تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۶

”ثمر … تم یا تو اندر آ جاؤ … یا پھر یہاں تخت سے ہلنا مت … اگر میں نے تمہیں یہاں سے اٹھتے دیکھا تو …”
شہیر نے انگلی اٹھا کر اسے تنبیہہ کی اور پلٹ کر کمرے میں چلا گیا۔ ثمر نے کتاب پر نظریں جما دیں کچھ دیر بعد جب اسے اطمینان ہو گیا کہ شہیر اندر کمرے میں اپنے کام میں مصروف ہو چکا ہے تو وہ پھر اٹھا۔
”ثمر!” اندر سے شہیر کی آواز آئی۔ اس کے قدم رک گئے۔ شہیر کھڑکی کے سامنے کھڑا تھا۔
”میں پانی پینے کچن میں جا رہا ہوں۔” ثمر نے بلند آواز میں کہا۔
”پیو … اور پی کر اندر آؤ … میں یہیں کھڑا ہوں۔”
ثمر نے بے اختیار گہری سانس لی۔ وہ اب واقعی پھنس گیا تھا۔ شہیر کے کمرے میں جانا آسان تھا … آنا مشکل تھا … وہ سرجھکائے کتاب ہاتھ میں لیے کچن کی طرف جانے کے بجائے شہیر کے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔
ثانی نے سیڑھیوں پر بیٹھے شہیر اور ثمر کے درمیان ہونے والی گفتگو سن لی تھی۔ اس نے بے اختیار اطمینان کا سانس لیا۔
اس بار اس نے واقعی یہ طے کر لیا تھا کہ ثمر سے کبھی بات نہیں کرے گی… جو حرکت اس نے صبح کی تھی۔ اس کے بعد یہ اس کے لیے ممکن ہی نہ تھا کہ وہ اسے معاف کر دیتی۔ اس کو صبح کا واقعہ اچھی طرح یاد تھا۔ اور وہ شرمندگی بھی جو اس نے محسوس کی تھی۔
وہ صبح معمول کے مطابق اسکول گئی تھی۔ فرسٹ پیریڈ میں ٹیچر کے آ جانے کے بعد اس نے کتاب نکالنے کے لیے اپنا بیگ کھولا تو ایک مینڈک اچھل کر اس کے ہاتھ سے ٹکرایا’ بے اختیار کتاب اس کے ہاتھ سے چھوٹی اور ایک چیخ مار کر وہ اپنی کرسی سے اٹھ کھڑی ہوئی۔
اگلی چیخ اس کے ساتھ والی کرسی پر بیٹھی مدیحہ کے حلق سے نکلی تھی۔ جس کی گود میں مینڈک نے چھلانگ لگائی تھی اور پھر چیخوں کا یہ سلسلہ طویل ہوتا گیا۔ فوری طور پر کوئی بھی اس مینڈک کو پہچان نہیں رہا تھا۔ کیونکہ اس کے جسم کو مختلف رنگوں سے سجا دیا گیا تھا اور یہ اس سات رنگ کی مخلوق کو نہ پہچاننے کا نتیجہ تھا جس نے ان سب کی بدحواسی میں مزید اضافہ کیا تھا۔




