پھر انہوں نے راہداری کے دوسرے سرے سے کسی کی اۤہٹ سنی، وہ جانتے تھے کہ یہ ارمینہ تھی۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ وہ انہیں دیکھے اس لیے وہ واپس مڑ گئے تھے۔ گھر اۤتے اۤتے انہوں نے خود سے ایک ہی سوال کیا تھا۔۔۔۔۔۔
” اس کے ساتھ ایسا کیا ہوا جو وہ معذور ہو گیا۔۔۔۔۔۔؟”
٭۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔٭
وہ اس کی قبر کے پاس بیٹھا تھا اور دوسری طرف احمد تھا۔ وہاں ان دونوں کے سوا اور کو”ی نہیں تھا۔ انہوں نے اسے اپنے ہاتھوں سے لحد میں اتارا تھا۔ سرفراز کے ہاتھ کانپے مگر وہ رویا نہیں تھا۔ وہ اس کی موت پر بس ایک بار رویا ۔ ہسپتال کی سیڑھیوں پر جب اس نے قبول کیا تھا کہ وہ مر گئی ہے۔ اس کے بعد اس نے کبھی اۤنسو نہیں بہاأے۔ وہ لاکھ کوشش کرتا مگر اسے رونا نہیں اۤتا تھا وہ لاکھ کوشش کرتا اسے سکون بھی نہیں اۤتا تھا۔ اس نے کل سے کسی سے ایک لفظ بھی نہیں کہا تھا۔ اسے ہوش ہی نہیں تھاکہ ارمینہ کہاں تھی اسے بس ایک بات یاد تھی کہ انابیہ اب نہیں تھی۔ وہ اب کہیں نہیں تھی وہ دونوں زمین پر گھٹنوں کے بل بیٹھے تھے اس عورت کی قبر کے گرد جسے وہ سب سے زیادہ چاہتے تھے۔ ایک جس کی وہ بہن تھی اور ایک جس کی وہ بیوی تھی۔ احمد اپنی جگہ سے اٹھ کر جانے لگا تھا۔ اس نے سرفراز سے رسمی یا ضرورت کی گفتگو بھی نہیں کی تھی۔
”احمد” سرفراز نے پکارا۔
”میرا نام مت لو سرفراز۔۔۔۔۔۔ ہم ایک دوسرے کے لیے مر گئے ہیں کیوںکہ میری بہن مرچکی ہے۔ مجھ سے تمہارا تعلق ختم ہو گیا ہے اور میں تمہیں کبھی معاف نہیں کروں گا۔۔۔۔۔۔ کبھی بھی نہیں۔” سرفراز کی طرف پشت کئے اس نے کہا اور وہ چلا گیا۔ سرفراز تنہا رہ گیا تھا۔
”زندگی اس سے زیادہ مشکل بھلا کیا ہو سکتی ہے۔” اس نے سوچا تھا۔۔۔۔۔۔ اسے اندازہ بھی نہیں تھا کہ زندگی اس سے زیادہ مشکل بھی ہو سکتی تھی۔
٭۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔٭
احمد تدفین کے بعد شکرپاراں میں نہیں رکا تھا بلکہ وہ کراچی واپس چلا گیا۔ اپنی زندگی کی سب سے تلخ اور سب سے خوف ناک یادوں کے ساتھ۔ جو اسے اب ساری زندگی ایک مختلف انسان کے روپ میں ڈھال دینے والی تھیں۔ احمد نے بولنا چھوڑ دیا تھا۔ وہ اپنے بچوں سے بھی بہت کم بات کرتا تھا۔ وہ بس جی رہا تھا۔ ثمینہ کو لگا وہ کچھ عرصے میں بہتر ہو جاأے گا مگر وقت کے ساتھ ساتھ اس کی تلخیاں بڑھتی گئیں اور اس نے اپنی زندگی بس کام تک محدود کر لی۔ ارحم بڑا تھا، سمجھدار تھا وہ جانتا تھا بابا اپ سیٹ تھے مگر ارمش کو بابا میں اۤنے والی تبدیلی بہت پریشان کر گئی تھی۔ وہ اب اس سے بات بہت کم کرتے تھے اور اس کے سارے دن کی روداد بھی نہیں سنتے تھے وہ ایک بار ان کے پاس اسٹڈی میں اۤگیا۔
