تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۶

”گھبراؤ نہیں میرا ایسا کوئی ارادہ نہیں۔ میں صرف ایک مثال دے رہا ہوں … ایسی لڑکیوں کے پاس ایسی فیلڈ میں رہتے ہوئے اس طرح کے بہت سے پرپوزلز آتے رہتے ہیں۔” ہارون کمال اب اپنی کافی ختم کرنے کے بعد سگار سلگا رہا تھا۔
”میرا خیال ہے یہ مالی طور پر کسی بہت مضبوط فیملی سے تو تعلق نہیں رکھتی؟” اس نے کہتے ہوئے منصورعلی سے سوال کیا۔ منصور علی نے ہونقوں کی طرح نفی میں سرہلا دیا۔
”ہاں مجھے اندازہ تھا۔” وہ خاموش ہو گیا’ سگار کے چند کش لگانے کے بعد اس نے منصور علی سے پوچھا۔
”تم نے کبھی دوسری شادی کے بارے میں سوچا ہے؟” منصور علی ہکا بکا رہ گئے۔ ہارون کمال ان کے تاثرات دیکھ کر مسکرایا۔
”اتنا حیران ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں نے کوئی بہت عجیب سوال تو نہیں کیا؟” منصور علی نے قدرے خود کو سنبھالا۔
”نہیں … ہاں … وہ … میں … سمجھ سکتا ہوں’ ہاں عجیب سوال تو نہیں ہے مگر یک دم پوچھا ہے۔ اس لیے میں کچھ کنفیوز ہو گیا۔”
”میرے سوال کا جواب نہیں دیا تم نے؟” ہارون کمال نے ایک بار پھر اپنا سوال دہرایا۔
”نہیں’ دوسری شادی کے بارے میں تو کبھی نہیں سوچا میں نے۔” منصور علی نے قدرے مدھم لہجے میں کہا۔ انہیں حیران کن طور پر ہارون کمال کا سوال بُرا نہیں لگا تھا۔
ہارون مسکراتے ہوئے سگار کے کش لیتا رہا پھر اس نے کہا۔ ”مجھے لگتا ہے رخشی تم میں دلچسپی لیتی ہے۔” منصور علی یہ اعتراف کیے بغیر نہیں رہ سکے کہ ہارون کمال بے حد ہوشیار آدمی ہے۔ براہ راست یہ کہنے کے بجائے کہ ان دونوں کا آپس میں کوئی افیئر ہے وہ گھما پھرا کر یہ کہہ رہا تھا کہ رخشی ان میں کوئی دلچسپی رکھتی تھی۔
”رخشی نے مجھ سے کبھی ایسی کسی بات کا اظہار نہیں کیا۔” اس انکشاف کے جھٹکے سے سنبھلنے کی کوشش کرتے ہوئے منصور علی نے حتیٰ المقدور اپنے لہجے پر قابو پاتے ہوئے کہا۔
”ہو سکتا ہے اسے کچھ ہچکچاہٹ ہو۔ وہ اسے نامناسب سمجھ رہی ہو یا خوفزدہ ہو کہ تم اسے جاب سے نہ نکال دو مگر مجھے یہ بات محسوس ہوتی ہے کہ وہ تم میں دلچسپی رکھتی ہے۔” ہارون کمال نے بظاہر ان کی وضاحت قبول کرتے ہوئے کہا۔
”تم رخشی سے شادی کیوں نہیں کر لیتے۔ … میرا مطلب ہے خفیہ شادی۔” ہارون کمال نے یک دم کہا۔
منصور علی کے چہرے کا رنگ تبدیل ہو گیا۔ رخشی کے ساتھ ان کے تعلقات تھے مگر انہوں نے رخشی سے کبھی شادی کے بارے میں نہیں سوچا تھا۔ اور وہ سوچنا چاہتے بھی نہیں تھے’ کم از کم فوری طور پر خود رخشی نے بھی کبھی یہ مطالبہ نہیں کیا تھا۔
