سبز اور سفید

کراچی پہنچے تو شام ڈھل رہی تھی۔ احمد انہیں لینے ایئرپورٹ اۤیا تھا۔ احمد کی خوشی ان سب کو دیکھ کر دیدنی تھی۔ وہ انابیہ اور ارمینہ سے ملنے کے بعد اس کے پاس اۤیا۔

”تو فرصت مل ہی گئی تمہیں مجھے اپنی شکل دکھانے کی۔” معصوم سا شکوہ کرنے کے بعد وہ سرفراز کے گلے لگ گیا تھا اور سرفراز اس کا ہر رویہ اور ہر لہجہ بھول گیا تھا۔ گھر اۤتے اۤتے ان میں بہت سی خوش گوار باتیں ہو”ی گھر اۤکر پر وہ ارحم اور ارمش سے ملا۔ کھانے پینے سے فارغ ہو کر وہ دونوں واک کے لیے باہر اۤگئے تھے۔

”کیسی جا رہی ہیں ڈیوٹیز؟” احمد نے چلتے چلتے اس سے سوال کیا جو سیاہ جینز اور اۤف واأیٹ دھاری دار شرٹ میں ملبوس تھا۔

”اچھی جا رہی ہیں یار اگلے سال تک ان شاأ اللہ promote ہو جاأوں گا۔”

”ان شاأ اللہ۔” واک کرتے کرتے وہ اب سڑک پر نکل اۤءے تھے۔

”احمد۔۔۔۔۔۔ کیا تم مجھ سے ناراض تھے؟” سرفراز کے اچانک سوال پر احمد نے چونک کر اسے دیکھا تھا۔

”نہیں تو۔” احمد نے اس کی جانب دیکھتے ہو”ے کیا۔

”فون پر مجھے ایسا لگا جیسے تم مجھ سے ناراض ہو۔” سرفراز اپنے جوتوں کو دیکھ رہا تھا۔ احمد نے اپنا ہاتھ اس کے کندھے پر رکھا تھا۔

”ارے نہیں یار! میں بس انابیہ کی وجہ سے فکرمند ہو جاتا ہوں۔ وہ سارا دن گھر میں اکیلی ہوتی ہے اور اب ارمینہ کی بھی ذمہ داری ہے تو بس اسی لیے کچھ پریشان ہو جاتا ہوں۔ وہ کبھی اکیلی رہی نہیں ہے۔”

”انابیہ کی فکر مجھے بھی ہے احمد! میں گھر پر نہیں ہوتا تو دس بار اسے فون کرتا ہوں مگر میں اپنی ڈیوٹیز، اپنی شفٹس نہیں چھوڑ سکتا۔” وہ سنجیدگی سے کہتا جا رہا تھا۔

”ہاں ہاں میں جانتا ہوں اور میں نے ایسا کب کہا ہے۔ خیر جانے دو یہ باتیں یہ بتاأو پان کھاأو گے؟ اکیلا ہوتا ہوں تو دل ہی نہیں کرتا اۤج تم ہو تو کھاتے ہیں۔” چہرے پر مسکراہٹ سجاأے وہ سرفراز سے کہہ رہا تھا۔

”ضرور مگر یاد رکھنا میں مہمان ہوں اور والٹ بھی گھر پر ہے میرا۔” وہ معنی خیز انداز میں کہہ رہا تھا اور ساتھ ہنسی پر قابو پا رہا تھا۔

”تیس روپے بھی نہیں ہیں تیرے پاس غریب اۤدمی؟ اور تو مہمان کب سے ہو گیا؟” چہرے پر سنجیدگی سجاأے احمد نے اس سے کہا۔

”بس جب سے شادی ہو”ی ہے۔ اب بہنو”ی ہوں تمہارا۔ عزت سے بات کیا کرو مسٹر احمد رضا ابراہیم۔” وہ رعب سے بولا تو احمد ایک قہقہہ مار کر ہنسا تھا۔

”تم جیسے بہنو”ی ہوں ناں تو بس اللہ خیر ہی کرے اور تم تو بھاأی ہو اور بھاأیوں کو عزت کے ساتھ دو تھپڑ ملتے ہیں اگر وہ بات نہ مانیں تو۔ چلو اۤج کا پان میری طرف سے اگلا تم کھلاأو گے وعدہ کر رہے ہو۔۔۔۔۔۔ سمجھے؟”

”ہاں سمجھ گیا۔” ایک مسکراہٹ کے ساتھ اس نے کہا تو احمد پان کی دکان کی طرف بڑھ گیا اور سرفراز نے ایک ٹھنڈی اۤہ بھری۔

