تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۶

”امبر کے والد آئے ہیں۔” صاعقہ نے رخشی کو اطلاع دی۔ وہ اپنے کمرے میں بیٹھی ہوئی تھی۔”میں نے انہیں ڈرائنگ روم میں بٹھایا ہے۔”
”امبر کے پاپا … مگر یہاں اس طرح اچانک کیسے آ گئے۔” رخشی حیرانی سے اپنی کرسی سے اٹھ کھڑی ہوئی۔
”پتا نہیں … یہ تو میں نے ان سے نہیں پوچھا … وہ تم سے ملنا چاہتے ہیں … تم ڈرائنگ روم میں آ جاؤ …” صاعقہ کہتے ہوئے کمرے سے نکل گئی۔
رخشی نے ان کے جانے کے بعد اپنی الماری کھولی اور وہاں لٹکا ہوا ایک سوٹ نکال لیا۔ کپڑے تبدیل کرنے کے بعد اس نے اپنے ہونٹوں پر لپ اسٹک لگائی اور پھر بالوں کو برش کر کے انہیں جوڑے کی شکل میں باندھتے ہوئے ڈرائنگ روم میں آ گئی۔
وہاں منصور علی صاعقہ کے ساتھ باتوں میں مصروف تھے۔ رخشی نے انہیں سلام کیا اور پھر صاعقہ کے برابر صوفہ پر جا کر بیٹھ گئی۔
”میں سمجھتا تھا’ اس پر صرف سفید رنگ اچھا لگتا ہے۔ اس پر تو ہر رنگ اچھا لگتا ہے۔” منصور علی نے سبز رنگ کے اس شلوار قمیض کو دیکھتے ہوئے سوچا جس میں وہ ملبوس تھی۔
”امبر نے کچھ عرصہ پہلے مجھ سے ذکر کیا تھا کہ آپ لوگ اپنا گھر تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔” منصور علی نے گفتگو کا آغاز کیا ”وہ چاہتی تھی کہ میں اس سلسلے میں آپ کی مدد کروں۔ میں کچھ مصروف تھا اس لیے فوری طور پر کچھ نہیں کر سکا۔
”یہ تو آپ کی بہت عنایت ہے منصور صاحب۔” صاعقہ نے ممنون انداز میں کہا۔ ”امبر کے پہلے ہی ہم پر بہت احسانات ہیں۔”
منصور علی نے صاعقہ کی بات کاٹ دی۔ ”اس میں عنایت اور احسان والی کوئی بات نہیں۔ رخشی امبر کی دوست ہے … اگر امبر یا میں آپ لوگوں کے لئے کچھ کرتے ہیں تو اس میں احسان والی کیا بات ہے … یہ تو تعلق کی بات ہے۔” منصور علی نے کہا۔
”یہ تو آپ کا بڑا پن … آپ کی اعلاظرفی ہے کہ آپ اس طرح سوچ رہے ہیں ورنہ آج کے زمانے میں کون اس طرح سوچتا ہے۔” صاعقہ نے ایک بار پھر اسی ممنونیت سے کہا۔
”میں ویسے بھی امبر کی کسی بات کورد نہیں کر سکتا۔” منصور علی نے ایک بار پھر مسکراتے ہوئے کہا۔ ”اس کی بات میرے لیے پتھر پر لکیر ہوتی ہے … اور اس نے خاص طور پر مجھے رخشی کی مدد کرنے کے لیے کہا ہے۔”




منصور علی نے اس بار رخشی کی طرف دیکھا جو ان کی بات پر مسکرائی۔
”اب آپ لوگ مجھے بتائیں کہ آپ کو کیسا گھر چاہیے … اور کس علاقے میں چاہیے۔” انہوں نے اگلا سوال کیا۔
”اس سلسلے میں تو آپ ہی ہماری رہنمائی فرمائیں تو اچھا ہے … ہمیں تو اتنا زیادہ پتہ نہیں ہے … بس ہم یہ چاہتے ہیں کہ جو بھی علاقہ ہو … وہ اچھا ہو … پُرسکون ہو … اور گھر کا کرایہ بہت زیادہ نہ ہو۔” صاعقہ نے منصور علی کے سوال کے جواب میں کہا۔