”میں رخشی سے شادی کیوں اور کیسے کر سکتا ہوں۔ تم جانتے ہو۔ میں شادی شدہ ہوں۔ میری بیوی ہے’ بچے ہیں۔ میں تو ایسی شادی افورڈ نہیں کر سکتا۔” منصور علی نے اس کے پرپوزل کو رد کرتے ہوئے کہا۔





”اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ تمہاری بیوی ہے’ مگر تمہاری بیوی کا ہونا یا نہ ہونا تمہارے لیے ایک برابر ہے۔ وہ کسی بھی طرح تمہارے بزنس میں تمہارے لیے مددگار ثابت نہیں ہو سکتی۔ جو رول رخشی ادا کر رہی ہے۔ اور کر سکتی ہے وہ رول کبھی منیزہ نہیں کر سکتی’ یہ بات تم اچھی طرح جانتے ہو۔” ہارون کمال نے بے حد صاف گوئی کا مظاہرہ کیا۔
”بلکہ اگر تم بُرا نہ مانو تو مجھے یہ کہنے میں بھی کوئی عار نہیں کہ تمہارے جیسے آدمی کے ساتھ منیزہ جیسی عورت کو سرے سے ہونا ہی نہیں چاہیے تھا۔ اگر تمہارے ساتھ اتنے سالوں سے رخشی جیسی کوئی عورت ہوتی تو تم اس وقت کہاں کھڑے ہوتے۔ خود تمہیں بھی اس کا اندازہ نہیں ہو سکتا۔” ہارون کمال نے بظاہر بڑی سنجیدگی سے کہا۔ منصور علی اس کی بات کی تردید نہیں کر سکے’ وہ صرف خاموشی سے اس کی بات سنتے رہے۔
”منیزہ جیسی عورتوں اور تمہارے جیسے مردوں میں پوری ایک صدی کا فرق ہوتا ہے۔ یہ بدقسمتی ہی ہوتی ہے کہ پھر بھی ایسے دو افراد اکٹھے زندگی گزار رہے ہوں۔ تم منیزہ کو تو اپنے ساتھ کسی بزنس ڈنر پر نہیں لے جا سکتے۔ یہ بات تم اچھی طرح جانتے ہو۔” منصور اب بھی چپ رہے۔
”اور میں تمہیں ایک بات بتاؤں اگر مجھے زندگی میں کبھی شائستہ کو کسی دوسری عورت سے replaceکرنا پڑا تو میں تو بڑی آسانی کے ساتھ کردوں گا۔ ”
”کیوں شائستہ بھابھی تو بہت خوبصورت خاتون ہیں۔ بہت سوشل … ایک آئیڈیل بیوی” منصور علی نے بے اختیار کہا۔
”ہاں یہ میری خوش قسمتی ہے کہ مجھے ایسی بیوی ملی۔ لیکن اس کے باوجود اگر کل کو میں نے یہ محسوس کیا کہ میں کہیں پر اس کے ساتھ صحیح سے ایڈجسٹ نہیں کرپا رہا ہوں تو میں دوسری شادی کر لوں گا۔ اور تم دیکھنا شائستہ اتنی ماڈرن اور لبرل عورت ہے مگر وہ اس پر اعتراض نہیں کرے گی۔”
منصور علی نے ایک گہرا سانس لیا’ وہ ہارون کمال کی باتوں کا مقصد نہیں جانتے تھے۔ اگر جانتے تو شاید اس وقت اس کمرے کا منظر نامہ مختلف ہوتا۔ اور وہ دونوں اتنے اطمینان سے وہاں بیٹھے بات نہ کر رہے ہوتے … مگر انہیں ہارون کمال پر بے تحاشا رشک آیا۔ وہ واقعی بہت نڈر آدمی تھا۔ صحیح معنوں میں خوش قسمت اور کامیاب آدمی۔
