تو کیا ہوا —– فرحین اظفر

جب سے جیز نے اس فوٹو گرافر سے ملواکر اس کی تصاویر بنوائی تھیں۔ وہ خود کو کسی ٹاپ ماڈل سے کم نہیں سمجھ رہی تھی۔
اس کا متناسب فگر جدید انداز کے کپڑے اور ہیئراسٹائل نے اس کی شخصیت کو اتنا الگ نکھاردیا تھا کہ اس کے آگے خاندان کی کسی دوسری لڑکی کا چراغ جلنا تقریباً ناممکن تھا۔ اس میں غرور اور مان حد سے بڑھا ہوا تھا۔ ایسے میں خالد کیا بلکہ خالد جیسے کسی بھی حامد، نادر اور اسلم کی کیا چلنی تھی۔
دومہینے بعد کی تاریخ ٹھہرائی گئی۔ جس میں مہر، کھانا اور شادی ہال پیسے تمام بہ قول منتشا کے غیر اہم موضوعات پر گھنٹوں بحث اور تکرار کی گئی اور کبھی کبھی تو یہ بحث اس قدر بڑھی کہ یوں لگا کہ شادی تو دور منگنی ہی باقی رہ جائے تو بڑی بات ہے۔
ایسے میں چاچا وحیدالدین نے ہی بڑھ کر معاملہ کو ٹھنڈا اور تنازعات کو حل کروایا۔
بہ مشکل تمام کھانے کے عوامل پورے کیے تو صابرہ کے ساتھ، کنول، عالیہ اورسارہ بھی تھک کر چور ہوگئی تھیں۔
”شرم نہیں آتی تجھے مہمانوں سے کام کروایا ور خود مہمان بن کر گھومتی رہی۔”
لاکھ دل میںعہد کرلینے کے بعد کہ اب منی سے شرم نام کی کسی چیز پر بحث نہیں کرنی وہ پھر اس سے کہنے کی غلطی کر بیٹھی۔
”تو کیا ہوا… میں نے کوئی غلط کام کیا جو میں شرم کھاؤں اور جنہوں نے کام کیا اپنے چاچے، ماموں کے گھر کیا۔ مجھ پہ کون سا احسان کیا؟”
اس کی ڈھٹائی اس کی پیدائش کے ساتھ ہی وجود میں آئی تھی اور شاید اس کی زندگی کے اختتام تک ساتھ رہنا تھا۔اپنے جواب پر اس نے کبھی پلٹ کر سوال کرنے والے کا منہ تک نہیں دیکھا تھا۔ تو اب کیوں دیکھتی۔ اطمینان سے کروٹ بدل کر اپنے خیالوں میں کھوگئی۔
اس کی منزل بہت آگے تھی۔ اس کا مقام بہت اونچا تھا۔ وہ ان معمولی گھروں کے معمولی کام کرنے کے لیے پیدا نہیں ہوئی تھی لیکن وہ بھول گئی تھی۔ کبھی کبھی منزل سراب بھی نکلتی ہے اور مقام جتنا اونچا ہوتا ہے وہاں سے نیچے گرنے کے لیے انتہائی معمولی سا دھکا کافی ہوتا ہے۔
******





انہیں اللہ تعالیٰ نے اولادِ نرینہ سے نہیں نوازا تھا۔ شروع شروع میں ان کے دل میں یہ بات ایک شکوے کی ضرورت دبی رہی تھی۔ لیکن گزرتے ماہ و سال میں محض معمولی سی کسک بن کر رہ گئی کہ دو بیٹیوں کی پرورش، تربیت اور ان کے بیاہ کے معاملات بہت نازک ہوتے ہیں ایسے میں اگر ایک بیٹا بھی ہوتا تو بڑھاپے کا سہارا بن جاتا۔ دوسری روایتی سوچ رکھنے والی عورتوں کی طرح ان کے دل میں بیٹیوں کی تربیت اور کردار کے حوالے سے ہمہ وقت خدشات پنپتے رہتے۔ ذرا ذرا سی لغزش اور بھول ان کے قدموں تلے زمین نکالنے اور سر پر پہاڑ گرنے کے مترادف تھی۔
در اصل آج سے پہلے انہیں معلوم ہی نہ تھا کہ پیروں سے زمین نکلنا کہتے کسے ہیں؟ اور خود پہاڑ گرنے کی اذیت کیا ہوتی ہے؟
