تو کیا ہوا —– فرحین اظفر

اس نے آدھی رات جاگتی آنکھوں سے گزرے ماہ و سال کو سوچتے ہوئے گزاری تھی۔ اسے اپنے کسی عمل پر کوئی افسوس، ندامت یا پچھتاوا نہیں تھا لیکن اپنے پیچھے رہ جانے کا افسوس ضرور تھا گو کہ تبسم راؤ کی صورت ابھی ایک راستہ اس کے سامنے کُھلا تھا لیکن اس سے جیز کی اتنی بڑی کامیابی ہضم نہیں ہورہی تھی۔
وہ خواب جو وہ برسوں سے دیکھتی چلی آرہی تھی جیز کے لیے پورا ہونے جارہا تھا۔ فیشن انڈسٹری کی کریم جینٹری کے درمیان، ریمپ پر بہترین لباس پہنے، کیمروں کی چکاچوند اور روشنیوں کے جُھرمٹ میں ایک ادا سے بلی کی چال چلتی ہوئی جاذبہ شیخ عرف جیز….
وہ نہیں تھی… وہ منتشا نظام الدین نہیں تھی۔ وہ جاذبہ شیخ تھی۔ جس نے اپنی چالاکی سے اُسے کامیابی کی سیڑھی پر چڑھنے سے پہلے ہی گرادیا تھا اور اب خود وہ سیڑھی چڑھنے جارہی تھی لیکن وہ بھول گئی تھی کہ اس کا پالا کسی معمولی لڑکی سے نہیں پڑا تھا۔
اس نے سر اٹھاکر جیز کو دیکھا۔ اس کا ہموار متنفس بتارہا تھا کہ وہ گہری نیند سوچکی ہے۔ اس کی پلز نے یقینا کام دکھادیا تھا۔ ڈھائی تین گھنٹوں میں جیز نے ایک کروٹ تک نہیں بدلی تھی۔ وہ بلاشبہ خوابِ غفلت میں تھی۔
چند لمحے اس کے سرہانے کھڑے ہوکر منتشا اس کی نیند کی گہرائی کا اندازہ لگاتی رہی پھر بے حد اطمینان سے اس کے تکیے کے نیچے ہاتھ ڈالا۔ ذرا سی تلاش و بسیار کے بعد الماری کی چابی اس کی انگلی سے ٹکرائی۔ اس نے کامیابی سے مُٹھی بند کرکے ہاتھ باہر نکالا تو بند مٹھی میں جیز کی الماری کی چابی دبی تھی۔
اگلے چند منٹوں میں مطلوبہ جیز اس کے ہاتھ میں تھی۔
یہ ایک کاغذ کا پرزہ تھا لیکن صرف بے کار پرزہ نہیں۔ قانونی دستاویز… ایک معاہدہ، جس کے نیچے انگریزی میں سارے اصول و ضوابط درج تھے۔
وہ ایک ایک کرکے تمام نکات پڑھتی گئی۔ اس کا تنفس بڑھتا گیا اور چہرے کی سرخی بھی۔
یہ ایگریمنٹ پیپر تھا۔ چیف آرگنائزر کی طرف سے یقینا فیشن شو کے تمام شرکا کو جاری کیا گیا ہوگا۔
اس نے خود پر ضبط کرتے ہوئے بے حد احتیاط سے الماری بند کی۔ اپنی سائیڈ ٹیبل کی دراز سے اپنی دوسری مطلوبہ چیز نکالی۔
ایک گہری سانس لے کر خود کو ٹھنڈا کیا اور سوئی ہوئی جاذبہ کی طرف بڑھی۔
******





”او کم آن ٹیسی! پلیز ٹرائی ٹو انڈرسٹینڈ۔”
”ٹو ٹرائی ٹو….” اس کا انداز ہمیشہ کی طرح منت بھرا تھا۔
شہنام نے خود کو بے بسی کی انتہا پر محسوس کیا۔
