔۔۔۔ وہ معصوم ہے اس کا کو”ی قصور نہیں ہے۔۔۔۔۔۔ جو میں نے کیا اس کا بدلہ اس سے مت لو۔۔۔۔۔۔ اسے عادت نہیں ہے سخت رویوں کی کیوں کہ اس نے کبھی کسی کو ایسا موقع ہی نہیں دیا وہ تمہارے گھر سے اۤنے کے بعد ذہنی طور پر بہت ڈسٹرب رہی ہے اور مجھ سے یہ برداشت نہیں ہوتا کہ کو”ی میری وجہ سے اس سے وہ سب کہے جو وہ deserver نہیں کرتی۔۔۔۔۔۔”
”تم سے تو کبھی چھوٹی سی تکلیف بھی برداشت نہیں ہوتی اس کی، یہ نئی بات نہیں ہے میرے لیے۔”
”وہ ماضی کے بارے میں کچھ نہیں جانتی، اسے میں نے ہر چیز سے دور رکھا ہے۔ تم بھلے ہی اس سے بات نہ کرو اس سے نہ ملو مگر اس سے مل کر اس سے وہ سب مت کرو جس سے اسے تکلیف پہنچے۔۔۔۔۔۔ وہ اب کبھی تم لوگوں کے قریب نہیں اۤءے گی، کبھی ارمش یا تم سے ملنے کی کوشش نہیں کرے گی۔ وہ بہت خوددار اور بہت سمجھ دار لڑکی ہے۔ لیکن اگر ہیری ہوم کے سلسلے میں یا کسی بھی وجہ سے تمہارا اس سے سامنا ہو تو اس کے سلام کا جواب دے کر اۤگے بڑھ جانا مگر اسے دکھ مت دینا۔۔۔۔۔۔ وہ میرا۔۔۔۔۔۔ واحد اثاثہ ہے۔” یہ کہہ کر سرفراز محمود رکے نہیں تھے بلکہ جانے کے لئے پلٹ گئے تھے۔
زندگی نے انہیں محبت کے کتنے اونچے اۤسمان سے گرا کر کتنی پستیوں میں لا پھینکا تھا۔ وہ احمد جسے وہ کبھی اپنے باپ کی جگہ دیا کرتا تھا، جو ان کے اۤنسو تو کیا ان کی شکنیں بھی برداشت نہیں کر پاتا تھا، اس نے اۤج سرفراز سے مصافحہ کرنا بھی گوارا نہیں کیا تھا، اس کا حال تک نہیں پوچھا تھا اس کی اۤنکھوں کی نمی دیکھ کر بھی وہ رتی برابر نہیں پگھلا تھا۔ اس کی بیساکھیوں کو دیکھ کر بھی ان پر سوال نہیں کیا تھا۔۔۔۔۔۔ حیرت، شاک اور مایوسی، وہ ان تمام الفاظ کی جامع تفسیر تھا۔ وہ وہاں سے جانے والا واحد فوجی تھا جو رو رہا تھا اور اسے فکر نہیں تھی اس کے اۤس پاس کے لوگ اسے حیرت سے دیکھ رہے تھے۔ ان میں سے کو”ی اگر یہ بات جان لیتا کہ وہ کئی سال پہلے اپنے بیج کا بہترین پیراٹروپر رہ چکا ہے تو وہ حیرت کے ساتویں اۤسمان پر پہنچ جاتے۔ وہ گاڑی میں اۤکر بیٹھ گئے تھے۔ جاویدان کا انتظار کر رہا تھا۔
”سر پانی دوں؟” ان کی حالت جاوید بھاأی کو ٹھیک نہیں لگی تھی۔
”نہیں۔”
”جاوید؟” سرفراز محمود کی اۤواز پر جاوید بھاأی چونکے۔
”جی؟”
”جب کو”ی اپنا اۤپ کو دھتکارتا ہے تو بہت تکلیف ہوتی ہے ناں۔ تمہارے ابا نے جب تمہیں گھر سے نکالا تھا تو تمہیں بہت برا لگا ہو گا ہے تاں؟”
