تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۶

”شوق تو پیدا کیا جاتا ہے … اور ہرچیز کے لیے شوق پیدا کیا جا سکتا ہے اور دوسری بات جو تم بچے چھوٹے ہونے کی کہہ رہے تھے تو تمہارے بچے اتنے چھوٹے نہیں ہیں … اسکول کالج جا رہے ہیں … پھر اگر بندہ ملازم افورڈ کر سکتا ہو تو ہر چیز بیوی پر ڈالنے کی کیا ضرورت ہے ۔ تم دیکھو میرے بھی بچے ہیں اور تمہارے بچوں کے ہی ہم عمر ہیں مگر شائستہ نے ہر چیز بہت پرفیکٹ طریقے سے سنبھال رکھی ہے …” ہارون نے شائستہ کی تعریف کرتے ہوئے کہا۔
”شائستہ بھابھی تو غیر معمولی عورت ہیں۔ ہر عورت ان جیسی خوبیوں کی مالک نہیں ہوتی۔” منصور علی نے شائستہ کی تعریف کی۔” منیزہ اگر سوشل ہونے کی کوشش کرے بھی تو بھی وہ شائستہ بھابھی جیسی ہر دل عزیز نہیں ہو سکتی۔”
”ہاں یہ ٹھیک ہے شاستہ واقعی بہت ایکسٹرا اوڈنری قسم کی عورت ہے مگر منیزہ بھابھی اس جیسی سوشل نہ ہوں تھوڑا بہت ہی باہر آنا جانا شروع کریں تو بھی تمہارے بزنس پر بڑا زبردست اثر پڑ سکتا ہے۔”
”ہارون! شائستہ بھابھی تو اسمارٹ بھی بہت ہیں۔ انہوں نے اپنے آپ کو مین ٹین کیا ہوا ہے … منیزہ تو اس معاملے میں بھی بہت لاپروا ہے۔” منصور علی نے اس کی بات کاٹ کر کہا۔
”ہاں۔ بھابھی کو اپنے آپ کو کچھ فٹ تو کرنا ہی پڑے گا۔ … حالانکہ وہ جتنی خوبصورت ہیں وزن کم کر کے وہ بہت کم عمر اور اٹریکٹو لگ سکتی ہیں۔” ہارون کمال نے خاصی بے تکلفی سے کہا۔ کچھ دیر دونوں خاموش چلتے رہے پھر ہارون نے کہا۔
”یا پھر تمہارے لیے ایک اور آپشن ہو سکتا ہے۔”
”کیا آپشن؟”
”تم اپنی کوئی سیکرٹری رکھو… کوئی کم عمر خوبصورت سی لڑکی … اس کو پارٹیز میں لے جایا کرو … کئی لوگ ایسا بھی کرتے ہیں بلکہ میں نے خود بھی ایک سیکرٹری رکھی ہوئی ہے۔ کئی بار وہ میرے لیے بہت سی آسانیاں پیدا کرتی ہے۔” اس نے منصور علی کو مشورہ دیا۔
”میں نے کبھی سیکرٹری نہیں رکھی … میرا مطلب ہے … کوئی خاتون سیکرٹری۔” منصور علی کچھ ہچکچایا۔