سرفراز نے کتنے دن بے سکونی میں گزارے تھے اور یہ سوچ کہ احمد اس سے خفا ہو سکتا ہے اسے مزید بے سکون کر رہی تھی اور اب احمد کے منہ سے اپنی بے عزتی کے چند کلمات سن کر جیسے اسے قرار اۤگیا تھا۔ وہ مسکراہٹ لبوں پر لیے اس کے پیچھے چل پڑا تھا۔ وہ دونوں گھر واپس اۤءے تو سرفراز سونے چلا گیا اور احمد اپنی اسٹڈی میں واپس اۤگیا جہاں انابیہ بیٹھی کو”ی کتاب پڑھ رہی تھی۔

”ارے! اۤپ لوگ اۤگئے۔” احمد کو دیکھ کر وہ بولی اور ساتھ ہی مسکراأی۔ اس کی مسکراہٹ میں ان کی دنیا مقید تھی۔

”ہاں اۤگئے۔ تم جاگ کیوں رہی ہو اب تک؟”

”وہ سرفراز نہیں تھا تو مجھے نیند نہیں اۤرہی تھی تو میں اسٹڈی میں اۤگئی۔ ارمینہ بھی ثمینہ بھابھی کے پاس ہے وہ کہہ رہی تھیں کہ وہ اۤج ارحم ارمش کے روم میں سو”یں گی تو ارمینہ کو بھی اپنے پاس سلا لیا۔”

”اچھا جی! کیا پڑھ رہی ہو؟” اس کے قریب اۤتے ہو”ے وہ بولے ۔

”یہ باأیو گرافی۔۔۔۔۔۔ اۤپ کے پاس بہت زبردست کولیکشن ہو گئی ہے باأیو گرافیز کی بھاأی۔”

”ہاں میں زیادہ تر یہی پڑھتا ہوں۔ لوگوں کی زندگی ہمیں جو سبق سکھاتی ہے شاید ہی کچھ اور سکھاأے۔ تمہارے ہاتھ پر کیسا نشان ہے یہ؟”

اس کی جلی ہو”ی انگلیاں دیکھ کر وہ پوچھ رہے تھے۔

”یہ؟ ہاتھ جل گیا تھا، کل میں فش گرل کر رہی تھی۔ اسی دوران۔”

”مگر تمہیں منع کیا ہے ناں کہ ایسے کام مت کیا کرو جب گھر پر اکیلی ہو تو۔”

”بھاأی سرفراز اۤگیا تھا اور کچھ خاص نہیں جلا وہ بھی ارمینہ کو دیکھنے کے چکر میں ہاتھ جا کر گرل پین پر لگ گیا۔تھا”

وہ خاموش رہا پھر کچھ دیر بعد بولا۔

”اچھا چلو اب جا کر سو جاأو سرفراز اۤگیا ہوگا۔”

”جی خداحافظ۔”

”خداحافظ۔” انابیہ کے جانے کے بعد وہ کو”ی کتاب نکال کر بیٹھ گئے تھے۔

٭۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔٭

وہ اگلے دن سب کو لے کر شاپنگ کرنے اۤگیا تھا۔ مختلف دکانوں پر گھومتے ہو”ے وہ لوگ کچھ نہ کچھ خرید رہے تھے۔ سرفراز نے ارمینہ کے لیے ڈھیروں کھلونے اور کپڑے وغیرہ خریدے تھے پھر وہ ایک فون کا کہہ کر غاأب ہو گیا تھا۔

”کس کا فون تھا؟” واپسی پر احمد نے اس سے پوچھا تو وہ ٹال گیا۔

”کسی کو اور کچھ لینا ہے؟” احمد نے کہا تو سب نے نفی میں گردن ہلاأی۔

”نہیں چلتے ہیں اب۔” سرفراز کہتا ہوا اۤگے بڑھنے لگا۔

”مگر انابیہ کے لیے تو تم نے کچھ لیا ہی نہیں، ساری شاپنگ ارمینہ کے لیے ہی کی ہے۔” احمد نے پرشکوہ لہجے میں اس سے پوچھا تو انابیہ پیچھے سے اۤگئی۔

”چلیں بھاأی اب بھوک لگنے لگی ہے۔” انابیہ نے نڈھال ہوتے ہو”ے کہا۔

”ہاں ہاں چلتے ہیں۔” سرفراز کہتا ہوا اۤگے بڑھ گیا اور احمد اس کی پشت کو تکتا رہ گیا۔

”کیا وہ ہمیشہ انابیہ کو ایسے ہی نظرانداز کرتا رہتا ہے اور انابیہ اتنی معصوم ہے کہ اسے اندازہ بھی نہیں۔” اس نے دکھ اور پریشانی سے سوچا پھر ان کے پیچھے چل پڑا۔

سرفراز نے انابیہ کیلئے ایک بہت خوبصورت انگوٹھی خریدی تھی۔

ارمینہ کی پیداأش پر اس نے انابیہ کو سونے کے بُندے تحفے میں دیئے تھے اس کے بعد سے اس نے اسے کچھ خاص نہیں دیا تھا۔ وہ سوچ کر کراچی اۤیا تھا کہ اس بار وہ انابیہ کو انگوٹھی لے کر دے گا۔ مگر وہ اسے سرپراأز دینا چاہتا تھا تو اس نے کسی سے بھی ذکر نہیں کیا تھا۔

انابیہ ارمینہ کو سلا چکی تو اس نے وہ انگوٹھی اسے پہناأی تھی۔

”تو یہ تھی وہ فون کال؟” اس کے فوراً بوجھنے پر وہ ہنس دیا تھا۔

”ہاں! تمہیں کیسے پتا؟”

”جیسے میں تمہیں جانتی نہیں سرفراز۔” وہ مسکرا کر کہہ رہی تھی۔

”کیسی لگی تمہیں؟” اس کا ہاتھ تھامے وہ معصومیت سے پوچھ رہا تھا۔

”بہت پیاری۔”

”انابیہ جیسی؟” اس نے شرارت سے کہا۔

”نہیں۔۔۔۔۔۔ ارمینہ جیسی۔” وہ ارمینہ کو دیکھتے ہو”ے بولی تو وہ دونوں مسکراأے تھے۔

”شکریہ۔”

”anytime” ساأیڈ ٹیبل پر رکھا لیمپ بجھاتے اس نے کہا تھا۔

”اس سال 23 مارچ کی پریڈ میں، میں پیراٹروپرز کی فارمیشن کو لیڈ کر رہا ہوں۔” اس نے فون رکھتے ہی کھانے کی میز پر اعلان کیا تھا۔

”واقعی؟ مبارک ہو یار یہ تو بہت اعزاز کی بات ہے۔ ان شاأ اللہ تم بہت اچھا کرو گے۔ مجھے یقین ہے۔” احمد نے اسے مبارک باد دی تھی۔ اس کی بہترین صلاحیتیں کسی سے چھپی نہیں تھیں۔ ایسے میں اسے یہ اعزاز ملنا کو”ی انوکھی بات نہیں تھی۔ جو اسے ملا تھا وہ اس کا حق دار تھا۔ وہ خوش بھی تھا۔ ایسے پرُوقار مواقع قسمت والوں کو ہی ملا کرتے تھے وہ اپنے ملک کا جھنڈا تھامے اور اۤسمان کی بلندیوں کو دبانے والے چند خوش نصیبوں میں سے ایک تھا۔

پھر اس نے ایک مہینے بعد پہلی بار پریڈ میں اس فارمیشن کو لیڈ کیا تھا۔ وہ مظاہرہ اتنا شان دار تھا کہ لوگ کچھ پل کو تالیاں بجانا بھی بھول گئے تھے۔ اس کے بعد اس نے اگلے دو سال بھی اس فارمیشن کو ویسے ہی لیڈ کیا مگر چوتھی بار وہ حادثہ پیش اۤگیا تھا جس نے اس کی زندگی کے سارے رنگ چھین لیے تھے۔ اس کے سبز اور سفید رنگ سیاہ پڑ گئے تھے۔

٭۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔٭

ارمش نے پہلی بار وہ پریڈ پانچ سال کی عمر میں دیکھی تھی۔ پھر چھے پھر سات۔۔۔۔۔۔ پھر اۤٹھ سال کی عمر سے وہ پریڈ میں نہیں گیا تھا۔ وجہ بابا کا جانے کیلئے زور نہ دینا تھی۔ وہ پہلے ہمیشہ ان ہی کے کہنے پر پریڈ میں جاتا تھا۔ بابا کا خیال تھا ایسے events میں شرکت کر کے انسان بہتر پاکستانی بنتا ہے۔ اس کا دل اپنے ملک کے لیے دھڑکتا ہے اور وہ رستے سے نہیں بھٹکتا۔ مگر اسے ہمیشہ اسے events بہت بور کرتے تھے لیکن وہ پراٹروپرز کے مظاہرے کو بڑے شوق سے دیکھتا تھا۔ اسے ان کے پیروں سے نکلنے والا سبز اور سفید دھواں بہت متاثر کرتا تھا۔ اۤٹھ سال کی عمر کے بعد اس نے وہ دھواں، وہ پریڈ کبھی نہیں دیکھی تھی۔

٭۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔٭

وہ سب شکرپاراں میں موجود تھے۔ یہ سرفراز کی پروموشن کی خوشی میں منعقد کی جانے والی دعوت تھی، جو سرفراز نے اپنے گھر میں ہی رکھی تھی۔ یہ گھر ان کی وراثت تھا۔۔۔۔۔۔ ان کی یادوں کی۔۔۔۔۔۔ ان کی خوشیوں کی۔۔۔۔۔۔ ان کے بچپن کی، یہ گھر جتنا سرفراز کو عزیز تھا اتنا ہی احمد اور انابیہ کو بھی عزیز تھا۔ وہ چھت پر سارا انتظام کر چکا تھا۔ کھانا کھایا جا چکا تھا اور اب سب باتوں میں مصروف تھے۔ احمد نے سرفراز کو پکارا تو وہ کچھ مہمانوں کو رخصت کر کے ان سب کے پاس اۤگیا جہاں احمد، ثمینہ اور انابیہ بیٹھے تھے۔ بچے پاس ہی کھیل میں مصروف تھے۔ تین سالہ ارمینہ ارمش کو پکڑنے کی سعی میں اس کے پیچھے بھاگنے میں مصروف تھی اور ارحم بڑا ہونے کی وجہ سے انہیں احتیاطی تدابیر برتنے کو کہہ رہا تھا جو ارمش کے کان کے پاس سے بھی نہیں گزر رہی تھیں۔

سرفراز چیئر لے کر ان سب کے پاس بیٹھنے ہی والا تھا جب ارمینہ کے رونے کی اۤواز اۤءی تھی۔ وہ بھاگتا ہوا ارمینہ کے پاس پہنچا ، پیچھے انابیہ، ثمینہ اور احمد بھی اۤءے تھے۔ ارمینہ کے ماتھے سے بہت خون بہ رہا تھا۔ سرفراز دیکھ کر گھبرا گیا تھا۔ وہ بہت زور زور سے رو رہی تھی اور سرفراز کے ہاتھ پیر پھولنے لگے تھے۔

”انابیہ جا کر رو”ی لاأو اتنی دیر میں میں گاڑی نکالتا ہوں اسے ہسپتال لے کر جانا ہے۔” وہ جلدی جلدی میں انابیہ سے کہہ رہا تھا۔ ساتھ اس کا ہاتھ ارمینہ کے ماتھے پر تھا۔

”اتنی گہری چوٹ نہیں ہے سرفراز ہم گھر پر بینڈیج کر دیتے ہیں خون رک جاأے گا۔” انابیہ نے کہا تو وہ اس کا چہرہ دیکھتا رہ گیا۔

”انابیہ میں تم سے کہہ رہا ہوں ہم اسے ہسپتال لے جا رہے ہیں سن رہی ہو؟” اس نے سخت لہجے میں کہا اور کھڑا ہو گیا۔

”سرفراز ہاأپر مت ہو میں اور وسیم لے جاتے ہیں اسے ہسپتال۔” احمد اس کے پیچھے چلتے ہو”ے کہہ رہا تھا۔

”یوں کرو تم اور انابیہ جاأو میں اۤتا ہوں۔” کہتا ہوا وہ گھر کے اندر چلا گیا جب کہ سرفراز باہر اۤگیا۔ وہ گاڑی میں بیٹھ رہا تھا، انابیہ اس کے ساتھ تھی اس نے ارمینہ کو انابیہ کی گود میں دیا اور خود گاڑی چلانے لگا۔ ارمینہ کی چوٹ واقعی بہت گہری نہیں تھی مگر اس کے حواس پھر بھی بے قابو ہو گئے تھے۔ اس نے پہلی بار ارمینہ کے جسم کے کسی حصے سے خون نکلتے دیکھا تھا، مزید اس کا رونا اور اس کی سسکیاں اس کے ہاتھ پیر پھلانے کے لیے کافی تھے۔ وہ گاڑی کو تقریباً اڑاتا ہوا لے جا رہا تھا اور چند منٹوں میں وہ لوگ ہسپتال پہنچ گئے تھے۔ اس نے انابیہ کی گود سے ارمینہ کو لیا اور واپس گاڑی سے اتر کر ہسپتال کی سیڑھیوں کی طرف بڑھنے لگا۔ جلدی جلدی میں اس نے گاڑی بیچ سڑک پر ہی روک دی تھی۔ یہ قریبی اور عام سا ہسپتال تھا جہاں باقاعدہ پارکنگ نہیں تھی۔ وہ سڑک پر ہی گاڑی کھڑی کر کے باہر اُتر چکا تھا گاڑی کی دوسری طرف سے انابیہ اتررہی تھی وہ سرفراز کی رفتار کا مقابلہ مشکل سے کر پا رہی تھی جو اب سیڑھیاں چڑھ رہا تھا۔ وہ بھاگتی ہو”ی ہسپتال کی طرف جا رہی تھی جب ایک دھماکے کے ساتھ ایک ٹرک اسے روندتا ہوا چلا گیا تھا۔

سرفراز کریش کی اس اۤواز پر پلٹا تھا اور وہیں جم گیا تھا۔ اسے سمجھ نہیں اۤیا تھا کہ انابیہ کہاں تھی؟وہاں بس خون تھا، بہت سارا خون۔ وہ اب ارمینہ کے ماتھے سے بہنے والا خون بھول چکا تھا۔ اس کا رونا بھی بھول چکا تھا۔ اسے کچھ بھی یاد نہیں تھا۔ وہ بس خالی خالی ذہن کے ساتھ وہاں کھڑا تھا۔ کو”ی اۤپ سے اۤپ کی ساری دنیا چھین لے مگر وہ ایک انسان جو اۤپ کی ساری دنیا ہوتا ہے اس کے چھن جانے کا اندیشہ بھی انسان کو ہلا کر رکھ دیتا ہے۔ وہ چھے فٹ لمبا تیس سال کا فوجی مشکل سے مشکل ٹریننگ کو مہارت سے کرتا، جیسے پچیس ہزار فٹ کی بلندی سے چھلانگ لگانے سے ڈر نہیں لگتا تھا اۤج زمین پر کھڑے ہو کر بھی اس کی ٹانگیں کانپنے لگی تھیں۔ اس کے بعد سب دھندلا گیا تھا، اۤوازیں منظر ہر چیز۔ کچھ تھا تو صرف سرخ رنگ، اس کا سبز اور سفید رنگ سرخ میں تبدیل ہو گیا تھا۔۔۔۔۔۔ اس کا ”سیاہ” ہونا ابھی باقی تھا۔

٭۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔٭

وہ ہیری ہوم کے دروازے سے اندر داخل ہو رہی تھی جب اس کی نظرارمش اور عمر پر پڑی تھی۔ وہ چلتی ہو”ی ان کے پاس اۤگئی اور ایک درخت سے ٹک کر کھڑی ہو گئی۔ اس کی نظریں ارمش پر ٹکی ہو”ی تھیں۔ اس کے ہاتھ کہنیوں تک گیلے تھے۔ اس کے چہرے پر اۤءے بال بھی گیلے ہی معلوم ہو رہے تھے۔ وہ شاید وضو کر کے اۤیا تھا۔

”درختوں پر ساأے ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔ وہ تم سے ڈر جاأیں گے دور ہو جاأو۔”اس نے چونک کر اسے دیکھا جب کہ عمر ہنسا تھا۔

”زیادہ دانت مت نکالو۔۔۔۔۔۔ پڑھاأی کرو جا کر۔” اس نے عمر کو ڈانٹا تو وہ کھسیانی سی ہنسی ہنستا ہوا وہاں سے چلا گیا۔

”تم سے بڑا سایہ کیا ہو گا ویسے؟” وہ ارمش کی طرف پلٹ گئی تھی۔

”سوچ لو۔۔۔۔۔۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ میں ہی سوار ہو جاأوں تمہارے سر پر۔” وہ شرارت سے بولا تھا۔

”نہیں میں اۤیۃ الکرسی پڑھ کر نکلتی ہوں تم جیسے ساأے سے بچنے کے لیے، ویسے تم کہیں جا رہے ہو؟”

”ہاں نماز پڑھنے۔” یہ کہتا ہوا وہ باہر کی جانب بڑھ گیا تو وہ اندر اۤگئی۔

اسے عمر کی پڑھاأی میں مدد کرنی تھی جب سے عمر کا ایڈمیشن ہوا تھا اور اس نے امتحان کی تیاری شروع کی تھی وہ بہت مصروف ہو گیا تھا۔ دن رات محنت کرتا تھا۔ ارمش بھی یہ دیکھتے ہو”ے اسے ہیری ہوم کے حوالے سے کو”ی کام نہیں دیتا تھا بلکہ ہر کام وہ اب خود کرتا تھا۔ عمر یا تو خود پڑھتا تھا یا اسکول کے بچوں کو پڑھاتا تھا۔ وہ اندر اۤءی تو عمر پہلے ہی کتابیں کھولے بیٹھا تھا۔

”ارمینہ فزکس پسند نہیں مجھے بالکل۔۔۔۔۔۔ کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ میں فزکس کے بہ جاأے دو بار میتھس کا پیپر دے دوں؟” ارمینہ کے اندر اۤتے ہی اس نے کہا تو وہ اس کی بات پر ہنس دی تھی۔ عمر کو میتھس بہت پسند تھا۔ وہ بہت شوق سے بیٹھ کر میتھس کے پرابلمز حل کرتا تھا جب کہ فزکس سے اسے چڑ تھی۔

”نہیں بھئی۔۔۔۔۔۔ اب فزکس ہے تو ہے، پیپر تو دینا ہوگا۔ پیپر ویسے بھی تم نے بہت حد تک کور کر لیا ہے عمر ان شاأ اللہ تم پاس کر لو گے۔” اس نے مسکراتے ہو”ے کہا جب کہ عمر کا چہرہ کچھ لٹک گیا تھا۔

”کیا ہوا؟” ارمینہ نے اسے پریشان دیکھ کر پوچھا تھا۔

”کچھ نہیں۔” عمر واپس کتابوں کو چھاننے لگا۔

”بتاأو بھی عمر۔” وہ کرسی رکھ کر اس کے اۤگے بیٹھ گئی تھی۔

”ارمینہ میں صرف پاس نہیں کرنا چاہتا میں اچھے مارکس کے ساتھ پاس کرنا چاہتا ہوں۔ ارمش بھاأی نے مجھ پر بھروسہ کیا ہے میں انہیں خوش کرنا چاہتا ہوں۔ ”I want to make him proud” ارمینہ اسے دیکھتی رہی۔ یہ احسان چکانا نہیں تھا۔ عمر جانتا تھا کچھ احسان چکاأے نہیں جا سکتے تھے، یہ احساسِ تشکر تھا جو عمر کی باتوں، رویوں اور اس کے ہر عمل میں واضح ہوتا تھا۔

”عمر پتا ہے انسان میں وہ کون سی بات ہوتی ہے جو اسے کامیاب کرتی ہے؟” وہ غور سے ارمینہ کو سن رہا تھا۔

”اصل۔۔۔۔۔۔ انسان کو بس اپنا اصل نہیں بھولنا چاہیے۔ وہ کیا تھا؟ کیا بنا؟ کیسے بنا؟ کس نے مدد کی؟ کس نے راستے میں دھکا دے کر گرایا؟ یہ سب اگر وہ یاد رکھے ناں تو کامیاب ہوتا ہے۔ کیوں کہ یہ سب باتیں اسے ہمت دیتی ہیں۔۔۔۔۔۔ اۤگے بڑھنے کا حوصلہ دیتی ہیں اور تم میں بھی یہ خصوصیت ہے۔۔۔۔۔۔ تشکر اور قناعت۔۔۔۔۔۔ تم نے کبھی بھی خود کو یہ بھولنے نہیں دیا کہ تمہارا اصل کیا ہے اور تم اۤج جہاں پر ہو وہ کیوں ہو۔ میں جانتی ہوں عمر تم ضرور کامیاب ہو گے کیوں کہ تم جیسے لوگ زندگی سے شکایت کرنے کے بجاأے اسے بہتر بنانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں اور پھر اللہ تم جیسے لوگوں کے کام میں برکت دیتا ہے اور تم جیسے لوگوں کے لیے ہی ارمش جیسے لوگوں کو بھیجتا ہے۔ تم اسے deserve کرتے تھے اس لیے وہ تمہیں ملا اگر تمہارے بہ جاأے کسی ناشکرے کو ارمش ملتا اور اس کا ساتھ دیتا تو اس کی ساری محنت ضاأع ہو جاتی اور اس کے وجود کا کو”ی فاأدہ نہ رہتا۔۔۔۔۔۔”

”اللہ بھی اس کا ساتھ دیتا ہے جو اس کا اہل ہوتا ہے عمر۔” اپنی بات کے اختتام پر وہ مسکراأی تھی اور اس نے ایک گلاس میں پانی نکال کر اس کے اۤگے کیا۔ وہ جانتی تھی وہ رو رہا ہے۔ سر جھکا کر بہت خاموشی کے ساتھ اس نے پانی کا گلاس تھام لیا تھا۔

”اب یہ موصوف کیوں رو رہے ہیں؟” دروازے پر ارمش کو دیکھ کر وہ دونوں چونکے تھے۔ عمر نے جلدی سے اپنے اۤنسو پونچھے اتنے میں وہ ان کے قریب اۤگیا تھا۔

”کیوں رو رہا ہے یہ ارمینہ؟ اب کیا کردیا تم نے؟”اس نے توپوں کا رخ اب ارمینہ کی طرف کر دیا تھا۔

”ارے بھئی میں نے کچھ نہیں کیا۔۔۔۔۔۔ بس اسے اچانک تمہارا چہرہ یاد اۤگیا تھا تو اسے رونا اۤگیا۔” مسکراہٹ دباتے ہو”ے وہ بولی تھی۔

”تم اس کے سامنے بیٹھی تھیں پھر بھی؟ عمر میری شکل کم از کم اس سے تو زیادہ خوبصورت ہے۔” جملے کا اۤخری حصہ اس نے عمر سے کہا تھا۔ عمر ہنسنے لگا تھا۔ ارمینہ کو عمر کو ہنستا دیکھ کر خوشی ہو”ی تھی۔ ارمش عمرکے قریب ہی چیئرپر بیٹھ گیا تھا۔

”اب یہ بتاأو اور کتنی بار رو گے تم گریجوایٹ ہونے سے پہلے؟ گریجوایٹ ہونے کے بعد مت رویا کرنا۔۔۔۔۔۔ لڑکیوں کو اچھے نہیں لگتے رونے والے لڑکے۔” جوتے کے تسمے باندھتے ہو”ے وہ عمر کو ماہرانہ راأے دے رہا تھا۔

”رُلانے والے بھی اچھے نہیں لگتے۔” ارمینہ نے بھی اپنی راأے کا اظہار ضروری سمجھا تھا۔

”ہاں۔۔۔۔۔۔ مگر غصّہ دلانے والے اچھے لگتے ہیں کیوں کہ وہ انہیں متاثر کرتے ہیں ناں۔” وہ عمر کی طرف دیکھ کر کہہ رہا تھا مگر اس کا سارا دھیان ارمینہ کی طرف تھا۔

”عمر۔۔۔۔۔۔ جب تمہیں کچھ پوچھنا ہو تو مجھے بلا لینا۔۔۔۔۔۔ میں مزید اس کے ساتھ اپنا دماغ ضاأع نہیں کر سکتی ۔” وہ غصے سے بولی تھی۔

”ہاں ویسے بھی تمہارے پاس کم ہے دماغ۔” ارمش کے جملے نے اس کے طیش میں مزید اضافہ کر دیا تھا۔ وہ ایک غصیلی نگاہ ان دونوں پر ڈال کر اۤگے بڑھ گئی اور گیٹ سے باہر چلی گئی۔ اس کے جانے کے بعد ارمش نے عمر کو ایک فاتحانہ تالی ماری اور دونوں ہنس دیئے۔

”کہیں ایسا نہ ہو ارمش بھاأی کسی دن واقعی اۤپ سے نفرت کرنے لگے یہ۔” عمر کتابیں کھولتا کہہ رہا تھا اور کسی فاأل تک جاتا ارمش کا ہاتھ وہیں جم گیا تھا۔

”کیا کہا؟” اس کے تھمے ہو”ے ہاتھ کو دیکھ کر عمر نے پوچھا تو مسکرایا اور بولا:

”وہ اتنی اچھی اور اتنے خوبصورت دل کی مالک ہے عمر کہ وہ کبھی کسی سے نفرت کر ہی نہیں سکتی۔” عمر کی جانب پشت کئے وہ میکانکی انداز میں کہہ رہا تھا۔ اس نے ریک سے فاأل نکالی اور باہر چلا گیا۔ عمر نے اس کے منہ سے پہلی بار کسی کی تعریف سنی تھی۔۔۔۔۔۔ وہ بھی ارمینہ کی۔ یہ اس کیلئے حیران کن تھا۔۔۔۔۔۔ اپنا سر جھٹک کر وہ واپس کتابوں میں غرق ہو گیا تھا۔

٭۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔٭

ہیری ہوم کے ابتداأی دن تھے۔ انہیں فنڈز کی بہت ضرورت تھی۔ بچوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا تھاساتھ ساتھ ان کی ضروریات میں بھی۔ اپنے اپنے اعتبار سے ہیری ہوم سے جڑا ہر شخص ہیری ہوم کو سپورٹ کر رہا تھا۔ مگر پھر بھی ارمش کو اندیشے ستانے لگے تھے۔ وہ اپنی اۤمدنی کا ایک بہت بڑا حصہ ہیری ہوم پر لگا رہا تھا۔ مگر ایسا ہمیشہ نہیں چل سکتا تھا۔ فنڈز کو بڑھانا تھا اور یہ بہت ضروری تھا۔ ارمش پرُ امید تھا کہ اگر وہ یہاں تک اۤگیا تھا تو اۤگے بھی چلا جاأے گا۔ ہاتھ میں پکڑی فاأل کچھ اضطراب کے عالم میں بند کرتا وہ ارمینہ کے پاس اۤگیا تھا۔ وہ ہفتہ وار بچوں کے میڈیکل چیک اپ میں مصروف تھی۔

”ارمینہ تمہارے پاپا گھر پر ہیں اۤج؟”

”ہاں۔۔۔۔۔۔ کیوں؟” وہ کان سے اسٹیتھو سکوپ نکالتے ہو”ے بولی۔

”مصروف تو نہیں ہوں گے؟”

”نہیں مگر ہوا کیا؟”

”تو ٹھیک ہے اۤج میں تمہیں ڈراپ کر دوں گا۔ جاوید بھاأی کو مت بلانا مجھے انکل سے ملنا ہے۔” یہ کہہ کر وہ واپس مڑ گیا۔ اس نے ارمینہ کا جواب سننے کی بھی زحمت نہیں کی تھی۔ وہ کچھ دیر حیران ہو”ی پھر اپنے کام میں مصروف ہو گئی۔

وہ لوگ گھر پہنچے تو دروازہ فرید بابا نے کھولا تھا۔ ان دونوں نے ایک ہی وقت میں فرید بابا کو سلام کیا پھر وہ اندر اۤگئے۔

”فرید بابا! پاپا کو بتا دیں ان کا چہیتا ارمش اۤیا ہے وہ خوش ہو جاأیں گے۔” ارمش اس کے جملے پر مسکرا دیا جب کہ فرید بابا اندر غاأب ہو گئے۔

”تم بیٹھو میں فریش ہو کر اۤتی ہوں۔”

”نہ بھی اۤءو تو چلے گا۔” وہ صوفے پر بیٹھتے ہو”ے مزے سے بولا تھا۔

”پتا نہیں اللہ تعالیٰ تمہیں ہدایت کب دیں گے۔” وہ کہتے ہو”ے اندر چلی گئی تھی۔

وہ اسے ڈراأنگ روم کی بہ جاأے لاأونج میں ہی بٹھا گئی تھی۔ سامنے دیوار پر ارمینہ کی ایک بڑی تصویر فریم میں جکڑی ہو”ی تھی۔ وہ اسے غور سے دیکھتا رہا۔ اس کی نظر تصویر میں موجود اس کی اۤنکھوں پر ٹھہر گئی تھی۔ کچھ تھا کچھ جانا پہچانا سا کچھ اپنا اپنا سا۔۔۔۔۔۔ کیا۔۔۔۔۔۔ وہ سمجھ نہیں پاتا تھا۔ اس نے پہلی بار ارمینہ کے پاپا سے ملاقات میں بھی ایسا ہی محسوس کیا تھا۔ جیسے وہ ان کو جانتا ہے مگر بہت کوشش پر بھی وہ یاد نہیں کر پایا تھا۔

”اس دیوار پر بہت سجتی ہے ناںیہ تصویر؟” لاأونج کے دروازے سے ارمینہ کے والد ویل چیئر پر دراز اندر داخل ہو”ے تھے مگر اۤج وہ اسے بیمار سے لگ رہے تھے۔ ڈاڑھی بڑھی ہو”ی تھی اور اۤنکھیں بھی سوجی ہو”ی معلوم ہو رہی تھیں، جیسے کئی راتوں کے جاگے ہو”ے ہوں اس نے کھڑے ہو کر انہیں سلام کیا تھا۔

”جی بہت اچھی تصویر ہے۔”

”ارمینہ پندرہ سال کی تھی تب کی ہے۔۔۔۔۔۔ کیسے ہو تم بہت دنوں بعد اۤءے اۤج؟” اسے بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہو”ے وہ اس کے قریب اۤگئے تھے۔ وہ بیٹھ گیا۔

”جی انکل۔۔۔۔۔۔اۤپ سے ملنے کا دل چاہ رہا تھا۔”

اس کے اس جملے پر ان کے چہرے پر بڑی خوبصورت سی مسکراہٹ سجی تھی۔

”سو بار اۤءو بیٹا۔۔۔۔۔۔ خوشی ہو”ی مجھے۔۔۔۔۔۔ ارمینہ کہاں چلی گئی؟”

”فریش ہونے گئی ہے۔”

”تم پریشان ہو کیا؟” اس کے چہرے کو پڑھنا اتنا اۤسان نہیں تھا مگر پھر بھی پتا نہیں کیسے وہ جان گئے تھے کہ وہ واقعی پریشان تھا۔

”اۤپ کو کیسے پتا؟”

”اگر اۤپ لوگوں کے چہرے پر رقم دکھ اور تکلیف اور پریشانی نہ پڑھ پاأیں تو اۤپ کے وجود کا کیا مقصد؟” ایک زخمی سی

Loading

Read Previous

باجی ارشاد

Read Next

شکستہ خواب

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!