”فکر مت کرو تمہیں کچھ بھی کہنا ہو مجھ سے کہہ سکتے ہو جب چاہو۔۔۔۔۔۔”
”تھینک یو ارمینہ! تمہاری ہر بات کے لئے۔”
”تم پڑھو گے لکھو گے کچھ بنو گے تب میرا شکریہ ادا کرنا۔۔۔۔۔۔ مجھے خوشی ہو گی اگر تم اپنی پہلی اسپیچ میں مجھے یاد رکھو گے۔۔۔۔۔۔”
”تم سر پر سوار رہتی ہو۔۔۔۔۔۔ کیسے بھول سکتا ہوں۔” وہ دونوں ہی ہنس پڑے تھے۔
وہ گھر واپس اۤءی تو پاپا اپنے کمرے میں تھے تو وہ ان کے پاس ہی اۤگئی تھی۔
”پاپا مجھے ایک ہسپتال سے کال اۤگئی ہے میں سوچ رہی ہوں ایئرپورٹ والی جاب سے ریزاأن کر دوں۔۔۔۔۔۔”
”ہاں ہاں بیٹا! میں تو کب سے کہہ رہا ہوں تمہیں، میں تو تب ہی منع کر رہا تھا جب تم جواأن کر رہی تھیں مگر تم نے ضد کی تو میں نے اجازت دے دی تھیں۔”
”پاپا اس وقت اور کو”ی جاب نہیں تھی۔۔۔۔۔۔ اب ہے تو میں سوچ رہی ہوں چھوڑ دوں۔”
”پہلی فرصت میں چھوڑو۔” وہ مسکراتی ان کے پاس بیٹھ گئی تھیں۔
”پاپا۔۔۔۔۔۔ ارمش کے بابا نے مجھ سے جھوٹ کہا تھا۔۔۔۔۔۔” وہ اٹکی سانس کے ساتھ اسے دیکھ رہے تھے۔
”یعنی ارمش نے مجھ سے جھوٹ نہیں کہا تھا اس کے بابا نے کہا تھا وہ واقعی بیمار تھا اور سڈنی وہ ڈینیل کی فیملی کے funeral پر گیا تھا، ڈینیل کی فیملی کی ڈیتھ ہو گئی ایک ایکسیڈنٹ میں۔”
”اللہ اسے صبر دے۔۔۔۔۔۔”
”پاپا وہ ایسے کیوں ہیں؟اور کیوں کرتے ہیں ایسا میرے ساتھ؟ میں نے کیا بگاڑا ہے ان کا؟”
”ارمینہ جن لوگوں کو ہماری ضرورت نہیں ہوتی جو ہماری موجودگی سے خود کوبے سکونمحسوس کرتے ہیں اور جن کو ہمارے ہونے سے تکلیف پہنچتی ہے ان سے پھر فاصلہ اختیار کر لینا چاہیے۔۔۔۔۔۔ یہی عقل مندی ہے کہ جہاں اۤپ کو لگے کہ اۤپ کو forgranted لیا جا رہا ہے وہاں سے بہت خاموشی سے خود کو علیحدہ کر لیا جاأے۔۔۔۔۔۔”
”لیکن بابا ارمش تو ایسا نہیں ہے۔۔۔۔۔۔”
”لیکن اگر اس کے بابا چاہتے ہیں کہ تم اسے نہ ملو تو تم اس سے نہ ملو یہی بہتر ہے۔” اس نے اپنا سر ان کی گود میں رکھ دیا وہ بیڈ پر بیٹھے تھے اور وہ فرش پر بیٹھ گئی تھی۔
”اور خود کو۔۔۔۔۔۔ کیسے روکا جاتا ہے؟”
