تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۶

کچھ دیر بعد منصور علی اور منیزہ باہر سے اندر آئے تو امبروہیں کھڑی تھی۔ روشان صبغہ وغیرہ کے ساتھ پہلے ہی اپنے بیڈ روم میں جا چکا تھا۔
”اب آنے کا کیا فائدہ ؟ وہ لوگ تو چلے گئے۔” منیزہ نے اسے وہاں کھڑے دیکھ کر یہ سمجھا کہ شاید وہ ان مہمانوں سے ملنے کے لیے وہاں آئی تھی۔
”ہاں مجھے پتا ہے کہ وہ چلے گئے ہیں۔ میں اسی لیے تو یہاں آئی ہوں۔” امبر نے قدرے سنجیدگی سے کہا۔
”اچھا ہوتا تم بھی ان سے مل لیتیں … تمہارے بارے میں پوچھ رہے تھے وہ دونوں۔” منیزہ نے کہا منصور علی اپنے کمرے میں چلے گئے تھے۔
”ان کی بیوی پوچھ رہی تھیں میرے بارے میں ؟” امبر نے اگلا سوال کیا۔
”نہیں بھئی’ وہ خود بھی پوچھ رہے تھے بلکہ سب سے پہلے تو انہوں نے ہی تمہارا ذکر کیا۔” امبر کچھ الجھی ہوئی نظروں سے انہیں دیکھنے لگی۔
”ممی! پاپا کے یہ دوست کتنے پرانے ہیں؟”
”زیادہ پرانے نہیں ہیں۔ چند ہفتے پہلے ہی ان کی دوستی ہوئی ہے منصور سے۔” منیزہ نے صوفہ پر بیٹھتے ہوئے کہا۔
”پاپا ان کے ساتھ کیا بزنس کرنا چاہتے ہیں؟”
”یہ اکٹھے بزنس کرنے کا آئیڈیا کس کا تھا؟ ہارون کمال کا؟” امبر نے منیزہ سے پوچھا۔
”نہیں بنیادی طور پر تو یہ تمہارے پاپا کا ہی ارادہ ہے۔ ہارون کمال سے تو ابھی سرسری سی بات ہوئی ہے … کوئی تفصیلات طے نہیں ہوئیں … صرف یہ ہے کہ اس کا رویہ بہت پوزیٹو تھا۔” منیزہ نے کہا۔
”ویسے ممی یہ کچھ رسکی نہیں ہے … میرا مطلب ہے کہ ایک ایسے آدمی کے ساتھ بزنس شروع کرنا … جسے پاپا ٹھیک طرح سے جانتے بھی نہیں۔” اس نے الجھے ہوئے انداز میں کہا۔ ”پاپا تو اتنی جلدی کسی پر اعتبار نہیں کرتے اور بزنس کرنا تو بہت دور کی بات ہے پھر ہارون کمال کے بارے میں وہ کچھ ضرورت سے زیادہ گرم جوشی نہیں دکھا رہے۔”




