وہ اۤپریشن تھیٹر کے باہر بینچ پر بیٹھی صرف دعاأیں کر رہی تھی۔ اندر بہت سے قابل سرجنز اس کے پاپا کی سرجری میں مصروف تھے۔ اکیلاپن اسے کبھی نہیں ڈرایا کرتا تھا، مگر اۤج اسے اکیلے پن سے خوف اۤرہا تھا، وہ باہر ہی بینچ پر بالکل تنہا تھی۔ اۤپریشن شروع ہو”ے کافی وقت گزر چکا تھا۔ اس کے پاپا اس کا واحد رشتہ تھے۔ اس کا سب کچھ تھے۔
پچھلے دو گھنٹے سے لٹکے ہو”ے اپنے پیروں کو اس نے اب چیئر پر ہی سمیٹ لیا تھا۔دوپٹہ چہرے کو لپیٹے ہو”ے تھا اور اس کے ہاتھوں میں تسبیح تھی جس پر وہ مسلسل سلامتی کی تسبیح پڑھ رہی تھی۔ اس نے راہداری کے دوسرے کونے سے ارمش کو اۤتے دیکھا تو اس کے رونے میں شدت اۤگئی۔
”السلام علیکم! سب خیریت ہے ناں؟” وہ اس کے برابر کرسی پر اۤکر بیٹھ گیا تھا۔
”پتا نہیں ارمش مجھے نہیں معلوم۔” وہ اب باقاعدہ رونے لگی تھی۔
”رو مت یار بہادر بنو۔۔۔۔۔۔ دیکھنا ان شاأ اللہ وہ خیریت سے باہر اۤجاأیں گے۔”ارمینہ نے گردن ہلاأی اور ہاتھ کی پشت سے اۤنسو صاف کیے۔
”تم تو کل اۤرہے تھے؟”
”ہاں پھر میں نے سوچا تم مجھے گالیاں دو گی کہ ایسے وقت میں میرے پاپا کو اکیلا چھوڑ دیا تو میں اۤگیا۔”
”شکریہ” وہ ہلکی سی مسکان کے ساتھ وہ بولی۔
”یہ اتنی courstesy فون پر تو نہیں تھی۔” وہ اب سیدھا ہو کر بیٹھ گیا تھا اور اوٹی کے (اۤپریشن تھیٹر) دروازے کو دیکھ رہا تھا۔
”ہاں تو جہاں تم courtesy ڈیزرو کرتے ہو وہاں دیتی ہوں جہاں تم صلواتیں ڈیزرو کرتے ہو وہاں صلواتیں ہی ملیں گی۔۔۔۔۔۔ اور ملنی بھی چاہئیں۔” وہ بھی اپنی نظریں اوٹی کے دروازے پر جما کر بولی تھی۔
”اچھا! مجھے لگا تمہیں فون پر غصہ کرنے کی بھی کو”ی بیماری ہے۔”
”اس کے علاوہ اور کیا بیماری ہے مجھے۔” اس نے گردن گھما کر ارمش کو دیکھا تھا۔
”لوگوں کے خلوص کو رد کر کے اپنی انا کو جتانے کی۔”
”اسے خود داری کہتے ہیں۔” ارمینہ نے ٹھوس لہجے میں جواب دیا۔
”کہاں سے ارینج کیے تم نے پیسے؟” ارمش کچھ دیر خاموش رہا پھر بولا۔
”پاپا کی فیکٹری کی پے منٹ اۤگئی تھی۔۔۔۔۔۔ میں نے تم سے کہا تھا میں انتظام کر لوں گی۔” اس نے کچھ جتانے والے انداز میں کہا تھا۔
”اچھا چلو مان لیا تم کچھ بھی کر سکتی ہو۔” مسکراہٹ دباأے وہ بولا تھا۔ ارمش کو خوشی تھی کہ وہ مطمئن تھی۔
”کچھ کھایا تو نہیں ہو گا۔” تھوڑی دیر بعد اس نے پھر پوچھا۔ وہ دونوں اب بھی اسی دروازے کو دیکھ رہے تھے۔
”نہیں! اور کھانا بھی نہیں ہے۔”
