تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۶

”مگر تمہیں دوسروں کے معاملے میں پڑنے کی کیا ضرورت ہے۔ یہ ہمارا مسئلہ تو نہیں۔” شبانہ نے اس بار قدرے تیز لہجے میں کہا۔
”میں جانتا ہوں ممی! یہ ہمارا مسئلہ نہیں ہے مگر امبر نے مجھ سے ریکویسٹ کی ہے اس کی مدد کرنے کے لیے … اس لیے مدد کر رہا ہوں … یہ امبر کی بہت اچھی دوست ہے۔” طلحہ نے قدرے اکتائے ہوئے انداز میں کہا۔ شبانہ کی یہ پوچھ گچھ اب اسے ناگوار محسوس ہو رہی تھی۔
”امبر نے تم سے کیوں کہا ہے۔ منصور سے کہتی’ تمہیں کیوں بیچ میں لا رہی ہے۔”
”ممی! کچھ نہیں ہوتا … وہ بیوی ہے میری’ اگر کوئی کام کرنے کے لیے کہہ رہی ہے تو آخر حرج ہی کیا ہے اس میں؟”
”کوئی حرج نہیں ہے مگر کام بھی تو ڈھنگ کا ہو۔” شبانہ نے تیز لہجے میں کہا۔ ”اب قتل اور پولیس کے معاملات میں تو تمہیں نہ الجھائے اور وہ بھی اپنی دوستوں کے لیے۔”
”ممی! آپ خوامخواہ پریشان ہو رہی ہیں … کوئی ایسی بات نہیں ہے۔ میں صرف کسی سے اس کیس کی سفارش کردوں گا اور بس … اس کے علاوہ مجھے کیا کرنا ہے اور آپ پلیز اس معاملے کا کسی سے ذکر نہ کریں۔” اسے بات کرتے کرتے امبر کی ہدایت کا خیال آیا۔
”کیوں؟”شبانہ کے دوبارہ کان کھڑے ہو گئے۔
”منیزہ چچی کو بھی رخشی کی مدد وغیرہ پسند نہیں ہے۔ اس لیے امبر نے مجھ سے کہا تھا کہ میں کسی سے اس کا ذکر نہ کروں … اب بات آپ کے سامنے کھل گئی ہے تو آپ بھی پلیز احتیاط کریں۔” طلحہ نے ان سے کہا۔
شبانہ کچھ دیر کھڑی اسے گھورتی رہیں’ پھر مڑ کر کمرے سے نکل گئیں۔
طلحہ دوبارہ ٹی وی دیکھنے میں مصروف ہو گیا۔ مگر اس کا ذہن رخشی کی طرف سے آنے والی فون کال میں الجھا ہوا تھا۔ آخر ایسی کون سی بات یا مدد تھی جس کے بارے میں وہ فون پر بات کرنا نہیں چاہتی تھی۔
٭٭٭
شبانہ کچھ سوچتی ہوئیں طلحہ کے کمرے سے باہر آئی تھیں’ انہیں یہ بات بہت بری طرح کھل رہی تھی کہ امبر کی ایک دوست کے لیے طلحہ اس طرح کے معاملات میں بھی انوالو ہونے کے لیے تیار ہے حالانکہ وہ قدرتی طور پر بڑی محتاط طبیعت رکھتا تھا اور ہر قدم پھونک پھونک کر اور سوچ سمجھ کر رکھنے کا عادی تھا۔ خاص طور پر دوسروں کے معاملات میں … اور اب اس طرح کسی دوسری لڑکی کے معاملات میں کودنا … اور اس پر امبر کی یہ ہدایت کہ اس معاملے کے بارے میں کسی کو بتایا نہ جائے۔
وہ لاؤنج میں آ گئیں۔ وقت ضائع کیے بغیر انہوں نے منیزہ کا نمبر ڈائل کیا۔ فون منیزہ نے ہی اٹھایا تھا۔ ”ہیلو کیسی ہو منیزہ!” انہوں نے منیزہ کی آواز سنتے ہی اپنے لہجے اور آواز میں مقدور بھر شیرینی پیدا کی۔
