تو کیا ہوا —– فرحین اظفر

اس کی توقع کے عین مطابق چاچی کے ساتھ چاچا بھی گڑبڑا گئے۔
نہیں نہیں، شک کی کیا بات ہے، بیٹا۔ بھئی عالیہ جانے دو بچی کو کیوں پریشان کررہی ہو۔”
عالیہ نے نہ چاہتے ہوئے موبائل اس کی طرف بڑھایا۔
”میں پریشان کر نہیں رہی پریشان ہورہی ہوں۔ اتنا قیمتی موبائل….”
ان کی بات ادھوری رہ گئی۔ وین والا ہارن پر ہاتھ رکھ کر اٹھانا بھول گیا۔
”جاؤ بھئی جاؤ۔ مصیبت ہی ہوگئی کچھ پوچھ لیا تو… بھلا بتاؤ آج کل کی لڑکیاں اتنی غیر ذمہ دار ہیں۔ اتنا مہنگا موبائل یوں ڈال کر چھوڑدیا۔
وہ بڑ بڑ کرتی پلٹ رہی تھیں اور چاچا ان کی بات کو اڑارہے تھے۔
”ارے کوئی مہنگا وہنگا نہیں۔ آج کل تو ہر دوسرے بچے کے پاس ہیں ایسے سیٹ۔”
منتشا ان کی بڑبڑاہٹ سنتی جیسے اڑتی ہوئی وین کی سیٹ تک پہنچی تھی۔
وین والا بھی لیٹ ہوچکا تھا۔ گاڑی کو جہاز سمجھ کر اڑانے لگا لیکن اس کے ذہن میں چلتی فلم کی رفتار اسی گاڑی سے کئی گنا تیز تھی۔
جتنی تیزی سے مناظر بھاگ رہے تھے۔ ان سے کہیں زیادہ تیزی سے اس کا ذہن بھاگ رہا تھا۔
آج اگر چاچی نے اس کا بیگ کھول کر موبائل نکالا تھا تو کل کو وہ نوٹ بھی نکال سکتی تھی۔ جو اس نے صابرہ سے چرائے تھے۔
بظاہر سستی سے کھڑکی سے باہر دیکھتی وہ، ذہن میں آج کے دن کا تانا بانا بن رہی تھی۔ گھر سے کالج تک کی مسافت میں اس نے اس کا حل سوچ لیا تھا۔
اسے موبائل سے جان چھڑانی تھی۔ اور فائدہ بھی اٹھانا تھا۔ لیکن کس طرح؟…. جواب اسے مل چکا تھا۔
******





کالج گیٹ سے اندر داخل ہوتے وقت چاچی کی فق رنگت کا سوچ کر اس کی کھوئی ہوئی مسکراہٹ بحال ہوگئی تھی اور خود پر اعتماد کچھ اور بڑھا تھا۔
کالج ٹائم آف ہوئے کافی دیر ہوچکی تھی۔
وہ اور جیز جمنازیم کی پچھلی طرف بنی پتلی گیلری میں جمنازیم کی بیرونی سیڑھیوں پر ہی بیٹھی تھیں۔
”کیا بات ہے آج بڑی خاموش ہو؟”
وہ بنا جواب دیے جیز کو دیکھتی رہی جو بیگ کھول کر اس میں سے تیز سرخ رنگ کی لپ اسٹک نکال کر اپنے تقریباً سیاہ پڑتے موٹے ہونٹوں پر جمارہی تھی۔
اس نے لپ اسٹک کی ایک دو تہیں ہونٹوں پر رگڑیں۔ اس کے ہونٹوں کا اصلی رنگ خونی رنگ میں چھپ سا گیا۔ پھر دوبارہ اسے دیکھا۔
”جیز تم میری دوست ہونا! بالکل اصلی سچی پکی والی؟”
گہری سانس بھر کے اس نے بات کا آغاز کیا۔
”آج کیوں ضرورت پڑگئی پوچھنے کی۔”
”کیوں کہ مجھے تمہیں کچھ دینا ہے۔” یہ بات کا نہیں ایک کھیل کا آغاز تھا۔
”ارے ایسا کیا دینا ہے۔ لگتا ہے کوئی خاص گفٹ لائی ہو۔”
”ہاں۔ خاص ہی سمجھو۔”
اس نے مسکراتے ہوئے بیگ کی زپ کھولی۔ اور اس میں سے وہی موبائل برآمد کیا جس نے صبح عالیہ کے سامنے اسے شرمندہ کروایا تھا اور جیز کی طرف بڑھادیا۔
”یہ لو… یہ تمہارے لیے۔”
جیز کا ردِ عمل اس کی توقع کے عین مطابق تھا۔ اس کے لب نیم وا ہوگئے تھے۔ آنکھیں چمکنے لگی تھیں۔
”میرے لیے لیکن…. لیکن کیوں؟”
اس نے فوراً ہی بنا کسی توقف کے وہ تحفہ وصول کیا جسے اسے دینے میں دینے والی کی دل چسپی صفر اور مجبوری سو فیصد شامل تھی۔
”تم نے بتایا تھا کہ تمہیں اپنا موبائل بیچنا کرنا پڑا۔ اس لیے میں نے سوچا کہ میں اگر دوست ہوکر تمہارے کام نہ آئی تو کیا فائدہ۔”
جیز نے ایک نظر اسے دیکھا۔ پھر اپنے سلکی سنہری مائل سیاہ بال ایک ادا سے جھٹک کر ہنس دی۔
”واؤ… امیزنگ۔ کوئی میرے لیے ایسے بھی سوچ سکتا ہے۔”
وہ اب بے حد ایکسائمنٹ سے اسے آن کررہی تھی۔
”کوئی اور سوچے نہ سوچے لیکن میں سوچ سکتی ہوں اور یہ آن نہیں ہو گا کیوں کہ میرے پاس اس کا چارجر نہیں ہے۔”
”کیوں۔” اب کی بار وہ ذرا کھٹک گئی۔
”تمہارے پاس اتنا مہنگا سیٹ آیا کہاں سے۔’ اس نے ذرا گھورکر اسے سر سے پیر تک دیکھا۔
”سچ بتاؤ کہیں… چوری ووری تو نہیں کی تم نے تمہاری تو پڑھائی کا خرچہ تمہار ے چچا اٹھاتے ہیں نا!۔”
”ارے نہیں نہیں چوری کا نہیں ہے بھئی۔”
