باغی — قسط نمبر ۴ — شاذیہ خان

اپنی دکان پر روبی سے باتیں کرتے ہوئے عابدایک دم طیش میں آ گیا کیوں کہ اسے لگ رہا تھا کہ روبی اسے روز ایک نیا لارا دے رہی تھی۔
”دیکھ روبی اب زیادہ نہ تڑپا اور مان جامیری بات۔ میری اماں آج تیری طرف آئے گی۔ بس تو اپنی اماں سے کہہ دینا کہ عابد نے تیری وجہ سے فوزیہ کو چھوڑا ہے اب میں زیادہ دیر برداشت نہیں کرسکتا۔”
”تو نے طلاق کب دی؟زبانی کلامی طلاق کو کون مانتا ہے؟ پکّے کاغذ بنا اس کے میں پھر مانوں گی۔وہ دوبارہ تیری زندگی میں آگئی تو پنچایت اسے دوبارہ تیری بیوی بننے پر مجبور کر دے گی۔” روبی تنک کر بولی۔
”کیا تجھے اس بات کا خدشہ ہے؟” عابد نے حیرت سے کہا۔
” عابد وہ بہت چالاک ہے، وہ تجھے مجھ سے چھین لے گی، تو اس کے کاغذ بنوا کر پکی پکی طلاق دے پھر میں مانوں گی۔” روبی نے جذباتی ہوکر حتمی انداز میں جواب دیا۔
”لے یہ کیا بات ہوئی،میں آج ہی کاغذات بنوا کر رکھتا ہوں، تو یاد رکھ اس دل میں صرف تو ہے۔ وہ کبھی دوبارہ نہیں آسکتی۔”عابدنے اسے دلاسا دیا۔
” مجھے نہیں معلوم تویہ کاغذلکھے گا، تو میں اپنے نکاح کے کاغذ پر انگوٹھا لگواؤں گی۔بس میں نے کہہ دیا۔” روبی نے ضد کرکے اصرار کیا ۔
” تو بھی کتنی پاگل ہے۔ اتنی سی بات! یہ بات تو مجھ سے پہلے کردیتی میں اتنا انتظار تو نہ کرتا۔”عابدنے بہت پیار سے کہا۔
”چل اب کردی،اب مان لے۔”روبی نے اِٹھلا کر کہا۔





”اورمیں اماں کو کب تک بھیجوں؟” عابد نے دوبارہ پوچھا ۔
”جب کاغذات تیار ہو جائیں تب بھیجنا۔” روبی نے قطعیت سے کہا۔
”تو بہت ظالم ہے روبی۔”عابد منہ بناکر بولا۔
”دیکھ عابد! ظالم ہمیشہ مرد ہوتا ہے، عورت نہیں لیکن سمجھ دار عورت ہمیشہ اپنا کھونٹا مضبوط کرتی ہے۔” روبی نے سمجھدارانہ انداز میں کہا۔
” او میں تیرا ہی ہوں روبی، تجھے کس بات کا ڈر؟”عابد نے اُسے پھر دلاسا دیا ۔
” ہوسکتا ہے تو نے فوزیہ کو بھی یہ لارا دیا ہو۔” اس نے ہنستے ہوئے طنز کیا۔
عابدنے غصے میں آکراسے دیکھااور بولا۔”دیکھ تو بار بار فوزیہ کا نام لے کر مجھے تکلیف نہ دے۔ اب وہ میری زندگی میں کہیں نہیں ہے۔ تیرے کہنے پر میں نے اپنا بچہ بہن کو دے دیا کہ تو نے کہا تھامیں فوزیہ کے بچے کو نہیں سنبھال سکتی۔”
”ہاں جانتی ہوں مگر یاد رکھ!مرد پر بے وقوف عورتیں ہی اعتبار کرتی ہیں اور میں بے وقوف بالکل نہیں۔” روبی نے قطعیت سے کندھے جھٹک کر جواب دیا۔
”تو مجھے غصہ دلا رہی ہے۔”عابد نے غراتے ہوئے کہا ۔
”نہیں میں صحیح بات کررہی ہوں۔ مرد کے پاس عورت کو دینے کے لیے اعتبار کے سوائے سب کچھ ہوتا ہے۔” روبی نے ہنستے ہوئے کہا۔
”چل چھوڑ ساری بات، تیرا اعتبار اس میں ہے نا کہ میں اس کو کاغذ لکھ دوں اور بول؟”عابد نے اسے اعتبار دلانے کی کوشش کی۔
” نہیں بس میں چاہتی ہوں وہ تیری زندگی سے پکی پکی نکل جائے۔ مجھے ڈر ہے کہ وہ کبھی بھی تیری پہلی بیوی کے روپ میں میرے سامنے آکر نہ کھڑی ہو جائے۔”روبی نے اُسے دیکھ کر بہت پیار سے جواب دیا۔
”ٹھیک ہے میں جلد ہی شہر جا کر یہ کام کرتا ہوں، اب خوش؟” عابدنے اسے حوصلہ دیا۔
” بہت خوش۔”روبی نے آنکھیں میچتے ہوئے جواب دیا۔
عابد نے ایک خانے سے چوڑیاں نکال کر اس کی طرف بڑھائیں۔ روبی نے چوڑیوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے عابد کی طرف دیکھا اور بولی۔ ”اُف اللہ کتنی پیاری ہیں۔ ”
”تجھے اچھی لگیں؟”عابد نے اشتیاق سے پوچھا۔
روبی تیزی سے دوپٹے میں چھپاتے بولی۔ ”بہت اچھی، اچھا میں چلتی ہوں۔اب تیرے گاہک آنا شروع ہوگئے ہیں۔” ایک گاہک کو اندر داخل ہوتا دیکھ کر روبی تیزی سے باہر نکل گئی۔
٭…٭…٭





