تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۶

پہلا شاٹ اسکرین پر آنے میں چند سیکنڈز لگے تھے۔ وہ امبر کے کالج میں ہونے والی ورائٹی پروگرام کی فلم تھی … وہ کچھ دن پہلے بھی تمام گھر والوں کے ساتھ سرسری انداز میں امبر کے اصرار پر بیٹھ کر یہ فلم دیکھ چکے تھے۔ مگر کسی مصروفیت کی وجہ سے وہ اس فلم کو ادھورا چھوڑ کر چلے گئے تھے۔ وقت گزاری کے لیے انہوں نے اس ڈرامے کو دیکھنے کا فیصلہ کر لیا۔
اسکرین پر اس وقت امبر کا ایک سین چل رہا تھا۔ انہوں نے مسکراتے ہوئے کچھ پدرانہ شفقت سے امبر کو دیکھا اور پھر مووی کو ریوائنڈ کر دیا۔
ان کے چہرے پر ابھی بھی مسکراہٹ تھی۔ وہ صبح امبر کو اس فلم کے بارے میں اپنی رائے سے آگاہ کرنا چاہتے تھے اور وہ جانتے تھے کہ وہ یہ جان کر بہت خوش ہو گی کہ انہوں نے اس کے ڈرامے کو پورا دیکھا ہے۔
سنووائٹ شروع ہو گیا تھا۔ رخشی اسکرین پر نمودار ہوئی۔ لانگ شاٹ سے مڈشاٹ اور پھر مڈشاٹ سے کلوز اپ … منصور علی سگریٹ کا کش لگانا بھول گئے۔ رات کے پچھلے پہر اس تنہائی اور خاموشی میں اسکرین پر ابھرنے والے اس چہرے کو دیکھ کر وہ بالکل سحرزدہ رہ گئے تھے۔ امبر ٹھیک کہتی تھی وہ واقعی خوبصورت تھی۔ انہوں نے اس سے پہلے دو چار بار کالج یونیفارم میں امبر کے ساتھ اسے دیکھا تھا۔ لیکن کبھی اتنی توجہ سے نہیں دیکھا تھا۔ اور پھر تب امبر بھی ان کے ساتھ ہوتی تھی اور وہ اس کے ساتھ باتوں میں اتنا مصروف ہوتے تھے کہ رخشی کی طرف کبھی دھیان ہی نہیں دیا تھا۔
مگر آج سب کچھ غیر معمولی انداز میں نظر آ رہا تھا۔ آج رخشی کالج یونیفارم میں نہیں تھی۔ ایک ملکہ کے رول میں سنگھار کیے ہوئے تھی۔ اور آج وہاں امبر نہیں تھی جو ان سے باتیں کرتے ہوئے ان کی توجہ اپنی طرف مبذول کر لیتی۔ رخشی کے جسم پر موجود لباس بے حد خوبصورت تھا اور اس کے جسم کے خدوخال بے حد نمایاں ہو رہے تھے۔ جس آدمی نے اس پروگرام کو فلمایا تھا یقینا وہ بھی منصور علی کی طرح رخشی کے حسن پہ فدا ہوا تھا’ وہ بار بار رخشی کے چہرے کا کلوز اپ پیش کر رہا تھا۔
منصور علی نے اچانک اپنے دائیں ہاتھ کو جھٹکا ۔ سگریٹ سلگتے سلگتے اب ان کی انگلیوں کو جلانے لگا تھا اور یہ جلن کا احساس ہی تھا جس نے ان کی محویت ختم کر دی تھی۔ انہوں نے جھک کر نیچے کارپٹ پر پڑا ہوا سگریٹ اٹھایا اور اسے سینٹر ٹیبل پر پڑے ہوئے ایش ٹرے میں پھینک دیا۔