وہ خواہ نخواہ ہنسی دی۔ در اصل اسے جیز سے اس انکوائری کی امید نہیں تھی۔ وہ سمجھتی تھی … اتنا اچھا سیٹ دیکھ کر سب سوال بھول جائے گی۔ لیکن جتنا سادہ وہ اسے سمجھتی تھی۔ وہ اس کا نصف بھی نہ تھی۔
”بس یوں سمجھو لوتھی تمہارے جیسی ایک پیاری سی دوست کی۔ اس نے اسکول میں دیا تھا۔ لیکن میں اسے کبھی استعمال نہیں کرسکی۔ ” اس کے لہجے میں اوس گرنے لگی۔
”کیوں۔” جیز کا تعجب فطری تھا۔
”گھر میں اجازت نہیں تھی۔ نہ امیر لڑکیوں سے دوستی کی اور نہ موبائل استعمال کرنے کی۔ اس لیے بس چھپاچھپا کر رکھتی رہی۔ اب سمجھ آیا کہ کس دن کے لیے رکھا تھا اتنا سنبھال کر۔” بات کے آخر میں وہ بڑے دکھی انداز میں مسکرائی۔
”یہ تو بہت زیادتی کی بات ہے۔ تمہارے گھر والے اتنے سخت ہیں۔” ہمدردی ہوجانا قدرتی بات تھی۔
”صرف سخت نہیں۔ وہ لوگ لاپرواہ، خودغرض اور بے حس بھی ہیں۔” اسے بولتے ہوئے خود بھی پتہ نہیں تھا کہ وہ اپنے گھر والوں کی نہیں اپنی خوبیاں گنوارہی ہے۔
”میں تمہیں کیا کیا بتاؤں اور تم کیا کیا سنوگی جیز.. تھک جاؤگی۔ چلو چھوڑو۔” بڑے ڈرامائی انداز میں اس نے کالج میں بڑھتے اور پھیلتے سناٹے کو دیکھا۔
”نہیں نہیں۔ تم بتاؤ مجھے ایسی بھی کیا بات ہے۔”
وہ دونوں دو گھنٹے تک جمنازیم کے پیچھے سناٹے میں بیٹھی رہیں۔ منتشا اس سے اپنی پچھلی زندگی کے دکھ روتی رہی۔ گھر والوں کے رویہ، تنگ دستی اور، مردانہ حاکمیت کے کھلے عام مظاہرے اس کے ساتھ ہونے والی زیادتیاں اور آخری سب سے بڑی زیادتی اس کی تعلیم ختم کرنے کا اعلان۔ جس کے خلاف بغاوت کرکے اس نے اپنے چچا کو اُکسایا۔
اس نے جیز سے کچھ بھی نہیں چھپایا۔ اپنے اوپر بیتنے والے ایک ایک ظلم کو پہاڑ جتنا بڑا بناکر پیش کیا۔ سنہری آنکھوں میں موٹے موٹے آنسو دیکھ کر جیز خود بھی افسردہ سی ہوگئی۔ وہ لاکھ بے پروا بن جاتی، مگر منتشا کے کہانی سُنانے کا انداز بھی الگ تھا اور اس وقت ان دونوں کو جی بھر کے فرصت بھی تھی۔
اس روز منتشا جان بوجھ کر وقت پر گھر نہیں گئی۔ وین والا اس کا انتظار کرکے چلا گیا اور وہ جیز کی ہمدردی سمیٹتی رہی۔ یہ سب اُلٹ پھیر اس کی آج کی پلاننگ میں شامل تھا۔ وہ ایک ماسٹر پلان میکر تھی۔ اسے معلوم تھا اسے گھر کیوں دیر سے جانا ہے۔ اور کیا کہنا ہے۔ اسے یہ بھی معلوم تھا کہ صرف جیز اسے ماڈلنگ کے میدان میں پہلی بار طبع آزمائی کا چانس دے سکتی ہے۔ اسے پتا تھا جیز کو شیشے میں کیسے اتارنا ہے۔ اسے یا دتھا، اچھی طرح یاد تھا کہ کب کس سے کس انداز میں کیا کہنا ہے۔
وہ دھوکہ تھی، وہ جھوٹ تھی۔ وہ سراپا جفا تھی اور دغا تھی۔ جیز نہ چاہتے بھی اس سے ہمدردی کا شکار ہوچلی تھی۔ اسے اپنی صلاحیتوں پر بے جا غرور نہ تھا۔ وہ ملکہ ٔ حُسن نہیں لیکن ڈرامہ کوئین ضرور تھی۔
اس روز دوپہر کے تین بجے جب ہُو کے سناٹے میں وہ لوگ کالج گیٹ سے نکلیں تو کالج کے کسی اندرونی آفس میں سوائے ہیڈ کلرک اور چند ایک اسٹاف کے سب گھر جاچکے تھے۔
منتشا نے بے حد آرام سے ایک رکشہ روکا اور گھر کا ایڈریس سمجھا کر جیز کو یہ وعدہ لے کے خدا حافظ کہا کہ زندگی میں آگے بڑھنے میں اسے جب اور جہاں جیز کی ضرورت پڑی وہ کبھی خود کو تنہا نہیں پائے گی۔ اس بات سے بے خبر کہ گھر میں عالیہ اس کی گم شُدگی کو ہزار خدشوں میں لپیٹ کر نہ صرف خود اپنا بی پی بڑھاچکی ہیں بلکہ وحید الدین کو بھی بے حد پریشان کرڈالا ہے۔
واپسی کے سفر میں وہ مطمئن بھی تھی اور مغرور بھی۔
******





اس کی توقع کے عین مطابق عالیہ بے حد پریشان دروازے کے قریب ہی ٹہل رہی تھیں۔ سارہ کے یونیورسٹی سے واپسی کا وقت ہو چلا تھا۔اس کی شکل دیکھتے ہی ان کے لبوں سے ایک اطمینان بھری سانس خارج ہو گئی اور پھر حسب توقع وہ اس پر برسنے کو پر تولنے لگیں۔
”کہاں رہ گئی تھیں۔ اتنی دیر لگادی۔ کب سے انتظار… وحید کو فون… میرا تو حال برا….”