”اگر آپ لوگ میرے ساتھ کسی دن کسی پراپرٹی ڈیلر کے پاس چلیں تو یہ بہتر رہے گا … آپ ذاتی طور پر اسے اپنی ضروریات بتا دیں گی تو اس کے اور آپ کے دونوں کے لیے آسانی ہو جائے گی۔” منصور علی نے مزید کہا۔
”آپ جب کہیں ہم چلتے ہیں۔” صاعقہ نے کہا۔
”اگر آپ کے لیے ممکن ہو تو کل کا دن رکھ لیں۔” منصور علی نے تجویز پیش کی۔
”کیوں نہیں … کل ہی چلتے ہیں … جتنی جلدی یہ کام ہو جائے ہمارے لیے اتنا بہتر ہے… ” صاعقہ نے فوری طور پر کہا۔
”تو ٹھیک ہے پھر میں کل آپ لوگوں کو اپنے ساتھ لے چلوں گا۔” منصور علی کی نظریں رخشی کے چہرے پر تھیں۔
”امی تو نہیں جا سکیں گی’ میں آپ کے ساتھ چلوں گی۔” رخشی جلدی سے بولی۔
”ہاں بہتر ہے’ رخشی چلی جائے … یہ زیادہ اچھے طریقے سے گھر دیکھ لے گی۔” صاعقہ نے رخشی کی تائید کی۔
رخشی کے گھر آتے ہوئے منصور علی نے بالکل یہ نہیں سوچا تھا کہ انہیں اس طرح رخشی کے ساتھ اکیلے کہیں جانے کا موقع ملے گا اور وہ مکمل طور پر حیرت زدہ تھے… مگر اس حیرت نے اس خوشی کو ختم نہیں کیا تھا جو یک دم ان کے اندر پیدا ہوئی تھی۔
”ٹھیک ہے جس طرح آپ لوگ بہتر سمجھیں۔” انہوں نے بظاہر معمول کے انداز میں کہا اور اٹھ کر کھڑے ہو گئے۔
”ارے آپ اتنی جلدی اٹھ گئے … میں تو چائے تیار کروا رہی ہوں آپ کے لیے۔” صاعقہ نے منصور علی کو اٹھتے دیکھ کر کہا۔
”چائے پھر کبھی سہی … ابھی تو مجھے بہت ضروری کام ہے۔” منصور علی نے گھڑی دیکھتے ہوئے کہا۔
”مگر زیادہ وقت نہیں لگے گا۔” رخشی نے اس بار مداخلت کی۔ ”آپ پلیز بیٹھ جائیں … چائے بالکل تیار ہی ہے۔”
منصور علی اس بار انکار نہیں کر سکے۔ صاعقہ چائے لینے کے لیے ڈرائنگ روم سے نکل گئی۔ رخشی اور منصور علی اب ڈرائنگ روم میں اکیلے تھے۔
”امبر آپ کا بہت ذکر کرتی رہتی ہے۔” رخشی نے اس خاموشی کو توڑنے میں پہل کی۔
منصور علی کے چہرے پر ایک مسکراہٹ پھیل گئی۔ ”امبر تو آپ کا بھی بہت ذکر کرتی ہے۔” اس بار مسکرانے کی باری رخشی کی تھی۔
”ہاں ‘ امبر مجھ سے بہت محبت کرتی ہے۔”
”آج کل اپنی فرینڈز میں سے وہ صرف آپ کا ہی ذکر کرتی ہے۔” منصور علی نے کہا۔
”وہ بہت اچھی ہے۔”
”ہاں اس میں کوئی شک نہیں … میں اس سے بہت محبت کرتا ہوں … اپنی اولاد میں سب سے زیادہ میں اسی سے قریب ہوں۔”
منصور علی نے کہا۔ رخشی نے اس بار کچھ نہیں کہا۔ لاشعوری طور پر منصور علی کو احساس ہوا کہ بات کرنے کے لیے امبر کا موضوع کچھ نامناسب تھا … کم از کم اس وقت۔
”میں نے کالج میں ہونے والے ورائٹی پروگرام کی فلم دیکھی۔”
منصور علی نے اچانک موضوع تبدیل کر دیا۔ رخشی نے قدرے چونک کر اسے دیکھا۔ منصور علی کے منہ سے مووی کا ذکر کچھ عجیب لگا تھا اسے۔