وہ جب دوبارہ اسکرین کی طرف متوجہ ہوئے۔ اس وقت رخشی وہاں سے غائب ہو چکی تھی۔ اس وقت امبر وہاں موجود تھی۔ منصور علی نے ایک عجیب سا اضطراب اور بے قراری محسوس کی۔ کیمرہ مین رخشی کی طرح امبر کے چہرے کو بھی کلوزاپ میں پیش کر رہا تھا … مگر وہ منصور علی کی بیٹی تھی … پدرانہ شفقت کے علاوہ اس کے لیے وہ اور کچھ محسوس ہی نہیں کر سکتے تھے۔ رخشی ان کی بیٹی کی دوست تھی مگر ان کی بیٹی نہیں تھی … وہ اسے اس طرح نہیں دیکھ رہے تھے جس طرح وہ امبر کو دیکھ رہے تھے۔
انہوں نے سینٹر ٹیبل پر پڑا ہوا ریموٹ اٹھا کر مووی کو ایک بار پھر ریوائنڈ کیا۔ وہ ایک بار پھر رخشی کو دیکھنا چاہتے تھے۔ چند سیکنڈز کے بعد رخشی ایک بار پھر اسکرین پر موجود تھی۔ منصور علی کے چہرے پر ایک اطمینان بھری مسکراہٹ ابھری۔ صوفے کی پشت سے ٹیک لگاتے ہوئے ٹانگ پر ٹانگ رکھے وہ ایک بار پھر اسکرین پر ابھرنے والے چہرے کو محویت سے دیکھنے لگے۔ جو اس وقت آئینے کے سامنے کھڑی اس سے پوچھ رہی تھی۔
“Mirror Mirror! on the wall
Tell me who is the fairest of us all”
(”آئینے مجھے بتاؤ ہم میں سب سے خوبصورت کون ہے”)
منصور علی نے بے اختیار خود کو بڑ بڑاتے ہوئے پایا۔ آئینہ ملکہ سے کیا کہہ رہا تھا۔ انہوں نے نہیں سنا … جو کچھ ان کے ہونٹوں سے نکل رہا تھا۔ وہ بخوبی سن رہے تھے۔
“You only you are the fairest of them all”
(تم’ صرف تم سب سے زیادہ خوبصورت ہو)
وہ رخشی کے چہرے پر نظریں جمائے بے اختیاری کے عالم میں کہہ رہے تھے۔
فلم کب ختم ہوئی۔ انہوں نے کب اور کتنی بار اسے ریوائنڈ کیا۔ کتنے سگریٹ پیئے … انہیں یاد نہیں … وہ صرف اس وقت ہوش میں آئے تھے’ جب انہوں نے فجر کی اذان کی آواز سنی تھی … ان کے سگریٹ کا پیکٹ خالی ہو چکا تھا۔ ایش ٹرے سگریٹ کے ٹکڑوں سے بھری ہوئی تھی۔ اور انہیں اپنی آنکھوں میں چبھن محسوس ہونے لگی تھی۔ انہوں نے ٹی وی کو بند کر دیا اور آنکھوں کو رگڑتے ہوئے اپنے بیڈ روم کی طرف چلے گئے۔
لاؤنج سے باہر نکلتے ہوئے انہیں یکدم اپنی حماقت کا احساس ہوا تھا … اور وہ رخشی کو اپنے ذہن سے نکالنے کی کوششوں میں مصروف تھے۔
”ہاں ٹھیک ہے خوبصورت ہے … مگر میں اس کے بارے میں اس طرح کیوں سوچ رہا ہوں … وہ امبر کی دوست ہے … میری بیٹیوں جیسی …” ان کی سوچ کا دھاگا یک دم ٹوٹا۔ ”اور پھر بہت ہی کم عمر ہے … کیسی فضول حرکت کرتا رہا ہوں میں … میں نے کبھی کسی فلم ایکٹریس کو اتنے ذوق و شوق سے نہیں دیکھا جس طرح اس کو دیکھ رہا تھا۔ واقعی میں ساٹھ کا نہیں ہوا … مگر اڑتالیس سال کی عمر میں ہی سٹھیا رہا ہوں۔” اپنے بیڈ روم میں داخل ہوتے ہوئے انہوں نے کچھ ندامت اور خفت آمیز مسکراہٹ کے ساتھ سوچا۔ ”ورنہ اس طرح کی سرگرمیوں میں توانوالو نہ ہوتا …”
