تو کیا ہوا —– فرحین اظفر

وہ اس کی زندگی کی پہلی اور آخری فیشن پریڈ تھی۔ اس کے بعد اس نے کب اور کیوں، میک اوور لائن کا انتخاب کر لیا اسے اب یاد بھی نہیں تھا۔ یاد تھا تو صرف اتنا کہ ضروری نہیں ہر شخص ہر فیلڈ کے لیے پرفیکٹ رہے۔ اسی طرح ضروری نہیں کہ کوئی بھی بندہ کسی بھی میدان میں کامیاب نہ ہو سکے۔ بالکل اسی طرح یہ بھی ضروری نہیں کہ جس کو برائی کا سبق ملے وہ اس کو دوسروں تک اچھائی میں کنورٹ کرکے پہنچائے۔ برائی کا بدلہ برائی سے بھی دیا جاسکتا ہے۔
اس دن کی جھیلی گئی بے عزتی نے اس کے دل و دماغ پر گہرے نقش چھوڑے۔ جب اسے ڈھیروں جانے اَن جانے لوگوں کے درمیان مضحکہ بننا پڑا ۔
ملک کی جانی پہچانی ماڈلز جو اسی کی طرح جدوجہد کرکے شہرت کی سیڑھیاں چڑھنے کے قابل ہوئی تھیں، کچھ دیر پہلے تک اس کے بارسوخ والد کی پہنچ پر رشک کررہی تھیں۔ جس کی وجہ سے ٹیسی کو اتنے برے لوگوں کے ساتھ ڈائریکٹ سال کے چند ایک گنے چنے فیشن ایونٹ میں سے ایک ہی چانس ملا۔ کچھ دیر بعد وہی ماڈل گرلز، بلکہ صرف وہی کیا، وہاں موجود، ٹیکنیشنز، بیوٹی ایکسپرٹس، میک اپ آرٹسٹس، ایونٹ اور شوآرگنائزر اور منیجرز، سب ہی اس کی حالتِ زار پر افسوس کرنے لگے تھے۔ کچھ ڈیزائنر کو دبے الفاظ میں بُرا بھلا کہہ رہے تھے۔ لیکن آٹے میں نمک برابر ان لوگوں کے سامنے، ان لوگوں کی تعداد بہت نمایاں تھی۔ جو طنزیہ مسکراہٹ لبوں میں دبائے، اپنے کاموں میں مصروف رہے۔ اشاروں کنایوں میں اسے دیکھتے رہے۔
اس روز وہ ان چاہی مرکزِ نگاہ بن گئی تھی۔ اس نے نہیں سوچا تھا کہ وہ یوں ہی سب کی نظروں میں آئے گی۔
وہ دن اس کے ماڈلنگ کیریئر کا آخری دن تھا۔
اس دن کے بعد سے اس نے کبھی اس فیلڈ کی طرف آنکھ اٹھا کر نہیں لیکن دل ہی دل میں جنم لیتے، اذیت اور انتقام کے اس جذبے کا سر نہ کچل سکی۔ جو اس دن کے بعد سے اس کو ہر اس نو آموز لڑکی کو دبانے کے لیے مجبور کرنے لگا، جو اپنے کیریئر کے لیے جدوجہد کرتی جانے اَن جانے میں اس سے آٹکرائی۔
عموماً اس کا شکار ٹیشا جیسی لڑکیاں ہی ہوتی تھیں جو اپنا مقصد پورا کرنے کے لیے کسی بھی حد سے گزرجانے کو تیار ہوجاتی تھیں۔ انہیں اکسانا آسان ہوتا تھا۔ گھی نکالنے کے لیے وہ انگلی کے بجائے کلائی تک ٹیڑھی کرنے کو تیار ہوجاتی اور بعد میں بازو تڑوالینے کے بعد ٹیسی یا اس جیسی کسی اور منتقم مزاح عورت یا مرد کی محتاج ہوجاتیں۔
ٹیشا سمجھ رہی تھی کہ اس میں کوئی خاص بات ہے جبھی تبسم راؤ جیسی میک اپ آرٹسٹ اس کی طرف متوجہ ہوئی۔ وہ ٹھیک سمجھ رہی تھی اس کے اندر تبسم آفاق راؤ کی توجہ کھینچ لینے والی ”خاص بات” تھی۔ لیکن وہ خاص بات کیا تھی یہ وہ مرکر بھی نہیں جان سکتی تھی۔
