تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۶

”میں جانتی ہوں’ وہ تمہارا بڑا بھائی ہے۔ پھر بھی اب تمہیں سنجیدگی اختیار کرنا چاہیے۔ کل کو وہ تمہیں جھڑک دے تو تمہیں کتنا بُرا لگے گا۔”
”کس بات پر جھڑکیں گے مجھے؟ گلے میں بازو ڈالنے پر’ پاس بیٹھنے پر؟” وہ حیران ہونے لگی۔
”نہیں’ اس بات پر کہ اب تم بڑی ہو رہی ہو اور پھر بھی بچوں جیسی حرکتیں کرتی ہو۔”
”مگر امی! یہ بچوں جیسی حرکتیں تو نہیں ہیں۔ مجھے واقعی شہیر بھائی بہت اچھے لگتے ہیں۔ میں بہت پیار کرتی ہوں ان سے۔” اس نے اپنی بات پر زور دیا۔”اور پھر میں تو ثومی کے ساتھ بھی یہی کرتی ہوں۔”
”اسی لیے تو سمجھا رہی ہوں کہ ایسا نہ کیا کرو’ بہن بھائیوں میں بھی کچھ ادب اور لحاظ ہوتا ہے کچھ فاصلوں اور حدوں کو برقرار رکھنا پڑتا ہے۔”
”اچھا امی میں آئندہ محتاط رہوں گی۔” ثانی نے اس بار مزید کچھ کہنے کے بجائے ان کی بات پر سرہلاتے ہوئے کہا۔
فاطمہ قدرے مطمئن ہو گئی۔ اس نے آج پہلی بار ثانی اور شہیر کی بے تکلفی کو تشویش سے دیکھا تھا۔ وہ جانتی تھی۔ وہ دونوں ایک دوسرے کو بہن بھائی ہی سمجھتے ہیں مگر فاطمہ جانتی تھی کہ ایسا نہیں تھا اور پہلی بار اسے لگا کہ اسے ان دونوں کے درمیان کچھ فاصلے بہرحال برقرار رکھنے پڑیں گے۔ وہ شہیر کے ساتھ ثانی کی جذباتی وابستگی کو اچھی طرح جانتی تھی اور وہ یہ بھی جانتی تھی کہ شہیر بھی ثانی کے ساتھ بہت محبت کرتا تھا اور وہ ہمیشہ خود کو یہی تسلی دیتی رہی تھی کہ یہ بہن بھائی کی محبت سے زیادہ اور کچھ نہیں ہے اور کچھ ہو ہی نہیں سکتا مگر اس کے باوجود اب اسے یہ ضرورت محسوس ہونے لگی تھی کہ وہ ثانی کی شہیر کے ساتھ اس بے تکلفی کو قدرے محدود کرنے کی کوشش کرے اور اسے اطمینان تھا کہ اس کام میں اسے کوئی دقت نہیں ہو گی ثانی ہر بات چوں چرا کیے بغیر ماننے کی عادی تھی اور کچھ یہی حال شہیر کا بھی تھا۔ وہ ثانی اور ثومی دونوں سے بہت زیادہ فرمانبردار تھا اور فاطمہ ان دونوں کی نسبت اس سے زیادہ جذباتی لگاؤ رکھتی تھی۔ اگر شہیر پر یہ بات عیاں تھی تو ثانی اور ثومی سے بھی یہ بات چھپی ہوئی نہیں تھی۔
”ویسے امی! شہیر بھائی کتنے ہینڈ سم ہیں نا؟” ثانی نے اچانک کتاب سے نظریں اٹھا کر اسے مخاطب کیا۔ ”ہم سب سے زیادہ ہینڈ سم ہیں۔”
”اس میں ایسی کیا خاص بات ہے۔” فاطمہ نے لاپروائی سے کہا۔
”میرے لیے تو ہے … ویسے انہیں پاکستان میں نہیں کہیں اور پیدا ہونا چاہیے تھا … نہیں نہیں پاکستان میں ہی۔ ادھر شمالی علاقوں میں۔ وہ وہاں کے لوگوں جیسے ہی لگتے ہیں ہمارے بھائی لگتے ہی نہیں۔” ثانی نے ستائشی لہجے میں کہا۔
