تو کیا ہوا —– فرحین اظفر

وہ بہت تیزی سے اپنا سامان اور ضروری چیزیں بیگ میں ٹھونس رہی تھی۔ یہ چھوٹا سا ہینڈ بیگ اس نے احتیاطاً خرید کر رکھ لیا تھا۔ اسے اندازہ تھا کہ شہنام سے تعلقات استوار ہوجانے کے بعد اسے کبھی بھی اس بیگ کی ضرورت پڑسکتی ہے۔افراتفری میں سامان اکٹھا کرنے کے دوران ہی اس نے زمین پر مُڑ اُتڑا شہنام حقانی کا کارڈ بھی دیکھ لیا تھا۔ اب تو شک کی کوئی گنجائش ہی نہیں بچی تھی۔ یہ کارڈ تبسم یاجس کسی نے بھی دیکھا تھا۔ اب یہ بات تبسم سے کسی طور چُھپی نہیں رہ سکتی تھی اور اس کے دھکے دے کر نکالنے سے پہلے وہ خود یہ جگہ چھوڑدینا چاہتی تھی۔
اس نے گریبان میں ہاتھ ڈال کر نوٹوں کی گڈی نکالی جو آج شام ہی شہنام نے اس کی نذر کی تھی۔اسی وقت اس کے سر میں درد کی شدید لہر اٹھی۔ اس نے سر کو دو تین جھٹکے دیے۔
آج پہلی بار شہنام کے بے حد اصرار پر اس نے تلخ جام کے چند گھونٹ حلق سے اتارلیے تھے۔ ان کی کڑواہٹ اور نشے سے ابھی تک اس کا سر چکرارہا تھا۔
ایک گہری سانس لے کر اس نے بیگ کی زپ بند کی اور خود کو ریلیکس کرنے خاطر دونوں ہاتھوں سے چہرے کا پسینہ صاف کیا۔اسی وقت اس کی پشت پر موجود دروازے پر کھٹکا ہوا۔اس کی سانس رک سی گئی۔
******
”باجی، کھانا کھالیں۔”شاکرہ کی بیٹی کھانے کی ٹرے لیے کھڑی تھی۔ اس کی رُکی ہوئی سانس بحال ہوئی۔
”سنو۔” اس نے کھانے کی ٹرے رکھ کر پلٹتی لڑکی کو روکا۔
”تبسم میم کیا کررہی ہے۔”
”پتا نہیں باجی اپنے کمرے میں ہوں گی۔” اس کا انداز اس قدر لاپرواہ تھا۔ جیسے اسے کچھ پتا ہی نہ ہو۔ ٹیشا کے دل کو ذرا اطمینان ہوا۔
اس کے جانے کے بعد اس نے کھانے کی طرف دیکھا۔ دوپہر کا کھانا کھائے کافی وقت گزرچکا تھا اور اتنی دیر کی ٹینشن کے بعد خالی معدے میں بھوک کا احساس جاگ اُٹھا تھا۔
کھانے سے اٹھتی خوش ذائقہ مہک نے اس کی اشتہاء کو کچھ اور ہوا دی۔ اور وہ نہ چاہتے ہوئے بھی قریب بیٹھ کر سب سے ہپلے اورنج جوس کا گلاس غٹاغٹ چڑھاگئی۔
زیادہ دیر نہیں گزری تھی۔ جب کمرے کا بھڑا ہوا دروازہ کسی نے دھاڑ سے کھولا۔ وہ اپنی جگہ بیٹھے بیٹھے اچھل سی گئی۔
دروازے پر تبسم کھڑی تھی جو اسے اچھلتا دیکھ کر مسکراتی ہوئی اندر آگئی۔
”بہت خوب… کھانا تناول فرمایا جارہا ہے… طبیعت سیر ہوچکی ہو اور آپ کی اجازت ہو تو ایک بات پوچھوں۔”
اس کا ہاتھ رُک گیا۔ اس نے ٹرے ایک طرف کھسکادی۔
”ایک کیوں آپ دس سوال پوچھیں۔” اس کا اعتماد لوٹ رہا تھا۔
”مجھے صرف ایک ہی سوال کا جواب چاہیے۔ آج دو پہر سیلون سے چھٹی لے کر تم کہاں گئیں تھیں۔”
”کہاں گئی تھی۔ کیا مطلب؟ درد تھا میرے، گھر آگئی تھی۔”
اس نے نظریں چُراتے ہوئے جواب دیا۔ سچ تو یہ تھا کہ جب تبسم اپنی گہری آنکھیں مقابل کے چہرے پر گاڑتی تھی۔ تو ان کے تیر سے بچنا ناممکن سا ہوجاتا تھا۔
”جھوٹ بول رہی ہو تم… بتاؤ کس سے ملنے گئی تھیں۔”
ٹیشا نے ایک گہری سانس لے کر اسے دیکھا۔
”جب یہ پتا چل گیا ہے کہ کسی سے ملنے گئی تھی۔ تو یہ بھی پتا ہوگا کہ کس سے … مجھ سے پوچھنے کی زحمت کیوں۔”
”کیوں کہ میں تمہارے منہ سے تمہاری بے غیرتی کی کہانی سننا چاہتی ہوں۔” اس کی آنکھوں اور لبوں سے شرارے سے نکل رہے تھے۔
”میں آپ کے منگیتر شہنام سے ملنے گئی تھی اور پہلی بار نہیں۔ اس سے پہلے بھی جاچکی ہوں ملے… اور کس بے غیرتی کی بات کررہی ہیں آپ۔ خود آپ نے میرے ساتھ کیا کیا….”
اس کا لہجہ بھی تیز ہوگیا۔ وہ اُٹھ کر کھڑی ہوگئی۔
”میں نے… میں نے کیا کیا۔”
”آپ نے مجھ سے ماڈلنگ کا چانس دینے کا جھوٹ بولا۔ سبز باغ دکھائے کہ آپ مجھے راتوں رات شہرت اور نام وری کی بلندیوں پر پہنچادیں گی اور آپ نے یہاں لاکر مجھے ایک تھرڈ کلاس نوکری میں پھنسادیا۔ سال ختم ہونے والا ہے۔ کیا کوشش کی آپ نے میرے لیے۔ سوائے مجھے بے بس کرنے۔ میری اڑان کو روکنے کے لیے میرے پر کاٹنے کے سوا اور کیا کیا آپ نے۔”