”یہی تو میرے لیے حیران کن بات ہے کہ تم کسی لڑکی کو اپنی سیکرٹری کیوں نہیں رکھتے۔” تم اس قدر ٹیلنٹڈ ہو… پیسہ بھی ہے تمہارے پاس … تمہیں دو جمع دو چار کرنا بھی آتا ہے مگر واحد چیز جو تمہاری ترقی میں رکاوٹ بنے گی وہ کاروباری روابط اور تعلقات کی کمی ہے۔ منی ایکسچینج کا بزنس اور طرح کا ہوتا ہے وہاں اتنے سوشل نہ بھی ہوں تب بھی اگر ساکھ اچھی ہے تو کام چل جاتا ہے مگر فیکٹریز چلانا ایک بالکل مختلف چیز ہے اس میں زیادہ سے زیادہ سہاروں کی ضرورت پڑتی ہے اور ایک اچھی خوبصورت سیکرٹری ان سہاروں میں سے سب سے مضبوط سہارا ثابت ہوتی ہے۔ تمہیں اگر یقین نہ ہو تو تم آزمالو۔” ہارون نے بڑے وثوق کے ساتھ کہا۔
”میں سوچوں گا اس بارے میں۔”
”اچھی چیزوں کے بارے میں زیادہ سوچنا نہیں چاہیے۔ خاص طور پر اچھے مشورے کے بارے میں … اور اس بات کی گارنٹی تمہیں میں دیتا ہوں کہ یہ مشورہ اچھا ہے۔” ہارون کمال نے اس بار مسکراتے ہوئے کہا۔
”مجھے اصل میں اس معاملے کے بارے میں منیزہ سے بھی بات کرنی پڑے گی۔” منصور علی نے کچھ ہچکچاتے ہوئے کہا۔
”وہ کیوں؟” ہارون کمال نے حیرت ظاہر کی۔
”اس کی رضامندی کے بغیر تو میں کسی عورت کو سیکرٹری نہیں رکھ سکتا اور پھر سیکرٹری بھی وہ جسے میں پارٹیز میں لے جایا کروں گا۔” منصور علی نے کہا ۔ ہارون کمال نے اس کی بات پر قہقہہ لگایا۔
”اوکے۔ پھر میری بات لکھ لو کہ بھابھی تمہیں کبھی سیکرٹری رکھنے کی اجازت نہیں دیں گی … کبھی بیوی سے پوچھ کر کوئی سیکرٹری رکھتا ہے اور وہ بھی یہ بتا کر کہ وہ تمہارے ساتھ پارٹیز میں جایا کرے گی … کم آن منصور۔” ہارون کمال نے اس کا مذاق اڑایا۔ ”میں نے جب سیکرٹری رکھی تھی تو میں نے شائستہ سے پوچھنا تو ایک طرف اسے بتانا تک ضروری نہیں سمجھا تھا۔ اور اسے جب پتا چلا تھا تو اس نے کسی ردعمل کا اظہار نہیں کیا تھا اس نے اسے بڑے معمول کی چیز کے طور پر لیا تھا۔”
”شائستہ بھابھی اور منیزہ میں بہت فرق ہے۔” منصور علی نے سنجیدگی سے کہا۔ ”شائستہ بھابھی کچھ اور طرح کی عورت ہیں اور منیزہ کچھ اور طرح کی … جو بات شائستہ بھابھی کیلئے قابل اعتراض نہیں ہوتی وہ منیزہ کے لیے بہت زیادہ قابل اعتراض ہو سکتی ہے۔”
”اسی لیے میں تم سے کہہ رہا ہوں کہ تم بھابھی کو اس بارے میں مت بتاؤ۔ بعد میں انہیں پتا چلے گا تو وہ کچھ نہیں کر سکیں گی مگر پہلے ان کی اجازت لینے کی کوشش کرو گے تو شاید وہ طوفان ہی برپا کر دیں … منیزہ بھابھی جیسی عورتوں کو سیکرٹری دوسری بیوی کی طرح لگتی ہے۔” منصور علی اس کی بات پر مسکرایا۔
اسے ہارون کمال کی تجویز کچھ اتنی بری نہیں لگی تھی … وہ جب سے یہاں پارٹیز میں شرکت کر رہا تھا وہ خود بھی یہ دیکھ رہا تھا کہ بیوی یا سیکرٹری کا ساتھ ہونا کتنا اہم ہوتا ہے وہ بیوی پر اس حوالے سے کوئی دباؤ نہیں ڈال سکتا تھا کیونکہ وہ منیزہ کی فطرت اور عادتوں کو بہت اچھی طرح جانتا تھا مگر کوئی سیکرٹری رکھنے کے بارے میں واقعی غور کیا جا سکتا تھا۔
”سیکرٹری کے سلسلے میں تم میری کچھ مدد کر سکتے ہو۔” کچھ دیر بعد اس نے مستحکم لہجے میں ہارون کمال سے کہا یوں جیسے وہ کسی فیصلے پر پہنچ چکا تھا۔ ہارون کمال نے مسکرا کر اسے دیکھا۔
”کیوں نہیں ضرور میں بہت سی لڑکیوں کو جانتا ہوں اور میں انہیں تمہارے پاس بھجوا بھی سکتا ہوں … مگر میں چاہتا ہوں تم یہ کام خود کرو … خود ایڈ دے کر انٹرویو لو گے تو تمہیں آئیڈیا ہو سکے گا کہ تمہارے لیے کون سی سیکرٹری ٹھیک ہے۔”
