تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۶

”بے وقوف مت بنو… کم از کم گریجویشن تو کر لو۔ اب اتنا عرصہ تم نے پڑھا ہے۔ تو سب کچھ درمیان میں ہی چھوڑ دوگی۔” امبر نے اسے کچھ ڈانٹتے ہوئے کہا۔
”مجھے پتا ہے مگر … امبر! میں کوئی جاب کرنا چاہتی ہوں۔” رخشی نے اچانک کہا۔
”جاب … کیسی جاب؟” امبر اس کی بات پر حیران ہوئی۔ ”اتنی کم کوالیفکیشن کے ساتھ تمہیں کوئی اچھی جاب کیسے مل سکتی ہے۔”
”مجھے پتا ہے کہ اتنی کوالیفکیشن کے ساتھ مجھ کوئی اچھی جاب نہیں مل سکتی’ مگر میں کسی اچھی جاب کی تو بات کر بھی نہیں رہی۔ مجھے تو صرف جاب چاہیے’ ایک اسی جاب جو مجھے اس قابل کر دے کہ میں اپنے پیروں پر کھڑی ہو کر اپنے گھر کو سپورٹ کر سکوں۔” رخشی نے کہا۔
”ہاں کل تک میرا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ مگر اب ارادہ ہے۔”
”رخشی ! تم کم از کم گریجویشن تو کر لو … اس کے بعد تمہارے پاس بہتر آپشنز ہوں گے۔” امبر نے اسے سمجھانے کی کوشش کی۔
”کتنے بہتر آپشن… گریجویشن کر کے بھی میں آخر کون سے بڑے کارنامے کر لوں گی… ملے گی تو مجھے کوئی چھوٹی موٹی جاب ہی۔” رخشی نے قدرے تلخی سے کہا۔
”مگر رخشی! میرا کیا ہو گا … میں تو تمہیں بہت مس کروں گی۔ اتنے دن سے تم کالج نہیں آ رہی ہو تو میری بھی اسٹڈیز میں دلچسپی ختم ہو رہی ہے اور جب تم مستقل طور پر نہیں آؤ گی۔ تو سوچو میں کیا کروں گی۔”
”میں بھی تمہیں بہت مس کروں گی … مگر امبر میں مجبور ہوں … اور سوچو کہ تم بھی تو ساری زندگی کالج میں نہیں رہو گی … اور کچھ عرصہ کے بعد ویسے بھی تمہاری رخصتی ہو جائے گی … تم تو کالج ویسے ہی چھوڑ دو گی۔”
”وہ تو بعد کی بات ہے … میں تو ابھی کی بات کر رہی ہوں … ابھی تو رخصتی نہیں ہوئی میری۔” امبر نے اس کی بات سنی ان سنی کرتے ہوئے کہا۔
”سوچنے کی بات نہیں ہے … بس تم اپنا فیصلہ بدل لو … اور میں تمہیں یقین دلاتی ہوں کہ جب تم گریجویشن کر لو گی تو میں تمہیں بہت اچھی جگہ جاب دلوا دوں گی۔ تمہیں اس بارے میں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔” امبر نے فوراً کہا۔
”تم میرے لیے کیا کیا کرو گی امبر …؟ کتنے احسان لیتی پھروں گی میں تمہارے … گھر تم دلواؤگی۔ جاب تم دلواؤ گی۔ میں …” امبر نے رخشی کو بات مکمل نہیں کرنے دی۔
”اب تم جذباتی ہو رہی ہو۔ اس لیے میں فون بند کر رہی ہوں… کل بات کروں گی۔” اس نے خدا حافظ کہہ کر فون رکھ دیا۔
٭٭٭