تبسم نے نہ صرف اسے جیز کے ہاسٹل تک ڈراپ کیا تھا۔ بلکہ اس کی لگژری گاڑی سے اترتے وقت تک دونوں کے سیل نمبر ایک دوسرے کے پاس منتقل ہوچکے تھے۔
ٹیشا کے لیے ایک بڑی خوشی تھی لیکن تبسم کے لیے ایک بے حد معمولی کامیابی۔ بڑی سے چھوٹی اور معمولی سے غیر معمولی تک کا یہ سفر کس کے لیے مبارک تھا اور کس کے لیے منحوس اس کا فیصلہ ہونا ابھی باقی تھی۔
******




کالج کا وہی مخصوص اور مانوس ماحول تھا۔
کافی عرصے سے اس نے کلاسز لینا بالکل ہی چھوڑ دی تھیں۔ جیز جیسی لڑکی کی صحبت میں اس کے علاوہ اور ہو بھی کیا سکتا تھا۔
کچھ عرصے سے جیز کی چاپلوسی کرنے والی چند ایک لڑکیوں نے بھی، ٹیشا کی دودھاری تلوار جیسی زبان سے تنگ آکر ان کے پاس آنا اور بیٹھنا چھوڑدیا تھا۔
”چل پیچھے چلتے ہیں۔”
جیز نے ببل گم کا ایک بڑا سا ببل بناکر پھوڑا اور منہ کے دہانے کے آس پاس چپک جانے والی جھلی کو واپس منہ میں ڈال کر چباتے ہوئے بولی۔
”کیوں… کوئی خاص بات…”
اس کا موڈ اور انداز آج بڑا بجھا بجھا سا تھا۔
”ہاں ہے ایک خاص بات… پر کرنے کی نہیں دکھانے کی ہے۔”
اس نے لوفرانہ انداز میں آنکھ ماری۔ ٹیشا اس کے انداز پر نہ چاہتے بھی اٹھ کر جمنازیم کے اسی پچھلے حصے کی طرف آگئی۔ جسے وہ لوگ ”پیچھے” کے نام سے یاد کرتی تھیں۔
”یہ دیکھ…”
بیٹھنے کے کچھ دیر بعد اس نے موبائل نکالا اور ایک تصویر کھول کر اس کے سامنے کی۔
ٹیشا نے بے حد سرسری سی نگاہ ڈالی اور بے اختیار اچھل پڑی۔
”یہ …. یہ کیسی تصویر ہے۔ کیا بیہودگی ہے۔”
تصویر جیز کی تھی۔ لیکن جس انداز کی تھی۔ ٹیشا کے لیے اسے دیکھنا محال ہوگیا۔ اس نے فوراً نگاہ پھیرلی۔
جیز نے اس کا انداز دیکھ کر ٹھٹھا لگایا۔
”ارے واہ… شرماگئی میری بھولی چڑیا۔”
اس نے اس کی ٹھوڑی پکڑ کر ہلائی۔ ٹیشا نے ناگواری سے اس کا ہاتھ جھٹک دیا۔
‘تم نے صبح پوچھا تھا نا کہ طیفی نے تمہیں تصویروں کے لیے کچھ پے نہیں کیا” وہ چونک کر اس کا منہ دیکھنے لگی۔
صبح اس نے بڑی ہمت کرکے جیز سے تصویروں کے لیے معاوضے کی بات کی تھی۔ چاہے تھوڑے سے ہی سہی۔ لیکن بہ حیثیت ایک ماڈل کے اگر وہ ابتداء سے ہی پروفیشنل انداز نہ اپناتی تو شاید آگے بھی معاملہ ایسے ہی چلتا۔
اس وقت تو جیز بڑی حیران ہوئی۔
”پیسے… کیسے پیسے…. پاگل ہو کیا تم… کیا سمجھ رہی ہو خود کو اور اس سارے کام کو…. ابھی تو اس نے تمہاری snaps لی ہیں میڈم، وہ خود ہی کسی میگزین کو دے گا۔ اور وہاں سے بھی پتا نہیں پے منٹ ملے گی یا خود طیفی کو اپنے پلے سے خرچا کرنا پڑے گا۔ تم تو شکر کرو کہ تمہارا کام مفت میں ہو گیا۔ ورنہ ایسے فوٹو شوٹس کے لیے تو لڑکیاں، مرتی ہیں۔ خود سے پیسے دے کر کھنچواتی ہیں اور ایڈورٹائزنگ کمپنیوں کی منتیں کرتی ہیں۔ یہ پاکستان ہے میری جان… یہاں ہر جگہ پرچی چلتی ہے اور تم معاوضے کی بات کرتی ہو… تم ہو کس دنیا میں۔”
