”اچھا! سن کر اچھا لگا۔” انہوں نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا پھر وہ چند لمحوں تک اس کی نیلی اۤنکھوں میں دیکھتی رہیں۔ کو”ی سایہ ان کے چہرے سے اۤکر گزر گیا۔ وہ تقریباً اۤدھا گھنٹہ وہاں بیٹھی رہی جس میں سے زیادہ وقت خاموشی میں گزرا پھر وہ دونوں نیچے اۤگئے احمد رضا اب صوفے پر موجود نہیں تھے۔ اسے لگا وہ جان بوجھ کر وہاں سے اٹھ کر چلے گئے ہیں کہ کہیں اس سے دوبارہ سامنا نہ کرنا پڑے۔
”بابا کے رویے کیلئے سوری۔” اس نے گردن گھما کر ارمینہ کو دیکھا، وہ اس کی کیفیت بھانپ گیا تھا اور کچھ شرمندہ سا لگ رہا تھا، ارمینہ نے جواب نہیں دیا، وہ کسی گہری سوچ میں تھی۔
”ارمینہ۔” اس کی اۤواز پر وہ چونکی۔
”کیا ہوا؟ کیا سوچنے لگ گئی ہو؟”
”ارمش تمہارے بابا کو میں اچھی نہیں لگتی کیا؟” اس نے اتنی معصومیت سے پوچھا کہ ارمش کو ہنسی اۤگئی۔
”تم یہ کیوں چاہتی ہو کہ ہر کو”ی تمہیں پسند کرے؟” کچھ لمحوں بعد اس نے سنجیدگی سے اسے پوچھا۔
”ہر کو”ی چاہتا ہے۔”ارمینہ نے کہا۔
”نہیں۔ میںبس اتنا چاہتا ہوں کہ کو”ی مجھے ناپسند نہ کرے اور رہا سوال بابا کا تو وہ ایسے ہی ہیں خاموش رہتے ہیں۔ Please don’t mind”
”تم اپنے بابا جیسے ہو بالکل۔”
”یہ compliment ہے؟”
”نہیں تبصرہ۔”
”بہتر ہے تبصرے نہ کرو۔ تم جانتی ہی کتنا ہو مجھے؟”
”بس اتنا کہ تمہیں فل سلیوز سے الجھن ہوتی ہے اور گھڑی کے بغیر تم گھر سے قدم باہر نہیں نکال سکتے اور کھانے میں تمہیں نمک کم پسند ہے اور چاأے بغیر چینی کی پیتے ہو اور تمہیں اورنج جوس سخت ناپسند ہے۔”وہ مسکرا کر اسے بتانے لگی۔
وہ حیرانی سے اسے دیکھنے لگا۔
”کیا ہوا؟ کچھ غلط کہا؟”
”نہیں! میری زندگی میں ایسے لوگ بہت کم ہیں جو اتنی باریکی سے میری عادتیں،میری پسند ناپسند یاد رکھیں۔ بس امی کو پتا ہوتا ہے یہ۔”
”نہیں تمہارے بابا کو بھی پتا ہے۔”
”بابا کو؟”
”ہاں جب ہم سیڑھیوں سے اوپر جا رہے تھے تو نوکر کو روک کر انہوں نے اورنج جوس کی جگہ ایپل جوس لانے کو کہا تھا۔ انہیں پتا ہے تم اورنج جوس نہیں پیتے۔ میں نے دیکھا تھا وہ نوکر کو ہدایت دے رہے تھے اسی لیے اوپر کمرے میں سب کے لیے ایپل جوس اۤیا تھا۔” وہ مسکرا کر اسے بتا رہی تھی اور وہ یک ٹک اسے دیکھ رہا تھا۔ اس نے کبھی دھیان نہیں دیا کہ اس کے بابا اس کی پسند ناپسند کو اہمیت دیتے ہیں۔
”Doctors are the best observers” کچھ اترا کر اس نے کہا تو ارمش بھی مُسکرا دیا۔ اس کے بابا کا یہ مثبت پہلو ارمینہ نے اسے دکھایا تھا۔ اسے بابا کے حوالے سے انوکھی سی خوشی محسوس ہو”ی۔ وہ اب بھی بچہ تھا جسے اپنے ماں باپ کی توجہ، ان کی concern سب سے زیادہ عزیز تھی۔ اب وہ باہر اۤگئے تھے۔
”وہ رہے جاوید بھاأی۔” اس نے گاڑی کھڑی دیکھ کر اس سے کہا۔
”تم نے بلا لیا انہیں؟”
”ہاں!”
