تو کیا ہوا —– فرحین اظفر

ایک وہ واچ مین، جو بیرونی دروازے پر بڑی سی گن لے کر بیٹھتا تھا۔ امینہ جو کلائنٹس کے لیے گجرے اور بازار سے دوسرا ضروری سامان عین وقت پر لے کر آئی تھی اور تیسری تھی حسنہ…. جو پارلر کُھلنے سے پہلے اور ٹائمنگز ختم ہونے کے بعد تفصیلی صفائی کرتی تھی۔
سب سے پہلا دھچکا ٹیشا کو اسی وقت لگا تھا۔ جب اس نے خود کو میڈ اور واچ مین کی وردی میں ملبوس پایا۔
وہاں موجود دوسرے لوگوں کے لیے یہ کوئی حیرت کی بات نہیں تھی۔ اس کی عمر کم تھی اور تعلیم بھی۔ ایسے میں اگر تبسم نے اسے اوپر کے کاموں کے لیے ترس کھاکر رکھ ہی لیا تھا تو ظاہر ہے وہ وہاں کی ایکسپرٹ بیوٹیشنز والے کپڑے تو نہیں پہن سکتی تھی۔ ان کے لیے یہ ایک نارمل بات تھی لیکن ٹیشا کے لیے نہیں۔
وہ گھر سے ماڈلنگ کا خواب لے کر نکلی تھی۔ اسے سپر ماڈل بننا تھا۔ کسی بیوٹی سیلون کی کام والی نہیں لیکن اب وہ اس قدر بے بس ہوچکی تھی کہ چُپ چاپ حالات کو جو ہے اور جیسا ہے کی بنیاد پر قبول کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔
بے حد بددلی کے ساتھ صُبح سے شام کرتی اور اپنا دماغ استعمال کرکے تھک چکی تھی۔
نہ ان حالات سے فرار کا کوئی راستہ دکھائی دیتا تھا نہ، تبدیلی کا کوئی امکان….
سرونٹ کوارٹر کے تنگ کمرے میں جب رات کو مچھر کاٹتے تو اسے بے اختیار اپنے گھر کی یاد آجاتی۔ وہ اس گھر سے نکل کر، ہزاروں کوششیں کرکے بھی بالآخر اس جیسے بلکہ اس سے بھی تنگ و تاریک گھر میں آپڑی تھی۔ اس گھر کی یاد اس کے دل میں پچھتاوے یا افسوس کی کوئی لہر نہیں جگاتی تھی۔ ہاں اگر کوئی بے چینی تھی تو بس یہ کہ دن پر دن گزرتے جارہے تھے اور وہ ایک جگہ آکر رک گئی تھی اُسے آگے بڑھنے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی تھی۔
اسے ان دنوں سے خوف آنے لگا تھا۔ اسے اپنی صلاحیتوں پر شبہ ہونے لگا تھا۔ خود پر سے اعتماد اٹھنے لگا تھا۔
”کیا یہ تھا میرا مستقبل جس کے لیے میں نے اتنے پاپڑ بیلے۔”
”تو کیا میرے گھر والوں کی بددعائیں سچ ہوں گی۔ میں ایسے ہی بوڑھی ہوجاؤں گی اور سسک سسک کر لاوارثوں کی طرح قبر میں اُترجاؤں گی…. ہر گز نہیں….”اپنے خیالات کی تردید کے آگے سے خود بھی کچھ نہیں سوجھتا تھا۔ اب وہ اکثر کوارٹر سے نکل کر باہر چادر بچھاکر زمین پر سوتی تھی۔ کیوں کہ موسم بدل رہا تھا۔
جاڑا ختم ہوچکا تھا۔ بہار کی جوانی ڈھل گئی تھی۔ اور موسمِ گرما کا فشار بلند ہوتا جارہا تھا۔یونہی بے خیالی میں پسینہ پونچھتے اسے خیال دیا اور وہ بے طرح چونک گئی۔