کہنے کو تو وہ ایک عام سی تصویر تھی۔
کسی بے حد معمولی گھٹیا سے میگزین کے اندرونی صفحات پر کونے میں لگی چند انچ کی بے حد معمولی تصویر۔
ان کے آس پاس کھڑی خواتین میں سے کسی نے بھی اس تصویر کو غور سے نہیں دیکھا بلکہ دیکھا تک نہیں۔
ان کی نظر تو بس یونہی ادھر ادھر بھٹکتی اس تصویر پر جا پڑی اور تب… ہاں تب انہیں پتا چلا کہ پہاڑ کیسے ٹوٹتا ہے۔
جب کوئی دھماکہ ہوتاہے تو وجود، اعصاب اور حواس کے پرخچے کیسے اڑتے ہیں؟ اور کوئی جانا پہچانا چہرہ کسی اجنبی جگہ پر دکھائی دے، خاص کر ایسی جگہ پر جہاں اس کا گمان تک نہ ہو، سوچ نہ جاتی ہو، دھیان نہ پہنچتا ہو، خیال دم توڑدیتے ہوں تو پھر…. تو پھر وہ کیسی قیامت ہوتی ہے جو انسان پر ایسے خاموشی سے بیت جاتی ہے جس قدر خاموشی سے عالم نزع میں ایک جسم پر بیتتی ہے۔
وہ بھی اس وقت مرگ کی ایسی ہی کیفیت سے گزررہی تھیں۔
ان کا چہرہ، سرخ اور زرد رنگوں میں رنگنے کے بعد اب سفید پڑچکا تھا اور اس سے پہلے کہ ان کے ہاتھ بے جان ہوکر کاغذوں کے اس بے حد کم وزن پلندے کا وزن سہارنے سے انکار کردیتے، انہوں نے وہ جریدہ فولڈ کیا اور بغل میں دبالیا۔
وہ جریدہ جسے پڑھنے میں ان کی دلچسپی اعشاریہ صفر ایک فیصد بھی نہیں تھی لیکن جس کے کسی اندرونی صفحے پر گھٹیا اور شرم ناک مصنوعات کی تشہیر کے لیے ایک جانی پہچانی تصویر لگی تھی۔
وہ تصویر جس میں کپڑے کم اور فحاشی زیادہ تھی۔ وہ تصویر جو مصنوعات کی طرف کم اور اپنی طرف زیادہ بلاتی تھی۔ وہ تصویر جس میں بے تحاشا تبدیلیاں کی گئی تھیں لیکن پھر بھی وہ اس چہرے کو پہچان گئی تھیں۔ وہ تصویر کسی اور کی نہیں ان کی اپنی بھتیجی کی تھی۔ وہ تصویر منتشا نظام الدین کی تھی۔ ان کی اپنی ”منی” کی۔
******
اس صبح وہ لوگ ناشتے کی میز پر ساتھ تھے۔
وہ سحر خیز ہمیشہ سے تھی لیکن آج کی سحر خیزی میں ایک معنی خیزی بھی تھی۔ ٹیبل پر ہی صبح اردو اور انگریزی اخبارات کا ڈھیر اور اس ڈھیر سے اس کی مرضی کا صفحہ ملازم نے اسی کی خواہش پر لاکر رکھا اور پھر وہی ہوا جو وہ چاہتی تھی۔
”اوہ مائی گاڈ۔”
سرسری انداز میں اخبار کا جائزہ لیتے ہوئے وہ بُری طرح چونکا تھا۔
وہ اصلی نزاکت اور نقلی انہماک سے آملیٹ کے ٹکڑے کرتے ہوئے بغیر کسی ردعمل کے بیٹھی رہی۔
”یہ …. یہ لڑکی ٹینا ہے نا، جو تمہارے سیلون میں تھی۔”اس نے ایک تصویر سامنے کی۔
اس نے اچٹتی نظر ڈالی اور ہلکا سے ہنکارا بھرا۔
”بہت برا ہوا بے چاری کے ساتھ۔”
”کیوں کیا ہوا۔”
”ڈونٹ یو نو… کسی نے اس کے منہ پر تیزاب پھینک دیا۔ کریٹیکل سچویشن میں ہے۔”
اس نے ایک بڑے اور نام ور ہسپتال کے آئی سی یو کا نام پڑھا۔
”اچھا… سوسیڈ۔” اس کا ردِ عمل بے حد معمولی تھا۔
