امربیل — قسط نمبر ۴

شہلا نے بڑی ملائمت سے پوچھا تھا۔
”پتا نہیں۔”
”گھر میں تو سب کچھ ٹھیک ہے ؟”
”ہاں!”
”پیرنٹس یاد آرہے ہیں؟”
”نہیں!”
”نانو نے کچھ کہہ دیا ہے؟”
”نہیں!”
شہلا جھنجھلا گئی۔” تو پھر کیا مسئلہ ہے پھر اداس کیوں ہو؟”
علیزہ خاموش رہی تھی۔
”عمر سے تو کوئی جھگڑا نہیں ہو گیا ؟”
شہلا کو اچانک خیال آیا تھا۔
علیزہ نے گردن موڑ کر اس کی طرف دیکھا تھا۔ شہلا کو اس کی آنکھوں میں امنڈتے ہوئے آنسو نظر آگئے تھے۔
”عمر نے کچھ کہا ہے؟”





اس نے سر جھکا لیا تھا شہلا نے ایک گہری سانس لی۔
”ہر بار تم دونوں کے درمیان کسی نہ کسی بات پر کچھ نہ کچھ ضرور ہو جاتا ہے۔ اب کیا ہوا؟”
”وہ بالکل بدل گیا ہے شہلا! پہلے جیسا نہیں رہا۔”
اس نے دائیں ہاتھ کی پشت سے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا۔
”وقت ہر چیز کو بدل دیتا ہے ، کوئی بھی چیز ہو یا انسان وہ ایک جیسا نہیں رہ سکتا۔ اس لئے مجھے یہ سن کر حیرت نہیں ہوئی عمر بدل گیا ہے۔”
علیزہ بے بسی سے اپنا نچلا ہونٹ کاٹنے لگی تھی۔
”دو ، چار سال بعد تم اس سے ملو گی تو وہ اور زیادہ بدلا ہوا لگے گا۔It’s but natural۔”شہلا بے حد پر سکون تھی۔
”شہلا! وہ مجھے کبھی بھی اس طرح ٹریٹ نہیں کرتا تھا۔ جس طرح اب ان دو ، چار دنوں میں مجھے یوں لگاجیسے وہ مجھے اپنی کزن نہیں سمجھتا، اس کے لئے میں ویسے ہی ہوں جیسے ، مالی، ڈرائیور، خانساماں۔۔۔۔۔”
”پریکٹیکل بنو علیزہ ! دوسروں سے بہت زیادہ توقعات نہیں رکھنی چاہئیں؟”
شہلا نے بہت ہی گہری نظروں سے اسے دیکھا تھا۔
”شہلا وہ میرا دوست تھا کیا دوستوں سے بھی توقعات نہیں رکھنی چاہئیں۔”
”تم اسے صرف دوست نہیں سمجھتیں، صرف دوست سمجھتیں تو یہاں بیٹھ کر یہ سب کچھ نہ بتا رہی ہوتیں۔”
علیزہ نے سر جھکا لیاتھا۔
”بہر حال اب کیا ہوا ہے؟”
علیزہ نے کچھ ہچکچاتے ہوئے اسے سب کچھ بتا دیاتھا۔ شہلا بھی اتنی ہی شاکڈ ہوکر ساری بات سنتی رہی۔
”مجھے تو یقین نہیں آتا شہلا! عمر یہ سب کچھ کر سکتا ہے وہ کبھی بھی ایسا نہیں تھا، پھر اب کیوں؟ اب جب وہ سیٹل ہو چکا ہے، تو اتنے بڑے تغیرات کیوں؟”
”تم اس تغیر کی وجہ جاننے میں دلچسپی مت لو۔”
”کیوں؟”
”علیزہ ! تم اس کے لئے کچھ نہیں کر سکتیں وہ اب جس مدار میں داخل ہو چکا ہے، وہاں کوئی علیزہ نہیں ہے نہ ہی اسے ضرورت ہے۔”
”میں اس کی دوست ہوں۔”
”پتہ نہیں کہ اسے دوستوں کی ضرورت بھی ہے یا نہیں۔”
”دوستوں کی ضرورت ہمیشہ ہوتی ہے۔”
”لیکن ہر ایک کو نہیں۔ عمر کے ساتھ جو بھی ہو رہا ہے وہ عارضی ہے وہ اس فیز سے نکل آئے گا۔ وہ میچور ہے سمجھدار ہے، بہت جلدی اپنی پرابلمز کو حل کر لے گا۔ تمہارے کزن میں یہ ایک خاص خوبی ہے اور ایسے بندوں کو کسی علیزہ کی ضرورت نہیں ہوتی جو ان سے ہمدردی کرے یا ان پر ترس کھائے، اس لئے تم اس کے بارے میں پریشان ہونا چھوڑ دو۔” شہلا بہت نرمی سے اسے سمجھاتی رہی۔ وہ اسے کچھ کہنا چاہتی تھی مگر خاموش رہی۔ وہ شہلا کے ساتھ سب کچھ شیئر کرنا نہیں چاہتی تھی۔ بہت دیر تک وہاں بیٹھے رہنے کے بعد شہلا نے کہا تھا۔
”اب چلیں، بہت دیر ہو گئی ہے۔”
علیزہ کچھ کہے بغیر ہی اٹھ کھڑی ہو ئی تھی۔
اس دن گھر آنے پر نانو نے اسے بتایا تھا کہ عمر اسلام آباد چلا گیا ہے۔ اب وہ کچھ دن بعد آئے گا۔ علیزہ نے کسی بھی رد عمل کا اظہار نہیں کیاتھا۔ لنچ کرنے کے بعد وہ ڈائننگ ٹیبل سے اٹھ رہی تھی جب نانو نے اس سے کہاتھا۔




Loading

Read Previous

امربیل — قسط نمبر ۳

Read Next

برسات

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!