20,19 سال کا وہ لڑکا بڑی مستعدی کے ساتھ اس میڈیکل اسٹور میں گاہکوں کو بھگتانے میں مصروف تھا۔ رات کے اس پہر میڈیکل اسٹور پر آنے والے لوگوں کی تعداد خاصی زیادہ تھی۔
اس لڑکے کو دیکھ کر یہ اندازہ لگانا بہت مشکل تھا کہ وہ وہاں سیلز مین تھا۔ اگرچہ وہ بہت سادہ سی جینز اور ٹی شرٹ میں ملبوس تھا مگر اپنی شکل و صورت کے لحاظ سے وہ وہاں موجود دوسرے سیلزمین سے بہت مختلف نظر آ رہا تھا۔ نہ صرف اس کی غیر معمولی شکل و صورت نے اے دو سروں سے الگ کر دیا تھا بلکہ اس کا بات کرنے کا طریقہ بھی یہ واضح کر رہا تھا کہ وہ معمولی پڑھا لکھا نہیں۔ اس کے بال بڑے سلیقے کے ساتھ بنے ہوئے تھے اور رات کے اس وقت بھی وہ بہت اچھے حلیے میں تھے۔
اس وقت اس کے سامنے سفاری سوٹ میں ملبوس ایک آدمی ایک نسخہ لیے کھڑا تھا۔ اس نے ایک نظر اس نسخے پر ڈالی’ باری باری وہ تمام اشیاء نکال کر اس آدمی کے سامنے کاؤنٹر پر رکھ دیں اور پھر ایک کیش میمو پر ان تمام میڈیسنز کا بل بنا کر اس کی طرف بڑھا دیا۔
”آپ کاؤنٹر پر جا کر بل پے کر دیں۔ میں ان میڈیسنز کو پیک کر دیتا ہوں۔” وہ ان میڈیسنز کو ایک لفافے میں ڈالتا ہوا خود بھی کاؤنٹر پر چلا آیا۔
”سر! میری شفٹ ختم ہو رہی ہے۔” اس لڑکے نے وہاں کاؤنٹر کے پیچھے بیٹھے ہوئے مالک سے کہا اس نے سر اٹھا کر وال کلاک پر نظر ڈالی اور پھر مسکرایا۔
”شفٹ تو تمہاری ایک گھنٹہ پہلے ختم ہو گئی تھی۔”
”سر! رش بہت تھا’ اس لیے میں نہیں گیا۔” اس لڑکے نے جواباً کہا۔
”خرم مری سے واپس آ گیا ہے۔” اس نے لڑکے کو مسکراتے ہوئے اطلاع دی۔
”اچھا … کب آیا ہے؟” وہ لڑکا بھی جواباً مسکرایا۔
”کل رات کو آئے ہیں وہ سب لوگ ۔ مجھ سے کہہ رہا تھا کہ میں تم سے پوچھوں کہ تم دوبارہ کب آ رہے ہو اسے پڑھانے کے لیے۔”
”آپ آج مجھے صبح بتا دیتے تو میں آج چلا جاتا … کل سے آ جایا کروں گا۔” اس لڑکے نے کہا۔
”نہیں … نہیں آج تم آ بھی جاتے تو وہ پڑھ نہیں سکتا تھا … بہت تھکا ہوا تھا۔ کل سے نہیں تم پر سوں سے آ جانا۔” اس آدمی نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔
”خرم کہہ رہا تھا کہ وہ ٹائم کچھ تبدیل کروانا چاہتا ہے۔ مگر میں نے اس سے کہا کہ یہ مناسب نہیں ہے۔ کیونکہ تمہیں یہاں بھی آنا ہوتا ہے۔” مالک کے جملے پر اس لڑکے کے چہرے پر ایک ممنون مسکراہٹ ابھری۔
”مجھ سے کہہ رہا تھا کہ تمہیں فون کرے گا یہاں اسٹور پر … مگر مجھے لگتا ہے اس نے کیا نہیں۔”
”خرم صاحب کا فون آیا تھا۔ میں نے ریسیو کیا تھا اس وقت تم ساتھ والے میڈیکل اسٹور پر گئے ہوئے تھے۔” پیچھے کھڑے سیلزمین نے لڑکے سے کہا۔