جیز کی یہ عادت بہت بُری تھی۔ وہ طنز کرنے پر آتی تو مقابل کو دھجیوں میں اُڑا دیتی۔ اس نے بھی اس وقت اس کے سامنے ایسی ہی خفت محسوس کی۔
”مجھے پے کیا تھا اس نے۔”
جیز کی آواز نے اسے حال میں گھسیٹا۔
”ان تصویروں کے لیے؟” ٹیشا نے یوں پوچھا جیسے وہ ابھی انکار کردے گی۔ لیکن جیز مزے سے اثبات میں سر ہلارہی تھی۔
”اور تم… تم راضی ہوگئیں۔ کتنی گھٹیا پکس ہیں۔ جیز… تمہیں شرم نہیں آئی ایسے کپڑے اور… ایسے پوز…”
”اس میں شرم کی کیا بات ہے۔Its a kind of job… اس نے ڈیمانڈ کی، اسے ضرورت تھی۔ میں نے سپلائی کیا میری ضرورت تھی۔”
اس نے پھر ٹھٹھا لگایا۔ پھر قدرے سنجیدہ ہوکر اس کا کراہت زدہ چہرہ دیکھا۔
”جانتی ہو اس دنیا کی سب سے طاقتور چیز کیا ہے۔
اس کا انداز بے حد پراسرار تھا پھر اس نے شہادت کی انگلی سے انگوٹھا ملا کر دھیرے سے جھٹکادیا۔
”روکڑا… روپیہ… دولت… جس کے پاس پیسہ ہے اس کے پاس سب کچھ ہے۔ عزت بھی اور شہرت بھی۔”
”اور… کردار بھی۔”
ہر وقت اپنے خواب کو شرمندئہ تعبیر کرنے کے لیے نت نئی ترکیبیں سوچنے والی اور ہر بڑی سے بڑی اور بُری سے بُری بات کے جواب کو ”تو کیا ہوا!” میں اڑانے والی منتشا نظام الدین کے لبوں سے کس وقت کیا الفاظ نکلے تھے۔ اسے خود بھی امید نہیں تھی۔
”ہاں کردار بھی، رشتے دار بھی…. خاندان بھی اور پہچان بھی۔”
دونوں چند لمحے ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھتی رہیں۔ ”تمہیں پیسوں کی ضرورت ہے۔ تو بات کروں طیفی سے۔”
”چھی… ی… ی….”اس نے منہ پھیرلیا۔
جیز ایک بار پھر ہنس پڑی تھی۔
”او پاگل تو کیا سمجھ رہی ہے۔ یہ کوئی میں تھوڑا ہی ہوں…. یہ تو کوئی اور ہے… بس شکل میری لگی ہوئی ہے۔ فوٹوشاپ زندہ باد…”
ٹیشا ایک بار پھر ہکا بکا ہوکر اسے دیکھ رہی تھی۔ پھر یکایک ہی اس کا دل اچاٹ سا ہوگیا۔ اسے جیز ایک نمبر کی جھوٹی اور دھوکے باز لگی۔
”میں گھر جارہی ہوں وین آنے والی ہے۔”
وہ اچانک ہی اٹھ گئی۔
”سنو….”. اس نے مڑ کر دیکھا۔ جیز اب تک برابر میں اسی طرح بیٹھی تھی۔
”آفر برقرار ہے۔ جب کہوگی فوٹو سیشن ہوجائے گا۔”
اس بار منتشا وہاں رکی نہیں اور جیز کی بدمعاش ہنسی نے دور تک اس کا پیچھا کیا تھا۔
اس کی مکروہ ہنسی کی گونج سنتے ہوئے اس کے دل میں تبسم سے راہ و رسم بڑھانے کا ارادہ کچھ اور مضبوط ہوا۔
