گلّو اور لومڑ

گلّو اور لومڑ
عبداللہ اذفر

کسی چراگاہ میں ایک چالاک لومڑ گھوم رہا تھا۔ وہ بہت بھوکا تھا لیکن اس کے پاس کھانے کو کچھ نہ تھا۔ اتنے میں وہاں گُلّو آگیا۔ گُلّو ایک چھوٹا اور پیارا سا گھوڑے کا بچہ تھا۔ لومڑ نے سوچا کہ شکار تو بہت اچھا ہے لیکن میں اسے کیسے کھاؤں؟ یہ میرے ہاتھ نہیں آئے گا۔
کچھ دیر سوچنے کے بعد اس کے ذہن میں ایک خیال آیا۔ اُس نے سوچا کہ گُلّو کو دھوکا دیا جائے۔ یہ سوچ کر لومڑ چلتے چلتے گُلّو کے پاس آیا اور کہنے لگا:
”گُلّو بھائی! اِس چراہ گاہ میں کتنے خوب صورت پھول ہیں۔ تمہیں کسی پھول کی خوش بو سونگھنی ہو تو میرے ساتھ چلو؟”
گُلّو سمجھ گیا کہ لومڑ اُسے دھوکا دے رہا ہے۔ وہ بولا: ”لومڑ بھائی! اِس وقت مجھے پھولوں کی خوش بو اچھی نہیں لگے گی کیوں کہ میرے پاؤں میں کانٹا چُبھا ہوا ہے۔ مجھے تکلیف ہورہی ہے۔ مہربانی کرکے تم یہ کانٹا نکال دو۔”
لومڑ بہت خوش ہوا۔ وہ سمجھا کہ گُلّو اُس کی باتوں میں آگیا ہے۔ وہ آگے بڑھا اور کہنے لگا: ”میں تمہارے پاؤں سے کانٹا نکال دیتا ہوں۔ تم ابھی ٹھیک ہوجاؤ گے۔” یہ کہہ کر وہ گُلّو کے پاؤں کے پاس بیٹھ کر کانٹا تلاش کرنے لگا۔
اچانک گُلّو نے پورے زور سے دولتی لومڑ کے منہ پر دے ماری۔ دولتی لگنے سے لومڑ چکرا کر گِرا۔ اُس کے دانت ہِل گئے اور وہ اپنے منہ پر ہاتھ رکھ کر بھاگ گیا۔ جاتے جاتے وہ آئندہ ایسی حرکت کرنے سے توبہ کر چکا تھا۔

Loading

Read Previous

تو کیا ہوا —– فرحین اظفر

Read Next

باغی —– قسط نمبر ۵ —- شاذیہ خان

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!