تو کیا ہوا —– فرحین اظفر

عجیب بات تھی کہ اس گھر سے ایک نہیں دو لڑکیاں رخصت ہوکر جارہی تھی۔ مگر تیاریاں ساری صرف ایک ہی لڑکی کے لیے تھیں۔
اس کے لیے کسی نے ایک تنکا بھی جمع نہ کیا تھا۔ صابرہ نے دبے دبے الفاظ میں نظام الدین سے اس کی آئندہ زندگی کے حوالے سے تحفظات کا ذکر بھی کیا تو نظام الدین نے کوئی خاص توجہ نہیں دی تھی۔اس کے خیال میں اس سے کوئی شادی کے لیے تیار تھا یہی ان دونوں والدین کے لیے غنیمت تھا۔ باقی اگر وہاں جاکر جہیز اور کپڑوں … یا زیور کے حوالے سے منی کو کوئی مشکل پیش آتی تھی تو یہ اس کا دردِ سر تھا۔ ان دونوں کا نہیں۔
منتشا نے اتفاقاً ہی ان دونوں کی یہ گفتگو سن لی تھی۔ اس کے دل میں بھرے نفرت انگیز جذبات کی شدت میں کچھ اور اضافہ ہوا تھا۔ اور دل میں بندھا ارادہ کچھ اور اٹل ہوا تھا۔گھر والوں کے چلے جانے کے بعد گھر میں رہ جانے والی واحد رکاوٹ صرف کنول تھی۔ جو گنگناتی ہوئی اپنی ازلی بے فکری سے پورے گھر میں ادھر ادھر پھرتی چیزوں کو سمیٹنے میں لگی تھی۔
منتشا بظاہر خاموش لیکن اس کی ایک ایک حرکت پر نظر رکھے ہوئے تھی۔ کمرے کے فرش پر بچھے بستر پر آنکھیں موندے اس پر بازو ٹکائے کبھی ذراسی جھری سے وہ اسے کمرے کے اندر آتا دیکھتی کبھی باہر جاتا….اسے انتظار تھا اس وقت کا۔ جب کنول اس کمرے سے باہر کسی ایسی سرگرمی میں مصروف ہوجاتی کہ کچھ دیر تک کمرے کے اندر نہ آپاتی۔ تاکہ اسے سکون اور فرصت سے اپنا کام کرنے کا موقع ملتا۔وقت نکل رہا تھا۔ اور کنول کا ایک جگہ ٹک کر بیٹھنے کا کوئی ارادہ نہیں لگتا تھا۔ عین اس وقت جب وہ ہر چیز، یہاں تک کہ اپنی زندگی سے بھی مکمل طور پر مایوس ہونے والی تھی تب… بستر کے سرہانے رکھا اس کا موبائل بج اٹھا۔
کنول بجلی کی سی تیزی سے اندر آئی اور بلی کی طرح فون کی طرف لپکی۔ فون اٹھاکر اس نے ایک نظر اسے اوور ایک نظر خاموش لیٹی منتشا کو دیکھا۔ پھر بے حد دھیرے سے فون ریسیو کرتی ہوئی باہر نکل گئی۔اس کے نکلتے ہی وہ بھی اتنی ہی تیزی سے اٹھ کر دروازے تک ئی اور بے احد احتیاط سے باہر جھانکا۔کنول فون کان سے لگائے ابا کے کمرے کی طرف جاچکی تھی۔وہ پلٹی اور بے حد دبے قدموں لیکن تیزی سے کمرے کی اکلوتی الماری کی طرف بڑھی۔ اس کے پاس بس یہی تھوڑا سا وقت تھا۔ اور ابھی بہت سا کام تھا جو کرنا باقی تھا۔
******





کمرے میں داخل ہونے والا کوئی بھی شخص فوراً سے پہچان سکتا تھا کہ نئے نکور جہیز کے سامان سے بھرے اس کمرے میں پھیلی ہوئی بو کس تیل کی تھی۔اس نے اطمینان کی ایک گہری سانس لی۔ اور چھت کی منڈیر سے برابر والے گھروں کی رونقوں پر نگاہ ڈالی۔کھانا کھل چکا تھا۔ میزبان جلدی جلدی یہاں وہاں آجارہے تھے۔ ان ہی میزبانوں میں وہ بھی تھا۔ جو وقت پڑنے پر کتنی ہی مشکلوں میں اس کے کام آیا تھا۔