کچھ بھی کہنا بے کار تھا۔ یہ نیوائر نائٹ بھی اس کی اپنی کسی خاص دوست کے بہ جائے ٹیسی کی کسی فضول ڈانس پارٹی کی نظر ہونے والی تھی۔
‘میری میٹنگ ہے یار…. دبئی سے بہت ضروری ڈیلی گیشن آنے والا ہے۔ ”اس نے اپنے طور پر ایک آخری کوشش کی۔
”کیا میں پوچھ سکتی ہوں کہ یہ کون سا خاص ڈیلی گیشن ہے، جو صرف رات میں ہی آتا ہے اور یہ کون سی انوکھی میٹنگ ہے جو خاص تھرٹی فرسٹ کو ہی رکھی جارہی ہے۔”
اس کا انداز کافی کاٹ دار تھا۔ وہ اس پر صرف ایک خفا سی نظر ڈال کر رہ گیا۔
”تم کہیں نہیں جارہے۔ نہ کوئی میٹنگ اٹینڈ کرنے اور نہ کسی ڈیلی گیشن کو ریسیو کرنے اور بائی دا وے یہ کام تو تمہارا کوئی ایمپلائی بھی کرسکتا ہے۔”
شہنام کے پاس کہنے کو کچھ نہیں بچا۔ وہ ہار ماننے والے انداز میں نزدیکی صوفے پر بیٹھ گیا۔ وہ دونوں اس وقت اس کے گھر کے لاؤنج میں موجود تھے۔ ٹیسی کبھی انتہائی ضرورت کے علاوہ اس کے گھر نہیں آئی تھی۔ اس لحاظ سے اس کی آمد کا سُن کر شہنام کو خوش ہونا چاہیے تھا لیکن، وہ جانتا تھا کہ وہ کوئی نہ کوئی پلاننگ لے کر آئی ہوگی۔ اس کی اپنی پلاننگ تباہ کرنے کے لیے۔
اس سال کی آخری رات اس کا اپنی ایک بہت ہی خاص ایرانی دوست کے ساتھ گزارنے کا ارادہ تھا وہ پہلی بار پاکستان آرہی تھی۔ صرف شہنام ہی اسے لینے جاسکتا تھا۔ خاص طور پر اس لیے بھی کیوں کہ اس دوست کا بائیوڈیٹا کا الف بھی تبسم یا آفاق حسین کو معلوم نہ تھا اور وہ چاہتا بھی نہیں تھا کہ انہیں معلوم ہو۔ اس ایرانی دوست سے اس کے تعلقات دوستی سے کچھ بڑھ کر قریبی نوعیت کے تھے۔ تبسم کو علم نہ ہونے کے باوجود وہ اس بات کو بھانپ گئی تھی۔ شہنام کے آفس میں کام کرنے والے کچھ ورکرز اس کے خاص وفادار تھے۔ جنہوں نے اسے اس ایرانی دوست کے آنے کی اطلاع کئی دن پہلے ہی دے دی تھی۔
اس لیے ٹیسی نے آناً فاناً خود کسی جگہ جاکر کچھ بھی سیلی بریٹ کرنے کے بہ جائے گھر پر ہی پارٹی ارینج کرلی تھی وہ ان لبرل مسلمانوں میں سے تھی جو اسلامی اور غیر اسلامی دونوں طرح کے تہوار نہ صرف پورے جوش و خروش سے مناتے بلکہ اس پر فخر بھی کرتے ہیں۔
اس کے اپنے حلقۂ احباب میں مرد و خواتین دونوں شامل تھے لیکن شہنام کے معمولات پر وہ کڑی نظر رکھتی تھی۔ کیوں کہ اسے شہنام کی مردانہ وجاہت کا پورا پورا احساس تھا اور شاید اس لیے بھی کیوں کہ اسے اپنی معمولی شکل و صورت کا احساس مزید سے کچھ بڑھ کرتھا۔
”تم تم آرہے ہو نا۔”
”نو… آئی کین ناٹ کم (میں نہیں آسکتا)۔”