کلاس ٹیچر کو ان چیخوں سے کوئی تشویش نہیں ہوئی۔ وہ پہلے بھی کلاس میں چھپکلی یا بھڑ آجانے پر اس طرح کے کئی مظاہرے دیکھ چکی تھیں اور وہ اس لیے کچھ لاپروائی اور کمال اعتماد کے ساتھ اسٹوڈنٹس کو جھڑکتے ہوئے وہ اس چیز کی طرف بڑھی تھیں اور اس بار چیخ خود ان کے حلق سے نکلی تھی۔ ان کا سارا اعتماد منٹوں میں غائب ہو گیا تھا۔ ڈیسک پر بیٹھی اس ست رنگی مخلوق نے ان پر چھلانگ لگائی تھی اور اگر وہ برق رفتاری سے پیچھے نہ ہٹتیں تو وہ یقینا ان پر گرتی … اور اس کی چھلانگ سے زیادہ اس کی ٹانگ کے ساتھ دھاگے سے منسلک ایک کاغذ تھا جس نے ان کے اوسان بحال کر دیے تھے کہ وہ مخلوق یقینا حشرات الارض کی کسی غیر دریافت شدہ اقسام میں سے نہیں تھی’ جن کی دریافت کا سہرا اس کلاس کے سر باندھا جاتا۔
”یہ تو مینڈک ہے … کسی نے اس کو پینٹ کر دیا ہے۔” انہوں نے اب زمین پر موجود اس مینڈک کو دیکھتے ہوئے کہا۔ کلاس میں تب تک چیخوں کی آواز سن کر اسکول کا چپڑاسی آ چکا تھا۔
”شکور! اس کو پکڑو … اس کی ٹانگ کے ساتھ بندھا ہوا کاغذ اتارو۔” ٹیچر نے اس سے کہا’ کلاس میں کچھ دیر پہلے آنے والی چیخوں کا طوفان اب کھسیانی ہنسی میں تبدیل ہو چکا تھا۔
”یہ آیا کہاں سے … قرة العین! آپ بتائیں۔”
”انہوں نے ثانیہ سے پوچھا جسے انہوں نے سب سے پہلے کھڑا ہوتے اور چیختے دیکھا تھا۔
”یہ میرے بیگ میں تھا۔” ثانی نے فق ہوتی ہوئی رنگت کے ساتھ بتایا۔ وہ اب اچھی طرح سمجھ چکی تھی کہ اس مینڈک کو بیگ میں کون رکھ سکتا ہے۔ مینڈک کے جسم پر موجود رنگ و روغن صرف ایک ہی شخص کا کمال ہو سکتا تھا اور وہ اس شخص کو اچھی طرح جانتی تھی۔
”آپ کے بیگ میں۔ آپ کے بیگ میں کیسے آیا؟” ثنا خاموش رہی۔ شکور تب تک ایک بچی سے ایک رومال لے کر اس مینڈک کو پکڑ چکا تھا اور اب وہ کاغذ اس کے پاؤں سے الگ کر رہا تھا۔
”دکھاؤ ذرا۔” ٹیچر نے کہا۔
”مینڈک ہی ہے جی … بس کسی نے رنگ کیے ہوئے ہیں۔” شکور نے تبصرہ کیا۔ ٹیچر نے کچھ مایوسی سے سر کو ہلایا۔ اور پھر اس کاغذ کو پکڑ لیا جو شکور نے ان کی طرف بڑھا دیا تھا۔
”میں اگرچہ شکل سے مینڈک لگتا ہوں مگر میں مینڈک نہیں ہوں … میں ایک کتابی کیڑا ہوں اور میں ثانیہ کے بیگ میں رہتا ہوں اگر کبھی میں کسی کو کہیں اور ملوں تو پلیز مجھے ثانیہ کے بیگ میں واپس پہنچا دے۔ میں اور ثانیہ آپ کے تہہ دل سے مشکور ہوں گے۔”
بقلم
ایک عدد کتابی کیڑا
ٹیچر کے چہرے پر مسکراہٹ نمودار ہوئی اور انہوں نے کاغذ کو دوبارہ تہہ کر دیا۔
”ٹیچر پلیز بتائیے … اس پر کیا لکھا ہے؟” ان کے گرد کھڑے اسٹوڈنٹس نے ان کے چہرے پر نمودار ہوئی مسکراہٹ اور کاغذ کو تہہ کرتے دیکھ کر بلند آواز میں کہا۔
