”تم نے مجھ سے جھوٹ بولا کہ تمہاری طبیعت خراب ہے، تم اصل میں سڈنی چلے گئے تھے کسی کو بھی بتاأے بغیر، میں نے تمہیں فون کیا تب تم نے مجھ سے ٹھیک سے بات نہیں کی، بعد میں میں تمہارے گھر اۤءی صرف تمہاری خیریت پوچھنے کی خاطر کہ تم ہیری ہوم بھی نہیں اۤ رہے، تب پتا چلا کہ تم تو پاکستان میں ہو ہی نہیں۔۔۔۔۔۔ اچھا جھوٹ بولا تھا تم نے بیماری کا مگر میں جانتی ہوں تم مجھے avoid کر رہے تھے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ میں ضرورت سے زیادہ تمہیں اہمیت دینے لگی تھی۔۔۔۔۔۔ جو کہ مجھے نہیں کرنا چاہیے تھا، ضروری نہیں ہے کہ اگر میں کسی کو اہمیت دوں تو سامنے والا بھی مجھے اتنا ہی اہم سمجھے۔۔۔۔۔۔ مگر۔۔۔۔۔۔ تمہیں مجھ سے جھوٹ نہیں بولنا چاہیے تھا۔۔۔۔۔۔ اگرلاتعلقی اختیار کرنی تھی تو صاف کہتے مجھ سے کہ ارمینہ مجھے تم سے ملنا پسند نہیں مگر اس طرح مجھے خوار کر کے مجھے جھوٹ بول کر اپنی انا کی تسکین کرنے کا حق نہیں تھا تمہیں۔۔۔۔۔۔”
وہ چُپ ہو”ی تو اس کا چہرہ سُرخ ہو رہا تھا۔ اس نے ارمش کی جانب نہیں دیکھا تھا۔۔۔۔۔۔ وہ ہنوز نہر کے پانی کو دیکھ رہی تھی۔
”تم سے یہ کس نے کہا تھا کہ میں بیمار نہیں ہوں یا میں تمہیں avoid کر رہا ہوں؟”
”تمہارے بابا نے۔” ارمینہ کی اس بات پر ارمش ایک گہری سانس لے کر رہ گیا۔ اب وہ دونوں سامنے دیکھنے لگے تھے دھند کی وجہ سے زیادہ دور کا منظر دیکھنا مشکل ہو رہا تھا۔
”پہلی بار بات تو یہ کہ میں بیمار تھا۔۔۔۔۔۔ میں نے تم سے کو”ی جھوٹ نہیں کہا۔۔۔۔۔۔ رہا سوال سڈنی جانے کا تو ڈینیل کی فیملی کی ایک ایکسیڈنٹ میں ڈیتھ ہو گئی تھی، اچانک اس لیے میں صبح ہی سڈنی چلا گیا کسی کو بتانے کا میرے پاس وقت نہیں تھا۔۔۔۔۔۔ میں ایک ہفتہ وہیں تھا اور funeral اور باقی تمام کاموں میں ڈینیل کی مدد کر رہا تھا۔۔۔۔۔۔ اور یہ تم سے کس نے کہہ دیا کہ مجھے تم سے بات کرنا یا ملنا پسند نہیں یا میرا ارادہ تمہیں بے عزت کرنے کا یا اپنی انا کی تسکین کرنے کا تھا۔۔۔۔۔۔؟” ارمینہ نے گردن گھما کر ارمش کو دیکھا تھا اور وہ اپنا نچلا ہونٹ کاٹنا شروع کر دیا۔۔۔۔۔۔
”ارمینہ کو”ی ہمیں کتنا دکھی کر سکتا ہے یا کو”ی ہمیں دکھی کر سکتا ہے بھی کہ نہیں، اس کا دارومدار ہم پر ہے۔ اگر ہم چیزوں کو منفی رُخ سے دیکھیں گے تو ہمیں ہر چیز اپنے خلاف ہی ملے گی۔۔۔۔۔۔ مجھے بتاأو کیا تمہیں کبھی اس سے پہلے ایسا محسوس ہوا کہ میں تمہیں اگنور کر رہا ہوں؟”
”ہاں” اس بار ارمش ششدر رہ گیا تھا۔
”کب؟”
