تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۶

”جھوٹ مت بولو … تمہارے علاوہ یہ حرکت کوئی نہیں کر سکتا تمہارا نام لکھا ہے … تمہارے علاوہ میرا دشمن کوئی بھی نہیں ہے …” اس نے ثمر کی بات کاٹی۔ ”تمہاری ہمت کیسے ہوئی کہ تم میرے بیگ میں … میری کتابوں کے ساتھ مینڈک کو رکھ دو۔”
”کیوں کرتے ہو تم اس طرح کی فضول حرکتیں … اور اس طرح کے مذاق۔” شہیر نے ایک بار پھر مداخلت کی۔
”مذاق … بھائی! مذاق نہیں تھا… بدتمیزی تھی … آپ بس اس کو ماریں … اس کو سمجھانے سے کچھ نہیں ہو گا … آپ اسے ماریں۔” وہ اب شہیر کا بازو ہلا رہی تھی۔
”اگر اس نے آئندہ ایسی حرکت کی تو میں وعدہ کرتا ہوں کہ میں اسے بہت ماروں گا…” شہیر نے اسے یقین دلایا۔
”اب تم لوگ کپڑے بدل کر کھانا کھا لو … میں نے گرم کیا ہے … اور ثمر! میں کہہ رہا ہوں’ اس طرح کی حرکت دوبارہ نہیں ہونی چاہیے۔”
شہیر نے معاملے کو ختم کرتے ہوئے کہا۔ ثانی کو بے حد مایوسی ہوئی۔
”ٹھیک ہے بھائی! میں دوبارہ کبھی ایسا نہیں کروں گا۔” ثمر نے برق رفتاری سے وعدہ کرتے ہوئے کہا۔ وہ اتنی آسانی سے بچ نکلنے کی توقع نہیں کر رہا تھا۔ شہیر اپنے کمرے میں چلا گیا۔
”تم آئندہ مجھ سے بات مت کرنا… اور نہ کبھی میری چیزوں کو ہاتھ مت لگانا۔”
اس نے تخت سے اپنا بیگ اٹھاتے ہوئے ثمر سے کہا اور ثمر تب سے اس کے آگے پیچھے پھر رہا تھا … مگر اس بار ثانی نے واقعی طے کر لیا تھا کہ وہ اس سے بات نہیں کرے گی۔
٭٭٭




منصور علی اگلے دن سارے وقت فیکٹری میں مصروف رہے۔ رات کو دیر سے سونے کی وجہ سے وہ بارہ ایک بجے کے قریب فیکٹری گئے اور پھر مشین کی طرح مصروف ہو گئے۔ فیکٹری میں ان کے لیے اس دن بہت زیادہ کام تھے اور ان کاموں میں وہ پچھلی رات کا واقعہ کو یکسر بھول چکے تھے۔ یکے بعد دیگرے انہوں نے بہت سے کاموں کو نپٹایا۔
رات نو بجے تک وہ اسی طرح مصروف رہے’ پھر ساڑھے نو بجے کے قریب وہ گھر آئے اور پھر دوبارہ ایک ڈنر پر چلے گئے۔ وہاں سے ان کی واپسی ساڑھے بارہ بجے کے قریب ہوئی تھی۔ منیزہ اس وقت جاگ رہی تھی جبکہ باقی سارے بچے اپنے اپنے کمروں میں تھے۔ وہ کچھ دیر منیزہ کے ساتھ باتوں میں مصروف رہے۔ اس کے بعد کپڑے تبدیل کر کے ایک بار پھر سونے کے لیے لیٹ گئے۔ اس رات وہ خاصے تھکے ہوئے تھے اور انہیں نیند بھی آ رہی تھی۔ مگر بیڈ پر لیٹ کر آنکھیں بند کرتے ہی انہیں پچھلی رات کا واقعہ یاد آ گیا۔ انہوں نے بے اختیار آنکھیں کھول دیں۔ منیزہ بھی سونے کے لیے لیٹ چکی تھی اور کمرے میں نائٹ بلب کی ہلکی سی روشنی پھیلی ہوئی تھی۔ ان کا دل چاہا کہ وہ ایک بار پھر لاؤنج میں جا کر وہ فلم دیکھیں۔ انہوں نے بے اختیار خود کو جھڑکا۔
”آخر یہ کیا احمقانہ اور بچکانہ حرکت ہے۔ اگر میں نے کل اس فلم کو دیکھ ہی لیا تھا تو آج میں کیوں دوبارہ اس کے بارے میں سوچ رہا ہوں۔”
انہوں نے آنکھیں بند کیے ہوئے سوچا۔ ”یہ بہت نامناسب بلکہ غیر اخلاقی حرکت ہے۔”
انہوں نے اس لڑکی کو ذہن سے جھٹکنا چاہا۔
Mirror Mirror on the wall
Tell me who is the fairest of us all?
کسی نے بہت خوبصورت اور ملائم آواز میں مسکراتے ہوئے ان کے کانوں میں سرگوشی کی تھی۔ انہوں نے آنکھیں کھول دیں۔ کمرے میں پھیلی نیم تاریکی کو کسی کے اجلے چہرے نے دور کر دیا تھا۔ وہ تاریکی سے ابھرتے ہوئے اس چہرے کو کسی معمول کی طرح دیکھتے رہے … اس کی آنکھیں’ اس کے ہونٹ ‘ اس کی پیشانی’ اور گلاس جیسے سراپے پر بل کھاتے’ لہراتے بال … نزاکت نفاست… مسکراتے ہوئے ٹھوڑی میں نمایاں ہو جانے والا گڑھا … اور … اور …
انہوں نے آنکھیں بند کر کے ایک سانس لیا … پھر دوسرا … پھر تیسرا … وہ ان کی جان نہیں چھوڑ رہی تھی۔ وہ اٹھ کر بیڈ پر بیٹھ گئے۔
”کیا ہوا منصور ؟” برابر والے بیڈ سے منیزہ نے پوچھا۔ وہ یقینا ابھی سوئی نہیں تھی۔
”کچھ نہیں… پیاس لگ رہی ہے۔”
منصور علی نے لیمپ آن کیا اور جگ سے گلاس میں کچھ پانی انڈیل لی۔ منیزہ نے انہیں دوبارہ مخاطب نہیں کیا۔ وہ مطمئن ہو گئی تھی۔ منصور علی گلاس ہاتھ میں لیے اپنے بیڈ کی پشت سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئے۔ کچھ سوچتے ہوئے انہوں نے ہاتھ میں پکڑے ہوئے گلاس سے چند گھونٹ لیے … بہت آہستہ آہستہ … یوں جیسے وہ پانی نہیں تھا … کچھ اور تھا … لیمپ کی روشنی نے صرف ان کے بیڈ تک کی جگہ کو روشن کیا ہوا تھا۔ باقی کمرہ اسی طرح تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا۔ انہوں نے گردن موڑ کر منیزہ کو دیکھا۔ وہ کروٹ لیے سو رہی تھی۔ انہوں نے ہاتھ بڑھا کر گلاس واپس سائیڈ ٹیبل پر رکھ دیا اور لیمپ آف کر دیا۔ کمرے میں ایک بار پھر تاریکی پھیل گئی۔ کچھ دیر تک وہ اسی تاریکی میں بیڈ کی پشت سے ٹیک لگائے بیٹھے رہے۔ پھر آہستگی سے دروازہ کھولتے ہوئے اٹھ کر باہر آ گئے۔ لاؤنج میں آ کر لائٹس آن کیں اور پھر رکے بغیر ٹی وی ٹرالی کی طرف بڑھ گئے۔ اس وقت وہ بالکل کسی معمول کی طرح تھے … یا پھر نیند میں چلنے والے کسی آدمی کی طرح جو کسی روبوٹ کی طرح کچھ بھی سوچے سمجھے بغیر اپنا کام کرتا جاتا ہے۔ منصور علی بھی اس وقت کسی ٹرانس میں تھے’ جس نے چند لمحوں میں ان کے پیروں کے نیچے سے زمین نکال کر آسمان بچھا دیا تھا۔ آسمان کو چھو لینے کا احساس انسان کو آپے سے باہر کر دینے کے لیے کافی ہوتا ہے … اور یہ تصور کہ آسمان پاؤں کے نیچے ہے … انسان پر کیا کیا غضب ڈھاتا ہو گا۔