انہوں نے اپنا سرجھٹکا۔ کمرے میں تاریکی تھی۔ منیزہ اب بھی گہری نیند سو رہی تھی … وہ بھی خاموشی سے جا کر اپنے بیڈ پر لیٹ گئے۔ انہوں نے آنکھیں بند کر لیں۔ نیند پھر غائب ہو چکی تھی۔ اس بار وہاں ”وہ” تھی۔
٭٭٭
”یہی تو کہہ رہا ہوں آپ سے … ظلم کیا آپ نے اپنے سننے والوں اور چاہنے والو ںپر۔”
وہ جرنلسٹ اپنے ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے کہہ رہا تھا۔ زرقا کے چہرے کی جگمگاہٹ میں آہستہ آہستہ اضافہ ہو رہا تھا۔
”ارے آپ گانے والوں کی جس کلاس سے تعلق رکھتی تھیں۔ انہیں واقعی گانا آتا تھا … سیکھے سکھائے لوگ تھے … سُر اور لے کا پتا تھا انہیں۔” چائے کا سپ لیتے ہوئے اس نے پُرجوش انداز میں کہا۔ ”ساز اور آواز کے تعلق کی باریکیوں کو جانتے تھے۔ ٹھمری اور داد رے کے فرق سے آشنا تھے … راگوں کا استعمال کانچ کی طرح کرتے تھے … ذرا اونچ نیچ ہوئی تو خود بھی زخمی ہوئے اور اگلا اس سے زیادہ۔” اس نے رک کر ایک اور پیسٹری اٹھائی۔ ”اب آج کے گانے والوں کو دیکھ لیں کیا’ گارہے ہیں اور کیسے گارہے ہیں… راگوں کو حلوہ بنا کر رکھ چھوڑا ہے۔ جب چاہا جتنا پانی چاہا ڈال لیا۔ حلق سے تو اتر ہی جائے گا۔” زرقا کو اس کی تشبیہہ پر ہنسی آ گئی’ وہ اس کی گفتگو سے محظوظ سے ہو رہی تھی۔ نئی نسل کی برائیاں سن کر پچھلی نسل کے اکثر لوگوں کی طرح اسے بھی خوشی ہوئی تھی۔
”آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں اختر صاحب۔” اس نے اپنی ساڑھی کے پلو کو بل دیتے ہوئے کہا۔ ”مگر آپ سننے والوں کے ذوق کو بھی تو دیکھیں۔ وہ یہی سب کچھ سن رہے ہیں۔ یہی سب کچھ سننا چاہتے ہیں۔”
”ارے کہاں سننا چاہتے ہیں جناب؟” اختر صاحب بھڑکے۔ ”مجبوری ہے ان کی … جب آپ جیسے فن کو جاننے والے لوگ میدان چھوڑ جائیں گے تو پھر خالی جگہ پر جو بھی آئے گا … اسے ہی سننا پڑے گا … اسی لیے تو کہہ رہا ہوں کہ آپ نے ظلم کیا اس طرح اچانک سب کچھ چھوڑ کر۔” اختر صاحب نے چائے کا کپ خالی کر کے میز پر رکھا زرقا نے ایک گہری سانس لی مگر کچھ کہا نہیں۔
”آپ لوگ تھے … تو سب کچھ اور طرح کا تھا … ماحول ہی دوسرا تھا … گیت سنگیت ایک طرف’ آپ لوگوں کو تہذیب اور اخلاق سے آشنائی تھی۔ اٹھنے بیٹھنے کے ادب آداب سے واقف تھے۔ بات کرنے کا سلیقہ تھا’ عزت کرنا اور کروانا جانتے تھے۔” اختر صاحب نے رک کر کپ میں اور چائے انڈیلی۔
”دوسروں کے مقام اور مرتبے سے واقف تھے … پتا تھا کہ کس سے کس طرح کا سلوک کرنا ہے … اب آج کل کے لوگوں کو نہ گیت سنگیت کا پتا ہے نہ تہذیب و روایات کا … کالی عینک لگا کر انٹرویو دے رہے ہوتے ہیں… ارے بھئی۔ کسی اندھے کا انٹرویو کر رہا ہوں میں۔”
زرقا نے سرہلاتے ہوئے اپنی ہنسی روکی۔
