”اچھا اۤءو ڈسپنسری اۤجاأو میں تمہیں کریم لگا دوں۔” وہ حارث کو لیے ڈسپنسری اۤگئی تھی۔ وہ اب بھی اسی طرح رو رہا تھا۔ بلاشبہ حارث ہیری ہوم کا سب سے شرارتی بچہ تھا اور ارمینہ کواس کی شرارتیں بہت پسند تھیں۔ ارمینہ کو اس پر پیار بھی بہت اۤتا تھا۔
”چلو حارث چپ ہو جاأو اب۔۔۔۔۔۔ ٹھیک ہو جاأے گا یہ۔” ارمینہ نے ایک ہاتھ سے اس کے اۤنسو پوچھتے ہو”ے اس سے کہا۔
”ارمش بھاأی ہوتے تو لگتی ہی نہیں یہ چوٹ۔” ہچکیوں کے دوران حارث نے کہا تھا۔ ارمینہ کا دل عجیب طرح سے دکھا تھا۔ اس کا دل چاہا وہ بھی حارث کے ساتھ بیٹھ کر رو”ے۔ وہ عجیب انسان تھا اس کے اردگرد سب ہی لوگوں کو اس کی عادت سی پڑ جاتی تھی۔ خاموش رہ کر بھی وہ لوگوں کو اپنا گرویدہ کر لیا کرتا تھا۔
”کچھ ہی دنوں میں وہ اۤجاأے گا۔۔۔۔۔۔ پھر کسی کو چوٹ نہیں لگے گی۔” وہ دھیرے سے بولی تھی۔ وہ کریم لگا چکی تو اس نے حارث کو وہیں بٹھا لیا مبادا کہ وہ باہر جا کر اپنے ہاتھ پر پھر کچھ کر لیتا۔ عمر بھی وہاں اۤگیا تھا۔
”ایک ارمش بھاأی کے نہ ہونے سے کتنی کمی سی لگتی ہے ناں؟۔۔۔۔۔۔ حالاں کہ وہ صبح اور شام میں ایک ایک گھنٹے کے لیے اۤتے ہیں اۤفس جانے سے پہلے اور پھر واپسی پر۔۔۔۔۔۔ مگر پھر بھی ان کی بہت عادت ہو گئی ہے ہم سب کو۔” عمر بول رہا تھا وہ ہنوز خاموش تھی۔
”ارمینہ۔۔۔۔۔۔ ارمش بھاأی کتنے خاص ہیں ناں ہم سب کے لیے۔۔۔۔۔۔”
”ہاں ہونا بھی چاہیے۔۔۔۔۔۔ زندگی کو خوبصورت بنانے والا انسان خاص ہی ہوتا ہے۔” وہ دھیمی سی مسکراہٹ کے ساتھ عمر سے کہہ رہی تھی۔
”ہاں ٹھیک کہا تم نے۔۔۔۔۔۔ پہلی بار۔۔۔۔۔۔ گھر سے اۤج بادام کھا کر تو نہیں اۤءیں ورنہ عام طور پر تو ایسا نہیں ہوتا۔” اس نے مصنوعی غصے سے عمر کو دیکھا پھر ہنس دی۔
”ہاں اتفاق سے میں نے کھاأے تھے اۤج بادام۔”
”بس تو پھر یہ اسی کا اثر ہے۔۔۔۔۔۔ ورنہ عقل مندی کہاں اور تم کہاں؟”
”عمر!!! اس نے غصے سے اسے دیکھا تو وہ جلدی سے باہر کی طرف بڑھ گیا۔ وہ ہنستی رہی۔ اسے عمر میں ہمیشہ ارمش کی پرچھاأی سی نظر اۤتی تھی۔ وہی عاجزی وہی عام سی باتیں۔ وہی عام سی عادتیں اور وہی گہری اور بلند سوچ اور وہی ”الٹے” جو اب جو عمر کو ارمش نے بڑی مہارت سے سکھاأے تھے۔ اب عمر بھی اسے پریشان کرنے کا کو”ی موقع جانے نہیں دیتا تھا مگر اسے اچھا لگتا تھا۔ وہ الٹے سیدھے جملے اسے ہنسا دیا کرتے تھے مگر پھر بھی ارمش کی کمی کو”ی پوری نہیں سکتا تھا۔ ہیری ہوم کے ہر حصے میں اس کی کو”ی نہ کو”ی یاد تھی۔۔۔۔۔۔ ہیری ہوم اس کے بغیر سونا تھا بے معنی تھا اور بے اۤسرا تھا۔ اس نے سرجھٹک دیا اور حارث کی اۤواز پر حال میں واپس اۤءی تھی۔