آٹھ مہینے گزرچکے تھے اور اسے یقین تھا کہ آنے والے آٹھ نہیں دس نہیں بارہ پندرہ مہینے بھی اسی طرح گزرجانے تھے لیکن اس کا خیال غلط تھا۔
******
شدید گرمی اور لو سے جلے ہوئے دنوں کے بعد ابرباراں نے اپنی رحمت شہر والوں پر برسائی۔
بادلوں بھر آسمان بارش کا تحفہ لے کر آن پہنچا تھا۔ اس روز اس کی چھٹی تھی۔
تبسم اپنے والد آفاق حسین راؤ کے ساتھ کسی کام کے سلسلے میں شہر یا شاید ملک سے باہر چلی گئی تھی اور جاتے ہوئے وہ صرف ٹیشا پر یہ خاص مہربانی کرگئی تھی کہ اسے اپنی غیر موجودگی میں سیلون جانے سے منع کردیا تھا۔
ٹیشا اس رہائی سے فی الحال خوش تھی کیوں کہ وہ پسِ پردہ ان چھٹیوں کی حقیقت سے باخبر نہ تھی۔
اس روز بے حد سویرے اس کی آنکھ ایک عجیب سے شور سے کھلی۔
”اوہ… بارش۔”
اس نے باہر نکل کر دیکھا۔





ہرے بھرے گھاس کے قطعے …. پودے درخت سب دھل دھلا کر نکھرچکے تھے۔ رات میں کسی وقت موسلادھار بارش ہوئی تھی لیکن ہلکی کن من ابھی بھی جاری تھی۔خوشی سے بلّیوں اچھلتے دل کو بے مہار چھوڑ کر اس نے انیکسی کی طرف دوڑ لگادی۔پہلے کھلے آسمان تلے بھیگ کر ٹھنڈی ہواؤں اور ٹھنڈی ٹھنڈی بوندوں کا خوب لطف لیا۔ اس کے بعد انیکسی کے برآمدے میں آکر سنگِ مرمر کے گول سرد ستون کو تھام کر سامنے حسین منظر میں کھوسی گئی۔اس کے اپنے گھر میں جب بھی بارش ہوتی تو چھتیس جگہ سے چھت ٹپکتی تھی اور صحن سے پانی کمروں تک میں گُھس آتا تھا۔
”مجھے بار بار گھر کیوں یاد آتا ہے۔”اس نے سر جھٹک کر جیسے خود کو ڈانٹا اور ایک بار پھر سامنے دیکھا بس لمحے بھر کی بات تھی۔
سامنے کا منظر یک سر بدل چکا تھا۔ دور ڈرائیووے پر ایک گاڑی جانے کس وقت آکے رکی۔ اس سیاہ چمچماتی بڑی سی گاڑی کا درواہ کھولے کوئی بڑی شان، تمکنت اور بے نیازی سے اُترا۔ اس نے اپنے پورے وجود کو پتھر کا ہوتے محسوس کیا۔
وہ جو کوئی بھی تھا۔ اسی کی طرح ارد گرد سے بے نیاز سر اونچا کئے بارش کے قطروں کو اپنے چہرے برگرتے محسوس کرکے مُسکرارہا تھا اور ٹیشا کو لگاکہ دنیا میں اگر دیکھے جانے لائق کوئی چیز ہے تو وہ یہی مسکراہٹ ہے۔
وہی منظر تھا، وہی سبزہ تھا، وہی موسم تھااور وہی ہوائیں لیکن مرکزِ نگاہ اب ان میں سے کچھ بھی نہیں تھا۔ پہلے جیسے سارا منظر حسین تھا لیکن اب سب کچھ پسِ منظر میں جاچکا تھا اور پیش منظر میں جو تھا۔ اسے دیکھنے میں وہ ایسی کھوئی کہ اپنا کُھلا منہ بند کرنا بھی بھول گئی۔
اس نے زندگی میں بے شمار مرد دیکھے تھے لیکن بلاشبہ حقیقت میں اتنا وجیہہ مرد شاید پہلی بار دیکھ رہی تھی۔ اس نے دل ہی دل میں خود سے اعتراف کیا۔ابھی وہ گاڑی کے دوسری طرف کھڑا تھا اور اسے لگ رہا تھا کہ نامکمل دکھائی دیتے اس وجود سے زیادہ مکمل اور کچھ نہیں۔ اس کے باوجود اسے یقین تھا کہ جو اگر وہ چل پڑتا تو دنیا میں اس سے حسین سراپا اور کوئی نہ ہوتا اور جو اگر بیٹھ جاتا تو کائنات میں اس خوب صورتی کی مثال نہیں ملتی۔وہ ایسی ہی شخصیت کا مالک تھا۔ اسے دیکھ کر نوجوان لڑکیوں کی یہی حالت ہوتی تھی۔ وہ یونہی دھڑکنوں کو تھام لیا کرتا تھا۔ وہ یونہی سانسوں کو مدھم کردیتا تھا۔ اس نے پل بھر میں اپنے دل کی دنیا کو سنوارتے اور پھر بگڑتے دیکھا اس نے اسے دیکھا پھر اسے خود کی یاد آئی۔ اتنی تیزی سے اس کا مزاج پلٹا کہ وہ خود بھی حیران رہ گئی۔
ایک وہ ہے سورج کی پہلی کرن کی مانند تاب ناک اور ایک میںہوں۔ اماوس کی تاریکی میں راہ دیکھتی کوئی بھول بھٹکی روح، اس کی سوچ ادھوری رہ گئی۔ بوندوں کو اپنے چہرے پر گراتے اور لطف اندوز ہوتے اس نے ذرا گردن گھمائی تھی اور ستون کے ساتھ ایستادہ کسی مجسمے کو دیکھ کر خوش دلی سے مسکرادیا۔
وہ اپنے جادو سے واقف تھا لیکن ٹیشا واقف نہیں تھی۔ وہ اس جادو اس کے زیرِ اثر آچکی تھی۔
اس نے صرف مسکراہٹ پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اس کی طرف دیکھتے ہوئے دائیں ہاتھ ہلاکر وش بھی کیا۔
اسے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آیا۔ بے خیالی اور بے دھیانی سے حیرت اور بے یقینی بھری ایک مدہوم سی خوشی گلے ملنے جاہی رہی تھی کہ وہ ہوگیا جو دونوں میں سے کسی کے گمان میں نہیں تھا۔ٹیشا نے اسے دیکھتے ہوئے بے دھیانی میں اپنا پیر آگے بڑھایا اور ماربل کی گیلی سیڑھیوں نے بے مروتی دکھاتے ہوئے اسے سہارا دینے سے انکار کردیا۔
پل بھر میں وہ چار سیڑھیاں نیچے آرہی۔
”اوووف!”
اس نے بے ساختہ، چیخ کا گلا گھونٹ دیا لیکن کراہ کو نہ روک سکی۔دائیں پیر میں درد کی شدید لہر اٹھی۔اس کے جبڑے بھنچ گئے۔ شدتِ تکلیف سے آنکھیں بھر آئیں۔
”یا اللہ۔”





اتنے بڑے گھر میں فوری طور پر اس کی مدد کو آنے والا کوئی بھی نہیں تھا۔ اس نے کرب سے آنکھیں بند کرلیں۔چند منٹوں پہلے دل و دماغ پر حاوی ہونے والے سارے خیالات اس یونانی دیوتا سمیت کہیں اڑن چھو ہوگئے۔ اپنی بے بسی کے ساتھ ہی بے کسی کا احساس سوا ہوگیا۔
اس نے بے حد کو فت ا ورکرب میں گھر کر آنکھیں کھولیں اور پھر اس کی آنکھیں کُھلی کی کُھلی رہ گئیں۔
مردانہ وجاہت کا بولتا مجسمہ قدم قدم چلتا بالکل اس کے نزدیک آچکا تھا۔
اس کا درد، اس کی اذیت راحت میں ڈھلنے لگی۔ اسے اتنی اچانک اتنے نزدیک دیکھ کر وہ اپنی تکلیف بھولنے لگی۔
”کیا ہوا؟ گرگئیں۔”
اس کا انداز ہمدردانہ نہیں لیکن کچھ شرارتی سا تھا۔
”یقینا دھیان کہیں اور ہوگا۔”
پنجوں کے بل قریب بیٹھ کر اس نے دھیمے لہجے میں خود کلامی سی کی۔
ٹیشا کے نتھنوں سے اتنی دل فریب مہک ٹکرائی کہ اس نے بے اختیار ایک گہری سانس بھر کے، صورت حال سے قطع نظر اس خوشبو کو خود میں فی الفور جذب کرلیا۔
‘اوہو…. یہ تو موچ آگئی ہے۔ دیکھیں کتنی تیزی سے سوجن بڑھ رہی ہے۔”
اس کی نظریں جُھک کر پیروں پرگئیں تو پھر اوپر نہیں اٹھ سکیں۔ اسے معلوم تھا وہ صرف پیر کا جائزہ نہیں لے رہا تھا بلکہ اس کی نظریں اس کے پورے جسم کا جائزہ لے رہی تھیں۔
”آپ…. آپ پلیز اندر سے شاکرہ یا کسی اور کو بلادیں… میں خود سے چل نہیں سکتی۔”
وہ چونکا، بھنویں اُچکائیں اور کھڑا ہو گیا۔ اس کا جملہ اس کی توقعات کے بالکل برعکس تھا۔ وہ اس کے سہارے کی منتظر نہ تھی۔ وہ تو شاید اس کی توجہ کی بھی طلب گار نہیں تھی، بلکہ ایسے نظریں چرائے بیٹھی تھی جیسے کوئی غلط چیز دیکھ لی ہو۔ اس نے نگاہوں میں چند لمحے اس کے سراپے کو تولا۔ گہری اور عمیق نگاہیں خاص حساس نظریں، جو کسی مرد کے چہرے پر عورت کو دیکھتے ہوئے زندہ ہوجاتی ہیں۔
وہ سر جھکائے تکلیف سے لبوں کو دانتوں میں دبائے بیٹھی تھیں۔ آنکھیں میچے، سمٹی، سہمی، ہرنی سی….
”اوکے۔” اس نے سر ہلاکر والٹ نکالا۔
”میں بھیجتا ہوں کسی کو۔ آپ یہ رکھ لیں۔ بینڈیج کروالیجیے گا۔” گھر کے ملازمین میں کسی نئے کا اضافہ اس کے علم میں نہیں تھا لیکن وہ اپنے حلیے سے مالکوں میں سے بھی دکھائی نہیں دیتی تھی۔
گھسے ہوئے کپڑے، بکھرے بال، جوتا نہ دارد….
”کیا ہے اس میں جو میں رُک کر ادھر چلا آیا۔”
ہزار کے ایک نوٹ کے درمیان اپنا کارڈ پھنسا کر اس نے اس کی مٹھی میں زبردستی ٹھونس دیا۔ اور یہی ایک بات سوچتا ہوا واپس پلٹ گیا۔ وہ نہیں جانتا تھا۔وہ کوئی شرم و حیا کاپیکر نہیں تھی، جو شرمائی لجائی بیٹھی تھی۔ وہ اس کے سفید کھڑکھڑاتے شلوار قمیض سے نکلتی روشنی سے گھبراگئی تھی کیوں کہ وہ روشنی اس کی آنکھیں چندھیارہی تھی اور آنکھیں چندھیانے کا نتیجہ وہ دیکھ چکی تھی۔ اس کے اندر اتنا جگرا نہیں تھا کہ تبسم راؤ کے ہوتے ہوئے کوئی اور دردِ سر پاتی… اس کا ایک مہنگا خواب اسے خوار کروارہا تھا۔ اسے مزید خواری کا شوق نہیں تھا۔
وہ کیچڑ اور مٹی کی ان ننھی ننھی چھینٹوں کو دانستہ یاد کرنے لگی جنہوں نے اس کے بے داغ کپڑوں میں نظر کے ٹیکے لگائے تھے۔
اس کے چلے جانے کا یقین کرکے آنکھیں کھولیں تو وہ واقعی اکیلی تھی۔ اس نے گیلے نوٹ کو کارڈ سمیت گریبان میں اڑس لیا کیوں کہ… جس کی قسمت میں خواری لکھی ہو، وہ پیر پر کلہاڑی نہ لگے تو کلہاڑی پر پیر دے مارتا ہے۔ طے ہے۔
