تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۶

”کیسی مدد؟”
”وہی اس کی بہن کے سلسلے میں۔ پتا تو ہو گا آپ کو’ اس کی بہن کو قتل کر دیا تھا اس کے شوہر نے … اس معاملے میں اس نے طلحہ کو اس کی مدد کرنے کے لیے کہا ہے۔” منیزہ نے کچھ بیزار انداز میں کہا۔ منصور علی دوبارہ ٹائی کھولنے لگے۔
”اس میں ایسی پریشانی کی کیا بات ہے۔” انہوں نے بے حد عام سے انداز میں کہا۔
”پریشانی کی بات یہ ہے کہ رخشی نے ابھی چند گھنٹے پہلے طلحہ کو فون کر کے اپنے گھر بلایا ہے۔”
”تو پھر …؟”
”اور آپ کے داماد اور بھتیجے صاحب فوراً اس کے گھر جانے کو تیار ہو گئے۔”
”اچھا!” وہ اب بھی نارمل تھے۔
”امبر نے طلحہ سے یہ بھی کہا ہے کہ مجھے اس بارے میں کچھ نہ بتائے۔”
اس بار منصور علی مسکرائے’ وہ منیزہ کو بتا نہیں سکتے تھے کہ جس بات کے لیے وہ طلحہ پر برہم ہو رہی ہے۔ وہ بات امبران سے بھی کہہ چکی تھی صرف مدد کی نوعیت مختلف تھی مگر رازداری کی شرط وہاں بھی تھی۔
”حد ہے آپ کس قدر مطمئن ہیں۔” منیزہ نے کچھ جل کر کہا۔
”تو اس میں پریشان ہونے والی بات ہی کیا ہے۔ رخشی اس کی دوست ہے اگر امبر اس کی مدد کرنا چاہتی ہے تو مجھے تو اس میں کوئی قابل اعتراض بات نظر نہیں آتی۔” منصور علی اب بیڈ پر بیٹھ کر اپنے جوتے اتار رہے تھے۔
”آپ کو تو آج تک اپنی بیٹی کے کسی کام میں کوئی قابل اعتراض بات نظر نہیں آئی۔ آج کیا نظر آئے گی۔ مجھے یہ لڑکی رخشی ایک آنکھ نہیں بھاتی۔ ” منیزہ مزید مشتعل ہو گئی۔
”اب اس میں رخشی کا نہیں تمہارا قصور ہے۔ اگر اعلاظرفی کا مظاہرہ کرو تو امبر کی طرح تم بھی اسے پسند کرنے لگوگی۔ وہ اچھی لڑکی ہے۔”
”پہلے صرف بیٹی حمایتی تھی اب باپ بھی حمایتی بن گیا ہے اس کا۔ وہ لڑکی بہت تیز طرار اور مکار ہے اور پھر ہمارے طبقے سے بھی تعلق نہیں رکھتی اور آپ ہیں کہ میری بات سمجھنے کے بجائے مجھے سمجھا رہے ہیں۔” منیزہ نے کہا۔
”تیزی طراری کو تو اب تم رہنے ہی دو۔ یہ ایک ذہین انسان کی خوبیاں ہوتی ہیں اور آج کل کے زمانے میں ان خوبیوں کے بغیر انسان زندگی کے کسی میدان میں بھی کامیاب نہیں ہو سکتا۔” منصور علی نے مذاق اڑانے والے انداز میں کہا۔
”اور تم اس طرح فضول باتوں میں وقت ضائع مت کیا کرو۔ امبر سمجھ دار ہے بلکہ تم سے زیادہ سمجھ دار ہے’ وہ جانتی ہے کہ اسے کیسے لوگوں سے د وستی رکھنی چاہیے۔ یہ معاملہ اگر تم اس پر ہی چھوڑ دو تو بہتر ہے۔ خوامخواہ کی مداخلت تمہیں زیب دیتی ہے’ نہ ہی تمہیں کرنی چاہیے۔ ”
وہ لاپروائی سے کہتے ہوئے باتھ روم میں چلے گئے۔ منیزہ کچھ بے یقینی کے عالم میں منصور علی کو دیکھتی رہ گئی۔
٭٭٭