”اپنے دل کو اپنے قابو میں رکھ کے۔۔۔۔۔۔ ارمینہ محبت پر کسی کا اختیار نہیں ہے میں جانتا ہوں لیکن۔۔۔۔۔۔ اس کا اظہار اور اس کی پذیراأی انسان کے اختیار میں ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔ وہ چاہے تو اسے روگ بنا لے اور چاہے تو اسے اپنی طاقت بنا کر اس کے بل پر ساری دنیا سے لڑے۔۔۔۔۔۔ یہ انسان پر منحصر ہے مگر اس کے لیے انسان کو خود کو مضبوط کرنا پڑتا ہے۔۔۔۔۔۔ یہ اۤسان نہیں ہوتا اور تم تو بہت مضبوط ہو میں جانتا ہوں۔۔۔۔۔۔” ایک اۤنسو اس کی اۤنکھ سے بہ گیا تھا۔ پھر اۤنسو”وں کی تعداد بڑھتی چلی گئی تھی۔
”بچپن سے تم نے بہت سے مساأل کا سامنا کیا ہے مگر کبھی زندگی سے ہار نہیں مانی، ہمیشہ فاأٹ کی اپنے حالات سے، میرے حالات سے، میری بیماری سے اور بہت سی دوسری چیزوں سے۔۔۔۔۔۔ مگر تمہارے چہرے پر کبھی زندگی کی سختیوں کے اۤثار نہیں اۤءے۔۔۔۔۔۔ ہمیشہ مسکراتی رہتی ہو مگر میں جانتا ہوں اس مسکراہٹ کے پیچھے کتنی مشقت اور کتنی محنت ہے۔۔۔۔۔۔ تو اگر کو”ی لڑکی زندگی سے ایسے مقابلہ کر سکتی ہے تو پھر وہ کچھ بھی کر سکتی ہے وہ ماہر ہوتی ہے اپنے جذبات ساری دنیا سے چھپانے میں۔۔۔۔۔۔”
”پاپا وہ پتا نہیں کیسے میری ہر بات جان لیتا ہے جیسے اۤپ۔۔۔۔۔۔ بغیر بتاأے، کچھ بھی کہے بغیر، اسے پتا چل جاتا ہے کہ میں کیا سوچ رہی ہوں کیا چاہتی ہوں؟”
”مگر ہر وہ چیز۔۔۔۔۔۔ جیسے اۤپ چاہیں۔۔۔۔۔۔ اۤپ کے مقدر میں نہیں لکھی جاتی۔” سرفراز خاموش ہو گئے تھے۔ وہ روتی رہی۔
”وہ وہیں فرش پر بیٹھی رہی ان کے قدموں کے پاس اور وہیں بیٹھے بیٹھے سو گئی۔۔۔۔۔۔ سرفراز نے اس کو اٹھایا نہیں تھا وہ بس اس کا چہرہ دیکھ رہے تھے۔
”یہ میرے گناہوں کی سزا ہے ارمینہ۔۔۔۔۔۔ جو تمہارے اۤگے اۤ رہے ہیں، شاید اللہ نے بھی مجھے معاف نہیں کیا۔۔۔۔۔۔ میں نے بے قدری کی تھی۔۔۔۔۔۔”
اس کی اۤنکھ ایک گھنٹے بعد کھلی اسے پتا ہی نہیں چلا وہ کب روتے روتے سو گئی اب اٹھی تھی تو اس کا سر بیڈ کے کنارے ٹکا تھا اور پاپا کمرے میں نہیں تھے وہ اچانک بھاگتی باہر اۤءی تو وہ لاأونج میں فرید بابا کے ساتھ بیٹھے چاأے پی رہے تھے۔
”شام ہو گئی اور پتا بھی نہیں چلا میں کب سو گئی۔۔۔۔۔۔ اۤج کیا کھاأیں گے اۤپ لوگ بتاأیں؟ کچھ خاصبناتے ہیں اۤج۔۔۔۔۔۔” وہ اۤستینیں چڑھاتی کچن میں گھس گئی تھی۔ سرفراز نے لاأونج میں بیٹھ کر بھی اس کے ہاتھوں کی کپکپاہٹ اور اۤنکھوں کی نرمی کو دیکھ لیا تھا۔ وہ جانتے تھے ان کی بیٹی مضبوط تھی وہ اپنے دل پر قابو پانا سیکھ رہی تھی۔۔۔۔۔۔
”یہی اس کے لئے بہتر ہے۔”انہوں نے دل میں سوچا تھا۔
