تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۶

”بکواس بند کرو… اور مجھے سونے دو…” وہ ایک بار پھر اپنے بیڈ پر جا کر بیٹھ گئے۔
”آپ تمیز سے بات کریں … دوبارہ میرے لیے بکواس کا لفظ استعمال مت کریں۔ میں بیوی ہوں آپ کی … کوئی ملازم نہیں ہوں کہ آپ میرے ساتھ اس طرح کی زبان استعمال کریں گے۔” منیزہ کا اشتعال ان کے جملے نے مزید بڑھا دیا۔
”میں تمیز سے بات کروں … میں تمیز سے بات کروں’ تم جیسی بے ہودہ عورت کے ساتھ … تم جانتی ہو’ تم کس سے بات کر رہی ہو۔ کس سے تمیز کے ساتھ بات کرنے کے لیے کہہ رہی ہو؟”
اگر منیزہ کو ان کے جملے نے مشتعل کیا تو منصور علی کو بھی منیزہ کے جملے نے آپے سے باہر کر دیا تھا۔
”ہاں ۔ جانتی ہوں میں کس سے بات کر رہی ہوں … شوہر ہیں… کوئی خدا نہیں ہیں کہ میں آپ کی ہر بات منہ بند کر کے سنتی رہوں گی۔ نہ ہی میں کوئی لاوارث یا گرے پڑے خاندان کی ہوں کہ آپ کی ایسی باتیں مجھے برداشت کرنا پڑیں گی۔” منیزہ بھی اب بلند آواز میں بولنے لگیں۔
”گرے پڑے خاندان کی نہیں ہو … تو پھر یہاں سے دفع ہو جاؤ۔ جاؤ اپنے خاندان کے پاس … میرے گھر میں کیوں بیٹھی ہو؟”
”میں کیوں جاؤں اپنے گھر … میں’ یہیں رہوں گی … آپ جائیں جہاں جانا ہے …” منیزہ نے بھی اسی انداز میں جواب دیا۔
اس بار منصور علی نے کچھ نہیں کہا۔ وہ اٹھ کر کھڑے ہوئے اور بیڈ کا سائیڈ لیمپ اٹھا کر کمرے سے نکل گئے۔ منیزہ سرخ چہرے کے ساتھ انہیں … کمرے سے نکلتے ہوئے دیکھتی رہیں۔
٭٭٭