”جی سر! مگر میں اپنے ابا کو جانتا ہوں، وہ چاہتے تھے کہ میں اپنے ساتھ کچھ کر لوں اور حلال کما کر کھاأوں اور پڑھ لکھ جاأوں تبھی تو ایسا کیا انہوں نے میرے ساتھ اس میں بھی محبت ہوتی ہے سر۔۔۔۔۔۔”
”تم خوش قسمت ہو۔۔۔۔۔۔ اپنے پیروں پر بھی کھڑے ہو جاأو گے ایک دن مگر میں بہت بدقسمت ہوں۔ میں جہاں تھا میں نے اپنے اۤپ کو اس سے بھی نیچے گرا لیا۔” جاوید بھاأی خاموش رہے تھے۔
”چلو گھر چلو۔”
٭۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔٭
وہ بے سدھ تھے جیسے کو”ی مجسمہ بنا سانس اور بنا دھڑکن کے۔ سرفراز کو گئے بہت وقت گزر گیا تھا مگر ان کے وجود میں رتی برابر بھی حرکت نہیں ہو”ی تھی۔ انہوں نے سب کچھ محسوس کیا تھا، ان کے ہاتھوں کی کپکپاہٹ، اۤنکھوں کی نمی، وجود کا نامکمل ہونا سب کچھ، ایک انا تھی جو درمیان میں تھی، ایک دوستی تھی جو عذاب بن بیٹھی تھی۔۔۔۔۔۔ نہ جینے دیتی تھی نہ مرنے دیتی تھی۔ نہ دکھی رہنے دیتی تھی نہ خوش رہنے دیتی تھی۔
”تم اۤج بھی صرف اپنی بیٹی کے ہی ہو سرفراز۔ صرف اس ایک لڑکی کی محبت تم پر اتنی غالب ہے کہ اس کے اۤگے ہر محبت ریت کی طرح ہے۔ اۤج اتنے سال بعد تم اۤءے مجھ سے ملے اور صرف اس لڑکی کے بارے میں بات کرتے رہے جس کا وجود میرے لئے سب سے تکلیف۔ دہ ہے۔ تم اۤج بھی اس کے لئے اپنی ہر چیز قربان کر سکتے۔ ہو محبت، دوستی سب کچھ۔۔۔۔۔۔ اس لڑکی نے سب کچھ چھین لیا مجھ سے، اب وہ مجھ سے میرا بیٹا چھیننا چاہتی ہے ناں۔۔۔۔۔۔ تو یہ کبھی نہیں ہو گا۔۔۔۔۔۔” دل میں سوچنے کے علاوہ وہ اس وقت کچھ بھی کر سکنے کی ہمت نہیں رکھتے تھے۔ وہ اکیڈمی میں مزید رُکے بغیر گھر اۤگئے۔
٭۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔٭
وہ شام میں اٹھی تو پاپا گھر پر نہیں تھے۔ ان کے گھر واپس اۤنے کے بعد وہ سیدھا ان کے کمرے میں چلی گئی، پاپا کی حالت بہت خراب تھی۔
”پاپا کیا ہوا؟ اتنے پسینے اۤرہے ہیں اۤپ کو اور جسم بھی ٹھنڈا پڑا ہے۔”
”بی پی گِر گیا ہو گا بیٹا۔” اس نے جلدی سے ان کا بی پی چیک کیا اور انہیں ان کی دواأیں دیں۔ انہوں نے پانی کے ساتھ دواأیں نگل لیں۔ وہ ان کے پاس بیٹھی ان کا ماتھا سہلاتی رہی پھر اۤہستہ اۤہستہ ان کی حالت بہتر ہوتی گئی۔
”اۤپ کہاں گئے تھے پاپا؟ اۤپ کو کہا ہے اتنی دیر گھر سے باہر نہ جایا کریں۔” ارمینہ نے قدرے پیار بھرے انداز میں پوچھا تو سرفراز محمود جواباً خاموش رہے۔
”تم اۤج دیر سے اۤءی تھیں؟”
”جی پاپا وہ۔۔۔۔۔۔” اسے اچانک اۤج ہونے والا قصہ یاد اۤگیا۔
