سبز اور سفید

کچھ لمحوں بعد وہ واپس اپنی کار میں اۤ بیٹھا۔ لوگ کس طرح اۤپ کی زندگی میں اپنی وقعت کو بڑھا لیتے ہیں۔ سارے راستے وہ ڈینیل کو وعدہ خلاف سمجھتا اۤیا تھا مگر ڈینیل نے اسے بہت کچھ سکھا دیا تھا۔ وفاداری، ایمان داری، محبت، دوستی اور بہت کچھ۔ وہ ڈینیل ہیریسن کا مقروض تھا، احسان مند تھا۔ دراصل وہ وہیل چیئر پر بیٹھے اس انسان کا احسان مند تھا جس نے ڈینیل کو اس قانون کے بارے میں بتایا تھا۔

اللہ نے ارمش کو گِدھوں سے پناہ دے دی تھی۔

اس نے ایک دن میں اتنی بھاگ دوڑ کبھی نہیں کی تھی۔ اس نے ڈینیل کا نام ٹرسٹیز کی فہرست سے نکال دیا تھا اور تمام دستاویزات کو دوبارہ compile کر کے انہیں ای میل کر دیا تھا مگر شام چھے بجے تک اس کے پاس جوابی ای میل نہیں تو اس کی امیدیں ڈوبنے لگیں۔ وہ ہیری ہوم کے اۤفس میں بیٹھا اپنا لیپ ٹاپ کھولے اسی ای میل کے انتظار میں تھا، جو اس کے لیے بہت اہم تھی وہ پچھلی دو راتوں سے نہیں سویا تھا مگر پھر بھی اس کی اۤنکھوں میں کہیں نیند نہیں تھی۔ ارمینہ اس کے ساتھ ہی بیٹھی تھی۔ اس کی نظریں بھی اسکرین پر جمی تھیں۔

”ارمش ڈر لگ رہا ہے مجھے کل کی ساری تیاریاں پوری ہیں اگر میل نہیں اۤءی تو؟” اس نے لیپ ٹاپ کی طرف دیکھتے ہو”ے اس سے سوال کیا ،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،تو ارمش نے گردن گھما کر اسے دیکھا۔

”کب تک اس اسکرین کو تکتے رہیں ! چلو angry birds کھیل لیتے ہیں۔” ہر چیز سے بے نیاز اس نے کہا تو ارمینہ کو لگا اس کی دماغی حالت درست نہیں۔

”اتنے مشکل وقت پر تمہیں angry birds کا خیال کہاں سے اۤگیا؟”

”تمہاری شکل دیکھ کر۔” یہ کہتا ہوا وہ واقعی گیم کھیلنے لگا۔

”جب میل اۤءے گی تو نوٹیفکیشن اۤ جاأے گا۔ relax” ارمینہ خود بھی جانتی تھی کہ ارمش صرف situation کو سنبھالنے کی کوشش کر رہا تھا ورنہ اندر سے وہ بھی اتنا ہی پریشان تھا۔

اسی لمحے لیپ ٹاپ کی اسکرین چمکی اور ارمش نے بے ساختہ کہا ”یااللہ تیرا شکر!” ارمینہ کی خوشی کے مارے اۤواز ہی نہیں نکلی تھی۔ وہ بس میل کو بار بار پڑھ رہی تھی جو اجازت نامہ تھا اور یقینا ارمش کی محنت اور بھاگ دوڑ کے نتیجے میں اۤیا تھا۔ وہ لوگ کل افتتاح کر سکتے تھے ۔ارمش کو میل پڑھ کر احساس ہوا کہ زندگی اۤپ کو کس کس طرح باور کراتی ہے کہ اۤپ بے بس ہیں بس ایک ذات ہے جس کے ”کُن” کا اۤپ کو ہر بار انتظار کرنا پڑتا ہے، اۤپ چاہے اپنا سوفیصد ہی کیوں نہ دے دیں وہ چاہے گا تو ہو گا نہیں چاہے گا تو نہیں ہو گا۔

٭۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔٭

فجر کی اذانیں کب شروع ہو”یں انہیں پتا ہی نہیں چلا تھا۔ یہ ان کا معمول تھا۔ وہ جب بھی شکرپاراں کے اس قبرستان اۤتے۔ یوں ہی اردگرد سے بے خبر ہو جاتے تھے۔ وہ روتے نہیں تھے بس وہاں بیٹھ کر قراۤن کی تلاوت کرتے۔ وہ دو قبریں تھیں بالکل ساتھ ساتھ، وہ ان دونوں قبروں کے پاأنتی بیٹھ کر گھنٹوں گزار دیتے، بنا ایک اۤنسو بہاأے، بنا ایک لفظ کہے۔ وہ اۤتے تھے سلام کرتے تھے اور پھر تلاوت شروع کر دیتے تھے۔ تھک جاتے تو رک جاتے، سانس بحال ہونے پر وہ پھر شروع کر دیتے اور یہ عمل تب تک جاری رہتا جب تک فرید بابا اۤکر ان کو وہاں سے لے نہ جاتے۔

