امربیل — قسط نمبر ۴

اس نے انہیں یاد دلایا تھا۔
”ہاں ،میں نے کہا تھا لیکن اب تو بہت دیر ہو گئی ہے۔ مجھے خود ہی جاکر دیکھنا چاہئے۔”
نانو نے بڑ بڑا تے ہوئے کہا۔ علیزہ خاموشی سے انہیں لاؤنج سے جاتے ہوئے دیکھتی رہی۔
نانو کی واپسی بہت جلدی نہیں ہوئی تھی۔ وہ تقریباً دس منٹ کے بعد واپس آئی تھیں۔
”آپ نے اسے اٹھا دیا۔”
علیزہ نے ان کے چہرے پر موجود اطمینان دیکھ کر کہا تھا۔
”ہاں بہت دیر دروازہ بجانا پڑا لیکن وہ اٹھ گیا۔ کہہ رہا ہے ابھی آتا ہوں۔”
انہوں نے ایک بار پھر کچن میں جاتے ہوئے کہا تھا۔
علیزہ نے اندازہ لگا نے کی کوشش کی تھی کہ کیا نانو عمر کے کمرے کے اندر گئی تھیں یا عمر نے دروازہ کھولے بغیر انہیں اندر سے ہی جواب دے دیا تھا۔
”نانو ! آ پ عمرکے کمرے میں گئی تھیں۔”
علیزہ نے وہیں بیٹھے بیٹھے ہی بلند آواز میں پوچھاتھا۔
”نہیں ! اندر نہیں گئی ، کیوں پوچھ رہی ہو۔”
نانو نے کچن سے باہر آئے بغیر جواب دیا تھا۔
”بس ایسے ہی۔”
اس نے ایک بار پھربلند آواز میں کہا تھا۔
اس کا مطلب ہے نانو نے وہ بوتلیں نہیں دیکھی ہیں۔ یہ اچھا ہی ہوا ورنہ نانو کو تکلیف پہنچتی۔ انہوں نے تو کبھی یہ نہیں سوچا ہو گا کہ عمرڈرنک کرے گا اور پھر یوں ان کے گھر، پر ان کے سامنے۔ علیزہ نے کچھ مطمئن ہو کر سوچا تھا۔ عمر نے بھی اسی لئے دروازہ کھولے بغیر نانو کو جواب دیا ہو گا تاکہ نانو اندر آکر بوتلیں نہ دیکھ سکیں۔ مگرآخر عمر یہ سب کچھ کیوں کر رہا ہے۔ وہ تو ایسا نہیں تھا۔ وہ تو کبھی بھی ایسا نہیں تھا؟ اس کا ذہن ایک بار پھر الجھ گیا تھا۔
٭٭٭