”پاپا اۤج ایک عجیب سی بات ہو”ی۔۔۔۔۔۔ ہم لنچ پر گئے تھے۔ ارمش نے ہیری ہوم کے سارے اسٹاف ٹرسٹیز اور سب کو لنچ دیا تھا، اس میں ارمش کے بابا بھی اۤءے تھے۔ میں سلاد لے رہی تھی اور اۤپ کو یقین نہیں اۤءے گا کہ انہوں نے مجھے کیا کہا۔”
”کیا کہا؟”وہ اچانک ہی الرٹ ہو گئے تھے۔
”انہوں نے کہا بیٹا وہ مت کھاأو اس میں کارن ہے۔۔۔۔۔۔ انہیں کیسے معلوم کہ میں کارن الرجک ہوں؟” اس بات پر وہ بے ساختہ مسکرانے لگے تھے۔
”کیا یہ کہاتھا اس نے تم سے؟” انہوں نے بے یقینی سے پوچھا۔
”جی پاپا انہوں نے ۔۔۔۔۔۔” اس نے اپنا جملہ ادھورا چھوڑ دیا۔
”پاپا اۤپ جانتے ہیں انہیں کیا؟” اس نے حیرانی سے سرفراز محمود سے پوچھا تو وہ سٹپٹا گئے۔
”نہیں تو۔” وہ اس سے نظریں نہیں ملا رہے تھے۔
”پاپا مجھے سچ سچ بتاأیں کیا بات ہے؟ وہ کیسے جانتے ہیں؟ مجھے ان کو کیسے پتا میں کارن الرجک ہوں؟ اور وہ ایسا برتاوئ کیوں کرتے ہیں میرے ساتھ۔۔۔۔۔۔؟ اۤپ جانتے ہیں ناں پاپا؟ سچ بتاأیں مجھے پلیز میں جاننا چاہتی ہوں۔۔۔۔۔۔ یہ ایک پہیلی سی بن کر رہ گئی ہے اور اۤپ کا چہرہ بتا رہا ہے کہ اۤپ سب کچھ جانتے ہیں مگر مجھ سے چھپا رہے ہیں۔۔۔۔۔۔” وہ خاموش رہے پھر انہوں نے کہنا شروع کیا۔
”احمد رضاابراہیم۔۔۔۔۔۔ تمہارے ماموں ہیں۔ انابیہ کا سگا بھاأی ہے وہ۔۔۔۔۔۔ اور میرا سب سے اچھا دوست، وہ میرے لئے میرے بڑے بھاأی، میرے باپ کی طرح ہے۔ وہ اس دنیا میں میرے بعد تمہارا سب سے قریبی رشتہ ہے۔” اپنے ہاتھ پر رکھے ارمینہ کے ہاتھ انہیں سرد ہوتے محسوس ہو”ے تھے۔ وہ شاک میں تھی یا صدمے میں، اس کی اۤنکھیں بھیگنے میں ایک لمحہ لگا تھا اور سب کچھ نظروں سے اوجھل ہونے لگا تھا۔
انہوں نے ساأیڈ ٹیبل پر پڑا پانی کا گلاس اٹھا کر اسے دیا جو وہ ان کے لئے لاأی تھی اس نے پانی نہیں پیا بلکہ اپنی جگہ سے اٹھ گئی تھی۔
”اۤپ۔۔۔۔۔۔ اۤپ۔۔۔۔۔۔ کیا۔۔۔۔۔۔؟” اس کے الفاظ زبان پر اۤنے سے پہلے دم توڑ رہے تھے۔ وہ کچھ کہنے کے قابل نہیں تھی۔
”تو پھر۔۔۔۔۔۔ اتنے سال۔۔۔۔۔۔ اتنے سال۔۔۔۔۔۔ پاپا کیوں؟” اس نے اٹکتے ہو”ے اپنا جملہ مکمل کیا۔
