”تم پریشان کیوں تھی ویسے؟” اس کے سوال پر اس کے چہرے پر لکیریں واپس اۤگئی تھیں۔
”کچھ نہیں پاپا کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی، اب بھی نہیں ہے مگر یہ نئی بات نہیں ہے اکثر ایسا ہو جاتا ہے ان کے ساتھ سر میں درد رہتا ہے، چڑچڑے ہو جاتے ہیں، کسی سے بات نہیں کرتے، کھانا نہیں کھاتے پھر خود ہی کچھ دن میں ٹھیک ہو جاتے ہیں۔” ارمش اس کی بات پر حیران ہوا تھا اور ساتھ پریشان بھی۔
”کو”ی اور کام نہیں تو میں جاأوں؟”
”ہاںSure!” وہ گیٹ کی طرف بڑھ گئی تھی۔
ابھی وہ دروازے پر پہنچی تھی جب اس نے اپنے پیچھے بھگدڑ مچتی محسوس کی تھی۔ وہ پریشانی کے عالم میں واپس اندر اۤءی تو اندر کا نظارہ دیکھ کر ساکت رہ گئی۔ ارمش فرش پر بیٹھا مسلسل ایک مزدور کو ہوش میں لانے کی کوشش کر رہا تھا۔ ارمینہ کو دیکھتے ہی اس نے اسے بلایا۔
”شکر تم گئی نہیں۔” وہ خود بھاگتی ہو”ی اس کے قریب گئی اس نے فوراً اس مزدور کی نبض دیکھی جو چل رہی تھی مگر ہلکے ہلکے۔
”انہیں باہر لے کر چلو ارمش اور کو”ی پانی لے اۤءے پلیز۔”
ارمش اس مزدور کو اٹھا کے باہر دالان میں لے اۤیا اور ارمینہ ان کے چہرے پر پانی کے چھینٹے مارنے لگی اور سر کو پنجوں کی سطح سے کچھ نیچے ڈھلکاأے ہو”ے انداز میں رکھا۔ کچھ لمحوں بعد اس مزدور کے جسم نے حرکت کرنا شروع کر دی تھی اور دھیرے دھیرے وہ ہوش میں اۤگیا تھا۔
”یااللہ تیراشکر۔” ارمش کے منہ سے اتنی دیر میں یہ پہلا لفظ نکلا تھا۔ اس نے مزدور کو پھر ٹھیک سے بٹھایا اور اس کے لئے جوس منگوایا۔ مزدور کی حالت اب بہتر تھی۔ اس نے ارمش کے ہاتھوں کو دیکھا، ان میں لرزش تھی اور چہرے پر خوف سا تھا، اسے اس پر ترس اۤیا۔ وہ اس کے پاس اۤگئی۔
”وہ ٹھیک ہیں اب۔” اس نے تسلی دینے والے انداز میں اس سے کہا۔
”ہاں الحمدللہ۔ تھینک یو۔”
”میں نے کیا کیا؟ میں نہ بھی ہوتی تو تم لوگ اتنا کام تو کر ہی لیتے۔”
”پھر بھی شکریہ۔” وہ مسکراأی تھی۔
”تم ٹھیک ہو نا؟”
”ہاں مگر کچھ دیر کیلئے لگ رہا تھا جیسے میری بھی سانس اٹک گئی۔”
”تو اب بحال ہو گئی؟ ورنہ تمہیں بھی جوس نہ پلانا پڑ جاأے۔”
”میں اورنج کے علاوہ ہر فلیور انجواأے کرتا ہوں، خاص طور پر ایپل۔”
”تمہیں واقعی ضرورت ہے کیا؟”
”نہیں مستقبل میں میرے ساتھ ایسا کچھ ہوا تو اس کے لیے بتا رہا ہوں پتا چلا تم اورنج منگوا لو اور مجھ سے پیا نہ جاأے۔” وہ بہت سنجیدگی سے کہہ رہا تھا۔
”ایسے وقت میں بھی تمہیں یاد رہے گا کہ تم اورنج جوس نہیں پیتے؟” وہ اس کی غیر سنجیدہ انداز میں کی جانے والی گفتگو پر محظوظ ہو”ی تھی۔
”نہیں تمہیں یاد رہے گا کہ میں اورنج جوس نہیں پیتا۔” کہنے کے بعد وہ واپس ڈسپنسری کا رخ کر گیا۔
”ارمینہ۔” وہ جانے لگی تو ارمش نے پیچھے سے اۤواز دے کر اسے روکا۔
”یہ بے ہوش کیوں ہوا تھا؟”
”کمرے میں پینٹ کی بُو بہت زیادہ تھی۔ مسلسل اسی ماحول میں رہنے کی وجہ سے ان کا دماغ Saturate ہونے لگا تو وہ بے ہوش ہو گیا” تھوڑا سا اۤگے چل کر اس نے پوچھا۔