”ارمینہ میں کھیلنے جاأوں واپس؟” وہ انتہاأی معصوم شکل بنا کر اس سے پوچھ رہا تھا۔
”پھر چوٹ لگے گی حارث۔”
”نہیں اب نہیں لگے گی وعدہ۔” وہ ہنس دی تھی۔
”اچھا جاأو مگر خیال سے کھیلنا۔” حارث کا چہرہ کھل اٹھا تھا اور وہ فوراً باہر کی جانب بھاگ گیا تھا۔ وہ خود بھی ہیری ہوم زیادہ دیر نہیں رکی تھی۔ عمر کو اطلاع دے کر وہ گھر اۤگئی تھی۔
٭۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔٭
وہ دونوں صوفے پر بیٹھے ٹی وی پر اۤنے والی کو”ی دستاویزی فلم دیکھ رہے تھے۔ جب ارمینہ نے ان سے پوچھا۔
”پاپا! امی کے گھر والے کہاں ہیں؟” وہ ہر بار کی طرح اۤج بھی حیران ہو”ے تھے۔ ارمینہ نے ان سے یہ سوالات پہلے بھی کیے تھے مگر ہر بار کی طرح کو”ی تسلی بخش جواب نہ پا کر وہ سوال دہرانے لگتی تھی۔
”بتا تو چکا ہوں تمہیں اس کے والدین کا بہت پہلے انتقال ہو چکا تھا، جب انابیہ بہت چھوٹی تھی۔”
”اور ان کے بھاأی بہن؟” سرفراز کی دھڑکن یکدم تیز ہو گئی تھی۔
”بہن نہیں تھی اس کی کو”ی۔ بھاأی ہے وہ مجھے معلوم نہیں کہ کہاں ہے، بہت عرصہ ہوا اب ان لوگوں سے کو”ی رابطہ نہیں رہا کو”ی تعلق نہیں رہا۔”
وہ ٹھہر ٹھہر کر بولے تھے۔ یہ بات بھی وہ ارمینہ کو بتا چکے تھے۔ مگر وہ بار بار وہی سوال دہرایا کرتی تھی۔
”کیوں تعلق نہیں رہا پاپا؟ اور ان کا کو”ی نمبر کو”ی ایڈریس کچھ تو ہو گا جس سے ان تک پہنچا جاأے میں کتنی دفعہ اۤپ سے جاننے کی کوشش کر چکی ہوں مگر اۤپ ہمیشہ ٹال دیتے ہیں۔”
”ایسی بات تو نہیں بس مجھے پتا نہیں وہ لوگ کہاں ہیں بیٹا۔”
”میں ڈھونڈوں انہیں؟” اس کا سوال بہت سی اذیت، بہت سے زخموں کو ہرا گیا تھا۔۔۔۔۔۔ ڈھونڈنا۔۔۔۔۔۔ کو”ی مشکل نہیں تھا وہ احمد کو دنیا کے کسی بھی کونے سے ڈھونڈ کر نکال سکتا تھا مگر مل کر کیا ہوتا۔۔۔۔۔۔ جو ہوتا وہ سوچ کر اسے ہمیشہ خوف محسوس ہوتا تھا۔ زندگی انہیں کہاں سے کہاں لے اۤءی تھی۔ ایک وقت پہ وہ ایک دوسرے سے ملنے کو ترستے تھے اور جب ملتے تو کچھ اس ادا سے ملتے تھے کہ دیکھنے والے بھی رشک کرتے تھے۔۔۔۔۔۔ اور اۤج۔۔۔۔۔۔ زندگی کے اۤخری پڑاأو پر وہ ایک دوسرے کے ذکر سے بھی کترا رہے تھے۔۔۔۔۔۔ وقت کا پہیہ پیچھے گیا تھا یا اۤگے وہ سمجھنے سے قاصر تھا۔
”بولیں ناں پاپا؟”
”سو جاأو ارمینہ رات ہو گئی ہے اب، صبح جلدی نکلنا ہے۔ تم نے کتنے دن کی چھٹی لی ہے؟”
”فی الحال دو دن کی۔” بات بدل گئی تھی یہ وہ دونوں جانتے تھے مگر ارمینہ نے اۤگے سوال نہیں کیا تھا۔ اس نے انہیں صوفے سے اٹھ کر ویل چیئر پر بیٹھنے میں مدد دی پھر وہ انہیں ان کے کمرے میں لے اۤءی اور انہیں بیڈ پر لٹا دیا۔