”میں نے تم پر اتنے احسانات کیے۔ تمہیں اس گھر میں پناہ دی۔ نوکری دی رہنے کا ٹھکانہ دیا۔ یہ تمہارے جسم کے کپڑے، پیروں کے جوتے اور پیٹ میں کھانا صرف میری وجہ سے ہے۔ یہ جو تم عزت سے یہاں بیٹھی زندگی گزار رہی ہو۔ یہ بھی میں نے دی تمہیں اور تم کہتی ہو کہ میں نے کیا کیا۔”
ٹیشا نے جواب دینے کی بہ جائے سر کو ہلکا سا جھٹکادیا لیکن یہ ہلکا سا جھٹکا کافی زوردار محسوس ہوا اسے اپنے سر میں دھمک سی محسوس ہوئی۔
”شاید آج امیں نے پی کر اچھا نہیں کیا۔” اس نے دل میں اعتراف کیا۔
تبسم بہ غور اس کی کیفیت نوٹ کررہی تھی۔
”تم سوچ بھی نہیں سکتیں کہ تمہیں پولیس سے بچاکر میں نے کتنا بڑا احسان کیا تم پر۔ میں اچھی طرح جانتی تھی کہ اپنی دوست کی جان تم نے لی لیکن میں چپ رہی۔ ورنہ اگر میں منہ کھول دیتی تو آج کسی جیل کی کال کوٹھری میں پڑی اپنے نصیبوں کو رورہی ہوتیں۔”
”آپ…” اس نے لمحہ بھر رک کر خود کو سنبھالا۔
”آپ ایسا کچھ نہیں کرسکتیں۔ کیوں کہ یہ سب آپ کے مفروضے ہیں۔ میرے خلاف بولنے کے لیے آپ کے پاس کوئی ثبوت نہیں۔ رہی بات کال کوٹھری میں سڑنے کی۔ تو آپ کا یہ سرونٹ کوارٹر بھی کسی کال کوٹھری سے کم نہیں۔ اگر میں یہاں سے نکلنے کا سامان کرسکتی ہوں تو وہاں سے بھی نکل جاتی۔ آپ نہ تب کچھ کرسکتی تھیں۔ نہ اب….”
اس کی بات ادھوری رہ گئی۔ اسے اس بار زور کا چکر آیا۔ اس نے ہوا میں ہاتھ لہرا کر خود کو سنبھالا دیا اور تبسم کو زور دار ہنسی ہنستے دیکھا۔وہ ایسے کیوں ہنس رہی تھی۔لمحے بھر کر اس کے دل میں اک خوف سا جاگا۔
”میں تب بھی بہت کچھ کرسکتی تھی اور اب بھی بہت کچھ کرسکتی ہوں تمہیں اندازہ نہیں ہے میری طاقت کا، میری پاور کا۔”
اسی وقت کمرے کی کھڑکی کے دونوں پٹ زور دار آواز سے کھل گئے۔ باہر تیز طوفانی ہواؤں کے جھکڑ چلنا شروع ہوگئے تھے۔ موسم تو صبح سے ایسا ہی گرد آلود تھا۔اس نے پلٹ کر دیکھا اور ایک قدم آگے بڑھانا چاہا تاکہ کھڑکی بند کرسکے مگر کھڑکی کے راستے اندر آنے والی دھول مٹی اس کی آنکھوں میں گھس گئی۔اسی لمحے ایک اور زور دار چکر نے اس کی ساری جسمانی توانائی نچوڑ ڈالی اس نے خود کو لڑکھڑا کر زمین پر گرتے دیکھا۔ کچھ دیر کے لیے ایسا لگا جیسے پورے جسم سے جان نکل سی گئی ہو۔اس کی آنسوؤں میں تکلیف تھی۔ اس نے اُٹھنے کی کوشش کی لیکن اُٹھا نہیں گیا۔ تبسم اب خود آگے بڑھ کر کھڑکی بند کررہی تھی۔ اس کے چہرے پر ایک اطمینان بھرا سپاٹ طاری تھا۔
”کیا… کیا تبسم نے مجھے کھانے میں زہر ملا کر کھلایا؟”
مارے خوف کے اس کی آنکھیں پھٹنے سی لگیں۔
”کیا ہوا تمہیں۔ گر کیوں گئیں۔ لگتا ہے چکر آرہے ہیں۔”
وہ اب اسی اطمینان کے ساتھ کمرے کا دروازہ بند کرکے واپس اس کے پاس آئی اور اپنی اونچی ہیل والی سینڈل سمیت کے سر کے پاس کھڑی ہوگئی۔
”تم نے… تم نے مجھے زہر کھلایا ہے۔” اس نے چکراتے سر کو تھام کر نظریں اُٹھا کر اسے دیکھا۔
وہ خود سے دور بہت اونچی، بہت اونچی بلند و بالا کسی عمارت کی طرح ایستادہ نہیں۔
”زہر… نہیں بھئی میں کیا پاگل ہوں، جو اتنی آسانی سے تمہیں مرجانے دوں۔”
وہ اس کے سرہانے کے پاس سے ہٹ کر پیچھے آئی اور دونوں پیر اس کی کمر کے دائیں بائیں ڈال کر گھٹنوں کے بل بیٹھ گئی۔
ٹیشا کی آنکھیں بند ہونے لگیں۔
تبسم نے اس کی آنکھیں بند ہوتی دیکھ کر اس کے دائیں گال پر زوردار طمانچہ رسید کیا۔ اس کی گردن دوسری طرف گھوم گئی۔ آنکھیں پوری کُھل گئیں۔ ”کیا کرسکتی ہوں میں۔ بتاؤں تمہیں۔”
اس نے اپنے لمبے ناخنوں والے دونوں ہاتھ اس کی گردن پر رکھ کر دباؤ ڈالنا شروع کردیا۔
”نہیں… نہیں۔” اس کے حلق میں پھنسی پھنسی آواز نکلی۔
”تم مجھے جان سے نہیں مارسکتیں… تم مجھے مارنا چاہتی ہو۔”” میں ….؟ ہاں کیوں… کیا ہوا۔”
اس کے ہاتھوں کا دباؤ مسلسل بڑھتا رہا۔ ”میں، میں مرجاؤں گی…” اس کی آواز کسی سرگوشی سے زیادہ نہیں تھی۔
”تو… تو کیا ہوا۔ اچھا ہے مرجاؤگی تو زمین سے ایک ناپاک وجود صاف ہوجائے گا۔”





اس نے مزاحمت کی آخری کوشش کی اور پوری قوت سے اس کے ہاتھ اپنی گردن سے ہٹانے کی کوشش کی لیکن اپنی بھرپور کوشش کے باوجود، اس کے ہاتھ محض بے جان سے انداز میں تبسم کے ہاتھوں کو چھوکر رہ گئے۔
اس کی آنکھوں کی پُتلیاں چڑھنے لگیں۔ دل کی دھڑکن کی دھمک کانوں میں گونجنے لگی۔
”تم سمجھتی تھیں۔ تم جس کو چاہوگی اپنی انگلیوں پر نچاؤگی اور کوئی تمہاری حرکتوں کو جان نہیں سکے گا۔”
تبسم کچھ بول رہی تھی۔ لیکن وہ کچھ اور سُن رہی تھی۔
”تو کتنی ڈھیٹ ہے منی!”
”تجھے شرم نہیں آتی۔”
اس کا ذہن الٹ پھیر کررہا تھا۔ لب کسی اور کے تھے اور آوازیں کسی اور کی۔ اس سے اسے اپنے گھر والے یاد آئے۔ پوری شدت کے ساتھ….
”سچ بتا منی۔ وہ تصویر!…. وہ تیری تصویر ہے۔” ایک سہما ٹوٹا لہجہ سماعتوں سے ٹکرایا۔
”نہیں نہیں۔” وہ چیخنے کی کوشش میں منمنا کر رہ گئی۔
ذہن ڈوب رہا تھا۔ دم گھٹ رہا تھا اور آوازیں پیچھا کررہی تھیں۔ پھر ”اسی لیے تونے خالو کو ذلیل کروایا۔”
پرچھائیاں جل بُجھ رہی تھیں۔
”معاف کردو مجھے۔ پلیز کاغذ کو مت جلانا…. خدا کے لیے۔” بند پپوٹوں کے پیچھے اسے آگ کے بُلند ہوتے شعلے دکھائی دیتے۔ تپش بڑھنے لگی۔
اس نے آخری بار کسمسانے کی کوشش کی اور یہ آخری کوشش ناکام گئی۔ جبڑے کُھل گئے اور زبان باہر آنے لگی۔ دباؤ مسلسل بڑھ رہا تھا۔ سانس سینے میں پھنسنے لگی۔ درد۔ شدید درد… ناقابل برداشت درد۔
”کیا، کیا میری قسمت میں اس طرح مرنا لکھا ہے۔ میں یوں بے نام و نشان مروں گی۔” آخری سانس تک یقین کرنا مشکل تھا۔
”تو کیا ہوا… جیز بھی ایسے ہی مری تھی بے نام و نشان۔”
کوئی اس کے کان کے قریب چیخا اور آوازیں آخری بازگشت بن گئیں۔
”تو کیا ہوا!”
”تو کیا ہو!”

اختتام




Loading

Read Previous

باغی — قسط نمبر ۴ — شاذیہ خان

Read Next

گلّو اور لومڑ

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!