منصور علی نے مسکراتے ہوئے ٹی وی آن کیا۔ پھر وہ نیچے جھکے اور وی سی پی کے اندر موجود فلم کو ریوائنڈ کرنا چاہا۔ اگلے کئی لمحے وہ سیدھے نہیں ہو سکے۔ وی سی پی میں فلم موجود نہیں تھی۔ کوئی تپتے صحرا میں پانی کا بھرا ہوا گلاس ان کے خشک ہونٹوں کے سامنے ریت پر انڈیل گیا تھا۔ ان کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔ نیچے کارپٹ پر پنجوں کے بل بیٹھتے ہوئے انہوں نے بے چینی اور اضطراب کے عالم میں وہاں موجود ساری ویڈیو کیسٹس کو باری باری الٹ پلٹ کر دیکھا۔ وہ فلم وہاں نہیں تھی … وہ فلم کہاں تھی؟ وہ ایک بار پھر زمین پر آ چکے تھے۔
٭٭٭
رخشی نے طلحہ کا موبائل نمبر ڈائل کیا۔ طلحہ کاوزیٹنگ کارڈ اس کے ہاتھ میں تھا’ جو وہ امبر کے ساتھ اس کے گھر آنے پر اسے دے کر گیا تھا۔ چند لمحوں تک بیل ہوتی رہی پھر کسی نے کال ریسیو کی۔
”ہیلو” وہ کسی عورت کی آواز تھی۔ رخشی گڑبڑا گئی۔ اسے توقع نہیں تھی کہ کال کوئی عورت ریسو کرے گی۔
”ہیلو۔” عورت نے ایک بار پھر کہا۔
”طلحہ سے بات کر سکتی ہوں؟” رخشی نے سنبھلتے ہوئے کہا۔ دوسری طرف خاموشی چھا گئی۔
”آپ کون ہیں؟” شبانہ نے پوچھا۔ طلحہ کچھ دیر پہلے ان کے پاس بیٹھا باتیں کر رہا تھا پھر وہ اٹھ کر چلا گیا۔ اتفاق سے اس کا موبائل ٹیبل پر پڑا رہ گیا۔ اس وقت رات کے دس بج رہے تھے۔ اسی لیے کچھ تجسس کے عالم میں انہوں نے رخشی سے اس کا نام پوچھا تھا۔
”میں … میں ان کی فرینڈ ہوں۔” رخشی کو اس سوال کی توقع نہیں تھی۔
”نام کیا ہے آپ کا ؟” شبانہ کو اس کے جواب سے تسلی نہیں ہوئی۔
”میرا نام … رخشی ہے۔” اس نے کچھ توقف کے بعد کہا۔
”میں بات کرواتی ہوں۔” شبانہ نے کہا اور موبائل لے کر طلحہ کے کمرے کی طرف چلی آئیں۔
”تمہاری دوست کا فون ہے …” طلحہ کے کمرے میں داخل ہو کر انہوں نے کہا۔ وہ ٹی وی دیکھنے میں مصروف تھا۔ ان کی بات پر چونکا۔
”میری دوست !”
”ہاں رخشی۔” شبانہ نے موبائل اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔
”کون رخشی؟” اسے فوری طور پر رخشی’ یاد نہیں آئی۔ رخشی دوسری طرف ساری آوازیں سن رہی تھی۔
”ہیلو” طلحہ نے فون لے کر کہا۔
”ہیلو … طلحہ! میں رخشی بات کر رہی ہوں۔ امبر کی دوست۔” اس نے پہلے جملے میں ہی اپنا تعارف کروا دیا۔
”اوہ رخشی … کیسی ہیں آپ؟” طلحہ نے حیرت کے جھٹکے پر قابو پاتے ہوئے کہا۔ اس کی نظریں بے اختیار وال کلاک کی طرف گئی تھیں۔
”میں ٹھیک ہوں … آپ کو اس وقت ڈسٹرب کرنے پر معذرت چاہتی ہوں۔”
”نہیں کوئی بات نہیں …” طلحہ نے شبانہ کو دیکھتے ہوئے کہا۔ وہ اس کے قریب ہی کھڑی تھیں اور شاید یہ ان کا تجسس تھا جو انہیں وہاں روکے ہوئے تھا۔
”کیا آپ کل میرے گھر آ سکتے ہیں؟” رخشی نے کہا۔
”کل ؟” وہ چونکا۔
”ہاں کل … مجھے آپ سے کچھ بات کرنا ہے بلکہ میری امی کو … ہمیں آپ کی کچھ مدد کی ضرورت ہے … میں فون پر بات کر سکتی ہوں۔ مگر بہتر یہ ہے کہ آپ ہمارے گھر آ جائیں … اگر آپ کو زحمت نہ ہو تو … ورنہ پھر میں اور امی آپ کے پاس آ جاتے ہیں۔” رخشی نے کہا۔
”نہیں نہیں ۔ آپ کو آنے کی ضرورت نہیں ہے … میں خود آپ کے گھر آ جاؤں گا۔” طلحہ نے اس کی بات کے جواب میں فوری طور پر کہا۔
”میری سمجھ میں نہیں آ رہا کہ میں آپ کا شکریہ کیسے ادا کروں۔” رخشی نے بڑے ممنون انداز میں کہا۔
”اس کی ضرورت نہیں ہے … میں کل تین چار بجے آ جاؤں گا۔” رسمی الوداعیہ کلمات کہہ کر اس نے فون بند کر دیا۔
” یہ کون تھی؟” اس کے فون بند کرتے ہی شبانہ نے پوچھا انہوں نے وہیں کھڑے کھڑے ساری گفتگو سنی تھی۔
”یہ امبر کی دوست ہے۔” طلحہ نے ٹی وی کا والیم دوبارہ تیز کر دیا۔
”امبر کی دوست ہے … تو اس نے تمہیں کیوں فون کیا ہے؟” شبانہ نے کہا۔ ”اور تمہیں گھر کیوں بلا رہی ہے؟”
”اسے کچھ مدد کی ضرورت ہے۔” طلحہ نے مختصراً کہا۔
”کیسی مدد کی ؟” شبانہ الجھیں۔
”اس کی بہن کو کچھ عرصہ پہلے اس کے بہنوئی نے قتل کر دیا ہے۔ اسی سلسلے میں۔” طلحہ نے بتایا۔
”تم اس سلسلے میں کیا کرو گے؟” شبانہ کے ماتھے پر بل پڑ گئے۔
”پولیس میں کچھ واقفیت ہے میری اور کیا مدد کروں گا میں۔” اس نے گول مول انداز میں جواب دیا۔

Loading

Read Previous

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۵

Read Next

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۷

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!