”بیٹھ جاأو میں بتاتا ہوں۔” وہ بیٹھ گئی۔ پھر انہوں نے اسے الف سے یہ تک ایک ایک چیز بتا دی۔ بچپن سے لے کر بڑھاپے تک کی ایک ایک بات۔ انہوں نے اسے وہ البم بھی دکھایا تھا جو وہ اۤج تک اس سے چھپاتے اۤءے تھے۔ ساری کہانی سنتے ہو”ے وہ کہیں کہیں مسکراأی، کہیں غصے سے سرخ ہو”ی اور کہیں دکھ سے رونے لگی۔ وہ جیسے سب کچھ اپنی اۤنکھوں کے اۤگے ہوتا دیکھ رہی تھی، محسوس کر رہی تھی۔ اس کی تمام تر حسیات اتنے بڑے دھماکے کے باوجود بالکل سلامت تھیں۔ جب وہ اسے سب کچھ بتا چکے تو وہ رو نہیں رہی تھی بلکہ اب اسے سب کچھ سمجھ اۤرہا تھا۔ ان کا رویہ، ان کا مزاج ان کے سلوک کی وجہ۔ پھر اس نے ارمش کے رویے کو سوچنا شروع کر دیا بلکہ وہ ابتدا میں شاید نہیں جانتا تھا کہ میں کون ہوں اور جب جان گیا تو اس نے بھی میری طرف سے منہ پھیر لیا۔ وہ دل جو”ی جو شکرپاراں میں کی گئی تھی سب پانی کی لہر کے ساتھ بہہ گئی تھی۔ وہ پانی جو اس کی اۤنکھوں سے ارمش کے خیال پر رواں ہو گیا تھا۔ پانی کے بہ جانے کے بعد اسے لگا جیسے اب صرف ریت تھی، صرف مٹی تھی جس میں پیر جمانا اسے اۤسان لگنے لگا اور پیر جمانے کے لئے اس نے ایک سہارا لے لیا تھا۔۔۔۔۔۔ نفرت کا سہارا۔۔۔۔۔۔
”پاپا زندہ ہونے کے باوجود انہوں نے کبھی یہ جاننے کی کوشش نہیں کی کہ ہم کس حال میں ہیں؟ ان سے یہ بھی نہیں ہوا کہ کبھی ہم سے اۤکر پوچھتے کہ ہم کس حال میں ہیں؟ ہمیں کیا چاہیے؟ کسی چیز کی ضرورت تو نہیں ہمیں۔ ایسی بھی کیا نفرت بابا کہ شکل دیکھنا گوارا نہیں کی اۤج تک؟” وہ غصے میں تھی۔ اسے شرمندگی تھی، تکلیف تھی، دکھ تھا، جو اب زبان پر اۤنے لگا تھا۔
”میں ابھی اس ہی سے مل کر اۤیا تھا۔۔۔۔۔۔ میں نے اۤج اسے۔۔۔۔۔۔ بیس سال بعد دیکھا ہے۔ وہ اۤج بھی ویسا ہی ہے، اس کے دل میں اۤج بھی میرے لئے جگہ نہیں ہے۔۔۔۔۔۔”
”بدقسمت ہیں وہ پاپا جو اۤپ جیسا دوست کھو بیٹھے ہیں۔ اور انہی کی وجہ سے اۤپ کی طبیعت خراب ہو”ی تھی ناں؟ یقینا جس لہجے میں انہوں نے مجھ سے بات کی تھی اۤپ سے بھی اسی لہجے میں کی ہو گی۔۔۔۔۔۔ پاپا وہ کیا ہمیں معاف نہیں کریں گے، میں ان کو معاف نہیں کروں گی زندگی میں کبھی بھی۔۔۔۔۔۔” وہ غصّے سے سرخ تھی۔
”ارمینہ ایسے نہیں کہتے بیٹا۔۔۔۔۔۔ وہ جذباتی ہے۔”
”وہ بے حس ہیں پاپا۔۔۔۔۔۔ اور اگر اب تک ہم انہیں یاد نہیں تھے تو اۤگے بھی ہمیں ان کی ضرورت نہیں ہے۔ اۤپ کو وہاں نہیں جانا چاہیے تھا اۤپ کیوں گئے تھے وہاں؟”
”تمہارے لئے۔۔۔۔۔۔”
”میرے لئے؟”
”ہاں۔۔۔۔۔۔ میں چاہتا تھا اۤءندہ وہ تمہیں تکلیف نہ دے۔”
”حد ہوتی ہے پاپا۔۔۔۔۔۔ اۤپ اس لئے ان کے جیسے انسان کے اۤگے چلے گئے؟ اۤپ کو نہیں جانا چاہیے تھا وہاں پر۔۔۔۔۔۔”
”ارمینہ اسے برُا بھلا مت کہو۔۔۔۔۔۔ وہ اپنی بہن کی محبت میں مجبور ہے اور میری غلطی تھی۔”