سڑک پر ٹریفک نہ ہونے کے برابر تھی۔ یہ ایک ذیلی سڑک تھی اور ثانی اور ثومی تھوڑی دیر پہلے ہی سکول سے گھر جانے کے لیے اس پر مڑے تھے۔ سڑک کے دونوں اطراف بڑے بڑے گھروں کی ایک لمبی قطار تھی۔ اور ان کے آگے قطار میں اونچے اونچے درخت بھی تھے جن کی شاخوں نے سڑک کو جگہ جگہ سے ڈھانپا ہوا تھا۔ گرمی کے موسم میں یہ سڑک اسکول کے پورے راستے میں ان کے لیے آسودگی کی واحد جگہ تھی۔
ثومی اس سڑک پر چلتے ہوئے جامن کے درختوں سے جھڑنے والی جامنوں کو اکٹھا کر لیتا۔ وہیں کسی گھر کے باہر لگے ہوئے سبزے میں موجود نل سے انہیں دھوتا اور پھر باقی کا راستہ وہ جامن کھاتے ہوئے طے کرتے۔
آج بھی وہ یہی کر رہے تھے۔ ثومی سائیکل پر دونوں بیگ رکھے’ سائیکل کا ہینڈل پکڑے پیدل چل رہا تھا اور وقفے وقفے سے اس لفافے میں موجود جامنیں بھی کھا رہا تھا جو اس نے کچھ دیر پہلے اکٹھی کر کے ثانی کو تھمائی تھیں۔
”ایک بات تو طے ہے’ میں بڑا ہو کر جامن کا ایک باغ ضرور خریدوں گا۔” ثومی نے اپنے منہ سے ایک گٹھلی نکالتے ہوئے اسے پوری طاقت سے دور پھینکا۔ ”اس میں کم از کم جامن کے سو درخت ضرور ہوں گے۔ اب مجھے یہ اندازہ نہیں ہے کہ سو درخت کافی ہیں یا نہیں۔ ثانی! سو درختوں کے ایک باغ کے لیے کتنی زمین چاہیے؟” اس نے اچانک ثانی سے پوچھا۔
”مجھے نہیں پتا’ میں نے کبھی جامن کا باغ نہیں لگایا۔” ثانی نے سرہلاتے ہوئے کہا۔
”میرا خیال ہے’ ایک مربع کافی ہے۔ اگر کم پڑ گئی تو اور خرید لوں گا اور اگر زیادہ ہو گئی تو …۔”
”تو بیچ دینا۔ ” ثانی نے اس کی بات کاٹتے ہوئے مشورہ دیا۔
”نہیں’ بیچوں گا تو نہیں۔ میں باقی زمین پر آم لگا لوں گا۔” ثومی نے اسی انداز میں کہا۔ ”میں دنیا کی ہر اچھی ورائٹی کی جامن وہاں پر اگاؤں گا۔ اور گرمیوں کے سیزن میں میں صرف جامن ہی کھایا کروں گا۔ جامن کے درخت کی عمر کیا ہوتی ہے؟” اس نے پھر ثانی سے پوحھا۔
”میں نہیں جانتی۔”
”اچھا کتنی دیر میں پھل دینے لگتا ہے؟”
”یہ بھی نہیں پتا۔”
”یہ تو پتا ہو گا کہ ایک درخت سے تقریباً کتنی جامن اتاری جا سکتی ہیں؟”
”میرا خیال ہے پندرہ بیس ہزار تو اترتی ہوں گی۔”
ثانی کی پیشانی پر پل پڑ گئے۔ ”کس قدر بے وقوف آدمی ہو’ کبھی جامن گن کر خریدی ہیں تم نے ؟”
”تمہارا مطلب ہے’ مقدار ہوتی ہے۔ ہاں ٹھیک ہے’ ایک سیزن میں ایک درخت سے دو چار من تو اتارے ہی جا سکتے ہیں’ ویری گڈ۔” ثومی نے سرہلایا۔ ”سود درخت ہوں اور ہر درخت سے دو چار من جامن اتارے جائیں تو …”
”ثومی! تم شیخ چلی بننے کی کوشش مت کرو۔” ثانی نے بہت تحمل سے اس کو ٹوکا۔ ”سڑک کے کنارے سبزے پر جامن کا ڈھیر پڑا ہوا ہے یہ ہر روز گرتی اور ضائع ہوتی ہیں۔ شاید ہمارے علاوہ کوئی انہیں دیکھتا تک نہیں’ تو جس چیز کو خریدنے کے لیے چند روپوں کی ضرورت بھی نہ پڑے اس کے لیے باغ لگانا …”
”مگر اپنی ذاتی چیز کھانے کا تو مزہ ہی اور ہوتا ہے۔” ثومی نے کہا۔
”تو ٹھیک ہے’ بازار سے خریدی جا سکتی ہیں۔”
”پھر بھی ۔ تم جو چاہو کہو’ جامن کا باغ لگانے کا ارادہ میں نے ترک نہیں کیا۔” ثومی نے جیسے اعلان کیا۔
”پورا سال تم یہی کرتے رہتے ہو۔ جو چیز تم کھاتے ہو کبھی تم اس کا باغ لگانا شروع کر دیتے ہو’ کبھی کھیت یا پھر تم اس کی فیکٹری کھول لیتے ہو۔ آخر تم زمین پر کیوں نہیں رہتے۔ یہ جو خیالی پلاؤ تم پکاتے…”