******




وہ بڑی مشکل سے دل کو سمجھا بجھاکر کورس کی کتابیں لے کر بہ ظاہر پڑھائی کرنے بیٹھی تھی۔ سچ تو یہ تھا کہ ڈھنگ سے دل لگا کر پڑھنے کا اس کا ماضی میں کوئی ارادہ تھا اور نہ اب…. لیکن مجبوری یہ تھی کہ یہ ماحول یہ گھر اور یہ دوستانہ طرز زندگی اسے اسی خواہش کے صدقے میں مل رہے تھے کہ وہ پڑھ لکھ کر نظام الدین اور وحیدالدین کا نام روشن کرے گی۔ حالاں کہ اس کے اپنے خیال میں تو نظام الدین نے اپنا نام، اپنی حرکتوں کی وجہ سے خاندان اور محلے دوست احباب میں خود ہی کافی روشن کیا ہوا تھا۔ اس میں مزید چار چاند لگانے کی ضرورت نہیں تھی۔
خیال کسی بجلی کی چمک کی طرح اس کے ذہن میں لپکا اور اسے زور کی ہنسی آگئی۔ لیکن اس سے پہلے کہ قل قل کرتی ہنسی اس کے حلق سے نکلتی اس کی آواز ہی حلق میں گھٹ کر رہ گئی۔
کوئی چیز بڑی زور سے اس کے منہ پر آکرلگی۔
وہ یک دم بدحواس سی ہوگئی۔
کیوں کہ اس منہ پر وہ چیز مارنے والی کوئی اور نہیں عالیہ تھیں۔
اس کے دل میں کوئی الارم سا بجا… پوری قوت سے پورے زور و شور سے۔
”یہ برائیاں کرنے کی خاطر ائی ہو تم اپنا گھر چھوڑ کر۔”
اسے کچھ سوچنے سمجھنے کا موقع دیے بغیر وہ خود ہی شروع ہوگئی۔
”ہمیں اگر یہ پتا ہوتا کہ ادھر آکر تم یہ گل کھلاؤگی اور اس طرح اپنے ماں باپ کے نام کو بٹّا لگاؤگی تو، میں کبھی وحید کو تمہاری حمایت نہ کرنے دیتی… غضب خدا کا… غضب ہی تو ہے… ارے اتنے شریف النفس غریب ماں باپ کی اولاد اور یہ لچھن۔”
رات کافی بھیگ چکی تھی۔ غالباً انہیں شورشرابے کا احساس تھا۔ جبھی شدید غصے کی حالت میں بھی ان کی آواز دبی رہی۔ ساتھ ہی ساتھ وہ محتاط نظروں سے اپنی بیٹیوں کے کمرے کی طرف بھی دیکھ رہی تھیں۔
”اب میرا منہ کیا دیکھ رہی ہو۔ اٹھاؤ اس فحاشی کے پلندے کو، اور سینکو اپنی آنکھیں اپنے کالے کرتوتوں کی داد تو دے دو خود کو… آخر بہت محنت کی ہوگی اس…. اس گھٹیا درجے تک گرنے کے لیے … یا میں سمجھ لوں کہ تمہیں اس ذلالت کے لیے کسی محنت کی ضرورت نہیں۔”
ان کے الفاظ اور لہجہ سخت تھا۔ اس قدر سخت تھا کہ اسے اپنی ٹانگوں سے جان نکلتی ہوئی محسوس ہونے لگی۔ کچھ ہوا تھا۔ کچھ بہت ہی غلط لیکن وہ غلط اتنا غلط بھی ہوسکتا تھا۔ یہ اسے اندازہ نہیں تھا۔
اس نے مرے ہوئے بے جان ہاتھوں سے میگزین کا وہ صفحہ پلٹا اور پھر جیسے زمین میں دھنس سی گئی۔
”یہ … یہ میں نہیں ہوں۔” وہ کس منہ سے یہ کہہ سکتی تھی۔اس کے سارے دلائل، اس کی شاطرانہ ذہنیت، چاپلوسانہ باتیں، دوستانہ رویے اور غلامانہ انداز سب دھرے کے دھرے رہ گئے۔
وہ، وہ خود ہی تھی۔ایک بڑے سارے صفحے کے کونے میں بنی ہوئی چند انچ کی تصویر میں، چھوٹی لیکن بے حد واضح، بہت زیادہ خوشی بھری مسکراہٹ لیکن بے حد کم کپڑوں میں۔