”تمہیں ہارون کمال کے بارے میں پتا نہیں ہے۔ وہ کوئی معمولی آدمی نہیں ہے … اس ملک کے چند بڑے انڈسٹریلٹس میں سے ایک ہے وہ۔ اس کے ساتھ اگر وہ پارٹنر بنتے ہیں تو اس میں ہارون سے زیادہ ہمارا ہی فائدہ ہے۔ ہارون کمال کو تو یہاں کسی تعارف کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ اس کی بہت اچھی ساکھ ہے … مگر منصور کو اس کے ساتھ کام کر کے بہت فائدہ ہو گا۔” منیزہ نے مرعوب سے انداز میں کہا۔
”ممی ! اگر ہارون کمال کے پاس سب کچھ ہے تو میری سمجھ میں نہیں آ رہا کہ اسے پاپا کے ساتھ بزنس کرنے کی کیا ضرورت ہے … آپ خود ہی کہہ رہی ہیں کہ وہ چند بڑے انڈسٹریلٹس میں سے ایک ہے۔ پھر آخر اسے کیا ضرورت آن پڑی ہے کہ وہ پاپا جیسے ایک نئے آدمی کے ساتھ بزنس پارٹنر شپ کرنے کا سوچ رہا ہے … ایسے لوگ تو سولو فلائٹ پر یقین رکھتے ہیں۔” امبر اب بھی مطمئن نہیں ہوئی۔
”اب اس طرح کی باتیں تو ہارون کمال سے پوچھی نہیں جا سکتیں یقینا اسے بھی کوئی نہ کوئی فائدہ ضرور نظر آیا ہو گا۔ ورنہ وہ سوشل ورک کے طور پر تو یہ کام نہیں کرنا چاہتا ہو گا۔”
”اس کی وائف تو خاصی خوبصورت ہے۔” امبر نے شائستہ کی تعریف کی وہ جاتے جاتے اسے دیکھ چکی تھی اور اس سے واقعی متاثر ہوئی تھی۔
”ہاں’ شائستہ واقعی بہت خوبصورت ہے۔ مجھے تو خود بہت اچھی لگی ہے اور اخلاق بھی بہت اچھا ہے اس کا۔” منیزہ کے کھلے دل سے شائستہ کی تعریف کی۔
”ویسے مجھے حیرت ہو رہی ہے کہ تم ان کے بارے میں اتنا کیوں پوچھ رہی ہو۔ اس سے پہلے تو تم نے کبھی اپنے پاپا کے کسی دوست یا ان کے خاندان میں اتنی دلچسپی نہیں لی؟”
”اس سے پہلے پاپا نے بھی تو کبھی اپنے کسی دوست کو ہارون کمال اور اس کی فیملی جتنی اہمیت نہیں دی۔” اس نے ترکی بہ ترکی جواب دیا۔
منیزہ نے اس بار کچھ نہیں کہا۔ وہ اٹھ کر اپنے کمرے کی طرف چلی گئی۔ جبکہ امبر سیڑھیاں چڑھتے ہوئے بھی ہارون کمال کے بارے میں سوچتی رہی۔
اپنی خوبصورتی کی وجہ سے وہ ہمیشہ لوگوں کی خاص توجہ کا مرکز بنتی رہی تھی اور اسی وجہ سے وہ چھوٹی موٹی باتیں اگنور بھی کر دیا کرتی تھی … ہارون کمال کے بارے میں اسے واحد تشویش یہ تھی کہ وہ اس سے ہونے والی ملاقات کے چند ہفتوں بعد ہی ایک خاص مہمان کے طور پر اس کے گھر پر موجود تھا …
وہ آدمی بہت پُرکشش تھا مگر امبر کو لاشعوری طور پر اس کے لیے عجیب سی ناپسندیدگی محسوس ہو رہی تھی … وہ اس ناپسندیدگی کی کوئی بھی وجہ تلاش کرنے میں ناکام ہو رہی تھی … صرف یہ تھا کہ جب بھی وہ ہارون کمال کا تصور کرتی اس کے ماتھے پر غیر محسوس طور پر کچھ بل نمودار ہو جاتے تھے۔ وہ لاشعوری طور پر اس سے تنفر محسوس کر رہی تھی اور ایسا اس کے ساتھ بہت کم ہوتا تھا مگر اس بار ایسا ہو رہا تھا۔
٭٭٭
