تو کیا ہوا —– فرحین اظفر

”او سوئیٹ ہارٹ پلیز کام ڈاؤن۔ میرا یہ مطلب نہیں تھا۔”
”ابھی اور اسی وقت میرے کمرے، میرے گھر سے نکل جاؤ۔ بے انتہا سرد آواز میں کہتے اس کی آنکھوں سے چنگاریاں سی پھوٹ رہی تھی۔
اس نے بے اختیار تھوک نکلا۔
”میرا منہ کیا دیکھ رہے ہو جاؤ….” اس نے بنا چلائے بے حد کمینے انداز میں موبائل کان سے لگاکر رخ موڑلیا۔
وہ وہیں کھڑا اس کی پشت کو انگاروں آنکھوں سے گھورتا رہا۔
”نہیں نہیں مسز گیلانی۔ میں بس ابھی پہنچ رہی ہوں۔ یہاں بس یونہی فضول کے چکروں میں الجھ گئی تھی۔”’ فضول پر اس نے بطور خاص دانت پیسے اور بات کرتے سے مڑ کر اپنی پشت پر دیکھا۔ اسے ہاتھ سے دوبارہ باہر نکلنے کا اشارہ کیا۔
احساس توہین سے مرد کا چہرہ سرخ پڑگیا۔ اس نے بے ساختہ ایک گہری سانس لے کر دل میں امڈتی غصے کی لہر کو قابو کیا۔ اور اس وسیع و عریض حسین و پرشکوہ محل سے باہر آتے ہوئے محل کی شہزادی کو اپنی پسندیدہ زبان میں خراج تحسین پیش کیا۔
”الو کی پٹھی…bloody bitch….”
******




آج کا دن بلاشبہ اس کی زندگی کا ایک یادگار دن تھا۔پہلے اس نے کسی فاتح کی سی شان کے ساتھ اپنی کلاس ٹیچر کے سامنے، اسکول کے میدان میں لگنے والے مینا بازار کے لیے، اپنی جگہ مخصوص کرانے کا معاوضہ ادا کیا۔ اس سے پہلے کہ ٹیچر کی آنکھوں میں امڈتی حیرت زبان تک آتی، وہ ایک شان بے نیازی سے واپس مڑگئی۔
مانیٹر نے چھے بائی چھے کی چند قدم جگہ پر بانس گاڑ کر اس کے نام کی پٹی چپکادی۔
”منتشا نظام الدین… بریانی”
”اف ….. اف …. اف….”
واپسی کے وقت تک بلکہ واپسی کے سفر میں بھی اس سفید پٹی پر سیاہ رنگ سے ٹائپ شدہ الفاظ خوشی کی ایک انوکھی لہر ہر بار اس کے رگ و پے میں بھردیے۔ اور وہ نئے سرے سے مسکرا اٹھتی۔
مستزاد یہ کہ واپسی میں گھر سے کافی فاصلے پر اسے خالد مل گیا۔ خالد کنول کا متوقع دیور تھا۔ اور اس کی بولتی آنکھیں اس بات کی گواہ تھیں کہ وہ اس رشتے کو یہیں تک محدود نہیں رکھنا چاہتا۔ وہ کنول کا متوقع بہنوئی بھی بننا چاہتا تھا اور منتشا یہ بات اچھی طرح جانتی تھی۔ وہ نہ صرف اس کی کمزوری سے واقف تھی بلکہ اپنی طاقت سے بھی… گو کہ خالد نے کبھی کھل کر اپنے جذبات کا اظہار نہیں کیا تھا۔ لیکن منتشا نے اپنی باتوں اور حرکتوں سے اسے بارہا ٹھیک ٹھاک زچ کیا تھا۔ مگر خالد نے کبھی اس کی باتوں کا برُا نہ منایا۔ کبھی اس کے طنزیہ لب و لہجہ پر غصہ نہیں کیا تھا۔ اس نے ہمیشہ منتشا سے دوستانہ ماحول میں، نرم انداز میں بات کی تھی۔
خالد ہی تھا جس کے سامنے اس کے اخلاقی رویے کی رو میں بہک کر منتشا کبھی کبھی اپنے گھر والوں کے جانبدار رویے کی شکایت کرجاتی تھی۔ خالد نے نہ کبھی دو ٹوک الفاظ میں اسے غلط کہا نہ گھر والوں کی بے جا حمایت کی۔ وہ ہمیشہ اس کا دل بڑھاتا اور تسلی دیتا ہوا ہی پایا گیا۔