”اف خدایا!… وحید… وحید… میں مر کیوں نہیں گئی۔یہ وقت دیکھنے سے پہلے۔”ان کی بھرائی ہوئی آواز میں نکلنے والے لفظوں سے اس نے جھکی آنکھوں سے اندازہ لگایا کہ چاچا بھی کمرے میں آچکے ہیں اور وہ یقینا اس کی حرکت کم کالے کرتوت سے بہ خوبی واقف ہیں۔ زندگی میں پہلی بار اس کے اندر شرمندگی نام کی کسی شے نے سر اٹھایا تھا۔اس کی آنکھیں بھیگنے لگیں۔ دل بری طرح بھر آیا اور حلق میں آنسوؤں کا گورا درد کرنے لگا۔اس نے بھلا کب سوچا تھا کہ اس کا شوق اس بے تکے اور بھونڈے انداز میں آشکار ہو گا کچھ بھی نہیں ہوا تھا۔ زمین پھٹی تھی نہ آسمان گرا تھا۔ اس سے کہی گئی تھی نہ اس کی سنی گئی تھی وہ صرف اور صرف گندی ہو گئی۔
”مجھے نہیں پتا اب بس۔ آپ کچھ بھی کریں۔ کل ہی اسے گھر چھوڑ کر آئیں۔”
تایا کو اس کی حالت پر رحم نہیں آیا تھا۔ یہ رحم کھانے والی حرکت تھی بھی نہیں۔ یہ تو پھاڑ کھانے والی حرکت تھی پھر بھی وہ جانے کیا دھیمی آواز میں بُڑبُڑائے تھے۔
”رہنے دیں آپ… جوان لڑکیوں کا گھر ہے یہ… میری بیٹیاں بچپن سے پڑھی ہیں لڑکوں کے ساتھ۔ آج تک ان کا کوئی دوست نہیں بنا۔ اس گھر تک نہیں آیااور یہ اس کی یہ حرکتیں… چھی چھی… بالکل برداشت نہیں کروںگی میں نہ کوئی اور… اے لڑکی…. چلو جاؤ، اپنا سامان باندھو۔”
اس کے اندر کچھ کہنے کی تو کیا چلنے کی بھی سکت نہیں بچی تھی۔
”سنا نہیں تم نے….”
اگلے پل وہ اس زور سے چلائیں کہ منتشا کے کانوں کے پردے پھٹ گئے۔
******




جسم کا کوئی حصہ ایسا نہیں بچا تھا۔ جس میں درد و اذیت کی لہریں نہ اُٹھ رہی ہوں…
وہ پورے پندرہ منٹ کتوں کی طرح نظام الدین اور اقبال سے پٹتی رہی تھی۔ اس کا مقدر تھا۔ یہی توقع یہی تواضع اور یہی توقیر۔
اسے معلوم تھا ایک چار چوٹ بلکہ آٹھ چوٹ کی مار تو اب اسے سہنی ہی ہے۔ کیوں کہ چاچا کی طرف داری کے باوجود عالیہ اس کی کوئی وضاحت یا صفائی سننے پر قطعاً رضامند ہوئی نہ چاچا کو اس کے پاس آنے دیا تھا۔
اس کا اپنا دل تو اس سارے قصے میں پہلی بار کچھ سہما ہوا سا تھا۔ لیکن چاچی نے کمال اداکاری سے سارہ اور فارہ سے ساری بات چھُپا لی تھی۔ ان دونوں کے صُبح گھر سے نکل جانے کے بعد، وہ دونوں اسے لے کر نظام الدین کے گھر آئے تھے۔
عالیہ نے حسبِ توفیق خوب نمک مرچ لگاکر ساری بات نظام الدین، اقبال اور صابرہ کی موجودگی میں سنائی تھی۔ اس دوران صابرہ کا جو منہ کھلا تو کھلا ہی رہ گیا۔ البتہ نظام الدین نے بے حد تحمل سے عالیہ سے وہ پرچا مانگا جس میں اس کی تصویر چھپی تھی۔
سامنے کسی مجرم کی طرح کٹہرے میں کھڑی منتشا کے لیے یہ بڑا مقامِ حیرت تھا۔ اس نے کیوں چاچی کی بات کو کافی نہیں سمجھا تھا۔ کیا واقعی اسے عالیہ کی بات پر شک تھا۔ منتشا پر کسی قسم کا کوئی یقین تھا اسے۔ کیا اسے یاد آگیا تھا کہ وہ اس کا باپ تھا اور اس کی بیٹی….