”آپ نے بہت اچھی ایکٹنگ کی۔” منصور علی نے کچھ جھجکتے ہوئے تعریف کی۔ رخشی کے لیے یہ اور حیرانی کی بات تھی۔ منصور علی سے اس سے پہلے اس کی جتنی بھی ملاقاتیں ہوئی تھیں’ اس میں وہ بڑے ریزرو رہے تھے۔ ان تمام مواقع پر امبر ان کے ساتھ موجود ہوتی تھی اور امبر کی موجودگی میں منصور علی کی توجہ مکمل طور پر اس پر ہوتی تھی … حال احوال اور سلام دعا کے علاوہ ان کے درمیان کوئی بات نہیں ہوتی تھی … آج پہلی بار اسے منصور علی کا لہجہ کچھ بدلا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔
وہ مسکرائی۔ ”ارے نہیں۔ اتنی اچھی ایکٹنگ تو نہیں کی تھی … یہ تو بس ایسے ہی ایک ایڈونچر تھا۔”
”ایڈونچر تھا یا جو بھی تھا … مجھے بہرحال بہت اچھی لگی آپ کی ایکٹنگ ۔” منصور علی کو اس کی مسکراہٹ سے جیسے کچھ حوصلہ ملا۔
”امبر مجھ سے کہہ رہی تھی کہ آپ بہت خوبصورت لگ رہی تھیں اس رول میں … میں سمجھ رہا تھا’ ایسے ہی تعریف کر رہی ہے … کیونکہ آپ کی تعریفیں وہ اکثر کرتی رہتی ہے … لیکن وہ پلے دیکھ کر میں واقعی بہت متاثر ہوا۔”
اس بار منصور علی نے کھل کر اس کی تعریف کی۔ رخشی کی مسکراہٹ گہری ہو گئی۔ ”یہ تو آپ شاید میرا دل رکھنے کے لیے کہہ رہے ہیں … ورنہ امبر نے اس میں مجھ سے زیادہ اچھا رول کیا تھا اور وہ زیادہ خوبصورت نظر آئی تھی … میں تو اس کے سامنے کچھ بھی نہیں لگ رہی تھی۔”
”نہیں امبر خوبصورت لگ رہی تھی مگر آپ بھی اتنی ہی خوبصورت لگ رہی تھیں اور جہاں تک ایکٹنگ کا تعلق ہے … آپ نے امبر سے زیادہ اچھی ایکٹنگ کی ہے۔” منصور علی نے اس بار کچھ اور بے تکلفی سے کہا۔
”اب اس پر میں آپ کا شکریہ ادا کرنے کے علاوہ اور کچھ نہیں کہوں گی … آپ کی یہ رائے ہے … تو پھر ایسا ہی ہو گا۔” رخشی نے کہا۔ ”آپ کی رائے میرے لیے بہت اہمیت رکھتی ہے۔”
اس سے پہلے کہ منصور علی کچھ اور کہتے صاعقہ چائے کی ٹرالی اندر لے آئی۔
منصور علی کچھ کہتے کہتے خاموش ہو گئے۔ مگر کچھ دیر پہلے وہاں موجود تکلف کا ماحول یک دم ختم ہو گیا تھا۔ چائے بڑے بے تکلف ماحول میں پی گئی۔ صاعقہ اور رخشی کے ساتھ بڑے خوشگوار ماحول میں بات چیت ہوتی رہی پھر وہ دونوں انہیں دروازے تک چھوڑنے بھی گئیں ۔ جب وہ دروازے پر پہنچے تو منصور علی نے کہا۔
”مجھے افسوس ہے کہ آج میں آپ کے ہاں خالی ہاتھ آیا … بس کچھ جلدی میں آیا تھا … اگلی بار ایسا نہیں ہو گا۔”
”نہیں’ ایسی کوئی بات نہیں … آپ ہمارے ہاں آئے یہی آپ کی مہربانی ہے۔” صاعقہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”پھر بھی … کسی کے گھر جاتے ہوئے کم از کم میں خالی ہاتھ نہیں جایا کرتا۔” منصور علی نے کہا۔
”یہ کسی کا گھر نہیں ہے … امبر کے حوالے سے یہ آپ کا ہی گھر ہے اور آپ ہمارے لیے کوئی غیر نہیں ہیں … پھر اپنوں میں تو ایسے تکلفات نہیں ہوتے۔” اس بار رخشی نے کہا۔