”مجھے تو صرف ایک ایسی سیکرٹری چاہیے جو میرے لیے اچھا کام کر سکے۔” منصور علی نے کہا۔
”نہیں۔ تمہیں صرف ایک ایسی سیکرٹری چاہیے جو بہت خوبصورت ہو۔ خوبصورت عورت ہر کام اچھا ہی کرتی ہے … یا کروا لیتی ہے۔” ہارون کمال نے مسکراتے ہوئے معنی خیز انداز میں کہا۔ منصور علی نے قدرے حیرت سے اسے دیکھا اور پھر اسے مسکراتا دیکھ کر خود بھی مسکرا دیا۔
”تم اپنا ایڈنیوز پیپر میں دے دو۔ کچھ لڑکیوں کو میں بھی تمہارے پاس بھجواؤں گا … تم دیکھ لینا کہ ان میں سے کون سی تمہارے لیے مناسب ہے۔ ہو سکتا ہے ایڈ دیکھ کر تمہارے پاس کوئی ان سے بہتر لڑکی آ جائے۔”
منصور علی نے جواب میں کچھ کہنے کے بجائے صرف سرہلا دیا۔
٭٭٭
دبلی پتلی چودہ پندرہ سال کی وہ لڑکی اس وقت ہاتھ سینے پر باندھے سرجھکائے اسٹیج پر ہونے والی تلاوت سننے میں مصروف تھی۔ اس نے اپنی Sash (اعزازی پٹی) کے ایک سرے سے اپنے سر کو ڈھانپا ہوا تھا۔ اس کی نظریں اس وقت زمین پر مرکوز تھیں۔ مائیک کے سامنے موجود لڑکی تلاوت ختم کرنے کے بعد اب ان آیات کا ترجمہ کرتے ہوئے آخری لائن دہرا رہی تھی۔
”اور تم اپنے رب کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے؟”
تلاوت کرنے والی لڑکی مائیک کے سامنے سے گئی۔
اس لڑکی نے سینے پر باندھے ہوئے بازو کھولتے ہوئے سر اوپر اٹھایا اور ایک ہاتھ سے اپنے سر پر موجود Sash کو اتار دیا۔ اس کا یونفارم کسی سلوٹ یا داغ دھبے کے بغیر تھا یوں جیسے وہ ابھی ابھی لانڈری سے نکال کر پہنا گیا تھا مگر کوئی بھی اسے قریب سے دیکھ کر اندازہ لگا سکتا تھا کہ وہ یونیفارم نیا نہیں تھا بلکہ بہت زیادہ استعمال کیا گیا تھا۔ اسے بہت اچھی طرح کلف لگا کر استری کی گئی تھی۔ … نہ ہی اس میں کہیں پیلاہٹ جھلک رہی تھی۔ اس لڑکی کے پیروں میں موجود سیاہ جوتے بھی بہت اچھی طرح پالش کیے گئے تھے مگر وہ بھی بہت زیادہ استعمال کیے ہوئے تھے۔
اس لڑکی میں کوئی ایسی خاص بات ضرور تھی کہ وہ ہر حال میں اچھی لگتی ہے۔ اس کی آنکھیں دیکھ کر کوئی بھی اس کی ذہانت کا اندازہ لگا سکتا تھا۔ سیاہ چمک دار بالوں کو جو ایک فٹ سے زیادہ لمبے نہیں تھے۔ انہیں سیاہ ربربینڈ سے پونی کی شکل میں باندھ رکھا تھا وہ اپنے سر پر کچھ ہیئرپن بھی بڑی نفاست سے لگائے ہوئے تھی تاکہ اس کے بال ربربینڈ سے نکلنے کی صورت میں بھی اس کے چہرے پر نہ آسکیں۔
وہاں کھڑی دوسری لڑکیوں کے برعکس اس کے کندھے آگے کو جھکے ہوئے نہیں تھے۔ سفید کالرڈ شرٹ میں سیدھے کندھوں اور لمبی گردن کے ساتھ وہ بہت اچھی لگ رہی تھی۔ وی کی شکل میں لی گئی Sash کی ایک سائیڈ مختلف قسم کے پیجز اور صرف ایک رنگ کے اسٹارز سے بھری ہوئی تھی …
بلو اسٹار … اگر کوئی اس کا اکیڈمک ریکارڈ چیک نہ بھی کرتا تو بھی صرف اس کی Sashدیکھ کر اس کی تعلیمی قابلیت کا اندازہ کر سکتا تھا اور اگر وہ اس Sash پر وہ سب کچھ نہ بھی لگائے ہوتی تب بھی اسے دیکھ کر کوئی بھی بوجھ سکتا تھا کہ وہ ایوریج اسٹوڈنٹ نہیں تھی۔
وہ اس وقت بڑے غور سے اسٹیج پر کمپیئر کی گفتگو سن رہی تھی جو پریفیکٹ بورڈ کی اہمیت اور اس کے کردار کے حوالے سے کچھ جملے ادا کر رہی تھی۔
ایک چھوٹے سے وقفے کے بعد چند تعارفی جملوں کے ساتھ اس نے اسی لڑکی کا نام لیا۔ ایک ہلکی سی مسکراہٹ اس لڑکی کے چہرے پر آئی جو بہت جلد معدوم ہو گئی۔ اپنی جگہ چھوڑ کر وہ اسٹیج کی طرف بڑھنے لگی۔ اگر اس کے کھڑے ہونے کا انداز بہت زیادہ پر اعتماد تھا تو اس کے چلنے کا انداز اس سے زیادہ پر اعتماد تھا … بہت ہموار’ پر تمکنت اور سیدھا … خاص وقار کے ساتھ۔
اسٹیج پر چڑھ کر وہ اسکول کی سربراہ کے سامنے کھڑی ہو گئی … دونوں کے درمیان گرم جوش اور شناسا مسکراہٹوں کا تبادلہ ہوا۔ اسکول کی سربراہ اتنی بار اسے مختلف قسم کے اعزازات سے نواز چکی تھیں کہ انہیں تعداد بھی یاد نہیں تھی۔ وہ ان اسٹوڈنٹس میں سے تھی جو کسی بھی اسکول کا اثاثہ ہوتے ہیں۔ وہ اب اسے ایک اور بیج والی Sash پہنا رہی تھیں۔ اس لڑکی نے شکریہ ادا کرتے ہوئے وہ Sash پہنی اور پھر اسے ٹھیک کرتے ہوئے اسٹیج سے نیچے اتر آئی۔
تمام Sashes کی تقسیم کے بعد کمپیئر اب حلف لینے کیلئے اسکول کی سربراہ کو دعوت دے رہی تھی۔ وہ لڑکی Prefects کی پہلی قطار سے دو قدم آگے ایک مخصوص نشان پر جا کر کھڑی ہو گئی۔ اپنا دایاں ہاتھ اٹھاتے ہوئے وہ پرنسپل کے پیچھے حلف کے الفاظ دہرانے لگی۔ اسکول کی ہیڈ گرل اپنے Prefects کے ساتھ اپنے عہدے کا حلف اٹھا رہی تھی۔
”میں … حلف لیتی ہوں کہ میں اس اسکول کے تمام قواعد و ضوابط کی پابندی کروں گی میں اپنے فرائض کو …”
اس لڑکی کی Sash پر اس واحد بیج کا اضافہ کیا جا چکا تھا جو اب تک اس کے پاس نہیں تھا۔
٭٭٭
منصور علی نے ٹیبل لیمپ آن کیا۔ کمرے میں پھیلی ہوئی تاریکی یک دم چھٹ گئی۔ انہیں نیند نہیں آرہی تھی … اور وہ پچھلے پندرہ بیس منٹ سے بیڈ پر لیٹے کروٹیں بدل کر سونے کی کوشش کر رہے تھے۔
انہوں نے لیٹے لیٹے سامنے دیوار پر لگے ہوئے وال کلاک پر نظر دوڑائی۔ رات کے دو بج رہے تھے۔ وہ ساڑھے بارہ بجے کے قریب اپنے کمرے میں سونے کے لیے آئے تھے۔ کچھ دیر وہ منیزہ سے باتوں میں مصروف رہے اور پھر سونے کے لیے اپنے بیڈ پر لیٹ گئے۔ مگر بیڈ پر لیٹنے کے بعد جیسے ہی کمرے کی لائٹ بند کی گئی … یک دم انہیں یوں لگا جیسے ان کی ساری حسیات جاگ اٹھی ہوں۔ تھکن نام کی کوئی چیز وہ محسوس نہیں کر رہے تھے۔ منیزہ کچھ دیر میں ہی سو گئی تھی مگر وہ بہت کوشش کے باوجود بھی سونے میں کامیاب نہیں ہوئے تھے۔
اپنے بیڈ پر بہت آہستگی سے اٹھ کر بیٹھتے ہوئے انہوں نے گردن موڑ کر منیزہ کو دیکھا’ وہ گہری نیند میں تھی۔ سائیڈ ٹیبل پر پڑا ہوا لائٹر اور سگریٹ اٹھا کر وہ بیڈ روم سے باہر آ گئے۔
لاؤنج کی لائٹس آن کرتے ہوئے وہ صوفے پر آ کر بیٹھ گئے۔ انہوں نے ایک سگریٹ سلگایا اور پھر سینٹر ٹیبل پر پڑا ہوا اخبار اٹھا لیا سگریٹ کے کش لیتے ہوئے وہ اخبار دیکھنے لگے اس دوران یکے بعد دیگرے انہوں نے دو اور سگریٹ پیئے’ اور پھر اکتا کر ٹی وی آن کر لیا۔ کسی بھی چینل پر کوئی ڈھنگ کا پروگرام نہیں آ رہا تھا سوائے بے ہنگم اچھل کود اور موسیقی کے’ وہ بور ہو کر اٹھنے ہی والے تھے کہ ٹی وی ٹرالی کے نچلے دراز میں رکھے وی سی آر پر نظر پڑی جس میں سے ایک ویڈیو کیسٹ جھانک رہی تھی انہوں نے اٹھ کر کیسٹ کو ہلکے سے پش کیا اور پھر اسے دیکھنے کا فیصلہ کرتے ہوئے ریموٹ لے کر صوفے پر آ بیٹھے۔




Loading

Read Previous

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۵

Read Next

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۷

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!