اسے کہیں بہت دور سے شور کی آواز سنائی دے رہی تھی۔ لاشعو ر میں اٹھنے والا شور آہستہ آہستہ جیسے بلند ہوتا جارہا تھا۔ یوں جیسے دروازے پر کوئی دستک دے رہا ہو۔ شعو ر نے آہستہ آہستہ اس شور کو پہچان لیا تھا۔ عمر نے اوندھے پڑے ہوئے آنکھیں کھولنی شروع کر دیں۔ چند لمحے تو وہ آنکھیں کھولنے میں بالکل ہی ناکام رہا۔ مگر پھر کچھ جدو جہد کے بعد اس نے آنکھیں کھول دی تھیں۔کمرے میں روشنی تھی۔ کچھ دیر تک تو وہ اپنے ارد گرد کے ماحول کو پہچاننے کی کوشش کرتا رہا، اور پھر اس کا دھیان دروازے پر ہونے والی دستک پر چلا گیا۔ کوئی بڑی مستقل مزاجی سے دروازہ بجا رہا تھا اور ساتھ اس کا نام بھی پکار رہا تھا۔
عمر کا سر چکرا رہا تھا ، وہ لیٹے لیٹے ہی کروٹ لے کر سیدھا ہو گیااور آواز کو پہچاننے کی کوشش کرنے لگا۔ آواز کو شناخت کرنے میں اسے کچھ وقت لگاتھا۔ مگر وہ آواز کو پہچان گیا، وہ آواز نانو کی تھی اور وہ بار بار اسی کا نام پکار رہی تھیں۔
”گرینی ! میں جاگ گیا ہوں ابھی باہر آجاؤں گا۔”
اس نے بے اختیار بلند آواز میں ان کی آواز کے جواب میں کہا تھا۔
اس وقت اس کے دروازے پر ہونے والی دستک اس کے اعصاب کو جھنجھوڑ رہی تھی اور وہ اسے روک دینا چاہتا تھا دستک یک دم رک گئی تھی۔
”ٹھیک ہے، عمر جلدی باہر آجاؤ بہت دیر ہو گئی ہے۔ میں کھانا لگوا رہی ہوں!”
اس نے گرینی کو کہتے ہوئے سنا۔
وہ کچھ کہے بغیر ہی چپ چاپ بستر میں پڑا رہا ، انگلیوں کے پوروں سے اس نے اپنی کنپٹیوں کو دبانے کی کوشش کی تھی۔ مگر وہ سر میں ہونے والی اس تکلیف سے نجات حاصل نہیں کر سکا تھا۔ اس کے لئے یہ ساری کیفیا ت نئی نہیں تھیں۔ وہ جانتا تھا کہ وہ زبردست قسم کے hang over کا شکار ہو رہا ہے۔
کچھ دیر وہ اسی طرح لیٹا اپنے اعصاب کو پر سکون کرنے کی کوشش کرتا رہا پھر جدوجہد کرتے ہوئے بیڈ پر بیٹھ گیا۔ اس نے سر کو دو تین بار جھٹک کر کمرے میں لگے ہوئے وال کلاک پر نظر دوڑانے کی کوشش کی تھی مگر وہ وقت دیکھنے میں کامیاب نہ ہو سکا۔
سامنے تپائی پر پڑی ہوئی بوتلوں نے ایک بار پھر رات کے تمام مناظر کو اس کے سامنے کھڑا کر دیا تھا۔ اس کے ہونٹوں پر ایک تلخ مسکراہٹ ابھری تھی۔
”اوراس کمرے کے باہر ایک بار پھر وہی شیطان ہوگا۔ کاش میں کہیں غائب ہو سکتا ؟”
اس نے کمبل کو ایک جھٹکے سے دور پھینکتے ہوئے سوچا تھا۔ بیڈ سے کھڑا ہونے کی کوشش میں وہ لڑ کھڑا گیا۔ اسے متلی ہو رہی تھی۔
چند لمحوں کے لئے وہ ایک بار پھر بیڈ پر بیٹھ گیا۔ پھر ہمت کر کے دونوں ہاتھوں کی انگلیوں سے کنپٹیوں کو دباتے ہوئے وہ اٹھ کھڑا ہوا تھا۔ لڑکھڑاتے ہوئے قدموں سے وہ ڈریسنگ روم کی طرف چل دیا۔
ڈریسنگ روم میں داخل ہونے کے بعد اس نے وارڈروب میں پڑا ہوا بریف کیس نکال لیاتھاوہ اب جلد از جلد اس hang over سے نجات حاصل کرنے کے لئے بریف کیس میں پڑی ہوئی گولیاں لینا چاہتا تھا۔
مگر بریف کیس کھولنے کے بعد بھی وہ بریف کیس میں سے اپنی مطلوبہ گولیاں تلاش نہیں کر پایا تھا۔
”اف!”
اس نے بریف کیس کو دور پھینک دیاتھا۔ کچھ دیر گھومتے ہوئے سر کو دونوں ہاتھوں سے پکڑے ڈریسنگ ٹیبل کے اسٹول پر بیٹھا رہاتھا۔ پھر وہ اٹھ کر لڑ کھڑاتے قدموں سے واش روم کی طرف بڑھ گیا۔
نل کو پوری رفتا ر سے کھولتے ہوئے وہ واش بیسن کے سامنے جھک کر دائیں ہاتھ کی انگلیاں اپنے حلق میں ڈالنے لگا یہ کوشش کامیاب رہی۔ اسے اپنا معدہ خالی ہوتا ہوا محسوس ہواتھا۔ مگر اس کے چکراتے ہوئے سر کو زیادہ افاقہ نہیں ہواتھا۔




Loading

Read Previous

امربیل — قسط نمبر ۳

Read Next

برسات

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!