”آپ نے گانا کیوں چھوڑ دیا ؟” اس منحنی سے قدوقامت والے اخبار نویس نے عینک کو اپنی ناک پر نئے سرے سے ٹکاتے ہوئے اگلا سوال پوچھا۔ سامنے بیٹھی ہوئی عورت مسکرائی۔ اخبار نویس نے اعتراف کیا کہ اس کی مسکراہٹ آج بھی اتنی ہی خوبصورت تھی جتنی بیس سال پہلے … جب وہ اس کے پروگرامز میں اسے سننے جایا کرتا تھا۔
”چھوڑا کہاں … چھڑوا دیا گیا۔” اس نے ایک گہرا سانس لیتے ہوئے کہا۔
”کس نے چھڑوایا؟” اخبار نویس نے فوراً پوچھا۔
”گھرداری نے چھڑوادیا۔” اس نے بلا توقف کہا۔
”یہ تو بڑا ظلم کیا آپ نے اپنے سننے والوں پر ۔”
”سننے والوں سے زیادہ اپنے اوپر ظلم کیا … مگر اختر صاحب کچھ مجبوریاں بھی ہوتی ہیں۔” اس نے ایک اور گہرا سانس لیا۔
”ارے مجبوریوں کو چھوڑیں … بہت ساری گلوکارائیں گھرداری بھی کرتی ہیں اور انہوں نے گانا بھی نہیں چھوڑا۔”
”وہ خوش قسمت ہوتی ہیں۔”
”خوش قسمت تو آپ بھی تھیں۔ مگر آپ نے خود ہی اپنی آواز اور سننے والوں کے ساتھ زیادتی کی … بلکہ میں تو کہتا ہوں’ قوم کو ایک اچھی آواز بلکہ موسیقی کے ایک قیمتی اثاثہ سے محروم کر دیا۔” اخبار نویس نے وہ جملہ بولا جو وہ ایسے انٹرویوز کے دوران ہزاروں بار بول چکا تھا۔
”بس اب تو وقت گزر گیا’ اب کیا ہو سکتا ہے۔” اس نے اپنی بھڑکیلی چمک دار ساڑھی کے پلوکو اپنے گرد لپیٹتے ہوئے کہا۔
”کیوں نہیں ہو سکتا جناب! اب بھی بہت کچھ ہو سکتا ہے۔ میں تو کہتا ہوں’ آپ آج موسیقی کی دنیا میں اپنی واپسی کا اعلان کر دیں تو تہلکہ مچ جائے گا۔” اخبار نویس نے بڑے جوش و خروش کے ساتھ پیسٹری سے انصاف کرتے ہوئے کہا۔
”بڑی بڑی گلوکاراؤں کے پیروں تلے سے زمین نکل جائے گی … آپ ایک دفعہ آنے کا اعلان تو کریں۔”
”چھوڑیں اختر صاحب! اب تو وقت گزر گیا … ہم تو بہت پرانے ہو گئے۔”
”ارے بھئی’ آپ نے وہ کہاوت سنی ہے۔ گھسی پٹی سہی مگر سچی تو ہے Old is gold… آپ جیسی آوازیں تو انمول ہوتی ہیں جب جب آدمی سنتا ہے مسحور ہو جاتا ہے۔” اخبار نویس نے ایک اور پیسٹری اٹھاتے ہوئے کہا۔ اس کا چہرہ اس کی بات پر چمکنے لگا۔
”یہ تو آپ کی ذرہ نوازی ہے کہ آپ نے اب تک یاد رکھا ہوا ہے اختر صاحب…!”
”ہم نے کیا یاد رکھا ہے … اچھی آواز اور اچھا چہرہ خود اپنے آپ کو یاد رکھواتے ہیں۔ اور آپ تو ماشاء اللہ دونوں خوبیاں رکھتی ہیں۔ میرے پاس تو گھر میں اب بھی آپ کے ریکارڈ پڑے ہوئے ہیں۔ ریڈیو اور ٹی وی دونوں کے … بلکہ فلموں کے بھی … اکثر بیٹھ کر سنتا ہوں میں … بلکہ بعض دفعہ تو اپنے احباب کو بھی سنواتا ہوں کہ دیکھیں کیسی کیسی آوازیں ہیں جو گوشئہ گمنامی میں جا بیٹھیں۔”
اس کے چہرے پر ایک سایہ سا لہرایا۔ ”گوشہء گمنامی کس کو اچھا لگتا ہے اختر صاحب! یہ تو مجبوریاں ہوتی ہیں جو یوں سب کچھ چھوڑ دینے پر مجبور کرتی ہیں۔”