”تمہیں افسوس نہیں ہوا۔” اس کی حیرانی فطری تھی۔
”افسوس سے زیادہ مجھے حیرت ہے۔”
”حیرت کس بات پر۔”
اس نے بے احد اطمینان سے چمچ اور کانٹا ہاتھ سے رکھا پھر اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھنے لگی۔
”حیرت ہے کہ تم میرے سیلون کی ایک معمولی ورکر کو اس کے نام اور شکل کے ساتھ کتنی اچھی طرح پہچانتے ہو… ہے نا۔”
وہ بے ساختہ گڑبڑایا تھا۔
”نہیں خیر اتنی اچھی طرح بھی نہیں، بس ایک یا دوبار ہی دیکھا تھا۔”
”ہاں… حالاں کہ یہ نقاب لگا کر گھر سے نکلتی تھی۔”
دونوں ایک دوسرے کی طرف دیکھتے رہے۔ چند لمحے سر کے…
اور وہ خاموشی جو دو بے حد قریبی شناساؤں کے درمیان پس پردہ کہانی کو جان لینے کے بعد چھاجاتی ہے اس سے بڑھ کر معنی خیز شاید دنیا کی کوئی شے نہیں ہوتی۔
شہنام حقانی نے ایک بار پھر وہی بے بسی محسوس کی، جو اس سے بحث کرتے وقت اسے اپنے روم روم میں اترتی محسوس ہوتی تھی حالاں کہ اس وقت تو کوئی بحث بھی نہیں ہوئی تھی۔
”گڈ مارننگ۔” آفاق حسین راؤ بالکل اچانک ہی ڈائننگ ہال میں داخل ہوئے۔ ان کی آمد بالکل صحیح وقت پر ہوئی تھی یا شاید بالکل غلط وقت پر۔
”گڈ مارننگ پاپا!”
صد شکر کہ اس نے ہمیشہ کی طرح ان دونوں کے درمیان کی بات میں آفاق حسین راؤ کو گھسیٹنے کی کوشش نہیں کی۔
وہ جلدی میں تھے۔ اس کے صبح صبح جاگنے کو شہنام کی محبت گردانتے ہوئے، انہوں نے اس سے ایک لطیف سا مذاق کیا اور ناشتے سے معذرت کرتے ہوئے شہنام کو لے کر باہر نکل گئے۔





شہنام نے بھی دل ہی دل میں جان چھوٹ جانے پر شکر ادا کیا۔
یہ سچ تھا کہ وہ لڑکی ٹینا سیلون کے علاوہ کہیں بھی آتے جاتے ہوئے، چہرے پر نقاب کیا کرتی تھی لیکن صرف راستے میں مطلوبہ منزل پر پہنچ کر وہ نقاب تو کیا دوپٹہ بھی ایک طرف رکھ دیتی تھی اور یہ بات صرف شہنام ہی نہیں، تبسم بھی جانتی تھی لیکن کس حد تک، یہ وہ نہیں جانتا تھا۔ لیکن صرف اسی بات سے نہیں، اور بھی بہت کچھ تھا جس سے وہ لاعلم تھا جو اگر اس کے علم میں آجاتا، تو یقینا تبسم جیسی لڑکی سے شادی تو دور، وہ اس کا نام تک لینے سے خوف کھانے لگتا۔
دوسری طرف تبسم لبوں پر ایک دھیمی طنزیہ مسکراہٹ سجائے، اسے اپنے باپ کے ساتھ باہر نکلتے ہوئے دیکھتی رہی۔
اس کے ذہن و دل میں اچانک ابال اُٹھنے کے تاثرات اس کے اُڑے اُڑے چہرے سے صاف ظاہر تھے یا کم از کم اسے دکھائی دے گئے تھے۔
اس نے فون اٹھایا اور ایک نمبر ملایا۔
”ہاں ……”
”یس میم آئی نو… بتانے کی ضرورت نہیں… آپ کا کام ہوگیا ہے…”
”ہاں دیکھ لیا ہے نیوز پیپر میں… اپنا گفٹ لے جانا۔”
بات مکمل کرکے اس نے سیل آف کیا اور پھر یونہی اطمینان سے اس کی چمک دار اسکرین دیکھنے لگی۔
اس چکنے بے نشان بُجھے ہوئے سیاہ اسکرین میں کسی کا چہرہ ابھر کر اس کی یاد دلارہا تھا۔
