تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۶

صبغہ کہہ کر … پچھتائی۔ ”ممی! میں کسی کی ہمدردی میں یہ بات نہیں کہہ رہی۔ نہ ہی میں کسی کی سائیڈ لے رہی ہوں۔ میں تو ویسے ہی کہہ رہی ہوں’ صرف اس لیے کہ آپ دونوں کے درمیان مزید جھگڑا نہ ہو’ ٹینشن نہ بڑھے’ نہ آپ پریشان ہوں’ نہ ہی پاپا۔” صبغہ نے اپنی صفائی دینے کی کوشش کی۔
”تم اپنا یہ امن مشن اپنے پاس ہی رکھو تو بہتر ہے۔ میں بالکل پریشان نہیں ہوں۔ نہ پہلے نہ ہی اب … اور منصور کی پریشانی کی مجھے کوئی پروا نہیں ہے۔ وہ جیسی بات کریں گے ویسا جواب سنیں گے۔” منیزہ نے دوٹوک انداز میں کہا اور اٹھ کر لاؤنج میں نکل گئیں۔
”پاپا کو آخر ہوا کیا ہے؟ ممی ٹھیک کہہ رہی ہیں۔ صرف بزنس کی وجہ سے تو یہ نہیں ہو سکتا۔ مصروف تو وہ پہلے بھی بہت زیادہ رہا کرتے تھے پھر آخر اب ایسا کیوں؟” امبر کچھ متفکر نظر آنے لگی تھی۔ ”خود میرے ساتھ بھی پاپا کا رویہ تبدیل ہو گیا ہے’ بہت سردمہری آ گئی ہے ان میں۔”
”تم فضول میں پریشان ہو رہی ہو’ تم دیکھ تو رہی ہو’ پاپا آج کل دن رات فیکٹری کے سلسلے میں مصروف رہتے ہیں۔ جب اتنی مصروفیات ہوں تو موڈ میں تبدیلی ایک فطری سی بات ہے۔” صبغہ نے امبر کو تسلی دینے کی کوشش کی۔ ”تم دیکھنا کچھ ہی عرصہ میں وہ بالکل ٹھیک ہو جائیں گے۔”
”مجھے پاپا کے اس جوائنٹ و نچر سے کتنی نفرت ہے’ میں تمہیں بتا نہیں سکتی۔ ایک خوامخواہ کی مصیبت پاپا نے اپنے سر پر لادلی ہے۔ اتنی پُرسکون زندگی گزر رہی تھی ہماری اور اس پر یہ نئی فیکٹری۔” امبر بڑبڑائی۔
”یہ پاپا کا مسئلہ ہے’ انہوں نے یہ کام شروع کیا ہے تو کچھ سوچ کر ہی کیا ہو گا۔ ہمارے اعتراضات سے کیا فرق پڑے گا’ ہماری لیے بہتر یہ ہے کہ ہم ان مسائل پر اتنا غوروخوض نہ کریں۔ پاپا خود ہی ان کو ڈیل کر لیں گے۔” صبغہ نے کہا۔
”تمہیں تو کسی بھی چیز میں سرے سے دلچسپی نہیں ہوتی’ نہ کوئی اعتراض’ نہ دخل اندازی’ نہ کوئی سوچ و بچار۔ تم بڑی خوش قسمت ہو۔” امبر نے مسکراتے ہوئے بہن کو دیکھا۔
٭٭٭