اس کے اس رویے کو منتشا نے اکثر اپنے فائدے کے لیے استعمال کیا تھا۔ وہ یہ بات جانتے ہوئے بھی کہ منتشا اس کے جذبات سے واقف ہونے کے باوجود انہیں کوئی اہمیت دینے کو تیار نہیں، اس کی جانب متوجہ اور ملتفت ہی رہتا تھا۔ منتشا اول تو اس سے کبھی کوئی کام کہتی نہیں تھی کیوں کہ اگر نظام الدین کے کانوں پر پڑجاتی تو اچھا نہ ہوتا۔ دوسرے اسے کوئی ایسے ضروری اور غیر ضروری کام پڑتا ہی کب تھا جیسا آج پڑگیا تھا۔
حسبِ توقع اس نے ایک بھرپور مسکراہٹ سے خالد کو ویلکم کیا۔ وہ بھی اس کی خیر سگالی مسکراہٹ بھانپ کر اس کے قدم سے قدم ملانے لگا۔ تھوڑی ہی دیر کی ادھر ادھر فضول باتوں کے بعد وہ اپنے مطلب پر آگئی۔ اسے معلوم تھا وہ انکار نہیں کرے گا اور اس نے انکار کیا بھی نہیں تھا۔ لیکن صبح نو بجے کے وقت پر ذرا اعتراض تھا۔
”یار اتنی صبح کون تیار کرکے دے گا۔”
”لو …. یہی تو مسئلہ ہے۔ ورنہ میں خود کسی ٹھیلے والے سے نہ پکوالیتی۔ تم سے کہنے کا فائدہ ہی کیا۔”
حسب عادت وہ فوراً ہی تنک گئی۔ خالد اور موم ہوا۔
”ارے نہیں کیوں تم کسی ٹھیلے ویلے پر دھکے کھاؤگی۔” وہ ذرا سا مسکرایا۔
”تو کیا ہوا… تمہارے پاس بھی دھکے ہی کھارہی ہوں۔”
خفگی کے طور پر اس نے زمین کی طرف دیکھنا شروع کردیا۔ اور رفتار تھوڑی تیز کرلی۔ لیکن اس بات کا خاص خیال رکھا کہ اسپیڈ اتنی بھی نہیں پکڑنی کہ گھر نزدیک آجائے۔
”دھکے تم کھارہی ہو یا مجھے کھلوارہی ہو۔” خالد نے اس کی رفتار کا ساتھ دیتے ہوئے دھیمی آواز میں سوال کی۔
وہ چپ رہی۔
خالد جانتا تھا کہ وہ ایسی باتوں کا جواب نہیں دیا کرتی۔ اس نے گہری سانس لی۔ اور ہارساگیا۔ خدا جانے منتشا کے سامنے یا اپنے دل کے مقابل….
”اچھا یہ بتاؤ…. گیارہ بجے تک لادوں تو….”
منتشا نے ایک گہری غصہ آمیز سانس بھری۔
”یار صبح صبح بریانی کون کھائے گا۔ تمہارے پاس تو سب تب آئیںگے جب بھوک لگے گی۔ اور دن چڑھے گا۔”
بات میں وزن تھا۔ وہ خود بھی راضی ہوگئی اور خالد کو بھی راضی کرلیا کہ اس معاہدے کی بھنک گھر میں کسی کو نہ پڑے۔ تفصیلات میں جانے سے صاف انکار کردیا۔ بلکہ اسے راستے سے ہی چلتا کردیا مبادا کوئی ان دونوں کو ساتھ ساتھ یوں رازداری سے باتیں کرتا دیکھے تو گفتگو کا متن جاننے کی کوشش میں منتشا سے پنگا لے بیٹھے۔ اور پھر اسے کچھ بھی کرنے کے بعد پوچھنا پڑے ”تو کیا ہوا…”
******




گھر میں ایک ہو کا عالم تھا۔روز والا منظر ایک سناٹے کے سے رنگ میں رنگا ہوا تھا۔ صحن میں دھوپ تو تھی لیکن اس دھوپ کے ہرے برآمدے میں بیٹھا ہوا بلو غائب تھا۔ اسی طرح باورچی خانے میں بھی کوئی کھسر پھسر نہیں تھی۔ نہ کنول کی آواز آرہی تھی نہ وہ دکھائی دے رہی تھی۔ حتیٰ کہ صابرہ کے بھی کوئی آثار نہ تھے۔
لمحے بھر کو دہلیز پر ٹھٹک کر اس نے کھلے دروازے کو نوٹ کیا۔ پھر صحن پار کرتے اس کے اپنے قدم بھی بے آواز پڑگئے۔
اندر کمرے میں روز کی طرح نیم اندھیرا اور ہلکی روشنی تھی۔