”میں ٹھیک ہوں … آپ کیسی ہیں … بڑے دنوں کے بعد فون کیا آپ نے؟” منیزہ نے بھی لہجے میں شبانہ والی پُرخلوص منافقت بھرتے ہوئے کہا۔
”بس روز سوچتی تھی کہ فون کروں مگر آج کل کچھ مصروف تھی’ اس لیے نہیں کر سکی … مگر آج تو ایک ایسا مسئلہ آن پڑا کہ میں رہ نہیں سکی۔” شبانہ نے کہا۔
”کیا مسئلہ آن پڑا؟” منیزہ نے پوچھا۔
”بس امبر کا ہی ایک مسئلہ ہے۔” منیزہ کے ماتھے پر بل پڑ گئے۔
”کیوں امبر کا کیا مسئلہ ہے؟” اس بار منیزہ کی آواز میں کچھ دیر پہلے جھلکنے والی گرم جوشی غائب ہو گئی تھی۔
”آج اس کی ایک دوست رخشی نے طلحہ کو فون کیا تھا۔”
منیزہ چونک گئی۔ ”رخشی نے ؟” بے اختیار اس کے منہ سے نکلا۔ ”کس لیے؟”
”مجھے تفصیل کا تو پتا نہیں۔” شبانہ نے جواب دیا۔ ”طلحہ کہہ رہا تھا کہ اسے کسی قسم کی مدد کی ضرورت ہے۔” منیزہ کے ماتھے کے بل یک دم گہرے ہو گئے۔
”کب فون کیا تھا۔”
”ابھی کچھ دیر پہلے۔” شبانہ نے کہا۔ ”اور وہ بھی طلحہ کے موبائل پر۔”
”آپ نے طلحہ سے پوچھا کہ اسے کس قسم کی مدد کی ضرورت ہے؟”
”ہاں۔ وہ کہہ رہا تھا کہ اس کی بہن کے قتل کے سلسلے میں شاید پولیس کارروائی کے سلسلے میں اسے کچھ مدد درکار ہے۔” شبانہ نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا۔
”طلحہ نے کیا کہا۔” منیزہ کے لہجے میں اب ناگواری نمایاں تھی۔
”اس لڑکی نے کل کو اپنے گھر بلایا ہے۔”
”کیوں؟”
”پتا نہیں شاید اس مدد کے سلسلے میں ہی کوئی بات چیت کرنا ہے۔”
”ایک تو میں اس لڑکی سے تنگ آ گئی ہوں … جان کو آ گئی ہے یہ ہمارے۔” منیزہ نے بلند آواز میں کہا۔ اسے اس وقت رخشی پر بے تحاشا غصہ آ رہا تھا۔
”طلحہ مجھے بتا رہا تھا کہ امبر نے اسے رخشی کی مدد کرنے کے لیے کہا ہے۔”
”امبر کا دماغ خراب ہے اور کچھ نہیں۔” منیزہ نے کہا۔
”طلحہ یہ بھی کہہ رہا تھا کہ امبر نے اس سے کہا ہے کہ وہ اس بارے میں تمہیں یا کسی بھی دوسرے شخص کو نہ بتائے … میں نے اسی لیے تمہیں فون کیا ہے۔” شبانہ نے کہا۔ ”مجھے تو یہ بات اچھی نہیں لگی کہ ایک لڑکی جس کی طلحہ سے کوئی جان پہچان نہیں ہے۔ وہ اتنی بے تکلفی سے اتنی رات کو اس کے موبائل پر کال کرے اور پھر اس سے اس طرح مدد مانگے … اسے گھر آنے کی دعوت دے۔” شبانہ جان گئی تھیں کہ منیزہ غصے میں تھی اور یہ غصہ امبر کے خلاف تھا۔ اس لیے وہ بڑی صاف گوئی سے کسی خوف کے بغیر اپنی دلی کیفیات کا اظہار کرتی گئیں۔