”میں تمہیں یہی مشورہ دوں گا کہ تم رخشی سے شادی کر لو۔” ہارون کمال نے کہا۔ ”بزنس سرکلر میں ایسی شادیاں بہت عام ہوتی ہیں۔ بہت سے لوگوں نے اپنی سیکرٹریز کے ساتھ خفیہ شادی کر رکھی ہوتی ہے۔
اس طرح نہ تو انہیں یہ خطرہ ہوتا ہے کہ کسی بھی وقت ان کی سیکرٹری انہیں چھوڑ کر جا سکتی ہے اور نہ ہی یہ اندیشہ کہ ان کی سیکرٹری ان کے بزنس کے بارے میں معلومات کسی اور کو دے سکتی ہے۔ جب تک ضرورت ہو ایسے رشتہ کو قائم رکھتے ہیں۔ پھر کچھ سالوں کے بعد جب ان کی عمر زیادہ ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ تو وہ انہیں کچھ دے دلا کر فارغ کر دیتے ہیں۔ اور کسی نئی سیکرٹری کو رکھ لیتے ہیں۔ نہ خاندان کو پتا چلتا ہے’ نہ کسی اور کو … اور کامیابی کے زینے بھی طے ہوتے رہتے ہیں۔ اور تمہارے لیے تو میرا سب سے قیمتی مشورہ یہی ہے کہ تم اگر اپنی بیوی کو تبدیل نہیں کر سکتے تو کم از کم ایک اور بیوی اپنے پاس ضرور رکھو۔ رخشی جیسی بیوی … تمہیں رخشی جیسی عورت کی اشد ضرورت ہے۔ اس کے بغیر تم اس سرکل میں اس طرح سے کامیاب نہیں ہو سکتے جس طرح میں یا دوسرے لوگ کامیاب ہیں۔” ہارون کمال اب بے سنجیدہ نظر آ رہا تھا۔
”میں … میں … اس … بارے میں سوچوں گا۔” منصور علی نے بے اختیار ہکلاتے ہوئے کہا۔
”ضرور سوچو … اور جتنی جلدی ہو’ سوچ لو … یہ تمہاری زندگی کا سب سے اچھا فیصلہ ثابت ہو گا۔” ہارون کمال نے سگار کو ایش ٹرے میں پھینک کر اٹھتے ہوئے کہا۔ منصور علی بھی اس کے ساتھ اٹھ کھڑے ہوئے۔ وہ دونوں ساتھ چلتے ہوئے بیرونی دروازے تک آئے پھر باہر نکلنے سے پہلے ہارون کمال نے منصور علی سے ایک بار پھر کہا۔
”میں نہیں چاہتا کہ تم رخشی کو اس اسٹیج پر کھو دو۔ وہ ہماری اس فیکٹری کو اسٹیبلش کرنے میں بہت بڑا کردار ادا کرے گی۔” منصور علی نے اس کی بات پر کچھ سوچتے ہوئے سرہلا دیا۔
٭٭٭
”ہیلو۔” امبر بے اختیار پلٹی۔ اس نے بے اختیار ایک گہرا سانس لیا وہ ہارون کمال تھا۔
اس نے ہیلو کہا اور ہاتھ میں تھامے ہینگر کو دوبارہ اسٹینڈ پر لٹکانے لگی۔
وہ اس بوتیک پر کافی دیر سے آئی ہوئی تھی اور یہ اتفاق ہی تھا کہ وہ اکیلی تھی … اور یہ بھی ایک اتفاق ہی تھا کہ ہارون کمال بھی اکیلا اسی وقت یہاں آیا تھا اس نے امبر کو بوتیک میں داخل ہوتے دیکھا تھا اور اس کا دل جیسے بلیوں اچھلنے لگا تھا۔ اور اب وہ دونوں ایک دوسرے کے مقابل کھڑے تھے۔