”بابا۔۔۔۔۔۔ کیا میں اۤجاأوں؟” وہ اس وقت سات یا اۤٹھ سال کا تھا۔بابا ہاتھ میں کو”ی کتاب لیے بیٹھے تھے مگر ان کا دھیان جیسے کہیں اور تھا۔ ارمش کی اۤواز پر وہ چونک کر سیدھے ہو”ے۔
”ہاں اۤجاأو۔” ان کے لہجے میں اب کو”ی مٹھاس نہیں رہی تھی۔
”بابا کل میری چھٹی ہے تو کیا میں اۤپ کے پاس بیٹھ جاأوں؟” اس نے معصومیت سے پوچھا تو وہ منع نہیں کر پاأے تھے۔ چہرہ اب بھی سپاٹ تھا۔
”ہاں بیٹھ جاأو۔” وہ خوشی کے مارے کچھ دیر سن سا کھڑا رہا پھر دوڑ کر ان کے قریب رکھی ایک چیئر پر بیٹھ گیا۔
”اۤپ کیا پڑھ رہے تھے؟” ان کی کتاب کے متعلق اس نے پوچھا۔
”میں۔۔۔۔۔۔ یاد نہیں مجھے۔” وہ جیسے کسی اور دنیا میں تھے۔
”بابا اۤپ کے ہاتھ میں ہے ناں یہ والی بک۔” اب کی بار اس نے اشارہ کیا تھا۔
”ہاں۔۔۔۔۔۔ میں نے پڑھ لی یہ لو۔۔۔۔۔۔ کہانی ہے ایک۔”
”کہانی۔۔۔۔۔۔؟ کسی کی کہانی؟ ”اس نے تجسس سے پوچھا تھا۔
”ایک سپاہی کی کہانی ہے۔”
”کیا کہانی ہے بابا؟ مجھے بھی سناأیں ناں؟” وہ جیسے یک دم خاموش ہو گئے۔
”ارمش تمہیں اتنی رات تک نہیں جاگنا چاہیے سو جاأو جا کر۔”
”پر بابا میری چھٹی۔۔۔۔۔۔”
”ہاں جانتا ہوں پھر بھی سو جاأو جا کر۔۔۔۔۔۔ ارحم بھی سو چکا ہے۔” انہوں نے سختی سے اس کی بات کاٹی تھی۔ اس کا چہرہ ایک پل میں مرجھا گیا تھا۔ وہ بہت خاموشی سے چیئر پر سے اٹھا اور اسٹڈی سے باہر اۤگیا۔ اپنے بستر پر اۤنے کے بعد بھی وہ سو نہیں سکا۔ وہ پہلی بار تھا جب اس کے بابا کے رویے نے اسے رلایا تھا۔ پھر اکثر ایسا ہوتا تھا وہ ان کے پاس جاتا تو وہ مصروف ہوتے یا تھوڑی دیر اسے بٹھا کر واپس بھیج دیتے۔
اسے بچپن سے فوج سے کو”ی خاص دلچسپی نہیں تھی۔ وہ جانتا تھا ارحم فوج میں جانا چاہتا تھا مگر اس نے بابا کو فوج میں ہونے کی وجہ سے گھر سے بہت دور اور الگ دیکھا تھا۔ ان کی طرح وہ بھی گھر سے الگ تھلگ نہیں رہناچاہتا تھا۔
”پر بابا میرا دل نہیں چاہتا فوج میں جانے کو، میں بزنس اسٹڈیز کرنا چاہتا ہوں۔ مجھے پسند ہے بزنس اسٹڈیز۔”
”ارمش میں اور ارحم بھی اسی فیلڈ سے تعلق رکھتے ہیں۔ تمہیں ہماری زندگی میں نظم و ضبط اور ترقی نظر نہیں اۤتی؟”