”فضول باتیں مت کیا کرو ثانی” فاطمہ بے اختیار نروس ہو گئی۔
”وہ تمہارے جیسا ہی لگتا ہے تم دونوں سے ہی شکل ملتی ہے اس کی۔ کسی سے بھی پوچھ لو۔ بس اس کا قد کچھ زیادہ لمبا ہے۔” فاطمہ کو خود نہیں معلوم تھا کہ وہ اس طرح کی وضاحتیں کیوں کر رہی تھی۔ وہ اسے ڈانٹ کر چپ کروا سکتی تھی۔
”کس سے زیادہ شکل ملتی ہے ان کی مجھ سے یا ثومی سے ؟” ثانی یک دم پر جوش ہوئی۔
”ثانی! وقت ضائع مت کرو۔ رات بہت زیادہ ہو رہی ہے۔ ابھی تمہیں سونا بھی ہے۔”
فاطمہ نے بات کا موضوع بدلنے کی کوشش کی۔
”پلیز امی! بس صرف یہ ایک بات بتا دیں کہ ان کی شکل کس سے زیادہ ملتی ہے؟ مجھ سے یا ثومی سے؟” اس نے ایک بار پھر ملتجیانہ انداز میں کہا۔
”دونوں سے’ اب تم سو جاؤ یا پھر کتاب پڑھو۔” ثانی فاطمہ کے جواب پر کچھ مایوس سی ہو گئی۔
”ثومی سے تو نہیں مل سکتی … وہ تو بے حد فضول ہے۔ مجھ سے ہی ملتی ہو گی۔” وہ بڑبڑائی۔ فاطمہ خاموش رہی۔
٭٭٭





منصور علی دوسرے دن ٹھیک وقت پر رخشی کے گھر موجود تھے۔ رخشی ان کے پہنچنے سے پہلے ہی تیار ہو چکی تھی اور اس کو دیکھ کر اس عمر میں بھی منصور علی اپنے ہوش و حواس کو قابو میں رکھنے میں دقت محسوس کر رہے تھے۔ وہ اس وقت مکمل تیاری کے ساتھ تھی اور منصور علی کے چہرے کے بدلتے ہوئے رنگ اس کی نظروںسے چھپ نہیں سکے تھے۔ اس کے لیے یہ بدلتے رنگ کوئی انوکھی بات نہیں تھی۔ وہ جانتی تھی اس میں اتنی کشش تھی کہ وہ کسی کو بھی اپنی طرف متوجہ کر سکتی تھی۔
”میں سمجھ رہا تھا کہ میں جلدی پہنچ گیا’ مجھے انتظار کرنا پڑے گا۔” منصور علی نے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔
”نہیں’ انتظار کیوں کرنا پڑتا … آپ وقت پر آئے ہیں۔” رخشی نے خوبصورت مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔
”بہت کم لڑکیاں ہی وقت کی پابندی کرتی ہیں۔”
”میں ان کم لڑکیوں میں سے ہوں۔” رخشی نے اسی برجستگی سے کہا۔
”ہاں’ رخشی تو مجال ہے کہ کسی بھی کام سے ایک منٹ کے لیے بھی لیٹ ہو جائے۔” صاعقہ نے پہلی بار ان کی باتوں میں مداخلت کی۔ ”یہ تو ہمیشہ ہر کام وقت پر کرتی ہے۔”
”اچھا کرتی ہیں۔” منصور علی نے سراہا۔ ”میری بھی ایسی ہی عادت ہے۔”
”حالانکہ امبر کی عادت تو بالکل مختلف ہے۔” صاعقہ نے کہا اور بے اختیار پچھتائی ‘ وہ موقع امبر کو یاد دلانے کا نہیں تھا۔ منصور علی کچھ گڑبڑائے۔ ان کی سمجھ میں نہیں آیا۔ وہ صاعقہ کے اس تبصرے پر کیا کہیں۔ اس بار رخشی ان کی مدد کو آئی۔