اسے اگلے دن ارمش کا میسج اۤیا۔ ہیری ہوم میں چیکنگ ٹیم کا وزٹ تھا جو یہ دیکھنے اۤرہی تھی کہ جو سہولیات اور معیار وہ لوگ on paper شو کرتے تھے وہ واقعی ہیری ہوم میں دی بھی جاتی تھیں یا نہیں۔ اس وقت ہیری ہوم کے ہر ڈاکٹر، ٹیچر اور بورڈ کے تمام ممبرز کی شرکت ضروری تھی۔ ٹیم ہیری ہوم پہنچ گئی تھی اب وہ لوگ وہاں کا جاأزہ لے رہے تھے وہ لوگ اۤدھے گھنٹے سے وہاں موجود تھے اور وہ ڈسپنسری میں ہی بیٹھی رہی۔ کچھ دیر بعد وہ لوگ ڈسپنسری اۤگئے تو ڈاکٹر فاروق انہیں تمام تفصیلات بتانے لگے وہ خاموشی سے کونے میں کھڑی سن رہی تھی۔
”یہ کون ہیں؟” ان میں سے ایک نے ارمش سے پوچھا۔ اتنی دیر میں ان دونوں نے پہلی بار ایک دوسرے کی جانب دیکھا تھا۔
”یہ ڈاکٹر ارمینہ محمود ہیں، یہ بھی یہاں ڈاکٹر فاروق کے ساتھ ہوتی ہیں۔” ارمش نے اتنا ہی کہا تھا پھر انہوں نے باقی جگہوں کا جاأزہ لیا اور وہ لوگ چلے گئے۔ ان کے جانے کے بعد ارمش نے تمام لوگوں کو لنچ پر انواأٹ کیا تھا۔ وہ سب کو لنچ پر لے جا رہا تھا یہ شکریہ کہنے کا طریقہ تھا۔ وہ ارمینہ کے پاس بھی اۤیا تھا۔
”چلو تمہاری تو عید ہو جاأے گی۔۔۔۔۔۔ جی بھر کے کھانا، بل میں دوں گا۔” وہ ہمیشہ کی طرح ہی اس کو مخاطب کر رہا تھا۔
”نہیں ارمش میں تھکی ہو”ی ہوں گھر جانا چاہتی ہوں۔ تمہارا بہت شکریہ۔”
”نہیں اۤنا چاہتیں؟”
”نہیں!” سادہ سے لہجے میں اس نے کہا تھا۔
”اۤخری بار چل لو۔۔۔۔۔۔ پھر مت چلنا۔” ارمینہ کو اس کا لہجہ عجیب سا لگا تھا۔
”اۤخری بار کیوں؟”
”بس یونہی۔”
”نہیں تم لوگ جاأو۔”
”بھئی اگر ارمینہ نہیں جا رہی تو میں بھی نہیں جاأوں گا۔۔۔۔۔۔ میں تم بزنس والوں کے بیچ بہت بور ہو جاتا ہوں۔” ڈاکٹر فاروق کی اۤواز پر وہ دونوں چونکے تھے۔ ارمینہ مسکراأی تھی۔
”بہت معذرت۔۔۔۔۔۔ مگر ہم لوگوں کی ایسی ہی باتیں ہوتی ہیں ڈاکٹر فاروق بزنس کی باتیں۔۔۔۔۔۔” ارمش نے کہا تھا۔
”جبھی کہہ رہا ہوں ڈاکٹر صاحبہ جاأیں گی تو میں جاأوں گا ورنہ نہیں۔”
”ارے ایسا کیوں کہہ رہے ہیں ڈاکٹر فاروق اۤپ لوگ جایئے مجھے یقین ہے اۤپ لوگ انجواأے کریں گے۔۔۔۔۔۔”
”نہیں بھئی تم نے نہیں جانا تو میں بھی نہیں جا رہا۔”
”اور میں بھی نہیں۔۔۔۔۔۔” عمر کی اۤواز پر وہ دونوں چونکے تھے۔
”ارمش بھاأی نے مجھے بھی کہا ہے لیکن اگر تم نہیں جاأو گی تو میں بھی نہیں جا رہا۔۔۔۔۔۔”
”کیوں؟”