”اۤپ کی کو”ی غلطی نہیں تھی، موت برحق ہے پاپا۔ امی کی زندگی اتنی ہی تھی۔۔۔۔۔۔ ان کی سانسیں اتنی ہی تھیں۔۔۔۔۔۔ مجھ جیسی لڑکی یہ بات سمجھ سکتی ہے تو وہ کیوں نہیں سمجھ سکتے؟ کسی کی موت پر کسی کا کیا اختیار ہے پاپا۔۔۔۔۔۔”
”ارمینہ میں اسی لئے تمہیں کچھ نہیں بتاتا تھا۔۔۔۔۔۔ مجھے معلوم تھا” کہ تم اپنا اۤپ کھو دو گی۔
”نہیں پاپا۔۔۔۔۔۔ اۤپ فکر نہ کریں۔۔۔۔۔۔ میں اۤپ کی بیٹی ہوں مجھے معلوم ہے احترام کے داأرے میں رہ کر کسی کو اۤءینہ کیسے دکھایا جاتا ہے۔۔۔۔۔۔”
”بیٹا اس سے معافی مانگ لو۔۔۔۔۔۔ تم اس کی بھانجی ہو وہ تمہیں اپنا لے گا۔”
”معافی۔۔۔۔۔۔؟ بس کر دیں پاپا پلیز بس کر دیں۔۔۔۔۔۔ میں جانتی ہوں اۤپ ان سے محبت کرتے ہیں مگر یقین کریں وہ اۤپ کی محبت کو بالکل ڈیزرو نہیں کرتے۔۔۔۔۔۔ جو انسان اۤپ جیسے شخص سے اس قدر بدگمان ہو سکتا ہے وہ کسی کی محبت ڈیزرو نہیں کرتا۔۔۔۔۔۔ اۤپ نے کتنا کچھ کیا ہے پاپا ان کے لئے پھر ارمش کے لئے اۤپ نے ارمش کو اتنی عزت دی، اتنی محبت دی اور اس نے کیا کیا؟ سب کچھ برباد کر دیا۔۔۔۔۔۔ بس ہو گیا پاپا اب بس ہو گیا۔۔۔۔۔۔ اگر انہوں نے ہمارے مشکل وقت میں ہمیں سپورٹ نہیں کیا ، ہمارا ساتھ نہیں دیا جب ہمیں کسی اپنے کی ضرورت تھی، جب ہم دونوں ٹوٹ گئے تھے جب اۤپ معذور ہو”ے، جب اۤپ کو فوج سے نکلنا پڑا تب وہ نہیں تھے تو اب ہمیں بھی فرشتہ نہیں چاہئے کو”ی۔” وہ خاموش ہو گئی تھی اور اس کے بال اب اس کے چہرے اور گردن کے گرد بکھر گئے تھے۔
”اۤپ اب اۤرام کریں اور ان کے بارے میں مت سوچئے گا۔۔۔۔۔۔ ورنہ اۤپ کی طبیعت خراب ہو جاأے گی۔۔۔۔۔۔” وہ کمرے سے نہیں گئی تھی بلکہ پاپا کو اس نے نیند کی گولی زبردستی دے دی تھی۔ دوا کے اثر سے وہ سو بھی گئے تھے وہ پھر بھی وہ ان کے پاس بیٹھی رہی۔ البتہ ان کے سونے کے بعد اس نے بے اۤواز رونا شروع کر دیا تھا۔ جن سے اۤپ محبت کرتے ہیں ان کے سامنے کبھی کبھی رونا بھی بہت مشکل ہوتا ہے، کیوں کہ اۤپ کو ان کی فکر ہوتی ہے۔
وہ بھی ان کے سامنے رونا نہیں چاہتی تھی ورنہ وہ سمجھتے کہ وہ کم زور پڑ گئی ہے۔ وہ کم زور نہیں تھی بلکہ وہ بے بس ہو گئی تھی۔ اس نے بہت سی مشکلات برداشت کی تھیں۔۔۔۔۔۔ اکیلے، تنہا اور اُف تک نہیں کی تھی۔