”چلتے ہیں۔ دیر ہو رہی ہے۔” اس نے قدم آگے بڑھاتے ہوئے کہا۔ منصور علی نے اسے باہر نکلنے کے لیے راستہ دیا۔
اپنی گاڑی کے اندر بیٹھنے کے بعد انہوں نے رخشی کے لیے فرنٹ سیٹ کا دروازہ کھولا تھا۔ رخشی بلاجھجک اندر بیٹھ گئی۔ اس کے انداز میں بے پناہ اعتماد تھا۔
گاڑی کو مین روڈ پر لانے کے بعد منصور علی نے باقاعدہ اس کے ساتھ گفتگو کا آغاز کیا۔
”میں نے چند ایک پراپرٹی ڈیلرز کے ساتھ بات کی ہے۔ ان میں سے ایک مجھے کچھ زیادہ بہتر لگا۔ میں آپ کو اس کے پاس لے کر جا رہا ہوں۔” منصور علی نے کہا۔
وہ نہیں جانتے تھے کیوں مگر اس وقت اپنے برابر بیٹھی ہوئی رخشی انہیں بہت اچھی لگ رہی تھی۔ وہ بہت سالوں کے بعد ایک عجیب احساس سے دوچار ہو رہے تھے۔ منیزہ اور رخشی کی رفاقت میں بہت فرق تھا۔ منیزہ کے سامنے وہ کم عمر لگتے تھے اور رخشی ان سے کم عمر تھی۔ وہ شاید کبھی ان چیزوں پر غور کرنے کی عادت میں مبتلا نہ ہوتے۔ یہ ہارون کمال کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کے بعد ہوا تھا کہ انہوں نے سنجیدگی سے ان معاملات کے بارے میں سوچنا شروع کر دیا تھا۔ وہ عورتوں کی ہارون کمال کے لیے پسندیدگی سے واقف تھے اور انہیں اس معاملے میں ہارون پر رشک بھی آتا تھا مگر اس وقت ساتھ بیٹھی اپنی بیٹی کی ہم عمر لڑکی کی اس گاڑی میں موجودگی ان کے لیے آسمان کی سیر کے برابر تھی۔ ایک عجیب سی خوشی اور سکون کا احساس ہو رہا تھا۔
رخشی نے ان کی بات کے جواب میں کچھ نہیں کہا’ وہ صرف آہستہ سے مسکرا دی۔
”آپ کے گھر کا مسئلہ تو حل ہو جائے گا’ اس کے لیے آپ کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔” منصور علی نے کہا۔ ”مگر میں چاہتا ہوں کہ آپ بھی میرا ایک مسئلہ حل کر دیں۔”
رخشی ان کی بات پر حیران ہوئی۔ ”آپ کا مسئلہ … میں آپ کا کوئی مسئلہ کیسے حل کر سکتی ہوں؟”
منصور علی خوشگوار انداز میں مسکرائے۔ ”امبر نے مجھ سے کہا تھا کہ آپ جاب کرنا چاہتی ہیں۔ اتفاق دیکھیں کہ مجھے بھی پچھلے کچھ عرصے سے اپنے آفس کے لیے سیکرٹری کی ضرورت ہے۔”
رخشی گردن موڑے انہیں دیکھتی رہی۔ اس کا دل اس وقت سو میل فی گھنٹہ کی رفتار سے دھڑک رہا تھا۔ شاید زندگی میں پہلی بار اسے ایک کام کے لیے۔ بالکل ہی کوئی جدوجہد نہیں کرنی پڑی تھی۔ سب کچھ خودبخود ہی اس کی جھولی میں گر رہا تھا۔