”میں نے شاید آپ کو ڈرا دیا۔” ہارون نے اس کے تاثرات کو پہچان لیا تھا۔
”آپ ہمیشہ ہی مجھے ڈرا دیتے ہیں۔” امبر نے قدرے تیکھے انداز میں کہا۔
ہارون ایک لمحہ کے لیے کچھ نہیں کہہ سکا۔
”اگر ایسا ہے تو میں اس کے لیے ایکسکیوز کرتا ہوں۔ آپ یہاں شاپنگ کر رہی ہیں؟” اس نے بات بدلتے ہوئے کہا۔
”کوشش کر رہی ہوں اگر کامیاب ہو سکی تو ؟” امبر اسی طرح کپڑوں پر نظریں دوڑاتی رہی۔
”آپ یقینا اپنی وائف کے لیے یہاں سے کچھ لینے آئے ہوں گے۔ یا پھر خود آپ کی وائف آپ کے ساتھ ہوں گی۔” امبر نے اچانک کہا۔
”نہیں میں اکیلا ہوں۔” شائستہ کے ذکر پر وہ قدرے خفیف سا ہو گیا۔ ”میں بھی یہاں اپنے لیے شاپنگ کرنے آیا تھا۔”
”میں سمجھی تھی شاید آپ کی وائف آپ کے ساتھ ہوں گی اسی لیے آپ اس حصے کی طرف آ گئے ہیں۔”اس دن ہوٹل میں آپ نے کھانے کا بل ادا کر دیا۔ بڑے Obliged (ممنون) ہوئے ہم دونوں … میں اور طلحہ … ذکر تو کیا ہو گا طلحہ نے آپ سے۔” امبر نے یک دم گردن موڑ کر اسے دیکھتے ہوئے کہا۔
”اس میں Obliged ہونے والی کیا بات ہے۔ یہ تو ایک good will gesture (خیر سگالی کا قدم) تھا آپ نے ضرورت سے کچھ زیادہ ہی سیریسلی لیا اسے۔” ہارون کمال نے شگفتگی سے کہا۔
”لینا بھی چاہیے تھا۔
میں ایسی مہربانیاں پسند نہیں کرتی۔”
امبر بے حد سنجیدہ تھی۔
”It wasn`t a favour at all” (میں ہر ایک پہ مہربانی نہیں کرتا) ہارون نے اس کی بات کاٹی۔
”تو پھر یہ کیا تھا؟ کیا آپ ہر ایک کا بل ادا کرتے پھرتے ہیں؟” امبر نے اسی انداز میں کہا۔
”کیا میں ہر ایک کا بل ادا کرنے والا آدمی نظر آتا ہوں؟” ہارون نے جواباً سوال کیا۔
”یہ تو آپ خود ہی بتا سکتے ہیں’ میں کیا کہہ سکتی ہوں’ میں آپ کو نہیں جانتی۔” امبر نے صاف گوئی سے کہا۔
”اندازہ تو لگا سکتی ہیں۔” ہارون کمال نے کہا۔
”میں ہر ایک کے بارے میں اندازہ بھی نہیں لگایا کرتی۔” اس کا لہجہ برقرار تھا۔
”ٹھیک ہے۔ میں خود ہی بتا دیتا ہوں۔ نہیں … میں ہر ایک کا بل ادا نہیں کرتا پھرتا۔” ہارون نے سنجیدگی سے کہا۔
”مگر میرا اور طلحہ کا بل تو ادا کیا آپ نے۔”
”طلحہ کی بات تو جانے دیں۔ وہ آپ کے ساتھ تھا۔ میں نے آپ کا بل ادا کیا۔”
”میں طلحہ کے ساتھ تھی … طلحہ میرے ساتھ نہیں تھا۔” امبر نے ترشی سے بات کاٹی۔
”میں نے پھر بھی ”آپ” اور آپ کے ساتھی کا بل ادا کیا۔ ”ہارون نے آپ پر زور دیتے ہوئے کہا۔
”کیوں؟”
”کیونکہ امبر میں اور ہر ایک میں بہت فرق ہے۔”
”یہ کوئی انکشاف ہے؟”
”تعریف ہے۔”