اس کا لہجہ قدرے دو ٹوک تھا۔ تبسم نے اپنے دل میں اُٹھتی غصے کی شدید لہر کو بہ مشکل قابو کیا۔
”ٹھیک ہے ۔نہیں آنا تو مت آؤ۔ میں بھی پاپا سے کنفرم کروالوں گی کہ ایسا کون سا خاص ڈیلی گیشن آرہا ہے جسے میری خوشی پر ترجیح دے رہے ہو تم۔”
اس نے سینے پر ہاتھ باندھ کر منہ پھیرلیا۔ اس کے انداز میں ڈھکی چُھپی سی دھمکی تھی۔ شہنام سر سے پیر تک لرز اٹھا۔
******





”جیز…. جیز اٹھو جیز۔”
اس نے دانستہ اسے نیند میں اس طرح جھنجھوڑا تھا۔ جیسے کوئی قیامت آگئی ہو۔ چند لمحوں کے ہنگامی صورتِ حال کے بعد بہ مشکل اس کی آنکھیں کُھلیں اور مندی مندی آنکھوں سے اس نے اپنے سامنے جو دیکھا۔ وہ اس کے ہوش اڑانے کے لیے کافی تھا۔
اس کی نظروں کے بالکل سامنے ٹیشا اپنے ہاتھ میں …. ایک کاغذ لے کر کھڑی تھی۔
”یہ کیا ہے؟”
”کیا؟” اس نے رموز زور سے آنکھیں بندکرکے کھولیں۔
”کیا یہ… ”اگلے پل اس کی نیند بھک سے اڑگئی۔
”یہ…. یہ تمہارے پاس۔”
اس نے نڈھال وجود سے تیزی سے اٹھ کر کاغذ جھپٹنے کی کوشش کی۔ جسے ٹیشا نے پھرتی سے پیچھے کرلیا۔
”میں نے پوچھا ہے یہ کیا ہے”
اس نے حیرت و ناسمجھی کی ملی جلی کیفیت میں پہلے اسے پھر اپنی الماری کو دیکھا او رپھر ڈھیلی سی ہوکر بیڈ پر بیٹھ گئی۔
”وجاہت مرزا ونٹر کلیکشن ٹو تھاؤزند سکسٹین۔”
اب وہ پیپر کے اوپر لکھا عنوان پڑھ رہی تھی۔ جیز کے پاس کوئی چارہ نہیں تھا اس ایگریمنٹ کے متن اور اس کی تفصیلات سے آگاہ کرنے کے سوا۔
”یہ ایگریمنٹ میرا نہیں ہے۔” اس نے ایک آخری کوشش کی۔ لیکن ٹینا کی اگلی حرکت دیکھ کر برُی طرح بوکھلاگئی۔اس کے بائیں ہاتھ میں لائٹر تھا۔ جس کا شعلہ جلاکر وہ اس کاغذ کے کنارے کو جلارہی تھی۔
”کیا کررہی ہو….” وہ ایک دم چلا اٹھی۔
”چلاؤ مت… ورنہ میں ایک سیکنڈ نہیں لگاؤں گی… اس نے دھمکی دی، جو کہ کامیاب رہی۔
”کیا کررہی ہو پاگل ہوئی ہو کیا۔” اب کی بار وہ دبی آواز میں تلملا کر بولی۔
”میں پاگل نہیں ہوئی ہوں البتہ تم ضرورت سے زیادہ ہوشیار بننے کی کوشش میں ہو…. کیوں۔”
”ایسا نہیں ہے میری بات سنو۔ یہ مجھے دے دو۔ یہ ایگریمنٹ میرا نہیں ہے۔ کل مجھے ایک دوست کے ہینڈاوور کرنا ہے۔”
اس نے خود کو پرسکون رکھتے ہوئے دونوں ہاتھ اٹھاکر اس کے نزدیک جانے کی کوشش کی۔
”میرے قریب مت آنا ورنہ….” اس نے ایک بار پھر لائٹر جلایا۔
جیز کی جان نکل گئی۔
”نہیں نہیں… وہ پھڑ پھڑ اکر رہ گئی۔
”تو پھر بتاؤ مجھے سب کچھ… سچ مچ… ایک ایک بات….”
جیز جیسے تھک کر واپس بیڈ پر بیٹھ گئی۔
”میں نے تم سے جان بوجھ کر کچھ نہیں چُھپایا۔ تمہارے آنے سے بھی کئی دن پہلے مجھے اس فیشن شو کے بار ے میں پتا چلا تھا۔’
تھکے تھکے نڈھال وجود اور پژِمردہ اعصاب کے ساتھ، ٹیشا کے سامنے یہ اعتراف کرنا کہ اس نے دوستی کے نام پر اس کے ساتھ دھوکا کیا تھا اتنا بھی آسان نہیں تھا۔ لیکن اس کے ایک ہاتھ میں وہ پیپر تھا جس پر اس کی زندگی کی تمام کامیابیوں کا دارومدار تھا اور دوسرے ہاتھ میں بھڑکتا وہ ننھا سا شعلہ….
وہ کسی ٹرین کی طرح چھکاچھک ساری بات کہتی گئی۔
”اور میں نہیں چاہتی تھی کہ تمہیں پتا چلے ہاں میں نے تم سے چُھپایا کیوں کہ مجھے ڈر تھا کہ اگر تم میرے ساتھ گئیں تو میں ریجکٹ ہوجاؤں گی۔”
پوری بات کہہ چکنے کے بعد اس نے دونوں ہاتھوں میں چہرہ چُھپالیا۔
ٹیشا متنفر انداز سے دیکھتی رہی۔ اس چہرے پر بہت سخت تاثرات تھے۔ فضا میں خاموشی چھاچکی تھی۔
”اور… تھوڑی دیر بعد اس نے ایک لفظی سوال کیا۔
”اور… اور کیا؟” اس نے چونک کر سر اٹھایا۔
”اور جو تم نے طیفی سے کہا اور کیا؟”
”طیفی سے میں نے کچھ نہیں کہا۔”
”بتاتی ہو یا نہیں۔” اس نے جلتا ہوا لائٹر پیپر کے پاس کیا۔





”نہیں ٹیشا پلیز نہیں۔” وہ بے اختیار اپنی جگہ سے اٹھی۔
”بیٹھی رہو۔” ٹیشا نے فوراً اسے تنبیہ کی۔وہ واپس ابلے دودھ کے جھاگ کی مانند بیٹھ گئی۔
”مجھے رقم کی ضرورت تھی۔ میرے پاس اور کوئی چارہ نہیں تھا۔ طیفی نے مجھے مجبور کیا کہ تمہیں مزید تصویروں کے لیے راضی کرلوں۔”
”اور تم نے حامی بھر کر اپنی جیب گرم کرلی۔”ایک بار پھر کمرے میں خاموشی چھاگئی۔
”اور وہ جو میری گھٹیا پکچر اس منحوس میگزین میں آئی… تم جانتی تھی نا۔” جیز خاموش رہی۔ اس کا سر جھک جھکا تھا۔
”بولو… تم جانتی تھی نا!”