”دیکھا … میں بھی حیران ہو رہا تھا کہ خرم شہر پہنچ گیا ہو اور تمہیں اطلاع دینے کی کوشش نہ کرے… یہ کیسے ہو سکتا ہے۔” کاؤنٹر پر بیٹھے ہوئے آدمی نے کچھ مسکراتے ہوئے کہا۔ ”تم جاؤ … تمہیں دیر ہو رہی ہو گی۔ میں بھی خوامخواہ تمہارا وقت ضائع کر رہا ہوں۔”
”نہیں سر کوئی بات نہیں۔” اس لڑکے نے کہا اور خدا حافظ کہتے ہوئے کاؤنٹر کے پیچھے سے نکل گیا۔ وہ اب اپنے سر پر ایک پی کیپ پہن رہا تھا۔ کاؤنٹر کے عقب میں بیٹھا ہوا آدمی بہت دیر تک اسٹور کے شیشوں سے اس لڑکے پر نظریں جمائے رہا۔
”اس بچے کی تربیت بہت اچھی ہوئی ہے … پتا چلتا ہے کہ نیک ماں باپ کی اولاد ہے۔ بہت آگے جائے گا یہ۔” وہ چند لمحے بعد خود کلامی کے انداز میں بولا تھا۔
٭٭٭
”ممی! آج ہمارے گھر کون آ رہا ہے؟” امبر نے کالج سے آنے پر گھر میں خاصی چہل پہل دیکھی۔ ملازم بڑے جوش و خروش کے عالم میں ڈسٹنگ میں مصروف تھے جبکہ کچن میں بہت سی ڈشز تیار کی جا رہی تھیں۔
”ہاں … وہ یاد ہے پچھلے ہفتے ہم تمہارے پاپا کے جس دوست کے گھر گئے تھے۔ آج وہی اپنی فیملی کے ساتھ رات کے کھانے پر آ رہے ہیں۔” منیزہ نے بتایا۔
”پاپا کے یہ ایسے کون سے خاص دوست ہیں جن کی آمد پر اتنا اہتمام ہو رہا ہے؟” امبر کو کچھ حیرت ہوئی کیونکہ جس انداز سے تیاریاں ہو رہی تھیں یوں لگ رہا تھا جیسے کوئی بہت ہی خاص الخاص مہمان آ رہا ہو …
”صرف دوست نہیں ہیں۔ تمہارے پاپا کے بزنس پارٹنر بھی بننے والے ہیں۔” منیزہ نے انکشاف کیا۔
”اچھا … یہ بزنس ڈنر ہے۔” امبر نے ایک گہرا سانس لیا۔
”مجھے بھی حیرت ہو رہی تھی کہ پاپا عام طور پر تو اپنے بہت پرانے اور گہرے دوستوں کی آمد پر بھی اتنا اہتمام نہیں کرتے’ حالانکہ یہ خاصا نیا مہمان اور دوست ہے … پاپا اسے بزنس کے لیے ہی اہمیت دے رہے ہوں گے۔” امبر اپنے باپ کو جانتی تھی۔
”ہاں اہمیت تو بزنس کی وجہ سے ہی دے رہے ہیں۔ مگر امبر ! فیملی بہت اچھی ہے … خاص طور پر اس شخص کی بیوی … اس ملک کے چند بڑے خاندانوں میں شمار ہوتا ہے ان کا۔” منیزہ نے بڑے جوش سے کہا مگر امبر متاثر نہیں ہوئی۔
”ہوں گے۔ ہمیں کیا … میں تو پھر رات کا کھانا اپنے کمرے میں ہی کھاؤں گی۔” اس نے اعلان کیا۔
”نہیں۔ کھانا سب ان کے ساتھ ہی کھائیں گے۔ تمہارے پاپا نے خاص طور پر تاکید کی ہے۔” منیزہ نے کہا۔
”مگر ممی! آپ اچھی طرح جانتی ہیں کہ میں ایسے بزنس ڈنرز میں کبھی بھی نہیں آتی۔ اتنا مصنوعی ماحول ہوتا ہے۔ میں اپنے کمرے میں ہی ٹھیک ہوں۔”
”میں نے تمہیں بتایا تھا کہ آج کے ڈنر کے بارے میں خاص طور پر تمہارے پاپا نے ہدایت کی ہے کہ سب کھانا اکٹھے ہی کھائیں گے۔ یہ کوئی عام فیملی نہیں ہے۔” انہوں نے ایک بار پھر امبر کو جتایا۔
”پاپا سے میں خود بات کر لوں گی۔ وہ کچھ نہیں کہیں گے۔” امبر نے لاپروائی سے کہا۔