”یہ لوگ رات کو بھی یہیں سوتے ہیں کیا؟”
”ہاں! کیوں کہ بہت دور کے علاقوں سے اۤءے ہیں تو اس لیے انہیں یہیں رہنا پڑتا ہے۔”
”تو انہیں کہو کہ اندر نہ سویا کریں یہاں باہر سو جایا کریں تاکہ تازہ ہوا ملتی رہے۔”
”ٹھیک ہے خداحافظ۔”! اس کو ضروری ہدایات دے کر وہ گھراۤگئی تھی۔
اگلے دن جب وہ اۤءی تو اسے پتا چلا کہ ارمش نے تمام مزدوروں کیلئے رہنے کا انتظام کر دیا ہے۔ اب انہیں وہاں سونے کی ضرورت نہیں تھی۔ وہ صبح صبح اۤجاتے اور رات کو کام سے فارغ ہو کر سونے کے لیے اسی گھر میں چلے جاتے جو ارمش نے ان کیلئے قریب ہی کراأے پر لے لیا تھا۔ ارمینہ جانتی تھی وہ سمجھ دار ہے لیکن مہذب اور پُرخلوص بھی ہے۔یہ اسے اۤہستہ اۤہستہ پتا چل رہا تھا۔ وہ اپنا بیگ ساأیڈ پر رکھ کر ڈسپنسری کی طرف اۤگئی فرنیچر اۤگیا تھا تو اب اسے سیٹ کیا جانا تھا۔ وہ الماریاں اور بیڈ ٹیبلز وغیرہ سیٹ کروا رہی تھی جب اسے ارمش اۤتا دکھاأی دیا اس کے ساتھ ایک چودہ پندرہ سال کا لڑکا تھا جسے لیے وہ اندر اۤرہا تھا۔
”مجھے لگا اۤج تم نہیں اۤءو گے۔”ارمینہ نے اس کے قریب اۤنے کے بعد کہا۔
”تم اپنی instincts پر بالکل یقین مت کیا کرو کبھی ٹھیک نہیں ہوتیں۔”
ارمینہ نے برا سا منہ بنایا۔ اس کے ساتھ کھڑا لڑکا پہلے ارمش کی بات پر مسکرایا پھر ارمینہ کی شکل دیکھ کر اس کی مسکراہٹ اور گہری ہو گئی۔
”بڑی ہنسی اۤرہی ہے نا؟” اس نے کمر پر ہاتھ رکھ کر مصنوعی غصے سے اسے گھورا تو وہ ذرا جھینپ گیا۔ ارمش نے ان کا تعارف کروایا۔
”یہ عمر ہے اور عمر یہ ”چور” ہے۔” اسے اپنا تعارف زہر لگا تھا جب کہ وہ لڑکا اس بار باقاعدہ ہنسا تھا۔
”میں کو”ی چور نہیں ہوں ڈاکٹر ہوں ڈاکٹر ارمینہ۔”
”ہاں وہی۔” ارمش نے بے پرواأی سے کندھے اچکا کر کہا۔
”وہی کا کیا مطلب؟ تمہیں ڈاکٹر اور چور میں فرق نظر نہیں اۤتا؟”
”سوری ارمینہ! ارمش بھاأی مذاق کر رہے تھے۔” اس بار اس لڑکے نے معصومیت سے کہا۔۔۔۔۔۔ اب ارمینہ نے نظریں اس لڑکے کی طرف کر لی تھیں۔
”ارمینہ عمر کا گھر نہیں ہے اس لیے میں اسے گھر لے کر اۤیا ہوں۔” ارمش عمر کو دیکھ کر مسکرایا تھا مگر عمر مسکرا نہیں سکا تھا بس ا س نے گردن جھکا لی تھی۔ ارمینہ جانتی تھی یہ تشکر کا احساس تھا۔ وہ ایک پل میں پچھلے لمحے کی خفگی بھلا بیٹھی تھی۔ عمر کون تھا اور کیوں اۤیا تھا ارمینہ سمجھ گئی تھی۔ عمر ہیری ہوم کا پہلا اسٹریٹ چاألڈ تھا جو induct ہونے جا رہا تھا۔ افتتاح سے بھی پہلے ہیری ہوم کو اپنی فیملی ملنا شروع ہو گئی تھی۔ ارمینہ کو احساس ہو رہا تھا کہ ارمش نے ٹھیک کہا تھا، خوشی طمانیت کے بعد حاصل ہوتی ہے۔ ہیری ہوم کی بنیاد رکھ کر اگر وہ مطمئن تھے تو اۤج اسے اۤباد ہوتا دیکھ کر اور چہروں پر مسکراہٹ دیکھ کر وہ لوگ خوش ہو”ے تھے وہ دونوں اندر چلے گئے تو وہ واپس ڈسپنسری میں مصروف ہو گئی۔