بہت جلدعابد نے طلاق کے کاغذات تیار کروالیے اور روبی کو دکھائے تب اسے اطمینان ہوگیا کہ عابد کی زندگی میں اب فوزیہ واپس نہیں آسکتی اس نے عابد کو ہاں کردی اور وہ روبی کو اپنے گھر بیاہ لایا۔ روبی اور عابد کی شادی سے جہاں عابد کے گھر والے بہت خوش تھے وہیں فوزیہ کے گھر والوں پر ایک بم پھٹاجب فوزیہ کے گھر عابد کی شادی کی مٹھائی گئی اور اس کی بھا بی نے مٹھائی کی پلیٹ ماں کے سامنے رکھی تو ماں نے ترچھی نظر سے اسے دیکھا اور پوچھا۔
”کہاں سے آئی یہ مٹھائی؟”
”اماں لڈو کھا۔یہ مٹھائی تیری بیٹی کے سسرال سے آئی ہے۔ عابد نے دوسری شادی کرلی۔” اسما زہر آلود لہجے میں بولی۔فوزیہ کی ماں ہکا بکا رہ گئی۔
”اللہ کے عذاب سے ڈر اسما، مت کسی کا دل دکھا۔”فوزیہ کی ماں نے قہر بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا۔
”لو میں نے کب دل دُکھایا، سچ بات کہی ہے۔ تیری بیٹی نے تو خود ہی میدان چھوڑ دیا دوسری عورت کے لیے۔اب نہ وہ جاتی نہ دوسری عورت اس کی زندگی میں آتی۔”فوزیہ کی بھابی نے ہنستے ہوئے کہا۔
” اسما اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر پوچھ اگر تیرے ساتھ ایسا ہو تو؟”فوزیہ کی ماں نے دکھی نظروں سے بہو کی طرف دیکھا۔
” اماں میں اپنے میاں کو کسی اور عورت کے لیے کبھی چھوڑتی ہی نہیں۔عورت کو مرد سے ٹکر نہیں لینی چاہیے۔فوزیہ جیسی عورتوں کو ان کی اکڑ لے کر بیٹھ جاتی ہے۔میاں سے منہ درازی کریں گی تو یہ تو ہوگا۔”اسما نے بے دردی سے ساس کو جواب دیا۔
”بس کر دے اسما بس کر دے۔اللہ کے قہر سے ڈر۔”ماں نے ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا۔
”بس اماں تو مجھے بددعا ہی دیتی رہنا۔ سچ سننے کا حوصلہ کسی کسی میں ہوتا ہے۔اب تو آخری راستہ بھی بند ہوگیا اس کا،اب کیا کرے گی وہ؟”اسما نے منہ بناتے ہوئے جواب دیا۔
”تودفع ہوجایہاں سے،مجھے تیری ہمدردی نہیں چاہیے۔”ماں نے غصے سے کہا۔
اسما منہ بناتے ہوئے وہاں سے چلی گئی اور فوزیہ کی ماں فوزیہ کا نام لے کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ مٹھائی کی پلیٹ اس نے اٹھا کر پھینک دی۔ اتنے میں مُنی نے اُس کے پاس آکر پوچھا۔
” کیا ہوا اماں؟ کیوں رو رہی ہے؟”
” کچھ نہیں مُنی تیری بہن نے بہت بُرا کیا،بہت بُرا۔”فوزیہ کی ماں آنسو پونچھتے ہوئے جواب دیا۔
”کیا ہوا اماں؟باجی کو فون کیا تھا تو نے؟”
”کچھ نہیں، پتا نہیں کہاں کہاں بھٹک رہی ہوگی وہ اس وقت۔”فوزیہ کی ماں نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔
٭…٭…٭