”آپ سے بہتر یہ کام کوئی نہیں کر سکتا۔ میں نے ابھی امبر کو تو یہ بات نہیں بتائی کہ مجھے خود اپنے لیے سیکرٹری کی ضرورت ہے۔ اور میں آپ کو یہ جاب آفر کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں مگر میں نے سوچا ‘ میں پہلے اس سلسلے میں آپ سے خود بات کر لوں۔”
منصور علی شستہ لہجے میں اسے بتاتے گئے۔ رخشی نے اپنے چہرے کو حتیٰ المقدور بے تاثر رکھا۔
”مجھے تو بہت خوشی ہو گی آپ کے لیے کام کر کے مگر … مجھے جاب کا کوئی تجربہ نہیں۔” اس نے اپنے لہجے میں کچھ شرمندگی شامل کرتے ہوئے کہا۔
”آپ کی فیکٹری بہت بڑی ہے۔ اور پھر ذاتی طور پر خود آپ کے لیے کام کرنا’ یہ تو بہت چیلنجنگ ہے۔ میں ایسا مشکل کام نہیں کر سکتی’ مجھ میں اتنی صلاحیت اور قابلیت نہیں ہے۔”
”میں جانتا ہوں کہ آپ کو جاب کا کوئی تجربہ نہیں ہے اس کے باوجود میں آپ کو یہ جاب آفر کر رہا ہوں تو اس کی کوئی نہ کوئی وہ تو ضرور ہو گی۔” منصور علی نے کہا۔
”آپ امبر کے مجبور کرنے پر مجھے یہ جاب آفر کر رہے ہیں میں جانتی ہوں مگر میں یہ نہیں چاہتی کہ میری وجہ سے آپ کو بزنس میں کسی قسم کا نقصان اٹھانا پڑے۔ بہتر یہی ہے کہ آپ میرے لیے کسی اور جگہ جاب ارینج کر دیں۔” رخشی نے اسی انداز میں کہا۔
”میں آپ کو صرف امبر کے مجبور کرنے پر جاب آفر نہیں کر رہا ہوں’ میں نے آپ سے کہا نا کہ آپ میں بہت ٹیلنٹ ہے۔ خود اعتمادی ہے’ آپ خوش لباس اور گرومڈ ہیں اور خوبصورت بھی ہیں اور سیکرٹری کی جاب کے لیے انہیں چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے جہاں تک جاب سے متعلقہ چیزوں کا تعلق ہے تو آپ کو اس کے لیے باقاعدہ ٹریننگ دلوائی جائے گی۔ آپ اتنی ٹیلنٹڈ ہیں کہ بہت جد سیکھ لیں گی۔” منصور علی نے جیسے اسے یقین دلایا۔
”ٹھیک ہے … آپ اتنا اصرار کر رہے ہیں تو میں انکار تو نہیں کر سکتی۔ مجھے بڑی خوشی ہو گی۔ بلکہ یہ میرے لیے اعزاز کی بات ہے کہ میں آپ کے ساتھ کام کروں گی۔” رخشی نے بالآخر ہامی بھرلی۔
”میں آپ کو بہت اچھا پیکج دوں گا۔ بہت زیادہ فیسیلٹینر ملیں گی آپ کو … بلکہ بونس اور اچھے الاؤنسیز بھی ہوں گے۔” منصور علی نے اسے مزید ترغیب دی۔
”میرے لیے سب سے بڑا اعزاز اور بونس یہی ہے کہ میں آپ کے ساتھ’ آپ کے لیے کام کروں گی۔ باقی چیزیں بہت معمولی ہیں۔” رخشی نے ان کی بات کے جواب میں چہرے پر سنجیدگی لاتے ہوئے کہا۔ منصور علی اس کی بات پر خوش ہو گئے۔
ان کے درمیان گفتگو کا سلسلہ جاری رہا۔ منصور علی نے زندگی میں کبھی کسی اجنبی اور وہ بھی ایک لڑکی کے ساتھ اتنی باتیں نہیں کی تھیں جتنی انہوں نے اس شام رخشی کے ساتھ کیں’ وہ بہت اچھی سامع تھی۔ دوسرے کی بات یوں سنتی تھی جیسے اس سے زیادہ دلچسپ بات اس نے پہلے کبھی نہیں سنی تھی۔