آج بھی یقینا اور دوسرے بہت سے لوگوں کے ساتھ اس کی ضرورت پیش آنے والی تھی۔ یاد آتے ہی اس نے فوراً سے پیچھے ہٹ کر خود کو چھپایا۔
اس کے راستے کی واحد رکاوٹ اس وقت خود بخود راستے سے ہٹ گئی تھی۔ جب خالہ اپنے ہونے والی بہو کو بصد اصرار خود بلانے آئی۔ اور نظام الدین کی رضامندی کی تسلی ملنے کے بعد لمبا سا گھونگھٹ نکال کر کنول اس کے ساتھ شرماتی ہوئی اپنے ہونے سسرال چل دی۔ان کے خاندان میں یہ بات بہت بری سمجھی جاتی تھی۔ لیکن آج بری باتیں بھی اچھی لگ رہی تھیں۔ یوں تو نظام الدین کا دماغ الٹ جاتا تو عین نکاح سے پہلے بھی رشتہ ختم کرسکتا تھا۔ لیکن آج دوست اور احباب کی چونچال میں اس کے دماغ کی پھرکی گھومنے کے بجانے صحیح جگہ پر سیٹ ہوگئی تھی۔ اس نے ان دونوں کو بے حد خاموشی سے دروازے سے نکلتے دیکھا۔
خالد نے گھر والوں کی طرح اسے مکمل طور پر نظر انداز کرنے کے بجائے، اسے دیکھ کر حقارت سے گردن جھٹک دی تھی۔ اس نے بمشکل ان کے انداز کو ہضم کیا اور آنے والے لمحوں کا سوچ کر حظ اٹھانے والے انداز میں مسکرادی۔
اس کے اتنے دنوں کی خاموشی اور شرافت کسی طوفان کا پیش خیمہ بھی ہوسکتے ہیں اس کا بھلا کسی کو کیا پتہ، دلوں کے بھید اور نیتوں کے حال سے صرف اللہ واقف ہے جس کو وہ اس وقت بالکل بھول گئی تھی۔ گلے میں ڈالا ہوا سلک کا دوپٹہ اٹھاکر اس نے قریب رکھے کھڑکی کے آرائشی فریم سے باندھا۔ یہ آرائشی فریم بھی کمرے کی دوسری چیزوں کی طرح کیروسین سے بنایا ہوا تھا۔
ایک …. دو…. تیسری رگڑنے ماچس کی تیلی میں ننھا سا شعلہ بھڑکایا۔ اور اس شعلے کو اس نے دوپٹے کے پلو سے باندھ دیا۔
گھر کا بوسیدہ پچھلے بوسیدہ دروازے پر پڑا زنگ آلود تالا جانے کتنے دنوں سے ٹوٹا ہوا تھا۔ صابرہ کئی بار نظام الدین کی توجہ اس طرف دلاچکی تھی۔ نظام الدین تو متوجہ نہیں ہوا۔ مگر وہ ضرور ہوگئی۔





وہ جو سراسر مصیبت تھی۔ شیطانیت جس کی رگوں میں بہہ رہی تھی۔ اور انتقام کی آگ نے جس کی بصارتوں کو چندھیا دیا تھا۔
چند لمحے اگر وہ رک کر غور کرتی تو شاید اس کے دل پرپڑے قفل کھل جاتے۔ وہ کیا کررہی تھی اور کیوں کررہی تھی بھلا…. لیکن اس کے پاس اتنا سوچنے کا ٹائم نہیں تھا۔
اس نے دروازہ باہر کی سمت دھکیلا تو بدبو کے ایک زوردار جھونکے اس کا استقبال کیا۔ گھر کے اس پچھلی طرف سیورج کی گندی گلی نکلتی تھی۔اسے زور کی ابکائی آگئی۔لمحے بھر کو قدم بڑھانا دوبھر ہوگیا۔ لیکن اب رکنے اور سوچنے کا ٹائم نہیں تھا۔ جب تک لوگوں کو یاد آتا کہ اس گھر میں منتشا نامی کوئی لڑکی بھی تھی۔ تب تک اسے اس گھر او رجگہ سے بہت دور نکل جانا تھا۔دل کڑاکرکے اس کائی، گندگی اور سڑے ہوئے بدبو بھرے کچرے والی گلی میں قدم رکھا۔
ہم جب بھی کسی کٹھن راستے پر قدم رکھتے ہیں تو ابتداء میں مشکل ہوتی ہے۔ راستہ اچھائی کا ہو یا برائی کا، پہلے چند قدم ضرور جھجک کی چادر میں لپیٹ کر ہمیں یاد دلاتے ہیں۔ کہ ہم کہاں جارہے ہیں۔ باور کراتے ہیں کہ اتنا آسان نہیں انجان مسافت طے کرنا۔ لیکن صرف چند قدم اس کے بعد راہ آسان ہوتی چلی جاتی ہے۔
اس نے کپکپاتی ٹانگوں سے گٹروں سے ابلتی غلاظت کو پھاندا۔ کاکروچوں اور دوسرے کیڑے مکوڑوں سے اٹی، کاٹی جمی، کالی غلاظت سے…. دیواروں سے خود کو بچاتی ہوئی آگے بڑھی۔ اور بڑھتی چلی گئی۔کچھ دیر بعد آگ شعلے بلند ہوکر آسمان کو چھوڑرہے تھے۔ نظام الدین کے اسی گز کے مکان میں آہ و بکا کا ایک طوفان آچکا تھا۔ جہیز کا سارا سامان جل کر خاکستر ہورہا تھا۔ سنہری … اپنی زہریلی زبانیں کھولے ہر شے کو نکل جانے کے درپے تھیں۔
وہاں صرف بے جان اشیاء نہیں جل رہی تھیں۔ وہاں کچھ انسانوں کے ارمان راکھ ہوگئے کچھ کی زندگیاں، اس سامان کے ساتھ ہی جیتے بھی ختم ہوگئی تھیں۔اور جب تک کسی کو خیال آتا کہ آگ آخر لگی کیسے کون بے خبر تھا گھر میں، جس کو اس وقت تک خیال نہ آیا۔ جب تک آگ بھڑک کر قابو سے باہر نہ ہوگئی۔ جب تک صابرہ کو یاد آیا کہ اس کی ”منی” گھر میں اکیلی تھی۔
تب تک منی، اپنی ماں جائی کا زیور اور دوسرے کاموں کے لیے رکھی گئی ساری نقدی لے کر اس گھر سے دور بہت دور جاچکی تھی۔
******





”میم ٹینا ہمارے سیلون کی بہت محنتی ورکر تھی۔”
ورکرز انچارج سونیا اس کے قریب بیٹھی دلگرفتگی سے کہہ رہی تھی۔ اسے بھی مجبوراً چہرے پر تاسف زدہ تاثرات سجانے پڑے۔
”پتہ نہیں بے چاری سے کسی کو کیا دشمنی تھی جو اس بری طرح..” ان سے بات مکمل نہیں کی گئی۔
”یہ تو وہی بتاسکتی تھی کہ کسی کو اس سے کیا دشمنی تھی۔”
”جی۔”
سونیا، جسے سیلون کی سبھی نئی او رپرانی لڑکیاں، خانم کہہ کر بلاتی تھیں۔ حیرت زدہ سی منہ کھول کر اسے دیکھنے لگی۔
”اچھی تھی۔ با اخلاق بھی تھی، خوش لباس بھی تھی۔”
اس نے گہری سانس لے کر سامنے کھلا رجسٹر بند کرتے ہوئے فرصت سے سونیا کی آنکھوں میں جھانکا۔
”لیکن بے سہارا تھی۔ اور بے سہارا لڑکیاں یا تو ضرورت سے زیادہ ہی شریف ہوتی ہیں یا پھر اپنی فطرت سے زیادہ چالاک… اور تم اچھی طرح جانتی ہوکہ شریف لڑکیوں پر تیزاب نہیں پھینکا جاتا۔”
اس کا انداز دوٹوک اور بے لچک تھا۔ سونیا چند لمحے اسے دیکھتی رہی۔ پھر نظریں چراگئی۔
”لل…. لیکن میم… اس کا تو یہ مطلب ہوا کہ پاکستان میں ا تنی لڑکیوں پر تیزاب پھینکا جاتا ہے۔ وہ سب کریکٹر لیس ہوتی ہیں۔”
اس نے جواب نہیں دیا۔ حساب کتاب کی فائلوں کو اوپر نیچے صفحے پلٹتی دیکھتی رہی۔ سونیا کو اس کی بات اچھی نہیں لگی۔ لیکن اختلاف رائے کا مطلب تھا اس کی ناراضگی، اس لیے مزید تبصرہ کیے بغیر بات بدل دی۔
”مجھے تو بہت ہمدری ہورہی تھی بے چاری سے۔آخری وقت اور اتنا تکلیف دہ….”
اس کی بات ادھوری رہ گئی۔ تبسم ایک بار پھر اس کی طرف متوجہ تی۔
”اس سے بھی تکلیف دہ ہوتاہے آخری وقت، اس کا تو صرف چہرہ جلا تھا نا، پورے کے پورے جھلس جاتے ہیں لوگ، جسم گھل جاتا ہے، پریشر ککر میں پکے گوشت کی طرح۔”
اس کی آواز اس قدر ہموار تھی۔ او رلہجہ اس قدر بے رحم تھا کہ سونیا کو اپنی ریڑھ کی ہڈی میں سرسراہٹ سی محسوس ہونے لگی۔
تبسم سیدھا اس کی آنکھوں میں جھانک رہی تھی۔ سونیا کے رونگھٹے کھڑے ہونے لگے۔ اس نے خود کو اس کے ٹرانس سے نکالنے کے لیے بے اختیار ایک جھرجھری سی لی۔ تبسم کے لبوں پر بے حد دھیمی مسکراہت رینگ گئی۔
وہ واپس سامنے رکھی فائل کی طرف متوجہ ہوگئی۔
”کیا ہوا سونیا۔ ڈرگئیں کیا۔”
”نن…. نہیں میم… چلیں چھوڑیں۔ میں تو یہ کہہ رہی تھی کہ اس کی جگہ ایک نئی لڑکی آئی ہے۔ اسے فائنل کرنے سے پہلے میں نے سوچا آپ سے ڈسکس کرلوں۔”
”رہنے دے اسے، میں خود ہائر کروں گی۔” اس نے پوری بات نہیں سنی۔
”آپ…” وہ کچھ اٹکی۔
”ہاں ایک ضرورت مند ہے۔ میری بات ہوئی تھی۔ تھوڑے دن لگیں گے لیکن جوائن کرلے گی۔”
”اوکے میم۔” سونیا جلدی سے اس کے پاس سے اٹھ گئی۔
کچھ بھی تھا۔ وہ اپنی میم سے اتنی بے تکلف نہیں تھی کہ بلاوجہ بیٹھ کر باتیں مٹھارتی۔ حقیقت یہ تھی کہ اس نے اپنے ایمپلائز کو کبھی اتنا بے تکلف ہونے ہی نہیں دیا تھا۔ اس کا اپنا ایک انداز تھا۔ رکا ہوا۔ نہ بہت سخت نہ بالکل بے لچک، اپنے ماتحت اور اپنے درمیان حدود و قیوم، وہ اپنے رویے سے خود ہی قائم کرتی تھی۔ اور کسی لڑکی کی جرأت نہیں کہ ان حدود کو پھلانگ سکتی۔
تبسم نے اسے اپنے آفس نما کمرے سے نکل کر جاتے دیکھا۔ اور مسکرا کر خود سے بولی۔
”تھوڑے دن لگیں گے۔ لیکن آجائے گی لائن پر…”
دوسری طرف سونیا باہر نکل کر ایک دوسری بیوٹی ایکسپرٹ سے کہہ رہی تھی۔
”سمجھ میں نہیں آتی میم کی۔ ٹینا سے انہیں کوئی ہمدردی نہیں لگتی لیکن، اس کی جگہ کسی دوسری لڑکی کو بلارہی ہیں وہ بھی ضرورت مندہے۔”
”اس میں نہ سمجھ میں آنے کی کیا بات ہے۔ غریب اور ضرورت مند لڑکیاں کام زیادہ کرتی ہیں۔ اور ڈیمانڈ کم…”
******





رات بہت زیادہ گہری نہیں ہوئی تھی۔ ورنہ شاید اس کا تن تنہا اتنی دور پہنچنا ناممکن ہی ہوجاتا۔ دس ساڑھے دس کا وقت ہوگا۔
ہاسٹل کی عمارت پوری طرح اندھیرے میں ڈوبی ہوئی نہیں تھی۔ آس پاس کے علاقے میں فوڈ کارنرز اور دوسری اسی طرز کی دکانیں تھیں۔ ٹریفک کا رش بھی تھا اور لوگوں کی رونق بھی۔ غرض کہ رات ابھی جوان تھی۔ اس نے ہاسٹل کے گیٹ سے کچھ ہی دور رکشہ رکوالیا تھا۔ہاسٹل کا چوکیدار اپنے کیبن میں ہمیشہ کی طرح کسی تھرڈ کلاس موبائل میں گم تھا۔ کیبن میںچھوٹی سی کھڑکی بجانے پر، اس نے باہر جھانکا تو چادر سے چہرے پر نقاب لگائے کوئی لڑکی کھڑی تھی۔
”اوئے کون ہے تو۔”
”تیری ماں… منحوس مارے بتا کہ تو گئی تھی کہ آج رات دیری ہوجائے گی۔ جیز ہوں۔ جلدی سے دروازہ کھول۔”
”اچھا اچھا۔” اس نے سمجھداری سے سرہلایا۔ اور پلٹ کر کیبن سے باہر کہیں چلاگیا۔
وہ بھی پلٹ کر دو قدم چلی اور ہاسٹل کی عمارت کی بغلی گلی میں مڑگئی۔ گلی صاف ستھری، لیکن اندھیری اور تنگ تھی۔ اسی گلی کے اختتام سے ذرا پہلے ایک چھوٹا اور پتلا سا دروازہ تھا۔ جب وہ اس دروازے تک پہنچی تو اسے کھلا ہوا ملا۔
اس نے بے سوچے سمجھے اندر قدم رکھا اور تیزی سے آگے بڑھنے لگی تھی کہ ایک آوازنے روک دیا۔
”ارے واہ۔ ایسے کیسے جارہی ہو سوہنیے۔ آج تو ہمیں پہچان بھی نہیں رہیں۔”
اس نے رک کر اسے گھورا
”ہمارا چائے پانی… بھول گئیں کیا۔”
نیم تاریکی میں اسے پہچانا مشکل تو تھا لیکن ناممکن نہیں۔ زیادہ بولنے اور بات کرنے سے وہ چھچھورا آدمی شک میں بھی پڑسکتا تھا۔ ابھی تو اس نے صرف اندازے سے ایک بات کہی تھی کہ لڑکیوں کا یوں جانا اور آنا وہاں کا معمول تھا۔ وارڈن کی وارننگ اور سختیوں کے باوجود ہاسٹل کی اکثر لڑکیاں باہر جاتی اور رات بلکہ رات گئے واپس آتی رہتی تھیں۔ چوکیدار کی اوپر کی کمائی سے اچھی خاصی آمدنی بن جاتی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ اس نے اس بات پر بھی غور کرنے کی ضرورت نہیں سمجھی تھی۔ کہ جیز اگر اس وقت واپس آرہی تھی تو گئی کب تھی۔
اس کے پاس بھی الجھنے کا وقت نہیں تھا۔ مٹھی میں دبے نوٹوں سے ایک کھینچ کر نکالا اور اس کے ہاتھ میں پٹخ دیا۔ اور اس کے تاثرات دیکھے بغیر کھلے دروازے سے اندر گھس گئی۔دائیں طرف لمبی راہداری تھی۔ اسی راہداری میں ہوسٹل وارڈن اور دوسرے اسٹاف کے کمروں کے دروازے تھے۔وہ بغیر رکے بے حد تیزی سے راہداری عبور کرتی اختتام پر اوپر کو جاتی سیڑھیاں چڑھ گئی۔
******





اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ دروازہ کھولنے پر سامنے کون کھڑا ہوگا۔ اس نے دروازہ کھلتے ہی اسے دھیرے سے اندر دھکیلا اور اندر کر جلدی سے دروازہ بند کردیا۔
”تم… تم… ٹیشا!۔” وہ ابھی تک شاک کے زیر اثر تھی۔
اس نے جلدی سے خود سے لپٹی چادر اتارکر پھینکی اور ایک گہری سانس لے کر بیڈ پر گرسی گئی۔
”ہاں بھئی میں… کیا ہوا اتنی حیران کیوں ہو۔”
جیز ابھی تک عالم بے یقینی میں منہ کھولے کھڑی اسے دیکھ رہی تھی۔
”تم یہاں… اس وقت… اندر کیسے آئیں… اور تم… تم چلی کہاں گئی تھیں۔”
اس کے منہ سے سوال بے ترتیب ٹوٹے ہوئے اور الفاظ بے ربط بکھرے ہوئے نکلے۔
”میں” اس نے خاصے ڈرامائی انداز میں پوچھا۔ پھر بستر پر پیچھے کی جانب گرتے ہوئے زور سے ہنس دی۔
”میں آزاد ہوگئی جیز… میں آزاد ہوگئی۔ ہر قید، ہر پابندی سے اپنے پیروں میں لپٹی زنجیریں توڑ ڈالیں میں نے۔ خاندان کی زنجیر، نام نہاد عزت کی زنجیر، وقت اور عمر کی زنجیر اور….”
”کسی کی جھوٹی محبت کی زنجیر… ”باقی الفاظ اس نے چپکے سے دل میں ادا کیے پھر زور سے کھلکھلائی۔
جیز جو اب تک اسے یوں دیکھ رہی تھی گویا کسی بھوت کو دیکھ لیا ہو۔ ایک دم خود کو سنبھالتے ہوئے سامنے والے بیڈ پر بیٹھ گئی۔
”کیا مطلب…. کیسی آزادی۔”
وہ ایک بار پھر ہنسی۔ درحقیقت گھر سے یہاں تک کہ سفر میں جس فطری گھبراہٹ نے اس کا، پیچھا پکڑا ہواتھا۔ اس سے جان چھڑانے کے لیے، اس چند گہری سانسوں اور کھوکھلی ہنسی کی ہی ضرورت تھی۔ جس سے کم از کم جیز کو اندازہ نہ ہوسکے کہ وہ جتنی بہادر بن رہی تھی اصل میں اتنی تھی نہیں۔
وہ مر کر بھی اس پر ظاہر نہیں کرسکتی تھی کہ اس کی شخصیت میں ڈر، خوف، یا بزدلی کا بھی کوئی پہلو ہے اس کی کوئی کمزوری بھی ہے۔ اس لیے اپنے پیچھے ساری کشتیاں جلا آنے کا مشکل اور کٹھن عمل کر گزرنے کے بعد بھی وہ خود کو اس درجہ مطمئن ظاہر کرنا چاہتی تھی گویا، خون کے رشتے جو دنیا کی سب سے بڑی حقیقت اور سب سے قریبی رشتے ہیں۔ چھوٹ جانا بھی اس کے لیے کوئی بڑی بات نہیں۔ اس کے نزدیک صرف اس کا مقصد اس کا خواب بڑا ہے۔ اس کے نزدیک اسی کی اہمیت ہے اور وہ اس کے لیے کسی کو بھی چھوڑسکتی ہے۔ بھاڑ میں جھونک سکتی ہے۔جیز کو اس پر اس وقت کسی پاگل کا سا گمان ہورہا تھا۔ وہ حد درجے بے یقینی سے اسے سُن رہی تھی، جو حرف بہ حرف اسے اپنے بھاگ آنے کا قصہ یوں سنارہی تھی گویا پرچون کی دکان سے خریدے گئے سودے کی تفصیل….
”تم نے… تم نے اتنی بڑی حرکت کر ڈالی ٹیشا…. مجھے یقین نہیں آرہا… تم نے اپنی ہی بہن کا جہیز جلایا… اگر وہ بن بیاہی بیٹھی رہ گئی تو…”





”تو …. تو کیا ہوا۔”
اس نے اٹھ کر سیدھا جیز کی آنکھوں میں جھانکا۔
”وہ کون سا بڑی نیک بی بی تھی۔ میرا رشتہ اس بڈھے کے ساتھ ہوا تھا تو اس قدر خوش تھی۔ پتا ہے، اس کا دیور چاہتا تھا مجھے۔”
جیز سنتے سنتے دو فٹ اچھل گئی۔
”ہیں۔”
”ہاں نا! مرتا تھا مجھ پر جان چھڑکتا تھا۔ ہر وقت شادی، شادی کی رٹ لگائے رکھتا تھا اور وہ جو میری بہن تھی نا! کلو وہ چاہتی تھی نہیں تھی کہ میری شادی اس سے ہو۔ بتایا تو تھا میں نے تمہیں۔”
”اوہ ہاں” جیز کو کچھ یاد آیا۔ وہ اب نارمل ہورہی تھی۔اگر ٹیشا گھر چھوڑ کر بھاگ آئی تھی تو اس میں اتنی حیرت کی کیا بات تھی۔ یہ اور اس جیسے کئی ہاسٹلز بھرے پڑے تھے اس قسم کی لڑکیوں سے لیکن… لیکن وہ بہن کا دیور…..
”جب وہ تمہیں چاہتا تھا تو شادی کرلیتیں، چھوڑ کیوں دیا۔”
”میں نے کہاں چھوڑا، اس نے پکڑا ہی نہیں۔” بات کہہ کر وہ پھر زور سے ہنس دی۔
”ارے یار کیا کرتی اس سے شادی کرکے۔ اپنے گھر سے نکل کر دوسر گھر غربت اور ذ مہ داریوں کی گٹھڑی لے کر چلی جاتی پھر بچے پر بچہ پیدا کرتی رہتی اور روتی رہتی… نہ بھئی….”
”اور اب کیا کروگی؟” وہ سوال کرتے ہوئے اٹھ گئی۔
ایک بات تو طے تھی۔ وہ یہاں آگئی تھی تو یہیں رہنے والی تھی۔ یقینا اس کے کمرے میں فی الحال وہ اسے کورا جواب دینے کی پوزیشن میں قطعاً نہیں تھی۔ کیوں کہ ابھی تک یہ نہیں پتا تھا کہ اس نے طیفی سے کوئی بات کی ہے یا نہیں۔
”اب میں اپنی مرضی سے جیؤں گی، اپنا کماؤں گی، اپنا کھاؤں گی اور اپنا خواب پورا کروں گی۔”
کمرے سے ملحقہ دو انچ کے کچن میں گُھستے ہوئے جیز نے اس کی آواز سنی۔
کچھ نہ کچھ غلط ہوجانے کا سگنل جانے کیوں اس کے اندر شور مچارہا تھا۔
”ارے اس تکلف میں کیوں پڑگئیں۔”
دفعتاً ٹیشا پیچھے سے آکر اس قدر اچانک بولی کہ چائے کی پتی نکالتا اس کا ہاتھ لرز سا گیا۔ ذرا سی پتی سلیب پر بھی گرگئی۔ وہ زور سے ہنسی۔
”کیا ہوا ڈرگئیں۔ ارے تم تو کو ڈرنے کی کیا ضرورت ہے۔ مجھے تم سے کوئی بدلہ تھوڑا ہی لینا ہے۔ تم نے میرا کیا بگاڑا ہے بھلا۔”
اب اس نے اس کے ہاتھ سے ڈبہ لے کر خود کھولتے ہوئے پانی میں پتی ڈالی۔ اس کا انداز اس قدر پرُ اعتماد تھا کہ کوئی اندازوں کی حدود سے باہر جاکر بھی قیافہ نہ لگاسکتا کہ وہ اپنے گھر اور گھر والوں کو کس آگ میں جھونک کر آئی ہے۔
جیز کا انداز اتنا ہی رکا رکا اور جھجکا ہوا سا تھا۔ خاص طو رپر اس کے جملے ”تم نے میرا کیا بگاڑا ہے۔” اسے کچھ ڈرا سا دیا تھا۔
”جاؤ تم بیٹھو، میں نکال کر لاتی ہوں چائے۔”
اس کی نظروں سے جیز کا انداز چُھپا ہوا نہیں تھا۔
”ارے کیوں فکر کررہی ہو۔ میں آگئی ہوں نا!…. کردیا کروں گی سارے کام تمہارے۔ ضرورت نہیں پڑے گی تمہیں کچھ بھی کرنے کی… جاؤ جاؤ۔”
اس کی زبان فراٹے سے چل رہی تھی۔ جیز مرے مرے انداز میں واپس کمرے میں چلی گئی۔ اس کے نکلتے ہی اس نے چہرے اور سر پر ہاتھ پھیرے ایک گہری سانس لے کر خود کو کمپوز کیا اور کھولتی ہوئی چائے پر مسکراتی سی نظر ڈالی اور بولی۔
”میں تمہیں چھوڑوں گی نہیں کچھ بھی کرنے کے قابل….”
