تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۶

”کیامطلب؟” وہ حیرت سے دیکھنے لگی۔
”آپ نے کہا ہے نا کہ آپ مجھے ٹھیک طرح سے جانتی تک نہیں … اور مجھے واقعی ایسا ہی لگتا ہے کہ آپ مجھے ٹھیک طرح سے جانتی نہیں۔ بلکہ شاید سرے سے ہی نہیں جانتیں’ ورنہ میرے ساتھ اس طرح کا سلوک تو نہ کرتیں …”
”کیسا سلوک؟”
”میں آپ کو بتا چکا ہوں … مجھے لگتا ہے آپ مجھے ناپسند کرتی ہیں۔” امبر نے بے اختیار ایک گہرا سانس لیا۔
”ہاں’ آپ بالکل ٹھیک سمجھے ہیں … میں واقعی آپ کو ناپسند کرتی ہوں۔” اس نے صاف گوئی کی انتہا کر دی تھی۔
”کیوں…؟” ہارون کے چہرے کا رنگ یکدم تبدیل ہو گیا۔
”کیوں…؟ یہ میں نہیں جانتی۔” امبر نے کندھے اچکائے پھر اس نے ایک ہینگر میں لٹکے ہوئے لباس کی طرف اشارہ کیا۔
”اب وہ لباس مجھے اچھا نہیں لگتا۔ میں اسے ناپسند کرتی ہوں۔ آپ پوچھیں گے کیوں؟ تو میں کیا بتاؤں گی… صرف یہی ناکہ مجھے وہ اچھا نہیں لگتا۔”
”میں جانتی ہوں’ میں نے ایک مثال دی ہے۔ کیونکہ آپ ضرورت سے زیادہ سوال کرتے ہیں۔” امبر نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا۔
”میں ہینگر میں لٹکا ہوا لباس نہیں ہوں۔” ہارون کو پوری گفتگو میں پہلی بار صحیح معنوں میں تذلیل کا احساس ہوا۔
”میں جانتی ہوں’ میں نے ایک مثال دی ہے۔ کیونکہ آپ ضرورت سے زیادہ سوال کرتے ہیں۔” امبر نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا۔
”میں ضرورت سے زیادہ سوال اس لیے کرتا ہوں کیونکہ مجھے آپ کو جاننے میں دلچسپی ہے۔”
”کیوں…؟” اس نے پلکیں جھپکائے بغیر کہا۔
”کیونکہ آپ مجھے اچھی لگتی ہیں۔” امبر کے چہرے کا رنگ متغیر ہو گیا۔
”کیوں …؟”
”یہ مجھے نہیں پتا۔” ہارون نے کندھے اچکائے اور پھر اسی ہینگر کی طرف اشارہ کیا۔
”اب یہ لباس مجھے اچھا لگتا ہے … آپ پوچھیں گی کیوں؟ تو میں وجہ تو نہیں بتا سکوں گا۔ صرف یہ ہی کہوں گا’ کہ یہ مجھے اچھا لگتا ہے۔”
اس بار امبر کے چہرے کے ساتھ ساتھ اس کے کانوں کی لوئیں بھی سرخ ہوئی تھیں۔ وہ مشتعل تھی۔ ہارون کمال جانتا تھا۔ اسی لیے وہ وہاں رکا نہیں تھا۔ مگر جانے سے پہلے وہ جلتی پر کچھ اور تیل چھڑک گیا۔
”طلحہ جیسا آدمی آپ کے قابل نہیں ہے … امبر منصور علی کو کسی بہت بہتر شخص کی زندگی میں ہونا چاہیے۔” وہ جب تک اس کی بات پرغور کرتی وہ جا چکاتھا۔
٭٭٭