******





اس نے زندگی میں پہلی بار اپنے بڑھے ہوئے ہاتھ کو خالی واپس لوٹتے ہوئے دیکھا تھا۔
”کون تھی وہ۔”
سوال تین لفظی جملہ نہیں تھا۔ تین پتھر تھے جو اس کی مردانہ انا پر ہر بار آکر ٹھیک نشانے پر جالگتے اور ہر بار چوٹ پڑنے پر وہ تکلیف سے بلبلاتا نہیں تھا لیکن چونک ضرور جاتا تھا۔اگر اطمینان سے بیٹھا ہوتا تو بے چین ہوجاتا۔ اگر لیٹا ہوا ہوتا تو کروٹ بدل لیتا اور اگر کھڑا ہوا ہوتا تو چل پڑتا اور چلتے چلتے رک جاتا۔اس نے ہمیشہ توجہ جیتی تھی پروانہ وارنثار ہوتی ہوئی لڑکیاں ہی دیکھی تھیں۔ صرف لڑکیاں نہیں، بڑی عمر کی آنٹی ٹائپ خواتین بھی اس کی ایک نظرِ کرم کی محتاج رہتی تھیں۔
اس نے دیکھا ہی نہیں تھا کہ کوئی نظر انداز کرے تو کیا ہوتا ہے؟ اسے پتا ہی نہیں تھا کہ خود پر سے توجہ ہٹتی ہے تو کیسا لگتا ہے؟ وہ جانتا ہی نہیں تھا کہ پس منظر بن جانا کسے کہتے ہیں؟
تبسم بھی بے شک اس کے منہ پر کبھی اقرار نہیں کرتی تھی لیکن جس طرح ہر موقع پر اسے اپنے پہلو میں دیکھنا چاہتی تھی، اس کا کیا مطلب تھا یہ سب کو اچھی طرح پتا ہی تھا۔ اب ایسے میں ایک بہ ظاہر عام اور معمولی سی لڑکی کے اس کے سامنے ہوکر نظر جھکالینا اس کے ملبوس سے اٹھتی مدہوش کن مہک میں اپنے حواس قابو میں رکھنا اس کے لیے کسی چیلنج سے کم نہیں تھا۔
اس لڑکی نے جیسے اس کی انا اور وقار کو للکارا تھا۔ ایک ہزار ایک لڑکیاں اس کی نظرِ کرم کی منتظر رہتی تھیں، اس کی مسکراہٹ پر فدا ہوجاتی تھیں اور اگر وہ خود سے محفل میں کسی کے پاس چلا جاتا تو گویا دنیا اس کے قدموں میں آجاتی۔ ایسے میں اس کے بڑھے ہوئے ہاتھ کو نظر انداز نہیں کیا تھا اس نے نظر انداز تو تب کرتی جب نظر اٹھا کر دیکھتی۔ اس نے گویا اُسے ایک نظر کے قابل بھی نہیں سمجھا تھا۔ کوئی چپکے چپکے اس کے اندر ہنستا تھا اور کوئی حیرت میں گھرا اس بھیگے وجود کو سوچے جاتا تھا جس کے نازک سراپے اور جھکی ہوئی آنکھوں میں اب بلا کی کشش محسوس ہونے لگی تھی۔
اور جب کسی چیز میں اتنی کشش اور محبتیں محسوس ہو تو انسان اسے دریافت کرنے پر مجبور ہو ہی جاتا ہے۔
تبسم سے لگائی گئی امیدیں اک اک کرکے دم توڑتی جارہی تھیں۔ پھر بھی وہ جانے کس آس، کس امید پر روز شاکرہ سے پوچھتی تھی کہ ٹی آر میم واپس لوٹیں یا نہیں۔
”پانچ دن کا تو چکر ہے ان کا ہوسکتا ہے ہفتہ بھر لگ جائے۔” پانچویں دن اس کی واپسی کی امید لے کر وہ بہ مشکل اپنے ورم زدہ پیر پر وزن ڈالتی باہر نکلی تو شاکرہ کے جواب نے اُسے بالکل مایوس کردیا۔