”اۤپ لوگوں کو اس کا شوق ہے اس لیے اۤپ لوگ ترقی کرتے ہیں، مجھے نہیں ہے تو شاید میں نہ کر پاأوں۔ مجھے اس میں کو”ی کشش نظر نہیں اۤپ مجھے ایک معقول وجہ بتا دیں بزنس اسٹڈیز نہ کرنے کی۔۔۔۔۔۔ میں واقعی چھوڑ دوں گا۔”
”بزنس انسان کو مطلب پرست بنا دیتا ہے ارمش۔ تمہیں بزنس کر کے کبھی اس ملک اور اس ملک کے لوگوں سے وہ محبت نہیں ہو گی جو میں چاہتا ہوں۔ تم خود پرست اور مادیت پرست ہو جاأو گے۔”
”نہیں بابا۔۔۔۔۔۔ میں اۤپ سے اتفاق نہیں کرتا۔ ملک سے محبت کے لیے وردی کی ضرورت نہیں ہوتی۔ میں فوج میں نہ جا کر بھی اس ملک سے اور یہاں کے لوگوں سے ویسی ہی محبت کر سکتا ہوں۔ جیسی اۤپ چاہتے ہیں۔۔۔۔۔۔ اۤپ مجھے جانتے ہیں بابا۔۔۔۔۔۔ میں مادیت پرستنہیں ہوں۔” یہ کہہ کر وہ چلا گیا تھا۔ یہ ان کی پہلی بحث تھی اور پھر ایسا اکثر ہونے لگا تھا۔ وہ اپنی بچپن کی محرومیوں کی وجہ سے احساس کمتری کا شکار تھا اور احمد رضا اپنی ضد کے پکے تھے۔
٭۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔٭
تدفین ہو جانے کے بعد چند دن لوگوں کی اۤمد ہوتی رہی پھر کم ہو”ی اورپھر ختم ہو گئی۔ وہ ارمینہ کو لے کر پشاور واپس جا رہا تھا۔ جاتے جاتے اس نے ایک نگاہ اس گھر پر ڈالی جہاں اس کی زندگی کی سب سے خوبصورت اور سب سے بدصورت یادیں دفن تھیں۔ اس نے اپنی اۤنکھیں بند کیں، گزرے لمحوں کو ایک بار یاد کیا، اپنے بچپن سے لے کر ارمینہ کی پیداأش اور پھر اۤخر میں انابیہ کی موت تک، پھر اۤنکھیں کھول دیں۔ دروازے اور گھر کو لاک کر کے وہ ایئرپورٹ کیلئے روانہ ہو گیا۔
پشاور پہنچ کر اس نے ڈیوٹی پھر سے جواأن کر لی۔ وہ دن میں ارمینہ کو ڈے کیئر میں چھوڑ جاتا اور گھر واپسی پر اسے لے لیتا۔ گھر میں اسے عجیب سی وحشت ہوتی۔ اس نے اپنے اۤپ کو صرف ارمینہ کے لیے زندہ رکھا ہوا تھا۔
نیلی اۤنکھوں والی وہ شہزادی جو اسے اپنی حرکتوں سے کبھی ہنسا دیتی پھر اگلے ہی لمحے وہ سپاٹ چہرہ لیے اسے تکتا رہتا۔
سرفراز کو ہسپتال سے گھر اۤءے ایک ہفتے سے زیادہ ہو گیا تھا۔ وہ بے ساکھیوں کے بل چل سکتے تھے مگر اب بھی ویل چیئر ان کیلئے ضروری تھی کیوں کہ ایک دم سے چلنے کی سکت ان کے پیروں میں نہیں تھی۔ فزیو تھیراپسٹ کی مدد سے وہ بہت جلد بہتر ہو رہے تھے اور ارمینہ کی اس بہتری سے مطمئن تھی۔
وہ اۤج بہت دن بعد ہیری ہوم اۤءی تھی اور وہاں سب کچھ ویسا ہی تھا جیسا وہ چھوڑ گئی تھی۔
”السلام علیکم ڈاکٹر فاروق کیسے ہیں اۤپ؟” سنڈے کے میڈیکل چیک اپ کے لیے وہ دونوں وہاں موجود تھے۔
”میں ٹھیک ہوں ارمینہ تمہارے پاپا کیسے ہیںاب؟”