اس رات فوزیہ بہت دیر تک جاگتی رہی اور اپنا گھر او ر بچے کو یاد کرتی رہی۔اس کے کانوں میں بچے کی رونے کی آوازیں آرہی تھیں۔ اُسے لگا منا اسے آوازیں دے رہا ہے وہ سوتے سوتے اُٹھ کر بیٹھ گئی۔ ”فوزیہ سچ سچ بتاکیا تو نے اچھا کیا اپنے بچے کو چھوڑ کر؟”ایک آواز اس کے اندر ہی اندر ابھری۔”لیکن عابد نے مجھے طلاق دے دی تھی،میں کیسے رہوں اس کے ساتھ۔ ”اس نے خود کو تسلی دی لیکن بچے سے ملنے کی تڑپ بہت زیادہ تھی۔وہ لیٹی یہی سوچتی رہی کہ اُسے کیا کرنا۔بچے کی خاطر واپس لوٹ جائے یا اسی دنیا میں اپنی جگہ بنانے کی کوشش کرے اورآخر اس نے ایک فیصلہ کر لیا ،واپس جانے کا فیصلہ،ریحان کا گھر چھوڑ دینے کا فیصلہ،لیکن اگر عابد نے اُسے دوبارہ قبول نہ کیا۔ نکال باہر کیا تو پھر میں کیا کروں گی؟ ٹھیک ہے اگر عابد نے قبول نہ کیا تومیرا بیٹا تو میرا ہے میں اسے واپس لے لوں گی… یہ سوچ کر وہ ریحان کے گھر سے نکل آئی۔
اُسی رات فوزیہ ایک بس میں سوار گاؤں واپس جا رہی تھی۔وہ کھڑکی والی سیٹ پر بیٹھ گئی اور باہر کی طرف دیکھنے لگی۔ اُسے اپنے بیٹے کی یاد بہت شدت سے آرہی تھی۔اس کے آنسو چہرے پر رواں تھے لیکن اُسے بالکل محسوس نہیں ہورہا تھا۔
غروبِ آفتاب کے وقت فوزیہ نے اپنے گھر کے دروازے پر دستک دی۔زرق برق جوڑے میں ملبوس روبی نے دروازہ کھولا۔ دونوں ایک دوسرے کو دیکھتی رہ گئیں۔فوزیہ بالکل توقع نہیں کررہی تھی کہ وہ عابدکے دروازے پر روبی کو دیکھے گی۔ روبی بھی اُسے دیکھ کر گڑبڑا کر رہ گئی لیکن پھر سنبھل کراور اکڑ کر بولی۔
”اوہ تو یہاں اب کیا لینے آئی ہے؟”
” تو ہٹ میرے راستے سے۔” فوزیہ نے اسے ایک طرف دھکا دیتے ہوئے کہا۔
”اب یہ راستہ تیرا نہیں میرا ہے فوزیہ بتول، تجھے واپس جانا ہوگا۔ بہت اکڑ تھی نا تیرے اندر؟عابد سے کاغذ بنوا کر میں نے تیری یہ اکڑ بھی نکلوا دی ہے۔کاغذلے جانا ساتھ اپنے۔”روبی نے چٹکی بجاتے ہوئے جواب دیا۔
” او ہٹ جا راستے سے مجھے اندر جانا ہے، اپنے بچے سے ملنا ہے۔” فوزیہ غصے سے اسے ایک اور دھکا دیا۔
” اب تیرا بچہ تیری نند کے پاس اور تیرا میاں میرے پاس ہے اور تجھے اس نے پکی پکی طلاق دے دی ہے۔”روبی نے انگلی اٹھا کر اس کا مضحکہ اڑایا۔