”میرے سیلون میں کام کروگی۔ ایک ورکر کے ساتھ حادثہ ہوگیا، اس کی ڈیتھ ہوگئی۔”
اس کے لبوں پر پھر سے مسکراہٹ کھیلنے لگی اور ذہن میں جملے ترتیب پانے لگے۔
******
اس کے ذہن میں پہلے سے کوئی پلاننگ نہیں تھی۔ اس نے بس اندھیرے میں ایک تیر چلانے کی کوشش کی تھی جو اگر نشانے پر لگ جاتا تو ٹھیک اور اگر نہیں لگتا تو خطا تب بھی نہ جاتا کیوں کہ اس تیر نے پلٹ کر اس کی اور اس کے شروع نہ ہونے والے کیریئر کی ہی جان لے لینی تھی۔
”ایکسیوز می… ” وہ باہر نکل کر فلیٹ کے سامنے بنے کمپاؤنڈ میں کھڑی تھی۔ تھوڑی دیر انتظار کے بعد ہی اس نے اس طرح دار ماڈل کم بیوٹیشن کو فوٹوگرافر کے فلیٹ سے نکل کر باہر آتے دیکھا اور اس کی طرف لپکی تھی۔وہ پلٹی اور آنکھوں میں استعجاب بھر کے اسے دیکھا۔
”یہ… یہ آپ کا موبائل وہاں رہ گیا تھا۔”
اس نے چہرے پر ایک کامیاب مسکینی اور معصومیت طاری کرتے ہوئے اس کا جدید اور قیمتی موبائل اس کی جانب بڑھایا تھا لیکن… اس کی ساری معصومیت حیرت میں بدل گئی۔
وہ چونکی نہ پریشان ہوئی نہ موبائل پر جھپٹی تھی اور نہ ہی بے یقینی سے اپنا ہینڈ بیگ چیک کیا بلکہ اس کے برعکس اس کے چہرے پر ایک اطمینان بھرے ہلکی سی مسکراہٹ آگئی تھی اور اس نے بازو سینے پر لپیٹ لیے۔
متوقع رد عمل کی کوئی جھلک نہ پاکر منتشا اندر ہی اندر گھبرائی ضرور لیکن اعتماد کو ڈگمگانے نہیں دیا۔
”یہ تمہارے پاس کیا کررہا ہے۔”
اس کے سوال میں طنز اور دلچسپی ضرور تھی لیکن پریشانی نہیں۔
”وہ… وہ آپ وہاں…”آگے سے اس کی سمجھ میں نہیں آیا کہ کیا کہے۔
وہ بڑی گہری نگاہوں سے اس کا چہرہ جانچ رہی تھی۔
”آپ وہاں رکھ کر اندر چلی گئیں تھیں تو میں نے اٹھالیا۔”
پرانے ڈائیلاگ بھاڑ میں جھونک کر اس نے نئی صورتِ حال کے مطابق تانے بانے بنے۔
”تم نے کیوں اٹھالیا۔ مفت کا مال سمجھ کر۔”
”نہیں نہیں۔ ایسی بات نہیں ہے میں نے تو آپ کو دینے کے لیے ہی اٹھایا تھا کیوںکہ اندر وہ… میری فرینڈ ہے نا! اگر وہ اٹھالیتی تو پھر آپ کو نہیں دیتی۔”
اس کی بات سُن کر اس کے چہرے پر مصنوعی سے تاثرات ابھرے اس نے بے حد سمجھ داری سے سر ہلایا۔
”Wow impressive…Very impressive”
ہاتھ بڑھاتے ہوئے اس نے ہونٹ سکوڑے۔ منتشا نے جلدی سے سیل اس کی طرف بڑھا دیا لیکن وہ موبائل لینے کے بعد بھی وہیں کھڑی اسے سر سے پیر تک جانچتی رہی پھر ابرو سے اشارہ کرکے بولی۔
”یہاں کیا کرنے آئی تھیں۔”
اس نے ایک نظر فلیٹ کے خستہ حال بند دروازے کو دیکھا۔ جیز کسی بھی لمحے باہر نکل سکتی تھی۔ لیکن پتا نہیں وہ اندر اتنی دیر تک کر کیا رہی تھی۔
”مجھے میری فرینڈ ہی لے کر آئی تھی۔ فوٹو سیشن کے لیے۔”
”فوٹوسیشن… اس گھٹیا طیفی کے پاس….”
اس نے گہری سانس لی پھر جیسے کوئی معاملہ سمجھ کر سر ہلایا۔
”آئی سی… تم بھی کہیں ماڈلنگ کا شوق تو نہیں رکھتیں۔”
اس کے دل کی کلی کھل گئی جو بات وہ کہہ نہیں پارہی تھی۔ وہ خود ہی سمجھ آئی تھی لیکن وہ کچھ کہہ نہ سکی اور تبسم کے قیمتی او رلکی موبائل پر کسی کی کال آگئی۔
منتشا پر اوس گرنے ہی لگی تھی کہ تبسم نے بات کرتے کرتے، پلٹ کر اسے اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کیا۔ اس کے ڈھیلے پڑتے وجود میں ایک جان سی پڑگئی۔
جیز کے کروائے گئے تعارف کے پس منظر میں تبسم آفاق راؤ جیسی ملک گیر شہرت یافتہ ماہر فن یقینا اسے ترقی کی راہ پر آگے بڑھانے کے لیے ممد و معاون ثابت ہوسکتی تھی۔ لوگوں کو استعمال کرکے ان سے فائدہ اٹھانا اسے خوب آتا تھا۔
وہ اس کے پیچھے لپکتے ہوئے جیز پر لعنت بھیج گئی تھی۔ جیز سے کیا کہنا تھا اس کے سوالات کا کس طرح سامنا کرنا تھا فی الحال یہ اس کا مسئلہ نہیں تھا۔
تبسم سے کس انداز میں ملتا تھا، اسے کسی طرح متاثر کرنا تھا اور کیسے اپنی آئندہ ملاقات کے لیے راہ ہموار کرنی تھی فی الحال یہ اس کے مسائل تھے۔
******





وہ نہیں جانتی تھی سامنے والے کے دماغ میں کیا چل رہا ہے، لیکن سامنے والی جانتی تھی اس کے دماغ میں کیا چل رہاہے۔
وہ اس سے پہلے اس جیسی ہزاروں ایسی لڑکیوں سے مل چکی تھی، جو مشہو رہونے کی چاہت میں، شہرت، دولت اور عزت کی چاہ میں روشنیوں کے شہر کی اس جادونگری میں آئیں او رپھر یہاں کی آب و تاب نے ان کی آنکھیں چُندھیادیں۔ وہ نہ کچھ دیکھ سکیں، نہ سمجھ سکیں اور بعض تو زندگی بھر کے لیے قوت بصارت سے محروم ہوگئیں۔
ان میں سے کتنی ہی معصوم حسینائیں ایسی تھیں جن کو اس نے خود راہ سے بھٹکایا۔ ان کی منزل کھوٹی کی۔ چند ایک کے مقاصد زندگی بدل کر بے ایمان کردیے، عزت کہیں کھوگئی۔ شہرت کا حصول دیوانے کا خواب بن کر رہ گیا اور وہ زندگی بھر کے لیے صرف زندگی گزارنے جتنے چند ٹکوں کی محتاج بن کر رہ گئیں۔ کچھ کو اچھے تعلقات کا جھانسا دے کر اور کسی کو بڑے موقع کے انتظار میں بٹھا کر….