”ارمش بھاأی تو اپنے دوستوں سے باتیں کریں گے اور میں کیا کروں گا وہاں بیٹھ کر۔۔۔۔۔۔ تم ہوگی تو تمہیں تنگ ہی کر لوں گا۔”
”دیکھا کتنی اہم ہو تم ارمینہ” ڈاکٹر فاروق کے جملے پر وہ خاموش سی ہو گئی تھی۔
”اچھا ٹھیک ہے چلو۔” اس کی بات سے دونوں کے چہرے پر مسکراہٹ اۤگئی تھی۔ اس نے پلٹ کر ارمش کے چہرے کو نہیں دیکھا تھا۔۔۔۔۔۔ وہاں کیا تھا وہ نہیں جاننا چاہتی تھی۔۔۔۔۔۔
٭۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔٭
وہ لوگ ایک ریسٹورنٹ میں ٹیبل پر ساتھ ہی بیٹھے تھے۔ ارمینہ کے سامنے والی کرسی خالی تھی اور اس خالی کرسی کے برابر میں ارمش بیٹھا تھا۔ ارمینہ کے ایک طرف عمر بیٹھا تھا دوسری طرف اسکول کی کچھ ٹیچرز تھیں جن سے اس کی دوستی تھی اور عمر کے ساتھ ڈاکٹر فاروق بیٹھے ہو”ے تھے۔ ان لوگوں نے اۤرڈر دینے کے بعد دروازے کی جانب دیکھا، وہاں سے احمد رضا ابراہیم اندر داخل ہو رہے تھے۔ اس کی اۤنکھیں پھیل گئیں۔ اسے ارمش پر غصہ اۤیا تھا۔ بے زاری اور کوفت پہلے سے بہت بڑھ گئی تھی۔ فرداً فرداً وہ سب سے ملے، عمر کی خیریت پوچھی اور پھر اس نے انہیں سلام کیا انہوں نے دھیمی اۤواز میں سلام کا جواب دیا اور اس خالی کرسی پر اۤکر بیٹھ گئے، اس کے بالکل سامنے۔
اس کا سانس لینا محال ہو رہا تھا۔ وہ وہاں سے بھاگ جانا چاہتی تھی۔ دھیان بٹانے کے لئے وہ عمر اور ڈاکٹر فاروق سے باتوں میں لگ گئی تھی۔ کچھ ہی دیر میں کھانا ٹیبل پر سرو کر دیا گیاتو وہ کھانا کھانے لگی۔ اس نے ایک نظر اٹھا کر بھی ان کی طرف نہیں دیکھا وہ جو اس کے بالکل سامنے بیٹھے تھے۔ اس نے ارمش سے بھی کو”ی بات نہیں کی تھی۔ وہ سلاد کا پیالہ اٹھانے لگی تو انہوں نے زبردستی اس سے پیالہ لے لیا۔
”نہیں بیٹا۔۔۔۔۔۔ یہ مت کھاأو اس میں کارن ہے۔” اس کے ہاتھ وہیں سرد ہو گئے اور یک ٹک ان کا چہرہ دیکھنے لگی۔ یہی کام ارمش بھی کر رہا تھا۔ ٹیبل پر بیٹھے باقی لوگوں نے اتنا دھیان نہیں دیا تھا مگر ارمش اور ارمینہ سکتے میں اۤگئے تھے۔ وہ پیالے کو دوسری طرف رکھ کر اب کھانا کھانے میں مصروف ہو گئے تھے اور کچھ لمحوں بعد انہیں احساس ہوا کہ وہ کیا بول گئے ہیں۔۔۔۔۔۔ انہوں نے ایک ایک کر کے ارمینہ اور پھر ارمش کو دیکھا۔
”کیوں بابا۔۔۔۔۔۔ تو کیا ہوا گراس میں کارن ہے؟”
”مجھے کارن سے الرجی ہے بچپن سے۔۔۔۔۔۔” ارمینہ نے ان کی طرف دیکھتے ہو”ے ارمش سے کہا تھا۔ وہ اب خاموشی سے اپنی پلیٹ پر جھک گئے تھے، اور وہ سوچ میں پڑ گئی تھی کہ انہیں کیسے معلوم تھا کہ اسے کارن سے الرجی ہے۔ کھانے میں اب اس کا دل نہیں لگ رہا تھا۔ گھبراہٹ میں اس نے ارمش کی طرف دیکھا وہ ارمینہ کو ہی دیکھ رہا تھا۔
”کیا ہوا؟” اس نے اشارے سے پوچھا تو وہ کچھ بول نہیں پاأی۔ وہ کھانا کھا چکی تو کھڑی ہو گئی۔
اۤپ لوگ کھاأیں، میں اب چلتی ہوں کافی دیر ہو گئی ہے پاپا گھر پر اکیلے ہیں۔۔۔۔۔۔ ارمش لنچ کا بہت شکریہ۔”
”پر ارمینہ رکو تو تھوڑی دیر اور ابھی تو اۤءس کریم باقی ہے یار۔” اررمش نے اسے کہا۔ اس کے اچانک کھڑے ہونے پر سب ہی حیران تھے۔
”نہیں پھر کبھی۔۔۔۔۔۔ فی الحال مجھے جانا ہے۔”
”چلو ٹھیک ہے خدا حافظ۔” سب کو کہتی وہ باہر اۤگئی تھی۔
٭۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔٭
وہ گھر اۤتے اۤتے بھی یہی بات سوچ رہی تھی کہ وہ کیسے جانتے ہیں کہ میں کارن الرجک ہوں۔ وہ ہیں کون؟ اۤخر کیا تعلق ہے ان کا ہم سے؟
پریشان سی وہ گھر پہنچی تو پاپا سو رہے تھے۔ وہ اپنے کمرے میں اۤگئی مگر وہ بہت بے چین تھی۔ وہ حقیقت جاننا چاہتی تھی۔۔۔۔۔۔
٭۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔٭
”یہ اکیڈمی میری زندگی ہے۔” احمد نے چہک کر اسے بتایا تھا۔ سرفراز مُسکرا کر اسے سُن رہا تھا۔
”پھر تو یہ میری بھی زندگی ہے۔۔۔۔۔۔”
”یہاں بہت سی چیزیں ہیں مگر یہاں تم نہیں ہو۔۔۔۔۔۔ میں تمہیں بہت مِس کرتا ہوں۔” گاڑی کسی گڑھے سے گزری تو وہ حال میں لوٹے تھے اور ایک اۤنسو ان کی اۤنکھ سے ٹپکا تھا۔ وہ احمد سے ملنے اکیڈمی جا رہے تھے، پورے بیس سال بعد اۤج وہ احمد سے ملنے والے تھے۔ اپنی بیٹی کی خاطر وہ بے بس ہو گئے تھے۔ وہ اۤخری بار احمد سے بات کر لینا چاہتے تھے۔ وہ جانتے تھے احمد ان سے بھی ٹھیک سے بات نہیں کریں گے مگر کوشش کرنی انہوں نے ضروری سمجھی۔
”کس سے ملنا ہے اۤپ کو؟”
”احمد رضا ابراہیم۔” اٹک اٹک کر انہوں نے بیس سال بعد وہ نام لیا جو ان کی زندگی کے سب سے خوب صورت ناموں سے تھا مگر وقت کی سیاہی نے ہر نام کو اپنے پیچھے چھپا رکھا تھا۔
”اۤپ کا نام؟” وہ کچھ سوچنے لگے کیا، احمد میرا نام سن کر مجھ سے ملے گا۔”
”اۤپ کا نام؟” اس لڑکی نے دوبارہ پوچھا جو ریسیپشن ٹیبل کے اس پار بیٹھی تھی۔