”رہن دے۔” عالیہ کی تیز چنگھاڑتی آواز نے اس کی حیرت کے تانے بانے اُدھیڑے۔
”تیرے دیکھنے کی نہیں ہے وہ، ننگا جسم لے کر…”
اور نظام الدین کے برداشت کی حد بس یہیں تک تھی۔ وہ کسی بھوکے شکاری چیتے کی مانند اس پر جھپٹا تھا اور درندوں کی طرح اس کے بالوں سے پکڑ کر گھیسٹتا ہوا صحن میں لاکر زمین پر دے مارا۔ اقبال بھی اس کے رویے کی شہ پاکر اس کے پیچھے گیا اور اس کے بعدوہ دونوں اس پر پل پڑے۔ اس کے حلق سے نکلنے والی چیخیں اور کراہیں یقینا بہت دردناک تھیں۔ یہ غیر متوقع بھی تھا اور غیرمعمولی بھی۔ اس کا نازک جسم اتنے سخت اور بے رحم مردانہ ہاتھ برداشت نہیں کرسکتا تھا۔اس نے اس سے پہلے بھی متعدد بار نظام الدین سے مار کھائی تھی لیکن ایسی … وحشیانہ انداز کی مار نے اس کے ہوش اُڑادیے تھے۔ اقبال نے یکے بعد دیگرے اتنے ٹھڈے اس کی کمر اور رانوں پر رسید کیے۔ نظام الدین نے اس کے بالوں کو دونوں مٹھیوں میں جکڑ کر ایک کے بعد ایک کئی بار اس کا سر زمین پر پٹخا۔ پندرہ منٹ تک لگاتار اسے ہاون دستے میں بڑی روانی کی طرح پیسنے کے بعد نظام الدین خود بری طرح ہانپ گیا تھا اور اس وقت صابرہ دوسری بار ہاتھ جوڑ کر ان کے سامنے رحم کی اپیل لے کر میدان میں اتری ۔ پہلی بار اس نے نظام الدین کو روکنے کی کوشش کی تھی جب اس نے ابھی منتشا کو گھسیٹ کر صحن میں پٹخا ہی تھا۔ اس کا جنون بپھرا ہوا تھا۔ اسی لیے راستے میں آنے والی ہر رکاوٹ کو ٹھوکر سے اُڑا دینے کی طرح اس نے صابرہ کے بھی بلالحاظ، منہ پر پوری قوت سے تھپڑ رسید کیا تھا۔ جسے کھاکر وہ دور اُلٹ کر جاگری تھی۔ اس کے حواس گم ہوگئے تھے۔ جنہیں دوبارہ بحال کرنے اور پھر نظام الدین کے سامنے جاکر اسے روکنے کی ہمت جوان کرنے، دوبارہ سے تھپڑ کھانے کے امکان کو مدِنظر رکھتے ہوئے ایک بار پھر طاقت مجتمع کرنے کے دوران بالے اور نظام الدین نے منتشا کی ٹھیک ٹھاک مرمت کردی تھی۔
اس بار صابرہ نے ہاتھ خاوند کے آگے جوڑے لیکن بے رحمی سے لاتیں مارتے بالے کو بھی بازو سے پکڑ کر پیچھے کھینچا تھا۔عالیہ کو یوں اسے رلتے دیکھ کر اپنی اولاد کے لیے روتے منتیں کرتے دیکھ کر کچھ اور تپ چڑھی تھی۔ اس نے وحیدالدین کو اشارہ کیا اور اسی وقت انہیں بے بسی اور گومگو کے عالم میں دیکھ کر ”ہونہہ” کرتی سیدھی گھر سے نکلتی چلی گئی۔