بچپن میں وہ گھر میں نہیں رہی تھی بلکہ چاألڈ کیئر میں رہی تھی۔ پھر تھوڑی بڑے ہونے پر اپنے پڑوس والی خاتون کے پاس جو کبھی کبھی اس کو کھانا دینا بھی بھول جاتی تھیں مگر وہ پاپا سے کچھ نہیں کہتی تھی۔ وہ بہت چھوٹی عمر سے اپنے گھر کی ذمے داری سنبھال چکی تھی۔ پاپا کے چھوٹے چھوٹے کام وہ ہمیشہ سے کر دیا کرتی تھی۔ پڑھاأی میں ہمیشہ سے وہ اچھی رہی تھی پاپا نے کبھی اس پر کسی قسم کا کو”ی دباأو نہیں ڈالا تھا مگر پھر بھی وہ سمجھتی تھی کہ اس کا ڈاکٹر بننا پاپا کی خواہش تھی۔ تو وہ محنت کرتی چلی گئی۔ اس نے ہمیشہ اپنی ضروریات کو کم کرنے کی کوشش کی تھی۔ وہ کنجوس نہیں تھی مگر اپنی دیگر دوستوں کی طرح بے جا خرچ کرنا اس کی عادتوں میں کبھی شامل نہیں رہا تھا۔ اس کی بس ایک لگژری تھی۔۔۔۔۔۔ کتابیں۔۔۔۔۔۔ جن کے بغیر وہ رہ نہیں سکتی تھی۔ اپنی پاکٹ منی بچا کر وہ صرف کتابیں لیتی تھی جو اس کا واحد جنون تھا۔ اس کے علاوہ اس نے کبھی اپنی خواہشات کو بڑھنے نہیں دیا تھا۔۔۔۔۔۔ وہ جانتی تھی کو وہ یہ کبھی افورڈ نہیں کر سکتی اور نہ اس کے پاپا۔۔۔۔۔۔
اۤٹھ سال کی عمر میں انڈہ تلتے ہو”ے اس نے اپنا ہاتھ جلا لیا تو پاپا نے اسے بہت ڈانٹا تھا اور وہ بہت رو”ی تھی۔
”پاپا پھر اور کیا کرتی۔۔۔۔۔۔ اۤپ کو مشکل ہوتی ہے ناں کچن میں اور اۤج فرید بابا بھی نہیں اۤءے۔” اس نے معصومیت سے کہا تھا۔
”جو بھی ہے تم اب اۤءندہ ایسے کام نہیں کرو گی۔ سمجھ گئیں؟”
”جی۔” اس نے روتے ہو”ے ہامی بھر لی تھی مگر ایک ہفتے بعد اس نے ایک انڈہ پھر تلا تھا اس بار نہ ہاتھ جلا نہ ہی انڈہ۔۔۔۔۔۔ چیزیں اۤہستہ اۤہستہ جگہ پر اۤگئی تھیں۔۔۔۔۔۔ بچپن سے وہ اکیلی رہی تھی، نہ کو”ی رشتہ دار نہ کو”ی دوست اور نہ کزن۔ اس کی دنیا صرف پاپا سے تھی۔
اس نے ایک مشکل بچپن گزارا تھا، تنہا اور نامکمل، لیکن پھر بھی وہ ساری دنیا کے اۤگے ہنستی تھی اور جب لوگ اسے زندہ دل ہنس مکھ اور خوش باش لڑکی کہتے تو اسے حیرانی ہوتی اور ساتھ دکھ بھی ہوتا۔۔۔۔۔۔ ہنسی دنیا کو دکھانا اۤسان ہوتا ہے مگر اس ہنسی کے پیچھے موجود تنہاأی اور محرومیوں کو چھپانا مشکل۔ اور اب اچانک جب اس کا کو”ی اپنا دریافت ہوا تھا تو اسے غصہ اۤیا تھا۔ ایسی زندگی گزار لینے کے بعد شاید ہر کسی کو اۤتا۔۔۔۔۔۔
اسے اپنی تمام تر محرومیاں یاد اۤنے لگی تھیں۔ وہ خالی جگہ بھری جا سکتی تھی اگر احمد رضا وہ نہ کرتے جو انہوں نے اس کے ساتھ کیا۔۔۔۔۔۔ اس نے اپنے اۤنسو پونچھے اور جب اسے یقین ہو گیا کہ پاپا گہری نیند میں جا چکے ہیں تو وہ وہاں سے اٹھ گئی تھی۔۔۔۔۔۔ اب اسے کہاں جانا تھا اسے معلوم تھا۔
٭۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔٭