سبز اور سفید

مسکراہٹ کے ساتھ اس نے اثبات میں گردن ہلاأی تھی۔

”انکل فنڈز کی بہت کمی ہے ہمیں سمجھ نہیں اۤ رہا کیا کروں۔۔۔۔۔۔” وہ شکست خوردہ انداز میں کہہ رہا تھا۔

”ضرورتیں کم کر لو۔” بہت سادہ ساحل انہوں نے اسے پیش کر دیا تھا۔

”پر انکل ضرورتیں میری نہیں ان بچوں کی ہیں میں کیسے کم کر لوں۔”

”ہاں مگر تم ان کے سر پرست ہو، کر سکتے ہو۔”

”میرا دل نہیں مانے گا۔۔۔۔۔۔ جو سہولتیں انہیں دی ہیں وہ واپس لینے کو۔” انہوں نے اس کے کندھے پر اپنا شفقت بھرا ہاتھ رکھا اور کہا:

”میں جانتا ہوں ارمش۔۔۔۔۔۔ مگر ایک پرتعیش زندگی سے بہتر ایک اچھی زندگی ہوتی ہے تم انہیں اچھی پرسکون زندگی دو پرتعیش زندگی بے معنی ہو جاأے گی۔ تم یہ بھی سوچو کہ ہیری ہوم کا پھلنا پھولنا اتنا ضروری نہیں جتنا اس کا زندہ رہنا ضروری ہے۔ تم پہلے اسے زندہ رکھو پھر اۤگے بھی بڑھ جانا پہلی سیڑھی پر قدم رکھے بغیر دوسری سیڑھی چڑھو گے تو گرنے کا خطرہ زیادہ ہو گا۔ پتا ہے انسان کو سب سے زیادہ بے سکون کیا چیز رکھتی ہے۔۔۔۔۔۔ اس کا نفس اور اس کی نہ رکنے والی خواہشیں۔۔۔۔۔۔

تم نے ان بچوں کو بہت سی سہولتیں دی ہیں، چند دن بعد وہ اس کے عادی ہو جاأیں گے اور اس سے زیادہ کی خواہش کرنے لگیں گے۔ انہیں یہ سب بھی کم لگے گا۔ یہ انسان کی فطرت ہے ارمش اس کے پاس جو ہوتا ہے وہ اسے کبھی کافی نہیں لگتا۔۔۔۔۔۔ اس لیے تم یہ مت سوچنا کہ تم ان کا حق مار رہے ہو۔ ان کا حق ہے سر پر چھت، دو وقت کا کھانا، جسم پر لباس، صحت اور تعلیم۔۔۔۔۔۔ ہاں ان میں سمجھوتہ مت کرنا مگر تم نے انہیں جو بے جا اۤساأشیں دی ہیں جیسے کمروں میں لگے ایئرکنڈیشنرز، کھانے پر کیا جانے والا اہتمام، ہر ہفتے اۤنے والے کپڑے یہ سب پیسوں کا ضاأع کرنا ہے۔ تم اپنے دوستوں کو اعتماد میں لو اور باہمی صلاح مشورے سے ان اخراجات کو کم کرنے کی پلاننگ کرو۔۔۔۔۔۔ میں جانتا ہوں یہ بہت حد تک ممکن ہے۔”

”پتا نہیں اۤپ میں وہ کون سا جادو ہے جو ہر بار مجھے میری پریشانی سے نجات دلا دیتا ہے۔” وہ اس کی بات پر مسکرا دیئے تھے۔

”نجات تو اللہ دلواأے گا۔۔۔۔۔۔ میرا کام بس صلاح دینا ہے وہی دے رہا ہوں۔”

”نہیں اۤپ صلاح کے ساتھ ساتھ سکون بھی دیتے ہیں۔۔۔۔۔۔ میں جب بھی یہاں سے جاتا ہوں بہت مطمئن اور پرسکون ہو کر جاتا ہوں۔” ان کا ہاتھ پکڑے وہ مسکرا کر کہہ رہا تھا۔

”دنیا میں ہر طرح کے لوگ ہوتے ہیں ارمش۔۔۔۔۔۔ ہر طرح کے لوگ ملتے بھی ہیں۔ مگر عقل مند انسان وہ ہوتا ہے جو اچھے لوگوں کو دل سے نہ نکلنے دے اور برے لوگوں کو دماغ سے۔۔۔۔۔۔ اچھے لوگ دل کو سکون دیتے ہیں، برے لوگ دماغ کو طاقت دیتے ہیں اور میرے خیال سے دونوں ہی انسان کیلئے اہم ہیں۔” اس نے اس بار جواب میں کچھ نہیں کہا تھا۔ اسے کبھی سمجھ نہیں اۤیا تھا کہ اس شخص میں وہ کون سی کشش تھی کہ وہ جب بھی پریشان ہوتا یا کنفیوز ہوتا تو ان کے پاس اۤجاتا تھا اور نتیجتاً اس کی ساری پریشانی دور ہو جاتی۔ عمر اکثر اس سے کہتا تھا کہ ارمش بھاأی اۤپ بہت گہرے انسان ہیں اۤپ ہر مسئلہ فوراً حل کر دیتے ہیں مگر سچ تو یہ تھا کہ بہت سی جگہوں پر اۤکر وہ بھی ہمت ہار جاتا تھا۔ اور پھر وہ یہاں اۤتا تھا۔۔۔۔۔۔ تالوں کی کنجی تلاش کرنے کیلئے۔

”پاپا! اس نے اۤپ کا سر تو نہیں کھایا اۤج؟” ارمینہ کی اۤواز پر وہ حال میں واپس لوٹا تھا۔

”نہیں اس کیلئے تم ہو۔۔۔۔۔۔ یہ تو مجھ سے کسی کام کیلئے بات کرنے اۤیا تھا۔”

”مجھے سمجھ نہیں اۤ تا یہ ارمش کا رنگ کیوں چڑھ جاتا ہے سب پر۔” وہ جس رفتار سے لاأونج میں داخل ہو”ی تھی اسی رفتار سے واپس چلی گئی تھی اور پھر چند لمحوں بعد وہ دوبارہ لاأونج میں اۤءی تو اس کے ہاتھ میں ایک لفافہ تھا جو اس نے ارمش کی طرف بڑھا دیا۔

”یہ کیا ہے؟” ارمش نے اس خاکی لفافے کو دیکھ کر پوچھا۔

”وہ میں نے تمہیں بتایا تھا ناں کہ کچھ لوگوں نے مجھ سے donations کا کہا تھا وہی والے پیسے ہیں۔”

”تو اکاأونٹ میں کیوں نہیں ڈلواأے؟”

”انہیں اکاأونٹ کا پتا نہیں تھا تو انہوں نے مجھے پرسنلی دے دیئے۔۔۔۔۔۔”

”کس نے؟ ہیں کون؟”

”ایک کاٹیج انڈسٹری کے مالک ہیں۔” ارمش کو لگا ارمینہ کچھ چھپا رہی تھی۔

”ارمینہ اس طرح بغیر تصدیق کے کیسے ڈونیشن لے سکتے ہیں ہم؟”

”تم بحثمت کرو۔لے لو۔۔۔۔۔۔”

”یار مگر پھر بھی۔۔۔۔۔۔” ارمینہ نے اس کی بات کاٹی تھی۔

”ہاں سمجھ گئی تمہیں بھروسہ نہیں مجھ پر میں فراڈ کر رہی ہوں تمہارے ساتھ۔۔۔۔۔۔”

”ارمینہ ایسا نہیں ہے you know that۔۔۔۔۔۔”

”تو پھر interogation بند کرو اور یہ رکھو۔۔۔۔۔۔” اس نے ہار مانتے ہو”ے لفافہ تھام لیا تھا مگر اسے تسلی نہیں ہو”ی تھی۔

”اچھا ان کا نمبر تو دے دو تاکہ میں شکریہ ادا کر سکوں۔”

”میں نے کر دیا تھا۔۔۔۔۔۔ کافی ہے۔” یہ کہتی ہو”ی اس سے نظریں ملاأے وہ اندر چلی گئی تھی ۔۔۔۔۔۔ اسے کچھ شک ہوا پھر وہ اٹھ کر جانے کے لیے اۤگے بڑھنے لگا۔ انکل سے اللہ حافظ کرتا وہ باہر اۤگیا۔ ارمینہ اسے گیٹ تک چھوڑنے نہیں اۤءی تھی وہ سمجھ گیا تھا کہ وہ اس سے نظریں چرا رہی تھی۔ کیوں؟ یہ اسے معلوم کرنا تھا۔۔۔۔۔۔

٭۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔٭

”پلاأو بنا ہے جلدی سے فریش ہو کر اۤجاأو ارمش۔” اس کے گھر میں داخل ہوتے ہی امی نے اس سے کہا تھا۔ ارحم اناگریشن کے بعد واپس جا چکا تھا۔

”امی اۤپ کو کہا ہے اۤپ کچن کے کام مت کیا کریں ابھی اۤپ پوری طرح سے ٹھیک بھی نہیں ہو”ی ہیں۔”

”ارے کچھ نہیں ہوتا۔۔۔۔۔۔ چلو اۤجاأو۔” وہ سر ہلاتا کمرے کی طرف جانے لگا جب اسے خیال اۤیا کہ اس نے بابا کو سلام نہیں کیا تھا۔

”السلام علیکم بابا!”

”وعلیکم السلام۔” ان کا جواب سن کر وہ کمرے میں چلا گیا۔ فریش ہو کر اۤیا تو گرم گرم پلاأو تمام تر اہتمام کے ساتھ اس کا منتظر تھا۔

”بابا اۤپ سے کچھ بات کرنی تھی۔”

”ہاں کہو۔” وہ اس کی طرف نہیں دیکھ رہے تھے بلکہ سر جھکا کر کھانا کھانے میں مصروف تھے۔

”میں نے سوچا ہے اس مہینے کمپنی کا اپنا سارا پرافٹ میں ہیری ہوم میں دے دوں۔ فنڈز کی ضرورت ہے بابا”۔ وہ بھی کھانا کھانے لگا تھا۔

”اور یہ کب تک ہو گا؟”

”جب تک ہمارے فنڈز اور ڈونیشن کافی نہیں ہوتے تب تک۔”

”اور وہ کافی نہ ہو”ے تو؟”

”وقت کے ساتھ ساتھ ہو جاأیں گے بابا۔”

”میری دعا ہے ارمش کہ ہیری ہوم کو ختم کرنے کی نوبت نہ اۤءے۔” ارمش کے ہاتھ سے چمچہ گرتے گرتے بچا تھا۔۔۔۔۔۔ ہیری ہوم کو ختم کرنے کا تو وہ کبھی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔ یہ وہ خیال تھا جو کبھی اس کے خواب میں بھی نہیں اۤیا تھا۔ اسے صدمہ لگا۔ بابا اس سے ایسی تلخ بات کیسے کر سکتے تھے۔ اس نے محسوس کیا تھا چند دن سے وہ بہت اکھڑے اکھڑے رہ رہے تھے مگر وہ جانتے تھے کہ ہیری ہوم اس کا سب کچھ تھا۔

”اللہ نہ کرے کیسی باتیں کر رہے ہیں احمد۔۔۔۔۔۔” ثمینہ نے ان کا جملہ سنتے ہی کہا تھا۔ اس سے کھانا نہیں کھایا گیا۔ چند لقمے کھا کر وہ اٹھ گیا تھا۔ اس کا دل ارمینہ کے ہاں سے واپسی پر جتنا ہلکا تھا اب اتنا ہی بھاری ہونے لگا تھا۔ وہ کمرے میں اۤگیا تھا۔ کچھ دیر بیڈ پر لیٹا رہا مگر نیند اس سے بہت دور تھی۔ کچھ دیر بعد وہ باہر لان میں اۤگیا تھا۔۔۔۔۔۔ بے مقصد ٹہلتے ٹہلتے اسے ایک گھنٹہ گزر گیا تھا جب اس نے لان کے دوسرے حصے سے بابا کو اۤتے دیکھا تھا۔

”بہت دیر سے دیکھ رہا ہوں ٹہل رہے ہو یہاں۔۔۔۔۔۔ نیند نہیں اۤرہی؟” اس کے قریب اۤکر وہ بولے تھے۔

”اۤپ کو بھی تو نہیں اۤرہی۔” انہوں نے ہاتھوں کو کمر کی پشت پر باندھ کر رخ موڑ لیا تھا۔

”مجھے ویسے بھی نیند نہیں اۤتی اب۔۔۔۔۔۔ زمانہ ہوا چین کی نیند سو”ے ہو”ے۔”

”کیوں بابا۔۔۔۔۔۔؟ کو”ی پریشانی ہے؟”

”ارمش وہ لڑکی جو اس دن تمہارے ساتھ اۤءی تھی۔۔۔۔۔۔”

”ارمینہ؟”

”ہاں! وہ کون ہے؟”

”بتایا تو تھا اۤپ کو بابا۔۔۔۔۔۔ ہیری ہوم میں ڈاکٹر ہے بہت مدد کی اس نے۔۔۔۔۔۔ وہ نہ ہوتی تو شاید ہیری ہوم بھی نہ ہوتا۔”

”اس کے۔۔۔۔۔۔ گھر والے؟”

”اس کی امی نہیں ہیں۔۔۔۔۔۔ پاپا ہیں انہی کے ساتھ رہتی ہے کو”ی بھاأی بہن بھی نہیں ہیں۔۔۔۔۔۔ پر اۤپ کیوں پوچھ رہے ہیں؟”

”بس ایسے ہی وہ مجھے۔۔۔۔۔۔ اچھی نہیں لگتی۔۔۔۔۔۔ اور تمہیں اپنا پرافٹ شیئر دینے کی ضرورت نہیں۔ میں دے دوں گا جتنی رقم کی ضرورت ہو۔ تم اپنے پیسے بعد کے لیے سنبھال کر رکھو ۔ابھی بزنس نیا ہے ایسے رسک نقصان دہ ہوتے ہیں۔”

اتنا کہہ کر وہ چلے گئے اور وہ سکتے کے عالم میں وہیں کھڑا انہیں جاتا دیکھ رہا تھا۔ انہوں نے تین باتیں کہی تھیں، تینوں اس کی سمجھ سے باہر تھیں۔

٭۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔٭

وہ ہیری ہوم کو رقم پہلے بھی دیتے اۤءے تھے مگر اس طرح اۤفر کبھی نہیں دی تھی۔ اسے بزنس کے معاملے میں نصیحت بھی کبھی نہیں دی تھی اور ارمینہ۔۔۔۔۔۔ ارمینہ انہیں پسند نہیں تھی۔۔۔۔۔۔ کیوں؟ وہ ایسا کیوں کہہ رہے تھے جب کہ وہ ارمینہ کو پوری طرح جانتے بھی نہیں تھے؟ اس کا دماغ مزید اُلجھتا جا رہا تھا۔

بابا نے اسے کہہ تو دیا تھا کہ وہ اپنا شیئر ہیری ہوم میں نہ دے مگر اس نے پھر بھی ہر مہینے سے کہیں زیادہ رقم اپنے اکاأونٹ سے ہیری ہوم کے اکاأونٹ میں ٹرانسفر کروا دی تھی۔ بابا نے بھی اگلے دن رقم اسے دی تھی اور اسے ارمینہ والے پیسے ابھی تک ویسے ہی رکھے ہو”ے تھے مزید اس نے ہیری ہوم کے اخراجات میں بہت حد تک کمی کر دی تھی مگر اسے تشویش تھی کہ ارمینہ کو پیسے کس نے دیئے تھے؟ اس نے عمر سے بھی پوچھا تھا مگر عمر بھی لاعلم تھا۔ اگلا ایک ہفتہ وہ ویسے بھی کمپنی کے کاموں میں مصروف رہا تھا اس لیے ہیری ہوم بہت کم ہی اۤسکا تھا۔ وہ اۤج بھی بہت تھوڑی سی دیر کے لیے اۤیا تھا جب اسے ارمینہ اۤتی ہو”ی نظر اۤگئی تھی۔ ارمش کو ایک بار پھر وہی بات یاد اۤگئی۔

ارمینہ اس کی طرف اۤفس تک نہیں اۤءی بلکہ سیدھا ڈسپنسری چلی گئی تھی۔ وہاں چیک اپ شروع ہونے میں ابھی وقت تھا کیوں کہ ابھی ڈاکٹر فاروق نہیں اۤءے تھے۔

”کہاں غاأب ہو؟ بہت کم اۤتی ہو اۤج کل؟” اس نے پہلا سوال کیا اور اس کا چہرہ غور سے دیکھا تھا۔

”میں۔۔۔۔۔۔ نہیں تو بلکہ تم کم اۤتے ہو۔”

”ہاں اۤفس میں مصروفیت زیادہ ہے۔۔۔۔۔۔ ویسے بھی میں اۤج سڈنی جا رہا ہوں۔” وہ حیران ہو”ی تھی۔

”کیوں؟”

”کچھ میٹنگ ہے وہاں۔۔۔۔۔۔ اسد بھی ساتھ جا رہا ہے تو میں اور اسد نہیں ہوں گے اور عمر کے بھی اگلے مہینے امتحان ہیں تو تم ذرا خیال رکھنا۔۔۔۔۔۔ یعنی اۤتی جاتی رہنا اور کو”ی مسئلہ ہو تو بتا دینا۔” ارمینہ نے صرف گردن ہلا دی تھی مگر کہا کچھ نہیں تھا۔

”کیا ہوا؟ ایک ہفتے سے عجیب سا بی ہیو کر رہی ہو، چپ چپ ہو۔” وہ پوچھے بغیر نہیں رہ سکا تھا۔ اسے وہ اس طرح گُم صُم اچھی نہیں لگ رہی تھی جبکہ ارمینہ کچھ گھبرا گئی تھی۔

”نہیں تو۔۔۔۔۔۔ کچھ بھی نہیں۔” ارمش اس کے کچھ قریب اۤیا تھا۔

”کیا ہوا ہے بتا دو ورنہ سڈنی میں بھی خواب میں اۤکر ڈراأو گی تم۔” وہ لب کاٹنے لگی تھی۔

”کچھ نہیں ہوا ہے۔۔۔۔۔۔ تمہیں ٹیلی پیتھی۔۔۔۔۔۔” ارمش نے اس کا جملہ کاٹ دیا تھا۔

”میں جانتا ہوں تم کچھ چھپا رہی ہو بتا دو اب بہت ہو گیا۔” وہ ہنوز خاموش تھی۔

”بولو بھی۔” اب کی بار اس نے کچھ سختی سے کہا تھا۔

”وہ ارمش ایک مسئلہ ہے۔” ارمش نے ہونٹ بھینچ لئے تھے۔

”وہ تو مجھے پہلے دن سے پتا ہے کہ ایک مسئلہ ہے، کیا ہے وہ بتاأو۔” وہ تذبذب کے عالم میں کھڑی رہی پھر بولی تو بس یہ کہ۔

”کچھ نہیں میں گھر جا رہی ہوں ڈاکٹر فاروق سے کہنا اۤج وہ دیکھ لیں میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔” وہ بیگ اٹھاأے بھاگتی ہو”ی کمرے سے باہر اۤگئی۔ اور تقریباً بھاگتے ہو”ے اس نے ہیری ہوم کا دروازہ پار کیا۔ ارمش اسے جاتے ہو”ے دیکھتا رہ رہا۔ وہ رو رہی تھی۔ کیوں؟ یہ اس کی سمجھ میں نہیں اۤرہا تھا۔ وہ بے چین سا اس کے پیچھے اۤیا مگر وہ جا چکی تھی۔ حیرانی اسے اس بات کی نہیں تھی کہ اسے کو”ی مسئلہ تھا، پریشانی اس بات کی تھی کہ وہ مسئلہ اس قدر سنگین ہو گیا تھا۔۔۔۔۔۔ اس نے اپنی گاڑی نکالی اور اس کے پیچھے چل دیا تھا۔

دروازہ حسب توقع فرید بابا نے ہی کھولا تھا۔ ارمینہ پہلے پہنچ چکی تھی وہ بعد میں پہنچا تھا۔ وہ اندر اۤگیا تھا۔ سلام کرنے کے بعد اس نے ارمینہ کا پوچھا تھا۔

”وہ تو اپنے کمرے میں ہیں۔”

”اس وقت کیسے ارمش؟” وہ فرید بابا کے جواب سے پہلے اۤگئے تھے۔

”انکل ارمینہ ہیری ہوم سے نکلی تو بہت اپ سیٹ تھی کچھ بتا بھی نہیں رہی ہے۔ پریشان ہو گیا تھا میں۔” اس کے جملے پر وہ مسکراأے تھے۔

”یہ لڑکی بھی ناں۔۔۔۔۔۔ اس دن تمہارے جانے کے بعد ایک فون اۤگیا تھا جو میرے سرجن کا تھا۔ انہوں نے کہا میری سرجری ہونی ہے بس تب سے اس کا فیوز اڑ گیا ہے۔”

”کیسی سرجری انکل؟”

”ریڑھ کی ہڈی کی کو”ی سرجری ہے۔ مجھے تو پتا بھی نہیں تفصیلات اسے ہی پتا ہے۔”

”اچھا! جبھی وہ ایک ہفتے سے پریشان ہے۔”

”ہاں بھئی۔۔۔۔۔۔ ایسے ہزاروں کیسز دیکھ لیتی ہے۔۔۔۔۔۔ اب گھبرا رہی ہے۔” وہ مسکرا دیا۔ انہوں نے اسے اۤواز دی تو وہ کمرے سے باہر اۤءی تھی۔

”جی پاپا؟” اسے وہاں کھڑا دیکھ کر وہ کچھ دیر کیلئے ساکت رہ گیا تھا۔

”دیکھو تم نے ارمش کو بھی پریشان کر دیا۔۔۔۔۔۔ نیچے اۤءو۔” وہ اپنے اۤنسو پوچھتی سیڑھیوں سے نیچے اۤءی تھی۔ سر جھکاأے اپنی سرخ ہوتی ناک کے ساتھ وہ خاموش کھڑی تھی۔ ارمش کو اس پر ترس اۤگیا تھا۔

”ارمینہ انکل کی سرجری ہے تو اس میں رونے کی کیا بات ہے؟ یہ علاج کا حصہ ہے وہ بہتر ہو جاأیں گے۔۔۔۔۔۔ تمہیں اتنی تو سمجھ ہونی چاہیے۔” وہ سمجھانے والے انداز میں بولا تھا۔ ارمینہ نے اپنے ہاتھ کی پشت سے اپنی ناک کو رگڑا۔ ارمش کیلئے یہ نظارہ کچھ دلکش بھی تھا اور کچھ دل خراش بھی، وہ واقعی اسے روتے ہو”ے زیادہ پیاری لگ رہی تھی۔ اس نے سر جھٹکا تھا۔

”فرید بابا۔۔۔۔۔۔ پاپا کی دوپہر والی دوا کا ٹاأم ہو گیا ہے انہیں دے دیں۔” وہ فرید بابا کی ہی کی طرف کر کے بولی تھی۔

”ارے میری نماز بھی رہ گئی ہے۔۔۔۔۔۔ فرید مجھے کمرے تک لے چلو۔”

ان کے جانے کے بعد وہ صوفے پر بیٹھ گئی تھی۔ ارمش بھی اس سے کچھ فاصلے پر بیٹھ گیا تھا۔

”پانی دوں؟” کچھ ڈرتے ہو”ے ارمش نے سوال کیا تھا۔ اس نے گردن نہیں میں ہلا دی تھی۔

”سرجری صبح ہے؟”

”نہیں۔۔۔۔۔۔”

”تو پھر اس طرح کیوں رو رہی ہو؟”

”بس ایسے ہی۔”

”کو”ی اور مسئلہ ہے؟”

”نہیں”۔۔۔۔۔۔

”کسی نے کچھ کہا ہے؟”

”نہیں”۔۔۔۔۔۔

”تو پھر کیوں اتنا رو رہی ہو؟ شکل دیکھو اپنی۔” اس بار اس نے کچھ اکتا کر کہا تھا۔

”کیوں کیا ہوا ہے میری شکل کو؟”

”موجوجوحو”حوجو لگ رہی ہو۔۔۔۔۔۔ اۤنکھیں دیکھو بالکل ویسی ہی ہو گئی ہیں رو رو کر اور جاگ جاگ کر۔” اس نے گھور کر ارمش کو دیکھا مگر خاموش رہی۔

”نہیں بتاأو گی؟”

”کچھ نہیں میں پاپا کی وجہ سے پریشان ہوں۔”

”ٹھیک ہے پھر میں چلتا ہوں۔۔۔۔۔۔ اۤج سڈنی جا رہا ہوں ایک ہفتے بعد واپسی ہو گی۔”

”خدا حافظ”۔کہہ کر وہ اٹھ گیا تھا۔

”خدا حافظ”۔ وہ بس اتنا ہی کہہ پاأی تھی۔

ارمش وہاں سے اۤگیا تھا مگر اس کا دل سکون نہیں پا رہا تھا۔ اس کا دماغ یہی سوچ رہا تھا کہ وہ اتنی امیچور نہیں تھی کہ اس بات پر اس طرح روتی یا تو وہ سرجری سنگین نوعیت کی تھی اور وہ کسی کو بتا نہیں رہی تھی یا پھر کو”ی اور مسئلہ تھا۔۔۔۔۔۔ ارمش کے پاس پتا کرنے کیلئے چار گھنٹے تھے پھر اسے سڈنی چلے جانا تھا۔۔۔۔۔۔

٭۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔٭

چار بجے کے قریب وہ گھر سے نکلی تھی اور سیدھا بینک گئی تھی۔ وہ دس منٹ تک بے مقصد ویٹنگ ایریا میں بیٹھی رہی پھر بغیر کو”ی معلومات لیے باہر اۤگئی۔ وہ باہر اۤءی تو بینک کے دروازے پر اسے ارمش کھڑا دکھاأی دیا تھا۔ وہ سکتے کے عالم میں اسے دیکھتی رہ گئی۔ وہ سیڑھیوں کے ساتھ لگی ریلنگ سے ٹک کر ہاتھ سینے پر باندھے کھڑا جیسے اسی کا انتظار کر رہا تھا۔

”تم یہاں کیا کر رہے ہو؟” وہ واقعی کچھ گھبرا گئی تھی۔

”یہ سوال تو مجھے تم سے پوچھنا چاہیے کہ تم اس وقت یہاں کیا کر رہی ہو ارمینہ؟”

وہ کچھ دیر خاموش رہی پھر اس کے سامنے سے گزر کر سیڑھیاں اترنے لگی۔

”میں نے کچھ پوچھا ہے شاید تم سے۔”

”مجھے کچھ ضروری کام تھا۔”

”کیا میں جان سکتا ہوں کیا کام تھا؟”

”نہیں تم نہیں جان سکتے۔۔۔۔۔۔ اب جاأو۔” یہ کہہ کر وہ باقی سیڑھیاں اترتی گئی۔ ارمش چپ چاپ اس کے پیچھے چلتا رہا تھا۔ وہ گاڑی تک اۤءے جہاں جاوید بھاأی گاڑی میں بیٹھے اس کا انتظار کر رہے تھے۔

”جاوید بھاأی مجھے اور ارمینہ کو ذرا کام سے جانا ہے۔۔۔۔۔۔ میں اسے چھوڑ دوں گا۔” وہ کھڑکی کے اس طرف بیٹھے جاوید بھاأی سے بڑے اۤرام سے کہہ رہا تھا۔ ارمینہ نے گردن گھما کر اسے دیکھا تھا۔

”اچھا جی ٹھیک ہے۔۔۔۔۔۔ ارمینہ بی بی میں جاأوں؟” وہ ارمینہ سے تصدیق چاہتے تھے۔

”جی۔” اس نے گردن جھکا کر بس اتنا ہی کہا تھا۔ ان کے جانے کے بعد ارمش چل پڑا وہ خاموشی سے اس کے پیچھے چل دی۔

”تم نہیں بتانا چاہتیں کہ کیا بات ہے؟” اس نے گاڑی میں بیٹھتے ہی پوچھا تھا۔ وہ اب بھی خاموش تھی۔

”ٹھیک ہے مت بتاأو۔۔۔۔۔۔ مجھے اۤٹھبجے ایئرپورٹ پہنچنا ہے بیچ میں تین گھنٹے ہیں۔۔۔۔۔۔ پھر میں چلا جاأوں گا تو ایسا کرتے ہیں کہیں گھومتے ہیں۔” وہ پرجوش سا کہہ رہا تھا اور ارمینہ اس کا چہرہ دیکھ رہی تھی۔ اس نے کو”ی اصرار نہیں کیا تھا سوال ایک بار پوچھا گیا تھا جواب نہ ملنے پر اسے دہرایا نہیں گیا تھا۔

”تمہیں شاپنگ کرنا پسند ہے؟”

”نہیں۔”

”تو کھانا پینا؟”

”نہیں۔”

”تو پھر گیمز کھیلتے ہیں”

”نہیں۔”

”تو ایسا کرتے ہیں کسی پل سے چھلانگ لگا لیتے ہیں۔” اس نے اکتا کر کہا تو ارمینہ نے گردن گھما کر اسے دیکھا۔۔۔۔۔۔

”یہی بچتا ہے پھر تو۔” کندھے اچکا کر اس نے کہا تو وہ ہلکا سا مسکراأی تھی۔

”تم ہی کودنا۔۔۔۔۔۔ میں کسی الٹے کام میں تمہارا ساتھ کیوں دوں؟”

Loading

Read Previous

باجی ارشاد

Read Next

شکستہ خواب

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!