تو کیا ہوا —– فرحین اظفر

بیڈ کے نیچے سرہانے کی طرف، اسے آگے پیچھے اندر اور اندر….
وہ دیوانوں کی طرح ہاتھ مارنے لگی لیکن نیچے صرف دھول بھرے قالین کی کھردری تہ کے سوا اور کچھ نہ تھا۔
اسے سمجھنے میں دیر نہیں لگی کہ جیز نے اس کا لایا ہوا زیور اور اچھی خاصی بڑی نقد رقم چرالی ہے۔
چند لمحوں کے لیے تو اس کی آنکھوں کے آگے اندھیرا ہی چھاگیا۔ اس نے سر دونوں ہاتھوں میں گرالیا۔ حقیقتاً اسے آج ایسا لگ رہا تھا۔ جیسے کسی نے اس کا مال و اسباب جلاکر راکھ کردیا ہو۔
تھوڑی دیر یونہی سر پکڑنے کے بعد اس کے دل و دماغ میں اشتعال کی لہریں ٹھوکریں مارنے لگیں۔ اس نے بھوکی شیرنی کی سی نظروں سے سر اٹھا کر بستر پر آڑھی ترچھی پڑی جیز کو دیکھا۔
اس کا بس نہیں چلتا تھا کہ اپنے ناخنوں سے اس کا چہرہ کُھرچ ڈالے۔ لیکن یہی وہ وقت تھا جب اسے خود پر ضبط کرنا تھا اور حکمتِ عملی سے اسے اس کی اس ذلیل حرکت کا جواب دینا تھا۔
اس نے جیز کے بستر سے لے کر کالج بیگ اور پھرکلچ تک سب کھنگال ڈالا۔ پتا نہیں اس نے اپنی الماری کی چابی کہاں چھپائی تھی ایک دن پہلے جب اس نے اس کی تلاشی لی تھی تب تک اس کا زیور اور رقم اس میں نہیں تھی۔ اس کا مطلب تھا جیز نے آج ہی دن میں کسی وقت یہ کام دکھایا تھا۔
اس کے پاس یہ سوچنے کا ٹائم نہیں تھا کہ جیز نے کب اور کس وقت چوری کی۔ یہ سوچنا بھی فضول تھا کہ اس کی چیزیں اس کمرے سے چرُاکر اس نے اسی کمرے میں کہیں اور چُھپادی ہوں گی۔ وہ اس کے اندازوں سے بڑھ کر شاطر نکلی۔ شاید اسے بے بس کرنے کے لیے اسے اور کوئی طریقہ سمجھ نہیں آیا۔ تو اس کے ہاتھ پاؤں کاٹنے کے لیے اس نے اسے فقیر کردینے کا سوچا۔ اسے اپنا پورٹ فولیو بنوانے کا کتنا ارمان تھا۔ یہ رقم اور زیور بھی اس نے اسی لیے چرایا تھا کہ بیچ کر اپنے لیے ایک ڈھنگ کا پورٹ فولیو بنواسکے۔ حالاں کہ روپے تب بھی کم پڑتے، اسے یقینا کچھ اور کام بھی کرنا پڑتا۔ لیکن یہ سب جیز کا درد سر نہیں تھا۔ اس نے یقینا کل والی ٹیشا کی حرکت پر بدلہ لینے کے لیے یہ حرکت کی اور لفظ بدلہ ذہن میں آتے ہی اس کے رگ رگ میں شرارے سے ناچنے لگے۔ احساس بے بسی، توہین اور انتقام سے اس کے جبڑے بھینچ گئے۔
”یہ تونے اچھا نہیں کیا جیز۔ میں جتنی شرافت سے تیری زندگی سے جارہی تھی۔ تونے اتنی ہی بدمعاشی دکھانے کی کوشش کی۔ اب میں تجھے بتاؤں گی کہ شرافت اور شرو آفت میں کیا فرق ہے۔”
اس کی تیاری مکمل تھی۔ اب صرف کمرے سے نکلنا باقی تھا۔ باہر صبح کا اجالا دھیرے دھیرے پھیل رہا تھا اور دوپہر ڈھلنے سے پہلے جیز کا ہوش میں آنا ناممکن۔
وہ بہ ظاہر اطمینان لیکن درحقیقت بے حد مضطرب سی بیڈ کے کنارے پر بیٹھی رہی۔ اپنی رقم اور گم شدہ زیور کا سوچ سوچ کر بار بار اس کی مٹھیاں کس جاتیں اور وہ کس طرح اس کا گلا دبانے کی خواہش کو دباتی یہ صرف وہی جانتی تھی۔
یہ آخری چوٹ تھی، جو اسے جیز نے پہنچائی تھی اور اب وہ ایک ساتھ ان سب کا بدلہ لے کر یہاں سے جانے والی تھی۔
سائیڈ ٹیبل پر رکھے چھوٹے سے دھول مٹی میں اَٹے الارم کلاک میں آٹھ بجے۔ اس نے ہینڈ بیگ اٹھا کر کندھے پر ڈالا۔ دل ہی دل میں اپنے پاس موجود بچی کچھی رقم کا اندازہ لگایا اور اُٹھ کھڑی ہوئی۔
ایک نظر جیز کے سوجن زدہ بے خبر چہرے پر ڈالی اور سرگوشی کی۔
”خدا حافظ جیز!”
اور باہر نکلنے سے پہلے گیس ہیٹر آن کردیا۔
******





کہر آلود صبح کے دامن سے اُبھرتے سنہری سورج کی نرم کرنوں والا سرد ترین دن تھا۔
وہ نئے سال کا پہلا دن تھا۔ ایک نئی صبح اور ایک نیا آغاز تھا اور دوسرے ہزاروں لوگوں کی طرح اس نے نیا سال پہلے سے پلان تو نہیں کیا تھا لیکن اس مال کے حوالے سے اس کے دل و دماغ میں بہت سے ارمان دبے تھے۔ جنہیں پایۂ تکمیل تک پہنچانے کی خاطر آج وہ اپنے آگے ہر رکاوٹ کو راستے سے ہٹاکر چند قدم اور آگے بڑھ آئی تھی۔
یہ چند قدم اسے اور آگے کی طرف کہاں لے جانے والے تھے۔ یہ تو وہ نہیں جانتی تھی لیکن جہاں بھی لے جاتے یقینا پہلے سے اچھے کی طرف ہی جاتے یہ اسے معلوم تھا لیکن ایک بات اور تھی جو اسے نہیں معلوم تھی اور وہ یہ کہ انسان کو کبھی کبھی غلط علم بھی ہوتا ہے اور وہ اپنی فہم و فراست پر تکیہ کرکے سمتوں کی طرف نکل جاتا ہے۔
اس سرد صُبح تبسم راؤ کے گھر اُترتے وقت اسے بالکل اندازہ نہیں تھا کہ تبسم کس طرح اس کا استقبال کرے گی۔ خیال تو یہی تھا کہ پہچان تو لے گی ہی لیکن یہ اس کے خیال سے بہت آگے کی چیز تھی۔
گیٹ پر کھڑے چوکیدار نے تبسم کو اس کے بارے میں اطلاع دینے سے ہی صاف انکار کردیا تھا۔بہ بقول اس کے میڈم کسی بے سہارا غریب لڑکی کو اپنے گھر تک نہیں لاتیں۔ اگر ملنا ہے تو ان کے آفس جاکر ملو۔
بہت دیر منت سماجت کے بعد اس نے اپنے کیبن میں لگے انٹرکام سے اندر اطلاع دی۔
اسے اندر بلانے کی ہدایت تو مل گئی لیکن پھر یہ ہدایت صرف اندر بلانے تک ہی محدود رہی۔
چوکیدار اپنی نگرانی میں اسے اس شاندار بنگلے کے عقب میں موجود سرونٹ کوارٹرز کے آگے بنے شیڈز کے نیچے بٹھاگیا۔وہ ….. وہاں بیٹھ کر تبسم راؤ کی کوٹھی کو مرعوب نظروں سے دیکھنے لگی۔
حقیقت ہی تھی کہ اس طرح کے گھر اس نے کبھی خواب میں بھی نہیں دیکھے تھے بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ ملازمین کے کوارٹرز بھی اس کے اپنے گھر سے بہتر دکھائی دیتے تھے تو غلط نہ ہوگا۔صبح سے دوپہر ہوئی اور دوپہر، سہ پہر میں ڈھلنے لگی۔ اس نے آخری کھانا کئی گھنٹے پہلے بلکہ ایک دن پہلے رات میں کسی وقت کھایا تھا اور اس وقت اس کی آنتیں برُی طرح اینٹھ رہی تھیں۔ بھوک اور انتظار کی انتہا اور شدت نے اسے حواسوں سے باقی سب خیالات مٹاڈالے تھے۔
وہ اب یہ نہیں سوچ رہی تھی کہ تبسم اسے بلاکر خود کہاں رہ گئی۔ اسے کھانا کب اور کہاں سے ملے گا وہ اب یہ سوچ رہی تھی۔کوارٹرز میں سناٹا طاری تھا۔ صبح سے اب تک کوئی اس بلند و بالا عمارت کے پیچھے، اس کے قدموں میں گرے ان گھروندوں کی طرف نہیں آیا تھا۔ اس کی ہمت نہیں تھی کہ وہاں سے اُٹھ کر کہیں اِدھر اُدھر جاسکتی اس کی اب تک ساری تیزی و طراری، اس گھر اور گھر والوں کی امارت کے آگے پھیکی پڑ چکی تھی۔عین اس وقت جب اسے بھوک کی شدت سے چکر سے آنے لگے تھے اور کمر نے مزید بیٹھے رہنے سے انکار کردیا تھا۔ قریب تھا کہ وہ وہیں بنچ پر گر کر بے ہوش ہوجاتی۔ ایک ادھیڑ عمر عورت اس کے پاس آگئی۔
”میرے ساتھ آؤ۔”
اس کے انداز میں عجیب سی بے نیازی اور حُکم تھا۔ اسے اس کا انداز بہت چُبھا لیکن جب تک اس گھر میں اس کی حیثیت کا تعین نہ ہوجاتا وہ ہر ایک کا ہر طرح کا رویہ برداشت کرنے پر مجبور تھی۔گھاس کے بڑے سے قطعے کے اس پار ایک اور گھر سا دکھائی دے رہا تھا جو کہ دور سے ہی خوب صورت اور عالی شان تھا لیکن تبسم کے گھر سے سائز میں چھوٹا اور ملازمین کے کوارٹرز سے کافی بڑا تھا۔
عورت اسے لے کر اندر داخل ہوگئی۔
اندرون دروازے کے اس پار بڑا سا ہال نما لاؤنج تھا۔ اس نے اندر داخل ہوکر ایک طرف اشارہ کیا۔ درمیان میں رکھی سجاوٹی میز پر کھانے کے لوازمات سے بھری ٹرے رکھی تھی۔
”کھانا کھاؤ۔ تب تک بیگم صاحبہ آرہی ہیں۔”
کھانے کی اجازت نہ تھی گویا جنت میں داخلے کا پرمٹ تھا۔ اس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ کھانے پر ٹوٹ پڑی اور دروازے کی اوٹ سے کمرے میں کھڑی تبسم ایک مُسکراہٹ لبوں پر سمیٹے خاموشی سے اسے دیکھتی رہی۔ یہ سب سے پہلی اور بے ضرر چال تھی۔
******





آنے والے اگلے دن دن بے حد مصروف اور بوریت بھرے تھے۔
تبسم نے پہلے دن جان بوجھ کر اسے نظر انداز کیا اور شام تک بھوکا رکھا۔
وہ کامیابی سے اس پر بھوک اور اس کی اہمیت کا اندازہ ثابت کرچکی تھی۔ ٹیشا اس سے مرعوب تو پہلے ہی تھی۔ اس دن متاثر بھی ہوگئی۔ جب اپنی پہلی اور بے حد مختصر ملاقات میں تبسم آفاق راؤ نے اسے قائل کرلیا تھا کہ دنیا کی سب سے پہلی ضرورت بھوک ہے۔ یہی سب سے ضرر رساں بھی ہے۔ خود غرضی بھی بے حسی بھی ہے اور بے رحمی بھی۔
ٹیشا متاثر کن انداز میں سرہلاتی رہی اور جب وہ اسے خدا حافظ کہہ کر انیکسی سے نکلی تو اسے راضی کرچکی تھی کہ جب تک اسے کوئی بڑا چانس نہیں مل جاتا۔ اسے اپنا پیٹ پالنے کے لیے تبسم کے ساتھ کام کرنا ہوگا۔
”ویسے تو میں چاہوں تو تمہیں گیسٹ بناکر مہینوں گھر میں رکھ سکتی ہوں۔ میرے لیے یہ کوئی بڑی بات نہیں لیکن میرا نہیں خیال کہ تم ایسا چاہوگی۔ آفٹر آل غریبوں کے پاس کچھ ہو نہ ہو۔ سیلف ریسپکٹ بہت ہوتی ہے۔”
ٹیشا کے مرعوبیت سے دائیں بائیں خوشامدی انداز میں پھیلے ہونٹ ذرا سُکڑگئے۔ اس کی سمجھ میں نہیں آیا کہ اس نے تبصرہ کیا ہے یا طنز۔تبسم بات مکمل کرکے اس کا چہرہ دیکھنے کے لیے رُکی نہیں۔ اپنی ملازمہ کو اسے ساتھ لے کر سرونٹ کوارٹرز میں جانے کا کہہ کر وہاں سے نکلتی چلی گئی۔
******
اس نے اپنا کہا پورا کیا۔ اپنے مشہور و معروف بیوٹی اسپاٹ سیلون اور فٹنس جم میں اسے کام دلوادیا لیکن بے انتہا نچلے درجے کا۔ ٹیشا کے دل میں اس کے خلاف شکایتیں جمع ہونے لگیں۔ وہ جسے اپنا نجات دہندہ سمجھ بیٹھی تھی وہ تو اصل صیاد تھا۔
اس کا پالا اب تک پڑا ہی کتنے لوگوں سے تھا۔ ایک اس کے اپنے گھر والے اور دوسری جیز۔ جس کے ساتھ کی گئی حرکت پر اسے شرمندگی تو کبھی محسوس نہیں ہوئی البتہ ایک خوف ضرور پیدا ہوگیا تھا۔ اس کی اصل وجہ بھی تبسم کا رویہ تھا۔
اخبار میں جیز کی بے نام و نشان موت کی خبر پڑھنے کے بعد اس نے سب سے پہلے اسی کو بلوایا تھا۔
”یہ اسی دن کی خبر ہے جس دن تم میرے پاس آئی تھیں۔”
وہ چُپ رہی۔ اس کی سمجھ میں نہیں آیا کہ اس بات کے جواب میں کیا کہے اور آیا کہ یہ کوئی سوال بھی تھا یا تبصرہ محض….
”کہیں تم نے تو اس کے ہیٹر کی گیس کھلی نہیں چھوڑدی تھی۔”
”جی۔” وہ ہکّا بکّا رہ گئی۔
جُھکا ہوا سر جھٹکے سے اٹھا تو آنکھیں پھٹی سی تھیں۔
”کک… کیا مطلب؟”
وہ کبھی مر کر بھی تبسم سے اس قدر براہِ راست سوال کی امید نہیں کرسکتی تھی ”مطلب کیا؟ میں نے ایک سوال کیا ہے صاف اور سیدھا۔ اسی طرح جواب دو۔” وہ حد درجہ سنجیدہ تھی۔
”نہیں میں… میں کیوں کروں گی ایسا۔”
”کیوں کہ اسے تم سے پہلے اور تم سے کہیں زیادہ بڑا چانس جو مل گیا تھا۔”
ٹیشا سمجھ نہیں سکی کہ وہ اتنی تلخ کیوں ہورہی ہے۔
”اس کو چانس ملا یہ اس کی قسمت۔” اب کی بار اس کی آواز دھیمی اور سر جھکا ہوا تھا۔
”اور اسے زندگی نہ مل سکی یہ تمہاری قسمت….”وہ چپ رہی۔
تبسم کچھ دیر اسے سر سے پیر تک گھورتی رہی۔ اسے یقین تھا کہ اس لڑکی کی موت میں اس ٹیشا کا ہاتھ ضرور تھا اگر وہ اپنے منہ سے قبول لیتی تو تاحیات تبسم کی غلامی کرتی…
ٹیشا کو اس کی نظریں اپنا ایکسرے کرتی ہوئی محسوس ہورہی تھیں اس کی رگ رگ میں بے چینی اُبھرنے لگی۔
”دیکھو ٹیشا… میں تمہاری ہمدرد ہوں۔ تم ایک طرح سے مجھے اپنا دوست بھی کہہ سکتی ہو۔ جو بھی بات ہے صاف صاف بتاؤ۔ میں نہیں چاہتی کل کلاں کو پولیس تمہیں ڈھونڈتی ہوئی مجھ تک آئے اور پھر مجھے نا صرف پوری سوسائٹی کے سامنے شرمندگی اٹھانی پڑے بلکہ میں چاہ کر بھی تمہاری کوئی مدد نہ کرسکوں۔”
اپنی بات میں خلوص کا رنگ بھرنے کے لیے اس نے آگے ہوکر اس کے ہاتھ پر اپنے ہاتھ کا دباؤ ڈالا۔ اس کا ہاتھ بالکل نم ہوچکا تھا۔
”پولیس۔” اس نے تھوک نگل کر سوالیہ نگاہوں سے تبسم کو دیکھا۔
”ہاں پولیس… جانتی تو ہوگی تم… جرم قبول کروانے کے لیے کس کس طرح کے وحشیانہ ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں وہ۔”
تبسم جان بوجھ کر اسے ڈرارہی تھی اور وہ ڈر بھی گئی اس کی ٹانگوں سے جان نکلنے لگی۔
”جو بھی بات سچ ہے مجھے بتادو میں سب سنبھال لوں گی۔ دیکھو نا تم ایک سپر ماڈل بننے گھر سے نکلی ہو نہ کہ تین سو دو کی مجرم بننے۔”
اس نے کچھ اور ہمدردی جتاتی اور یہی ہمدردی اسے مہنگی پڑی۔ اس کی بات نے ٹیشا کے اندر کچھ کلک کیا۔
”جب یہ سب سنبھال سکتی ہے تو اسے سچ اور جھوٹ سے کیا سروکار؟” اس نے خود کو بہ مشکل کنٹرول کیا اور جھکے ہوئے سر کے ساتھ ایک گہری سانس لی پھر ایک گہری اور فیصلہ کن سانس لے کر دوبارہ سر اٹھایا۔
”آپ غلط سمجھ رہی ہیں۔ ایسا کچھ نہیں ہے۔ میں گھر سے بھاگی ہوئی لڑکی ضرور ہوں لیکن میری کسی سے ایسی دشمنی نہیں کہ میں اس کی جان لے لوں۔”
اس نے تبسم کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اس انداز میں کہا کہ بہ ظاہر کوئی ردِ عمل نہ دینے کے باوجود وہ دل ہی دل میں اَش اَش کر اٹھی۔
اسے اپنی گہری نگاہوں کے ارتکاز پر بہت گھمنڈ تھا اور اس گھمنڈ کو آج پھر ٹھیس لگی تھی۔
اس نے اپنا ہاتھ ہٹایا اور پیچھے ہو بیٹھی۔
”ہم… م… م….” اس نے سر ہلایا۔
”ٹھیک ہے تم جاؤ۔”
ٹیشا کانپتے قدموں اور ڈولتے دل سمیت پلٹ کر دروازے تک پہنچی تھی۔ جب اس نے پکارا۔
”جی۔” وہ واپس پلٹی تو اس کا دل چاہا کہ کبھی تبسم کی شکل نہ دیکھے۔





”مجھے تم سے یہی امید تھی… گڈ لک۔”
ٹیشا نے ایک بار پھر تھوک نکلااور جلدی سے باہر نکل گئی۔
اس کے باہر نکلتے ہی تبسم دھیرے سے ہنس پڑی۔
”انٹیلی جینٹ ہے… مگر مجھ سے زیادہ نہیں۔”
تبسم اتنی آسانی سے اس کی جان چھوڑنے والی نہیں تھی۔ اگلے دو تین دن کے بعد اس نے اپنے سیلون میں اسے سب لڑکیوں کے سامنے گھیرنے کی کوشش کی۔ پہلے سب ورکرز کے لیے اپنی طرف سے لنچ اناؤنس کردیا اور لنچ بریک میں جب سب لڑکیاں مزے دار لنچ انجوائے کررہی تھیں تو خود ہی اخبار اس کی نیوز کی بات چھیڑدی۔
ٹیشا کو کھاتے کھاتے ایک جھٹکا سا لگا۔
تبسم اتنی فالتو نہیں تھی کہ یوں اپنی ماتحتوں کے درمیان بیٹھ کر ایک معمولی خبر کو ڈسکس کرتی۔ ٹیشا بھانپ گئی تھی کہ وہ اسے ڈرانا چاہتی ہے اور ڈر تو وہ گئی تھی۔ لیکن اس ڈر کو دیکھنے کی چاہت جتنی تبسم کے اندر اُبھری تھی۔ اس کے سرد مظاہرے نے اسے چوکنا کردیا تھا۔
”اور حیرت کی بات دیکھو۔ وہ لڑکی ٹیشا کی روم میٹ تھی۔”
لنچ کرتی لڑکیوں میں سے تقریباً سب ہی کو حیرت کا جھٹکا لگا۔ کئی ایک آوازیں ابھریں۔ حیرت زدہ آوازیں….
ٹیشا ایک بار پھر ہنس رہی تھی۔ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اب وہ کہے تو کیا کہے؟ ٹیشا کا سر جُھک چکا تھا۔ لیکن تبسم کی بات ابھی ختم نہیں ہوئی تھی۔ ”کہیں تمہاری جدائی میں تو اس نے خودکشی نہیں کرلی۔”
بہ ظاہر وہ اس خبر کو بے حد سرسری انداز میں ڈسکس کررہی تھی لیکن اسٹاف روم کی خاموشی اور اس کی معنی خیز لب و لہجہ، عام انداز کو خاص بنارہے تھے۔
”کیوں ٹیشا۔”
اس نے ایک گہری سانس لی اور سر اُٹھایا۔”اب وہ زمانہ نہیں رہا تبسم باجی… لوگ جان لے لیتے ہیں لیکن کسی کے لیے جان دیتے نہیں۔”
”اسی لیے تو مجھے حیرت ہے کہ ٹھیک اسی روز اس کی ڈیتھ ہوگئی، جس روز تم نے ہاسٹل چھوڑا۔”
”تو کیا ہوا تبسم باجی۔ یہ اتنی بھی حیرت کی بات نہیں گیس ہیٹر کی گیس پہلے کُھلی رہ جاتی تو جیز کی جگہ میں بھی ہوسکتی تھی۔ گیس ہیٹر کا استعمال خطرناک ہی ہوتا ہے۔ اس طرح تو لوگ مرتے ہی رہتے ہیں۔”
سب لڑکیاں تبسم سمیت منہ کھول کر اس کی طرف دیکھ رہی تھیں اور وہ اپنی پلیٹ کی طرف۔ اس میں ہمت نہیں تھی کہ سر اُٹھا کر تبسم کو دیکھ سکتی۔
”تمہاری باتوں سے لگتا ہے کہ تم اس کی دوست تھیں۔”
اب کی بار تبسم کا لب و لہجہ بے حد چبھتا ہوا تھا۔





”اس کی باتوں سے بھی نہیں لگتا تھا کہ ہم دوست ہیں۔ شاید ہم لوگ مطلب کے دوست تھے۔ اپنی اپنی غرض کے لیے ایک دوسرے سے دوستی کر رکھی تھی۔”
”کمال ہے۔ کتنی بے رحمی سے سچ بول رہی ہو تم” خانم سے رہا نہیں گیا۔ اس نے بے ساختہ کہا۔
”تو کیا ہوا۔ اب تو وہ بے چاری اس دنیا میں نہیں میری بات سُننے کے لیے۔”
اس کی بات مُنہ میں رہ گئی۔
تبسم ایک جھٹکے سے اُٹھ کھڑی ہوتی۔ اس کے چہرے سے صاف پتا چلتا تھا موضوعِ گفت گو کی سمت بدل جانے سے اس کا مقصد ادھورا رہ گیا تھا جو اسے بالکل پسند نہیں آیا تھا۔
”چلو جلدی جلدی ختم کرو سب، لنچ بریک سے فائیومنٹس اوپر ہوچکے ہیں۔”
اس کا موڈ اور بات سُن کر چند ایک لڑکیاں فوراً ہی اٹھ گئیں اور جو کھارہی تھیں وہ تیز تیز ہاتھ چلانے لگیں۔
”اینڈ یو مس ٹیشا… میں تبسم باجی نہیں ہوں۔ میم بلایا کریں آپ مجھے۔”
اس کا لہجہ پل بھر میں اجنبی ہوگیا۔ ٹیشا جلدی سے اٹھی۔
”اوکے میم۔” اس نے حد درجہ تابع داری کا مظاہرہ کیا۔
تبسم چڑ کر کمرے سے باہر نکل گئی۔
زندگی میں کچھ باتوں کی حقیقت ہمیں اتنی دیر سے پتا چلتی ہیں کہ ہم تلملانے کے سوا اور کچھ نہیں کرسکتے۔
تبسم کی حقیقت بھی اس پر بہت دیر بعد آشکار ہوئی۔ اس وقت تک وہ مکمل طور پر اس کے زیردست ہوچکی تھی۔ اس کے تن کے کپڑے، پیروں کے جوتے اور پیٹ میں موجود کھانا سب اسی کا مرہونِ منت تھا۔ چند دن تک اسے سیلون میں ٹریننگ کے نام پر جھانسا دینے کے بعد اس نے، ٹیشا سے جو کام لینے شروع کیے۔ وہ اس کے نزدیک کہیں سے بھی، ایک بیوٹیشن کے کرنے لائق نہیں تھے۔چائے بنانا، پانی پلانا اور کبھی کبھی سیلون کی صفائی بھی۔ جس میں ڈسٹنگ کے ساتھ ساتھ جھاڑو اور صفائی بھی شامل تھی۔ ابتدا میں اس نے ہلکا سا احتجاج کرنے کی کوشش کی مگر، تبسم نے بے حد سرسری انداز میں اس احتجاج کو رد کردیا۔
”اوہ ڈارلنگ تم دیکھ تو رہی ہو کتنا رش ہے آج کل، اگر اس میں یہی کام کسی اور لڑکی سے لوں گی تو اس کا کلائنٹ بیٹھ کر ویٹ نہیں کرے گا۔ پلیز ٹرائی ٹو انڈراسٹینڈ…. میرا مقصد تمہیں ڈی گریڈ کرنا نہیں ابھی میں کسی اور سے کہوں گی تو وہ بھی کرلے گی۔ دے آر آل ایکوئل ہیئر (یہاں سب برابر ہیں) لیکن تم بدلے میں کسی کا میک اپ یا ہیر اسٹائل تو نہیں دے سکتی نا!”
وہ چپ کرگئی وقتی طور پر قائل بھی ہوگئی مگر….
آہستہ آہستہ اسے احساس ہونے لگا کہ سیلون میں اس کی حیثیت کسی ڈھابے پر کام کرنے والے چھوٹے کی سی ہوتی جارہی تھی۔
سب ورکرز چھوٹے موٹے کاموں کے لیے اسے آواز دینے لگیں۔
کسی بھی کلائنٹ کے جانے کے بعد دوسری مصنوعی آرائشی چیزیں اور استعمال کی چیزیں وغیرہ جگہ پر رکھنا بھی اسی کی ذمہ داری بن گئی۔ میک اپ کٹس اور نت نئے فیشلز کا سامان ٹھکانے لگانا، وقت پڑنے پر لپک جھپک نکال کردینا، اور تو اور ان کی ایکسپائری کی تفصیلات یاد کرنا۔ اسپا اور مساجز کی الیکٹرنکس اپلائنسز کا خیال رکھنا۔ دھیان سے انہیں جگہ پر رکھنا۔ ان کی ڈسٹنگ کرنا، یہاں تک کہ اسٹینڈ بائی جنریٹر تک کی دیکھ بھال اسی کی ذمہ داری بن گئی۔
شروع دنوں میں الجھ کر پھر بے زاری سے اور مہینے گزرتے گزرتے بالآخر اس نے اس جگہ پر اپنی حیثیت کو تسلیم کرتے ہوئے دل چسپی سے تو نہیں مگر ذمہ داری سے اپنا کام کرنا شروع کردیا۔
تبسم اسے لائن پر آتے دیکھ کر خوش تھی لیکن وہ خود خوش نہیں تھی۔ وہ یہاں ماسیوں والے کام کرنے نہیں آئی تھی لیکن وہ جس مقصد آئی تھی۔ اس میں ایک فیصد بھی کامیابی ممکن دکھائی نہیں دیتی تھی۔
شوبز اور الیکٹرانک میڈیا سے تعلق رکھنے والی بے حد قلیل تعداد کی خواتین وہاں آتی تھیں۔ وہ بھی اس طرح کی جو میڈیا سے جڑے ہونے کے باوجود ٹی وی تک یا تو رسائی ہی نہیں رکھتی تھی یا پھر ان کے ڈائریکٹ لوگوں سے تعلقات نہیں تھے۔
وہ سمجھتی تھی کہ اس کا سیلون جوائن کرلینے کے بعد اس کا ہر دوسرے دن کسی نہ کسی مشہور سلیبرٹی سے ملنا ہوگا۔ روز تو بہت دور، وہ مہینوں انتظار کرتی رہی لیکن کسی بھی اداکارہ، ماڈل یا نیوز اینکر سے ملاقات نہیں ہوئی۔
یہ تو اسے کافی دن بعد پتا چلا کہ یہ بیوٹی اسپاٹ پبلک کے لیے ہے۔ خاص خاص لوگوں کے لیے تبسم نے اپنے گھر کی اوپری منزل پر بھی بیوٹی کلینک کھول رکھا ہے۔ چھوٹے پیمانے پر، کم جگہ میں لیکن ضرورت کی تقریباً سب اشیاء وہاں وموجود تھیں۔
اوپر کی منزل پر الگ سے کچن تھا۔ جب کسی ماڈل، آرٹسٹ یا کسی بھی دوسرے خاص بندے کو میک اوور، مساج یا کچھ اور ….. Relaxing ٹریٹمنٹ چاہیے ہوتا تو، تبسم اسے خود سروسز دیتی۔ اپنے گھر بلانے اور خود سے خدمات پیش کرنے کا دُگنا معاوضہ لیتی جو لوگ اسے بہ خوشی ادا کرتے۔ اس سیلون میں آنے والوں میں مرد اور خواتین دونوں ہی شامل تھے۔
ٹیشا کو اس نے اس بات کی بھنک تک نہ پڑنے دی تھی۔ ٹیشا کے اندر غصے کی شدید لہر اٹھی۔
”کمال ہے۔ مجھے سبز باغ دکھاکر ان کاموں میں الجھادیا اور مجھے تبسم نے یا کسی اور نے بھی بتانے کی ضرورت نہیں سمجھی۔”
اس نے نفرت آمیز نگاہوں سے اپنے یونیفارم کو دیکھتے ہوئے سوچا۔ یہ یونیفارم کی بھی الگ کہانی تھی۔
ورکرز کے یونیفارم بھی الگ الگ رنگوں کے تھے۔ برائیڈل اور میک اپ ایکسپرٹ، بلیک ٹی شرٹ کے ساتھ بلیک جینز پہنتی تھیں۔ ان سے نیچے کی سب لڑکیاں جینز کے ساتھ ریڈ ٹی شرٹ پہنتی تھیں۔ وہ بھی ریڈ ٹی شرٹ اور بلیک جینز کی توقع کررہی تھی لیکن جب اس کے لیے یونی فارم آیا تو اس کی شرٹ نیوی بلیو کلرکی تھی اور نیوی بلیو شرٹ وہاں اس کے علاوہ صرف تین اور لوگوں کی تھی۔




Loading

Read Previous

باغی — قسط نمبر ۴ — شاذیہ خان

Read Next

گلّو اور لومڑ

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!