جیز نے اس کے ساتھ اس کے نام پر دھوکا کیا تھا اور وہ دھوکے بازوں کو معاف کرنے والی نہیں تھی۔
******





دن رات کے معاملات میں مصروفیت میں اُسے ایک لاشعوری سا انتظار تھا۔اس فون کال کا انتظار جو ایک رات اسے دو سے تین بار موصول ہوئی اور اس نے جان بوجھ کر ریسیو نہیں کی۔ معصوم چڑیوں کو پھانسنے کے لیے کسی چال کی ضرورت نہیں ہوتی۔ وہ اپنے دانے کی چاہ میں خود شکاری کے جال میں چلی آتی ہیں۔وہ ابھی ایک ایسی ہی معصوم چڑیا تھی۔
تبسم جانتی تھی۔ جس طرح کی اُڑان بھرنے کے لیے وہ پرتول رہی تھی اور جس طرح کی کمپنی اُسے میّسر تھی۔ وہ زیادہ دیر تک بیٹھنے والی نہیں تھی یا تو گھر والے اس کی حرکتوں سے واقف ہوجاتے اور زبردستی پکڑ کر اس کی شادی کردیتے اور اگر وہ ایسا نہ کرپائے تو یقینا وہ جلدہی کوئی جذباتی قدم اٹھالیتی۔
اس نے دنیا دیکھی تھی۔ بہت سارے لوگوں کو پرکھا تھا۔ نزدیک و دور کے دوست، احباب اور جاننے والے کوئی اس کے مشاہدے کی زد سے بچ نہیں پایا۔ وہ منفی طرزِ فکر رکھتی تھی۔ لوگوں کے الفاظ میں چھپے جھوٹ کے کھوج لگالیتی، بین السطور معنی پڑھ لیتی تھی۔ اس کے سامنے وہی کھڑا رہ سکتا تھا جس کی ذہنیت اس سے کہیں زیادہ شاطر ہوتی وگرنہ زیادہ تک، لڑکیاں اور کبھی کبھی مرد بھی، اس کی گہری نگاہوں ہم وار اور بے لچک لہجے کے آگے ہار مان لیتے تھے۔اس کے اچھے اور برُے ہر طرح کے لوگوں سے بے شمار تعلقات تھے۔ اسے اپنے کانٹیکٹس استعمال کرنے کا فن بھی آتا تھا اور اس فن کا مظاہرہ کرنے میں لطف بھی۔ یہاں تک کہ اپنے اندازوں، مشاہدات اور متجسس منفی سوچ کی وجہ سے اس نے اپنے منگیتر تک کو نہیں بخشا۔
وہ جانتی تھی کہ شہنام اس کے علاوہ بھی دوسری لڑکیوں سے تعلقات استوار رکھتا ہے لیکن اس نے کُھل کر اس سے اس بارے میں کبھی بات نہیں کی تھی۔ ایسا کرنے سے اسے روکنے والے اس کے والد آفاق حسین راؤ نے اسے صاف اور واضح الفاظ میں یہ بات سمجھادی تھی کہ مرد اور عورت کے درمیان ایک جھجھک اور بھرم کا پردہ ہمیشہ رہنا چاہیے وہ سمجھ گئی تھی۔ کیوں کہ وہ سمجھ دار تھی اور اپنے باپ کی فرماں بردار بھی۔
وہ جانتی تھی کہ جب تک اس کے اور شہنام کے درمیان یہ بات کھلتی نہیں وہ بھی نہیں کھلے گا۔ لیکن جس دن ان کے درمیان سے بھرم کا یہ پردہ اُٹھ گیا پھر اس کے بعد اگر اس نے بلاجھجھک دوسری عورتوں سے تعلقات رکھے اور اس بات کا سوسائٹی میں مذاق بن گیا تو تب بھی وہ کچھ نہیں کرپائے گی۔ اس لیے اس معاملے میں خاموشی اور نظر انداز کرنے میں ہی بہتری تھی۔




Loading

Read Previous

باغی — قسط نمبر ۴ — شاذیہ خان

Read Next

گلّو اور لومڑ

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!