”دروازے پر کھڑے کھڑے انٹرویو دے دینا چاہتے ہیں … فون پر بیٹھے بیٹھے انٹرویو دے دینا چاہتے ہیں۔ جھوٹے منہ پانی تک نہیں پوچھتے۔ پھر چاہتے ہیں کہ ہم سب کچھ اچھا لکھیں ان کے بارے میں … ان کی تعریفوں میں زمین اور آسمان کے قلابے ملا دیں … ارے کیا خاک اچھا لکھیں گے۔”
زرقا سرہلاتی رہی۔
”اب آپ کو دیکھیں۔ کتنے سالوں بعد ملاقات ہو رہی ہے۔ مگر وہ وضع داری جو پہلے تھی۔ سو اب بھی ہے۔ وہی طریقہ سلیقہ … تکلفات ‘ لحاظ’ احترام … ارے خود سے دل چاہتا ہے آپ کے بارے میں اچھا لکھنے کو۔” انہوں نے چائے کا کپ رکھ کر پنیرا کی طرف ہاتھ بڑھایا۔
”میں جرنلسٹ تھوڑا سمجھتی ہوں اختر صاحب آپ کو … مہمان سمجھ کر ملتی ہوں … جس کی عزت و احترام واجب ہوتا ہے۔”
”بس یہی تو روایات ہیں جو ختم ہو گئی ہیں آج کے لوگوں میں … اسی لیے تو آپ سے کہہ رہا ہوں … زرقا بیگم! دوبارہ گانا شروع کریں … لوگ سننا چاہتے ہیں آپ کو۔” اختر صاحب نے اسے پھر سے اکسایا۔
”میں نے آپ کو اپنی مجبوری بتائی ہے اختر صاحب … میرے شوہر کو پسند نہیں ہے یہ سب کچھ۔” زرقا نے ایک گہرا سانس لے کر کہا۔
”آپ انہیں منائیے … ان کو بتائیے کہ فن کو آپ کی کتنی ضرورت ہے … آپ جیسی آوازوں کو ختم نہیں ہونا چاہئیے۔”
”بہت مشکل ہے یہ … اول تو وہ مانیں گے ہی نہیں … اور مان بھی گئے تب بھی … یہ سب بڑا مشکل ہے … اب تو وہ آواز ہی نہیں اور ریاض کیے مدت گزر گئی۔” زرقا نے ٹشو سے اپنا ماتھا تھپتھپاتے ہوئے کہا۔
”عجیب بات کہہ رہی ہیں آپ زرقا بیگم سونے کو کبھی زنگ نہیں لگتا … صاف کرو گے وہ پھر چمکنے لگے گا … پھر جو آوازیں کندن بن چکی ہوں … وہ تو ویسے ہی کسی ریاض کی محتاج نہیں ہوتیں۔”
اختر صاحب نے میز پر موجود آدھے سے زیادہ لوازمات صاف کر کے ہاتھ کھینچ لیا۔
”اور یہ کہنے کی ضرورت تو نہیں ہے کہ آپ کی آواز بھی کندن بن چکی ہے۔”
زرقا کے چہرے کی چمک میں کچھ اور اضافہ ہوا۔ مگر اس بار اس نے کچھ کہا نہیں۔
”کتنے سال ہو گئے آپ کی شادی کو ؟” اختر صاب نے نوٹ بک ہاتھ میں لیتے ہوئے پوچھا۔
”چودہ سال۔”
”ماشاء اللہ … ماشاء اللہ” اختر صاحب نے سرہلایا۔ ”آپ کے شوہر کا تعلق تو سندھ کے بڑے نامور سیاسی گھرانے سے ہے اور ان کی تو شاید ایک دو اور بیویاں بھی ہیں؟”
اختر صاحب کھانے پینے کے بعد اب اپنی جون میں واپس آ گئے تھے۔
”جی … تین بیویاں اور ہیں ان کی۔” اس بار زرقا کے چہرے کی چمک کچھ مدھم ہو گئی’ اسے اختر صاحب سے یک دم اس طرح پینترا بدلنے کی امید نہیں تھی۔
”آپ کون سی بیوی ہیں؟”
”تیسری …”




Loading

Read Previous

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۵

Read Next

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۷

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!