رخشی کے لیے فرش سے عرش کا سفر شروع ہو چکا تھا۔ منصور علی کی سیکرٹری کی حیثیت سے ہونے والے آغاز نے اس کے پیروں کے نیچے وہ زمین فراہم کر دی تھی جو وہ اپنے اور اپنی فیملی کے لیے چاہتی تھی۔
منصور علی کے ہاں جاب کرنے کے چند ہفتوں کے بعد ہی اس نے اپنا گھر تبدیل کر لیا تھا۔
کوئی بھی ایک معمولی سیکرٹری کو اس پوش علاقے کے گھر میں فیملی کے ساتھ نہیں رکھتا’ رخشی اچھی طرح جانتی تھی۔ اس کے باوجود اگر کوئی رکھنا چاہتا تھا تو رخشی کو اس پر کیا اعتراض ہو سکتا تھا۔
منصور علی اس کے ہاں تقریباً ہر روز آیا کرتے تھے’ کبھی اسے گھر چھوڑنے کے لیے اور کبھی رات کو۔ اپنی باقی مصروفیات سے فارغ ہو کر۔
پھر وہ وہاں کئی گھنٹے گزارتے۔ جوں جوں وقت گزر رہا تھا۔ رخشی کی فیملی کے ساتھ ان کی بے تکلفی اور مانوسیت بڑھتی جا رہی تھی۔ رخشی کے لیے ان کے دل میں کیسے جذبات تھے’ شروع میں انہیں خود یہ سمجھنا مشکل تھا۔ وہ خود کو یہ تسلی دیتے رہے تھے کہ وہ صرف اس کی خوبصورتی سے متاثر ہوئے تھے پھر انہوں نے خود کو یہ سمجھایا کہ وہ اس کو صرف اس لیے جاب دے رہے تھے کیونکہ انہیں ایک خوبصورت سیکرٹری کی ضرورت تھی اور رخشی خوبصورت تھی۔ اسے گھر لے کر دینے پر انہوں نے ایک بار پھر اپنے اس عمل کو یہ کہہ کر صحیح ثابت کیا کہ وہ اس کی مدد صرف اس لیے کر رہے تھے کیونکہ وہ امبر کی دوست تھی اور امبر نے بھی انہیں اس کی مدد کرنے کے لیے کہا تھا اور وہ تو ویسے بھی لوگوں کی بہت مدد کیا کرتے تھے۔ انہوں نے کتنے ہی لوگوں کی مالی امداد بھی کی تھی۔ یہ بھی ایسی ہی ایک مدد تھی۔ انہیں یقین آ ہی گیا کہ واقعی ان کی اس مدد کے پیچھے اور کچھ بھی نہیں تھا’ صرف یہی وجہ تھی۔
پھر جب انہوں نے اس کے گھر جانا شروع کیا تو انہوں نے ایک بار پھر وضاحت پیش کی کہ وہ صرف اس لیے اس کے گھر جا رہے ہیں کیونکہ وہ اس کی فیملی کو پسند کرتے ہیں پھر اس سے کیا فرق پڑتا تھا کہ وہ وہاں چند گھنٹے گزار لیتے تھے۔ ان کا ضمیر ایک بار پھر مطمئن ہو یا۔
پھر جب انہوں نے رخشی کو اپنے ساتھ ڈنرز پر اور پارٹیز میں لے جاناشروع کیا تو انہوں نے ایک بار پھر یہ توجیہہ پیش کی کہ وہ ویسے بھی ان کی سیکرٹری ہے’ سارا دن ان کے ساتھ ہوتی ہے’ وہ کئی بار اسے بزنس ڈنرز اور میٹنگز میں لے کر گئے ہیں پھر اگر وہ اسے یوں ہی کہیں لے جاتے ہیں تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ اکیلے باہر کھانا کھانے سے رخشی کی کمپنی لاکھ درجے بہتر ہے بلکہ رخشی کی کمپنی’ منیزہ کی کمپنی سے بھی بہتر تھی۔ وہ کم از کم ہر وقت اپنے مطالبات سے ان کا دماغ تو نہیں چاٹتی تھی۔
پھر جب انہوں نے رخشی کے ساتھ ہر بات شیئر کرنی شروع کی تو انہوں نے ایک بار پھر خود کی وضاحت پیش کی۔ وہ میری دوست ہے’ وہ سمجھ دار ہے’ ذہین ہے’ خوبصورت ہے’ وفادار ہے’ میری پروا کرتی ہے’ میرا خیال رکھتی ہے’ میری بات کو اہمیت دیتی ہے’ اچھا دوست ایسا ہی ہوتا ہے پھر اس میں قابل اعتراض کیا بات ہے’ وہ صرف میری دوست ہے’ بہت سے لوگوں کے بہت سے دوست ہوتے ہیں’ ان میں عورتیں بھی شامل ہوتی ہیں پھر میں غیر معمولی بات کیا ہے۔ یہ ٹھیک ہے’ وہ عمر میں مجھ سے بہت چھوٹی ہے مگر اس کے باوجود ہم دونوں میں بہت انڈراسٹینڈنگ ہے’ وہ میری دوست ہے۔
اگلے مرحلے منصور علی اور رخشی کے لیے بہت آسان تھے۔ مرد اور عورت کے درمیان اس طرح قائم ہونے والی دوستی اسی طرح اخلاقیات کی دھجیاں اڑانے کے لئے قائم کی جاتی ہے۔