آہ و بکا اور چیخ و پکار صحن پھلانگ کر آس پاس کے گھروں میں بھی جاچکا تھا۔ نتیجتاً دروازے کے باہر جمگھٹا لگنا شروع ہوچکا تھا۔ صابرہ کے پاس اب ان دونوں کے بپھرے ہوئے حواسوں کو یکجا کرنے اور ان کے جنون کو ٹھنڈا کرنے کے لیے یہی آخری ہتھیار بچا تھا کہ آوازیں نیچی کرلو۔ تماشا چوراہے تک چلا گیا۔
اقبال نے دروازہ کھول کر جمع شدہ لوگوں کو درشتی سے جھڑک دیا۔ رش چھٹنے لگا۔ نظام الدین ایک نفرت انگیز نگاہ اس پر ڈال کر، اور اس سے کہیں زیادہ نفرت سے اس کے ادھ مرے وجود، پر تھوک کر اپنے کمرے میں چلا گیا۔ صابرہ لپک جھپک اس کے لیے ٹھنڈے پانی کا جگ اور گلاس لے کر پیچھے گئی۔اندر کمرے میں چھپے بلو کی کپکپاتی ٹانگوں نے ذرا جان پکڑی تو وہ دبی دبی آوازسے اپنے گھٹتے ہوئے دل کو سہارا دینے کی خاطر سسکنے لگا۔ اس نے اس سے پہلے کبھی باپ اور بھائی کو اتنے بے رحم روپ میں نہیں دیکھا تھا۔صحن کے بیچ پڑے وجود میں زندگی باقی تھی تو بس اتنی کہ سانس چل رہی تھی۔ باقی اس کے جسم میں ہلنے کی سکت تو دور، دکھتے جسم سے اٹھنے والی تکلیف پر کراہنے کی بھی ہمت نہیں بچی تھی۔
اور اگر اس سارے شور ہنگامے میں کوئی پُرسکون تھا۔ اگر اس تکلیف دہ مناظر سے کوئی کارٹون فلم کی طرح محظوظ ہوا تھا۔ اور …. کسی مار اور تکلیف و اذیت نے دکھ کے بہ جائے خوشی محسوس کی تھی تو وہ کنول تھی۔بے حد سنجیدہ بلکہ کسی حد تک بے تاثر چہرہ لیے وہ اس سارے دھول دھپے سے بے نیاز فقط منتشا کو پٹتے دیکھتی اپنے دل میں اترتی انجان ٹھنڈک کو محسوس کرتی رہی تھی۔ اسے یوں محسوس ہورہا تھا۔ جیسے یہ اس کے دل میں دبی مہینوں پرانی خواہش تھی۔ جو آج کسی اور کے ہاتھوں پوری ہوئی۔کون کہتا ہے بدلے اور انتقام کی آگ ٹھنڈی ہوجاتی ہے۔ یہ آگ کبھی ٹھنڈی نہیں ہوتی۔ حالات و واقعات کی راکھ کے نیچے چنگاریوں کی صورت سلگتی رہتی ہے اور موقع محل کی چند پھونکیں اسے دوبارہ سے بھڑکانے کے لیے کافی ہوتی ہیں۔
انتقام کی آگ وہ آگ ہے جو ٹھنڈی نہیں ہوتی یہاں تک کہ اس کی آگ میں سلگنے والا دل، اور بندہ دونوں ٹھنڈے ہوجاتے ہیں۔




Loading

Read Previous

باغی — قسط نمبر ۴ — شاذیہ خان

Read Next

گلّو اور لومڑ

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!