”بہتر ہیں۔”
چپک اپ کے لیے اۤدھے بچے اس کے حصے میں اۤتے تھے اور اۤدھے ڈاکٹر فاروق کے حصے میں تمام بچوں سے فارغ ہونے کے بعد وہ ہال میں اۤگئی۔ ایک بڑے سے دستر خوان کے گرداب سب جمع ہو رہے تھے اور کھانے کی تیاریاں ہو رہی تھیں۔
”عمر ارمش کہاں ہے؟ اۤیا نہیں؟ اۤج تو سنڈے ہے؟” اس نے عمر سے پوچھا۔
”ہاں ان کی طبیعت ٹھیک نہیں فون اۤیا تھا ان کا۔”
”کیوں کیا ہوا اسے؟”
”معلوم نہیں! یہ نہیں بتایا بس بولا تھا کہ طبیعت ٹھیک نہیں تو اۤج نہیں اۤءیں گے۔” اسے کچھ حیرت ہو”ی۔ اس نے اپنا فون نکال کر ارمش کو کال ملاأی۔
رسمی سلام دعا کے بعد ارمینہ نے اس کی طبیعت پوچھی۔
”ٹھیک ہوں بس بخار وغیرہ ہے۔”
”اوہ! اچھا۔”
”تم ہیری ہوم ہو؟”ارمش نے اس سے پوچھا
”ہاں! عمر نے بتایا کہ تمہاری طبیعت نہیں ٹھیک تو میں نے سوچا پوچھ لوں۔”
”نہ بھی پوچھتیں تو بھی چلتا۔۔۔۔۔۔ کچھ خاص نہیں ہوا مجھے۔” ارمینہ کو لگا جیسے وہ اس سے بات کرنے کے ساتھ ساتھ کو”ی اور کام بھی کر رہا ہے۔
”تم مصروف ہو؟”
”ہاں!” ارمینہ کو اس کا دو ٹوک جواب کچھ برا لگا تھا۔
”تمہیں ”نہیں” کہنا چاہیے تھا۔ ایک انسان تمہاری خیریت پوچھنے کیلئے تمہیں کال کر رہا ہے اور تم کہہ رہے ہو کہ تم مصروف ہو۔”
”تو جھوٹ بولوں؟” ارش نے یک لخت کہا تو وہ تھوڑی دیر کیلئے کچھ بول نہیں سکی تھی۔ اسے لگا وہ معذرت کرے گا مگر وہ ارمش تھا۔
”اچھا ٹھیک ہے کام کرو اپنا۔۔۔۔۔۔ خدا حافظ۔” اس نے فون رکھ دیا۔ وہ کھانا کھانے بیٹھ گئی مگر دو نوالوں کے بعد اس سے کچھ بھی کھایا نہیں گیا۔
”کیا ہوا؟” عمر نے اس کے پھیکے چہرے کو دیکھا۔
”کچھ نہیں بس دل نہیں چاہ رہا۔۔۔۔۔۔ چلتی ہوں۔” وہ رکے بغیر اپنا بیگ اٹھاأے باہر اۤگئی تھی۔
٭۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔٭
اۤج تیئس مارچ تھی۔ وہ چوتھی بار سالانہ پریڈ کے فری فال مظاہرے کو لیڈ کر رہا تھا۔ ایک بار پھر اس نے رسی کو کمر کے گرد کس لیا اور اس پر جھنڈا ویسے ہی باندھ کر جہاز کے دروازے تک اۤگیا۔
”تمہیں معلوم ہے مجھے بہت ڈر لگتا ہے تمہارے اس کام سے مگر تمہیں اس کام کا اتنا جنون ہے کہ میں تمہیں اس سے جدا کرنے کا تصور بھی نہیں کر سکتی۔” اس کے کانوں میں مسلسل کسی کی اۤواز گونج رہی تھی۔
”میں نیچے بیٹھ کر تمہارے لیے دعا کرتی ہوں کہ تم صحیح سلامت مجھ تک لوٹ اۤءو۔” اسے یاد تھا یہ جملہ کہہ کر اس نے سرفراز کے گال کو نرمی سے چھوا تھا۔ وہ اس کا لمس بھول نہیں سکتا تھا۔ اگلی اۤواز اس کے کانوں میں احمد کی پڑی تھی۔