”آپ تعریفوں کی عادت میں مبتلا ہیں۔”
”میں ہر ایک کی تعریفیں نہیں کرتا۔”
”میری تو ہر بار ہی کرتے ہیں پہلے آپ مجھے ڈائنامک کہہ رہے تھے اب میں آپ کو’ ہر ایک سے مختلف لگنے لگی ہوں۔” امبر نے مذاق اڑانے والے انداز میں کہا۔
”اس میں کوئی شک نہیں’ میں ہمیشہ یہی آپ کی تعریف کرتا ہوں’ آپ کو اس پر اعترا ض کیوں ہے؟” ہارون کمال اس کے تضحیک آمیز لہجے سے متاثر ہوئے بغیر بولا۔
”اس بات کو توخیر جانے دیں کہ مجھے کس چیز پر اعتراض ہے اور کس پر نہیں۔ میں آپ سے صرف اتنی سی بات پوچھ رہی ہوں کہ آپ نے امبر اور طلحہ کا بل کیوں دیا؟” امبر نے ماتھے پر چند بل ڈال کر کہا۔
”آپ کو بُرا لگا؟”
”کیوں …؟”
”یہ بہت انسلٹنگ تھا۔”
”نہیں یہ انسلٹنگ نہیں تھا۔ میں نے آپ کو بتایا ہے۔ یہ ایک گڈول gesture تھا۔” ہارون کمال نے کہا۔
”میں وہاں اپنے شوہر کے ساتھ کھانا کھانے گئی تھی۔ کسی دوسرے’ تیسرے چوتھے آدمی کے گڈول gesture کے لیے نہیں۔ مجھے ایسی چیزیں اچھی نہیں لگتیں۔” امبر نے بے حد تلخی سے کہا۔
”اگر آپ کو بُرا لگا تو میں آپ سے معذرت چاہتا ہوں۔” میں آپ کو کوئی تکلیف پہنچانا نہیں چاہتا تھا’ اگر مجھے پتا ہوتا کہ یہ سب آپ کو بُرا لگے گا تو میں کبھی بل ادا نہیں کرتا۔” ہارون کمال نے وضاحت دینے کی کوشش کی۔
امبر کچھ دیر تیز نظروں سے اس کو دیکھتی رہی پھر کچھ کہے بغیر وہ ایک بار پھر رخ موڑ کر ان ملبوسات کو دیکھنے لگی جنہیں وہ پہلے دیکھ رہی تھی۔
”اگر آپ بُرا نہ مانیں تو میں آپ سے ایک بات پوچھنا چاہتا ہوں۔” ہارون کمال واقعی ڈھیٹ آدمی تھا۔ جو اب بھی وہاں سے جانے کو تیار نہیں تھا۔
”پوچھیں …” امبر نے اسے دیکھے بغیر کہا۔
”آپ آخر ہمیشہ مجھ سے ناراض کیوں رہتی ہیں؟” امبر نے حیرت سے گردن موڑ کر اس کو دیکھا۔
”آپ سے ناراض … ؟ … ہمیشہ …؟ کس طرح کی بات کر رہے ہیں؟ میں آپ سے ناراض کیوں ہوں گی۔ … میرا آپ سے ایسا تو کوئی تعلق ہی نہیں ہے۔ میرے پاپا کے دوست ہیں آپ … وہ بھی ایسے جنہیں میں ٹھیک طرح جانتی تک نہیں اور آپ بات کر رہے ہیں کہ میں آپ سے ہمیشہ کیوں ناراض رہتی ہوں۔” وہ ایک ہی سانس میں کہتی چلی گئی۔
”آپ کیا جاننا چاہتی ہیں’ میرے بارے میں ؟” ہارون نے بے حد تحمل سے کہا۔




Loading

Read Previous

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۵

Read Next

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۷

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!