پراپرٹی ڈیلر کے پاس جانے کے بعد منصور علی نے اسے ڈنر کی دعوت دی جسے رخشی نے قبول کر لیا’ اس کے بعد بھی وہ رات دیر تک لانگ ڈرائیور کرتے رہے۔ منصور علی نے ہر جگہ پر رخشی کو توجہ کا مرکز بنتے دیکھا تھا لوگوں کی نظروں میں اس کے لیے ستائش دیکھی تھی اور انہیں عجیب سے فخر کا احساس ہوا تھا۔ آخر وہ ان کے ساتھ تھی … اس رات رخشی کے ساتھ گھومتے ہوئے انہیں ہارون کمال کی باتوں پر یقین آ گیا تھا۔ خوبصورت عورت کی اداؤں میں واقعی جادو ہوتا ہے۔ ایسا جادو جو سرچڑھ کر بولتا ہے۔ یہ وہ کرنسی ہے جو ہر ملک میں کیش کروائی جا سکتی ہے۔ اور اس کرنسی کی قیمت ہر ملک میں ایک ہوتی ہے۔ رخشی کے ساتھ پھرتے ہوئے انہیں اندازہ ہو رہا تھا کہ اگر ان کے لیے رخشی کے سامنے مزاحمت کرنا مشکل ہو رہا تھا تو باقی لوگوں کے لیے یہ کام کتنا مشکل ہو گا۔ اور انہیں یہ یقین بھی ہو گیا تھا کہ سیکرٹری کے طور پر وہ سوشل اور بزنس سرکلز میں انہیں بہت آگے لے جانے والی تھی۔ وہاں سے کہیں آگے جتنا انہوں نے سوچا تھا۔
انہیں یہ احساس بھی ہو چکا تھا کہ رخشی کا خاندان کوئی زیادہ اچھا نہیں تھا۔ رخشی کا اعتماد اور انداز اس کی عمر کی لڑکیوں سے بہت زیادہ تھا اور ایسا اعتماد اور ایسا انداز کس طرح اور کس طبقے کی لڑکیوں میں ہوتا تھا’ کم از کم منصور علی اتنے بے وقوف نہیں تھے کہ یہ نہ جان پاتے’ اس کے باوجود حیرت انگیز بات تھی کہ ان کے دل میں رخشی کے لیے ناپسندیدگی نہیں تھی نہ ہی انہوں نے اس کے گھرانے کے بارے میں کچھ جاننے کی کوشش کی … اور شاید سب سے عجیب بات یہ تھی کہ ان کے دل میں رخشی اور اس کی فیملی کے لیے کوئی تحقیر کے جذبات بھی پیدا نہیں ہوئے تھے۔
رات ساڑھے دس بجے انہوں نے رخشی کو اس کے گھر ڈراپ کیا۔ اور پیدل گلیوں سے گزرتے ہوئے اس کے گھر کے اندر اس کے ساتھ گئے۔
”اتنی دیر … میں تو پریشان ہو گئی تھی۔” صاعقہ نے انہیں دیکھتے ہی قدرے تشویش کے عالم میں کہا۔
”بس امی … گھر دیکھنے چلے گئے تھے ہم…” رخشی نے دھڑلے سے جھوٹ بولا۔ ”پھر وقت کا پتا ہی نہیں چلا۔ منصور علی کو کچھ کہنے کی ضرورت نہیں پڑی۔
”مجھے اندازہ تو تھا کہ اس کام میں خاصی دیر لگے گی۔ مگر پھر بھی مجھے پریشانی ہو رہی تھی۔ منصور صاحب! آپ آئیں کھانا کھا کر واپس جائیں … آپ نے تو آج ہمارے لیے بہت وقت ضائع کیا۔” صاعقہ نے اس بار منصور علی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔
”ہاں منصور صاحب…! آپ آئیں۔” رخشی نے بھی صاعقہ کی ہاں میں ہاں ملائی۔
”نہیں کھانے کی ضرورت نہیں ہے۔” منصور علی نے کہا۔
”امی! کھانا تو منصور صاحب نے مجھے کھلا دیا …” رخشی نے منصور کی تائید کی۔
”بہت ہی اچھے آدمی ہیں منصور صاحب … آج واقعی ہمارے لیے انہوں نے اپنا بہت سا وقت ضائع کیا۔” رخشی نے معذرت خواہانہ نظروں سے منصور علی کو دیکھتے ہوئے کہا۔
”کوئی بات نہیں … بار بار اس بات کا ذکر کر کے مجھے شرمندہ نہ کریں … میں ضرور کھانا کھاتا اگر پہلے کھانا نہ کھا چکا ہوتا … لیکن اب مجھے گھر جانا ہے۔ بہت دیر ہو رہی ہے۔” منصور علی نے گھڑی دیکھتے ہوئے کہا۔
”پلیز چائے تو ضرور پی جائیں۔” رخشی نے اصرار کیا اور منصور علی اس بار کچھ نہیں کہہ سکے۔ وہ ان کے ساتھ اندر چلے گئے۔ آدھ گھنٹہ مزید وہاں بیٹھنے کے بعد جب وہ سوا گیارہ بجے کے قریب وہاں سے باہر نکلے تو انہیں عجیب سی کیفیات کا سامنا تھا۔ وہ ان کی زندگی کی سب سے اچھی شاموں میں سے ایک تھی اس بات میں انہیں کوئی شبہ نہیں تھا اور ان کا موڈ اس وقت بے حد خوشگوار تھا۔ مگر تشویش کی بات ان کے لیے یہ تھی کہ ان کا دل صاعقہ کے گھر سے آنے کو نہیں چاہ رہا تھا۔ وہ وہاں اور بیٹھنا چاہ رہے تھے’ وہاں سے باہر نکلنے کے بعد یک دم بہت سالوں کے بعد انہیں پہلی بار بے تحاشا تنہائی کا احساس ہوا۔
٭٭٭
”جاب کی آفر کی ہے منصور علی نے مجھے۔” اس رات منصور علی کے جانے کے بعد رخشی نے صاعقہ سے کہا۔
”اچھا … تم نے کیا کہا؟” صاعقہ مسکرائی۔
”میں نے قبول کر لی۔ جاب کی تلاش تو مجھے پہلے ہی تھی۔ ” رخشی نے اپنے جوتے کے اسٹریپس کھولتے ہوئے کہا۔
”کچھ زیادہ ہی جلدی آفر نہیں کر دی اس نے؟” صاعقہ نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔
”ہاں’ میں خود بھی حیران ہوئی تھی۔ مجھے توقع نہیں تھی کہ وہ اتنی جلدی یہ آفر کریں گے۔ مگر مجھے لگتا ہے’ وہ کچھ زیادہ ہی دلچسپی لینے لگے ہیں مجھ میں۔” رخشی نے تبصرہ کیا۔
”اور یہ یقینا امبر کی وجہ سے تو نہیں ہو گی۔”
”نہیں’ یہ امبر کی وجہ سے تو نہیں ہو سکتی … صرف امبر کے کہنے پر تو منصور جیسے مصروف آدمی اس طرح مجھے لیے جگہ جگہ نہیں پھر سکتے۔ آخر میرا اور ان کا تعلق ہی کیا ہے۔ اور منصور علی کوئی اتنے مہربان اور خوش اخلاق آدمی بھی نہیں کہ ہر ایک کا اتنا خیال کریں’ مجھے اندازہ ہو گیا ہے’ وہ مجھ میں دلچسپی لے رہے ہیں اور … شاید سیکرٹری کی یہ جاب بھی انہوں نے اسی دلچسپی کے پیش نظر میرے لیے رکھی ہے۔” رخشی نے اس بار قدرے سنجیدگی سے کہا۔