”اب تم خود سوچو منیزہ کہ وہ لڑکی کتنی تیز طرار ہو گی جو اس طرح منہ اٹھا کر طلحہ سے مدد مانگ رہی ہے۔”
”میں نے ہزار بار امبر سے کہا ہے کہ وہ اس لڑکی کے ساتھ دوستی ختم کر دے مگر اسے تو اس میں پتا نہیں کیا نظر آ رہا ہے کہ ماں کی بات کی بھی پروا نہیں ہے اسے۔” منیزہ اسی طرح ناراضی سے بولتی رہی۔
”مگر آج تو میں اس کا دماغ درست کردوں گی … وہ کیا سمجھتی ہے کہ مجھے پتا نہیں چلے گا۔”
”تم اس سے جو بھی کہنا’ میرا نام مت لینا … خوامخواہ طلحہ ناراض ہو گا۔ وہ مجھ سے کہہ رہا تھا کہ میں تمہیں اس کے بارے میں نہ بتاؤں۔” شبانہ کو اچانک خدشہ پیدا ہوا۔
”آپ فکر نہ کریں بھابھی! میں آپ کا نام نہیں لوں گی۔” منیزہ نے شبانہ کو تسلی دی۔ ”آپ طلحہ سے کہہ دیں کہ اسے رخشی کے گھر جانے یا اس کی مدد کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ میں اچھی طرح ٹھیک کر دوں گی اس رخشی کو بھی اور امبر کو بھی … پتا نہیں کس کس طرح کے لوگ یہاں پائے جاتے ہیں۔” منیزہ نے تنفر سے کہا۔
”منیزہ! میں ایک بار پھر کہہ رہی ہوں کہ امبر کو یہ مت بتانا کہ یہ اطلاع تمہیں میں نے دی ہے۔” شبانہ نے ایک بار پھر منیزہ کو تاکید کی۔ ”میں نہیں چاہتی کہ میری وجہ سے تمہارے گھر میں بدمزگی پیدا ہو۔ تم جانتی ہو طلحہ ایسی باتوں پر بہت ناراض ہوتا ہے اور اس بار تو اس نے مجھے منع بھی کیا ہے مگر میں بس رہ نہیں کہہ سکی۔ یہ اتنا مشکوک لگا مجھے میں نے سوچا’ میری خاموشی نقصان دہ ہو گی ورنہ میں کبھی تمہیں فون کر کے اس سارے معاملے کے بارے میں بات تک نہ کرتی۔”
”میں جانتی ہوں بھابھی! آپ نے بالکل ٹھیک کیا کہ مجھے بروقت اس معاملے کے بارے میں بتا دیا۔ آپ مطمئن رہیں۔ آپ کا نام کسی طرح بھی اس معاملے میں انوالو نہیں ہو گا۔ بس آپ طلحہ کو کسی طرح وہاں جانے سے روک دیں۔”
”وہ تو میں روکوں گی ہی مگر تم بھی کوشش کرو کہ امبر ایسی دوستوں کے ساتھ میل جول نہ رکھے۔
اور پھر امبر اتنی سمجھ دار بھی نہیں ہے۔ اسے دنیا کا پتا نہیں ہے ورنہ وہ کبھی اس طرح اپنی کسی دوست کا طلحہ کے ساتھ براہ راست رابطہ نہ کرواتی۔” شبانہ نے قدرے محتاط لہجے میں امبر کی حماقت کا ذکر کیا۔
”کچھ سمجھ دار کیا’ وہ تو عقل سے بالکل پیدل ہے۔ اور مجال ہے اسے ذرا اس بات کا احساس ہو جائے۔” منیزہ اس وقت پوری طرح بھڑکی ہوئی تھی اس لیے وہ بے دریغ امبر کے خلاف بولتی چلی گئی۔
”ویسے یہ رخشی ہے کون ؟ پہلے تو اس کے بارے میں نہیں سنا۔”