”پچھلی بار جب انہوں نے بلایا تھا تو تم تب بھی ان کے ہاں نہیں گئیں … اب آج اگر تم پھر نہیں ہوئیں تو انہیں کتنا بُرا لگے گا۔”
”ممی ! کوئی بُرا نہیں لگے گا۔ آپ کوئی بھی بہانا بنا دیں … ایسے لوگ بہت زیادہ پروا نہیں کرتے کسی کی … ویسے بھی باقی سب تو ٹیبل پر ہوں گے ہی … بس میں نہیں ہوں گی۔ تو انہیں کیا فرق پڑے گا۔ پاپا میری عادتوں کو جانتے ہیں’ وہ کوئی اعتراض نہیں کریں گے۔”
منیزہ نے کچھ کہنے کے لیے منہ کھولا تھا مگر اس کے بات کرنے سے پہلے ہی امبر نے اس کی بات مکمل کر دی۔ اور پھر مزید کچھ کہے بغیر اپنا بیگ اٹھا کر اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔
٭٭٭
ہارون کمال کو اس رات ایک بار پھر مایوسی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ منصور علی کے سارے بچے وہاں موجود تھے ماسوائے امبر منصور علی کے … اس کے استفسار پر منیزہ نے کہا کہ اس کی طبیعت خراب ہے ۔ اس لیے وہ سو رہی ہے۔ ہارون کمال نے اس کے بارے میں دوبارہ دریافت کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ مگر اس کی مایوسی اپنی انتہا کو چھو رہی تھی۔ وہ جتنا اس سے ملنے کی کوشش کر رہا تھا اتنا ہی ناکام ہو رہا تھا۔
منصور علی ایک بہت اچھا میزبان تھا اور اس نے یقینا اس کی خاطر مدارت کے لیے بہت بہترین انتظامات کر رکھے تھے مگر امبر کی وہاں غیر موجودگی نے ہارون کمال کے تمام اشتیاق پر پانی پھیر دیا تھا وہ اپنی اندرونی کیفیات اور جذبات کو چھپاتے ہوئے بظاہر مسکراتے ہوئے منصور علی اور اس کے خاندان سے باتیں کرتا رہا۔ خود شائستہ بھی منصور علی کے گھر اور شاید گھر سے زیادہ اپنی آؤ بھگت سے متاثر ہوئی تھی۔
وہ لوگ جا رہے تھے جب امبر کسی کام سے اپنے کمرے سے نکلی تھی اور اس نے جاتے جاتے ہارون کمال کو دیکھ لیا تھا جو منصور علی کے ساتھ باہر نکل رہا تھا۔ امبر نے کسی توقف کے بغیر اسے پہچان لیا تھا وہ وہی آدمی تھا جو چند ہفتے پہلے اس دعوت میں اسے اپنا کارڈ دے رہا تھا … وہ ہارون کمال کو یہاں اپنے گھر میں دیکھ کر عجیب سے تذبذب کا شکار ہو گئی تھی۔
اسے اندازہ نہیں تھا کہ ہارون کمال اس حقیقت سے واقف تھا یا نہیں کہ منصور علی امبر کا باپ تھا۔ اس نے چند ہفتے پہلے اس پارٹی میں پہلی ہی نظر میں ہارون کمال کو ناپسند کیا تھا … وہ بہت ہینڈ سم آدمی تھا مگر امبر کو وہ اچھا نہیں لگا تھا اور ایسا لاشعوری طور پر ہوا تھا۔ اور اب اسی آدمی کو ایک خاص مہمان کے طور پر اپنے گھر میں دیکھ کر وہ کچھ عجیب سی کیفیات کاشکار ہو رہی تھی۔




Loading

Read Previous

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۵

Read Next

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۷

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!