”سرفراز جب تم ہوا میں اڑتے ہو تو لگتا ہے میں بھی تمہارے ساتھ اونچاأیوں میں اڑ رہا ہوں۔” اس کے ہاتھ کچھ لرزنے لگے تھے۔ اس کے کانوں میں پڑنے والی اۤخری اۤواز امی جی کی تھی۔
”میرا بیٹا بہت بہادر ہے۔” اب اس کے پیر بھی کانپنے لگے تھے اسے محسوس ہو رہا تھا اۤج اس کے لیے اسٹینڈز میں کو”ی بھی موجود نہیں تھا، کو”ی نہیں تھا جو اس کیلئے دعا کرتا اور اس کی کامیاب لینڈنگ پر تالیاں بجاتا، اسے لگا نیچے صرف سناٹا تھا، شور تھا تو اس کے اپنے اندر تھا۔۔۔۔۔۔ اسے کچھ یاد نہیں اۤرہا تھا۔ اب اس کا ذہن ماأوٹ ہو رہا تھا۔
؎ یہ نغمہ فصلِ گل و لالہ کا نہیں پابند
بہار ہو کہ خزاں۔۔۔۔۔۔ لاالٰہ الا اللہ
پیچھے موجود اس کے معاون نے بلند اۤواز میں کہا، اس کے تمام ساتھی کود چکے تھے اور وہ اۤخری ہوا باز تھا۔ وہ یک دم جیسے ہوش میں اۤیا۔ اس بار اس کی اۤواز نکلی تو بہت مضبوط تھی۔
یہ نغمہ فصلِ گل و لالہ کا نہیں پابند۔۔۔۔۔۔
بہار ہو کہ خزاں۔۔۔۔۔۔ لاالٰہ الا اللہ
اگرچہ بت ہیں جماعت کی اۤستینوں میں
مجھے ہے حکمِ اذان۔۔۔۔۔۔ لاالٰہ الا اللہ
بلند اۤواز میں کہتا ہوا وہ کود گیا۔ کچھ لمحوں بعد وہ ہوا کو چیرتا ہوا زمین کی طرف بڑھ رہا تھا۔ وہ ہوا کی دوش پر سوار تھا، ہمیشہ کی طرح اپنے پیراشوٹ کو بہت مہارت سے قابو کرتے جب وہ زمین کے قریب اۤیا تو اس کے پیروں سے دھواں نکلنے لگا۔۔۔۔۔۔ سبز اور سفید۔۔۔۔۔۔ وہ بہ مشکل زمین سے پندرہ یا بیس فٹ کے فاصلے پر تھا جب اس کے پیراشوٹ کی ایک رسی ٹوٹ گئی۔
وہ اتنی تیزی کے ساتھ زمین کی طرف اۤرہا تھا کہ اسے یہ مسئلہ حل کرنے کا موقع ہی نہیں ملا۔ اس کا توازن ایک لمحے میں ختم ہوا جبکہ چند لمحوں میں وہ زمین پر لینڈ کرنے والا تھا۔ اس کا توازن بگڑنے کی وجہ سے اس کی لینڈنگ کی جگہ تبدیل ہو گئی تھی جس کی وجہ سے وولینٹیئرز کو بھی مشکل ہو رہی تھی، وہ اس کی سمت کا تعین نہیں کر پا رہے تھے۔ اس نے زمین پر قدم رکھا ہی تھا جب ایک شدید جھٹکا اس کی کمر اور پشت کی ہڈیوں کو ہلا گیا تھا۔ درد کی شدت سے اس کا چہرہ سُرخ ہونے لگا تھا۔ سب کچھ اتنی جلدی ہوا کہ حاضرین اندازہ نہیں لگا پاأے تھے کہ اس کے ساتھ کو”ی حادثہ پیش اۤیا تھا۔ وہ ہمیشہ کی طرح تالیاں بجانے میں مگن تھے۔ ماأیک پراب بھی اس کا نام ویسے ہی پکارا جا رہا تھا۔ اس نے گردن گھما کر stands کی پہلی قطار اس امید کے ساتھمیں دیکھا کہ شاید احمد اسے وہاں نظر اۤجاتا، یا ارحم ارمش اسے دکھ جاتے جو اس کے لیے تالیاں بجا رہے ہوتے، شاید احمد وہاں موجود ہوتا جو ہزاروں کے اس مجمع میں اس کا چہرہ دیکھ کر بتا دیتا کہ وہ ٹھیک نہیں ہے۔ انسان کی ساری دنیا ایک ”شاید” کے گرد ہی تو گھومتی ہے، پر اسے وہاں کو”ی نظر نہیں اۤیا تھا۔ اس کے درد کی شدت میں اضافہ ہو گیا تواس نے تکلیف سے اۤنکھیں موند لیں۔ اس کی سلامتی کیلئے دعا کرنے والے اب وہاں موجود نہیں تھے۔ تکلیف اس سے زیادہ نہیں ہو سکتی تھی۔
٭۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔٭
وہ کچھ ڈرتی ہو”ی دروازے سے اندر داخل ہو”ی تھی۔ اس کے پیچھے ایک ملازم اس کے ساتھ اۤیا تھا۔
”بی بی جی اۤپ بیٹھیں۔۔۔۔۔۔ صاحب اۤتے ہیں ابھی۔” وہ اسے وہاں بٹھا کر چلا گیا۔ اسے بیٹھے ہو”ے پانچ منٹ گزرے تھے جب کسی کے قدموں کی اۤہٹ ہو”ی ڈراأنگ روم کے دروازے سے احمد رضا اندر اۤتے ہو”ے نظر اۤءے تھے۔
”السلام علیکم انکل۔” وہ خوف سے کھڑی ہو”ی تھی یا احترام سے، اسے خود نہیں پتا تھا۔
”بیٹھیں۔” سلام کا جواب دے کر انہوں نے اس سے کہا تھا۔ وہ بیٹھ گئی تو احمد رضا بھی بیٹھ گئے تھے۔
”کہیے؟”
”وہ انکل۔۔۔۔۔۔ ارمش سے فون پر بات ہو”ی تھی، اس کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی تو میں نے سوچا مل اۤءوں۔” اس نے ایک ایک لفظ اٹک اٹک کر بولا تھا۔ وہ ارمینہ کے بجاأے موباأل کی اسکرین کی جانب دیکھ رہے تھے۔
”لگتا ہے خاندانی عادت ہے۔” اس نے دل میں سوچا۔ ارمش تین دن سے ہیری ہوم نہیں اۤیا تھا۔ اس دن اس سے فون پر بات کرنے کے بعد تو اسے لگا کہ اس کی طبیعت اتنی خراب نہیں تھی کیوں کہ اۤواز ٹھیک ٹھاک ہی لگ رہی تھی مگر وہ اگلے دو دن بھی ہیری ہوم نہیں اۤیا تو اسے پریشانی ہونے لگی۔ وہ اس کا فون بھی نہیں اٹھا رہا تھا تو وہ اس سے ملنے اۤگئی تھی۔ اس کام کے لیے اس نے بہت ہمت جتاأی تھی اور اب اسے احمد رضاکا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔
”اۤپ کے والدین اۤپ کو مانیٹر نہیں کرتے کیا؟” ان کے سوال پر وہ دنگ رہ گئی تھی۔
”جی؟”
”اۤپ کا جب دل چاہتا ہے اۤپ کہیں بھی چلی جاتی ہیں، انہیں اۤپ کی خبر رکھنی چاہیے کہ اۤپ کہاں جا رہی ہیں؟ کب جا رہی ہیں؟ کسی کے بھی گھر اس طرح جانا اۤداب کے خلاف سمجھا جاتا ہے کیا یہ بات بتاأی نہیں اۤپ کو اۤپ کے والد نے؟” وہ موباأل کی جانب ہی دیکھ کر بولتے جا رہے تھے اور ارمینہ کا چہرہ دھواں ہو رہا تھا۔
”انکل میں ارمش کی خیریت پوچھنے اۤءی تھی وہ۔۔۔۔۔۔” بہت مشکل سے اس نے جملہ ادا کیا جو انہوں نے مکمل بھی نہیں ہونے دیا تھا۔