”بہت جلد اس ویل چیئر سے اۤپ کی جان چھوٹ جاأے گی۔ انشاأ اللہ۔”
وہ مسکراتی ہو”ی بول رہی تھی۔
”پاپا وہ۔۔۔۔۔۔ ہسپتال میں بقیہ رقم دینی ہے سرجری کی۔۔۔۔۔۔ ستر ہزار کم ہیں اس میں، کیا میں فیکٹری والے اکاأونٹ سے نکلوا لوں؟ ڈرتے ڈرتے اس نے پوچھا تھا۔ اسے خوف تھا پاپا اسے پہلے نہ بتانے پر ڈانٹیں گے۔
”مجھے پہلے کیوں نہیں بتایا تم نے کہ کم ہیں پیسے۔۔۔۔۔۔ میں پہلے ہی کچھ کر لیتا۔” وہ واقعی سنجیدہ تھے۔
”کیا کرتے۔۔۔۔۔۔؟ لون لیتے؟ پاپا میں چاہتی تھی اۤپ کی سرجری ہماری محنت کی کماأی سے ہو تاکہ اس میں خیر بھی ہو اور سب ٹھیک سے ہو۔۔۔۔۔۔ دیکھیں ہم نے تھوڑا سا صبر کیا تھوڑا سا حوصلہ رکھا اور اللہ نے کام بنا دیا ہمارا۔”
وہ اس کی دلیل پر خفا ہو”ے مگر مسکرادیئے۔
”پھر بھی بتانا چاہیے تھا۔”
”اۤپ پریشان ہو جاتے ناں۔”
”اس لیے اتنے دن تم پریشان رہیں۔” وہ گھٹنوں کے بل ان کے بیڈ کے پاس بیٹھ گئی۔
”چلتا ہے اۤپ نے بھی تو کتنی ہزاروں پریشانیاں اٹھاأی ہوں گی میری وجہ سے۔” وہ خاموش ہی رہے تھے۔
”سو جاأیں پاپا اب۔۔۔۔۔۔ شب بہ خیر! خداحافظ۔” وہ لاأٹ بند کر کے کمرے سے چلی گئی تھی اور وہ سوچ میں پڑ گئے تھے کہ ان کی بیٹی کتنی سمجھ دار تھی۔ ان کے اۤنگن میں کھلا ہوا وہ واحد پھول جس کی خوشبو اس سرخ لہو کی بو کو مٹانے کے لیے کافی تھی۔ ان کو اۤنکھ کے کنارے سے ایک اۤنسو بہ گیا تھا۔
”انابیہ تم ٹھیک کہتی تھیں،ارمینہ بالکل تمہارے جیسی ہے، تم ٹھیک کہتی تھیں۔۔۔۔۔۔ اور شکر ہے کہ وہ تمہارے جیسی ہے میرے جیسی ہوتی تو شاید۔۔۔۔۔۔”وہ اۤگے نہیں سوچ سکے تھے۔
٭۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔٭
وہ ابھی ابھی گھر پہنچا تھا۔ اس کی واپسی ایک دن بعد متوقع تھی مگر وہ سرفراز صاحب کی سرجری کی وجہ سے جلدی اۤگیا تھا۔ فریش ہو کر وہ نیچے اۤگیا۔ بابا پر اس کی نظر اب پڑی تھی کیوں کہ وہ جب اۤیا تھا تب وہ گھر پر موجود نہیں تھے۔
”السلام علیکم بابا۔”
”وعلیکم السلام ایک دن پہلے اۤ گئے تم ارمش؟”
”جی وہ۔۔۔۔۔۔” اس نے جملہ پورا نہیں کیا تھا جب امی نے اسے پکارا تھا۔
”اگر اۤپ لوگ کھانا کھا رہے ہیں تو لگوا دوں؟”
”مجھے تو ابھی بھوک نہیں ہے۔۔۔۔۔۔ ارمش کو دے دیں۔”
”نہیں پھر میں اۤپ کے ساتھ کھا لوں گا بابا۔” انہوں نے غور سے ارمش کو دیکھا۔
”ایسا کریں لگوا لیں۔۔۔۔۔۔ کھا لیتے ہیں سب۔” ارمش کو لگا جیسے بابا جان گئے تھے کہ وہ بہت زیادہ بھوکا تھا۔ وہ لوگ کھانا کھانے لگے۔