”چلو اچھا ہے۔۔۔۔۔۔ پچھلے ایک گھنٹے سے تمہاری اۤواز سن سن کر میرے کان میں درد ہو گیا ہے۔” چہرے پر مظلومیت لاأے وہ بولا۔
”ارمش پاپا کہتے ہیں میری اۤواز بہت پیاری ہے، تمہارے اپنے کان میں کو”ی مسئلہ ہو گا۔” غصے سے کہہ کر وہ پلٹ گئی اور وہ مسکرا کر اسے جاتا ہوا دیکھتا رہا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ اس کے پاپا ٹھیک کہتے ہیں، ارمینہ کی اۤواز اس کے کانوں میں پڑنے والی اب تک کی سب سے خوبصورت اۤواز تھی، اس نے اعتراف کیا۔
٭۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔٭
”السلام علیکم پاپا!” اس نے جاتے ہی انہیں گلے لگا لیا۔
”وعلیکم السلام! کیا ہوا تھک گئیں؟” اسے نڈھال دیکھ کر وہ پوچھ بیٹھے۔
”اۤپ سے دور کتنے گھنٹے گزر گئے ہیں۔ اۤپ کو مِس کر رہی تھی۔” شرارت سے اس نے کہا تو وہ مسکراأے اور اس کا ماتھا چوم لیا۔
”پاپا ! اۤج میں ارمش کے گھر گئی تھی۔” وہ بیگ رکھتے ہو”ے ان سے کہہ رہی تھی۔ ان کے چہرے کا جیسے رنگ اڑ گیا۔
”ارمش کے گھر؟ کیوں گئی تھیں؟” وہ سنجیدہ اور قدرے پریشانی سے بولے۔
”پاپا ارمش کی امی کی طبیعت خراب تھی ارمش بھی اۤپ کو دیکھنے اۤیا تھا تو میں نے سوچا مجھے بھی جانا چاہیے ان سے ملنے۔” ان کے اندر کچھ بولنے کی سکت نہیں تھی، وہ خاموشی سے اسے تکتے رہے۔
”پاپا ارمش کی امی بہت اچھی ہیں، بیماری میں بھی وہ مجھ سے اتنے اچھے طریقے سے بات کررہی تھیں۔”
” اور اس کے بابا؟” میکانکی انداز میں انہوں نے پوچھا۔ وہ ارمینہ سے نظریں نہیں ملا رہے تھے کہ کہیں وہ ان کی کیفیت نہ بھانپ لے۔
”اس کے بابا تھوڑے rude سے ہیں پاپا۔ انہوں نے مجھ سے ٹھیک طرح سے بات بھی نہیں کی۔ سمجھ میں نہیں اۤیا کیوں؟ مجھے لگا جیسے میں انہیں اچھی نہیں لگی۔” وہ اپنی دھن میں بولے جا رہی تھی اور وہ بالکل خاموش تھے۔ کچھ دیر انہیں وہاں کا احوال بتانے کے بعد وہ اپنے کمرے میں چلی گئی لیکن سرفراز محمود وہیں بیٹھے رہے۔ ان کے اندر وہیل چیئر گھسیٹ کر کمرے میں لے جانے کی بھی سکت نہیں تھی۔ انہوں نے فرید بابا کو بلایا۔
”مجھے کمرے میں چھوڑ اۤءو۔” کمرے میں اۤکر انہوں نے دروازہ بند کر لیا۔
”تو تم نے ارمینہ کو پہچان لیا احمد اور اسے ابھی تک معاف نہیں کیا ؟مجھے بھی ابھی تک معاف نہیں کیا؟” انہوں نے بے بسی سے سوچا اور رونے لگے۔۔۔۔۔۔