فوزیہ ہکا بکا سی اُسے دیکھتی رہی۔اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کہہ رہی ہے۔روبی کی اس وقت اس کے گھر موجودگی نے پھر بھی اسے بہت کچھ سمجھا دیا تھا،لیکن کیا عابد اتنا سنگ دل ہو سکتا ہے کہ اپنی اولاد بہن کو دے دیتا۔فوزیہ بتول اس وقت خود سے لڑ رہی تھی کہ ہاں جب تو ماں ہو کر اپنے بچے کو چھوڑ کر جا سکتی ہے تو عابد تو پھر باپ تھا۔ایک مرد جو نئے رشتوں کے لیے پرانے رشتوں کو پل بھر میں بے مول کر دیتا ہے۔
فوزیہ کو سمجھ نہیں آیا کہ وہ روبی کی بات کا کیا جواب دے۔ روبی دروازہ بند کرکے پلٹ گئی۔ فوزیہ جان گئی کہ عورت اگرایک بار اپنی جگہ کسی اور عورت کے لیے چھوڑ دے تو مرد دووسری عورت لانے میں بالکل وقت نہیں لگاتا اور عابد نے بھی یہی کیا۔ عابد ہی اس کا نہ تھا تو وہ روبی سے کیا گلہ کرتی،وہ بہت تکلیف سے پلٹ گئی۔ چہرے پر آنسو تھے۔ اس نے اپنے دوپٹے سے چہرہ ڈھانپا اور تیز تیز قدموں سے واپس بس کے اڈے کی طرف دوڑ پڑی۔ گلی مڑتے وقت اس کا ٹکراؤ اپنے محلے کی ایک عورت سے ہوا۔ اس کا دوپٹا کُھل گیا اور چہرہ واضح ہوگیا۔ عورت نے اسے غور سے دیکھتے ہوئے پہچان لیا۔ ”اری فوزیہ تو……” فوزیہ نے اس کو دیکھ کر دوڑ لگا دی اور پیچھے مُڑ مُڑ کر دیکھتی گئی۔ محلے کی عورت اس کے پیچھے پیچھے تیز تیز چل رہی تھی۔ ”رک فوزیہ اس وقت تو یہاں کیا کررہی ہے ؟کب واپس آئی؟” فوزیہ نے اس کی بات کا کوئی جواب نہ دیااور قدم تیز کردیے اور اچانک موڑ مڑتے وقت اسے اپنا گیارہ سالہ بھائی مُنا نظر آیا جس کے ہاتھ میں گھر کاسودا سلف تھا،وہ اپنی دھن میں جارہا تھا۔ فوزیہ اسے دیکھ کررُک گئی اور آواز دینے کی کوشش کی پھر خود ہی منہ پر ہاتھ رکھ لیا اور آنکھوں سے آنسو نکل آئے۔کس طرح ان راستوں پرپلٹتی جن پر اس نے خود پتھر رکھے تھے۔
رات ڈھل چکی اورپُوپھٹ رہی تھی۔ وہ واپس شہر جانے والی بس میں بیٹھی کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی۔ وہ دوبارہ شہر کی طرف جاتے ہوئے رو رہی تھی، ذہن میں روبی کی طنز بھری باتیں آنے لگیں۔” تیرا بیٹا تیرے شوہر نے نند کو دے دیا ہے۔” فوزیہ دکھی تھی لیکن واپسی پر ایک عزم بھی اس کے ساتھ تھا۔”میں کیوں اپنی اولاد کسی کے حوالے کر آئی۔ میری اپنی غلطی ہے، لیکن میں اتنی جلد ہار ماننے والی نہیں۔ یاد رکھنا عابد واپس آؤں گی اور چھینوں گی اپنا بیٹا۔”
٭…٭…٭





اگلی صبح روبی اپنی ساس کے کمرے میں چائے لے کر گئی اور کپ آگے رکھتے ہوئے بولی۔ ”لو اماں چائے پی لو۔” ساس نے پوچھا۔ ”عابد اُٹھ گیا؟”
” نہیں ابھی سو رہا ہے، رات دیر سے آیا تھا، کھانا بھی نہیں کھایا ایسے ہی سو گیا۔” پھر ساس کے پاس بیٹھتے ہوئے بہت رازداری سے بولی۔” اماں رات کو وہ آئی تھی۔”
ساس نے چائے کا کپ واپس رکھتے ہوئے حیرانی سے پوچھا۔”وہ کون؟”
”وہی فوزیہ بتول۔” روبی نے نخوت سے جواب دیا۔
” کیا؟کب؟ اور مجھے کیوں نہیں بتایا تو نے۔”ساس نے حیرانی سے تھوڑا اونچی آواز میں کہا۔
روبی منہ بناتے ہوئے بولی۔” اماں تو نے کیا کرلینا تھا؟”
”کیوں؟ میں چٹیا کاٹ کر ہاتھ میں دے دیتی۔ اب کیوں آئی ہے کمینی؟”ساس غصے سے کھڑی ہو گئی۔
روبی نے اُسے کندھے سے تھام کر دوبارہ بٹھادیا۔” او !تحمل رکھ اماں! میں نے بھی کم نہیں کیا اس کے ساتھ۔ بتا دیا کہ بھول جا اس گھر میں اب تیری کوئی جگہ ہے۔”
”اپنے بچے کا تو نہیں پوچھا اس نے؟” ساس نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔
”میں نے بتا دیا تھا اسے کہ تیرا بیٹا راجدہ لے گئی،اس کے پاس ہے۔” روبی نے بے پروائی سے جواب دیا۔
” کچھ بولی نہیں؟” ساس نے تجسس سے پوچھا۔
”وہ تو مجھے دیکھ کر ہی ہکا بکا رہ گئی۔اُس کو یقین ہی نہیں آیاکہ میں اس وقت اس گھر میں کس حیثیت سے ہو سکتی ہوں۔” روبی خو ش ہوتے ہوئے بولی۔
” ہاں ٹھیک ہے اس کو بھی تو پتا لگے کہ گھر چھوڑ کر جانے سے بڑے بڑے تخت اُلٹ جاتے ہیں۔بس عورت کا بھرم باقی نہیں رہتا۔” ساس نے منہ بناتے ہوئے جواب دیا اور پھر پوچھا۔ ”تو نے عابد کو بتایا؟”
”نہیں اماں اُٹھ جائے پھر بتاتی ہوں۔روبی نے خالی کپ اُٹھاتے ہوئے کہا۔”اماں مجھے اسی بات کا خدشہ تھا کہ وہ پلٹ آئے گی، مگر مجھے دیکھ کر اس کی ہمت نہیں پڑی اندر آنے کی،میں نے بتا دیا تھا کہ کاغذ بھی بنوا دیا ہے میں نے اس کا۔”
”لیکن اب واپس کیوں آئی؟”ساس نے کچھ سوچتے ہوئے پوچھا۔
”جوتے پڑے ہوں گے شہر میں اسی لیے پلٹ آئی ۔”روبی نے ہنس کر طنزیہ انداز میں جواب دیا۔
”خیر تو فکر نہ کر اب اس کی کوئی جگہ نہیں اس گھر میں۔”ساس نے اسے اطمینان دلایا۔
”لیکن اماں ڈر تو رہتا ہے۔”روبی کے لہجے میں پریشانی تھی۔
”او جھلّی فکر نہ کر ایسی عورتوں سے کیا ڈرنا۔عابد کے دل میں اس کی کوئی جگہ نہیں اور پھر اس کے کاغذ بھی تیار ہیں ۔ عابد سے کہتی ہوں کہ بھجوادے کس بات کا انتظار کررہاہے۔” ساس نے اُسے تسلی دی۔
”ہاں اماں اب تو ہی اسے سمجھا کہ وہ اس کی ماں کے گھر ہی طلاق کے کاغذ بھیج دے۔”روبی نے خوشامدانہ انداز میں کہا۔
”تو فکر نہ کر میں سمجھاؤں گی اسے جا اور عابد کو اٹھا اس نے دکان کھولنی ہے۔” ساس نے کہا اور کمرے کی طرف چلی گئی۔
”اچھا اماں اٹھاتی ہوں۔” روبی نے جواب دیا اور کچن کی طرف بڑھ گئی۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

باغی — قسط نمبر ۳ — شاذیہ خان

Read Next

تو کیا ہوا —– فرحین اظفر

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!