رخشی منصور علی کے برعکس جانتی تھی اسے کون سی چیز کھینچ کر منصور علی کی طرف لے کر آئی تھی … دولت اور خاندان … منصور علی کے پاس وہ سیڑھی تھی۔ جس کے ذریعے کوئی بھی آسمان تک پہنچ سکتا تھا’ اور رخشی اس سیڑھی پر چڑھنا چاہتی تھی۔
اس قسم کی عورت دولت کے لیے کبھی بھی کچھ بھی کر سکتی ہے … بے عزتی اور رسوائی کا طوق بھی اسے گلے میں لٹکانا پڑے تو وہ لٹکا لیتی ہے۔ دنیا اس پر تھوکے یا ہنسے … اسے پروا نہیں ہوتی کیونکہ وہ جانتی ہے کہ ایک بار اس کے ہاتھ میں دولت آ گئی تو پھر کوئی یہ دونوں کام اس کے سامنے کبھی نہیں کر سکتا۔ دولت سے خریدی جانے والی آسائشوں کے لیے وہ کسی بھی حد تک جا سکتی ہے۔”
تعلقات کی آخری حدوں کو پھلانگنے کے بعد منصور علی نے پہلی بار اعتراض کیا تھا … یہ کوئی ہمدردی’ کوئی دوستی’ کوئی شناسائی نہیں تھی۔ رخشی ان کی زندگی کا حصہ بن چکی ہے۔
انہیں رخشی کی ضرورت تھی صرف رخشی کی … منیزہ آؤٹ ڈیٹڈ چیز تھی وہ بہت عرصہ پہلے ان کے دل سے نکل چکی تھی۔ وہ اس کے ساتھ سجتی بھی نہیں تھی۔
گھر اور بچے ان کی ترجیح نہیں رہے تھے۔ مرد گھر اور بچوں کے لیے کبھی بھی اپنے نفس کی قربانی نہیں دیتا۔ منصور علی بھی نہیں دے سکتے تھے۔
”میں اپنی ساری زندگی اپنے گھر’ بچوں اور بیوی کے لیے تو ضائع نہیں کر سکتا۔ یہ میری زندگی ہے میں جیسے چاہوں گزاروں۔ اگر میں رخشی کے ساتھ دوستی رکھنا چاہتا ہوں تو رکھوں گا۔ مجھے پروا نہیں ہے کہ میرے گھر والے میرے یا اس کے بارے میں کیا سوچتے ہیں۔ یا یہ جائز ہے یا نہیں ہے۔ جب رخشی کو کوئی فکر نہیں ہے۔ تو میں تو پھر ایک مرد ہوں۔ آخر میں کیوں ڈروں اور کس چیز سے ڈروں۔”
رخشی کو کسی ضمیر کے سامنے کوئی صفائی پیش نہیں کرنی تھی۔ نہ ہی اسے اس کی ضرورت تھی۔ وہ اس اسٹیج تک پہنچنے کے لیے ہی منصور علی کی زندگی میں آئی تھی۔ اور وہ خوش تھی۔ صاعقہ ساری عمر یہی سب کچھ کرنے کے بعد بھی اپنے لیے ایک گھر تک نہیں بنا سکی تھی’ اور رخشی چند ماہ کے اندر کرائے کے اس گھر کو اپنے نام کروا چکی تھی۔ اس کا لائف اسٹائل تبدیل ہو چکا تھا۔ اس کے گھر میں اب دنیا کی ہر آسائش موجود تھی۔ مگر یہ سب کافی نہیں تھا۔ یہ صرف اس کے سفر کا آغاز تھا اور اس کو اس سفر میں کہیں بھی رکنا نہیں تھا
٭٭٭
”I really like this girl”
ہارون کمال نے اس دن رخشی کو منصور علی کے آفس سے باہر نکلتے دیکھا تو تبصرہ کیے بنا نہ رہ سکا۔ منصور علی اس کے تبصرے پر فخریہ انداز میں مسکرایا۔
”یہ تو مجھے اندازہ تھا کہ تمہارا انتخاب ہمیشہ اچھا ہوتا ہے’ مگر اتنا اچھا ہو گا۔ اس کا مجھے یقین نہیں تھا۔” ہارون کمال نے کہا۔
وہ چند ہی ماہ میں رخشی کے ”کام” سے خاصا متاثر تھا اور وقتاً فوقتاً رخشی کی تعریفیں منصور علی کے کانوں تک پہنچاتا رہتا تھا اور اگر ہارون کمال جیسا آدمی رخشی کی تعریف کر رہا تھا تو اس کا واقعی یہی مطلب تھا کہ رخشی کچھ خاص صلاحیتیں ضرور رکھتی تھی۔ منصور علی کے دل میں رخشی کے لیے پہلے سے موجود گوشے کو اور نرم کرنے میں ہارون کمال کی ان تعریفوں نے خاصا اہم کردار ادا کیا تھا۔
”یہ لڑکی اگر مزید کچھ سال تمہارے ساتھ رہی تو تمہارے بزنس کو کہیں سے کہیں لے جائے گی۔ یہ بات یاد رکھنا” ہارون کمال نے رخشی کے بارے میں پیش گوئی کی۔
”اس میں تو خود مجھے بھی کوئی شبہ نہیں ہے۔ یہ واقعی ڈیلنگز میں بہت ماہر ہے ۔ اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ بہت محنتی ہے۔ کام سیکھنے کی لگن ہے اس میں۔” منصور علی نے اپنے لہجے کو حتیٰ المقدور نارمل رکھنے کی کوشش کی۔