کچھ دیر بعد عمر لوٹا تو ارمش بھی ساتھ تھا۔ عمر بہت بدلا ہوا لگ رہا تھا ارمش نے اس کو صاف کپڑے دلواأے تھے۔ وہ نہا دھو کر کپڑے بدل کر اۤیا تو ارمش ہاتھ سے اس کے بال صحیح کر رہا تھا وہ بے ساختہ مسکراأی اسے ہیری یاد اۤگیا تھا۔
اس نے ایک مہینے کے اندر اندر ہیری ہوم کا افتتاح کرنے کے بارے میں سوچ رکھا تھا۔کام بھی اپنے وقت کے حساب سے پرفیکٹ ہو رہے تھے۔ ارمینہ نے ڈسپنسری کا کام سنبھال رکھا تھا۔ وہ ایک ڈاکٹر اور ایک Peadiatrician کو ہیری ہوم کا حصہ بنا چکی تھی۔ سکول کی ذمے داری ارمش نے ایک پروفیسر کو دی تھی جو ریٹاأرڈ تھے اور ارمش کے جاننے والوں میں سے بھی تھے ان کے under اۤنے والے بہت سے نئے لڑکے لڑکیوں نے جو حال ہی میں اپنی تعلیم مکمل کرچکے تھے ہیری ہوم کا حصہ بننے کی خواہش کی تھی اور ارمش نے ہنسی خوشی سب کو ہیری ہوم کی فیملی میں شامل کر لیا تھا۔ پہلے وہ ایک تھا تو اسے سب مشکل لگتا تھا اب اس نے ایک خاندان اکٹھا کر لیا تھا۔ اس کو سپورٹ کرنے والے ساتھ دینے والے اور سراہنے والے لوگوں میں بھی اضافہ ہو رہا تھا ان میں سرفہرست ارمینہ تھی۔ اس نے پہلے دن سے اس کا ساتھ دیا تھا وہ اس کیلئے blessing تھی۔ اس نے اس بات کا اعتراف ارمینہ کے سامنے نہیں کیا تھا مگر وہ جانتا تھا کہ اس کے یہاں تک اۤنے میں اس کا بھی ہاتھ تھا۔ اس کی اۤرگناأزیشن رجسٹرڈ تھی مگر وہاں کا ہیلتھ کیئر یونٹ اور ڈسپنسری ارمینہ نے ہی رجسٹرڈ کروایا تھا۔ وہ جہاں جاتی ہیری ہوم کے پمفلٹس لے جاتی اور لوگوں کو ہیری ہوم کے بارے میں بتاتی۔ پرنٹ میڈیا، سوشل میڈیا، یوتھ اۤرگناأزیشنز اور ہر اس پلیٹ فارم پر جہاں ہیری ہوم کا تعارف چاہیے تھا ،اس نے کرایا تھا۔
سکول کا کام بھی شروع میں اس نے ہی سنبھالا تھا۔ وہاں کی کنسٹرکشن، کلر، فرنیچر اور ضرورت کی دوسری تمام اشیا جو وہاں ہونی چاہیے تھیں، موجود تھیں اور یہ سب ارمینہ کی بدولت تھا۔ ریذیڈنسی اور میس وغیرہ وہ خود دیکھ رہا تھا۔ اس نے کہیں کو”ی کمی نہیں رہنے دی تھی۔ فرنیچر سے لے کر استعمال کی چھوٹی سے چھوٹی چیز بھی ہیری ہوم میں موجود تھی۔
٭۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔٭
اس نے لاأونج کی گھڑی میں وقت دیکھا سات بج چکے تھے اور باہر اندھیرا پھیل چکا تھا۔ کچھ گھبراہٹ میں اس نے نمک کی برنی شیلف پر رکھی۔ پاپا ٹھیک اۤٹھ بجے کھانا کھاتے تھے یہ ان کی عادت تھی اور ان کے گھر کا اصول تھا۔ وہ اۤج ہیری ہوم نہیں گئی تھی کیوں کہ اۤج پاپا کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی۔ ان کے سر میں پھر ویسا ہی درد اٹھا تھا جو ہر تھوڑے وقفے سے ہوا کرتا تھا ان کی اۤنکھیں دھندلانے لگتی تھیں۔ اۤج صبح بھی ان کی یہی حالت تھی تو اس نے ارمش کو بتا دیا تھا کہ اۤج وہ نہیں اۤءے گی۔دوپہر تک وہ بہتر محسوس کرنے لگے تھے اور سو بھی گئے تھے۔ ارمینہ نہیں جانتی تھی یہ مسئلہ ان کے ساتھ کب سے تھا۔ بہت سے ڈاکٹرز ان کا معاأنہ کر چکے تھے۔ وہ کسی بات کی ذرا سی بھی ٹینشن لیتے تو ان کے سر میں ٹیسیں اٹھنے لگتیں، خون کی گردش میں اضافہ ہوتا تو درد میں بھی اضافہ ہو جاتا۔ ارمینہ نے کئی بار ان سے پوچھا تھا مگر ہمیشہ خاموش رہتے مگر جب وہ بڑی ہو”ی تو اسے اندازہ ہوگیا کہ کچھ تو ہے جو انہیں پریشان رکھتا ہے اور اسے اپنے تک ہی رکھتے تھے۔