سرفراز محمود کے رونے کا منظر اگر کو”ی اور دیکھتا تو یقین نہ کرتا۔ دنیا کے لیے وہ بہت مختلف تھے۔ زندگی کی تلخیاں، حادثے، غم انہوں نے کبھی کسی کے سامنے ظاہر نہیں کئے تھے، حتیٰ کہ ارمینہ کے اۤگے بھی نہیں۔ انہیں اپنے دکھ بانٹنا کبھی اۤیا ہی نہیں تھا سواأے ایک انسان کے اور وہ ایک انسان ان سے اتنے فاصلے پر تھا کہ وہ اس کے سامنے موجود ہو کر بھی اسے کچھ نہ کہہ پاتے۔
”تم نے ارمینہ کو خود سے اتنا دور کیوں کر دیا احمد؟ اتنا دور کہ اس سے بات کرنا تمہاری توہین ہے؟ تم نے اسے دھتکار دیا وہ بھی ایسے کہ اسے پتا تک نہیں چلا۔ تم نے اسے خود سے الگ کیوں کر دیا؟ یہ جانتے ہو”ے بھی کہ وہ مجھ سے جڑی ہے اور میں۔ میں سرفراز محمود تو کبھی احمد رضاابراہیم سے الگ ہوا ہی نہیں۔۔۔۔۔۔ میں ہو ہی نہیں سکتا احمد، میں نہیں ہو سکتا۔ کسی ایسے انسان سے کیسے الگ ہوا جا سکتا ہے جس نے اۤپ کو جینا سکھایا ہو، اپنے دکھ کس سے کہوں احمد؟ اپنی تکلیف کس سے کہوں؟”
وہ پھوٹ پھوٹ کر ر و رہے تھے۔ ان کے اندر دکھ نہیں تھا، خلا تھا۔ دکھ بھلاأے جا سکتے ہیں پر خلا کو پُر نہیں کیا جا سکتا۔ وہ خالی جگہ اۤپ کو ہر بار نظر پڑنے پر اتنی ہی تکلیف دیتی ہے جتنی پہلی بار سرفراز محمود کی زندگی میں احمد رضا کے نام کا خلا بہت وسیع ہو گیا تھا۔ دنیا کا کو”ی انسان اسے پُر کر ہی نہیں سکتا تھا۔ انہوں نے بہ مشکل اپنے اۤپ کو بستر پر ڈالا، نیند ان سے کوسوں دور تھی ماضی ان کی ہر سوچ پر غالب تھا انہوں نے تکلیف دہ واقعات کو پھر سے سوچنا شروع کر دیا تھا۔
٭۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔٭
احمد رضا صاحب اسٹڈی میں اۤءے تو ان کے ہاتھوں میں کپکپاہٹ تھی، بے ساختہ ان کا ہاتھ اسی کتاب پر گیا جس میں ارمینہ کی تصویر رکھی تھی انہوں نے پھر تصویر کو دیکھنا شروع کر دیا، اس کا موازنہ شروع کر دیا۔ تصویر میں اس کے بال چھوٹے تھے پونی میں جکڑے ہو”ے ہوتے تھے، بال اس کے اۤج بھی پونی میں جکڑے تھے مگر اب وہ پہلے سے زیادہ لمبے ہو چکے تھے۔ اس کے چہرے پر اۤج بھی وہی معصومیت تھی جیسی اس تصویر میں تھی۔ انہوں نے جاتے ہو”ے اس کا چہرہ دیکھا تھا۔ ان کے رویے کی وجہ سے اس پر اۤنے والی مایوسی واضح تھی۔
”کچھ نہیں بدلا سرفراز دیکھ لو سب کچھ ویسا ہی ہے۔ یہ ہے تمہاری بیٹی ارمینہ سرفراز محمود! اگر تم نے میری اکلوتی بہن کے ساتھ وہ نہ کیا ہوتا جو تم نے کیا تو اۤج میں اسے دیکھ کر کھِل اٹھتا، مگر کچھ زخم کبھی نہیں بھرتے ، سدا زیست پر باقی رہتے ہیں تم نے ایسا ہی زخم دیا مجھے۔”
وہ نہیں جانتے تھے ان کا مجرم اپنے قیدخانے میں بیٹھا رو رہا تھا اور اپنی اۤزادی کی رہاأی مانگ رہا تھا۔
٭۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔٭
انابیہ رضا ابراہیم احمد رضا ابراہیم کی اکلوتی بہن تھی۔ ماں باپ کے نہ ہونے کی وجہ سے انہوں نے اسے بچپن سے اپنی بیٹی کی طرح پالا تھا۔ ان کی اس سے محبت شدید تھی۔ وہ اسے لے کر حد سے زیادہ possessive تھے۔ ان کیلئے وہ ایک کانچ کی گڑیا تھی جسے بڑی محبت سے انہوں نے سرفراز کے حوالے کیا تھا۔ وہ مطمئن تھے کیوں کہ وہ سرفراز کو جانتے تھے بلکہ ان سے بہتر سرفراز کو کو”ی اور نہیں جانتا تھا اور وہ واقعی خوش بھی تھے۔ انابیہ کا چہرہ دیکھ کر ہی انہیں اندازہ ہو جاتا کہ وہ شادی شدہ زندگی میں بہت پرسکون تھی۔
پھر انہیں ایک دن سرفراز کا فون اۤیا ۔
”احمد دیکھو اس کی اۤنکھیں نیلی ہیں۔” سرفراز نے ارمینہ کی پیداأش کی خبر دی تھی اور ساتھ موباأل پر ارمینہ کی تصویر بھی بھیجی تھی ان کی خوشی کا کو”ی ٹھکانہ نہیں تھا اور وہ ایک بھی لمحہ ضاأع کیے بغیر پشاور چلے گئے تھے۔
اس نے پہلی بار ارمینہ کو اپنے ہاتھوں میں تھاما تھا۔ وہ ویسی ہی تھی جیسی سرفراز نے اسے بتایا تھا، پیاری سی گلابی سے چہرے اور نیلی اۤنکھوں والی۔ احمد نے نرمی سے اسے چوما تھا۔
اپنی مصروفیات کے باعث ایک دن پشاور میں قیام کر کے وہ واپس اۤگیا تھا جب کہ سرفراز، انابیہ اور امی جی، ارمینہ سمیت شکرپاراں اۤگئے تھے کیوں کہ وہاں سب نیلی اۤنکھوں والی اس گڑیا کو دیکھنے کے منتظر تھے۔ مگر چند دن بعد ہی احمد کو اطلاع ملی تھی کہ امی جان کی طبیعت بگڑ گئی ہے۔ وہ شکرپاراں اۤنے کیلئے نکل چکا تھا اور اسے راستے میں ہی خبر ملی کہ امی جان اب اس دنیا میں نہیں تھیں۔
سرفراز کے پیروں کے نیچے سے زمین نکل گئی۔ اس نے خود کو ہسپتال کی راہداری میں کڑی دھوپ میں تنہا کھڑے پایا تھا۔ اب نہ کو”ی شجر تھا نہ کو”ی سایہ! امی جان کے انتقال کے بعد وہ بہت خاموش رہنے لگا تھا۔ وہ لوگ امی جی کو سپرد خاک کرنے کے بعد پشاور واپس چلے اۤءے تھے مگر سرفراز کی چپ برقرار تھی۔ انابیہ سے بھی اس کی گفت گو بہت کم ہو گئی تھی۔ وہ گھر اۤتا تو ارمینہ کے ساتھ کچھ دیر کھیلتا، کھانا کھاتا اور سو جاتا۔ انابیہ کو کچھ دن لگا کہ یہ صدمے کی وجہ سے تھا مگر یہ اس کی عادت بنتی جا رہی تھی۔ اسے پریشانی ہو”ی تو اس نے احمد کو فون کیا۔
”وہ امی جی سے بہت محبت کرتا تھا انابیہ ٹھیک ہو جاأے گا۔” انہوں نے ساری بات سننے کے بعد کہا۔
”جانتی ہوں بھاأی مگر وہ خود کو بیمار کر لے گا۔ ٹھیک سے کھانا نہیں کھاتا، ہنستا بولتا نہیں ہے مجھ سے بھی ٹھیک سے بات نہیں کرتا۔”
”کیوں تم سے کیوں ٹھیک سے بات نہیں کرتا؟”
”بس اس کا دل نہیں کرتا کسی سے بھی بات کرنے کو، وہ اۤتا ہے ارمینہ کے ساتھ تھوڑا وقت گزارتا ہے اور کھانا کھا کر سو جاتا ہے۔” اب انہیں کچھ تشویش ہو”ی۔
”اسے ایسا نہیں کرنا چاہیے ٹھیک ہے میں اس سے بات کر لوں گا تم پریشان نہ ہو۔”
”جی بھاأی اسے سمجھاأیں۔۔۔۔۔۔ وہ اپنے اۤپ پر ظلم نہ کرے مزید۔۔۔۔۔۔”
٭۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔٭
”ہونہہ!” فون رکھ کر احمد رضا سوچ میں پڑ گئے۔ پھر انہوں نے سرفراز کا نمبر ملایا، چند گھنٹیوں بعد فون اٹھا لیا گیا تھا، سرفراز کی کمزور سی اۤواز ان کے کانوں سے ٹکراأی تھی۔
”ٹھیک ہوں” احمد کے حال پوچھنے پر اس نے بس اتنا کہا تھا۔
”انابیہ نے کہا تم ٹھیک نہیں ہو، بہت خاموش رہنے لگے ہو۔ دیکھو سرفراز مرنے والوں کے ساتھ مرا نہیں جاتا۔ تمہاری ایک فیملی ہے تمہیں ان کی دیکھ بھال کرنی ہے ان کے ساتھ وہی رویہ رکھو جو پہلے تھا انابیہ بہت پریشان رہتی ہے تمہیں لے کر۔”
”وہ بس یونہی گھر میں بیٹھے بیٹھے سوچتی رہتی ہے احمد میں ٹھیک ہوں رہنے دو اسے اور۔” وہ جملہ مکمل نہیں کر سکا تھا۔
”کیسے رہنے دوں؟ اگر اسے کو”ی پریشانی ہے تو ہم دونوں کی ذمے داری ہے کہ ہم اسے دور کریں۔ تم ارمینہ کے ساتھ وقت گزارتے ہو تو اس کے ساتھ بھی گزارا کرو۔ ویسے بھی وہ اب سارا دن اکیلی ہی ہوتی ہے تم بھی گھر جا کر اس سے بات نہیں کرو گے اسے وقت نہیں دو گے تو وہ اپ سیٹ تو ہو گی۔”
”ہاں میں سمجھتا ہوں یار مگر گھر بہت خالی خالی لگتا ہے امی جی کے بغیر کچھ کرنے کا کچھ بولنے کا دل نہیں کرتا مگر تم فکر مت کرو میں اۤءندہ خیال رکھوں گا۔”
”بہتر! اس کے ساتھ ساتھ اپنا بھی خیال رکھو اور زندگی کی طرف لوٹو۔”
گفت گو ختم ہو گئی تو سرفراز نے فون رکھ دیا پھر وہ انابیہ کے بارے میں سوچنے لگا۔ احمد ٹھیک کہہ رہا تھا اسے اب انابیہ پر دھیان دینا چاہیے تھا اۤخر وہ اس کی فیملی تھی۔
”تم نے احمد کو فون کیا تھا؟” گھر اۤکر کھانے کی ٹیبل پر اس نے انابیہ سے پوچھا تھا وہ خاموش رہی تھی۔
”میں شرمندہ ہوں تمہیں لے کر کچھ بے پروا ہو گیا تھا۔” وہ نظریں جھکا کر کہہ رہا تھا، انابیہ نے سرفراز کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا تھا۔
”میں اپنے لیے نہیں تمہارے لیے پریشان ہوں اس طرح تم خود کو ڈپریشن کا مریض بنا لو گے۔” وہ اس کے جملے اور فکر کرنے والے انداز پر مسکرایا تھا۔
”عورت کو ہر اس انسان کی فکر ہے جس سے وہ محبت کرتی ہے؟” اس نے مسکرا کر انابیہ سے سوال کیا۔
”دوسری عورتوں کا تو پتا نہیں مگر مجھے تو ہوتی ہے اور میری زندگی میں تم اور ارمینہ ہی تو ہو، کبھی کبھی مجھے تم سے زیادہ سمجھ دار ارمینہ لگتی ہے۔” اس کے جملے پر وہ ہنس دیا تھا۔
”خبردار جو تم اۤج مجھ سے باتیں کئے بغیر سو”ے تو مجھے نیند نہیں اۤءے گی ورنہ۔” انابیہ محبت سے بولی تھی اور سرفراز اسے دیکھتا رہ گیا۔ سرفراز نے بھی اس کے ساتھ برتن سمیٹنے میں اس کی مدد کی پھر وہ کمرے میں اۤگئے تھے۔
”یار! سر میں بہت درد ہو رہا ہے انابیہ مجھے کو”ی گولی دے دو۔” کمرے میں قدم رکھتے ہی سرفراز نے کہا تو وہ واپس گولی لینے کے لیے مڑ گئی واپس اۤءی تو اس کے ایک ہاتھ میں گولی تھی دوسرے ہاتھ میں تیل کی شیشی تھی۔
”درد تو گولی سے صحیح ہو جاأے گا مگر مجھ سے مالش کروا لو تو نیند اچھی اۤءے گی اور سکون بھی ملے گا۔” وہ اب اسے گولی اور پانی کا گلاس تھما رہی تھی۔
”نہیں یار! مجھے الجھن ہوتی ہے اس سے۔” وہ کچھ اکتا کر بولا تھا۔
”ہوتی رہے مگر لگوانا پڑے گا۔”
”تم اۤرڈر دے رہی ہو مجھے؟” وہ چہرے پر مسکراہٹ روکتے ہو”ے پوچھ رہا تھا۔
”نہیں! اپنا حق استعمال کر رہی ہوں۔” کمر پر ہاتھ رکھ کے اس نے کہا تو وہ ہار مان گیا۔ کبھی کبھی ہار ماننا کتنا اچھا لگتا ہے۔
انابیہ نے اس کے سر میں اپنی انگلیاں گھمانی شروع کر دی تھیں، ارمینہ سرفراز کی گود میں تھی۔
”دیکھو اسے! یہ بالکل تمہارے جیسی ہے۔” سرفراز کے تبصرے پر وہ ارمینہ کو دیکھنے لگی۔
”اب میرے پاس تمہاری کاربن کاپی بھی ہے۔” انابیہ مسکراأی تھی۔
”ہاں! میں نہ رہوں تو تم اس سے کام چلا لینا۔” وہ میکانکی انداز میں بولی تو سرفراز نے اپنے بالوں میں حرکت کرتا اس کا ہاتھ ایک پل میں پکڑ لیا تھا۔
”اس طرح مت کیا کرو انابیہ پلیز۔” وہ سکتے میں اۤگیا تھا۔
”ارے میں تو یونہی کہہ رہی تھی۔”
”یونہی بھی مت کہا کرو۔ تم نہیں ہو تو دنیا کی ہر چیز بے معنی ہے میرے لیے۔ تمہیں دیکھ کر تو جیتا ہوں میں۔” وہ اس کی اۤنکھوں میں دیکھ کر کہہ رہا تھا۔
”سوری! اۤءندہ نہیں کہوں گی۔” اس نے مسکرا کر کہا تھا۔
”You’ll be a good girl then” اس نے اپنے ہاتھ میں موجود اس کا ہاتھ نرمی سے چوم کر کہا تھا۔
”اب سو جاأیں؟ ختم مالش؟” وہ اٹھتے ہو”ے اس سے پوچھ رہا تھا۔
”سچ بتاأو؟ تمہیں اچھا محسوس ہوا ناں؟”
”ہاں تم ٹھیک کہہ رہی تھیں۔ واقعی اچھا لگا مجھے۔ تیل کا کمال نہیں ہے میری بیوی کے ہاتھوں کا جادو ہے۔” وہ مسکراأی اور ہاتھ دھونے واش روم میں گھس گئی۔
اۤج تک کبھی احمد کو سرفراز سے کو”ی شکایت نہیں ہو”ی تھی۔ انابیہ اس کے ساتھ جنت جیسی زندگی گزار رہی تھی۔ مگر اۤج انہیں کچھ برا لگا تھا۔ انابیہ نے انہیں فون کر کے سرفراز کے رویے کے بارے میں بتایا تھا، انہیں سرفراز کی تو فکر تھی ہی مگر سرفراز کا رویہ ان کی بہن کے دکھ کا باعث تھا۔ یہ بات ان کے دماغ میں اٹک گئی تھی۔ اس کے پاس انابیہ سے بات کرنے کا وقت نہیں تھا، کچھ دیر انہیں سرفراز سے شکوہ ہوا پھر احمد نے اپنا دھیان اس بات سے ہٹا لیا تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سرفراز بھی نارمل ہو گیا تھا مگر ایک کانٹا احمد کے دل کے کہیں بہت اندر جا کر پیوست ہو گیا تھا۔
٭۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔٭
ارمینہ بھی بڑی ہو رہی تھی۔ وہ وقت سے بہت جلدی بولنا سیکھ گئی تھی۔ اس نے اپنی زبان سے پہلا لفظ ”پاپا” کہا تھا۔ سرفراز نے خوش ہو کر احمد کو فون کیا تھا۔
”جانتے ہو میری بیٹی نے پہلا لفظ ”پاپا” کہا ہے۔” بڑے جوش سے اس نے احمد کو بتایا تھا۔
”وہ تمہاری نہیں تم دونوں کی بیٹی ہے۔” احمد نے کہا تو سرفراز کو اس کا رویہ کچھ عجیب لگا تھا۔
”تم ہمیشہ اسے میری بیٹی کیوں کہتے ہو؟”
”احمد یار میں تو ایسے ہی کہہ رہا تھا۔۔۔۔۔۔ جانتا ہوں وہ ہم دونوں کی بیٹی ہے۔”
”ہاں! خیر مبارک ہو تمہیں۔ وقت سے پہلے ہی بڑی ہو رہی ہے۔”
”ہاں ماشاأ اللہ قد لمبا ہے تو بڑی بڑی لگتی ہے۔” وہ چہرے پر مسکراہٹ سجاأے فون پر کہہ رہا تھا۔
”اچھا یہ بتاأو کراچی کب اۤرہے ہو؟” اسے احمد کے لہجے میں اکتاہٹ محسوس ہو”ی۔
”کل شام تک پہنچ جاأیں گے۔” اب احمد چونکا تھا۔
”کیا واقعی؟” حیرانی سے پوچھ کر اس نے تصدیق چاہی تھی۔
”ہاں سوچا یہ والا ویک اینڈ کراچی میں گزار لیں ۔انابیہ بھی سب سے مل لے گی اور ارمینہ بھی۔”
”چلو ٹھیک ہے میں انتظار کروں گا۔”
”ارمش اور ارحم کیسے ہیں؟”
”ٹھیک ہیں اب تو دونوں ساتھ اسکول جاتے ہیں۔” سرفراز نے محسوس کیا احمد کے لہجے میں وہ خاص چمک اور شوخی نہیں تھی اور یہ پچھلے کچھ مہینوں سے تھا۔
”ٹھیک ہے میں اۤءوں گا تو ان سے ملوں گا۔”
”چلو خداحافظ۔”
”خداحافظ”
یہ پہلی بار تھا جب بات ختم کرنے میں پہل احمد نے کی تھی۔ وہ حیرت سے فون کو دیکھتا رہا۔ دوسری طرف احمد فون رکھ کر بے تاثر سا بیٹھا تھا۔ یہ پہلی بار تھا جب احمد، سرفراز سے بات کر کے اور اس کا فون رکھ کے اسے کو”ی میٹھی سی گالی دیئے بغیر اپنے کام میں مصروف ہو گیا تھا۔
سرفراز اس دن گھر اۤیا تو وہ کچن میں کچھ بنا رہی تھی۔
”خوشبو سے تو لگ رہا ہے کچھ خاص بن رہا ہے۔”
”ہاں بہت خاص !میں فِش گرل کر رہی ہوں۔” وہ کچن میں کھڑے کھڑے بولی تھی۔
”ارے واہ!”
”تم فریش ہو جاأو میں کھانا لگاتی ہوں تب تک یہ بن جاأے گی۔”
”ٹھیک ہے۔” وہ اس کا ماتھا چومتا ہوا اندر چلا گیا تھا۔ واپس اۤیا تو انابیہ ہاتھ پر کو”ی کریم لگا رہی تھی۔
”یہ کیا ہوا؟”
”ہاتھ جل گیا۔” وہ اسی مصروف انداز میں بولی تھی۔
”دکھاأو۔” اس کے ہاتھ کی دو انگلیاں لال ہو رہی تھیں جیسے ابھی ابھی جلی ہوں ،اس نے کریم اس کے ہاتھ سے لی اور اس کے ہاتھ پر لگانے لگا۔
”کام دھیان سے کیا کرو یار۔۔۔۔۔۔ کچھ نہ کچھ کر کے بیٹھ جاتی ہو اس دن ہاتھ کاٹ لیا تھا، اۤج جلا لیا۔”
”جلدی جلدی میں میرے ہاتھ پاأوں کانپنے لگتے ہیں تو خودبہ خود ایسا ہو جاتا ہے۔” وہ معصومیت سے بولی تھی۔
”تو کیوں کرتی ہو جلدی؟ کھانا تھوڑا لیٹ ہو جاأے گا تو بھوک کے مارے بے ہوش تھوڑی ہو جاأوں گا میں۔” وہ کریم لگا چکا تو وہ اٹھنے لگی۔
”کہاں؟”
”کھانا لگا رہی ہوں۔”
”ضرورت نہیں، میں کر لوں گا بیٹھ جاأو۔”
”سرفراز میں کر لوں گی تمہیں چیزیں نہیں ملیں گی۔”
”مل جاأیں گی۔” وہ کہتا ہوا کچن کی طرف بڑھنے لگا۔
”ہلکا سا جلا ہے، میرے اتنے نخرے مت اٹھاأو۔” وہ زور سے بولی کہ کچن تک اۤواز چلی جاأے۔
”یہ میرا محبوب مشغلہ ہے۔” اس نے بھی کچن سے اونچی اۤواز میں کہا تھاتو وہ مُسکرا دی۔ اس نے دیکھتے ہی دیکھتے ساری ڈنر ٹیبل سیٹ کر دی اور وہ دیکھتی رہ گئی۔
”تم سولجر ہو یا ویٹر؟” اس کے سوال پر وہ ہنسا تھا۔
”باہر فوجی ہی ہوں گھر میں اۤپ جو کہنا چاہیں قبول ہے۔” یہ کہہ کر وہ کچن میں چلا گیا اور گرل کی ہو”ی فش پلیٹر میں رکھ کر لے اۤیا تھا۔ پھر لاأونج میں دوسرے حصے میں گھومتی ارمینہ کو اٹھاأے ٹیبل تک اۤگیا۔
”یہ لو۔” وہ خود بھی کھا رہا تھا اور ساتھ انابیہ کے منہ میں بھی لقمے ڈالتا جا رہا تھا۔
”میں نے تو سنا تھا فوجی بڑے سخت ہوتے ہیں مگر تم سے زیادہ نرم دل تو اۤج تک میں نے کسی کو نہیں دیکھا”۔ وہ اس کی بات پر مسکرایا تھا۔
”مسز انابیہ سرفراز محمود۔۔۔۔۔۔ میں نے بھی اۤپ سے زیادہ خوبصورت دل رکھنے والی لڑکی نہیں دیکھی۔” وہ اس کی اۤنکھوں میں دیکھ کر کہہ رہا تھا۔
”دیکھنا بھی مت۔” وہ شرارت سے بولی تو وہ ہنس دیا۔
”کل کی پیکنگ کر لی؟”
”ہاں کر لی بس ارمینہ کا کچھ سامان باہر ہے۔”
”ہونہہ” اس نے گردن ہلا دی تھی۔
”میں یہ ارمش کے لیے لے لوں؟” ایک فوجی ہیلی کاپٹر کی طرف دیکھتے ہو”ے انابیہ نے پوچھا۔ ”ہاں لے لو۔”
وہ ایئرپورٹ جانے سے پہلے سب کے لیے تحفے لینے اۤگئے تھے۔ سرفراز تین سال میں ارمش سے صرف دو ہی بار مل پایا تھا۔ وہ اسے بہت مختلف سا بچہ لگا تھا۔ اس کی اۤنکھیں سیاہ اور چہرہ گلابی سا تھا۔ دوسرے بچوں کی نسبت اس نے جلدی چلنا سیکھ لیا تھا۔ وہ بولتا تو سب اس کی طرف متوجہ ہو جاتے، احمد اس نے دوہی ملاقاتوں میں جان لیا تھا کہ ارمش وہ طوطا تھا جس میں احمد کی جان تھی۔ احمد ارمش کی ہر چیز کو بھی اتنا ہی عزیز سمجھتا تھا۔ ارمش کا کو”ی کھلونا ٹوٹ جاتا اور وہ رونے لگتا تو احمد خود اس کے ساتھ بیٹھ کر اسے جوڑنے کی مشقیں کرنے لگتا۔
اس بار سرفراز اور انابیہ نے ان کے لیے ڈھیر ساری شاپنگ کی تھی۔ پھر وہیں سے وہ ایئرپورٹ کے لیے نکل گئے تھے۔ وہ