وہ چوکنا سی دور ہٹ کر کھڑی تھی۔ اس کے ہاتھ یوں چوکس تھے کہ ذرا سی چوک ہوئی اور وہ کاغذ کا پرزہ جھلس کر راکھ بن جاتا۔
”ہاں میں جانتی تھی۔”جیز چہرہ چھپاکر سسک پڑی۔
”لیکن میرا یقین کرو۔ میں تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچانا چاہتی تھی۔ وہ بہت لمیٹڈ ایڈیشن کا میگزین تھا۔ میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ وہ تمہارے گھر والوں تک پہنچ جائے گا۔”
”اس لیے تم نے سوچا کہ جو تمہارا دل چاہے تم میرے ساتھ کرتی پھروگی اور مجھے پتا نہیں چلے گا۔” اس کی لہجے میں بھا نبھڑ سے جلنے لگے۔
”نہیں میں نے ایسا نہیں سوچا تھا۔ پلیز میرا یقین کرو ٹیشا…. پلیز یہ پیپر مجھے دے دو…. تم نہیں جانتیں میں نے اسے حاصل کرنے کے لیے کتنے جتن کیے ہیں۔” وہ اب برُی طرح رورہی تھی۔
”اوہ…. تم نے جتن کیے اور میں نے….؟”
وہ نگاہوں میں نفرت سموئے دیکھتی رہی۔
”میں نے جو خواری اور ذلت اٹھائی۔ اپنا گھر چھوڑا۔ میرے ماں باپ بہن بھائی مجھ سے چھوٹ گئے۔ اس طیفی اور تم جیسی بدذات عورت کی وجہ سے وہ… اس کا حساب کون دے گا جو مار میں نے اپنے باپ اور بھائی سے کھائی وہ اگر تمہیں کھانی پڑتی نا! تو زندگی بھر کے لیے گناہوں سے توبہ کرلیتیں تم… شرم نہیں آئی تمہیں میرا نام، میری شکل کسی اور کے ننگے بدن پر سجا کر بیچتے ہوئے…. تم کس منہ سے خود کو میری دوست کہتی رہیں۔ تم پیشہ ورعورتوں سے بھی گئی گزری نکلیں جیز….” اس کی زبان سے وہی الفاظ نکل رہے تھے جو، وہ انتہائی طیش کے عالم میں استعمال کرتی تھی۔
”میں…. میں بہت مجبور تھی۔ پلیز میرا یقین کرو۔”
وہ اب بھی دھیرے دھیرے سسک رہی تھی۔
”بس تو پھر سمجھ لینا کہ میں بھی بہت مجبور ہوں۔”
اس نے لائٹر جلایا۔
”نہیں نہیں…. نہیں ٹیشا خدا کے لیے اسے مت جلاؤ۔ میں ہاتھ جوڑتی ہوں تمہار ے آگے پلیز۔”
جیز برُی طرح روتی ہوئی اس کے پیروں میں گرگئی۔
‘میری زندگی بھر محنتوں پر پانی مت پھیرو…. مجھے یہ موقع دوبارہ نہیں ملے گا۔ خدا کے لیے ٹیشا۔ میرے اوپر رحم کرو۔ پلیز مت جلاؤ۔ پلیز مجھے دے دو یہ… پلیز، ٹیشا نے بائیں ہاتھ سے پسینے میں تر ماتھا صاف کیا، جو سردی کے باوجود پیشانی سے پھوٹ پڑا تھا۔
اس کی منتیں انتہا کو چھورہی تھیں۔ وہ اس کے پیروں میں گری گڑگڑارہی تھی اور وہ کوئی اداکاری نہیں کررہی تھی۔
ٹیشا غصّے سے گہری گہری سانس لیتی اسے دیکھتی رہی۔ اسے معلوم تھا۔ اس کاغذ میں اگر جیز کی جان تھی تو غلط نہیں تھا۔ اس معاہدے پر اگر ٹیشا کا نام ہوتا تو یقینا اس کی اپنی جان بھی اس میں بند ہوتی۔ وہ جتنا جیز کے لیے اہمیت رکھتا تھا اس سے کہیں زیادہ ٹیشا کے لیے ہوتا۔ جیز تو صرف اس کے قدموں میں آئی تھی۔ یہ صورتِ حال اگر اس کے ساتھ درپیش ہوتی تو وہ جیز کے تلوے چاٹ لیتی، ناک سے لکیریں نکال دیتی…..
جانے کہاں سے دو بھولے بھٹکے آنسو اس کی آنکھوں کی دہلیز تک آپہنچے۔ اس کے روم روم میں وہی درد جاگنے لگا، جو اقبال اور نظام الدین کی لاتیں اور ٹھڈے کھاتے ہوئے ہوا تھا۔ اس کا لائٹر والا ہاتھ نیچے گرگیا۔
اس کی آنکھوں کے سامنے آگ کی بلند لپٹیں ناچنے لگی۔
وہ بھی جیز جیسی تھی۔ وہ بھی جیز تھی یا شاید اس سے کچھ زیادہ خود غرض اور بے رحم… پھر بھی یہ موقع یہ خوش قسمت موقع جیز کی قسمت میں لکھا۔ اس کے اپنے نصیب میں نہیں…. کیوں؟
ایگریمنٹ پیپر چھوٹ کر جیز کے نزدیک جاگرا۔ جیز نے کسی متاعِ جاں کی طرح اسے جھپٹ لیا۔ اب وہ دونوں ہاتھوں سے اسے سینے سے لگائے سسک رہی تھی۔
وہ کچھ دیر اسے دیکھتی رہی پھر خود بھی زمین پر بیٹھی چلی گئی۔
چند لمحوں بعد وہ خود بھی جیز کے ساتھ زمین پر بیٹھی رورہی تھی۔
******





وہ دوہزار پندرہ کی آخری اور سرد ترین رات تھی۔
پورا دن جیز نے رات کی پارٹی کی تیاری کرتے ہوئے گزارا بلکہ تیاری بھی کیا تھی بس خوشی کا ایک احساس تھا جو اس کے روم روم سے چھلک رہا تھا۔
وہ صبح گنگناتی ہوئی جاگی تھی۔ ٹیشا خفا خفا سی اس کے معمولات دیکھتی رہی۔ بار بار وہ قدِ آدم آئینے میں خود کو دیکھتی۔ کبھی مسکرادیتی، کبھی دائیں بائیں بال جھٹکتی اور کبھی ایڑھیوں پر گھوم جاتی۔ ہر بار جب وہ آئینے کے سامنے جاکر ٹھہرتی ٹیشا کا دل کچھ اور جلتا اور کچھ اور روتا۔ وہ بھی دھوکے باز تھی، وہ بھی جھوٹی تھی، وہ بھی بدکردار تھی پھر بھی منزل کے قریب پہنچ چکی تھی لیکن وہ خود… وہ خود ابھی تک دھند بھرے اندھیرے راستے میں ہاتھ پیر ماررہی تھی۔ شام کی پارٹی کے لیے خریدے جانے والے کپڑوں پراسے ایک دھیلا بھی خرچ نہیں کرنا پڑا۔ جس شخص نے یہ پارٹی ارینج کی تھی۔ اسے دوبارہ کسی اور ڈیزائنر کے شو کا خرچا اٹھانے کے لیے، اسی ڈیزائنر نے سب کے ڈریس ڈیزائن کرنے اور گفٹ کرنے کی آفر کی تھی۔ جسے اس نے بلا رد وکد منظور کرلیا تھا۔
شام سے ذرا پہلے اسے سیاہ رنگ کا وہ دمکتا ہوا لباس موصول ہوا۔
وہ ایک سیاہ رنگ کا ٹیل گاؤن تھا۔ جس پر سیاہ رنگ کے نگینوں سے بہت باریک کام بنا ہوا تھا۔ بائیں ہاتھ کی آستین کے ساتھ بائیں کندھے پر سیاہ رنگ کے بڑے بڑے گلاب کے پھول لگے ہوئے تھے جب کہ دایاں کندھا کسی بھی کپڑے اور آستین سے بے نیاز تھا اور اس کی جگہ سیاہ نگینوں کی باریک سی لڑی لگی ہوئی تھی۔
”واؤ۔” ہاسٹل میں رہنے والی آدھی سے زیادہ لڑکیاں اس ڈریس کا دیدار کرنے آئیں اور قریباً آدھی پاگل ہوکر ہی واپس گئیں۔
یہی نہیں… اس ٹیل گاؤن کے ساتھ سیاہ میچنگ جیولری اور شوز بھی تھے، جو یقینا کسی اور برانڈ کی طرف سے سب ہی ماڈلز کے لیے گفٹس تھے۔
جیز کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ تھا اور نہ ٹیشا کی جلن کا….
ایک تو بہترین کپڑے، پھر مہنگی اور نفیس ترین جیولری، برانڈز شوز…. اور شہر کے مشہور سیلون سے پارٹی میک اپ بھی… اور …. پک اینڈ ڈراپ کی سہولت بھی….
جیز پر اگر آج مہربانیوں کی انتہا تھی تو ٹیشا پر ستم بالائے ستم….
وہ بے حد خاموشی اور بے تاثر نظروں سے سب چیزوں کو ایک نظر دیکھ کر پلٹ گئی۔ جیز نے اس کی خاموشی کو واضح محسوس کیا۔ لیکن جس طرح اس نے اس کے پیروں تلے سے زمین کھینچنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اسی طرح اس کی اس حرکت نے جیز کے دل میں اس کے لیے ہمدردی کی کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ وہ اس پارٹی اور اس کے بعد لاہور سے ہو آنے تک، اسے چھیڑنا نہیں چاہتی تھی اور نہ ہی ٹوکنا چاہتی تھی۔ البتہ اس کے بعد کچھ بھی کرکے اسے اس سے پیچھا چھڑانا ہے۔ یہ بات وہ دل میں طے کرچکی تھی۔ لیکن تب تک، جب تک کہ اس کا ایونٹ کامیابی کے ساتھ ہو نہ جاتا وہ، اسے چھیڑنے کا رسک نہیں لے سکتی تھی۔
وہ نہیں جانتی تھی۔ وہ اسے چھیڑنے کی غلطی کرچکی تھی۔ وہ یہ بھی نہیں جانتی تھی کہ آج کی رات ٹیشا کی اس ہاسٹل میں آخری رات تھی اور وہ یہ بھی نہیں جانتی تھی کہ آج کی رات جو اس پارٹی اور اس کی کامیابی کے حوالے سے اس کی زندگی کی پہلی یادگار رات بننے جارہی تھی۔ یہ صرف پہلی یادگار رات نہیں تھی۔
******





جیز کی واپسی فجر کی اذانوں سے ذرا پہلے ہوئی تھی۔
اس کی حالت اس قدر خراب تھی کہ چند لمحوں کے لیے ٹیشا کو اپنا غم بھول گیا۔ نشے میں دھت لڑکھڑاتے قدم، ادھر سے ادھر بے ڈھنگا لباس اور بے حد سُرخ چڑھی ہوئی آنکھیں….