”جب تم ایگزیبشن لے کر گئے تھے مجھے۔۔۔۔۔۔ تم نے میری پرابلم جاننے پر استفسار کیا ہی نہیں۔۔۔۔۔۔ بس گھومنے کی پڑی تھی تمہیں۔” وہ حیران ہوا، اسے اتنی پرانی اور معمولی بات بھی یاد تھی۔
”کیوں کہ محترمہ میں جانتا تھا کہ اۤپ مجھے بتاأیں گی نہیں۔”
”تو تم پوچھتے تو۔۔۔۔۔۔ اس دن میں سمجھ گئی تھی تمہیں میرے ایشوز سے کو”ی فرق نہیں پڑتا۔۔۔۔۔۔” وہ افسردہ ہوکر مسکرایا تھا۔
”تمہیں کتنی بار منع کیا ہے کہ یہ سوچنے سمجھنے والے کام مت کیا کرو تمہاری استعداد سے باہر ہیں۔” یہ اس نے غصے سے ارمش کو دیکھا پھر وہ اٹھ کر جانے لگی تو ارمش نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے وہیں بٹھا لیا تھا۔
”بات ابھی ختم نہیں ہو”ی ہے۔۔۔۔۔۔ اس دن میرا مقصد ایگزیبشن گھومنا نہیں تھا۔۔۔۔۔۔ انتظار کرنا تھا۔ کیوں کہ میسج پر کو”ی مجھے بتانے والا تھا کہ تم بینک کیوں گئی تھی۔۔۔۔۔۔ اور جب تک میسج نہیں اۤجاتا مجھے لگا تھا مجھے تمہارے ساتھ رہنا چاہیے کہ کہیں تم کو”ی اور بے وقوفی نہ کر بیٹھو۔۔۔۔۔۔ اور میں نے تم سے پوچھا اس لیے نہیں تھا کیوں کہ تم مجھے نہیں بتاتی اور اگر میں مجبور کرتا اور تم بتاتی تو اس سے تمہیں دکھ ہوتا ویسے بھی یہ تمہارا اپنا ایشو تھا۔۔۔۔۔۔ اگر کو”ی ایسی بات ہوتی جس میں مجھے انٹرفیئر نہیں کرنا چاہیے تھا تو میں نہیں کرتا۔۔۔۔۔۔ مگر مجھے لگا میں تمہاری مدد کر سکتا ہوں تو میں نے پیسے بھجوا دیئے اور اب ایک لڑکی جو اپنی انا کی خاطر وہ پیسے تک نہیں رکھ سکتی تھی تو اس میں میں کیا کہتا۔۔۔۔۔۔؟”
وہ دم بہ خود سی اس کی باتیں سن رہی تھی، بہت سی چیزیں اسے معلوم تھیں اور جو معلوم نہیں تھیں وہ اتنی اہم نہیں تھیں کہ وہ انہیں لے کر اس سے بدگمان ہوتی۔۔۔۔۔۔ فرق صرف نظریئے کا تھا، حالات کو سمجھنے کا تھا اور اس انسان کو سمجھنے کا جو اس کے برابر میں بیٹھا تھا اور جو اس کی ہر حرکت، ہر عادت اور ہر احساس کو بہ خوبی سمجھتا تھا اور اس کی بے وقوفی کی باتوں اور تکلیف دہ جملوں پر بھی صرف مسکراتا تھا۔۔۔۔۔۔ ہنستا نہیں تھا! اسے اس کی مسکراہٹ مہربان لگتی تھی اور وہ جو پچھلے ایک ہفتے سے دعویٰ کرتی تھی کہ وہ اب اسے جان گئی ہے تو اۤج پھر اس شخص نے اسے شہ مات دے دی تھی۔۔۔۔۔۔ وہ اۤج بھی وہیں کھڑی تھی جہاں سے پہلی ملاقات کے بعد تھی۔۔۔۔۔۔ ”صفر” کے ہندسے پر۔۔۔۔۔۔ وہ اب سامنے دیکھنے لگی تھی۔۔۔۔۔۔ دھند چھٹ رہی تھی اور اب منظر صاف تھا۔
ارمش اب تک اسی کی طرف دیکھ رہا تھا۔۔۔۔۔۔ بہت غور سے سرخ سی ناک اور سرخ سی اۤنکھوں کو۔۔۔۔۔۔!