”میں لوگوں سے تمہاری سیکرٹری کی تعریفیں سن رہا ہوں۔ اور اگر تعریفوں کا یہ دائرہ پھیلتا گیا تو پھر یہ بہت عرصہ تک یہاں نہیں ٹکے گی۔ ایک اچھی سیکرٹری کی ضرورت ہر ایک کو ہر وقت ہوتی ہے۔” ہارون کمال نے بے حد سنجیدہ لہجے میں کہا۔
منصور علی اس کی بات پر ہنسے۔ ”نہیں اس معاملے میں مجھے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ مجھے چھوڑ کر نہیں جائے گی’ میرا مطلب ہے میرے آفس کو …” انہوں نے اپنے جملے میں کچھ تبدیلی کرتے ہوئے کہا۔
”تمہیں اس بات کا اتنا یقین کیوں ہے؟” ہارون کمال نے قدرے تیکھے انداز میں کہا۔
”میں نے بتایا تھا نا کہ یہ امبر کی بہت اچھی دوست ہے’ میں نے اسی کے ریفرنس سے اس کو رکھا ہے۔ یہ اس طرح کبھی چھوڑ کر نہیں جا سکتی۔” منصور علی نے کہا۔
”منصور! بزنس میں دوستیاں بنتی اور ٹوٹتی رہتی ہیں’ وہ اب پروفیشنل فیلڈ میں آ چکی ہے۔ صرف امبر سے دوستی کے لئے تو وہ مستقل تمہارے ساتھ وابستہ نہیں رہے گی۔ اور پھر ہر ایک کو آگے بڑھنے کا … ترقی کرنے کا حق ہے’ اگر اسے کہیں اور سے بہتر آفر آئی’ جو کہ اسے یقینا آئے گی تو وہ تمہیں اور تمہارے آفس کو چھوڑ کر چلی جائے گی۔ اس بات کی پروا کیے بغیر کہ وہ امبر کی دوست ہے یا نہیں … اور اسے چھوڑ کر چلا بھی جانا چاہیے۔” ہارون کمال نے بڑی لاپروائی سے کہا۔
”اگر تم مالی مراعات کی بات کر رہے ہو تو میں مسلسل ان میں اضافہ کرتا رہوں گا۔ میں جانتا ہوں’ ایک اچھے ورکر کو کس طرح اپنے پاس رکھا جاتا ہے … ” منصور علی یک دم سنجیدہ ہو گئے۔
”یہ صرف مالی مراعات کی بات نہیں ہے۔ اور بھی بہت ساری چیزیں ہوتی ہیں جن کی زندگی میں اہمیت ہوتی ہے۔” ہارون کمال بات کرتے کرتے رکا۔
”اب دیکھو … یہ اس قدر اٹریکٹو لڑکی ہے۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ جلد یا بدیر اس کو کسی میں دلچسپی پیدا نہ ہو اور اگر یہ کسی کے ساتھ جذباتی طور پر وابستہ ہو گئی تو پھر تمہاری ساری مالی مراعات چھوڑ کر اس کے ساتھ چلی جائے گی۔ اتنے مردوں سے سامنا ہوتا رہتا ہے کہ کبھی بھی کسی بھی وقت ایسی کوئی وابستگی پیدا ہو سکتی ہے۔ لڑکیاں ویسے بھی اپنی شادی کے سلسلے میں بہت ان سیکورٹی محسوس کرتی ہیں۔ اسے موقع ملے گا تو وہ بھی سب کچھ چھوڑ کر چلی جائے گئی۔
منصور علی کچھ دیر تک کچھ نہیں کہہ سکے’ کسی نے جیسے ان کے سینے پر گھونسہ مارا تھا۔ کچھ دیر وہ جیسے لفظ ڈھونڈتے رہے پھر مسکرانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔
”رخشی ابھی بہت کم عمر ہے۔ اس نے مجھے بتایا ہے کہ ابھی چھ سات سال تک وہ کہیں شادی نہیں کر رہی۔” ہارون کمال بے اختیار ہنسا۔
”اور تم احمق ہو گے اگر تم نے اس کی بات پر یقین کر لیا ہے۔” منصور علی کا چہرہ سرخ ہو گیا۔ وہ بے اختیار لاجواب ہوئے تھے۔
”میں دعوے سے کہتا ہوں کہ اگر آج کوئی لکھ پتی یا کروڑ پتی بزنس مین تمہاری اس سیکرٹری کو شادی کا پرپوزل دے تو وہ اس سے شادی کر لے گی۔ اپنے ان تمام بیانات کے باوجود حتیٰ کہ میں بھی اگر اسے پرپوزکروں تو وہ میرا پرپوزل بھی قبول کر لے گی۔” منصور علی نے بے اختیار چونک کر اسے دیکھا۔




Loading

Read Previous

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۵

Read Next

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۷

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!