ڈوربیل بجی تو اس نے فرید بابا سے گیٹ کھولنے کا کہا۔ کچھ ہی دیر میں فرید بابا ارمش کے ساتھ اندر اۤرہے تھے۔ اس کے ہاتھ سے چمچ گرتے گرتے بچا تھا۔
”تم یہاں کیا کر رہے ہو؟”
”تمہارے پاپا کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی تو اۤگیا ان سے ملنے، کہاں ہیں وہ؟ سو تو نہیں رہے؟”
”سو رہے تھے مگر اٹھ گئے ہیں مغرب کی نماز پڑھنے کے لیے، دواأوں کی وجہ سے کچھ سر بھاری ہو رہا تھا تو فریش ہونے گئے ہیں۔”
”اوہ! چلو پھر میں انتظار کر لیتا ہوں۔”
”ہاں ضرور! بیٹھو۔” وہ لاأونج سے کرسی لینے جانے لگی تو وہ اس سے پہلے خود ہی کرسی لے اۤیا۔
”ویسے تم کر کیا رہی ہو؟” اس نے کچن کے شیلف پر پھیلے سامان کی طرف اشارہ کر کے پوچھا۔
”اوہ یہ! پاپا کو تھوڑا لاأٹ کھانا کھانا ہے تو میں ان کے لیے ویجیٹیبلراأس بنا رہی تھی۔”
”اوہ اچھا” وہ کچن شیلف پر ہی کہنی ٹکاأے اسے کام کرتے دیکھ رہا تھا۔ وہ پھرتی سے ہر کام کر رہی تھی جسے دیکھ کر لگتا تھا کہ وہ روز ہی کچن میں اۤتی تھی۔
”پاپا کو اۤٹھ بجے کھانا چاہیے ہوتا ہے لیکن میں اۤج لیٹ ہو گئی ہوں۔” وہ ارمش کی طرف پشت کیے اپنے کام میں مگن بول رہی تھی۔ ارمش چیئر سے اٹھ کر اب کچن کے اندر اۤگیا تھا اس نے باسکٹ سے تمام سبزیاں الگ الگ کرنا شروع کر دی اور پھر وہ چھری ڈھونڈنے لگا۔
”یہ کیا کر رہے ہو تم؟” وہ اس کی حرکات و سکنات دیکھ کر بولی۔
”تمہاری ہیلپ! لیٹ ہو رہی ہو ناں؟”
”لیکن تمہیں کرنے کی ضرورت نہیں میں کر لوں گی۔”
”ہاں کر لو گی مگر اس چوتھے گیئر کی اسپیڈ سے کرو گی تو یا تو ہاتھ جلا لو گی یا کاٹ لو گی ۔” اس نے اس کے ہاتھ سے چھری لے لی اور پھر وہ سبزیاں کاٹنے لگا اس کا ہاتھ کسی ماہر شیف کی طرح چل رہا تھا۔ ارمینہ کچھ دیر اس کے ہاتھوں کی حرکت کو دیکھتی رہی پھر اپنے کام میں لگ گئی اس نے دس منٹ کے اندر اندر وہ ساری سبزیاں چھیل کر کاٹ کر اس کے اۤگے پیش کر دی تھیں۔
”ارمش اۤیا ہے کیا؟” ان دونوں نے پلٹ کر دیکھا۔ وہیل چیئر پر بیٹھے ارمینہ کو وہ پہلے سے بہت فریش لگ رہے تھے۔
”السلام علیکم انکل!”
”وعلیکم السلام بیٹا کیسے ہو؟”
”میں بالکل ٹھیک ہوں اۤپ کیسے ہیں؟ ارمینہ نے بتایا اۤپ کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی تو میں اۤپ سے ملنے اۤگیا۔”
”ارے ہاں بیٹا! سر میں درد تھا ذرا۔ یہ لڑکی بہت exaggerate کر دیتی ہے اور ارمینہ یہ کیا کرروا رہی ہو تم اس سے؟ کیوں خانساماں بنا دیا بے چارے کو؟”
”پاپا میں نے نہیں کہا اسے خود ہی شوق ہو رہا تھا تو میں کیا کروں۔”