ان کا پارہ چڑھا ہو اتھا اور منتشا کا مطمئن چہرہ اس پارے کو اوپر ہی اوپر لے جارہا تھا۔
”آج غلطی سے وین نکل گئی۔ بہت دیر انتظار کیا کہ شاید وہ دوبارہ آجائے لینے۔ جب پورا کالج خالی ہوگیا۔ اس کے بعد رکشے سے آئی ہوں۔”
”اف اللہ! تو اطلاع ہی کردیتاہے بندہ۔ کوئی لینے آجاتا گھر سے۔”
”میں اطلاع کہاں سے کرتی؟ میرے پاس فون کہاں ہے؟” چھوٹے سے جواب نے عالیہ کو لاجواب کردیا۔
اس شام وحیدالدین کی واپسی ایک گزارے لائق سیل فون کے ساتھ ہوئی جو وہ منتشا کے لیے ضرورتاً خرید کر لے آئے تھے۔
سب کچھ اس کی مرضی کے مطابق ہوتا چلاگیا۔
جیز نے اسے ایک فوٹو گرافر سے ملوانے کی حامی بھری اور ساتھ ہی اسے پورٹ فولیو بنوانے کا مشورہ دیا۔
منتشا جواب کالج میں ٹیشا کے نام سے مشہور ہوگئی تھی۔ اس کے فرشتوں کو بھی علم نہ تھا کہ پورٹ فولیوکس بلا کا نام ہے؟ اسی کے اصرار پر جیز اسے اپنے ہاسٹل لے کر گئی۔ اسے اپنا پورٹ فولیو دکھایا۔
پورٹ فولیو دیکھ کر منتشا کی آنکھیں پھٹ گئیں۔ وہ ایک فحش اور عریاں تصاویر کی البم تھی جِسے پورٹ فولیو کا نام دے کر مہذب کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔
”کیا… کیا مجھے بھی اسی طرح کی تصویریں کھنچوانی ہوںگی۔”
فیشن میگزین کے صفحے پلٹتی جیز نے چونک کر اس کی شکل دیکھی پھر ٹھٹھا لگایا۔
”ارے نہیں بھئی ضروری نہیں۔ یہ بس میرا شوق ہے۔”اس کا انداز کس قدر لاابالی تھا۔
منتشا نے چور نگاہوں سے اس کے مختصر ناپ میں جھلکتی جسامت کو دیکھا اور پھر نظریں چراکر خود سے دل میں بولی۔
”شوق تو میرا بھی ہے۔ لیکن….”
اس کے ذہن میں کہیں کچھ اٹکا۔ جیسے اس نے لمحوں میں جھٹک دیا۔
”تو کیا ہوا… شوق تو بس شوق ہوتا ہے۔”
اس روز پہلی بار اس پر کئی انکشافات ہوئے۔
جاذیہ عرف جیز کی کوئی فیملی نہیں تھی۔ وہ ورکنگ ویمن ہاسٹل میں رہتی تھی۔ جس کی شہرت کا اندازہ وہاں رہنے والی لڑکیوں کی کثرت کے پہناوے اور بے ہودہ انداز گفتگو سے لگایا جاسکتا تھا۔
جیز صرف پیسہ کمانے کے لیے ماڈلنگ کرتی تھی اور یہ بھی صرف اس کا خود کا خیال تھا۔ ورنہ وہ یقینا اور بھی بہت کچھ ایسا کرتی تھی جو ٹیشا لیے قابل قبول نہ ہوتا۔ لیکن فی الحال وہ اس کی نظروں سے پوشیدہ تھا۔ اس لیے بس خیر تھی۔ ورنہ حقیقت یہ تھی کہ جیز جو کچھ بھی کرتی تھی۔ صرف پیسہ کمانے کے لیے کرتی تھی اور اس مقصد کے لیے وہ کچھ بھی کرسکتی تھی۔ گھٹیا اور غیر مہذب تصویری ماڈلنگ ان کاموں میں سرفہرست تھی۔
جیز کے دوستوں کی لمبی فہرست تھی۔ جس میں زیادہ تر مرد شامل تھے۔
وہ خود ٹیشا کی طرح کی خود غرض اور بے حس فطرت رکھتی تھی۔
وہ اکثر غیر مردوں سے ملاقاتیں کرتی رہتی تھی۔ ان کی نوعیت کا علم صرف خود اسی کو تھا۔
اور اس کے ہونٹوں کی سیاہی کی وجہ صرف کثرت لِپ اسٹک نہیں بلکہ سگریٹ نوشی بھی تھی۔
اصولاً تو ٹیشا کی جگہ کوئی اور لڑکی ہوتی تو اس کی دوستی اور اس کے ساتھ پر دو حرف بھیج کر دور ہوچکی ہوتی مگر دوسری طرف کو ئی اور نہیں منتشا تھی۔
جس کی زندگی کا مقصد اس کی اولین خواہش اب جنون کی شکل اختیا رکرتا جارہا تھا۔
وہ منتشا سے ٹیشا بن چکی تھی اور اپنے مقصد کے حصول کے لیے جیز کی شخصیت اور کردار کی سب خامیاں برداشت کرنے اور نظر انداز کرنے پر مکمل تیار تھی۔ وہ ایک کھائی پر دو چٹانوں کے درمیان تنے رسے پر اپنے خواب کا بوجھ اٹھائے چل رہی تھی۔ جس چٹان کو وہ پیچھے چھوڑنا چاہتی تھی وہ اس کا گھر، خاندان ماں باپ اور بہن بھائی تھے۔ یہ رشتوں کی سر سبز چٹان تھی۔ جس چٹان تک اسے پہنچنا تھا وہ اس کی خواہش و تمنا کی سنہری چٹان تھی۔
