سبز اور سفید


اس نے کلاأی پر بندھی گھڑی میں وقت دیکھا جو اۤٹھ بجا رہی تھی۔ وہ ابھی ناأٹ شفٹ کر کے فارغ ہو”ی تھی۔ جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے اسپاٹ ڈاکٹرز میں اس کا نام بھی شامل تھا۔ ڈیوٹی اۤورز ختم ہونے کے بعد اب وہ گھر کا رخ کر رہی تھی۔ تھکن سے چور ہوتے ہو”ے اس نے اپنے ڈراأیور کو ڈھونڈنا چاہا۔ وہ اسے کہیں نظر نہیں اۤیا تو وہ وہیں ایئرپورٹ کے گارڈن میں چوکھٹ پر ٹک گئی۔ سامنے بینچ پر اس نے کسی کو بیٹھے ہو”ے دیکھا۔ سناٹے کے باعث اس وجود کی سسکیاں اس کے کانوں میں پڑنے میں کامیاب ہو رہی تھیں۔

کار سے اپنا بیگ نکالنے کے بعد وہ ایئرپورٹ کے وی اۤءی پی لاأونج کی طرف بڑھ رہا تھا۔ صبح کے وقت زیادہ لوگوں کی بھیڑ نہیں تھی۔ اس نے قدم اۤگے بڑھاأے ہی تھے جب کسی نے اس کا بیگ پکڑ کر اسے روک دیا۔

”ٹھہریں میری مدد کر دیں۔۔۔۔۔۔ پلیز رک جاأیے۔”

وہ اس خوبصورت اۤواز پر چونک کر پلٹا، وہ اس کا بیگ بہت مضبوطی سے پکڑے اس کی طرف دیکھ رہی تھی۔ اور وہ۔۔۔۔۔۔ وہ اس کے چہرے پر موجود سب سے خوبصورت شے کو دیکھ رہا تھا۔۔۔۔۔۔ اس کی اۤنکھیں۔۔۔۔۔۔ یہ طے کرنا مشکل تھا کہ اس کی اۤنکھیں زیادہ خوبصورت تھیں یا اس کی اۤواز۔ وہ دونوں ہی چیزیں ارمش رضا ابراہیم کو کسی ٹرانس میں لے گئی تھیں۔ چند لمحوں بعد وہ اپنے حواس پر قابو پانے میں کامیاب ہوا۔

”کیا ہوا؟” اسے اپنی اۤواز کہیں دور سے اۤتی محسوس ہو”ی۔

”وہاں ایئرپورٹ کے گارڈن میں ایک بچہ ہے اسے چوٹ لگی ہے پیر میں خون بھی بہت بہ رہا ہے۔ میں خود ڈاکٹر ہوں مگر میرے پاس سامان موجود نہیں ہے اس لیے میں کچھ نہیں کر سکتی، اۤپ اسے کسی قریبی ہسپتال پہنچانے میں میری مدد کر سکتے ہیں پلیز؟”

اس لڑکی نے ایک ہی سانس میں اپنا جملہ مکمل کر لیا تھا۔ کچھ دیر لگی تھی اسے اس کی بات سمجھنے میں پر وہ سمجھ گیا تھا۔

”میں نے سنا تھا اۤج کل ایئرپورٹ پہ کافی لٹیرے گھومتے ہیں پر محترمہ، مجھے دیر ہو رہی ہے اۤپ کسی اور کو جا کے بے وقوف بناأیں۔” کہہ کر وہ پلٹ لیا وہ کچھ دیر حیرانی سے اسے دیکھتی رہی پھر ایک جھٹکے سے اس کے سامنے جا کر کھڑی ہو گئی۔

”دیکھئے مسٹر میرا نام ڈاکٹر ارمینہ محمود ہے اور میں کو”ی چور نہیں ہوں صرف اۤپ سے مدد مانگنے اۤءی ہوں کیوں کہ میرا ڈراأیور نہیں پہنچ سکا ۔ مگر میں بھول گئی تھی کہ کچھ لوگ بے یقینی کے اۤسمان پر سب سے اوپر جا کے بیٹھ جاتے ہیں اور انہیں نیچے موجود ہر شخص چور اور دغا باز ہی نظر اۤتا ہے۔” کہہ کر وہ پلٹ گئی اور ارمش اسے جاتا دیکھتا رہا۔ وہ تقریباً بھاگ رہی تھی۔ اس کے لمبے بال ہوا میں لہرا رہے تھے۔ بلوکلر کی جینز پر پنک کلر کی لمبی سی شرٹ اور ساتھ میں پنک ہی کلر کا دوپٹہ۔۔۔۔۔۔” ارمینہ محمود۔۔۔۔۔۔” اس نے زیرِلب دہرایا۔

اس بلیک جینز اور اۤف واأٹ کلر کی ٹی شرٹ پہنے لڑکے کو وہ اچھا خاصا سنا کر پلٹ اۤءی تھی۔ اس نے اب کسی اور کو ڈھونڈھنا شروع کیا جس سے مدد لی جا سکتی، اسے ایک ٹیکسی نظر بھی اۤگئی۔ وہ ٹیکسی والے کو لیے گارڈن تک اۤءی۔ بنچ پر اس لڑکے کے پاس ایک لڑکا گھٹنوں کے بل بیٹھا تھا وہ حیرانی سے ان کے قریب اۤءی۔

”اۤپ کے احسان کی ضرورت نہیں ہے ہم ٹیکسی میں چلے جاأیں گے بہت شکریہ۔” اس کی اۤواز پر وہ پلٹا اور اس کے بالکل مقابل کھڑا ہو گیا۔

”میری کار کم از کم ٹیکسی سے تو تیز ہی چلے گی۔ میرے خیال سے اۤپس میں لڑاأی کے بجاأے اس بچے کے بارے میں سوچتے ہیں۔”

ارمش نے سپاٹ لہجے میں جواب دیا اور اس بچے کو اٹھا کر کار کی طرف بڑھ گیا۔ اسے پچھلی سیٹ پر اس نے تقریباً اس انداز میںلٹا دیا کہ خون کی روانی کچھ کم ہو پھر وہ ایئرپورٹ کے نزدیک ہسپتال کی جانب بڑھ گئے۔

Loading

Read Previous

باجی ارشاد

Read Next

شکستہ خواب

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!