”پر میں تو کھاأوں گا۔۔۔۔۔۔ میں کچھ لے کر اۤتا ہوں۔” وہ اٹھ کھڑا ہوا تھا۔ اس نے اب اپنی نظریں دروازے سے ہٹا لی تھیں۔
”ارمش سنو ایک کام کر دو گے؟”
”ایک ہی بولنا۔۔۔۔۔۔ زیادہ مت بولنا، بھوکا ہوں میں۔”
”باہر جاوید بھاأی ہوں گے۔ کب سے بیٹھے ہیں گاڑی میں ایسا کرو انہیں کچھ کھانے کو لے کر دے دو اور پینے کو بھی۔ خود سے انہوں نے کچھ نہیں کھایا ہو گا۔” ارمش کو خوش گوار حیرت ہو”ی تھی۔ ایسی لڑکی کسی کو ناپسند کیسے ہو سکتی تھی۔ اسے بابا کے خیال پر افسوس ہوا تھا۔
”یہ لوپیسے۔ تم جاوید بھاأی کے لیے لنچ لو گے نا۔” ارمینہ نے اتنے میں بیگ سے پیسے نکال کر اس کی طرف بڑھاأے۔
”کچھ زیادہ بڑی رقم نہیں ہوگی تم رکھو انہیں۔” یہ کہہ کر وہ راہداری کے اسی کونے میں غاأب ہو گیا۔ ارمینہ نے ایک گہری سانس لی ا ور پھر سے تسبیح پڑھنا شروع کر دیا۔
”وہ واپس اۤیا تو اس کے ہاتھ میں ایک شاپر تھا۔
”یہ لو۔۔۔۔۔۔ ہسپتال کی کیٹین والے انکل نے بھجوایا ہے تمہارے لیے۔” وہ برابر والی کرسی پر بیٹھتا ہوا بولا۔
”کینٹین والے انکل؟” وہ ناسمجھی کے انداز میں بولی۔
”ہاں میں نے ان سے کہا کچھ ایسا دیں جو انسان بھوکا نہ بھی ہو تب بھی کھا لے جیسا کہ تم۔۔۔۔۔۔ تو انہوں نے یہ دے دیا۔” وہ ارمش کا چہرہ دیکھتی کر رہ گئی۔ اس میں برگر کے ساتھ ڈرنک کا کین تھا۔
”جاوید بھاأی کودیا۔” خیال اۤنے پر اس نے پوچھا۔
”دے دیا۔۔۔۔۔۔ وہ لے نہیں رہے تھے تمہاری عادت اۤگئی تھی ان میں بھی مگر میں نے کھلا دیا انہیں بھی۔”
”اور تم۔۔۔۔۔۔؟” ارمش نے گردن گھما کر اسے دیکھا۔
”میں۔۔۔۔۔۔ میں کینٹین سے ہی کھاکر اۤیا ہوں ورنہ تم میرے میں سے بھی کھانا شروع ہو جاتیں۔” وہ صبح سے شاید پہلی بار ہنسی تھی۔ اس نے کھانا شروع کیا تو اسے احساس ہوا وہ واقعی بھوکی تھی مگر پریشانی میں اسے بھوک کا خیال ہی نہیں اۤیا تھا۔ بھوک کے باوجود اس نے برگر کا ایک حصہ چھوڑ دیا تھا۔
”ارے پورا کھاأو چھوڑتے نہیں ہیں کھانے کو۔”
”بس پیٹ بھر گیا ارمش اب دل نہیں کر رہا۔”
”دو نوالے ہیں ختم کر لو ہو جاأے گا۔۔۔۔۔۔ شاباش۔” وہ کسی بچے کی طرح اسے ٹریٹ کر رہا تھا۔ اس نے برگر ختم کر لیا اور وہ پھر تسبیح پڑھنے میں مصروف ہو گئی۔ وہ بھی خاموشی سے ایک بار پھر دروازے پر نظریں جماأے بیٹھ گیا اور اس انسان کے بارے میں سوچنے لگا جو اندر تھا، اس دروازے کے پار، جس نے اسے بہت کچھ دیا تھا۔ ایک مثبت سوچ، ہمت، حوصلہ اور ان تمام قیمتی چیزوں کیلئے وہ ان کا قرض دار تھا۔ ”جس انسان کے ساتھ اتنی دعاأیں ہوں اس انسان کے ساتھ کیسے کچھ برا ہو سکتا ہے۔” اس نے دل میں سوچا تھا۔