”اگر یہ اپنا گھر ہے تو پھر تو مجھے خالی ہاتھ آنے پر زیادہ شرمندگی ہے۔ کیونکہ اپنے گھر تو میں کبھی بھی خالی ہاتھ نہیں جاتا۔”
منصور علی نے برجستگی سے کہا۔ صاعقہ اور رخشی نے ان کی بات پر ایک قہقہہ لگایا۔
”کل آپ تین بجے تیار رہیے گا … میں آپ کو پک کر لوں گا۔” منصور علی نے رخشی کو یاد دلایا۔
”آپ فکر نہ کریں … اسے یاد نہ بھی رہا تو مجھے یاد رہے گا … یہ تیار رہے گی۔” صاعقہ نے رخشی کے کچھ کہنے سے پہلے کہا۔ منصور علی خدا حافظ کہتے ہوئے گھر سے نکل گئے۔
اس گلی سے نکل کر کچھ فاصلے پر موجود اپنی گاڑی میں بیٹھ کر وہ بہت دیر تک اس ملاقات کے بارے میں سوچتے رہے تھے’ حیران کن طور پر ان کا موڈ بے حد خوشگوار تھا اور رخشی اور صاعقہ کے ساتھ گزارا ہوا کچھ وقت انہیں اس دن کا سب سے بہترین وقت لگ رہا تھا۔ انہوں نے صاعقہ اور رخشی سے ادھر اُدھر کے سوالات نہیں کیے تھے۔ اگرچہ انہیں ان کے گھر’ رخشی کے والد اور اس کی بہن کے معاملے کے بارے میں تجسس تھا مگر اس تجسس کا اظہار انہوں نے پہلی ہی ملاقات میں نہیں کیا … رخشی کے گھر آتے وقت انہیں بالکل بھی یہ اندازہ نہیں تھا کہ وہاں انہیں اس قدر بے تکلف ماحول ملے گا۔ مگر وہ بے تکلفانہ ماحول انہیں کسی بھی طرح برا نہیں لگا تھا بلکہ بہت عرصے کے بعد انہیں کسی کے گھر بیٹھ کر اتنی اچھی فیلنگز کا احساس ہوا تھا شاید اس کی وجہ رخشی تھی … یا پھر شاید یہ اس ڈپریشن سے آزادی کا نتیجہ تھا جس کاشکار وہ اس رات سے تھے جس رات انہوں نے رخشی کو اس مووی میں دیکھا تھا … اس کے بعد اگلے کئی دن وہ ایک عجیب سے اضطراب کاشکار رہے تھے۔ رخشی کسی طرح بھی ان کے ذہن سے نہیں نکل رہی تھی اور آج وہ بے اختیار کسی معمول کی طرح اس کے گھر چلے آئے تھے۔ اس بات کی پروا کیے بغیر کہ وہ ان کی اس طرح اچانک آمد کو کیا مفہوم پہنائے گی یا کتنا نامناسب سمجھے گی… ان کے لیے اتنا ہی کافی تھا کہ وہ ایک بار پھر اس کا چہرہ دیکھ سکیں گے … اور اس بات نے ان کی مسرت میں اضافہ کیا تھا کہ رخشی نے وہاں ان کی اس طرح اچانک آمد پر کسی حیرانی کا اظہار کیا تھا’ نہ ہی کسی ایسے ردعمل کا جس پر ان کو شرمندگی یا پچھتاوا محسوس ہوتا۔
وہ غیر معمولی طور پر مسرور تھے اور بہت دیر تک وہ گاڑی اسٹارٹ کیے بغیر وہیں بیٹھے رہے … پھر بہت دیر بعد ایک گہری سانس لے کر انہوں نے گاڑی اسٹارٹ کی۔
”یہ منصور علی کیسے آدمی ہیں؟” منصور علی کے جانے کے بعد صاعقہ نے پلٹ کر رخشی سے پوچھا۔ اس کے لہجے میں بے حد تجسس تھا۔
”آپ کو کیسے لگے ہیں؟” رخشی نے اپنے کمرے کی طرف جاتے ہوئے کہا۔