”کچھ نہیں لکھا … آپ سب لوگ اپنی اپنی سیٹوں پر جائیں۔” ٹیچر نے اپنی ٹیبل کی طرف جاتے ہوئے کہا۔ ”اور کتابیں نکالیں … یہ مینڈک جس نے بھی ثانیہ کے بیگ میں رکھا ہے … اس نے بہت غلط کیا ہے … میں آپ لوگوں سے توقع نہیں رکھتی کہ آپ اس طرح کی حرکت کریں گی۔”
ٹیچر نے اپنی ٹیبل کے پیچھے کھڑے ہوتے ہوئے اس بار قدرے ناراضی سے کلاس کو مخاطب کیا۔
”ثانیہ کے بیگ میں یہ مینڈک کس نے رکھا ہے؟” ٹیچر بلند آواز میں پوچھ رہی تھیں۔
”ٹیچر! ہم نے تو نہیں رکھا … ہمیں تو نہیں پتا۔” کلاس میں بیک وقت بہت سی آوازیں بلند ہونے لگیں۔
”ثانیہ! آپ کو پتا ہے’ یہ کس نے رکھا ہے۔” اس بار ٹیچر نے ثانیہ کو مخاطب کیا۔
”نو ٹیچر۔” اس نے نفی میں سرہلاتے ہوئے کہا۔ اس کا چہرہ سرخ ہو رہا تھا۔
ٹیچر اگلے چند منٹ کلاس کو ڈانٹتی رہیں’ پھر انہوں نے موضوع بدل دیا۔ کلاس ختم ہونے کے بعد وہ کلاس سے چلی گئیں ان کے باہر جاتے ہی ثانیہ بھی ان کے پیچھے باہر چلی گئی۔ کوریڈور میں اس نے انہیں روک کر ان سے پوچھا۔
”ٹیچر! اس کاغذ پر کیا لکھا ہے؟”
ٹیچر نے مسکراتے ہوئے کاغذ اس کی طرف بڑھا دیا۔
”ثمر ثوبان سمیع۔” انہوں نے ایک نام لیا۔ ثانیہ نے ایک نظر کاغذ پر دوڑائی اور بے اختیار دانت پیسے۔
”آئی ایم سوری ٹیچر!” اس نے معذرت کی۔
”ثمرحد کر دیتا ہے … آج اپنی امی سے کہنا کہ اسے اچھی طرح ڈانٹیں۔” وہ ان کی فیملی سے واقف تھیں اور وہ ثمر سے بھی اچھی طرح واقف تھیں۔ وہ پرائمری تک ان سے ہی پڑھتا رہا تھا اور وہ اس وقت اس کی شرمندگی سے بھی واقف تھیں’ اسی لیے انہوں نے وہ کاغذ کلاس میں نہیں پڑھا تھا اور کلاس میں انہوں نے یہ ظاہر بھی نہیں کیا تھا کہ یہ حرکت ثانیہ کے بھائی کی تھی۔ وہ جانتی تھیں کہ اس سے اس کی شرمندگی اور ندامت میں اور اضافہ ہو گا۔ وہ اس کے ہاتھ میں کاغذ تھما کر وہ چلی گئیں۔ اس نے ہونٹ بھنیچتے ہوئے سرخ چہرے کے ساتھ وہ کاغذ تہہ کر کے اپنی شرٹ کے دامن پر لگی ہوئی جیب میں رکھ لیا۔
وہ چھٹی کے وقت اسے لینے کے لیے اسکول کے گیٹ پر موجود تھا۔ ثانی کا اسکول گھر سے دس پندرہ منٹ کے فاصلے پر تھا۔ وہ گھر سے پیدل ہی اسکول جایا کرتی تھی۔ صبح شہیر کے ساتھ آتی اور پھر شہیر اپنے کالج چلا جاتا تھا۔ ثمر صبح کچھ دیر سے نکلتا تھا … جبکہ اسکول سے واپسی پر وہ راستے میں ثانی کے اسکول چلا جاتا اور پھر وہ دونوں وہاں سے اکٹھے واپس آ جاتے۔
اس وقت بھی وہ اسے لینے کے لیے اسکول گیٹ کے باہر تھا۔ ثانی گیٹ سے باہر آ گئی۔ اس کو دیکھتے ہی ثمر کو اس کے موڈ کا اندازہ ہو گیا تھا۔ وہ بے اختیار مسکرایا۔ اسے اس سے اسی ردعمل کی توقع تھی۔ وہ مینڈک کو اس کے بیگ میں رکھتے ہوئے اچھی طرح یہ بات جانتا تھا کہ وہ مینڈک کے جسم پر موجود رنگ دیکھتے ہی یہ پہچان جائے گی کہ یہ حرکت کس کی ہے۔