”آپ تو مجھے بتا رہی تھی کہ آپ کے شوہر نے آپ کی آواز کے عشق میں گرفتار ہو کر آپ سے شادی کی … پھر انہوں نے آپ کے گانے پر پابندی کیوں لگا دی۔ انہیں آپ جیسی اچھی گلوکارہ کے ساتھ تعاون کرنا چاہیے۔
”وہ بھی مجبور تھے … آپ کو تو پتا ہے وڈیرے ہیں وہ … شادی کے بعد اندرون سندھ جا کر رہنا پڑا مجھے … شہر میں رہتی تو شاید کبھی گاہی لیتی مگر گوٹھ سے صرف گانے کی ریکارڈنگ کے لیے شہر آنا ممکن نہیں تھا میرے لیے۔”
”تو کبھی کبھار کوئی پروگرام ہی کر لیتیں … کسی محفل کا انعقاد ہی کر دیتیں۔ کوئی دعوت ہی سجا دیتیں۔”
”میرے شوہر کو یہ پسند نہیں تھا آپ کو تو پتا ہی ہے کہ وڈیرے اس معاملے میں کتنے تنگ نظر ہوتے ہیں۔ وہ میرا اس طرح پروگرام کرنا برداشت نہیں کر سکتے تھے۔ اس لیے میں نے ایسے پروگرام کرنا ہی چھوڑ دیے … بعد میں میں نے آپ کو بتایا ناں کہ گھر داری میں اتنی مصروف ہو گئی کہ گیت سنگیت رفتہ رفتہ دماغ سے نکل ہی گیا۔” اس نے اپنے ہاتھ کی موٹی انگلیوں میں ایک انگوٹھی کو گھماتے ہوئے کہا۔
”دماغ سے نکلا ہو گا … دل سے تو نہیں نکلا ہو گا۔” وہ ہنسی۔
”ہاں دل سے تو نہیں نکلا۔ مگر دل سے تو بہت کچھ نہیں نکلتا … ساری بات تو دماغ سے نکلنے کی ہوتی ہے اور دماغ سے موسیقی کو نکال دیا میں نے۔” وہ اس بار پھیکی مسکراہٹ کے ساتھ کہہ رہی تھی۔
٭٭٭
”میرا خیال ہے منیزہ بھابھی زیادہ سوشل نہیں ہیں۔” ہارون نے منصور علی سے کہا۔ وہ دونوں گالف کھیل رہے تھے اور اس وقت ہارون شاٹ لگانے کے بعد منصور علی کے ساتھ آگے جا رہا تھا جب باتیں کرتے کرتے اس نے اچانک منصور علی سے کہا۔
”منیزہ۔ ہاں وہ زیادہ سوشل نہیں ہے۔ اسے زیادہ شوق نہیں ہے ان پارٹیز وغیرہ میں جانے کا … پھر بچے بھی ابھی چھوٹے ہیں’ اس لیے اسے گھر پر بھی توجہ دینی پڑتی ہے۔” منصور علی نے کچھ مدافعانہ انداز میں کہا۔
”ہاں ۔ میں نے یہی اندازہ لگایا تھا۔ ”مگر منصور … یہ بہت ضروری ہے کہ بھابھی تمہارے ساتھ پارٹیز میں شرکت کیا کریں … بزنس میں آگے بڑھنے کے لیے یہ بہت ضروری ہے کہ تمہاری بیوی بھی تمہارے ساتھ ان سرگرمیوں میں دلچسپی لے … یہ صرف پارٹیز نہیں ہوتیں … آدھی بزنس ڈیلز ان ہی پارٹیز میں طے ہوتی ہیں۔ اس کے بغیر تم کہیں کھڑے نہیں ہو سکو گے۔” ہارون کمال نے قدرے صاف گوئی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا۔
”یہ جتنے بھی آفیسرز یا بزنس مین ہیں’ اپنی بیوی کی بات کبھی نہیں ٹال سکتے … اور یہ ضروری ہے کہ آپ کی اپنی بیوی کے ان کی بیویوں کے ساتھ اچھے تعلقات ہوں۔”
”ہاں۔ مجھے اندازہ ہے مگر … اب منیزہ کو شوق نہیں ہے تو میں کیا کر سکتا ہوں۔”




Loading

Read Previous

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۵

Read Next

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۷

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!