”مجھے تو بہت اچھے لگے ہیں۔” صاعقہ نے اپنی رائے دی … وہ زندگی میں پہلی بار منصور علی کی حیثیت کے آدمی سے ملی تھی … ان کا لباس’ ان کے اندازو اطوار’ ان کی نشست و برخاست ہر چیز ان کے خاندانی رئیس ہونے کا منہ بولتا ثبوت تھی … صاعقہ آج تک جن آدمیوں سے میل جول رکھے ہوئے تھی وہ سب نو دولتیا کلاس تھی … ان میں اور منصور علی میں زمین و آسمان کا فرق تھا اور یہ فرق پہلی ہی نظر میں صاعقہ جیسی عورت نے بھانپ لیا تھا۔
”ہاں۔ آپ کا خیال ٹھیک ہے … بہت اچھے آدمی ہیں۔”
”تم سے پہلے بھی کبھی ان کی ملاقات یا بات چیت ہوئی ہے؟” صاعقہ نے کچھ سوچتے ہوئے پوچھا۔
”ہاں ملاقات تو کئی بار ہوئی ہے … ایک دو بار امبر کے ساتھ کالج سے واپسی پر مجھے ڈراپ کرنے آئے تھے اور چند بار ان کے گھر پر ان سے ملاقات ہوئی تھی مگر بات چیت اور اس طرح کی بات چیت جس طرح آج ہوئی ہے’ وہ پہلے کبھی نہیں ہوئی تھی ان جیسے آدمی ہر ایک کے ساتھ تفصیلی گفتگو نہیں کیا کرتے۔” رخشی نے عجیب سے انداز میں مسکراتے ہوئے کہا۔
”تو پھر آج یہ ہمارے گھر کیسے آ گئے اور وہ بھی اس طرح اکیلے … کیا صرف امبر کے کہنے پر۔” صاعقہ نے کہا۔ رخشی ان کی بات کا جواب دینے کے بجائے کچھ سوچنے لگی۔
”یہ تو ابھی مجھے دیکھنا ہے کہ یہ بے تکلفی اور اپنائیت امبر کا کمال ہے یا پھر…” وہ کچھ کہتے کہتے رکی۔
”یا پھر ؟” صاعقہ نے اس کے ادھورے جملے کو دہرایا۔
”یا پھر … کوئی اور بات ہے۔”
”کوئی اور بات ؟”
”کالج کے اس پروگرام میں بنی میری فلم دیکھی ہے انہوں نے … اور مجھ سے کہہ رہے تھے کہ میں نے اس کھیل میں بہت اچھا کام کیا ہے۔ ” رخشی نے عجیب سے انداز میں کہا۔
”میں حیران ہوں’ منصور علی جیسا آدمی ایک فلم … اور وہ بھی میری فلم کے لیے وقت کیسے نکال پاتا ہے اور پھر تعریف …” وہ کچھ الجھی ہوئی تھی۔ اس بار صاعقہ اس کے جملے پر مسکرائی۔
”مگر اچھے آدمی ہیں یہ … دوسرے مردوں سے مختلف ہیں۔ کم از کم ان مردوں سے جن سے ہم ملتے ہیں۔” صاعقہ نے کہا۔
”ہاں مختلف ہیں … اس میں کوئی شبہ نہیں … مگر کتنے مختلف ہیں۔ اس کا اندازہ تو ان سے چند بار اور مل کر ہی ہو گا۔” رخشی اب کسی گہری سوچ میں ڈوب گئی تھی۔
”تم نے طلحہ کو فون کیا تھا’ وہ آیا نہیں؟” صاعقہ نے اچانک اسے یاد دلایا۔
”ہاں چند دن گزر گئے ہیں’ وہ نہیں آیا … میں اس کو دوبارہ فون کروں گی … دیکھوں گی کیا مسئلہ ہے۔” رخشی کو بھی اچانک یاد آیا۔
”تم سے تو اس نے اگلے ہی دن آنے کا وعدہ کیا تھا۔” صاعقہ نے کہا۔
”میں کیا … اور مجھ سے کیا گیا وعدہ کیا …” رخشی مسکرائی۔ ”میں امبر تو نہیں ہوں امی۔” صاعقہ کچھ دیر اسے دیکھتی رہی پھر کمرے سے نکل گئی۔
٭٭٭




Loading

Read Previous

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۵

Read Next

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۷

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!