تو کیا ہوا —– فرحین اظفر

اسی طرح وہ یہ جانتی تھی کہ چڑیا کو دانا تو نظر آگیا ہے اور وہ اُسے چگنے کے لیے بے قرار بھی ہے۔ اب دیکھنا یہ تھا کہ وہ اپنے آپ کو دوسری زنجیروں سے کب آزاد کرواتی ہے۔
اس نے جس طرح تبسم کی نظروں میں آنے کے لیے اس کا موبائل خواہ مخواہ میں اٹھایا اور پھر بیوقوفوں کی طرح اسے واپس کرنے چلی آئی۔ اس کے خیال میں یہ صرف اس کی اپنی نظروں میں بہترین حکمت عملی ہوسکتی تھی لیکن اس نے ایسا کرکے تبسم کی نظروں میں اپنے آپ کو کس درجہ احمق ثابت کیا ہے یہ وہ کبھی نہیں جان سکتی تھی۔
تبسم تو اس کی حرکت پر فوراً ہی بھانپ گئی تھی کہ وہ تبسم سے کیا چاہتی ہے اور کیوں لیکن وہ نہیں جان سکتی تھی کہ تبسم نے پہلی اور اس قدر سرسری ملاقات میں اسے ہاسٹل ڈراپ کرنے کی آفر کیوں کی تھی۔ اور تبسم اس سے کیا چاہتی تھی اور کیوں؟
******





کمرے میں گہری خاموشی تھی۔ رات گہری ہورہی تھی۔ فضا بھیگ رہی تھی۔ جیز نے چائے کا گھونٹ بھرنے سے پہلے اٹھ کر کمرے میں گیس کا ہیٹر آن کردیا۔ اس نے چونک کر کمرے میں اس نئی آسائش کے اضافے کو بہ غور دیکھا۔
”واؤ ہیٹر…. کب خریدا۔”
”ایک دوست نے دیا ہے گفٹ۔” جیز کی آواز سنجیدہ اور دھیمی تھی۔
”کس نے طیفی نے۔”اس نے بڑے مزے سے پوچھا تھا۔ جیز رُک سی گئی پھر نفی میں سر ہلادیا۔
”اوہ ہاں میں تو بھول ہی گئی۔ وہ کم بخت تو کام کا معاوضہ نہیں دیتا تو، بھلا گفٹ کیا دے گا کسی کو۔”
باہر برآمدے میں آمد و رفت کی آوازیں معدوم ہوگئی تھیں۔ ساری لڑکیاں سونے چلی گئی تھیں شاید۔
”تم ….. وارڈن سے میرے لیے بات کروگی نا۔”
جیز کا دل چاہا کہ فی الفور انکار کردے لیکن… اس نے اثبات میں سرہلادیا۔
”خرچے کی فکر مت کرنا۔ میرے پاس پیسے ہیں۔”
اس کا انداز جس قدر بے فکر تھا۔ جیز کے پیٹ میں اسی قدر مڑوڑ اٹھ رہے تھے۔
”ویسے بھی میں نے فیصلہ کیا ہے کہ میں طیفی کی آفر کو قبول کرلوں گی۔”
اس نے یہ کہتے ہوئے بہ غور جیز کو دیکھا۔ جس نے چائے کا کپ واپس میز پر رکھ دیا تھا۔ اس کے چہرے پر شدید بے چینی تھی۔
وہ چاہتی بھی یہی تھی کہ جیز اپنے منہ سے بول دے کہ وہ اس کے ساتھ کیا دھوکا کرچکی ہے۔ لیکن یہ اتنا آسان نہیں تھا۔ وہ بولی ضرور لیکن صرف اتنا کہ….
”طیفی اب شاید تمہیں کام نہ دے۔”
”اچھا لیکن کیوں۔”
”وہ …. بس تم…” اس سے بات بنائی نہیں جارہی تھی۔
اس نے پہلی بار جیز کی بولتی کسی کے سامنے بند ہوتے دیکھی تھی۔ اسے لطف آنے لگا۔
”تم اس قدر اچانک غائب ہوگئی تھیں او رپھر، میرے پاس بھی کوئی info نہیں تھی۔ اس بات کو وہ لوگ زیادہ پسند نہیں کرتے۔”
”اچھا… چلو پھر ٹھیک ہے۔ میں کوئی او رکام کرلوں گی۔”
اس نے دانستہ بات بدل دی… جیز کے چہرے کے اُڑے ہوئے رنگ واپس آنے لگے۔
”لیکن میں اس سے ایک بار پوچھوں گی ضرور….”
”کیا۔” جیز کا ہاتھ مگ اٹھاتے ہوئے اک بار پھر رُکا۔ اس نے زندگی میں کبھی اس طرح کی چائے نہیں پی تھی۔ جس کا گھونٹ گھونٹ حلق سے اُترتے ہوئے پھنستا تھا۔
”کہ اگر کام نہیں دینا تھا تو میرا فون ریسیو کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی۔”
جیز کو سانپ سونگھ گیا جب کہ وہ بڑے اطمینان سے بیڈ کی چادر کے ڈیزائن پر انگلی پھیر رہی تھی۔
”تم نے اسے فون کیا تھا۔”
اس کے حلق سے پھنسی پھنسی آواز نکلی۔ جانے کتنی دیر کے بعد… اس نے اثبات میں سر ہلایا۔ جیز کے ہاتھ پاؤں ٹھنڈے ہونے لگے۔
”اس نے مجھے بتایا کہ تم نے میرے نام پر اس سے دھوکا کیا اور میرے کام کرنے وعدہ پر ہزاروں روپے بھی لیے… یہی نہیں۔ وہ جو میری فوٹو گرافس لے رہا تھا۔ اس قدر رف اور فری اسٹائل میں نہ کوئی اسپائنگ، نہ کوئی آؤٹ فٹ، نہ میک اوور، لائٹس تک کی زحمت نہیں کی تھی اس نے۔ وہ تصویریں دراصل کس مقصد کے لیے لے رہا یہ تم بھی جانتی تھیں اور تم نے اس کا بھی معاوضہ وصول کیا تھا اس سے اور پھر مجھ سے جھوٹ بول دیا کہ اس طرح کے کام کے کوئی پیسے نہیں ملتے۔”
اس کی آواز بے حد ملائم اور سنجیدہ تھی لیکن جیز کو وہ اس وقت دنیا کی سخت ترین آواز لگی۔
”یا اللہ۔” کیسے آسمان سے بلا کی طرح وہ سر پر نازل ہوگئی تھی۔
جیز نے خود کو سخت بے بس محسوس کیا۔





اس کا سر جھک گیا کوئی بات نہیں بن پڑی۔ اس نے خود کو زندگی میں پہلی بار اس قدر بے بس محسوس کیا پھر اس سے پہلے کہ وہ کچھ بولتی۔ اس کی اونچی ہنسی نے اسے ہڑ بڑادیا۔
وہ ہنس پڑی تھی۔ زور سے جیسے بے قابو ہوکر۔
‘کیا ہوا… ڈرگئیں پھر سے ارے تمہارا چہرا کیوں اُتر گیا۔ بھئی میں تو مذاق کررہی تھی۔”
اس نے دونوں ہاتھ اُٹھاکر کہا۔ جیز کی ہونق شکل پر ایک پھیکی ہنسی ابھرتے بھی کئی لمحے لگ گئے۔
اس نے زبردستی ہونٹ پھیلانے کی نا تمام کوشش کی…
”تو… تم نے… اسے فون نہیں کیا؟”
”نہیں کیا بابا۔ میں کیوں کروں گی اسے فون۔ اس کی وجہ سے تو میں ان حالات کو پہنچی ہوں۔ اپنے آپ کو خوار کرنے والے کو میں کیوں فون کرتی پھروں… لیکن۔”
اس نے بے پروائی سے کہتے کہتے اس پر اپنی نظریں گاڑدیں۔
”تم اتنی پریشان کیوں ہوگئیں۔ کوئی… گڑ بڑ والی بات تو نہیں ہے نا۔”
”نہیں نہیں۔” جیز نے زبردستی خود کو بشاش ظاہر کرنے کی کوشش کی اور اس کوشش میں کچھ اور ہونق نظر آنے لگی۔
”بھلا گڑ بڑ کیا ہوگی بس میں…” اس نے رُک کر گلا کھنکھارا…
”میں تو کہوں گی کہ اب اسے فون کرنے کی ضرورت بھی نہیں۔”
”کیوں؟” معصومیت ٹیشا پر ختم تھی۔
”وہ ٹھیک بندہ نہیں ہے۔ دیکھو نا اب، ہمارے ساتھ اس کے جو بھی معاملات تھے۔ اسے تمہارے ساتھ اس طرح نہیں کرنا چاہیے تھا نا!۔ اس کی وجہ سے تمہارا گھر چھوٹا اور تمہاری بہن بھی… بے چاری چچ چچ…”
”میرا گھر اس کی وجہ سے نہیں چھوٹا میری وجہ سے چھوٹا ہے۔ وہ گھر، وہ ماحول اور وہ لوگ۔ مجھے وہ سب چھوڑنا ہی تھا، جو میری منزل کے حصول کی راہ میں رکاوٹ بن رہا تھا۔ اب کے وہ سنجیدہ تھی۔ اسے ہاسٹل پہنچے گھنٹہ بھر سے اوپر ہوچکا تھا۔ وہ جیز کو کافی پریشان کرچکی تھی اور اس کی پریشانی سے مزہ بھی اُٹھا چکی تھی۔ ایسے میں لمحہ لمحہ اس کا خود پر اعتماد بڑھتا ہی جارہا تھا۔ اس کی گفت گو میں ایک عجیب ڈرامائی قسم کی سنجیدگی، طنز اور شوخی بھرتی جارہی تھی۔ وہ پل میں تولہ اور پل میں ماشہ کے مصداق کبھی سنجیدہ ہوکر جیز کو دیکھتی کبھی اس کی گھبراہٹ کا لطف لیتے ہوئے ہنس پڑتی۔
”خیر چھوڑونا جو چھوٹ گیا سو چھوٹ گیا پر جو ابھی ملنا ہے آؤ اس کی باتیں کریں… مجھے کچھ دن تمہارے ہاسٹل میں تمہارے ساتھ رہنے کی اجازت مل جائے گی نا۔”
اس رات وہ صرف بولنے کے موڈ میں تھی۔ کچھ سننے کے نہیں اور سونے کے تو بالکل بھی نہیں۔ دوسری طرف جیز بے حد پریشان کُن سنجیدگی سے سوچ رہی تھی کہ یہ رات آخر کب گزرے گی۔ اس کا ذہن طیفی سے اگلی خُفیہ ملاقات کے تانے بن رہا تھا۔
******





وہ سمجھتی تھی کہ اس نے جیز کے سامنے اس کی پول پٹی کھولنے کے بعد اسے مذاق کی شکل دے کر بڑی عقلمندی کا کام کیا ہے لیکن سب سے بڑا بیوقوف وہی ہوتا ہے، جو صرف خود کو عقلمند سمجھتاہے۔ وہ بھی شاید ان ہی بیوقوفوں میں سے ایک تھی۔
اگلے دن جیز اسے جگائے بغیر اپنے ایک ہاسٹل میٹ کے ساتھ کہیں جانے کے لیے بڑی نک سک سے تیار تھی۔
اس کی آنکھ کھلی تو وہ دونوں بس کمرے سے نکل ہی رہی تھیں۔ اس نے ہمیشہ کی طرح بہ غور اس کی تیاری اور اس کی دوست کی گھبراہٹ محسوس کی۔ غالباً اسے ہدایت دی گئی ہوگی کہ ہمیں ٹیشا کی نظروں میں آئے بغیر نکلنا ہے۔ جبھی جیز کے کچھ کہنے سے پہلے ہی وہ بول پڑی۔
”ہم شاپنگ کے لیے جارہے ہیں۔ ابھی کچھ دیر میں آجائیں گے۔ تم سوجاؤ آرام سے۔”
ٹیشا نے مندی مندی آنکھوں سے دس بجاتی گھڑی کو دیکھا اور جیز کا دل چاہا کہ اپنی دوست کو ایک تھپڑ رسید کردے۔
”مجھے کالج بھی جانا ہے۔ نئے داخلوں کے فارمز آگئے ہیں۔ اس کے بعد کچھ شاپنگ کرکے ہم واپس آجائیں گے۔” اب کی بار اس نے سنجیدگی اور روانی سے اسے اپنے پروگرام سے مطلع کیا۔
”اوکے… مگر جلدی آنا۔ مجھے شام میں کہیں جانا ہے تمہارے ساتھ۔”
”کہاں۔” جیز برُی طرح چونک گئی۔ کہیں اس کے دل میں دوبارہ طیفی سے ملنے کا خیال تو نہیں آگیا۔
”وہ میں بتادوں گی بعد میں۔” اس نے جیز کی دوست کو جتاتی ہوئی نظروں سے دیکھا اور کمبل کے اندر گُھس گئی، جو کافی پرانا اور گھسا ہوا تھا۔ جیز نے وہ کمبل کسی سے مانگ کر لاکر دیاتھا۔ یہ احسان جتاتے ہوئے کہ اس نے رات میں کسی کی نیند خراب کرکے مانگا ہے۔ باقی کا سارا وقت ٹیشا کی اپنی نیند خراب رہی کیوں کہ کمبل میں کھٹملوں نے اُسے سونے نہ دیا۔
ان دونوں کے نکلنے اور یہ اطمینان کرلینے کے بعد کہ اب وہ لوگ ہاسٹل گیٹ کراس کرچکی ہوں گی وہ کسل مندی سے بستر سے نکل آئی۔
آتی ہوئی سردیوں کی لہر اس وقت ٹھنڈے کمرے میں بھی محسوس ہورہی تھی۔ اس نے بے حد بے زاری سے ٹھنڈے پانی کے چھپاکے منہ پر مارے اور جیز کی الماری کھول کر کھڑی ہوگئی۔ ادھر ادھر ہاتھ مارنے او رکافی تلاش، بسیار کے بعد بھی اسے اپنے مطلب کی کوئی چیز نہ ملی۔ لیکن یہ تو طے تھا کہ جیز نے آج کے بارے میں اس سے غلط بیانی کی ہے۔ وہ خود کتنی بھی بات چھپاتی لیکن اس کی دوست کی شکل سے ظاہر ہوتی گھبراہٹ سے سچ اور جھوٹ کی ساری پول پٹی کُھل رہی تھی۔الماری کے ایک خانے میں چند فیشن میگزین اور کچھ خاص ادویات پڑی تھیں۔ اس نے اٹھاکر ان کا نام پڑھا اور پھر نفی میں سر ہلاتے ہوئے واپس رکھ دی۔
”معلوم نہیں کیا کیا کرتی رہتی ہے۔ کن چکروں میں پڑی رہتی ہے۔” اس نے کراہیت آمیز منہ بنایا پھر سامنے لگی درازوں میں سے ایک کو کھولنے کی کوشش کی لیکن وہ لاکڈ تھی۔ جب کہ دوسری میں اس کا میک اپ کا سامان اور دوسری فضول چیزوں کی بھرمار تھی۔یہی حال بیڈ کی سائیڈ ٹیبلز کا بھی تھا۔ کالج بیگ ایک کونے میں پڑا اس کی توجہ کا منتظر تھا۔ جس کی طرف اس نے دیکھنا بھی گوارا نہ کیا تھا۔





اسی وقت دروازے پر دستک ہوئی۔ اس نے اُٹھ کر دروازہ کھولا۔
”اگر تم برُانہ مانو تو میرا بلینکٹ واپس کردو۔ جیز نے کہا تھا کہ تم آج واپس چلی جاؤگی۔”
”اوہ جیز نے ایسا کہا…. خیر تم اپناکمبل بہ خوشی لے جاسکتی ہو۔” اس نے ایک طرف ہوکر اسے راستہ دیا۔ وہ اندر آئی اور اس نے اپنا کمبل خود تہ کیا دروازہ بند کرکے ٹیشا اس کے پاس چلی آئی۔
”جیز مجھے بتارہی تھی کہ وہ تمہاری بہت اچھی دوست ہے۔ تم آج اس کے ساتھ نہیں گئیں۔”
وہ دھیرے سے ہنس دی۔
”مجھے شوق نہیں اس طرح کی چیزوں کا۔”
”کمال ہے۔ شاپنگ کا شوق کس کو نہیں ہوتا۔”’ اور سنو اس کمبل کو دھوپ لگا کر کبھی اس میں دوا وغیرہ بھی ڈال لیا کرو۔ پوری رات کھٹملوں نے کاٹ کاٹ کر سونا محال کردیا۔”
ایک طنزیہ مسکراہٹ لبوں پر سجاکر اس نے اپنا بازو کھجاتے ہوئے کہا۔
آنے والی لڑکی کے چہرے سے مسکراہٹ غائب ہوگئی۔
”میں نے اتنی سردی میں رات گزارنے کے لیے تمہیں کمبل دیا اور تم اتنی بے مروتی کا مظاہرہ کررہی ہو۔”
‘تو کیا ہوا؟ تم نہ دیتیں۔ کوئی اور دے دیتا اور میں برائی نہیں کررہی بلکہ سچ کہہ رہی ہوں تاکہ تم اس کمبل سے غلاظت نکال پھینکو۔
اب کی بار وہ لڑکی چُپ رہی اور تہ شدہ کمبل کندھے پر ڈال کر سیدھی ہوئی تو اس کے چہرے پر ناراضی تھی۔
”ویسے میری بات کا برُا مت ماننا۔ مجھے نہیں لگتا کہ جیز تمہیں اپنی فرینڈ سمجھتی ہے۔ اس نے مجھے بتائے بغیر اکیلے ہی شاپنگ کا پروگرام بنالیا لیکن کم از کم تم سے تو جھوٹ نہیں بولنا چاہیے تھا۔”
اس نے جان کر اس لڑکی کو اُکسایا تھا اور اب وہ واقعی چڑگئی۔
”جھوٹ اس نے مجھ سے نہیں تم سے بولا ہے۔ وہ لوگ شاپنگ کرنے نہیں آڈیشن دینے گئی ہیں۔ وجاہت مرزا کی نئی ونٹر کلیکشن کا شو ہے۔”
”ہیں…. واقعی!”
خبر یقینا بہت جھٹکے دار تھی لیکن وہ اندر سے جتنی زیادہ چونک گئی تھی۔ باہر سے اس سے کہیں زیادہ حیرانی ہوئی تھی۔
”لو تمہیں نہیں پتالاہور میں ہے۔ اس مہینے کے آخر میں ملک کی سب سے بڑی ایڈورٹائزنگ کمپنی نے لانچ کروایا ہے۔ ٹوٹلی اسپانسر کررہے ہیں۔ ماڈلز کو پے بھی وہی کریں گے۔” اسے بھی اپنی اہمیت جھاڑنے کا موقع ملا تھا۔
”اوہ…. اس کا مطلب ہے جیز کی تو لاٹری لگ گئی۔”
”اونہہ….. جیز کو کون پوچھے گا۔ میڈیا ہاؤسز کے پاس ایک سے ایک ماڈل موجود ہے۔ خوب صورت، مہنگی اور ہائی اسٹینڈر والی اور جیز نے تو مجھے بتایا تھا کہ تم بھی ماڈلنگ کا شوق رکھتی ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ اس نے تمہیں ہوا بھی نہیں لگائی اور اکیلی ہی نکل گئی۔”
ٹیشا کا منہ حقیقتاً لٹک گیا۔ لڑکی کمرے سے باہر چلی گئی یقینا اس نے اپنی کمبل کی بے عزتی کا بدلہ لے لیا تھا اور ثابت کردیا تھا کہ جیز واقعی کسی کی دوست نہیں تھی۔
‘تو کیا ہوا میں کون سا کسی کی دوست ہوں۔”
اس نے ہمیشہ کی طرح بات کو چٹکیوں میں اُڑایا اور باہر کی طرف چل دی۔ اس کا اگلا ہدف اب ہاسٹل کی وارڈن تھی۔ جس کے ساتھ اسے سیٹنگ کرنی تھی۔ اس نے اس لڑکی کی بات کو بے شک چٹکیوں میں اُڑادیا تھا۔ لیکن اب وہ جیز کے جھوٹ کو بخشنے والی نہیں تھی، جو اس نے دوسری بار بولا تھا۔ ابھی تو اس نے طیفی والے دھوکے کا حساب چکتا نہیں کیا تھا کہ اک نیا گوشوارہ کھل گیا۔
******





وارڈن کو رام کرنا بے حد آسان تھا۔ چند نیلے نوٹوں کی جھلک اسے اس کی مرضی کا بیان دینے پر راضی کرگئی تھی۔
اسے ٹیشا کو اس ہاسٹل میں رہنے کی اجازت نہیں دینی تھی اور جیز کو صاف انکار کرنا تھا۔ ٹیشا نے وارڈن کے آگے خود ایک بے ضرر اور معصوم لڑکی ظاہر کیا تھا۔ جس کو جیزکی حرکتوں پر سخت اعتراض تھا۔ جیز اسے ہاسٹل میں رہنے پر اصرار کررہی تھی۔ جب کہ وہ جیز کی سنگت چھوڑ کر اپنی کسی آنٹی کے پاس جانا چاہتی تھی۔
وارڈن کو بھلا کیا اعتراض ہوسکتا تھا یوں بھی ایک ایسی لڑکی، جو جیز کے کمرے میں راتوں رات اُگ آئی تھی۔ اسے ویسے ہی اُس کے بارے میں تحفظات تھے۔ اوپر سے اس کے پاس آمدنی کا کوئی ذریعہ نہیں تھا ستم یہ کہ ذریعۂ معاش کے بغیر اس کے پاس ہزار پانچ سو کے کئی نوٹ مٹھی میں دبے تھے۔
وارڈن پرانے زمانے کی عورت تھی۔ اس نے بھی ایک دنیا دیکھی تھی۔ ٹیشا کی حرکت اور پھر آفر کرنے کے انداز سے اس نے اندازہ لگالیا تھا کہ وہ معصوم ہے، نہ بیوقوف اور نہ ہی پاک دامن…. جیز کی دوسری لڑکیاں جن میں کچھ محض وارڈن کو راضی رکھنے کے لیے اس کے خوشامدیوں میں شامل تھیں۔ اسے ہاسٹل میں رہنے والی ہر لڑکی کے بارے میں باخبر رکھتی تھیں۔ اُن ہی سے اس نے اُڑتی خبر سنی تھی کہ یہ نئی لڑکی جو اپنا نام ٹیشا بتاتی ہے گھر سے بھاگ کر جیز کے پاس آگئی ہے۔
ہاسٹل میں خاصی تعداد ورکنگ ویمن کے ساتھ ساتھ ان لڑکیوں اور عورتوں کی تھی جو اُلٹے سیدھے چکروں میں پڑ کر یا کسی مجبوری کے ہاتھوں بے بس ہوکر وہاں رہائش اختیار کیے ہوئے تھیں۔ وارڈن ان ہی مسائل میں اُلجھی ہوئی سخت مزاج عورت تھی۔ ایسے میں ایک بلا اگر خود سے اس کی جان چھوڑ کر جانا چاہتی تھی تو وہ، کون ہوتی تھی۔ اسے روکنے والی۔
اسے یہ بھی معلوم تھا کہ وہ رات چوری چھپے ہاسٹل میں…. ایمرجنسی سے نمٹنے کے لیے چھوٹے دروازوں میں سے ایک سے اندر داخل ہوئی تھی۔ یقینا چوکیدار اس میں شامل رہا ہوگا لیکن تازہ کڑک نوٹوں کی کی گرمی اور نرمی سے مغلوب ہوکر اس نے فی الفور دونوں کو معاف کردیا۔
جس وقت جیز کی واپسی ہوئی۔ شام ڈھلنے کے قریب تھی اور وہ اس کا انتظار کرتے کرتے پاگل سی ہونے لگی تھی۔
دن میں ایک بار اس نے تبسم کو بھی فون کھڑکادیا تھا اور اسے بھی تھوڑی سی ردو بدل کے ساتھ یہی کہانی سنائی تھی کہ اسے ٹھکانے کی تلاش ہے۔وہ جلد از جلد جیز کو چھوڑ کر آگے بڑھ جانا چاہتی تھی۔تبسم نے فوری طور پر اسے جواب دینے کے بہ جائے چند دن بعد اپنی رہائش گاہ پر بلایا تھا اور تسلی دی کہ وہ یقینا اتنے دن میں اس کے رہنے کے لیے کسی مناسب جگہ کا انتظام کردے گی۔ نا صرف یہ بلکہ جب تک کوئی اچھا چانس اس کے ہاتھ نہیں لگ جاتا، وہ اس کے لیے کسی ایسی چھوٹی موٹی نوکری کا بندوبست بھی کردے گی، جس سے اس کی دال روٹی چلتی رہے اس سے بات کرکے ٹیشا پر لحاظ سے مطمئن ہوگئی تھی۔
جو راستے وہ پیچھے چھوڑ آئی تھی۔ ان کی طرف مُڑکر دیکھنا اس کے لیے مرجانے کے مترادف ہوتا لیکن جو راستے اسے آگے طے کرنے تھے۔ اس کے لیے اسباب و سائل اسے خود ہی پیدا کرنے تھے اور تبسم بلاشبہ اس کو منزل تک پہنچانے کے لیے سنگِ میل کی سی حیثیت رکھتی تھی۔ وہ اس کے لیے آگے سمت جانے والے راستے کا ایسا دروازہ تھی۔ جس کے دوسری طرف کامیابیوں کی کہکشائیں اس کی منتظر تھیں لیکن آگے کی طرف قدم بڑھانے سے پہلے اسے سبق پڑھانا تھا۔ اس لڑکی کو، جو خود کو اس کا دوست کہتے ہوئے بھی اس کی پیٹھ میں خنجر گھونپنے کی تیاری کررہی تھی۔
اس کی پلاننگ میں کوئی جھول نہیں تھا۔ فقط جھوٹ ہی جھوٹ تھا اس کی تیاری مکمل تھی۔ اس نے چہرے اپنی مرضی کے مطابق سیٹ کرلیے تھے۔ اب صرف چال چلنے کی دیر تھی بالکل پہلے کی طرح۔ وہ ایک بار پھر ایک بازی کھیلنے جارہی تھی اور اپنی بہترین قبل از وقت تیار کردہ حکمت عملی کی وجہ سے اسے یقین تھا کہ جیت اسی کے حصّے میں آنے والی تھی۔
******





اس کے بعد دن ایک خاموش معاہدے کے تحت گزرنے لگے۔
نہ اس نے جیز سے کچھ پوچھا نہ جیز نے کوئی بات کی۔ درحقیقت وہ اس سے قدرے چوکنا ہوگئی تھی۔ اس نے ٹیشا کو جس قدر ہلکا لیا تھا وہ اتنی ہلکی تھی نہیں۔ اپنے افیئرز کے قصے، اپنی کمزوریاں، اپنے آمدنی اور کمائی کے ذریعے کالج میں اس سے ڈسکس کرتے وقت اسے اندازہ نہیں تھا کہ بہ ظاہر اس قدر کم عمر نظر آنے لڑکی اندر سے کتنی پختہ کار ہے۔ اسے کیا معلوم تھا کہ جس دوستی کو وہ صرف خود پر خرچ ہونے والے چند روپوں کی خاطر بڑھاوا دے رہی ہے۔ وہ اس طرح اس کے گلے پڑجائیں گے کہ اس کے ہاسٹل میں، اسی کے کمرے میں آن گھسے گی اور اس کے سر پر سوار ہوجائے گی۔وجاہت مرزا فیشن کی دنیا کا ایک معروف ڈیزائنر تھا۔ اس کے شو میں پرفارم کرنے کے چانس مل جانا اس کے لیے زندگی کی بڑی کامیابی تھی۔ یہی کامیابی ٹیشا بھی چاہتی تھی لیکن اس نے اسے بے خبر رکھا۔
مگر ٹیشا…. ٹیشا تھی… منتشا نظام الدین سے ٹیشا خان تک کے سفر میں اس نے کچھ پایا ہو یا نہ پایا ہو خود کو زک پہنچانے والے کو تباہ کرنے کی خوشی ضرور پائی تھی اور اب بھی وہی خوشی وہ جیز کو تباہ کرکے حاصل کرنے والی تھی۔ جبھی جیز کے چہرے پر چھلکنے والی خوشی کے رنگ بھانپ جانے کے باوجود اس نے جیز سے کچھ نہیں پوچھا نہ جیز نے کچھ بتایا۔ اسے معلوم تھا اگر جیز کی سلیکشن ہوگئی تو ایک ہی کمرے میں رہتے ہوئے اسے ٹیشا سے یہ بات چھپانی مشکل ہوگی۔ تب ٹیشا کو سب کچھ بتانا اس کی مجبوری بن جائے گا لیکن اسے اس بات کا زیادہ انتظار نہ کرنا پڑا۔
******
وہ اس وقت واش روم میں تھی۔ جب جیز اور اس کی دوست عالیہ جس کے ساتھ وہ آڈیشن کے لیے گئی تھی ہنستی کھلکھلاتی کمرے میں آئیں۔ اپنی خوشی میں وہ دونوں خصوصاً جیز کو فراموش کرگئیں کہ اگر کمرہ خالی ہے تو ٹیشا یقینا واش روم میں ہوگی۔
ان کی باتوں اور خوشی سے بھری آوازوں سے ٹیشا کو اندازہ لگانے میں قطعاً دیر نہیں لگی کہ جیز اور عالیہ کا سلیکشن ہوچکا ہے۔
وہ دونوں نیو ایئر نائٹ کے موقع پر منائی جانے والی کسی خاص پارٹی کا ذکر کررہی تھیں، جو شو اسپانسر کرنے والی ایڈورٹائزنگ کمپنی کے مالک عمر سلیم کے گھر میں رکھی گئی تھی۔جیز اور عالیہ کے ساتھ ساتھ خود ٹیشا بھی اچھی طرح جانتی تھی کہ یہ ان دونوں کے لیے کتنی بڑی کامیابی اور کتنا بڑا موقع تھا۔
جیز اور عالیہ اس پارٹی میں شرکت کرکے یقینا اپنے کانٹیکٹس بناسکتی تھیں۔ کامیابی ان کے قدم چومنے کو تیار تھی اور ٹیشا کے لیے اس کامیابی کو ہضم کرنا تو درکنار، اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنا بھی مشکل ہورہا تھا۔
وہ دم سادھے اس وقت تک واش روم میں بند رہی۔ جب تک وہ دونوں اپنی اس کامیابی کو دوسروں سے شیئر کرنے کمرے سے نہ نکل گئیں۔
ان کے باہر نکلتے ہی اس نے کمرے میں آکر سب طرف ایک طائرانہ نگاہ ڈالی جیز اس کی موجودگی سے بے خبر ضرور تھی لیکن بے ہوش نہیں۔ وہ جاتے ہوئے اپنا ہینڈ بیگ الماری میں رکھ کر لاک لگا گئی تھی۔
ٹیشا کے اندر الاؤ دہکنے لگا۔
اس نے انگلیوں پر حساب لگایا۔
”اوہ….”
نیوایئر پارٹی فقط دو دن کی دوری پر کھڑی تھی۔
اسے فوری طور پرسلیپنگ پلز کی ضرورت محسوس ہوئی اور اتنے بڑے ہاسٹل میں ایسی پلز کی دست یابی کوئی مشکل امر نہ تھا۔
******
رات آدھی سے زیادہ بیت چکی تھی اور نیند اس کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔
باہر ہلکی سی بوندا باندی نے سردی کی شدت میں کئی گنا اضافہ کردیا تھا لیکن کمرے کی فضا آرام دہ اور گرم تھی۔




Loading

Read Previous

باغی — قسط نمبر ۴ — شاذیہ خان

Read Next

گلّو اور لومڑ

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!