اسے چڑ تھی ہر اس لڑکی سے، جو اس جیسا خواب دیکھتی، جو اس نے دیکھا تھا اور پھر اس خواب کو پورا کرنے کے لیے جدوجہد کرتی ہر لڑکی اُسے اپنا منہ چڑاتی محسوس ہوتی اور یوں لگتا بھری محفل میں اس کا مضحکہ اڑایا جارہا ہے۔
وہ خود بھی کبھی ان ہی جیسی تھی۔ … شوخ، پُرعزم اور حوصلہ مند، اس کے پاس ان سب چیزوں کے علاوہ بھی کچھ تھا۔ جو رات بھر اسے شہرت کی بلندیوں پر پہنچاسکتا تھا۔ وہ سب میں نمایاں سب سے الگ دکھائی دے سکتی تھی اور وہ تھی اس کے باپ کی بے تحاشا دولت….
عملی میدان میں قدم رکھنے سے پہلے اسے لگتا تھا۔ دولت کے انبار اور نوٹوں کے ڈھیر اس کے راستے کی ساری مشکلات کو ختم کر دیںگے۔ ساری رکاوٹوں کو روک دیںگے۔ ساری ناکامیوں کو نگل لیں گے لیکن ایسا ہو نہ سکا۔ بہت جلد اسے احساس ہوگیا کہ اس کے پاس کچھ ایسا نہیں ہے۔ جس کی اسے ضرورت پڑنے والی ہے اور اس کے باپ کی ڈھیروں ڈھیر دولت بھی وہ کجی اور کمی پورا کرنے سے قاصر ہے۔
پہلی بجلی اس پر تب گری جب اس نے آڈیشن کے لیے آئی ہوئی دوسری نوعمر اور نو آموز لڑکیوں کو دیکھا۔ وہ لمبے قد کی دبلی پتلی لڑکیاں تھیں۔ دبلی تو وہ خود بھی تھی۔ لیکن ہائٹ …. اور یہاں اکر اس نے پہلی شکست جھیلی۔
وہ سب اس کے کھڑا ہونے پر اسے دیکھ کر دبے دبے انداز میں ہنستی رہیں۔ سروقد سراپے، ایسے قیامت خیز تھے کہ تین چار اگر آس پاس اکٹھی ہوجائیں تو لمبے سارسوں کے درمیان اسے اپنا آپ مرغابی جیسا لگنے لگتا۔
زندگی میں پہلی بار اس کا اعتماد متزلزل ہوا اور وہ جیوری کے سامنے جانے سے پہلے ہی گھر لوٹ آئی۔
بعد میں آفاق حسین راؤ نے محض اس کی دلی خواہش پوری کرنے کے لیے اپنے تعلقات استعمال کرکے اسے ایک فیشن شو میں حصہ دلوایا اس نے ریمپ کی شکل بھی دیکھی اور کیٹ واک میں حصہ بھی لیا۔
اس نے ملک کی سب سے مشہور و معروف ڈیزائنر کا آؤٹ فٹ زیب تن کیا۔ اس روز اس کی زندگی کا واقعی بہت بڑا دن تھا۔
بڑا سارا بھاری کام دار جوڑے کی… اس کے ٹخنے چھورہی تھی۔ بے حد چمکتے چہرے کے ساتھ اپنی ساری تیاری کو فائنل ٹچ دینے کے بعد جب صرف انٹری کیو میں لگنے کی دیر تھی تب… ہاں تب ہی اس نے اپنی پسندیدہ ترین ڈیزائنر کو شو آرگنائزر پر برستے دیکھا۔
اسے، ٹیسی کو وہ لباس دینے پر سخت اعتراض تھا اور اس سخت اعتراض کے الفاظ سخت ترین تھے۔
اس کا سارا اعتماد ہوا ہوگیا۔ ہتھیلیوں میں پسینہ اُتر آیا۔
مسکراہٹ تو ایک طرف رہی، چہرے پر ہوائیاں سی اڑنے لگیں۔
کچھ ہی دیر بعد اس سے اس کا آؤٹ فٹ لے کر اسے دوسرے کپڑے دے دیے گئے۔ اس کا پہنا ہوا لباس، ایک دوسری ماڈل نے پہن لیا، جس کو ڈیزائنر کے ساتھ شو کے سب سے آخری نمبر پر ریمپ پر جانا تھا اور ارد گرد موجود سب ہی لوگ اسے ”شو اسٹاپر” کے نام سے پکار رہے تھے۔




Loading

Read Previous

باغی — قسط نمبر ۴ — شاذیہ خان

Read Next

گلّو اور لومڑ

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!