”یہ منصور بھائی ہیں نا؟” شبانہ نے کھڑکی سے کچھ دور کھڑی ایک کار کی طرف اشارہ کیا۔
وہ مسعود علی کے ساتھ کچھ دیر پہلے ہی اپنی نند کے ہاں سے واپس آئی تھی جب گھر کی طرف جاتے ہوئے اچانک ان کا ارادہ ایک ہوٹل میں کھانے کا بن گیا اور اب وہ اس ہوٹل میں کھانے کے بعد واپس گاڑی میں بیٹھ رہے تھے’ جب شبانہ کی نظر پارکنگ میں کھڑی ایک دوسری کار پر پڑی۔ جس میں منصور علی ایک لڑکی کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے۔ کار کچھ دیر پہلے ہی وہاں آ کر رکی تھی اور اب وہ دونوں کار سے اتر رہے تھے۔
”ہاں یہ منصور ہی ہے۔” مسعود نے دانستہ نظر چراتے ہوئے کہا۔ وہ شبانہ سے یہ نہیں کہہ سکتے تھے کہ اسے کوئی غلط فہمی ہوئی ہے۔ وہ منصور نہیں ہے۔ وہ انکار کرتے تو شبانہ کچھ اور مشکوک ہوتیں۔ ان کے تجسس کو کچھ اور ہوا ملتی۔
”کھانا اچھا تھا … میں سوچ رہا ہوں کہ ذرا جلدی جلدی کھانا کھانے آیا کریں۔” مسعود علی نے موضوع بدلنے کی کوشش کی وہ اب پارکنگ سے گاڑی نکال رہے تھے مگر شبانہ کی نظریں منصور اور اس لڑکی پر جمی ہوئی تھی اور ان دونوں کے اندر جانے تک ان پر مرکوز رہیں۔
مسعود علی اب گاڑی پارکنگ سے نکال چکے تھے۔ ”یہ منصور کے ساتھ کون لڑکی تھی؟” شبانہ نے پوچھا۔
”چھوڑو … ہو گی کوئی … مجھے کیا پتا ؟” مسعود علی نے لاپروائی کا مظاہرہ کیا۔
”یہ کیا بات ہوئی’ آپ کے بھائی ہیں … اور آپ کو یہ نہیں پتا کہ اس کے ساتھ کون سی لڑکی ہے۔ مجھے تو کوئی اچھی لڑکی نہیں لگ رہی تھی۔ اور منصور کو تو دیکھیں کتنی بے تکلفی سے قہقہے لگا رہا تھا۔ اس کے ساتھ۔” شبانہ نے کہا۔
”وہ منصور کی سیکرٹری ہے۔” مسعود علی نے ایک گہرا سانس لیتے ہوئے کہا۔
”سیکرٹری ؟” شبانہ بے اختیار بولیں۔ ”منصور نے سیکرٹری کب سے رکھ لی؟ اور ابھی تو آپ کہہ رہے تھے کہ آپ کو اس لڑکی کا نہیں پتا … اور اس وقت منصور اس سیکرٹری کے ساتھ یہاں ہوٹل میں کیا کر رہا ہے؟” شبانہ نے یکے بعد دیگرے سوالوں کی بوچھاڑ کر تے ہوئے کہا۔
مسعود علی بے اختیار زچ ہوئے۔ ”میں تمہارے سوالوں کا جواب تو دے دیتا ہوں مگر براہ مہربانی … تم منیزہ کو یا خاندان میں اور کسی کو بھی یہ مت بتانا کہ منصور نے کوئی سیکرٹری رکھی ہوئی ہے۔ منصور نے ہمیں سختی سے منع کیا ہوا ہے۔” مسعود علی نے شبانہ سے کہا۔
وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ اب وہ بات گول نہیں کر سکتے۔ شبانہ تب تک ان کی جان چھوڑنے والی نہیں تھیں۔ جب تک وہ انہیں سب کچھ بتا نہ دیتے۔
”کیوں منصور نے کیوں منع کیا ہے اس کے بارے میں بتانے سے ؟”
”یہ تو منصور ہی زیادہ بہتر جانتا ہو گا۔ مجھ سے تو اس نے صرف یہ کہا تھا کہ میں کسی سے اس کا ذکر نہ کروں۔”
”طلحہ اور اسامہ کو بھی پتا ہے؟” شبانہ نے کڑے تیوروں سے پوچھا۔
”ہاں ظاہر ہے مجھے پتا ہے تو طلحہ اور اسامہ کو بھی پتا ہو گا۔ وہ اس کی نئی فیکٹری میں ہوتی ہے۔”
”اور دیکھیں ذرا مجال ہے کہ مجھ سے کسی نے بھی اس کا ذکر کیا ہو۔” شبانہ نے قدرے ناراضی سے کہا۔
”تم جان کر آخر کر بھی کیا لیتیں؟”
”پھر بھی مجھے پتا تو ہونا چاہیے تھا۔”
”چلو اب تو پتا چل گیا ہے نا۔”
”منصور کو آخر یوں اچانک سیکرٹری رکھنے کی کیا ضرورت آن پڑی۔ پہلے تو کبھی اس نے سیکرٹری نہیں رکھی تھی بلکہ ہمارے خاندان میں کسی نے نہیں رکھی۔ پھر اب اچانک کیا ہو گیا۔؟”
”یہ تو منصور ہی بتا سکتا ہے۔ مگر اس میں کوئی برائی تو نہیں ہے۔ کوئی نہ کوئی فائدہ تو اس کو نظر آیا ہو گا جو اس نے یہ سیکرٹری رکھنے کا فیصلہ کیا۔”
”اور یہ لڑکی تو بہت ہی خوبصورت ہے … وہ تو اپنے رکھ رکھاؤ سے کہیں سے ملازم لگتی ہی نہیں۔” شبانہ نے تبصرہ کیا۔
”یہ امبر کی دوست ہے۔” منصور نے بتایا۔
”رخشی!” بے اختیار شبانہ کے منہ سے نکلا۔ مسعود علی حیران ہوئے۔
”تم جانتی ہو اسے؟”
”چہرے سے واقف نہیں’ نام سے واقف ہوں۔ اسے امبر نے منصور کے پاس رکھوایا ہے۔”
”ہاں ! امبر کی سفارش پر ہی منصور نے رکھا ہے۔ اب تم جان ہی گئی ہو تو آگے کسی کو مت بتانا۔” مسعود علی نے کہا۔
”مگر منصور اس کو لے کر یہاں ہوٹل میں کیوں پھر رہا ہے۔ رات کے اس وقت اور پھر اتنی بے تکلفی …”
”یہ سب منصور کے مسائل ہیں تمہارے اور ہمارے نہیں … اگر وہ فکر مند نہیں تو ہم کیوں ہوں۔ تم اس موضوع کو اب بند کر دو خاصے سوال کر چکی ہو تم۔” مسعود علی نے اس بار کچھ اکتا کر کہا۔
شبانہ نے اس بار جواب میں کچھ نہیں کہا۔ مگر وہ کسی گہری سوچ میں گم تھیں۔
٭٭٭




Loading

Read Previous

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۵

Read Next

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۷

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!