وہ گھر میں پڑی پڑی اکتانے لگی تھی۔ اسے گھر کے اندرونی کام کرنے کی اجازت نہیں تھی یہ پابندی بھی تبسم نے اس پر اپنی مہربانی ثابت کرنے کے لیے لگائی تھی لیکن پیر کی موچ نے ٹیشا کو بالکل بے زار کر ڈالا تھا۔ اسے شدت سے تبسم کی واپسی کے انتظار تھا تاکہ وہ اس سے کچھ مزید چیزیں سیکھنے کے لیے کہہ سکے۔ ان کے درمیان دوستی اور اصرار والا رشتہ تو بہرالحال نہیں تھا۔ مگر دوسری لڑکیوں کے برعکس وہ کسی حد تک اپنے دل کی بات اس کے کانوں تک پہنچا ہی دیتی تھی۔
موسم آج بھی ابر آلود تھا لیکن پہلے دن کی طرح آج اس خوب صورت سبزے میں بھی کوئی کشش محسوس نہیں ہورہی تھی۔
وہ بے زار سی ہوکر پلٹی تھی جب کسی نے اسے پکارا۔
اس نے پلٹ کر دیکھا، وہ تبسم کے سیلون کی سب سے ماہر اسٹائلنگ اینڈ برائیڈل ایکسپرٹ عشنا تھی۔
اسے منتشا کو دیکھ کر دلی خوشی ہوئی۔ ایسا لگا جیسے عرصے بعد کوئی اپنا نظر آیا ہے۔
وہ بھی مسکراتی ہوئی قریب آئی اور اس کی خیریت دریافت کرنے لگی۔ ٹھنڈے موسم اور ٹھنڈی ہواؤں میں اس کا وجود بے حد دلکش اور تروتازہ لگ رہا تھا۔ اسکن ٹائٹ ٹراؤزر کے ساتھ اس نے ایک بیگی اسٹائل کی شرٹ پہن رکھی تھی۔ بہ ظاہر وہ بڑے لاپرواسے حلیے میں تھی نہ میک اپ نہ کوئی جیولری لیکن اس قدر سادگی میں بھی اس کا حلیہ کسی کو بھی اپنی طرف متوجہ کرسکتا تھا۔
اس کی رنگت بے حد سفید تھی اور بال اسٹریکنگ کی وجہ سے اخروٹی سے ہورہے تھے جنہیں اس نے حال ہی میں نیا… سٹائل دے کر بالکل شارٹ کروالیا تھا۔ ماتھے پر گرے گھنے چھجے کے ساتھ پیچھے سے بالکل لڑکوں کی طرز کے بال اس کے چہرے پر بے حد سوٹ کررہے تھے۔ ٹیشا اس سے بات کرنے کے بجائے کتنی دیر اس کے چہرے کی طرف دیکھتی رہی۔
”کیا دیکھ رہی ہو۔” اس نے نوٹ کرلیا۔
”آپ بہت اچھی لگ رہی ہیں۔” اس نے سادگی سے اعتراف کرلیا۔
”اچھا ”وہ دھیرے سے ہنس دی۔
”یہ نیا ہئیر اسٹائل…”
”خود کٹنگ کی ہے میم نے۔ ایکچوئیلی کسی کو دکھانے کے لیے کچھ سمجھ میں نہیں آیا تو میرے بال اُڑادیے۔”
دونوں بے ساختہ کھلکھلائیں۔
”میم آئیں گی کب؟” کب سے مچلتا سوال لبوں پر در آیا۔
”بس آج لاسٹ ڈے ہے تو کل تک آجائیں گی۔”
اس کا لہجہ اور انداز سرسری ہونے کے باوجود اسے چونکا گیا۔
”لاسٹ ڈے… کس چیز کا لاسٹ ڈے۔”
جواب میں منتشا نے جس قدر حیرت سے اسے دیکھا۔ اس کے ذہن کوئی الارم سا بج رہا تھا۔
”ڈونٹ یو نو… شہری ہمدانی کا برائیڈل ویک چل رہا تھا نا اسلام آباد میں۔ اسی کے لیے تو گئے تھے ہم سب….”اس کا منہ کھلا رہ گیا۔
گویا تبسم نے اسے ہوا تک نہیں لگنے دی اور خود اپنے اسٹاف کو سمیٹ کر کسی فیشن شو میں اپنی خدمات پیش کرنے چلی گئی۔
”آپ سب…. مطلب؟”
”مطلب میم اور ہم سب… آل موسٹ سارا ہی اسٹاف تھا۔تمہیں کسی نے نہیں بتایا۔” وہ خود بھی بھانپ گئی تھی کہ ٹیشا لاعلم تھی اور اس کی لاعلمی نے اسے دکھ پہنچایا ہے اسی لیے سوال کرکے بھی وہ جواب کے لیے رکی نہیں۔
”ٹوٹل فائیو ڈیز کا پلان تھا۔ میم کے علاوہ تین اور ایکسپرٹس Booked تھے اپنے اپنے اسٹائلسٹ کے ساتھ۔ آج لاسٹ ڈے تھا۔ آج میری بکنگ ہے یہاں انگیجمنٹ برائیڈ کے لیے۔ اسی لیے میں جلدی آگئی۔ اب جاکر دیکھوں کیا حال ہے۔ سب سامان وغیرہ ہے کہ نہیں۔ باقی سیلون تو کل سے ہی کھلے گا۔”
وہ ٹیشا کے چہرہ دیکھ کر بے ساختہ تفصیل بتاتی چلی گئی۔





اس کا چہرہ دھواں دھواں ہورہاتھا۔ آہستہ آہستہ منتشا کی آواز دھیمی ہوتے ہوئے بالکل غائب ہی ہوگئی۔ وہ اب کیا کہہ رہی تھی اسے کچھ پتہ نہیں چل رہا تھا۔ پھر بات ختم کرکے اس نے جینز کی پاکٹ میں ہاتھ ڈالا اور اپنا اسمارٹ فون نکال کر کچھ دیکھنے لگی۔
چند لمحوں بعد اس نے ایک ویڈیو آن کرکے اس کی آنکھوں کے سامنے کردی۔
******
خود سے اور حالات سے سمجھوتا کرنااس کی عادت کے عین خلاف تھا لیکن زندگی جتنی باقاعدہ اور بے شکن دکھائی دیتی ہے، درحقیقت یہ اتنی ہی بدصورت اور بے رحم ہے۔ یہ بدسلیقہ بھی ہے اور بے مروت بھی۔ صرف عادت کیا انسان زندگی کے ہاتھوں مجبور ہوکر خلافِ فطرت کام کرجاتا ہے اور کبھی کبھی اسے اندازہ تک نہیں ہوتا۔ یہی حال اس کا ہوگیا جب ایک روز بالکل اچانک اس کی زندگی میں ایک ایسے شخص کی آمد ہوئی جس کے بارے میں گمان کی آخری انتہا تک جاکر بھی نہیں سوچ سکتی تھی۔
گرمیوں کے عروج پر تبسم نے اپنے سب ایمپلائز کو نئے کپڑوں اور ایکسیسیریز کے لیے اضافی رقم دی تھی۔ یہ ایک لحاظ سے ورکز کی پرفارمنس کو امپروو کرنے کے لیے سالانہ بونس بھی ہوتا تھا اور ورکز کا کمیشن بھی۔ ہر سال سردیوں اور گرمیوں کے آغاز میں سیلون کے پورے اسٹاف کو تبسم کی طرف سے اس مہربانی کا شدت سے انتظار رہتا تھا۔
اپنے ساتھیوں کا جوش و خروش دیکھ کر وہ بھی انتظار کرنے لگی لیکن اسے یہ دیکھ کر سخت مایوسی ہوئی کہ اسے دی جانے والی رقم دوسری لڑکیوں کے مقابلے میں بے حد کم تھی۔
”یہ روپے میں نے کسی کو تحفے میں نہیں دیے ہیں، یہ معاوضہ ہے ہر ورکر کا اس کی محنت کے لحاظ سے تم بھی محنت کرو تمہیں بھی زیادہ مل جائیں گے۔”
اور زندگی میں پہلی بار اس نے اپنی بحث کے لیے کھلتی زبان کو بند کرلیا۔
وہ تبسم کا مزاج اور اس کے ارادے جان چکی تھی اس لیے اس سے بحث کرکے خود کو کسی مشکل میں نہیں ڈالنا چاہتی تھی۔
شاپنگ کے لیے اس نے اکیلے جانے کو ترجیح دی حالاں کہ دوسری لڑکیاں ایک دوسرے کے ساتھ مل کر پلان کررہی تھیں لیکن وہ نہیں چاہتی تھی کہ اس کی کم حیثیت کسی پر ظاہر ہو۔ تبسم کی دی گئی رقم میں اس نے کچھ بچے کھچے نوٹ اپنی آخری رقم میں سے ملائے۔ اب اس کے پاس اپنے جمع شدہ پیسے بالکل نہ ہونے کے برابر تھے۔
اس نے دل ہی دل میں جیز کی شکل پر ایک بار پھر لعنت بھیجی اور سائیڈ ٹیبل کی سب سے نچلی دراز کے اندر ہاتھ ڈالا۔ دراز کے بالکل آخر میں داہنی طرف ایک نوٹ تہہ میں لپٹا ہوا پڑا تھا مگر وہ نوٹ اکیلا نہیں تھا اس کے ساتھ ایک وزٹنگ کارڈ بھی تھا۔
ہمیشہ کی طرح اس کارڈ کو دیکھ کر وہ باقی سارے کام بھول کر کسی سوچ میں گم ہوگئی۔
******
”منی!!”
حیرت بھری اس چیخ کو سن کر وہ بھی اتنی ہی زور کا کرنٹ کھاکر پلٹی جتنی زور کا جھٹکا اسے پکارنے والی کو لگا تھا۔
وہ صدف تھی، نظام الدین کے گھر کے داہنی طرف رہنے والی پڑوسن۔
”منی تو… تو یہاں کیا کررہی ہے۔”
سیاہ رنگ کے سلور نگینوں سے چمکتے نئے نکور برقعے اور شوخ میک اپ میں وہ یقینا شادی شدہ ہوچکی تھی۔اس نے سر جھکاکر ایک گہری سانس لی مگر یہ فیصلہ کن نہیں ایک تھکی ہاری سانس تھی۔ دن اپنی ساعتوں کی مزدوری ڈھوکر شام کی آغوش میں گرنے والا تھا مگر تپش بہرالحال فضا میں موجود تھی۔
”تونے اچھا نہیں کیا منی۔ کیا ملا تجھے گھر سے بھاگ کر۔”
وہ جانتی تھی وہ یہی سب کہنے والی تھی لیکن وہ یہ نہیں جانتی تھی کہ وہ جانی بوجھی باتیں سننے یہاں کیوں آکر بیٹھی تھی۔
”گھر میں سب کیسے ہیں۔”
اس نے جذبات سے عاری سپاٹ لہجے میں پوچھا تھا وہ یہ بھی نہیں جانتی تھی کہ اس نے یہ سوال کیوں کیا۔
”اب تو بہت اچھے ہیں پر تب نہیں تھے جب تونے وہاں آگ لگائی تھی۔”
”میں نے….’ وہ چونک اٹھی۔
”تم سے کس نے کہا کہ وہ آگ میں نے لگائی تھی۔”
اس نے سامنے پڑے آئس کریم کپ میں سے ایک چمچ بھی نہیں لیا تھا۔
”اور نہیں تو کیا یہ بھی کوئی کسی کے کہنے کی بات ہے۔” صدف البتہ خوب انصاف کررہی تھی۔ اس کا کپ خالی ہوچکا تھا اس نے دوسرا منگوالیا وہ بہ غور اس کی شاہ خرچی دیکھنے لگی۔
”لوگ اتنے بے وقوف نہیں ہوتے جتنا تونے سمجھا۔” وہ مسلسل ملامتی نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی۔
”یاور نے شادی سے انکار کردیا تھا کنول سے۔”
”اچھا۔” اسے پہلی بار کسی بات میں دل چسپی محسوس ہوئی۔




Loading

Read Previous

باغی — قسط نمبر ۴ — شاذیہ خان

Read Next

گلّو اور لومڑ

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!