امربیل — قسط نمبر ۴

علیزہ نے اس کے چہرے پر تھکن کے آثا ر دیکھے تھے۔ اس کی آنکھوں میں سرخی تھی۔ شاید وہ رات کو دیر سے سویا تھا۔ علیزہ کو بے اختیار اس پر ترس آگیا۔ اس کا دل چاہا کہ وہ انکل جہانگیر کو یہاں سے واپس بھیج دے۔
”اگر وہ بات نہیں کرنا چاہتا تو نانو اور انکل اسے کیوں مجبور کر رہے ہیں؟”
اس نے خود ہی جانب داری سے سوچاتھا۔
”میں چائے یہاں لے آؤں ؟”
علیزہ نے ہمدردی سے اس سے پوچھاتھا۔




”نہیں ! ضرورت نہیں ہے !”
اس نے بڑی رکھائی سے انکار کر دیا تھا۔ وہ اسی خاموشی سے کمرے سے باہر نکل آئی۔
”وہ چائے پینا ہی نہیں چاہتا!”
اس نے لاؤنج میں آکر کہاتھا۔
”وہ میرا سامنا کرنا نہیں چاہتا، آپ دیکھ رہی ہیں کہ وہ میرے ساتھ کیا کر رہا ہے۔”
اس نے انکل جہانگیر کا چہرہ سرخ ہوتے ہوئے دیکھا تھا۔
”علیزہ ! تم اس سے جاکر کہو کہ میں بلا رہی ہوں۔”
نانو نے انکل جہانگیر کو جواب دینے کے بجائے اس سے کہاتھا۔ وہ ایک بار پھر واپس پلٹ گئی تھی۔ اسے اپنے پیچھے انکل جہانگیر کی آواز سنائی دی تھی وہ ایک بار پھر نانو سے کچھ کہہ رہے تھے۔
عمر اس بار اس کے پیغام پر بھڑک اٹھاتھا۔
”میں ایک بار بتا چکا ہوں کہ مجھے چائے کی ضرورت نہیں ہے اور نہ ہی مجھے باہر آنا ہے۔ تم جاکر گرینی سے کہہ دو اور پلیز اب دوبارہ یہاں کوئی پیغام لے کر مت آنا۔ بار بار مجھے ڈسٹرب مت کرو۔”
اس نے خاصی تلخی سے علیزہ سے کہا تھا۔ اسے یاد نہیں پڑتا تھا کہ عمر نے کبھی اس طرح اسے جھڑکا ہو۔ وہ ایک بار پھر پلٹی تھی اور تب ہی ایک جھٹکے سے دروازہ کھول کر انکل جہانگیر اندر آگئے تھے۔
”آپ کو میرے کمرے میں اس طرح داخل ہونے کا کوئی حق نہیں ہے۔”
اس نے عمر کو تیز آواز میں کہتے ہوئے سناتھا ، علیزہ کی سمجھ میں نہیں ایا کہ وہ کیا کرے ۔ وہاں ٹھہرے یا چلی جائے۔
”یہ کمرہ میرے باپ کا ہے!”
انکل جہانگیر نے جواباً کہاتھا۔
”لیکن آپ کا نہیں ہے۔ آپ یہاں سے چلے جائیں۔”
عمر نے ترشی سے ان سے کہا تھا۔
”میں نے اپنی زندگی میں تم جیسا خود غرض، خود پسند اور غیر ذمہ دار شخص نہیں دیکھا۔”
انکل نے اس کی طرف انگلی سے اشارہ کیا تھا۔
”ہاں ! میں خود غرض ، خود پسند اور غیر ذمہ دار ہوں……کیونکہ آپ کا ہی بیٹا ہوں۔”
عمر نے انہیں اسی لہجے میں جواب دیا تھا۔ علیزہ کو انکل جہانگیر کے پیچھے دروازے میں نانو نظر آئی تھیں۔
”میں تم سے آخری بار صاف صاف بات کرنا چاہتا ہوں۔”
”مجھے جتنی بات کرنی تھی، کر چکا ہوں اب اور کوئی بات کرنا نہیں چاہتا۔ آپ کو پہلے بھی میں انکار کر چکا ہوں اب بھی انکار ہی کرتا ہوں اور میرا جواب آئندہ بھی یہی ہو گا۔ اب آپ میرا پیچھا چھوڑ دیں اور یہاں سے چلے جائیں۔”
”’عمر تمہیں کیا ہو گیا۔ اس طرح بی ہیو کیوں کررہے ہو؟”
اس بار نانو آگے آئی تھیں۔
”میں بالکل ٹھیک بی ہیو کر رہا ہوں ، آپ نہیں جانتیں کہ یہ میرے ساتھ کیا کرنا چاہ رہے ہیں۔”
”میں جانتی ہوں اور میرا خیال ہے کہ جہانگیر جو کہہ رہا ہے، اس میں کوئی حرج نہیں ۔”
نانو اس با ر دھیمے لہجہ میں بولی تھیں۔
عمر حیران نظر آیا۔
”آپ جانتی ہیں اور پھر بھی آپ کو اس بات میں کوئی حرج نظر نہیں آرہا۔”
”عمر ! تمہیں شادی تو کرنا ہی ہے تو پھر جہانگیر کی مرضی سے کرنے میں کیا حرج ہے۔”
علیزہ نے ایک شاک کے عالم میں نانو کی طرف دیکھا تھا مگر وہ اس کی طرف متوجہ نہیں تھیں۔
”آپ کے بیٹے نے ساری زندگی دوسرے لوگوں کو اپنے فائدہ کے لئے استعمال کیا ہے اور گرینی! میں ان لوگوں کی لسٹ میں شامل نہیں ہونا چاہتا۔”
”وہ تمہیں کیوں استعمال کرے گا تم تو اس کے بیٹے ہو۔ ہر باپ اپنی اولاد کی شادی کے بارے میں سوچتا ہے۔ ہر باپ اپنی اولاد کی خوشی چاہتا ہے۔”
”ہر باپ نہیں گرینی ! ہر باپ نہیں۔ کچھ باپ آپ کے بیٹے جیسے بھی ہوتے ہیں جو صرف اپنے بارے ہی میں سوچتے ہیں۔ صرف اپنی خوشی کا ہی خیال رکھتے ہیں۔یہ جس سیاستدان کی بیٹی سے میری شادی کرنا چاہتے ہیں، میں اس سے شادی کرنا نہیں چاہتا۔ اگر بات خوشی کی ہی ہے تو میں وہاں شادی کرکے خوش نہیں رہ سکتا۔ یہ میری خوشی کی خاطر مجھے مجبور نہ کریں مگر گرینی! بات خوشی کی نہیں ہے۔ بات قیمت کی ہے۔ انہیں میری بہت اچھی قیمت مل رہی ہے اور یہ مجھے بیچ دینا چاہتے ہیں۔”




Loading

Read Previous

امربیل — قسط نمبر ۳

Read Next

برسات

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!