روز کی طرح اس کے قریب آ کر بیگ اس کی سائیکل پر رکھنے کے بجائے وہ خاموشی سے اپنا بیگ کندھے پر ڈالے چلتی رہی۔ ثمر سائیکل پکڑے اس کے برابر چلنے لگا۔
”ثانی! بیگ دے دو’ سائیکل پر رکھ لیتا ہوں۔” اس نے بڑی معصومیت کے ساتھ ثانی سے کہا۔
”کوئی ضرورت نہیں ہے … تم ذرا گھر چلو۔ پھر میں تمہیں بتاتی ہوں۔” ثانی نے غراتے ہوئے کہا۔
”ارے کیا ہوا؟” ثمر نے حیران ہونے کی ایکٹنگ کی۔
”تم گھر چلو … تمہیں بتاتی ہوں … یہاں سڑک پر لڑنا نہیں چاہتی میں تم سے۔” اس نے تیز قدموں سے چلتے ہوئے کہا۔ اس کے بعد وہ پورا راستہ خاموش رہی۔ ثمر کی کوشش کے باوجود ایک لفظ نہیں بولی۔
گھر کے تالے کی ایک چابی ان دونوں کے پاس ہوتی تھی کیونکہ وہ دونوں عام طور پر شہیر اور فاطمہ سے پہلے گھر پہنچا کرتے تھے۔ مگر آج اتفاقاً شہیر پہلے گھر پہنچ چکا تھا اور اس وقت وہ گھر پر ہی موجود تھا۔ دروازہ اسی نے کھولا۔ ثانی اندر داخل ہوئی اس نے سیدھا جا کر بیگ تخت پر رکھا اور پھر وہ سیدھی شہیر کے پاس آ گئی۔
”بھائی! آپ کو پتا ہے۔ اس نے آج میری کتنی انسلٹ کروائی ہے۔”
شہیر ٹھٹک گیا۔ وہ ان ہنگاموں کا عادی تھا۔ چوبیس گھنٹوں میں کم از کم ایک بار اسے ان دونوں کے درمیان مصالحت ضرور کروانی پڑتی تھی اور زیادہ سے زیادہ کی کوئی تعداد متعین نہیں تھی اور وہ یہ سب کئی سالوں سے کرتا آ رہا تھا۔ اگر فاطمہ گھر پر ہوتی تو یہ کام وہ خود کرتی اور اس کی غیر موجودگی میں یہ کام اسے ہی کرنا پڑتا۔
”یہ اس قابل نہیں ہے کہ اس کو انسان کہا جائے …”
وہ غصے میں ثمر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہہ رہی تھی’ جو بڑے اطمینان سے اپنی سائیکل دیوار کے ساتھ کھڑا کرتے ہوئے اپنا بیگ اتار رہا تھا۔
”ہوا کیا ہے؟” شہیر نے اسے ٹوکتے ہوئے پوچھا۔
”اس نے … اس نے میرے بیگ میں مینڈک رکھ دیا … اور یہ پڑھیں یہ کاغذ پڑھیں … اس نے کاغذ کو مینڈک کے ٹانگ کے ساتھ باندھ دیا … کتنی بے عزتی ہوئی میری … آپ سوچیں میری ٹیچر میرے بارے میں کیا سوچ رہی ہوں گی۔”
وہ اب روہانسی ہو رہی تھی۔ شہیر نے کاغذ پر ایک نظر دوڑائی۔
”شرم آنی چاہیے تمہیں ثمر … اس طرح کی حرکتیں کرتے ہیں۔” اس نے ثمر کو ڈانٹا۔
”میں نے مینڈک نہیں رکھا … مجھے کیا ضرورت تھی … کسی لڑکی نے رکھا ہو گا … تم ہمیشہ ہر الزام میرے سر پر رکھ دیتی ہو۔” ثمر نے اپنی صفائی دینے کی کوشش کی۔




Loading

Read Previous

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۵

Read Next

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۷

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!