ثومی نے اس کی بات کاٹ دی۔
”اچھا اب تقریر مت شروع کرنا’ یہ کوئی اسکول کا اسٹیج نہیں ہے کہ میں متاثر ہو کر تمہیں ٹرافی تھما دوں گا اور تمہیں کیا ہے اگر میں فیکٹری یا باغ یا کھیت لگا لیتا ہوں۔” اس نے تنک کر کہا۔ ”تم جیلس ہوتی ہو میری ترقی سے؟”
ثانی کو بے اختیار ہنسی آئی۔ ”ترقی … کون سی ترقی … کہاں ہے ترقی ؟ خیالوں میں’ کہاں سے کہاں پہنچ جاتے ہو تم۔”
”ہر حقیقت پہلے خیال ہوتی ہے۔” ثومی نے سنجیدگی سے کہا۔
”مگر خواب نہیں ہوتی۔”ثانی نے دوبدو کہا۔
”کیوں پاکستان علامہ اقبال کا خواب نہیں تھا۔”
ثانی بے اختیار کھلکھلائی۔ ”تم بھی بس … تمہیں سمجھانے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔”
”شکریہ’ آپ کو یہ کام کرنے کی ضرورت بھی نہیں ہے۔” ثومی نے برا مانتے ہوئے کہا۔
”ویسے تمہیں یہ پتہ ہے کہ یہ جو پروجیکٹس تم بناتے رہتے ہو ان پر عمل کرنے کے لیے کتنا پیسہ چاہیے؟”
”جانتا ہوں۔”
”تو اتنا پیسہ کہاں سے لاؤ گے؟”
”جب بڑا ہو جاؤں گا تو پیسہ آ جائے گا میرے پاس۔” ثومی نے بڑے پر یقین انداز میں کہا۔
”تم بڑے ہو چکے ہو ثومی!”
”میں آج سے دس سال بعد کی بات کر رہا ہوں۔” ثومی نے اسی انداز میں کہا۔
”دس سال بعد کون سا خزانہ دریافت کرو گے تم کہ تمہارے پاس پیسے کا ڈھیر لگ جائے گا اور تم اپنے ان احمقانہ قسم کے منصوبوں پر عمل کر سکو گے؟”
”تم لڑکی ہو’ تم یہ باتیں نہیں سمجھ سکتیں۔” ثومی نے اسے تنگ کرنے والے انداز میں کہا۔ ثانی نے اس بار اسے گھور کر دیکھا۔
”واقعی’ یہ سارے خیالی پلاؤ صرف لڑکے ہی پکاتے ہیں۔ لڑکیاں ایسی احمقانہ باتیں نہیں سوچتیں۔”
”لڑکیاں بے چاری احمقانہ باتیں تو کیا کچھ بھی نہیں سوچ سکتیں۔ ان کے پاس سرے سے دماغ ہی نہیں ہوتا۔ وہ جو بھی سوچتی ہیں’ اپنی زبان سے سوچتی ہیں۔ چچ چچ بے چاری۔”
”اور لڑکے جو بھی سوچتے ہیں’ وہ سب کچھ صرف ان کے دماغ میں ہوتا ہے’ وہ نہ ہاتھ استعمال کرتے ہیں نہ پاؤں ۔ بس سوچ لیا’ کافی ہے’ عمل کیوں کریں۔” ثانی کو غصہ آ گیا۔
”اور تم … تمہارے لیے سب سے زیادہ ضروری چیز’ پتا ہے کیا ہے؟”
”کیا ہے ؟”
”میٹرک میں پاس ہونا’ جو کہ مجھے مشکل نظر آتا ہے ۔ جس رفتار سے تم یہ منصوبے بناتے رہتے ہو ایک دن تمہارے پاس سب کچھ ہو گا’ سوائے میٹرک کے ایک سرٹیفکیٹ کے۔”
”میٹرک کوئی اتنی ضروری چیز بھی نہیں ہے کہ اس کے بغیر زندگی نہ گزاری جا سکے۔”
”یہ تم گھر چل کر امی کو بتانا کہ میٹرک کتنا غیر ضروری ہے۔”
”نہیں ثانی! سیریسلی’ میں پڑھنا وڑھنا نہیں چاہتا۔” وہ یک دم سنجیدہ ہوا۔
”کیوں؟”
”بس ایسے ہی’ میں کچھ اور کرنا چاہتا ہوں۔”
”مثلاًکیا ؟” اس نے کچھ تشویش سے اپنے جڑواں بھائی کو دیکھا۔
”کچھ بھی’ کوئی بھی ایسی چیز جس میں بہت شہرت ہو۔” ثانی نے ایک گہرا سانس لیا۔
”ابھی تم دولت کی بات کر رہے تھے’ اب تم شہرت پر آ گئے ہو’ تمہارا بنے گا کیا؟”
”میں سنجیدہ ہوں ثانی! میں واقعی کچھ ایسا کرنا چاہتا ہوں جس میں مجھے بہت شہرت ملے۔” اس نے اپنے الفاظ پر زور دیتے ہوئے کہا۔




Loading

Read Previous

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۵

Read Next

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۷

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!