اسے دہلیز پر ہی روک جانا پڑا۔ کمرہ خالی نہیں تھا۔ صابرہ پلنگ پر گھٹنوں میں منہ دیے پڑی تھی اور کنول منہ بسورے اس کے قدموں کے پاس زمین پر بیٹھی تھی۔ اس کی گود میں بلو کا سر رکھا تھا۔ جو بے خبر سورہا تھا۔
نہ یہ بلو کے رونے کا وقت تھا اور نہ صابرہ کے رونے کا۔
اس کے دل میں کوئی خطرے کا سائرن زور و شور سے بجنے لگا۔ اس کمرے میں قدم رکھنے سے پہلے وہ کل رات اور آج صبح والی کارروائی تقریباً بھول گئی تھی۔ اس میں قدم رکھنے کے بعد اسے تمام واقعہ بمعہ سیاق و سباق کے یاد آچکا تھا۔ صابرہ کو اپنے اوپر گذرنے والی قیامت کا پتا یقینا چل گیا تھا۔ اس نے بیگ بے آواز کندھے سے اتار کر جگہ پر رکھا۔
”اب وہ کیا کرے۔”
چند لمحے وہیں کھرے ہوکر صابرہ کو دیکھتے وہ اپنے رد عمل کے بارے میں سوچتی رہی۔
”مجھے کسی طرح ری ایکٹ کرنا چاہیے۔”
چند لمحوں کی سوچ و بچار کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچی کہ وہ کوئی ری ایکشن دے ہی کیوں اسے کیا پتا اس کی غیر موجودگی میں صابرہ اور گھر والوں پر کیا گزری۔ اس نے خود کو آنے والی صورت حال کے لیے تیار کیا۔ اور ایک قدم نزدیک آکر ایک چور نگاہ صابرہ کے حلیے اور پلنگ پر گولہ بنے پڑے دوپٹے پر ڈالی۔ یہ وہی دوپٹہ تھا جو رات میں اس نے تبدیل کیا تھا۔
صابرہ کی حالت بھی دگرگوں تھی۔ اس کے بال بکھرے ہوئے اور وجود عجیب سی کھینچا تانی کا شکار تھا۔ اس نے اس کے کمرے میں آنے کا کوئی نوٹس نہیں لیا تھا۔ وہ بہ دستور منہ چھپائے سسک رہی تھی۔ البتہ کنول اسے کمرے میں داخل ہونے کے بعد سے اب تک چبھن زدہ نظروں سے دیکھ رہی تھی۔ اور یہی وجہ تھی کہ اس نے کنول کی طرف دیکھنے سے بھی گریز کیا تھا۔
اس نے ہلکی لرزش زدہ انگلیاں ایک دوسرے میں پھنسائیں اور ہلکے سے کھنکھار کر صابرہ کو مخاطب کیا۔
”اماں!….. کیا ہوا… کیوں رورہی ہو۔”
اسے امید نہیں تھی کہ صابرہ اسے اس قابل سمجھے گی کہ اس کے سوال کا جواب دینا تو دور سنے گی بھی۔ لیکن اس کی امید کے قطعی خلاف صابرہ نے نہ صرف اس کا سوال سنا تھا بلکہ ایسا جواب دیا تھا جو اس کی گمان کی حدوں سے میلوں فاصلے پر تھا۔
وہ منہ چُھپاکر سسکتا چھوڑ کر اچانک ہی اُٹھی تھی اور چیل کی طرح اس پر جھپٹ پڑی تھی۔ اتنی جلدی اور اتنی پھرتی سے کہ اسے سنبھلنے کا موقع تک نہ ملا۔
******




تین دن گزرنے کے بعد کہیں جاکے اس کے جسم کی دکھن اور نیلوں کے نشان مدھم پڑے تھے۔ یہاں تک کہ تیسرے دن جب خالد بریانی کا دیگچہ لے کر ایک دوست کی مدد سے اسکول کے اندر اس کے اسٹال تک رکھنے آیا تو اس کا چہرہ تب بھی …. زردی مائل اور ہلکی سوجن کا شکار تھا۔
خالد دیکھ کر لمحے بھر ٹھٹکا ضرور لیکن اسکول کے ماحول اور اس کی کلاس فیلوز اور دوسری ٹیچرز نے ایک شور ہنگامہ ڈال رکھا تھا، اس لیے کوئی سوال نہیں کرسکا۔ لیکن کچھ نہ کچھ غیر معمولی ہوجانے کی چغلی کھاتا اس کا چہرہ اس وقت ایک انوکھی خوشی اور سرشاری کے تحت کھلا کھلا بھی تھا اور کچھ سنتا ہوا بھی۔بہرحال وہ کوئی سوال نہ کرسکا۔ ایک تو موقع نہیں تھا دوسرے وہ کہاں اتنی اجازت دیتی تھی اس کو کہ وہ یوں ذاتیات میں دخل اندازی کرتا پھرے۔ اس کا مطلب پورا ہوچکا تھا مطلب یہی تھا کہ اب چلتا پھرتا نظر آئے بلکہ اگلے بہت سارے دنوں تک نظر نہ ہی آئے تو اچھا۔