”کس حق سے؟ کیا لگتا ہے وہ اۤپ کا؟” ان کے لہجے میں بہت کڑواہٹ تھی۔ ارمینہ کا دل چاہا کہ وہ رو دے۔
”میرا کولیگ۔۔۔۔۔۔ اس نے مصیبت کے وقت میری مدد کی ہے، میں اس کا حق ادا کرنا چاہتی ہوں۔” انہوں نے اب موباأل بند کر کے رکھ دیا تھا مگر اب بھی وہ سینٹر ٹیبل کو گھور رہے تھے۔
”وہ اس ملک میں نہیں ہے، ایک بار پہلے بھی اۤپ کی وجہ سے نیروبی کی ایک بہت اہم کانفرنس چھوڑ چکا ہے۔ یاد تو ہو گا اۤپ کو۔۔۔۔۔۔ ابھی وہ سڈنی گیا ہوا ہے۔”
”سڈنی؟؟؟ مگر اس نے مجھ سے کہا تھا وہ بیمارہے۔”
”شاید اۤپ کو بتانا نہ چاہتا ہو، انسان کا حق ہے وہ جسے چاہے اپنی مصروفیات سے اۤگاہ رکھے جسے چاہے نہ رکھے۔” اس کے چہرے پر سے کئی رنگ اۤکر گزر گئے تھے۔ جو وہ سن رہی تھی اس پر یقین کرنا بہت مشکل تھا اور سامنے بیٹھا انسان جسے وہ ٹھیک سے جانتی تک نہیں تھی اس کی عزتِ نفس کو تار تار کر رہا تھا۔ وہ اٹھ کھڑی ہو”ی، اس کا چہرہ اب سرخ تھا۔
”بیٹھیں۔۔۔۔۔۔ چاأے پی کر جاأیے گا۔” اس نے روایتی روکھے پن سے کہا۔
”ضرورت نہیں ہے۔۔۔۔۔۔ میرے پاپا کے بارے میں کچھ بھی کہنے سے پہلے اۤپ جان لیجئے کہ وہ اس دنیا کے بہترین انسانوں میں سے ایک ہیں۔ ان کو جانے بنا، ان سے ملے بنا اۤپ کو یہ فیصلہ کرنے کا حق نہیں ہے کہ وہ کیسے ہیں اور بہت معذرت چاہتی ہوں، مجھے انہوں نے سکھایا تھا کہ اگر کو”ی اۤپ پر احسان کرے تو ان کو مصیبت کے وقت بے یارومددگار چھوڑنا احسان فراموشی ہے۔ مجھے انہوں نے یہ کبھی نہیں سکھایا کہ کسی کے گھر بنا بتاأے چلے جانا اۤداب کے خلاف ہے، یہ اۤپ کے ہاں ہوتا ہو گا یا پھر ان ممالک میں جن کا کلچر یہاں عام کرنا اۤپ جیسے لوگوں کا شوق ہے۔ ہمارے ہاں اسے ہمدردی کرنا، احساس کرنا کہتے ہیں۔ خدا حافظ۔”
اس نے پلٹ کر ان کا دھواں ہوتا چہرہ بھی نہیں دیکھا تھا اور اۤگے بڑھ گئی تھی۔ انہیں علم تھا کہ وہ ذہین تھی، مگر وہ پراعتماد بھی تھی انہیں اۤج پتا چلا تھا، ورنہ اۤج تک ہمیشہ وہ ڈر اور خوف کے اۤثار چہرے پر لیے ان سے ملی تھی۔ سہمی سہمی سی انابیہ کی طرح، مگر اۤج۔۔۔۔۔۔ اس میں انہیں کسی اور کی جھلک دکھاأی دی تھی۔۔۔۔۔۔ ان کی اپنی جھلک۔۔۔۔۔۔ ان کے سامنے اۤج کو”ی ان جیسا موجود تھا۔ وہ جانتے تھے اگر وہ سرفراز کا ذکر نہ کرتے تو وہ شاید کبھی ان سے اس طرح بات نہ کرتی۔۔۔۔۔۔ یقینا وہ اپنے باپ سے بے پناہ محبت کرتی تھی۔۔۔۔۔۔ ان کی رگوں میں خون کا بہاأو بڑھنے لگا تھا۔