”guzel!” بے ساختہ ارمش کے منہ سے نکلا تھا۔۔۔۔۔۔ وہ گردن گھما کر اسے دیکھنے لگی۔۔۔۔۔۔
”کیا؟” اس نے استعجابیہ نظروں سے اسے دیکھا۔
”کچھ کہا تم نے؟” ارمینہ نے اس سے حیرانی سے پوچھا۔
”guzel” اس نے وہی لفظ اسی انداز سے دہرایا تھا۔
”کچھ نہیں۔۔۔۔۔۔ اب چلو میں تمہیں چھوڑ دوں” وہ اٹھ کھڑا ہوا تھا۔
”نہیں! پہلے بتاأو اس کا کیا مطلب ؟”
”نہیں بتاأوں گا۔۔۔۔۔۔ یہ تمہاری سزا ہے۔”
”میں نے کیا کیا ہے ایسا جو مجھے سزا ملے؟” اس کا اعتماد قابلِ دید تھا۔ اس کو ہنسی اۤگئی تھی مگر ارمش جانتا تھا کہ وہ دل سے شرمندہ تھی۔
”تم نے خود کچھ نہیں کیا، بس تم سے ایسی غلطیاں ہو جاتی ہیں خود یہ خود۔۔۔۔۔۔ چلو اب اٹھو۔” اس نے ہاتھ دے کر اسے اٹھنے میں مدد دی تو وہ کھڑی ہو گئی۔
”بتاأو guzel کا کیا مطلب ہے؟”
”ضدی۔” وہ اب اس کے ساتھ چل رہی تھی۔
”ضدی۔۔۔۔۔۔؟” اس نے کندھے اچکا کر کہا۔
”ہاں”
”اور یہ کون سی زبان کا لفظ ہے؟”
”تمہیں کس زبان کا لگتا ہے؟” ہاتھ جیب میں ڈالے وہ اب سڑک کی طرف چل رہا تھا۔
”شاید اسپینش یا اٹالین”
”ایک بتاأو؟”
”اسپینش”
”Bingo! کافی عقلمند ہو گئی ہو پچھلے اۤدھے گھنٹے میں۔” اس نے شرمندگی سے سر جھکا لیا جب کہ ارمش مسکرا کر اس کے ساتھ چل رہا تھا۔
”پر تم یہاں شکرپاراں میں کیا کر رہے ہو؟”
”بابا یہاں ہیں۔۔۔۔۔۔ مجھے ان سے کام تھا اس لیے اۤیا تھا۔” وہ اچانک بہت محتاط ہو گیا تھا۔
”اور تم یہاں کیا کر رہی ہو؟”
”میں اور پاپا امی کی قبر پر اۤءے تھے۔”
”اچھا۔۔۔۔۔۔ ارمینہ تمہاری امی کا کیا نام تھا؟” اس نے بے کار سا سوال کیا تھا، جواب وہ جانتا تھا۔
”انابیہ” ارمش خاموش رہا تھا۔ وہ اب بھی ننگے پاأوں چل رہی تھی اور چپلیں اس کے ہاتھ میں تھیں مگر اب اسے ننگے پاأوں چلنا برا نہیں لگ رہا تھا۔ گارڈن کی گھاس پر وہ بہت مزے سے چل رہی تھی۔
”یہ چپل ٹوٹی کیسے؟”
”تمہاری وجہ سے۔۔۔۔۔۔”
”اب میں نے کیا کیا ہے؟”
”تم گاڑی میں گزر رہے تھے بے دھیانی میں میرا پیر پتھر سے ٹکرا گیا اور اٹک کر یہ چپل ٹوٹ گئی۔”
”اور اس میں کیا ہے؟”
”ناریل کی مٹھاأی۔۔۔۔۔۔ پاپا کی فیورٹ۔۔۔۔۔۔ یہاں شکرپاراں کی ایک دکان کی ہے۔۔۔۔۔۔ پاپا کو یہیں کی پسند ہے۔”
”چلو بیٹھو۔” وہ گاڑی تک اۤگئے تو ارمش نے گاڑی کا دروازہ اس کے لیے کھول دیا تھا کیوں کہ اس کے ایک ہاتھ میں چپلیں اور دوسرے میں مٹھاأی کا تھیلا تھا۔ وہ بیٹھ گئی تو ارمش نے دروازہ بند کر دیا اور خود ڈراأیونگ سیٹ پر اۤکر بیٹھ گیا۔ کچھ دیر خاموشی رہی پھر اس نے ارمش سے وہ سوال کیا جو اسے بہت دیر سے پریشان کر رہا تھا۔
”تمہارے بابا نے مجھ سے جھوٹ کیوں بولا ارمش؟” اور یہ وہ سوال تھا جو ارمش کو بھی پریشان کر رہا تھا۔
”معلوم نہیں” بہت سادہ سے لہجے میں اس نے کہا تو ارمینہ خاموش ہو گئی۔
”ارمش ڈینیل کیسا ہے؟” اسے اچانک ڈینیل کا خیال اۤیا۔ وہ اب تمام باتوں میں ڈینیل کے ساتھ پیش اۤنے والا حادثہ بھول گئی تھی۔