مینا بازار خوب رہا اور اس کی کمائی بھی ٹھیک ٹھاک ہوئی۔
خالد کی پیشین گوئی بھی ٹھیک تھی۔ ساڑھے گیارہ کے بعد سے جو اس کے پاس رش لگا تو محض گھنٹہ ڈیڑھ میں اس کا برتن خالی اور گلہ بھرچکا تھا۔
وہ ایک خوشی اور کامیابی بھرا دن تھا۔ اس نے ان جمع شدہ روپوں سے دل بھر کے چیزیں کھائیں، ہلہ گلہ کیا۔ اور واپسی پر پسینہ سے بہتا ہوا میک اپ۔ چپچپاتا لیکن لہکتا ہوا وجود لے کر سیدھی چھت والے کمرے میں چلی آئی۔
دون دن پہلے والے واقعے کے بعد سے کنول اس کی حرکات و سکنات کو بہ غور ملاحظہ کرنے لگی تھی گو کہ صابرہ نے اس کی ٹھیک ٹھاک مرمت کی تھی مگر بہرحال یہ خیال اسے چھوکر بھی نہیں گزرا تھا کہ کمیٹی کے پیسے دھلنے کے بجائے منتشا کی جیب میں چلے گئے اور جن پرزہ پرزہ کاغذ کی نرم ملائم گٹھلیوں کو وہ پانچ ہزار کے نوٹ سمجھ رہی ہے۔ وہ محض سادے کاغذ کے ٹکڑے ہیں۔
کنول نے جو اس کو یوں خاموشی سے چھت پر جاتے دیکھا تو خود بھی ذرا دیر بعد پیچھے آئی۔
آگے کا منظر کافی حیران کن بلکہ کسی حد تک خوف زدہ کردینے والا تھا۔ وہ گھٹنے موڑے ٹانگیں پھیلائے تخت پر چوکڑی مارے بیٹھی تھی۔ دونوں ٹانگوں کے درمیان تخت پر دس بیس اور پچاس کے نوٹوں کی ایک چھوٹی سی ڈھیر تھی۔
کنپٹیوں سے جس تیزی سے نمکین دھاریں بہ رہی تھیں۔ اس سے کہیں زیادہ تیزی سے اس کے لب سرگوشی میں حرکت کررہے تھے۔بے ترتیب ڈھیری میں سے وہ ایک نوٹ اٹھاتی اسے سیدھا کرکے بائیں ہاتھ میں پکڑی گڈی میں دبادیتی۔ پھر دائیں ہاتھ سے حساب کرتی۔اپنے کام اور گنتی میں اس قدر مگن تھی کہ اسے کنول کی آمد کا احساس تک نہ ہوا۔ چونکی تو اس وقت جب اس نے اچانک آکر پنکھا چلایا۔ اس نے بری طرح ہڑ بڑا کر دیکھا۔ پھر کنول کو دیکھ کر واپس کام میں جت گئی۔
”یہ اتنے سارے پیسے کہاں سے آئے تمہارے پاس۔”
وہ جونہی سوال کرتی نزدیک آکر بیٹھی منتشا نے احتیاطاً نوٹ سمیٹ کر اپنی طرف کھسکالیے۔
”مجھے نہیں بتاؤگی… اسکول میں مینا بازار تھا نا آج…..”
‘ہاں بریانی کا اسٹال لگایا تھا۔ وہیں سے کمائے ہیں۔”
نہ چاہتے ہوئے بھی منتشا کی آواز سے خوشی چھلکی۔
”کمائے ہیں… واہ بھئی”، اس نے خاص زور دے کر کہا۔ پھر کچھ دیر یونہی اسے دیکھتی رہی۔
”ایک بات تو بتا منی۔” وہ بغور منتشا کی محویت نوٹ کررہی تھی۔
”اماں کے کمیٹی کے پیسے تونے ہی اڑائے ہیں نا۔”
اس کے مشین کی طرح چلتے کھٹاکھٹ ہاتھ رکے۔ چہرہ ذرا کی ذرا پھیکا پڑا۔ پھر اس نے اپنی ازلی بے نیازی سے کندھے اچکادیے۔
”اپنی جہیز کی کمیٹی ضائع ہوجانے پر لگتا ہے تیرا دماغ چل گیا ہے کلو۔ جا… جاکے نیند کی دوائیاں کھالے آرام ملے گا۔”بات مکمل کرکے وہ کمینگی سے ذرا سا ہنسی…..