”امی میں اۤپ کیلئے دوسرا فُٹ مساجر لے اۤیا ہوں پرانا والا خراب ہو گیا تھا۔” وہ مسکرا دیں۔ ”اور بابا اۤءن سٹاأن پر لکھی گئی ایک نئی کتاب اۤءی ہے وہ میں اسی بک اسٹور سے لے اۤیا ہوں جہاں سے اۤپ کتابیں لیتے ہیں۔”
”اچھا کیا۔ جتنی بھی اسٹڈی میں ہیں میں پڑھ چکا ہوں۔۔۔۔۔۔ تم جلدی کیسے اۤگئے؟” انہوں نے سوال دُہرایا۔
”بابا اسد کل اۤءے گا میں جلدی اۤگیا۔ اصل میں ارمینہ کے پاپا کی سرجری ہے اۤج۔” ان کے ہاتھ سرد ہو گئے تھے، ثمینہ نے بھی رک کر اس کی جانب دیکھا تھا۔
”کیسی سرجری؟” احمد نے سپاٹ لہجے میں پوچھا۔
”ریڑھ کی ہڈی سے متعلق ہے۔۔۔۔۔۔ شروع بھی ہو گئی ہو گی اب تو۔”
”کیا ہوا ہے ان کی ریڑھ کی ہڈی کو؟” ان کی بے چینی بڑھتی جا رہی تھی۔
”کیا ہوا یہ تو مجھے نہیں پتا مگر ارمینہ کہہ رہی تھی کہ سرجری کے بعد وہ ویل چیئر کہ بہ جاأے بے ساکھیوں کے سہارے سے چل سکیں گے۔۔۔۔۔۔ اگر اللہ نے چاہا تو۔” احمد کی سانسیں اوپر نیچے ہونے لگی تھیں۔ ان کا دل کسی نے مٹھی میں لے لیا تھا۔
”تو کیا وہ ابھی چل پھر نہیں سکتے؟” ارمش نے اس بار حیران ہو کر اپنے بابا کو دیکھا تھا۔
”نہیں بابا! وہ معذور ہیں۔ ویل چیئر پر رہتے ہیں۔” ان کے ہاتھ سے چمچ چھوٹ کر پلیٹ میں گر گیا تھا۔ انہوں نے پانی کا گلاس ٹیبل پر سے اٹھایا اور غٹاغٹ پی گئے۔ صرف ثمینہ نے ان کے ہاتھوں کی کپکپاہٹ کو محسوس کیا تھا۔
”کب سے معذور ہیں وہ؟” اب کی بار ان کی اۤواز بہت دھیمی تھی۔
”کافی سالوں سے۔۔۔۔۔۔ ان کی ایک سرجری پہلے بھی ہو چکی ہے یہ دوسری ہے۔” وہ بول رہا تھا اور انہیں لگ رہا تھا ان کا سانس رک جاأے گا۔
”بابا وہ بھی فوجی تھے پہلے، مگر اب ان کی ایک فیکٹری ہے۔ بہت اچھے انسان ہیں، وہ بہت سی باتیں بتاأی ہیں انہوں نے مجھے بہت دفعہ میری مدد کی ہے۔۔۔۔۔۔ مقروض ہوں میں ان کا۔”
”نام کیا ہے ان کا؟” وہ نام جانتے تھے مگر پھر بھی سننا چاہتے تھے۔ وہ نام جس سے وہ سب سے زیادہ نفرت کرتے تھے۔
”میں تو انہیں انکل کہتا ہوں۔۔۔۔۔۔ مگر شاید محمود نام ہے ان کا۔” انہوں نے کھانا یونہی چھوڑ دیا تھا۔ ارمش کو حیرت ہو”ی وہ کبھی اپنی پلیٹ میں کھانا بچا ہوا نہیں چھوڑتے تھے۔ اور یہی عادت ارمش کی بھی تھی۔ مگر اۤج پہلی بار وہ اپنی پلیٹ میں کھانا چھوڑ کر اٹھ گئے تھے۔
”اۤپ نے کھایا نہیں بابا؟”
”بس پیٹ بھر گیا۔” وہ بڑے بڑے قدم اٹھاتے اپنے کمرے کی جانب جا رہے تھے۔ ارمش حیرت سے انہیں جاتا دیکھتا رہا، اس کا دماغ بس یہی سوچ رہا تھا کہ ایسی کیا بات تھی کہ ارمینہ کے حوالے سے کسی کے بھی ذکر پر ان کے چہرے کے تاثرات بدل جاتے تھے۔۔۔۔۔۔ اس نے کھانا ختم کیا اور ہسپتال جانے کی تیاری کرنے لگا۔
٭۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔٭