سبز اور سفید

اور پھر اس نے ارمینہ کو کسی رکشے والے سے بات کرتے دیکھا تھا۔ ساتھ میں جاوید بھاأی بھی کھڑے تھے۔ اس نے رکشے پر غور کیا تو رکشہ بہت تباہ حال نظر اۤرہا تھا۔ اب اسے حالات کی کچھ کچھ سمجھ اۤرہی تھی۔

وہ کچھ پریشان سی گاڑی سے اُتری تھی دیر ہو جانے کی وجہ سے اس نے جاوید بھاأی کو گاڑی کی رفتار تیز کرنے کا کہا تھا اور اب ہیری ہوم کے گیٹ سے کچھ قریب اس کی گاڑی ایک رکشے سے جا ٹکراأی تھی۔ اس کی گاڑی کو تو خیر کچھ خاص نقصان نہیں پہنچا مگر رکشے پر پڑنے والے ڈینٹس کی تعداد کچھ زیادہ ہی تھی۔ وہ باہر اۤتے ہی بہت شرمندہ ہو”ی۔

”میں معذرت خواہ ہوں دراصل ہمیں بہت جلدی تھی۔ مجھے بہت افسوس ہے۔”

”کو”ی بات نہیں بیٹا ہو جاتی ہے غلطی ۔” رکشے والے نے ملال سے رکشے کو دیکھتے ہو”ے کہا۔

”نہیں اۤپ مجھے بتاأیں میں اۤپ کو اس نقصان کی رقم ادا کر دیتی ہوں۔”

”ارے نہیں بیٹا تم جاأو تمہیں جلدی ہے۔”

”جاوید بھاأی اۤپ بتاأیں تقریباً کتنی رقم کا نقصان ہوا ہے ان کا؟” اس نے اب جاوید بھاأی کو مخاطب کر کے کہا۔

”بی بی جی تقریباً چھے سے اۤٹھ ہزار کا تو ہو گا۔” وہ کچھ سوچ میں پڑ گئی پھر وہ اپنے کانوں میں موجود نگوں کے چھوٹے سے سونے کے بُندے اتارنے لگی۔

”یہ لے لیں اۤپ میرے پاس ابھی اتنی رقم نہیں ہے مگر ان کی مالیت تقریباً اتنی ہی ہے، اۤپ یہ رکھ لیں۔”

”ارے کیسی باتیں کرتی ہو بیٹا؟ بیٹیوں کا زیور اتار کر اسے بیچ کر ہم گھر کا چولہا نہیں جلاتے۔” وہ کچھ دیر کیلئے گنگ سی ہو گئی تھی۔ وہ بہت عام سا شخص تھا میلے سے کپڑوں میں ملبوس، اس کے دانت دیکھ کر پتا چلتا تھا کہ وہ کثرت سے پان کھانے والا تھا ایسے انسان سے اسے ایسی بات کی توقع نہیں تھی مگر وہ پھر بھی اسے اخلاقیات کی قدریں اور انسانیت سکھا رہا تھا۔ اسے خوشی ہو”ی، لوگ چاہے کیسے بھی تھے، اپنے ملک کے تھے، اپنے تھے، وہ اسے نہیں جانتی تھی مگر پھر بھی اس اۤدمی نے اسے اپنی بیٹی کا درجہ دے دیا تھا۔

”یہ پاکستان کے سوا کہیں نہیں ہوتا ہو گا اور اسلام کے سوا کو”ی مذہب انسان کو اتنا عظیم نہیں بناتا ہو گا۔” اس نے فخر سے سوچا اور مسکرا دی۔

”کیا ہوا ارمینہ؟” پیچھے سے اۤتی ارمش کی اۤواز پر وہ پلٹی پھر اس نے ارمش کو ساری بات تفصیل سے بتاأی تو ارمش نے اپنا والٹ نکالا۔

”یہ لیں اۤپ یہ تو رکھ سکتے ہیں ناں؟” اس نے پیسے ان کی طرف بڑھاتے ہو”ے بہت عزت سے انہیں مخاطب کیا۔

”ارے میں نے تو کہا اس کی ضرورت نہیں۔”

”ضرورت نہیں یہ حق ہے اۤپ کا، رکھ لیں۔” اس نے ان کے ہاتھ میں پیسے تھماأے۔

”خوش رہو بچوں” یہ کہہ کر وہ چلے گئے۔

”معاف کر دیجئے بی بی جی! پتا نہیں کیسے گاڑی لگ گئی۔” جاوید بھاأی نے شرمندہ ہوتے ہو”ے کہا۔

”کو”ی بات نہیں جاوید بھاأی گاڑی کو گیراج میں دے دیں۔” وہ اس کی ہدایت کے بعد وہاں سے چلے گئے۔

”اندر چلیں؟” ارمش نے ارمینہ سے کہا۔ وہ جو گم صم کھڑی تھی، اس کے مخاطب کرنے پر چونکی۔

”ہاں” وہ اس کے پیچھے چلنے لگی۔

”تمہیں دیر کیوں ہو گئی؟ یقینا سو رہی ہو گی۔” اس نے غصے سے ارمینہ کو گھورا۔

”جی نہیں! میں سو نہیں رہی تھی اصل میں ڈیوٹی پر چلی گئی تھی۔ کچھ ایمرجنسی تھی میں صبح چار بجے وہاں گئی جاوید بھاأی کے ساتھ۔ بے چارے جاوید بھاأی کو بھی صبح چار بجے اٹھ کر اۤنا پڑا۔ میں اۤٹھ بجے اۤءی جب دوسرے ڈاکٹرز اۤگئے تو بس اسی لیے دیر ہو گئی۔”

”اچھا چلو معافی ہے پھر تو۔”

”میں نے مانگی تو نہیں ہے۔”

”میں دے رہا ہوں تو لے لو۔”

”نہیں چاہیے۔” اس نے مُسکرا کر جواب دیا۔

”ٹھیک ہے اگر لے لیتیں تو تمہیں بتا دیتا کہ تم اچھی لگ رہی ہو۔ اب تو ایسے لگ رہا ہے جیسے میرے ساتھ کو”ی اسٹیل راڈچل رہی ہے جو ابھی ابھی پالش ہو کر اۤءی ہے۔” اس نے اس کے ایش گرے لباس کو اسٹیل راڈ سے ملا دیا تھا۔ وہ کھلکھلا کر ہنس پڑی۔

”تمہارا سینس اۤف ہیومر بہت بُرا ہے ارمش۔”

”ہاں مجھے پتا ہے۔” ساری بات کرتے کرتے وہ گیٹ تک اۤگئے تھے۔

”ارمینہ تم تو اۤج بالکل پرنس لگ رہی ہو۔” عمر نے اسے دیکھتے ہی بہت صاف گو”ی کا مظاہرہ کیا تو ارمینہ نے کچھ جتانے والے انداز میں ارمش کو دیکھا۔

”وہ سلیپنگ بیوٹی جو جادو کی وجہ سے گہری نیند سو جاتی ہے وہ والی شہزادی۔” عمر نے اضافہ کیا تو ارمش کی مسکراہٹ اور گہری ہو گئی تھی۔ عمر ارمش کے ساتھ رہ رہ کر اسے تنگ کرنا سیکھ گیا تھا۔

وہ اسے ارمینہ ہی کہتا تھا۔ حالاں کہ وہ اس سے عمر میں بہت بڑی تھی مگر اسے اچھا لگتا تھا۔ وہ جانتی تھی کہ وہ اس کی بہت عزت کرتا تھا۔ عمر کے لہجے میں ہمیشہ ارمینہ کیلئے محبت ہوتی تھی جیسے چھوٹے بھاأیوں کے لہجے میں ہوا کرتی ہے، وہ اسے تنگ کرتا تھا، اس سے ضدیں بھی کرتا تھا اور اس نے ضد کر کے ارمینہ سے فرسٹ ایڈ کی تمام چیزیں بھی سیکھ لی تھیں۔ وہ اتنے عرصے میں واقعی ارمینہ کو چھوٹے بھاأیوں کی طرح عزیز ہو گیاتھا۔

”عمر میری نظروں سے دور ہو جاأو اور ہاں سنو تم بھی کسی الٰہ دین سے کم نہیں لگ رہے ہو۔” اس کی گھیر والی شلوار اور کرتے پر اس نے مصنوعی غصے سے تبصرہ کیا۔ وہ بدلے پر ہنسا اور دونوں اندر اۤگئے۔ ارمش واپس گیٹ پر چلا گیا تھا۔

وہ اندر اۤءی تو اندر کے انتظامات نے اسے حیران کر دیا۔ ہر چیز بہت خوبصورتی سے سجی ہو”ی تھی۔ یہ سجاوٹ اور انتظام اس نے اور ارمش نے مل کر کیا تھا مگر ہر چیز کو پیش کرنے کا کام ارمش کا تھا۔ اۤنے والے مہمانوں میں زیادہ تر ارمش کی کمپنی سے تعلق رکھنے والے، اس کے بھاأی اور اس کے پاپا کے جاننے والے تھے۔ کچھ ہیومن راأٹس اور دیگر این جی اوز سے تعلق رکھنے والے افراد اور ارمش کے دوست بھی تھے۔

اسٹیج سے اب کچھ بچے نظم پڑھنے کے بعد نیچے اُتر رہے تھے اور شرکا تالیاں بجا رہے تھے۔ پھر اس نے کچھ نوجوان لڑکے لڑکیوں کو اسٹیج پر چڑھتے ہو”ے دیکھا۔ جو ہیری ہوم کی پالیسیز اور طریقہئ کار کے بارے میں ایک پریزنٹیشن دینے والے تھے۔ وہ خود چند جاننے والوں سے ملنے لگی۔ کچھ دیر بعد اس نے ارمش کو کسی کے ساتھ اندر اۤتے دیکھا۔ وہ ایک بہت گریس فل سی شخصیت تھی، بلیک پرنس سوٹ میں ملبوس اس شخص کے نقش ارمش سے بہت مشابہت رکھتے تھے۔ ارمش ان کے برابر چلتا ہوا ہو بہ ہو ان کی جوانی کی تصویر لگ رہا تھا۔ ان کے ساتھ ایک خاتون تھیں، سادہ مگر قیمتی لباس میں ملبوس چہرے پر مسکراہٹ سجاأے شفقت سے ارمش کی طرف دیکھ رہی تھیں۔ وہ انہیں لئے پہلی قطار تک اۤیا اور اب انہیں لوگوں سے ملا رہا تھا، چند منٹوں بعد وہ بیٹھ گئے، اسٹیج پر ان کی اۤمد کی وجہ سے رکی ہو”ی پریزنٹیشن پھر شروع ہو گئی وہ کونے میں کھڑی ارمش کا چہرہ دیکھ رہی تھی جو یک دم کھل اٹھا تھا۔

”کیا یہ تمہارے پیرنٹس ہیں ارمش؟” اس نے موقع ملتے ہی ارمش سے پوچھا۔

”ہاں! تم ملو گی؟”

”ان کا چہرہ دیکھ کر لگتا ہے جیسے بہت سخت مزاج ہے ان کا۔”

”تمہیں ڈر لگ رہا ہے؟” اس نے مسکراہٹ دباأے پوچھا۔

”ڈرنے کی کیا بات ہے اس میں؟ میں تو بس ویسے ہی تبصرہ کر رہی تھی۔”

”ہاں ہیں تو وہ سخت مزاج۔۔۔۔۔۔ فوجی زیادہ تر ایسے ہی ہوتے ہیں۔”

”ہاں میرے پاپا کو بھی اکثر لوگ یہی کہتے ہیں۔” ارمینہ کی نظریں اب بھی سیاہ سوٹ والے اُس شخص پر ٹکی تھیں جو پہلی قطار میں بیٹھے تھے۔

”وہ فوجی ہیں ارمینہ؟ حیرت ہے اب تک لاعلم رہا میں۔”

”ہاں اتفاق ہے مگر میرے پاپا حقیقتاً ایسے نہیں ہیں، ان کا مزاج بہت نرم ہے، اۤءی ہوپ تمہارے بابا بھی ایسے ہی ہوں۔”

”نہیں وہ واقعی سخت مزاج ہیں اور ڈاکٹرز تو انہیں ویسے ہی سخت ناپسند ہیں۔ انہیں لگتا ہے ڈاکٹرز صرف پیسے بناتے ہیں، قصاأی ہوتے ہیں۔”

معصوم انداز میں وہ کہتا گیا اور ارمینہ کے چہرے پر بدلتے رنگوں سے محظوظ ہوتا گیا۔

”چلو اۤءو میں تعارف کروا دوں۔” وہ چلنے لگا مگر ارمینہ اپنی جگہ کھڑی رہی، وہ واپس اۤیا پھر اس نے نرمی سے ارمینہ کا ہاتھ تھاما جیسے کو”ی بہت احتیاط سے اپنی من پسند شے کو تھامتا ہے، اسے لیے وہ فرنٹ کی طرف جا رہا تھا۔

”بابا! یہ ارمینہ ہے جس نے مجھے ہیری سے ملوایا تھا اور ارمینہ، یہ میرے بابا۔” انہوں نے مڑ کر اس کو ایک نظر دیکھا تو پھر وہ اس کو دیکھتے ہی چلے گئے۔ شناساأی تھی یا حیرانی؟ ارمینہ سمجھ نہیں سکی۔ مگر ان کے چہرے کے تاثرات نے کچھ پل کیلئے اسے منجمد ضرور کیا تھا۔

احمد رضا ابراہیم ان اۤنکھوں کی بناوٹ نہیں بھول سکتے تھے۔ انہوں نے بہت سال بعد وہ چہرہ اور وہ اۤنکھیں دیکھی تھیں جو انہیں ماضی میں لے گئی تھیں۔ ارمینہ کا چہرہ انہوں نے پہلی بار دیکھا تھا مگر اس کے چہرے میں کسی کی بہت مشابہت تھی، کسی بہت خاص کا چہرہ ان کی اۤنکھوں کے اۤگے لہرا گیا۔

”احمددیکھو اس کی اۤنکھیں نیلی ہیں۔” ان کے کانوں میں کسی کی اۤواز گونجی تھی۔

”میں نے اس کا نام ارمینہ رکھا ہے۔”

”اس کے بال سیاہ ہیں دیکھو میرے جیسے۔” سرگوشیاں بڑھتی جا رہی تھیں، انہیں یک دم گھبراہٹ ہو”ی۔

”ارمش مجھے پانی لا دو تھوڑا سا۔” ارمینہ کے چہرے سے نظر ہٹانا مشکل تھا۔

”جی بابا لاتا ہوں۔” وہ فوراً چلا گیا۔

”السلام علیکم انکل۔” بہ مشکل مسکرا کر اس نے سلام کیا۔

”ارمینہ کی اۤواز میں جادو ہے احمد۔”

”وعلیکم السلام۔” انہوں نے بہت مشکل سے بہت دھیمی سی اۤواز میں جواب دیا۔ ارمش پانی لے اۤیا تو انہوں نے ارمش کے ہاتھ سے گلاس لے لیا۔ اب وہ خود کو سنبھالنے کرنے کی کوشش کر رہے تھے، اتنے میں ارمینہ ارمش کی امی سے ملنے لگی، وہاں سے جاتے ہو”ے انہوں نے ایک نظر اس پر ڈالی جو خود انہیں گھبراأی ہو”ی نظروں سے دیکھ رہی تھی۔ وہ کچھ دیر پہلے بہت مختلف تھے اب وہ ارمینہ کو بہت تھکے تھکے سے لگ رہے تھے۔ ارمش بابا کے اۤجانے سے بہت خوش تھا۔ احمد رضا سب سے مل رہے تھے ہنس کر مسکرا، کر پھر اس نے ارمینہ کو ان سے ملوایا تو انہوں نے پانی مانگا، تب پہلی بار اس نے ان کے چہرے پے بے زاری کے اۤثار دیکھے تھے۔ مگر پھر اپنا وہم سمجھ کر ذہن سے جھٹک دیا۔ اب وہ اسٹیج کا رُخ کر رہا تھا، وہ روسٹرم تک اۤیا پھر اس نے بابا کو دیکھا وہ اس کی طرف متوجہ نہیں تھے بلکہ اپنی گود میں دھرے اپنے ہاتھوں کو تک رہے تھے، پھر اس نے امی کو دیکھا جو مسرت بھری اۤنکھوں سے اسے سننے کی منتظر تھیں ان کے ساتھ ہی رحمت اور امل بھی موجود تھے، اس نے ارمینہ کو دیکھا وہ بھی مُسکرا رہی تھی، اس نے اۤغاز کیا:

”السلام علیکم خواتین و حضرات۔۔۔۔۔۔ مجھے امید ہے ہیری ہوم کی اس افتتاحی تقریب میں شرکت کر کے اۤپ لوگ اتنے ہی خوش ہوں گے جتنا کہ میں۔ ہیری ہوم کی بنیاد ایک کہانی ہے، خوبصورت کہیں یا دکھ بھری، یہ دیکھنے والے کے تصور پر منحصر ہے۔ ہیری ہوم میرے لیے ایک بہت مقدس جگہ ہے اور یقین مانیں میں یہ میڈیا کو بتانے کے لیے نہیں کہہ رہا ہوں۔” اس کے چہرے پر مسکراہٹ اۤءی تھی۔

”اللہ، میرا دل اور میرے اردگرد کے چند افراد جانتے ہیں کہ ہیری ہوم میرے لیے کیا ہے۔ میں امید کرتا ہوں کہ پاکستان کے بچوں کے بہتر مستقبل کے لیے یہ ایک مثبت قدم ثابت ہو۔ زندگی میں ہم کہیں نہ کہیں ایک ایسے راستے پر کھڑے ہو جاتے ہیں جہاں ہمیں انتخاب کرنا پڑتا ہے اپنے فاأدے اور اپنے ساتھ بہت سوں کے فاأدے کے بیچ، تو دوستوں اگر اۤپ کو بھی کسی ایسی صورتِ حال کا سامنا کرنا پڑے تو میری راأے ہے کہ اۤپ دوسری اۤپشن choose کیجئے گا، اس میں سکون ہے، اطمینان ہے بالکل ویسا جو کسی کا قرض اتار دینے کے بعد محسوس ہوتا ہے۔ یقینا ہم مقروض ہیں اس ملک کے، اس ملک کے بچوں اور ہر اس شہری کے جسے بھوکے پیٹ سونا پڑتا ہے۔۔۔۔۔۔ اللہ نے ہمیں سب کچھ دیا ہے تاکہ ہم کچھ انہیں دے سکیں، جن کے پاس کچھ نہیں۔ ہم ذریعہ ہیں وسیلہ ہیں کسی کے رزق کا، کسی کی خوشی کا۔۔۔۔۔۔ تو ہیری ہوم اس راہ پر پہلا قدم ہے، مجھے امید ہے اۤپ لوگ ہمارا ساتھ دیں گے۔

لیکن ہیری ہوم کا مقصد اتنا ہی نہیں ہے پاکستان کے ہزاروں بچے جو سڑک پر اپنی زندگی شروع کرتے ہیں اور سڑک پر ہی ختم کر دیتے ہیں۔ ان میں بہت سے ایسے بچے ہیں جو اعلیٰ صلاحیتوں کے مالک ہیں مگر ہم انہیں ضاأع کر دیتے ہیں۔ ہیری ہوم کا مقصد ان کے ہنر اور ان کی صلاحیتوں کو دنیا کے سامنے لانا ہے جو یہ جانتے تک نہیں کہ وہ کیا کیا جادو کر سکتے ہیںاور ہیری ہوم کی سب سے اہم وجہ ہے زندگی کی survival! پاکستان کی سڑکوں پر روز مرنے والے ہزاروں بچوں کا survival۔۔۔۔۔۔ جو معمولی سے زکام سے اور ہلکی سی چوٹ سے بھی مر جاتے ہیں۔” کہتے کہتے اس کی اۤواز دھیمی ہو گئی تھی۔

”ہم انہیں بتانا چاہتے ہیں کہ زندگی کی کیا اہمیت ہے؟ یہ کتنی قیمتی ہے اور اۤخر میں ان تمام لوگوں کا شکریہ کرنا چاہتا ہوں

Loading

Read Previous

باجی ارشاد

Read Next

شکستہ خواب

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!