‘تو سب کو بناسکتی ہے۔ پر مجھے نہیں۔” اب کی بار اس کا انداز اور بھی جتاتا ہوا تھا۔ منتشا پھر ٹھٹھکی۔
”ہاں… بنے بنائے کو کوئی نہیں بناسکتا۔” اپنی طرف سے اس نے کنول کی بات کو حتی الامکان سرسری ہی لیا تھا۔ مگر بات اتنی سرسری تھی نہیں۔
کنول بے حد پر یقین تھی اسے یہ بھی معلوم تھا کہ اسکول والے کسی موقع پر اپنے شاگردوں کو یونہی نوٹ کمانے نہیں دیتے۔ پہلے انہیں نوٹ کھلانے پڑتے ہیں پھر اپنی باری آتی ہے۔ منتشا نے بہت چاہا کہ اس کی بات کو بے پرکی بنا کر ہواؤں میں اڑادے۔ مگر برا ہوا کہ کنول نے باتیں کرتے کرتے اس کے ہاتھ میں لاپروائی سے دبی گڈی اچک لی۔
منتشا کی شکل یوں ہوگئی جیسے کسی نے بھرے بازار میں گالی دے دی ہو۔
”زیادہ بکواس نہ کرکلو… اپنی حد کے اندر رہ۔”
”یہ تو مجھے کہہ رہی ہے۔ اپنی بڑی بہن کو۔”
”ہاں تو کیا ہوا… اپنی حرکتیں دیکھ۔ میرے پیسے واپس کر۔”
اس نے ہاتھ بڑھا کر کنول کے ہاتھ سے نوٹ واپس لینے چاہے۔ لیکن کنول نے ہاتھ پیچھے کرلیا۔
”پہلے بتا… پیسے کہاں ہیں اماں کے… تو نے ہی اڑائے ہیں نا۔”
اور بس یہ اسی صبر اور برداشت کی آخری حد تھی۔
”ہاں میں نے چرائے ہیں… ہیں بھی میرے پاس ابھی۔ پر دوںگی نہیں کسی کو… کوئی لے بھی نہیں سکتا مجھ سے… کیا کرلے گی تو۔”
کنول کے سان و گمان میں بھی اس ڈھٹائی کا مظاہرہ نہیں تھا۔ اس کا منہ کھل گیا۔ آنکھیں پھیل گئیں۔
”منی…. اتنے سارے ہزاروں روپے…” اس کی اطمینان بھری آواز محض ایک سرگوشی میں ڈل گئی۔
”کیسے چوری کیے تونے… کیا کرے گی تو ان کا… بول…. بتانا۔”




منتشا کو اس کے خوف، اس کی سرگوشی ہراس سے کوئی مطلب نہیں تھا۔ اسے معلوم تھا یہ وقت اس پر آسکتا تھا۔ جب کوئی اس کی پلاننگ سے واقف ہوجاتا۔ اور وہ کوئی… کنول کے سوا اور کوئی ہو نہیں سکتا تھا۔ اسی کو عادت تھی اس سے منہ ماری کی بھی۔ اور کبھی کبھی اسے منتشا کو کسی معاملے میں پوچھ لینے کی بیماری بھی اسی کو تھی۔ آج وہی بیماری اپنے اثرات ظاہر کررہی تھی۔ لیکن منتشا نے اس کا علاج بہت دن پہلے ڈھونڈلیا تھا۔ گو کہ وہ کنول پر اس علاج کا اطلاق کرنا نہیں چاہتی تھی کیوں کہ وہ چاہتی تھی بات یونہی آنے بہانے ٹل جائے تو اچھا ہے۔ ورنہ اچھی طرح جانتی تھی کہ ابھی ابھی آگاہی اور ماں سے ہمدردی کا جو مروڑ اسے اٹھنے والا تھا۔ اس میں اس کی دوا سے کنول کو بہت افاقہ ہوتا۔
”شرم نہیں آئی تجھے۔” اس کا لیکچر جاری تھا۔
”کیوں… کیا ہوگیا… ضرورت تھی مجھے لے لیے میں نے… ویسے تو میں ہزار منتیں. کرتی اماں نے منہ نہیں لگانا تھا۔”
”اچھا تو، تونے ان کے پیسوں کے جمع کیے ہوئے اتنی محنت سے ایک ایک کرکے جوڑا ہوا روپیہ چرالیا۔ تو رک جا ابھی۔ میں اماں کو بتاتی ہوتی۔ وہ خود ہی دیکھ لیںگی۔”
منتشا کے سامنے اس کے پیسے مٹھی میں دباکر وہ فوراً اٹھی۔
اسے اندازہ ہوگیا تھا کہ کنول پر ہمدردی کا یرقان پوری طرح چڑھ چکا ہے۔ اب اسے ڈوز دیے بغیر چارہ نہیں تھا۔
اس نے باہر کو ہلکی کنول کے بازو دبوچا۔
”اماں کو بتائے گی تو… چل بتادینا۔ پر پہلے وہ دیکھ جو میرے پاس ہے تجھے بتانے کے لیے۔”
کنول ٹھٹھکی، رکی پلٹی… اور اس کی آنکھوں میں جھانکا۔
کیا نہیں تھا ان نظروں میں اس وقت۔
ایک بے خوفی، سرکشی اور .. . شاید چیلنج بھی۔
وہ نہ چاہتے ہوئے ٹھہری۔ اور بعد میں بے حد پچھتائی….
کیوں رکی تھی وہ اس دن وہاں پر…. کیاتھا جو بنا دیکھے بھاگ جاتی، لیکن اسے کیا پتہ تھا کہ منتشا اسے کیا دکھانے والی ہے۔
اس وقت تو وہ بس خفگی سے اسے اسٹور روم کے کسی کونے میں کھسر پھسر کرتے دیکھتی رہی اور پھر جب وہ پلٹی تو اس کے ہاتھ میں چمکتی چیز دیکھ کر کنول بھک سے اڑی تھی۔
ایک بات تو طے تھی۔ وہ دن منتشا کا دن تھا۔
******




جُھٹ پُٹے کا وقت تھا لیکن گھر کے صحن میں اس جُھٹ پُٹے میں سر اٹھاتی خاموشی اور ہراسراریت مفقود تھی۔
بلوگلا پھاڑ پھاڑ کر پوری طاقت سے رورہا تھا۔ صابرہ چیخ رہی تھی اور وقت کا لحاظ کے بغیر منتشا کو بدعاؤں اور کوسنوں سے نواز رہی تھی۔ جواباً منتشا کی بولتی بند تھی۔ کیوں کہ سر پر اقبال کھڑا تھا جو بد زبانی کے آغاز میں بھی اسے کس کس کے دو جھانپڑ لگاچکا تھا۔
بات اگر کوئی غیر معمولی نہیں تھی تو اتنی معمول کے مطابق بھی نہیں تھی۔ گھر کے مروجہ اصولوں کے عین مطابق نظام الدین منتشا کا تعلیمی سلسلہ روک دینے کا حکم صادر کیا تھا۔ یہ وہی دن تھے جب گھر میں بلو کے نئے یونیفارم، بستے اور کورس کی کتابچوں اور کاپیوں کی آمد آمد تھی۔ خوش باش سا بلو ہر روز اپنا اپنا بستہ نئی کتابیں کاپیاں لے کر بیٹھ جاتا اور گھنٹوں محبت سے ان کو دیکھتا تھا۔ گو کہ سارے گھر کو پتا تھا کہ پڑھنا اس نے خاک نہیں ہے لیکن نئے کتابوں کاپیوں، یونیفارم اور بستے کی خوشی بڑی نئی نئی سی ہوتی ہے۔ ان سب چیزوں کو دیکھ کر پڑھائی پڑھنے کا ولولہ بھی نیا نیا جاگتا ہے۔ اسی ذہنی کیفیت سے ان دنوں بلو گزررہا تھا۔ جب منتشا نے اپنی پڑھائی کا سلسلہ ختم ہونے کی روح فرسا خبر سنی۔ ایک دو دن تو وہ اندر اندر ہی کُڑھتی رہی لیکن آج اس کے برداشت کی حد ختم ہوگئی جب صابرہ نے بڑے مطمئن اور انجان سے انداز میں اسے بلو کی کتابوں پرکور چڑھانے کا حکم دیا۔
پہلے تو اس نے صاف انکار کردیا لیکن بعد میں صابرہ کے زور دینے پر بستہ اٹھاکر صحن میں لے گئی۔ بلو بھی اس کے پیچھے پیچھے تھا۔ صابرہ مطمئن سی ہوکر نظام الدین کے پاس چلی گئی۔
نظام الدین دو دن سے شدید بخار میں تپ رہا تھا۔ اور جتنا اس کا بخار تیز تھا اتنی ہی اس کی طبیعت چڑچڑی ہورہی تھی۔
اس وقت بھی اقبال اس کی ٹانگیں دبارہا تھا۔ اور صابرہ سرہانے گرم دودھ کا پیالہ رکھ کے گئی تھی۔ لیکن ابھی اس نے پیالہ اٹھاکر نظام الدین کے ہاتھ میں بھی نہ دیا تھا کہ باہر سے بلو نے وہ واویلا مچایا کہ الامان….
صحن کی طرف دوڑنے والی صابرہ آگے کا منظر دیکھ کر پتھر سی ہوگئی۔ منتشا نے بلو کی تمام کتابیں، کاپیاں ورق ورق کردی تھیں۔ پھٹا اُدھڑا نیا بستہ الگ دہائیاں دے رہا تھا۔
صابرہ کے منہ سے گالیوں کا طوفان نکلا اور منتشا پر رتی بھر بھی اثر ڈالے بغیر گزرگیا۔
اس پر ایک جنون سوار تھا۔
دونوں ہاتھوں سے نئی نکور کتابوں کے چیتھڑے اڑاتے ہوئے اس کا منہ لال اور جبڑے بھنچے ہوئے تھے۔
صابرہ نے بوکھلا کر اقبال کو آواز دی۔ جتنی دیر میں اقبال اٹھ کر باہر نکلا۔ وہ اپنا کام تقریباً مکمل کرچکی تھی۔
اقبال نے سارا منظر سمجھ کر آؤ دیکھا نہ تاؤ۔ بازو سے پکڑ کر اسے اٹھایا اور دو تھپڑ رسید کیے۔ وہ ہاتھوں میں دبوچ کاغذ کے پرزے پھینک کر وہیں بیٹھ کر رونے لگی۔
صابرہ اور اقبال میں سے کسی کو اس کی پرواہ نہیں تھی۔ صابرہ نے گالیاں جاری رکھتے ہوئے بلو کا بستہ اور چیتھڑے کاغذ سمیٹے۔ اقبال بلو کے گلے میں ہاتھ ڈال کر چپ کرانے کے لیے باہر لے گیا۔ صابرہ واپس نظام الدین کے کمرہ میں چلی گئی لیکن اس کی آواز بند نہیں ہوئی۔ نظام الدین کو بھی سارے واقعہ کا علم ہوچکا تھا بخار نے اس کا جسم کا زور توڑ ڈالا تھا۔ وہ خود آکر منتشا کی خبر لیتا۔ اس وقت تو بستر پر لیٹے لیٹے ہی ہانپتے ہوئے اس کے لتے لے رہا تھا۔ لیکن….
اس سارے ہنگامے شور شرابے اور فتنہ انگیزیوں سے دور اور الگ تھلگ اندر کمرے میں اپنے بستر پر کنول بیٹھی تھی۔
اس کے اعصاب پژمردہ اور چہرہ اترا ہوا تھا۔




اسے منتشا کی حرکت پر کوئی دکھ ہوا تھا نہ حیرت نہ افسوس۔ منتشا اس سے بڑا حیرت کا جھٹکا اسے لگاچکی تھی۔ اس سے کہیں بڑا دکھ دے چکی تھی۔ منتشا اگر کمینی تھی تو اس کی کمینگی کی انتہا اس نے دیکھ لی تھی۔
اس کی نم نگاہوں میں پورا منظر پوری جزئیات کے ساتھ تازہ تھا۔ جب اس کے دھواں دھواں رنگ اڑے چہرے اور پھٹی ہوئی آنسوؤں کے سامنے موبائل اسکرین پر اس کی وہ ویڈیو چل رہی تھی۔ جس کے بار ے میں وہ قبر میں اترنے کے بعد بھی نہیں سوچ سکتی تھی کہ یہ حرکت اس کی اپنی سگی بہن اس کی ماں جائی کرے گی۔
کوئی پچھتاوا سا، پچھتاوا تھا جو اس کے وجود سے لپٹ کر رگڑ کھاتا تھا اور اپنا زہر اس کے ذہن و دل میں سرائیت کرتا جاتا تھا۔
وہ شاید پوری زندگی ان ملاقاتوں کو یاد کرتی۔ جو وہ چوری چھپے اپنے منگیتر سے کرتی تھی اور سالوں گزرنے کے بعد بھی ان کی سرشاری میں مبتلا رہتی۔
اس کا منگیتر خاور ایک بے حد عام سا انسان تھا۔
نہ شکل و صورت، نہ نوکری، نہ تعلیم نہ تنخواہ۔ اس میں اگر کوئی خاص بات تھی جس کی وجہ سے کنول اس کی دیوانی تھی تو صرف یہ کہ وہ اسے چاہتا تھا اور اس کا ہونے والا شوہر تھا۔ آنے والے چند مہینوں کی دوری پر اس کی شادی کھڑی تھی۔ تاریخ پکی ہوچکی تھی اور خاندان بھر میں بات مشہور ہوچکی تھی۔
اسی لیے اس دن خاور کی منتوں پر ان کی ملاقات زبانی کلامی دعوؤں سے ذرا سی آگے بڑھ گئی۔ زیادہ نہیں بس بالکل ذرا سی…. اور، اس کی اپنی سگی بہن نے اس ذرا سی بات کو اتنا بڑا پہاڑ بناکر پیش کیا کہ چند لمحوں کے لیے تو کنول کا دم ہی گھٹ کر رہ گیا۔
صابرہ کی بے بسی، منتشا کی چوری، اس کی شکایت۔ کنول سب ہی کچھ تو بھول گئی تھی اس سے۔ اسے اس وقت کچھ یاد رہا تو بس یہ کہ اب اس کی عزت اللہ کے بعد ‘منی” کے ہاتھ میں ہے۔
اور اللہ تو رحم کرسکتا تھا لیکن منی کتنی بے رحم ہے اس کا اندازہ اسے اس کے جملے سے ہوگیا تھا۔
”فیصلہ تیرے ہاتھ میں ہے۔ تجھے اماں کی کمیٹی کے پیسے بچانے ہیں۔ یا اپنا رشتہ۔” وہ نظام الدین کی الٹی کھوپڑی کو جانتی تھی۔ وہ یہ رشتہ بھی توڑدیتا اور کنول کی ہڈیاں بھی۔
پتھر کی طرح ساکن و جامد کنول کے ہاتھ کی ڈھیلی گرفت سے نوٹ نکال کر اسے دھیرے سے پیچھے کی طرف دھکادیا۔ اور کنول کسی روٹی سے بنے پتلے کی مانند دو قدم دور چلی گئی۔
اس روز اس نے منی کی فطرت کی بے شرمی کو جانچ لیا تھا اس کی خصلت اس کی خود غرضی کو پرکھ لیا تھا۔ وہ سمجھتی تھی کہ وہ اپنی بہن کو سمجھ گئی ہے پہچان گئی ہے لیکن وہ غلط تھی۔
اس نے اگر منتشا کو جانا تو بہت کم، اسے پہچانا تھا تو بہت تھوڑا… اسے سمجھی تھی تو بالکل ذرا سا….
اتنا کم اتنا تھوڑا اتنا ذرا سا جتنا منتشا بھی خود کو نہیں سمجھی تھی۔ اسے خود بھی اندازہ نہیں تھا کہ پہلی چوری اور بڑی چوری کرکے کامیابی حاصل کرنے کے بعد اس نے کس راستے پر قدم رکھ دیا تھا۔
یہ راستہ گمراہی کا راستہ تھا۔
یہ سفر بے نشان منزل کی سمت تھا اور پتا نہیں منزل تھی بھی کہ نہیں، یا پھر یہ سفر صرف بدنامی اور رسائی کی اندھی کھائی میں جاکر ختم ہونے والا تھا۔
******
ریسٹورنٹ کے مدھم ماحول میں، ہلکورے لیتی خوش گواریت اس کی اتنے دن کی منتوں اور التجاؤں کا مرہون منت تھا۔
کتنے دن گزرے تھے بھلا ٹیسی کی ناراضگی کو۔ اسے گننے کی ضرورت نہیں تھی۔ محض آٹھ دن اور ان آٹھ دنوں کا ایک ایک لمحہ اس نے جیسے عذاب میں گزارا تھا۔ وہ جب بھی ناراض ہوتی۔ اس کی زندگی کو یونہی عذاب بنادیا کرتی تھی۔ بلا واسطہ نہیں بلواسطہ اپنے باپ کے ذریعے۔
آٹھ دنوں میں اس نے بتیس بار اسے منانے کے لیے فون کیے تھے اور آٹھ سو مرتبہ سوری کے لفظ کے ساتھ معذرت کی تھی۔ نہ صرف یہ بلکہ اسے بالکل اسی طرح برتھ ڈے پارٹی ارینج کرکے دی تھی جس طرح کی برتھ ڈے پارٹی میں شہنام کے شرکت نہ کرنے سے وہ ناراض تھی۔ اور اس پارٹی میں اپنی منگیتر کی نام نہاد سہیلیوں کے آگے کھڑا ان سے تحفے وصول کرتا اور ان کی دبی دی مسکراہٹوں کے جواب دیتا اس وقت وہ خود کو دنیا کا سب سے بے وقوف محسوس کررہا تھا۔ پتہ نہیں احساسات اور محسوسات کی پختگی کب تک صرف اسی کو تنہا جھیلنا تھی کیونکہ ٹیسی اس قسم کی کوئی بھی صلاحیت رکھنے سے قطعاً محروم تھی۔ وہ صرف اپنی اہمیت کو بڑھتے اور گھٹتے محسوس کرسکتی تھی وہ بھی شہنام کے رویے کی وجہ سے۔ اس کے فرشتوں کو بھی علم نہ ہوتا اور وہ اس سے کسی بھی معمولی یا اس سے بھی کم درجے کی بات پر ناراض ہوجاتی۔ پھر شہنام کو اس کی ناراضی دور کرنے کا عمل شروع کرنا پڑتا۔یہ عمل اس کے لیے کسی بھی ناگوار ترین عمل سے زیادہ ناگوار ہوتا۔ ٹیسی کے ناراضی ہونے کے فوراً بعد سے وہ اس کے لیے معذرتوں کے ڈھیر لگانا شروع کردیتا۔ اس بات کی بحث میں پڑے بغیر کہ اس کی ناراضی جائز ہے یا ناجائز۔
منگنی کے فوراً بعد شروع کے عرصے میں اس نے صرف ایک بار اسے سمجھانے کی کوشش کی تھی کہ اس کی ناراضی غلط ہے اور نتیجتاً بیٹی کے ساتھ ساتھ آفاق راؤ کی بھی ناراضی جھیلنی پڑی تھی۔ اس کے بعد سے اس نے کم از کم اس سمت میں اپنی محنتوں کے گھوڑے دوڑانے بند کردیے تھے۔ جس کا اسے اندازہ ہوچکا تھا کہ یہ سمت آغاز سے ہی غلط ہے۔
ایک بات تو طے تھی، منگنی کا دورانیہ جتنا طویل ہوتا اسی طرح گزرنا تھا۔ تبسم عرف ٹیسی ایک نخرے باز لڑکی تھی۔ عموماً جس طرح امیر کبیر والدین کی اکلوتی اولادیں ہوا کرتی ہیں۔ حالانکہ شہنام خود بھی پیسے والے والدین کی اکلوتی اولاد ہی تھا لیکن وہ ذہنی پختگی میں ٹیسی سے کئی قدم آگے تھا۔ اس کی شخصیت کہیں زیادہ میچور کسی حد تک سنجیدہ اور سمجھدار تھی۔ اور اس بات کے اندازہ، اس چیز سے لگایا جاسکتا تھا کہ ناپسند کرنے کے باوجود وہ کس عمدگی سے اپنے اور ٹیسی کے رشتے کو نبھارہا تھا اور کس کامیابی سے ٹیسی کو اپنی محبتوں کا یقین دلا رہا تھا۔




Loading

Read Previous

باغی — قسط نمبر ۴ — شاذیہ خان

Read Next

گلّو اور لومڑ

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!