درمیانی کھائی بدنامی اور گمراہی کی کھائی تھی۔ تنا ہوا رسہ اس کا اپنا منتخب کردہ راستہ تھا مگر جو بات وہ نہیں جانتی تھی کہ وہ جتنا بھی سنبھل جاتی، جتنا بھی تھم تھم کر چلتی سرسبز چٹان سے سنہری چٹان تک کا یہ سفر بہ حفاظت مکمل ہونا تھا یا اس کے جھوٹ اور دھوکہ بازی کا تنا ہوا رسہ اسے اس کے خواب کے بوجھ سمیت کھائی میں دفن کرنے والا تھا…
اس بار ے میں کوئی کچھ نہیں جانتا تھا۔ وہ خود بھی نہیں۔
صابرہ کا فون تھا۔ اس نے سننے سے صاف انکار کردیا اور عالیہ کا منہ کھلا ہی رہ گیا۔
”کہہ دیں ان سے میں ٹھیک ہوں اور کیا کہنا ہے انہوں نے، چاچا کو پیسوں کے لیے پریشان نہیں کرنا اور وہ خود پہلے سے ہی بہت پریشان ہوگی۔ اس لیے، اسے بھی تنگ نہ کروں ٹھیک…”
اسے جانے کس بات پر چڑ چڑھی لیکن عالیہ نے بات کرنے پر اصرار نہیں کیا۔ ہاں لیکن سارہ کی آنکھوں میں اسے دیکھتے ہوئے تاسف ضرور اُبھرا۔
دوسری طرف ادھ کھلی کھڑکی سے نظر آتے چاند کو دیکھتے ہوئے وہ کہیں گُم ہونے لگی تھی۔ جب عالیہ کی آواز نے اسے چونکایا۔
”شادی کی تاریخ رکھی جارہی ہے کنول کی۔ ہم سب کو جانا ہے۔ اسی لیے فون کیا تھا تمہاری ماں نے۔”
”اچھا…” اس نے پلٹ کر عالیہ کو دیکھا۔
”اور یہ نہیں کہا کہ منی سے کہیے گا دعوت میں نئے کپڑوں کی ضد نہ کرے۔” عالیہ کو چپ سی لگ گئی۔ بیڈ پر بیٹھی سارہ نے افسوس سے آنکھیں بند کرکے کھولیں” ان کے کہنے سے کیا ہوتا ہے۔ منی!…. ہم سب بنائیںگے نئے کپڑے… صرف دعوت کے لیے نہیں موسم بدل رہا ہے، روٹین میں پہننے کے لیے بھی…”
اس کی بات ادھوری رہ گئی۔
”میں نہیں جاؤںگی۔” اس نے اپنی بات کا رد عمل دیکھنے کی کوشش نہیں کی۔ عالیہ نے ناک پھُلا کر ہونٹ بھینچے۔ سارہ نے اشاروں اشاروں میں ماں کو کچھ بولنے سے روکا۔ وہ وہی شکل لے کر پلٹ گئیں۔
وہ کچھ سوچ رہی تھی۔ وہ گُم تھی اور اس روپ میں سارہ نے اسے پہلی بار دیکھا تھا۔ اس نے اسے گم رہنے دیا۔
چودھویں کی چاند کی زرد شکل میں ایک منظر ابھررہا تھا۔
”تو تم نہیں رکوگی۔” اس کا لہجہ مایوس تھا۔
”بالکل نہیں۔” اس کا لہجہ اٹل تھا۔
چند لمحے خاموشی رہی پھر آواز ابھری۔
”میں گھر میں بات کروں۔”
”کیا بات۔”
”اپنی اور تمہاری شادی کی بات۔”
”کیا کہا؟ پھر سے کہنا ذرا کون سی بات۔”
”اپنی اور تمہاری شادی کی بات۔”
”پاگل ہو کیا۔ شکل دیکھی ہے اپنی آئینے میں۔”
نیم تاریک کمرے میں لائٹ آنے سے روشنی بھر گئی او رپنکھے کے پر ایک دوسرے کے تعاقب میں گھومنے لگے۔
”کیوں میری شکل کو کیا ہوا۔”
”شکل کو نہیں تو عقل کو ہوا ہوگا۔”
وہ اطمینان سے دھپ سے واپس بیٹھ گئی۔ سال خوردہ تخت کی لکڑیاں احتجاجاً چیخ اٹھیں۔
”کیوں میری عقل پر کیوں شک ہوگیا۔ دو تین سال کا کانٹریکٹ ہوگیا ہے میرا۔”
”تو کیا ہوا…. تین سال بعد کیا ہو گا؟”
اس کا سوال بھید بھرا ہونے کے باوجود واضح تھا۔
”اس کے بعد دوسرا کانٹریکٹ ہوجائے گا۔”
”اور اگر نہ ہوا تو… تمہاری اماں، ابا اور بہنیں کچا چبا جائیںگی مجھے…” اس نے ہاتھ میں پکڑا کچاامرود اسے دکھاکر دانتوں سے بھنبھوڑا۔
”کیوں… ایسی بھی جلاد نہیں وہ۔” اسے ناگوار گزرا تھا۔
”ایسی ہی جلاد ہیں بیٹا۔ تم نے انہیں سمجھا کیا ہے۔ ماں بہنیں ہوںگی وہ تمہار ے لیے۔ میرے لیے وہ میری اماں اور کلو جیسی ہی ہیں۔”
”منی… بُری بات ہے۔ ایسے نہیں کہتے۔”
”اچھا۔” اس نے بڑی تابع داری سے سر ہلایا۔
”پھر دیکھ کیسے کہتے ہیں۔ ”منہ میں جمع شدہ کچے امرود کا بیج بھر اگتا وا.. اس نے تُھو کرکے پاس فرش پر تھوکا۔ پھر اس کی طرف منہ موڑ کر ایک گہری سانس لی۔ وہی فیصلہ کن سانس ”دیکھ خالد۔ تو مجھ سے شادی کے خواب دیکھنا چھوڑدے میں کبھی تجھ سے شادی نہیں کروںگی بلکہ تو سمجھ لے میں کسی سے بھی شادی نہیں کروںگی اور تجھ سے تو بالکل نہیں۔”
اس کا دو ٹوک، کٹھوررویہ، بے لچک آواز اور الفاظ بہت سوں کے چہرے دھواں کردیتے تھے۔ خالد بھی ان میں سے ایک تھا۔
”کیوں۔ کیا کیڑے پڑے ہیں مجھ میں؟”
”کیڑے تجھ میں نہیں تیرے خاندان میں ہیں اور سب سے بڑا کیڑا تو یہی ہے کہ تیرا میرا خاندان ایک ہی ہے اور یہ پورا خاندان بہت گھٹیا ہے، خاص طور پر اس خاندان کے مرد تو بہت ہی نیچ اور گھٹیا ہیں۔”
وہ ذرا رکی پھر ہاتھ اٹھاکر بولی۔
”چل تجھے چھوڑکے پر تیرے میرے باپوں کو چھوڑ کر نہیں۔”
اس نے جو تھوڑا سا منہ کھولا تھا واپس بند کرلیا۔ وہ جانتا تھا جب وہ اپنی اصلیت پر آتی تھی تو بدزبانی میں اسے کوئی ہرا نہیں سکتا تھا۔
”اور اس خاندان کی ساری عورتیں دنیا کی سب سے بڑی اور خطرناک ڈائنیں ہیں۔ منحوس ماریاں۔ ایک دوسرے کے حق مار کر اپنی خوشی پوری کرنے والی۔ بچپن سے شادی کے خواب دیکھنے والی۔”
خالد کا اتنا سا منہ نکل آیا۔ لمحہ بھر کوو اپنی پسند پر افسوس بھی ہوا لیکن وہ جانتا تھا محبت خود بڑی چنڈال چیز ہے۔
”اور تو خود… تو خود بھی تو اسی خاندان کی ہے۔”
”ہاں تو کیا ہوا۔ میں تو خود سب سے بڑی، بلکہ ان سب کی ماں ہوں میں… کیا ملے گا تجھ سے شادی کرکے مجھے۔ وہی گالیاں، وہی کوسنے اور بلکہ محبت کی شادی کرنے پر بے شرمی اور بدکرداری کے طعنے… چل چل… یہ سب تو مجھے اپنے گھر میں بھی مل رہا ہے۔ پھر میں ایک مرد کی غلامی کیوں کروں…. میں تو کبھی نہ کروں تجھ سے شادی میں یہ خواب نہیں دیکھتی۔”
اس نے خالد کا چہرہ دیکھنے کی کوشش نہیں کی۔زبان کا زور لگاکر اندر کہیں داڑھ میں پھنسا ہوا امرود کا بیج نکال کر ہوا میں اڑایا۔
”اور تیرے خواب کیا ہیں۔”
چاروں شانے چت ہوکر بھی خالد نے اسے کرنٹ سا مارا تھا۔
اس کی ساری بے نیازی اڑ نچھو ہوگئی۔ اب وہاں بیٹھنا بے کار تھا۔
”میرا خواب تیرے بس کی بات نہیں۔”
وہ بات ختم کرکے اٹھی لیکن آگے نہیں بڑھ سکی خالد نے اس کی کلائی تھام لی تھی۔
”اور تیرے بس کی ہے؟”
اس نے پلٹ کر خالد کی آنکھوں میں جھانکا اور دانت جماکر بولی۔
”میں وہی بات کرتی ہوں جو میرے بس کی ہو… پتا ہے کیوں؟”
خالد نے سوال نہیں کیا۔
”کیوں کہ مجھے بے بسی سے نفرت ہے۔” اس نے ہاتھ چھڑالیا اور پلٹ گئی۔
”اسی لیے تونے خالو کو اپنے تایا کے آگے ذلیل کروایا۔”وہ دروازے پر رکی تھی لیکن ہلی نہیں۔
”تو کیا ہوا…. میں نے کسی کو ذلیل نہیں کروایا، جو خود ہمیشہ دوسروں کو ذلیل کرتا ہے۔ اسے خود بھی کبھی نہ کبھی ذلیل ہونا پڑتا ہے۔”
******
وہ ایک بے حد پرانی اور خستہ حال بلڈنگ تھی۔ تاریک سیڑھیاں اور اوپر تلے فلیٹوں کی سیلن زدہ بھرمار میں سے ایک فلیٹ کسی نام ور فوٹو گرافر کا اسٹوڈیو بھی ہو سکتا ہے۔ اس کا دل نہیں مانتا تھا لیکن فی الحال جیز کی باتوں پر بھروسہ کرنے کے سوا اور کوئی چارہ بھی نہ تھا۔
اسے پورٹ فولیو بنوانا تھا اور اس کے لیے جو رقم درکار تھی۔ وہ چُرائے گئے پیسوں سے چار گنا زیادہ تھی۔ یوں بھی اپنے پاس موجود رقم کا بڑاحصّہ، اپنے قیمتی موبائل سمیت وہ جیز کی دوستی پر وارچکی تھی۔ اور دل ہی دل میںٹھان لیا تھا۔
ایک بار اسے کسی اچھے فوٹو گرافر کے پاس ایک چانس مل جائے تو وہ جیز کو سب سے پہلے ٹھُڈا ماردے گی۔ فی الحال تو اسے اس کی چاکری کرنی تھی اور ہر حال میں کرنی تھی۔
یہی اس کا احسان تھا کہ وہ اسے بنا کسی جان پہچان کے کسی فوٹو گرافر کے پاس لے آئی تھی۔
بے حد تنگ فلیٹ میں صرف دو کمرے اور ایک لاؤنج تھا۔ سب دیواروں پر بڑی بڑی تصویریں چسپاں تھیں اور ان سب تصویروں میں صرف ایک عنصر نمایاں تھا۔ عریانی اور بے ہودگی کا عنصر….
”Hey Jazz! Nice to see you here.’
برابر والے کچن سے ایک عجیب و غریب چیز نمودار ہوئی اور جتنی دیر میں منتشا اس کے مرد اور عورت ہونے کے درمیان فیصلہ کرپاتی، وہ چیز بڑے بے تکلف انداز میں پہلے جیز اور پھر اس کے گلے آن لگی۔
بے حد تیز پرفیوم اور بدبو کا بھبھکا ایک ساتھ نتھنوں سے ٹکرائے۔ وہ بے اختیار جھجھک کر پیچھے ہٹی۔ اس کا ہٹنا جیز اور اس لڑکے نے بہ غور نوٹ کیا۔ اور ٹھٹھا لگایا۔
”O! So sweet, new innocent chick!”
بے باک انداز میں اس کے گال چھوتا ہوا وہ سامنے کے اس کمرے میں داخل ہوگیا جسے اس نے خود ہی اپنے آفس کا نام دیا تھا۔ اور اس کے سیٹ سنبھالنے تک بالآخر منتشا نے اس عجیب و غریب چیز کو لڑکا مان لیا تھا۔
چند ایک رسمی اور غیر رسمی باتوں کے بعد، وہ بڑی مشکل سے اس کے فوٹو شوٹ کے لیے تیار ہوا لیکن وہاں روایتی فوٹو سیشن والی کوئی کہانی نہیں تھی۔
ڈیل فائنل کرنے کے بعد اس نے منٹوں میں دیوار پر ایک سیاہ کپڑا لٹکایا، کمرے کے کونے میں رکھا جدید ڈیزائن کا کاؤچ گھسیٹا اور منتشا کو وہاں بیٹھنے کا اشارہ کرتے خود کمرے سے نکل گیا۔
‘کیا یہ…. بس یہ ان کپڑوں میں اس طرح….”
وہ کچھ گڑ بڑا سی گئی۔
”ہاں تو تمہارے لیے، میک اپ ایکسپرٹ اور ڈیزائنر بوتیک سے کنسلٹ کرے گا کیا؟”
جیز اس کی حیرانی کے جواب میں طنزیہ انداز میں بول کر لاپروائی سے اپنے بیگ سے سگریٹ نکال کر سلگانے لگی۔ منتشا نے ناگواری سے اسے دیکھا پھر اپنے دل کی تیز ہوتی دھڑکنوں پر قابو پانے لگی۔
یہ کوئی معمولی بات نہیں تھی کہ پہلی ملاقات میں ہی کوئی فوٹو گرافر اس کی تصویریں کھینچنے کے لیے رضامند ہوگیا تھا۔ چاہے تیسرے درجے کا ہی سہی لیکن بہرحال وہ اپنا فوٹو سیشن کروانے والی تھی۔ جس کے بار ے میں اس فوٹو گرافر نے وعدہ کیا تھا کہ وہ ان تصاویر کو آگے اپنے کانٹیکٹمیں فارورڈ کرے گا اور ساتھ ہی کسی اچھے فیشن میگزین میں ان تصاویر کی اشاعت کے لیے سفارش بھی کردے گا۔
ذرا دیر بعد وہ کمرے میں داخل ہوا تو اس کے ہاتھ میں ایک جدید قسم کا بڑے لینس کا کیمرہ تھا۔
منتشا نے بے اختیار اپنی ہتھیلیوں کو بھیگتے محسوس کیا۔
”اوہ کم آن بے بی۔ ابھی تک ایسے ہی بیٹھی ہو۔ ہری اپ….” اس نے اسے یوں بیٹھا دیکھ کر خود ہی نزدیک آکر اس کا ہاتھ تھام لیا۔
”Ohhh you are so nervous baby”





اس نے بے حد بناوٹی انداز میں اسے دیکھ کر اس طرح پوچھا کہ اپنے موبائل میں غرق ہوئی جیز بھی سر اٹھاکر اسے دیکھنے لگی۔
”نہیں میں… میرا مطلب ہے۔ میرے تو کپڑے بھی بہت معمولی ہیں اور میک اپ بھی کوئی خاص نہیں۔”
تھوک نگل کر اپنی کم اعتمادی کو کنٹرول کرتے ہوئے اس نے ایک قابلِ غور اعتراض پیش کیا۔
”او… یو ڈونٹ وری بے بی…. میں تمہیں اس طرح فکس کردوںگا کہ تم خود کو بھی پہچاننے سے انکار کردوگی۔ ناؤ کم آن….”
اس نے معمول کے انداز میں اسے کاؤچ کی طرف دھکیلا اور آنے والے محض چند لمحوں میں اس نے مختلف زاویوں سے اس کی پانچ یا چھے تصاویر لیں۔
اس دوران اس کا فشارِ خون اوپر سے اوپر ہی ہوتا گیا۔ باوجود کوشش کے وہ اپنے ہاتھوں کی لرزش پر قابو نہ پاسکی۔ چہرے پر ابھر آنے والی پسینے کی بوندوں کو اس نے محسوس کیا…
شوٹ ختم ہوتے ہی اس نے ایک گہری اطمینان بھری سانس خارج کی اور کاؤچ سے اٹھ کر واپس ٹیبل کے سامنے پڑی چیئرز کی طرف چلی آئی۔
اسی فوٹو شوٹ کے ختم ہوتے ہی اس نے جوش، ولولے اور زندہ دلی کی ایک نئی لہر خود میں محسوس کی۔ اسے لگ رہا تھا جیسے وہ فیشن اور کلچر کی کسی نئی دنیا میں قدم رکھنے والی ہے اور اس دنیا سے فقط ایک قدم ہی دور ہے وہ اس قدم بھر کے فاصلے کو لمحوں میں طے کر لینا چاہتی تھی۔ اسے نہ صرف اپنی ذہنی بلکہ جسمانی صلاحیتوں پر بھی پورا بھروسہ تھا۔ وہ دنیا فتح کرنے نکلی تھی اور اس کے انداز میں ابھی سے ایک فاتح کی سی مغرور جھلک نے بسیرا کرلیا تھا۔
اس کے خوابوں کی دنیا، دولت اور شہرت کی باندیاں اس کے خواب محل میں اپنی نوکری کی عرضیاں لے کر آنے ہی والی تھیں کہ اس کمرے کا دروازے کافی زوردار انداز میں کھلا۔
کرسی گھسیٹ کر بیٹھی ہوئی منتشا اور کیمرے پر جھکے فوٹو گرافر اور جیز ایک ساتھ متوجہ ہوئے۔
کمرے میں کسی نے قدم رکھا تھا۔
اس کی شخصیت میں ظاہراً کوئی خاص بات نہیں تھی۔
وہ ایک قدرے موٹی، سانولی رنگ والی لیکن دورِ جدید کے فیشن کے تقاضوں سے آگاہ لڑکی تھی۔ اس کا پہناوا…. لباس، ہیئراسٹائل، میک اپ، جوتے اور بیگ سادہ ہونے کے باوجود بہ زبانِ خود اپنی قیمت کا تذکرہ کرتے محسوس ہورہے تھے۔
اس کے چہرے پر مہاسوں کے نشان تھے اور بڑا ہی کوئی بے نیازی بھرا سا سخت تاثر تھا جس نے اس کی شخصیت میں رہی سہی کشش کو بھی ماند کردیا تھا۔
منتشا نے اس کے چند قدموں کے فاصلہ طے کرنے تک اس کا پوسٹ مارٹم کرڈالا تھا۔ مجموعی طور پر اس کے اندر چونکا دینے والی کوئی بات نہیں تھی۔ سوائے اس کی ظاہری شخصیت سے جھلکتی امارت کے مگر وہ پھر بھی چونک گئی اور وجہ وہ بدلاؤ تھا جو اس کے نمودار ہوتے ہی اس فوٹو گرافر اور جیز کے رویوں میں اچانک در آیا۔
دونوں نہ صرف اسے دیکھتے ہی جی جان سے اس کی طرف متوجہ ہوگئے تھے بلکہ چند لمحوں پہلے تک جی جان سے اس کی تصاویر کو سراہنے والے سرے سے بھول ہی گئے کہ ان کے ہاتھوں میں کوئی کیمرہ نامی شے بھی تھی۔ فوٹو گرافر کے چہرہ ایک چاپلوسانہ مسکراہٹ سے کھِل اٹھا اور جیز… سب سے زیادہ چونکا دینے والا انداز جیز کا تھا۔ کسی کو خاطر میں نہ لانے والی اس کے لیے اپنی سیٹ خالی کرچکی تھی۔
منتشا البتہ اب کسی شاک کے زیر اثر تھی۔
آنے والی نے اپنے ہاتھ میں پکڑا مہنگا اور جدید موبائل، بیگ سمیت سامنے ٹیبل پر رکھا اور کرسی پر کسی ملکہ کی سی شان و شوکت سے برا جمان ہوگئی۔
منتشا بے حد غور سے اس کے گندمی لیکن بے حد چمک دار اور ملائم ہاتھوں کو دیکھنے لگی جس پر انگلیوں سے ذرا گہرے رنگ کی کیوٹکس بھی تھی اور ایک نازک انگوٹھی شہادت کی انگلی کے درمیانی جوڑ سے ذرا اوپر پھنسی تھی۔ اس نے اس کی چمک سے متاثر ہوکر خود ہی اندازہ کرلیا کہ وہ ایک ہیرے کی انگوٹھی تھی۔ اس کی مرعوبیت میں کچھ اضافہ ہوا۔
”Just a minute Ma’am..”
فوٹو گرافر جس تیزی سے اسے مخاطب کرکے کمرے سے باہر گیا اور کیمرہ رکھ کر بوتل کے جن کی طرح حاضر ہوا اس سے ظاہر تھا کہ وہ کوئی معمولی شخصیت نہیں۔
”جی حکم کریں…”
‘کچھ بات کرنی ہے… مگر اکیلے میں….”
اس نے جواب دینے خاص تاخیر کی اور ان دونوں کو خاص تنقیدی نگاہوں سے دیکھا۔
”ارے کوئی بات نہیں۔ آپ آئیں میرے ساتھ۔”
وہ بڑی تابع داری سے اسے لے کر برابر والے کمرے میں گم ہوگیا۔
”یہ کون مادام ہیں۔”
منتشا ان کے جانے کے بعد جیز کی طرف مڑی تو اس کے چہرے پر عقیدت مندوں کے سے تاثرات دیکھ کر خود بھی بری طرح متاثر ہوگئی۔
”بڑی اونچی چیز ہے۔ کروڑ پتی باپ کی بیٹی اور ملک کی نام ور میک اپ آرٹسٹ…. کمال ہے تم نے آج انہیں دیکھا نہیں بڑی بڑی ماڈلز کو میک اوور دے کر کہیں سے کہیں پہنچادیا۔ فیشن انڈسٹری میں بڑا نام ہے اس کا۔”
”میں نے تو نام تک نہیں سنا۔ کیا نام ہے…”
”تبسم آفاق راؤ…”
جیز نے جواب دے کر اپنے موبائل کو دیکھا، جس پر کسی کی کال آرہی تھی۔ وہ سیل کان سے لگاکر ذرا دور چلی گئی۔
منتشا کے کانوں میں اس کی آواز گونجنے لگی۔
”بڑی بڑی ماڈلز کو میک اپ اوور دے کر کہیں سے کہیں پہنچا دیا۔ فیشن انڈسٹری میں بڑا نام ہے ان کا۔”
اس کے کانوں میں اس کی آواز گونج رہی تھی اور آنکھیں ٹیبل پر رکھے ایک قیمتی موبائل کے گرد گھوم رہی تھیں۔
******
عالیہ اور سارہ کے اصرار پر اسے کنول کی تاریخ میں گھر آنا ہی پڑا۔
شاکنگ پنک اور جدید فیشن کے سفید لباس میں وہ خود کو ساری لڑکیوں سے الگ، منفرد اور بہتر محسوس کررہی تھی لیکن انفرادیت کا یہ خوشگوار احساس نظام الدین کی جہالت کے مظاہروں کے آگے ماند سا پڑ گیا۔
وہ لوگ تاریخ والے دن سے ایک دن پہلے شام میں گھر پہنچے تھے۔
وہاں کا وہی ماحول تھا۔
باورچی خانے میں پسینہ پسینہ ہوتی صابرہ اور اس کا ساتھ دینے میں ہلکان کنول… جس نے منتشا کو دیکھ کر ذرا سکون کی سانس لی لیکن وہ اس سانس کو باہر نہ نکال سکی۔
”زیادہ خوش ہونے کی ضرورت نہیں۔ میں کسی کام میں ہاتھ نہیں بٹاؤںگی۔”
کنول کا باہر آتا سانس اندر ہی اٹک گیا۔
”ویسے بھی میں نے فیشل کروایا ہے…. چل چھوڑ تجھے نام کا کیا پتا بس یہ سمجھ لے بہت مہنگا ہوتاہے۔ چولہے کی گرمی سے سب ناس ہوجائے گا۔”
کنول کا چہرہ تن گیا۔
”اور سُن… یہ اتنا رش کیوں جمع کرلیا۔”
اس نے برآمدے میں زور و شور سے باتیں کرتی اپنی دونوں پھوپھیوں کو دیکھا جو دور سے دیکھنے پر جھگڑتی ہوئی معلوم ہوئی تھیں۔
طول و عرض میں پھیلی ہوئی کرخت آوازوں اور عام سی شکل وہ صورت والی پھوپھیوں کو منتشا اتنی ہی اہمیت دیتی تھی جتنی وہ دونوں اسے دے سکتی تھیں یعنی بس دعا اور سلام اس کے بعد خدا حافظ….
”ابا نے بلایا ہے۔”
”کیوں… اور کب سے آئی ہوئی ہیں۔”
”پرسوں آئی تھیں۔”
کنول خودبھی ان کی خدمتیں کرکے پاگل سی ہوئی جارہی تھی۔ … اس کے ذرا سا کریدنے پر پھٹ سی گئی۔
”اماں نے ماموں کو بلانے کا بولا تھا۔ بس ابا کو ضد چڑھ گئی کہ ماموں آئیں گے تو پھوپھیاں بھی اور چاچا کو بھی اسی لیے بلایا ہے۔” منتشا اپنے باپ کی عادت و خصلت سے اچھی طرح آگاہ تھی۔ صابرہ اس تاریخ ٹھہرانے کی رسم کو جتنا مختصر کرنے کی خواہش کرتی، نظام الدین اتنے ہی مہمان بلاتا چلا جاتا۔
”ماموں تو کل ہی آئیںگے، شام میں یہ اللہ جانے کب جائیںگی۔” کنول ناک تک بھری ہوئی تھی۔ اسی وقت ایک پھوپھی کی بیٹی جو عمر میں منتشا سے کافی کم عمر تھی نزدیک آکر اس کا دامن کھینچنے لگی۔
”منی باجی… منی باجی…”
اس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ کھینچ کر ایک تھپڑ اس کے نازُک گال پر جڑدیا۔
”ہئے ہئے منی کیا پاگل ہوگئی۔ بچی کو کتنی زور سے ماردیا۔”گلا پھاڑ کر رونے پر پھوپھی اس کی طرف متوجہ ہوئی۔
”تو کیا ہوا۔ پتا نہیں کیا چیز کھاکر میرے صاف کپڑے سے ہاتھ پونچھ دیئے پاگل نے۔”
اس کی آواز صاف واضح اور ٹھوس تھی۔ پھوپھی نے فی الفور اسے کچھ کہنے کا ارادہ نظام الدین کی عدالت کے لیے سنبھال رکھا۔ کیوں کہ وہ اس وقت گھر پر نہیں تھا۔
”اس طرح کا رویہ رکھوگی تو جلد ہی رخصت ہوجائیںگی۔”
اس نے پلٹ کر کنول کو آنکھ ماری اور باہر چلی گئی۔
باقی کا سارا وقت وہ اپنے تئیں کسی شہزادی کی طرح فارہ کے ساتھ ساتھ یہاں وہاں پھرتی رہی۔
تقریب میں اس کی تیاری دیکھ کر خالد دل تھام کر رہ گیا۔ لیکن دوسری طرف بے نیازی کا ایک عجیب ہی عالم تھا۔




Loading

Read Previous

باغی — قسط نمبر ۴ — شاذیہ خان

Read Next

گلّو اور لومڑ

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!