”ہیلو!” امبر نے سوپ پیتے پیتے سر اٹھا کر دیکھا اور سوپ کا چمچہ نیچے پیالے میں رکھ دیا۔ لاشعوری طور پر وہ اپنی کرسی پر سیدھی ہو کر بیٹھ گئی اس کے چہرے پر موجود کچھ دیر پہلے کی مسکراہٹ یک دم غائب ہو گئی تھی جب کہ ٹیبل سے کچھ فاصلے پر کھڑے ہارون کمال کے ہونٹوں پر موجود مسکراہٹ اور گہری ہو گئی تھی۔
وہ ڈنر کرنے ایک دوست کے ساتھ وہاں اس ہوٹل میں آیا تھا اور ہوٹل کے ہال میں داخل ہوتے ہی اس نے کونے کی ایک ٹیبل پر موجود امبر اور طلحہ کو دیکھا تو بے اختیار ہارون کمال کے دل کی دھڑکن تیز ہو گئی۔ وہ اتنی دور سے بھی اس سحر کو محسوس کر رہا تھا جو وہ اپنے اردگرد کی میزوں پر بیٹھے ہوئے مردوں پر پھونک رہی تھی۔ وہ اندازہ کر سکتا تھا کہ اس کی طرح اور کتنے لوگ اس وقت اس کے بالمقابل بیٹھے ہوئے طلحہ مسعود علی سے حسد محسوس کر رہے ہوں گے۔
اس کا دل کسی بچے کی طرح اس کے پاس جانے کو مچلا۔ اپنے ساتھ موجود کاروباری دوست یک دم اسے بہت بُرا لگنے لگا۔ وہ بظاہر بڑے معمول کے انداز میں اسے ساتھ لے کر اس ہال سے گزر کر ساتھ والے ڈائننگ ہال میں آ گیا۔
ایک ٹیبل پر بیٹھتے ہوئے اس نے شفقت سعید سے کہا ”آپ مینو سلیکٹ کریں ایک دوست نظر آ گیا ہے … میں بس اس سے مل کر ابھی آیا۔” اس نے ہاتھ میں پکڑا مینو کارڈ نیچے ٹیبل پر رکھ کر مسکراتے ہوئے شفقت سعید سے معذرت کی اور پھر کھڑا ہو گیا۔
”جلدی آ جائیے گا۔ یہ نہ ہو کہ میں انتظار ہی کرتا رہ جاؤں۔” شفقت سعید نے اس کی مسکراہٹ کا جواب مسکراہٹ سے دیا۔
”نہیں … نہیں’ ایسا نہیں ہو گا۔ میں چند منٹ میں واپس آ جاتا ہوں۔”
اور اب وہ ان دونوں کے سر پر کھڑا تھا۔ طلحہ اس سے بہت اچھی طرح واقف تھا۔ وہ دو تین مرتبہ منصور علی کے ساتھ فیکٹری آیا تھا اور جس گرم جوشی کے ساتھ طلحہ سے ملا تھا۔ اس نے طلحہ کو خاصا حیران کیا تھا۔
ہارون کمال کاروباری حلقوں میں کوئی بہت بااخلاق آدمی نہیں سمجھا جاتا تھا۔ مگر جو حیثیت وہ کاروباری حلقوں میں حاصل کر چکا تھا … کسی کو بھی اس کی یہ بداخلاقی بُری نہیں لگتی تھی … اسے اس کی شخصیت کا ایک حصہ سمجھا جاتا تھا’ طلحہ یہ بات بھی اچھی طرح جانتا تھا کہ منصور علی’ ہارون کمال کے ساتھ کوئی نئی فیکٹری شروع کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔
ہارون کمال کے ساتھ کاروباری شراکت کیا معنی رکھتی تھی وہ اس سے اچھی طرح واقف تھا۔ اس نے کھڑے ہو کر ہارون کمال کے ساتھ بڑی گرم جوشی سے مصافحہ کیا۔ ہارون کمال امبر کو دیکھ رہا تھا۔
وہ سیاہ بیل باٹم پہنے ہوئے تھی۔ آدھی آستین کی سیاہ شرٹ میں اس کی سفید رنگت کچھ اور نمایاں ہو رہی تھی۔ اس کے گلے میں موجود سونے کی چین میں لٹکنے والے ٹیبلٹ نمالاکٹ پروہ طلحہ اور اس کا نام کندہ دیکھ سکتا تھا۔ اسے کبھی کسی عورت کے ہونٹوں پر لگی ہوئی سرخ لپ اسٹک نے اس طرح متاثر نہیں کیا تھا جس طرح اسی وقت … اس کے کھلے ہوئے تراشیدہ سلکی بال بڑی لاپروائی سے اس کے کندھوں اور پشت پر بکھرے ہوئے تھے۔ کچھ لٹیں اس کے گالوں کو چھو رہی تھیں جو اس کے جسم کی حرکت سے آگے پیچھے جا رہی تھیں’ وہ سوپ کے پیالے پر جھکی اس کی آواز پر سیدھی ہوئی تھی اور ہارون کمال نے اس کے چہرے کی مسکراہٹ کو پلک جھپکتے میں غائب ہوتے دیکھا۔
وہ بے تاثر چہرے کے ساتھ اپنے دونوں ہاتھوں کو میز پر رکھے’ طلحہ کو ہارون کمال کے ساتھ مصافحہ کرتے کرتے دیکھتی رہی۔ اس نے محسوس کیا کہ ہارون کی نظریں مسلسل اس پر جمی ہوئی تھیں۔
”ہیلو!” ہارون نے طلحہ سے مصافحہ کرنے کے بعد ا س سے کہا۔
”ہیلو!” اس نے سرسری انداز میں جواب دیا۔
”ہارون صاحب! یہ میری وائف ہیں امبر…! انکل منصور کی بیٹی … اور امبر یہ ہارون کمال صاحب ہیں … انکل منصور کے بہت اچھے دوست۔” طلحہ نے کھڑے کھڑے ان دونوں کا تعارف کروایا۔
”میں انہیں جانتا ہوں۔” ہارون کمال نے طلحہ سے کہا۔ ”منصور صاحب کے گھر جا چکا ہوں میں … بلکہ ایک بار یہ لوگ بھی آ چکے ہیں ہماری طرف۔”
”اوہ پھر تو آپ پہلے ہی ایک دوسرے سے بہت اچھی طرح واقف ہوں گے۔”
”نہیں۔ امبر سے اتفاقاً دونوں بار ملاقات نہیں ہوئی مگر ان کا ذکر بہت سنا ہے میں نے منصور صاحب سے۔” ہارون نے امبر کو دیکھتے ہوئے کہا۔
”ہاں انکل منصور کی بہت چہیتی ہیں یہ۔” طلحہ مسکرایا۔
”ہونا بھی چاہیے۔” ہارون کمال نے ایک عجیب مسکراہٹ کے ساتھ اسے دیکھا۔ ”میں یہاں ایک دوست کے ساتھ آیا تھا … آپ کو دیکھا تو اس طرف چلاآیا۔” ہارون کمال طلحہ سے مخاطب تھا۔
امبر اسی بے تاثر چہرے کے ساتھ اسے دیکھتی رہی۔ وہ ہارون کمال کی نظروں سے کچھ الجھ گئی تھی … طلحہ کی ہارون کمال کے ساتھ اس قدر گرم جوشی اسے کچھ اور الجھا رہی تھی … وہ یہ تو جانتی تھی کہ منصور علی کی ہارون کمال کے ساتھ مختصر سے عرصے میں گہری دوستی ہو گئی تھی مگر اسے یہ اندازہ نہیں تھا کہ اس فہرست میں طلحہ بھی شامل تھا۔
”آپ آئیں … ہمیں جوائن کریں … ہمیں خوشی ہو گی۔” طلحہ نے ہارون کو دعوت دی۔
”نہیں ۔ میں آپ دونوں کو ڈسٹرب نہیں کرنا چاہتا۔ خاص طور پر امبر کو۔” ہارون نے کہا۔
”اس میں ڈسٹرب کرنے والی کیا بات ہے … ہمیں تو بہت خوشی ہو گی اگر آپ ہمارے ساتھ کھانا کھائیں۔” طلحہ نے فوراً کہا۔
”واقعی؟” ہارون نے امبر کی طرف دیکھا۔
”ہم ڈسٹرب نہیں ہوں گے’ آپ چاہیں تو ہمیں جوائن کر سکتے ہیں۔” امبر نے … بڑے محتاط لب و لہجے میں ہارون کی بات کا جواب دیا۔ اس کا خیال تھا کہ ہارون معذرت کر لے گا کیونکہ وہ اس وقت بقول اس کے وہاں اپنے کسی دوست کے ساتھ کھانا کھانے آیا تھا … اور ایسا نہ بھی ہوتا تب بھی ان دونوں کے ساتھ اس کی اتنی بے تکلفی نہیں تھی کہ طلحہ کی رسمی سی دعوت پر ان کے ساتھ بیٹھ جاتا۔ مگر اس وقت اس کی حیرت کی انتہا نہیں رہی جب ہارون نے مسکراتے ہوئے سرجھکایا اور وہاں پڑی تیسری کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا۔ طلحہ کو بھی حیرت کا جھٹکا لگا تھا۔ اس نے ویٹر کو اشارے سے اپنی طرف بلایا اور خود بھی بیٹھ گیا۔
”آپ کیا لیں گے۔” طلحہ نے ویٹر کے پاس آنے پر ہارون سے پوچھا۔
”وہی جو آپ لوگ لے رہے ہیں۔”
”ہم لوگ فی الحال تو چکن کارن سوپ لے رہے ہیں … یہ امبر کو بہت پسند ہے۔” طلحہ نے بتایا۔
”ٹھیک ہے پھر میں بھی چکن کارن سوپ ہی لوں گا۔ یہ امبر کی طرح مجھے بھی بہت پسند ہے۔” ہارون کمال نے کمال کی بے تکلفی کے ساتھ کہا۔
طلحہ نے ویٹر کو سوپ لانے کے لیے کہا’ امبر کچھ کہے بغیر دوبارہ اپنا سوپ پینے میں مصروف ہو گئی۔ وہ ہارون کی نظریں ابھی بھی اپنے چہرے پر محسوس کر رہی تھی اور اس کی الجھن اب ناگواری میں بدل رہی تھی۔ اس کا دل چاہ رہا تھا’ وہ سوپ کا پیالہ اس کے منہ پر دے مارے۔
”خاموش رہنا آپ کی عادت ہے’ یا پھر صرف اس وقت خاموش ہیں؟” ہارون کمال کو گفتگو شروع کرنے میں مہارت حاصل تھی۔
امبر نے اس کی بات ان سنی کر دی۔ وہ چمچ سے سوپ کے چھوٹے چھوٹے سپ لیتی رہی’ اس کی نظریں سوپ کے پیالے پر مرکوز تھیں اور اس کا موڈ بے حد آف تھا … وہ یقینا وہاں ہارون کمال کے ساتھ ڈنر کرنے نہیں آئی تھی۔ ہارون کمال اس کے جواب نہ دینے پر شرمندہ نہیں ہوا۔ اس کی مسکراہٹ کچھ اور گہری ہو گئی تھی۔
طلحہ اب ویٹر کو ہدایات دے کر ہارون کمال کی طرف متوجہ ہو چکا تھا۔ ہارون کمال نے ایک بار پھر اسی طرح اپنا سوال دہرایا۔
”خاموش رہنا آپ کی عادت ہے یا صرف اس وقت خاموش ہیں؟”
امبر اس بار بھی خاموشی سے اسے نظر انداز کرتے ہوئے سوپ پیتی رہی مگر طلحہ نے صورت حال کو بروقت سنبھالا۔
”نہیں امبر اتنی خاموش تو نہیں رہتی … اچھی خاصی باتیں کرتی ہے۔ صرف اس وقت خاموش ہے وہ بھی صرف اس لیے کیونکہ سوپ پی رہی ہے۔” طلحہ نے خوش مزاجی سے کہا۔
”یہ خاموشی سوپ کی وجہ سے ہے؟” ہارون کمال نے اس بار اپنی نظر طلحہ کی طرف منتقل کی۔ ”میں سمجھا تھا شاید میرے یہاں بیٹھنے کی وجہ سے اچانک خاموش ہو گئی ہیں یہ۔”
”نہیں نہیں … ایسی تو کوئی بات نہیں ہے۔” طلحہ نے جلدی سے کہا۔ ”آپ کو تو خود دعوت دی ہے ہم نے اپنے ساتھ بیٹھنے کی … کیوں امبر؟” طلحہ نے امبر کی خاموشی توڑنے کی غرض سے کہا۔