فرید بابا کو ہدایت تھی کہ وہ انہیں فجر سے پہلے وہاں سے نہ لے جاأیں تو وہ فجر کی اذانوں پر ہی اۤتے، پھر وہ مسجد میں فجر کی نماز ادا کرتے اور پھر وہیں سے ایئرپورٹ چلے جاتے اور کراچی واپس اۤجاتے اگر ان کی فلاأٹ میں وقت ہوتا تو وہ مسجد میں ہی ٹھہر جاتے۔ فریدبابا کو اکثر تشویش ہوتی تھی کہ وہ اپنا گھر ہوتے ہو”ے بھی وہاں کیوں نہیں جاتے مگر انہوں نے کبھی فرید بابا کو اس بات کا جواب نہیں دیا البتہ وہ فرید بابا کو ہر مہینے شکرپاراں کے اس گھر کی صفاأی کرنے ضرور بھیجا کرتے تھے۔

٭۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔٭

”چاچو” اس نے دور کہیں سے امل کی اۤواز سنی تھی اور پلٹ کر دیکھا تھا وہ دونوں ایئرپورٹ کے لاأونج سے باہر اۤرہے تھے۔

”دیکھو اس نے بابا کے بجاأے چاچو کہا ہے۔” ارحم نے شکایت کی تو وہ ہنس دیا۔ اتنے میں وہ بھاگتی ہو”ی ارمش کے پاس اۤگئی تھی اور اس کی گود میں چڑھ گئی۔

”کیسی ہے میری جان امل؟” اس کے گالوں پر پیار کرنے کے بعد اس نے پوچھا۔

”میں بالکل ٹھیک ہوں اۤپ کیسے ہیں چاچو؟”

”اۤپ اۤگئیں تو میں ٹھیک ہوں۔ السلام علیکم بھابھی کیسی ہیں اۤپ؟”

”و علیکم السلام میں ٹھیک ہوں اور یہ لڑکی تو اپنی نانو کے ہاں بھی نہیں رک رہی تھی۔ ایسی دیوانی ہے تمہاری۔” اس بات پر وہ ہنس دیا۔

”چلو بھئی گھر چلتے ہیں اب امی بابا انتظار کر رہے ہیں۔” ارحم کے کہنے پر وہ لوگ گاڑی کی طرف چل دیئے۔ امل اب بھی ارمش سے باتوں میں مصروف تھی۔

وہ لوگ گھر اۤءے تو امل اپنے دادا اور دادی سے بھی بہت محبت سے ملی۔ گھر میں یک دم رونق دگنی ہو گئی تھی۔ وہ لوگ اب ڈنر ٹیبل پر اکٹھے تھے۔

”ارمش تمہیں بہت مبارک ہو ہیری ہوم کے لیے اور بہت سی دعاأیں بھی۔”

”تھینک یو بھابھی۔” اس نے مسکرا کر رحمت کو جواب دیا۔

”کل تقریب کب ہے؟” بابا نے اسے مخاطب کر کے کہا۔

”بابا نو بجے۔ اۤپ اۤءیں گے؟” انہوں نے کچھ وقت لیا پھر گردن ہلا کر ہامی بھر لی۔ کل وہ ارمینہ محمود سے پہلی بار ملنے والے تھے۔

٭۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔٭

پروگرام شروع ہو چکا تھا اور اسٹیج پر چڑھے چند بچے فیض احمد فیض کی نظم پڑھ رہے تھے۔ ہم دیکھیں گے۔ وہ مصروف ہونے کے باوجود رک کر ان کی وہ نظم سُن رہا تھا۔ تمام ٹرسٹیز وہاں موجود تھے۔ ارحم، رحمت اور امل بھی وہیں تھے۔ارمش دروازے پر کھڑا سب کا استقبال کر رہا تھا۔ربن کاٹنے کی باقاعدہ تقریب وہ بابا کے ہاتھوں کروانے والا تھا۔ بابا اور امی ابھی تک نہیں اۤءے تھے وہ خود صبح نو بجے شروع ہونے والی تقریب کے لیے صبح چھے بجے سے یہاں موجود تھا۔ ایسا کو”ی کام نہیں تھا کہ اسے اتنا جلدی اۤنا پڑتا، بس گھبراہٹ تھی جیسے سکون نہ اۤرہا ہو، اس نے سادہ سا سیاہ شلوار قمیص زیب تن کر رکھا تھا، اۤستینوں کو عادتاً کہنیوں تک موڑے سلیقے سے بالوں کو سنوارے ہاتھ کی کلاأی پر اپنی سب سے پسندیدہ گھڑی پہنے اۤج سب سے سادہ مگر سب سے منفرد لگ رہا تھا۔ ساڑھے نو ہو چکے تھے مگر ارمینہ اب تک نہیں اۤءی تھی۔ اسے تشویش ہونے لگی حالاں کہ اس نے خاص طور پر اۤج اپنی ڈیوٹی سے چھٹی لے رکھی تھی۔ دروازے پر کھڑے وہ اس کو کال ملانے لگا اور کال ملاتے ملاتے باہر اۤگیا تھا جب اس نے ارمینہ کو دیکھا، اس نے ایش گرے رنگ کا خوبصورت لباس پہن رکھا تھا جو اس کے پیروں تک جا رہا تھا۔ دوپٹے کو بہت سلیقے سے کندھے پر ڈال رکھا تھا۔ بال اس کے ایک طرف سے پن سے رکے ہو”ے تھے جب کہ دوسری طرف سے کھلے ہو”ے تھے۔

ارمینہ اۤج تک اسے صرف پیاری لگی تھی مگر اۤج خوبصورت لگ رہی تھی۔ اسے اپنے اردگرد میں لوٹ اۤنے میں چند پل لگے تھے

Loading

Read Previous

باجی ارشاد

Read Next

شکستہ خواب

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!