”تنخواہ کتنی آفر کی ہے اس نے ؟” صاعقہ نے پوچھا۔
”تنخواہ کے بارے میں میں نے ان سے نہیں پوچھا۔ مگر وہ خود ہی کہہ رہے تھے کہ وہ مجھے بہت اچھا پیکج دیں گے اور مجھے یقین ہے کہ وہ واقعی ایسا کریں گے۔ تو جب وہ خود ہی مجھے ایک اچھا پیکج آفر کر رے تھے تو میں خوامخواہ تفصیلات کیوں طے کرنے بیٹھ جاتی۔ وہ بھی اس طرح پہلی ہی ملاقات میں۔” رخشی نے کہا۔
”تم نے اچھا کیا جو تنخواہ وغیرہ کے بارے میں بات نہیں کی۔ مجھے بھی اندازہ ہے کہ وہ تمہیں اچھی تنخواہ پر ہی رکھے گا اور تنخواہ اچھی نہ ہوئی’ تب بھی امبر تو ہے ہی۔ تم اس سے کہنا۔ وہ بات کرے گی۔” صاعقہ نے کہا۔
”اس کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ میرا کام اس کے بغیر ہی ہو جائے گا۔ اور ویسے بھی منصور نے مجھ سے کہا ہے کہ وہ میری اس جاب کے بارے میں اپنی بیوی یا دوسرے لوگوں کو نہیں بتائیں گے۔ سوائے امبر کے۔ کیونکہ وہ پہلی بار پرسنل سیکریٹری رکھ رہے ہیں اور انہیں خدشہ ہے کہ شاید ان … کی بیوی اس کو پسند نہ کرے۔” رخشی نے کہا۔
”وہ طلحہ سے بھی اس معاملے میں بات کریں گے اور اس سے اور اپنے بھائی سے بھی یہی کہیں گے کہ خاندان میں کسی کو اس کے بارے میں نہ بتائے تاکہ انہیں پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔”
”یہ سب اس نے تمہیں خود بتایا ہے؟”
”ہاں امی … ورنہ میں کیسے آپ کو یہ سب بتا سکتی ہوں۔” رخشی نے مسکراتے ہوئے کہا۔ ”ان سے آج میری بہت لمبی چوڑی بات ہوئی ہے … بہت اچھے آدمی ہیں منصور علی … میری توقعات سے زیادہ اچھے۔” رخشی نے آخری جملہ بڑبڑاتے ہوئے ادا کیا۔
”امبر کاری ایکشن کیا ہو گا اس جاب کے بارے میں ؟” صاعقہ نے پوچھا۔
”کچھ بھی نہیں … وہ پہلے ہی منصور سے میرے لیے جاب کا کہہ چکی ہے۔” رخشی نے لاپروائی سے کہا۔ ”وہ تو بہت خوش ہو گی۔ جب اسے یہ پتا چلے گا کہ میں منصور ہی کے دفتر میں کام کر رہی ہوں۔” رخشی نے کہا۔
”اور اگر اسے اچھا نہ لگا تو …؟”
”تو …؟ تو کچھ بھی نہیں۔ میں پھر بھی جاب کرتی رہوں گی۔ میرے لیے امبر کی پسند ناپسند کوئی معنی نہیں رکھتی۔” اس نے دوٹوک انداز میں کہا۔
٭٭٭




Loading

Read Previous

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۵

Read Next

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۷

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!