”ہے بھابھی! ایک لڑکی کچھ ماہ پہلے ہی دوستی ہوئی ہے امبر سے ۔ بلکہ یہ کہیں کہ کچھ عرصہ پہلے ہی امبر کے حواسوں پر سوار ہوئی ہے۔” اس کے لہجے میں تنفراور بیزاری تھی۔
”فیملی وغیرہ کیسی ہے؟” شبانہ نے مزید پوچھا۔
”کیا فیملی ہونی ہے بھابھی! ایسی لڑکیوں کی’ اگر کوئی اچھا خاندان ہوتا تو اس طرح کی چھچھوری حرکتیں کرتا جس طرح رخشی کرتی پھر رہی ہے۔ وہی محلہ کلاس ہے۔ لوئر مڈل۔”
”تو پھر امبر کیوں خوامخواہ اس کے ساتھ وقت ضائع کر رہی ہے۔”
”بس بھابھی! شکل کچھ اچھی ہے اس لڑکی کی اور آپ کو تو امبر کا پتا ہی ہے وہ ٹھہری سدا کی حسن پرست۔ ہزار دفعہ میں اسے سمجھا چکی ہوں کہ صرف شکل و صورت کچھ نہیں ہوتی انسان کو خاندان اور کلاس کا بھی خیال رکھنا چاہیے۔ اس طرح کے لوگوں سے میل جول رکھنا مناسب نہیں ہوتا مگر اس پر اثر ہو تو پھر ہے نا۔” منیزہ کی خفگی میں شدید اضافہ ہو چکا تھا۔
اور آپ اس لڑکی کی ڈھٹائی دیکھیں کہ لاکھ میں نے باتوں باتوں میں اپنی ناراضی کا اظہار کیا۔ اس کے آنے پر رکھائی برتی۔ منہ بنایا بلکہ کئی بار تو سرے سے بات ہی نہیں کی مگر اس پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ اس نے ہمارے گھر آنا نہیں چھوڑا’ نہ ہی امبر سے اپنی دوستی ختم کی۔” منیزہ نے کچھ اور تنفر سے کہا۔ ”اس سے آپ اس کے خاندان اور ذہنیت کا اندازہ کر سکتی ہیں۔”
”لو … وہ کیوں چھوڑے گی تمہارے گھر آنا یا امبر کے ساتھ دوستی’ اس کے لیے تو امبر کی شکل میں لاٹری نکل آئی ہے۔ امبر اسے خاصا کچھ دیتی دلاتی ہو گی۔؟” شبانہ نے پوچھا۔
”مجھے کیا پتا۔ مجھ سے کون سا ہر کام پوچھ کر کرتی ہے۔ مگر ایسی لڑکیاں بغیر کچھ لیے دیے تو دوستی رکھنے والی نہیں ہوتیں۔” منیزہ سخت مشتعل تھی۔
”جو امبر کے شوہر تک مدد کے لیے پہنچ گئی ہے۔ وہ امبر سے بھلا کیا کچھ نہیں لیتی ہو گی۔ امبر کچھ نہ بھی دیتی ہو تب بھی ایسی لڑکیاں مانگ لیا کرتی ہیں۔”
”اسے ہمیشہ سے یہی عادت ہے۔ اسے بالکل احساس نہیں ہوتاکہ ہم کس طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اور اسے کن لوگوں سے دوستی رکھنی چاہیے۔ بس اسے ایک بار کوئی اچھا لگنا چاہیے۔”
”تو تم اسے سمجھایا کرو۔”




Loading

Read Previous

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۵

Read Next

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۷

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!