”ہاں آپ کو تو ہم نے خود دعوت دی ہے۔” امبر نے عجیب سے انداز میں طلحہ کی بات دہراتے ہوئے ہارون کو دیکھا۔
”چلیں۔ میں مان لیتا ہوں کہ ایسا ہی ہے’ آپ کی ہابیز کیا ہیں؟” ہارون کمال اتنی جلدی بات ختم کرنے والا آدمی نہیں تھا اس نے فوراً اگلا سوال کیا تھا۔
”میری کوئی ہابیز نہیں ہیں۔” امبر نے مختصر کہا۔
”یہ کیسے ہو سکتا ہے … کوئی نہ کوئی ہابی تو ہوتی ہے ہر ایک کی۔” ہارون کی نظریں بدستور اس کے چہرے پر مرکوز تھیں۔
”میری نہیں ہیں۔” امبر نے اسی انداز میں کہا۔ اور ایک بار پھر سوپ پینے میں مصروف ہو گئی۔
”خاصی عجیب بات ہے یہ … میں اس کی توقع نہیں کر رہا تھا۔” ہارون کمال نے کہا۔
”اس میں عجیب بات کیا ہے اور آپ اس کی توقع کیوں نہیں کر رہے تھے۔” امبر نے سوپ کے پیالے سے یک دم نظریں ہٹاتے ہوئے کہا۔
”آپ جیسی ڈائنامک لڑکی کا کوئی ہابی نہ رکھنا غیر متوقع ہی ہوتا ہے۔”
”آپ کو کیسے پتا کہ میں ڈائنامک ہوں؟” اس نے سرد لہجے میں کہا۔
”منصور علی کی بیٹی کے بارے میں کوئی بھی یہی کہے گا۔” ہارون کمال کا انداز کچھ مدافعانہ ہو گیا تھا۔ ”وہ خود بہت ڈائنامک شخصیت کے مالک ہیں۔”
”یہ ضروری نہیں ہے کہ اگر پاپا ڈائنامک ہیں تو میں بھی ڈائنامک ہوں گی۔”
”توقع تو کی جا سکتی ہے۔”
”میں پاپا کے بالکل برعکس ہوں۔ آپ کو اب تو اندازہ ہو گیا ہو گا۔” اس کا لہجہ قدرے سخت ہو گیا۔ طلحہ نے امبر کے لہجے میں اترتی ناراضی محسوس کر لی تھی اور وہ خوفزدہ ہو رہا تھا کہ کہیں یہ ناراضی ہارون کمال نے بھی محسوس نہ کر لی ہو۔ مگر فی الحال ہارون کمال کے چہرے کی مسکراہٹ ظاہر کر رہی تھی کہ وہ ناراض نہیں تھا یا پھر اسے اپنی کیفیات چھپانے میں کمال حاصل تھا۔
امبر اپنا سوپ ختم کر چکی تھی اور اب نیپکن سے منہ صاف کر رہی تھی۔ کھانے سے اس کی دلچسپی یک دم ختم ہو گئی تھی۔ وہ وہاں کم از کم ہارون کمال کے ساتھ بیٹھ کر لمبا چوڑا ڈنر نہیں کرنا چاہتی تھی۔ وہ آدمی اس کے لئے ناقابل برداشت تھا حالانکہ اس نے اب تک ایسی کوئی حرکت یا بات نہیں کی تھی جو نامناسب ہوتی لیکن اس کے باوجود امبر کو اس کا وہاں بیٹھنا بری طرح کھٹک رہا تھا۔
ویٹر ہارون کمال کے لیے سوپ لے آیا تھا۔
”آپ دونوں کبھی میرے ہاں آئیں۔” ہارون کمال نے اچانک طلحہ اور امبر کو دعوت دی۔
”آپ کے ہاں …؟” طلحہ یک دم کچھ ہچکچایا۔ ”دراصل ہم دونوں کی ابھی باقاعدہ شادی نہیں ہوئی ہے۔ صرف نکاح ہوا ہے…؟”




Loading

Read Previous

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۵

Read Next

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۷

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!