”تم نے ڈرنک کی ہے جیز۔”
اس نے ڈولتی ہوئی جیز کو سہارا دے کر فقط ایک با رپوچھنے کی کوشش کی تھی۔ جیز کو اس کا سوال اور مداخلت انتہائی ناگوار گزری۔ اس نے جھٹکے سے خود کو چھڑانے کی کوشش کی۔ وہ اپنے حواسوں میں نہیں تھی نتیجتاً ٹیشا نے اسے اس کے بیڈ کی طرف دھکیل دیا۔
وہ کسی بے نتھے بیل کی مانند چکراتی ہوئی جاکر اپنے بیڈ پر گرگئی اور پھر دوبارہ وہاں سے ہلی تک نہیں۔
ٹیشا کی اپنی آنکھوں میں نیند کا شائبہ تک نہ تھا۔ اس نے پوری رات اپنی پلاننگ اور آگے پیش آنے والے حالات کو سوچتے ہوئے گزاری تھی۔
گھر چھوڑتے ہوئے اسے احساس نہیں تھا کہ وہ اپنا کتنا بڑا نقصان کر بیٹھی ہے۔ نقصان کا احساس تو خیر اب بھی نہیں تھا۔ ہاں لیکن اب یہ خیال ضرور تھا کہ جیز کے پاس آنے کا سوچ کر وہ جس قدر ساؤنڈ اورsecure سمجھتی تھی اس کا خیال جیز کی حرکتوں سے ہی غلط ثابت ہوا۔
اب آگے کی طرف اندھا دُھند قدم اٹھانے سے پہلے وہ اگر کچھ سوچنا بھی چاہتی تو، سوچ نہیں سکتی تھی۔ اس کے سامنے راستہ ہی صرف ایک بچا تھا۔ جس کے اختتام پر کیا جیز اس کی منتظر تھی یہ بھی وہ نہیں جانتی تھی لیکن یہ بات تھی کہ اسے اب جیز کے ساتھ نہیں رہنا تھا۔ اسے خود جیز کو چھوڑنا تھا۔ اس سے پہلے کہ شہرت ملنے کے بعد جیز ہی اسے پہچاننے سے انکار کردیتی۔
ٹہلنا بند کرکے اس نے جیز کے نزدیک آکر اس کی نیند کی گہرائی کو جانچا۔ وہ نشے میں مکمل طو رپر ہوش گنواچکی تھی۔
باہر سے فجر کی اذانوں کی آواز آرہی تھی۔ اب نے ہمیشہ کی طرح اُسے پکارا اور خیر کے بلاوے کو ٹیشا نے نظر انداز کرتے ہوئے احتیاط سے لاک لگایا او رپھر بجلی کی سی تیزی سے مطلوبہ سامان سمیٹنے لگی۔
جیز کے دو بہترین قسم کے جوڑے اٹھائے، کیوں کہ وہ اپنے گھر سے تو کچھ لائی نہیں تھی۔ اب تک اسی کے کپڑوں پر گزارا تھا۔ اس لیے جاتے جاتے مزید فائدہ اٹھانے کی کوشش کی۔
ایک چھوٹا ہینڈ بیگ جس میں ضرورت کا سامان رکھا جاسکے۔ ذرا دیر بعد اس ہینڈ بیگ میں جیز کا مہنگا اور قیمتی موبائل بھی دفن ہوچکا تھا۔ سب سے آخر میں وہ پوری تیاری کے ساتھ اپنے بیڈ کے نزدیک بیٹھی اور احتیاط سے پورا جھک کر سرہانے کی جگہ دائیں طرف ہاتھ ڈالا۔
بیڈ پرانی طرز کے بنے ہوئے اور زمین سے بہت کم اُٹھے ہوئے تھے۔ ان کے نیچے کوئی چیز چلی جاتی تو بہت مشکل سے جُھک کر نکالی جاتی تھی اور اگر کچھ چُھپادیا جاتا تو پھر تو نکالنا مشکل ہی تھا۔
دفعتاً وہ دھک سے رہ گئی۔ مطلوبہ جگہ خالی تھی۔
اس کا ہاتھ بھی اندر تک نہیں جاپایا۔ وہ زمین پر پوری اوندھی لیٹ گئی۔ اب کے اس کا ہاتھ اندر تک جاسکتا تھا۔ اس نے حتی الامکان آگے پیچھے دائیں بائیں کی چیز کی تلاش میں ہاتھ پھیرا مگر وہاں کچھ ہوتا تو ملتا۔




Loading

Read Previous

باغی — قسط نمبر ۴ — شاذیہ خان

Read Next

گلّو اور لومڑ

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!