رات کی تاریکی پھیل رہی تھی۔ تقریباً چار پانچ گھنٹے گزرنے کے بعد اوٹی کا دروازہ کھلا تو وہ دونوں اٹھ کر ڈاکٹر کی طرف لپکے تھے۔
”اۤپریشن تو کامیاب رہا ہے مگر نتاأج کا اندازہ ان کے ہوش میں اۤنے کے بعد ہی لگا سکتے ہیں، ان کا رسپانس چیک کرنا ہو گا جو ان کے ہوش میں اۤنے کے بعد کیا جا سکتا ہے۔”
”انہیں ہوش کب اۤءے گا؟” ارمینہ بے تاب تھی۔
”اۤٹھ گھنٹے کے اندر اندر انہیں ہوش اۤجانا چاہیے، اۤگے اللہ مالک ہے۔” تفصیلات بتا کر ڈاکٹر چلے گئے تو ارمینہ کو کچھ حوصلہ ہوا۔
”ایک سیڑھی چڑھ گئے ہیں اگلی بھی چڑھ جاأیں گے۔” ارمینہ ارمش کے جملے پر مسکراأی۔
”ارمش تم یہیں رہنا میں نماز پڑھ کر اۤتی ہوں کچھ بھی ہو مجھے بتا دینا۔ سن رہے ہو؟”
”ٹھیک ہے۔” وہ چلی گئی تھی۔ اسے پہلی سیڑھی چڑھنے کے شکرانے ادا کرنے تھے۔
٭۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔٭
”وہ اپنے کمرے میں بیڈ کراأون سے ٹیک لگاأے گہری سوچ میں بیٹھے تھے۔ وہ معذور کیسے ہو سکتا تھا؟ انہوں نے جب اسے اۤخری بار دیکھا تھا تووہ بالکل ٹھیک تھا۔ پھر ایسا کیا ہوا کہ وہ معذور ہو گیا۔۔۔۔۔۔ وہ بے چینی سے سوچ رہے تھے۔ کہیں کو”ی کڑی نہیں مل رہی تھی۔
٭۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔٭
انہیں وہاں بیٹھے مزید کچھ گھنٹے گزر گئے تھے۔ اب بارہ بجنے والے تھے اور ارمینہ سے صبر کرنا مشکل ہو رہا تھا
”ارمش پاپا کو ہوش کیوں نہیں اۤ رہا ہے؟”
”اۤ جاأے گا یار ذرا صبر رکھو۔”
”اب تم اپنے گھر جاأو ارمش، تم پہلے ہی تھکے ہو”ے ہو اور ویسے ہی اب بہت دیر ہو گئی ہے۔”ارمینہ نے ارمش سے کہا۔
”ہاں چلا جاأوں گا۔۔۔۔۔۔ تم تو۔۔۔۔۔۔ یہیں رہو گی۔”
”ہاں میں یہاں سے ہلنا بھی نہیں چاہتی۔”
”جانتا ہوں۔” ارمش نے ایک گہری سانس لی تھی۔
”ارمینہ وہ کاٹیج انڈسٹری کے مالک کا نمبر تو دو مجھے ذرا۔” ارمینہ سٹپٹا گئی تھی۔
”کیوں؟”
”جو ہمارے ڈونرز ہیں انہیں Permenant کرنے کیلئے ان سے مراسم تو رکھنے چاہئیں ناں۔”ارمش نے اسے چھیڑنے والے انداز میں کہا۔
وہ اب بھی اسی دروازے کی طرف دیکھ کر کہہ رہا تھا مگر وہ جانتا تھا ارمینہ اس کی شکل دیکھ رہی تھی اور اس کا رنگ بھی بدلا ہوا تھا۔
”میں کر لوں گی ان سے بات ارمش رہنے دو تم۔ اور تم گھوم پھر کر اسی ڈونر پر اۤکر کیوںاٹک جاتے ہو۔۔۔۔۔۔؟ بھول جاأو پلیز۔”