”ٹھیک نہیں تھا۔۔۔۔۔۔ اس کی فیملی ختم ہوگئی، بہت اکیلا ہو گیا ہے مگر وہ خود کو سنبھال لے گا۔۔۔۔۔۔”
”مجھے افسوس ہے۔۔۔۔۔۔ وہ بہت اچھا انسان ہے۔”
”ہونہہ!” تھوڑی ہی دیر میں وہ ارمینہ کے بتاأے ہو”ے گیسٹ ہاأوس کے اۤگے اۤکر رک گئے تھے۔
”تمہارے پیر۔۔۔۔۔۔ اس طرح اندر جاأو گی تو گیسٹ ہاأوس گندا ہو جاأے گا۔” اس کے پیر اب مٹی سے اٹے ہو”ے تھے۔
”ہاں معلوم ہے پر اب کیا کروں؟” اس نے سوالیہ نگاہوں سے ارمش کو دیکھا۔
”میں اوپر جا کر کو”ی اور چپل لاد وں؟”
”ایک ہی ہے۔۔۔۔۔۔ ایک ہی دن کے لیے تو اۤءے تھے ہم، اب سلپرز کون لے کر اۤتا ہے ساتھ۔”
”تو اب؟ دوسری لے لو دکان سے۔”
”یہاں کی دکانیں نہیں معلوم مجھے۔”
”مجھے معلوم ہیں” اس نے گاڑی اسٹارٹ کرتے ہو”ے کہا۔
”پہلے خیال نہیں اۤیا۔۔۔۔۔۔ یہاں پہنچ کر یاد دلا رہے ہو۔”
”واہ! یہ میرا کام نہیں ہے محترمہ، اۤپ کو سوچنا چاہیے تھا۔”
”سوری!” ارمش نے حیران ہو کر اسے دیکھا۔ اس کے چہرے پر ملال تھا۔۔۔۔۔۔ اسے ارمینہ پر ترس اۤیا تھا۔
”کون سی والی بات کے لیے؟”
”میں نے پہلے نہیں سوچا اور تمہارا پٹرول ضاأع ہوا اس کے لیے۔”
”اور کسی بات کیلئے نہیں؟” اس نے شرارت سے پوچھا تھا۔
”نہیں۔” بڑی شانِ بے نیازی سے اس نے کہا تو ارمش ہنس دیا تھا۔ وہ ایک دکان پر اۤگئے۔ یہ کو”ی اسٹور نہیں تھا بلکہ روایتی کھسوں کی ایک دکان تھی جو وہاں قدم قدم پر ملتی تھی۔ یہاں موجود چپل پر ہاتھ سے کڑھاأی کی جاتی تھی۔ وہ اندر اۤگئی۔ اس نے سرخ رنگ کی بہت نفیس سی چپل اٹھا لی جس کے کنارے پر سفید رنگ کا خوبصورت سا گلاب کڑھا ہوا تھا۔
”کتنے کی ہے؟” اس نے دکاندار سے قیمت پوچھی اور مٹھاأی والی تھیلی سے اپنا والٹ نکالنے لگی۔
”میں دے دوں؟” ارمش جانتا تھا جواب کیا ہو گا۔
”ضرورت نہیں ہے۔۔۔۔۔۔ میں اپنی تمام چیزیں afford کر سکتی ہوں۔”
”ہاں بالکل۔” اس نے سنجیدگی سے جواب دیا۔ وہ باہر اۤگئی اور ساتھ بنی ہو”ی کیاریوں میں جا کر اپنے پیر دھونے لگی پانی اس نے وہیں دکاندار سے لے لیا تھا۔ اس نے اپنے ہاتھ میں موجود تمام اشیاأ ارمش کو پکڑاأیں اور خود اس بوتل سے اپنے پیروں پر پانی ڈالنے لگی جو دکاندار نے اسے دی تھی۔ ارمش اس کے ساتھ کھڑا اس کی کوششوں کو مُسکرا کر دیکھ رہا تھا۔ پانی اس کے پیروں سے ہوتا کیاری میں جا رہا تھا۔ جب وہ اس کام سے فارغ ہو”ی تو اس نے ارمش سے والٹ لیا اور اس میں سے ٹشو نکال کر پیروں کو خشک کیا اور نئی خریدی ہو”ی چپل پیروں میں ڈال کر کھڑی ہو گئی۔
پھر وہ واپس گیسٹ ہاأوس اۤگئے تھے۔
”اۤءی ایم سوری” گاڑی سے اترنے سے پہلے وہ بولی تھی۔
”اس بار کس لیے؟”
”جو بھی سمجھ لو۔۔۔۔۔۔ جس بھی غلطی کیلئے تمہیں ضروری لگے اس کے اۤگے جوڑ لینا۔” وہ مسکراأے بغیر نہیں رہ سکا تھا۔
”c’esti bian” وہ سر کو خم دے کر بولا تھا۔
”اس کا مطلب؟”
”It’s ok”
”اور یہ کس زبان کا لفظ ہے؟”
”تم بتاأو؟”
”اس بار اٹالین۔۔۔۔۔۔”